جان ویزلی صاحب کا حال
باب ہشتم
۱۷۴۵م میں چارلس ویزلی صاحب لندن اوربریسٹل اور ویلز میں دورہ کرتا رہامگر اس کا بیان نہیں لکھا گیا اور دوسرے سال کے شروع میں وہ شہر پلتہ کو یہاں واہٹ فیل صاحب نے ایک کلیسیا شروع کی تھی گیاضلع کانوال کئی جگہ بہت فائدے کے ساتھ منادی کی اور بہت ستایا گیا پر اس کے سفرکی بابت بہت شکر کے ساتھ سوچ کیا تب اس نے وہ مشہو ر گیت بنا یا جس کا شروع ہے الحمد اللہ وغیرہ اور کبھی بھی مجسٹریٹ صاحبوں سےاور خادم اور اورں سفے تقویت پا کر ان کوبہت ستایا اس پریذڈنٹ صاحب کی جگہ چارلس ویزلی صاحب کے ساتھ جا کر ستایا گیا مگر بہت دلیری اور محنت سے چارلس ویزولی صاحب نے اس تمام منادی کی اور اسفی سبب سے بدسلوکی اٹھائی کہ کئی دفعہ بڑی مشکل سے اس ک جان بچ گئی اورجان ویزلی کاکام جو اس نے ان دو برسوں میں کیا تھا اس روزنامہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۷۴۵م وہ لندن اور بریسٹل شہروں میں اور ان کے آس پاس گاؤں کام کرتا رہا اور ماہ فروری میں اس نے ایک بڑا سفر نیو کیسل تک کیا جس میں اس نے بہتری جگہ منادی کی اور ملک کے جاڑے موسم کے خطرے سہے اور اس نے لکھا ہے کہ میں نے پیشتر بہتری مرتبہ سفر کیا ہے مگر اس کی برابر کبھی نہیں کیا تھا اؤکیونکہ آندھی اور اولہ اورمنیہ اور برف وغیرہ مجھ پر زور سے پڑے خدا کرے کہ وہ دن پھر نہ لوٹے اور اسی سبب سے پھر کبھی نہ ہوا شہر نیو کیسل میں ایک نے اپنے تئیں میری بدسلوکی کرنے کا مشہور کیا تھا میں نے دریافت کرکے معلوم کیا کہ اس نے اورں کو بھی شروع سے ستایا تو میں نے اس کو یہ چٹھی لکھ بھیجی رابرٹ ینگ میں تم کو جمعہ کے دن سے پیشتر دیکھنے کا منتظر ہو ں اور امید رکھتا ہوں کہ تم اپنے تئیں گناہگار جانتے ہو ورنہ میں تم کو کل کی بد سلوکی کے سبب بہت مہربانی کرکے مجسٹریٹ صاحب کے پاس بھیج دوں گا میں تمہا را سچا دوست ہوں جان ویزلی اور چٹھی بھیجنے کے دوتین گھنٹے بعد رابرٹ ینگ جان ویزلی صاحب کےپاس آیا اور اپنے قصور کا مقرر ہو کر وعدہ کیا کہ پھر ایسا نہ کروں گا تب ویزلی صاحب کے لزام محبت نے بہت تاثیر کی کہ جس کے ذریعے سے اییک گروہ کا گناہ چھپایا گیا اور جب کہ وہ نیو کیسل میں رہا اس نے اپنا فیصلہ جوکہ میتھوڈسٹ لوگوں لوگوں اور حکومت کی کلیسیا کے بیچ میں جل رہا یوعں لکھ کر کلیسیا کو بھیج دیا مقام نیو کیسل میں۔
ماہ مارچ ۱۷۴۵م میں پہلے (۱) سات برس ہوئے کہ جب سے ہم لوگ منادی کرنے لگے کہ آدمی محض ایمان لانے سے نجات پا سکتا ہے دوسرے (۲) اس تعلیم کی منادی کرنے سے ہمارے برخلاف گرجا گھر بند کیے گئے تیسرے (۳) جب ہم نے خاص گھروں میں موافق فرصت کے منادی کی اور جب بہت سے آدمی آنے لگے تو یہاں تک کہ ان کےواسطے گھروں میں جگہ نہ رہی تو ہم نے باہر منادی کی چوتھے (۴) اس کام کئےمذکور سبب سے خادم الدین نے ہمارئے خلاف رسالوں اوراخباروں میں چھپاوا اور ہمیں فتوری اور خارجی کہا پانچویں (۵) وہ جو اپنے تئیں گناہگار جانتے تھے ہم سے عرض کیا کرتےتھے۔ کہ ہم کوصلاح اور نصیحت دوتاکہ ہم آنے والے غضب سے بھاگنے کی راہ پہچانیں اور ہم نے ان سے کہا کہ اگر تم سب کسی ایک مقررہ وقت پر آؤ تو ہم تم کو صلاح اور نصیحت دیں گے۔ چھٹے (۶) اس کام کے سبب خادم الدین نے گرجا گھروں میں کہا اور اخباروں میں چھپوایا کہ ویزلی صاحب اوران کے ہم راہی نے روم کیتھولک کی تعلیم سکھلاتے ہیں اور کلیسیا اور حکومت کے برخلاف صلاح بابدھتے ہیں۔ ساتویں (۷) ہم کو معلوم ہوا کہ کئی جو ہمارے پاس آیا کرتے ہیں سیدھی چال نہیں چلتے تب پم نے فوراً ان کو اپنے پاس آنے سے منع کیا۔ آتھویں ہم نے ان کو جواورں سے سنجیدہ اور سیدے تھے نگہبان رکھا تاکہ وہ دیکھیں کہ وہی انجیل مطابق چلتے ہیں یا نہیں ۔ (۹) کئی بشپ صاحبوں نے گفتگو کی کہ اور گرجےمیں ہمارے برخلاف باتیں کیں۔(۱۰) یہ حال دیکھ کر اور خادم الدین تقویت پا کر ہمارے برخلاف بددمعاشوں کو ابھارنے لگے کہ ہم کو بدمعاش اور پاگل کہیں۔ گیارہویں (۱۱) لوگوں نے اسٹافروڈ اور کانوال اور جگہ میں اور اور جگہ میں اسی طرح سے بدسلوکی۔ بارہویں (۱۲) وہ اب تک ویسے ہی کیا کرتے ہیں اگر مجسٹریٹ ان کو زور دیتے تو یہ فیصلہ ہمارےاور خادم الدینوں کے بیچ میں ہے۔ اب ہم کیا کریں اور آپہ لوگ جو ہمارے بھائی ہو کیا کرو گے کہ یہ جھگڑا درست ہو اگر ایسا میل ہمارے بیچ میں ہو تو بہت درست ہے کہ تاکہ ہم سب ایک فوج کے موافق شیطان کا مقابلہ کریں ہم کو فرمائیں اور کہ جو کچھ ہم صاف دل سے کرسکتے ہیں ضرور کریں کیا آپ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ادپنی تعلیم کو چھوڑ دیں یاکہ ہم کسی اور کی تعلیم کی منادی کریں ہم سوچتے ہیں کہ تم یہ نہیں چاہتے ہو کیونکہ ہم صاف دل سے یہ نہیں کرسکتے دوسرے (۲) کیا تم چاہتے ہو کہ ہم بیچ گرہوں یا باہرمنادی کرنا چھوڑ دیں اگر ہم یہ کریں تو ہم منادی نہیں کرسکتے۔ اورتیسرے (۳) کیا تم چاہتے ہو کہ ہم ان کو ہمارے پاس آتے ہیں نصیحت اورصلاح نہ دیں یعنی ان کو اپنے پاس آنے سے منع کریں ہم صاف دل ہو کر اس کو نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے نزدیک بہترے ہلاک ہو جائیں گے جن کا خون کا بدلاہم سے لیا جائے گا۔چوتھے (۴) کیا تم چاہتے ہو کہ ہم ان کو یک بیک صلاح دیں کہ ان کے شمار کے سبب سے ناممکن ہے۔پانچویں (۵) کیا تم چاہتے ہو کہ ہم ادن کو جو سیدھی چال نہیں چلتے اپنی سستی میں شریک رہنے ہیں ہم اس کو بھی صاف دل ہوکے نہیں کر سکتے کیونکہ بری صحبت اچھی عادتوں بگاڑتی ہے۔ (۶) کیا تم چاہتدے ہو کہ ہم کلاس لیڈر کو جنھیں ہم نے اورں کی نگہبانی کرنے کے لیےرکھا ہے موقوف کریں اور ہم کریں تو وہ جو بدکار ہیں اور ان کے ساتھ مل جائیں جن کا انجام برا ہوگا۔ (۷) کیا تم چاہتے ہو کہ بشپ اور خادم الدین کےسامنے تکریم سے اور خادم الدین کے سامنے ادب کے ساتھ چلیں یہ ہم خدا کے فضل سے کر سکتے ہیں اور ضرور کریں گے اوراگر تم ہم سے پوچھتے ہو کہ تم ہم سے کیا چاہتے ہو تو ہمارا جواب یہ ہے کہ اگر ہم تمہارے نزدیک بگڑی تعلیم سکھلاتے ہیں اورتمہارے دلوں کوئی شک و شبہ ہماری بابت ہے تو ہم نہیں چاہتے کہ تم کو اپنے گرجوں میں منادی کرنے کی اجازت دومگر جو کوئی یہ پوچھتا ہے کہ ہم لوگوں کو خدا کی تعلیم کرتے ہیں اور وہ ہماری بابت شک نہیں رکھتا تو ہم چاہتے ہیں کہ وہ کسی سے خوف نہ کھائے اور ہم کو اپنے گرجے میں منادی کرنے کی اجازت دے۔
دوسرے ہم نہیں چاہتے کہ کوئی جس کے نزدیک ہم لوگ کافر یا خارجی ہیں اور جو ہمارے برخلاف بولتا اورجھانکنا حق اور ٹھیک سمجھتا ہے تو بولنے یا جھانکنے سے پرہیز کرے لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہر کوئی منصفی کرنے سے پیشتر تو سنے خواہ پڑھے اورخدا سے روشنی مانگے اور تب منصفی کرے تو ہم خوش ہوں گئے۔ تیسرے (۳) اگر ہم رومن کیتھولک یا خارجی یا بدکار ثابت کیے جائیں تو ہم طرف داری یا تسلی نہیں چاہتے کہ تم ان باطل کو جو نادان ولوگ ہماری بابت کہتے ہیں سنو اور ان کو نہ سناؤبلکہ مقدور بھر ان کو روکو۔ چوتھے (۴) ہم ان سے جو کہ کلیسیا کے مختار ہیں غرض اور عزت اور ےترقی نہیں چاہتےمگر ہم یہ تین باتیں چاہتے ہیں بھلا کوئی ہماری نالش کرے تو تم ہم کو جواب دینے کی اجازت دو۔ (۲) دوسرے تم اپنے طرف داروں روکو تاکہ وہ ہمارے برخلاف اوباشوں کونہ ابھاریں کیونکہ وہ منصفی نہیں کر سکتے ہیں۔ (۳) تیسرے تم کوشش کرو کہ ہرہلڑا اور بلوہ موقوف ہو کیونکہ وہ ہمیشہ کلیسیا اور بادشاہت کا نقصان کرتے ہیں اب یہ کام مذکورہ صاف دل سے کرسکتے ہو اور جب کہ جب کہ تم کام نہیں کرتے تو یہ مخالف جو کہ ہمارے درمیان میں ہے تمہارے طرف ہو ان باتوں سے معلوم ہوا کہ ویزلی صاحب ان باتوں سے کچا کچا گھبراتا تھا ان کے ذریعے سے ایک اور گروہ ان کے طلبہ کے بیچ میں بن گیا کیونکہ وہ حکومت کی کلیسیا کا خادم الدین ہوناچاہتا تھا پر وہ اس کے ساتھ کام نہیں کرتے تھے۔اور وہ دیر تک نیو کیسل میں رہا اورشہر لنکن اور شہر یارک اور لنکا میں رہا۔اور چھ (۶) شہروں میں منادی کرنے کے لیے دورہ کیااور دکن کی طرف روزبری کو گیا یہاں پر پیشہ بہت بگڑا ہوا تھا اور بلاتکلف ان کے واسطے منادی کی اور پھر یار ننگ ہیم کو گیا اور وہاں کے لوگو ں نے اس پر پتھر اور میل پھنکےاور وہ لندن کو لوٹا اور گمی کے موسم میں وہ کانوال کو گیا یہاں ڈاکٹر بالس اس ملک کے سردار نے اپنے مجسٹریٹ کے اختیار کا فخر کرکے ترتنی سے میتھوڈسٹ لوگون ستایا تھا اور اس نے حکم دیا تھاکہ لنکس۔۔۔ ۔جو کہ کئی جگہوں میں منادی کرتا پکڑوایا جائے اور لڑائی کے جہاز پر بھیجا جائےمگر جہاز کے کپتان نے اس کو قبول نہ کیا پھر ڈاکٹر پالس صاحب کے حکم سے ایک دیندار اور نیک بخت کوئلے والا مع اپنی بی بی اور سات لڑکو ں کے فقط اس سبب سے قید ہوا کہ اس نے کہ تھا کہ میرے گناہ معاف ہوئے اور آخرش۔۔۔۔ سر گرم دشمن نے ویزلی صاحب کے بھی پکڑوانے کا حکم دیا پر اس کو ایسا کوئی نہ ملا کہ جو اس حکم کو بجا لاتا اور ویزلی صاحب کانوال یہاں کہ اس کی منادی بہت فائدہ مند تھی ۔۔۔۔کوگیا اور اس وقت کونٹ زمرن ڈاف نے جو بہت اچھا آدمی تھا ان میتھوڈسٹ آدمیں سے خوف کھا کر کہ وہ اپنا سردار اسے مانے گے تو اس کے جواب میں ویزلی صاحب نے فرمایا کہ بہت کچھ کریں گے لیکن ایساہرگز نہ ہو گا او۔پھر اتر کی طرف دورہ کرنے لگا اور ارتھ پت میں ڈاکٹر ددرج سے ملاقات کی اوراس وقت ویزلی صاحب اکثر رسالوں کے لکھنےاور چھپوانے میں مشغول تھا جن میں سے ہزاہا تقسیم ہو گئے اور جب کہ وہ اس سال لندن میں پھر اس کام میں مصروف ہوا پہلا شخص تھا جس نے اپنے ہم جنسوں کے لیے اس طرح کا کام کیا اور اس وقت کی سوسائٹی میں جو کہ ٹریکٹ سوسائٹی کہلاتی ہے نرمی سے ویزلی صاحب کے نمونے کے مطابق ہزاروں رسالے تقسیم کیےاور لاکھوں آدمی فائدہ مندہوئے اور ۱۷۴۶م پہلے دنوں میں ہم ویزلی صاحب کت روزنامہ میں یہ باتیں پاتے ہیں کہ اس نے لکھا ہے میں بریسٹبل کو گیا اور راستہ میں لارڈ لنگ صاحب کی تصنیف کو پہلے کلیسیا کے بیان میں پڑھا اور اگرچہ میری تعلیم اور طرح سے ہےتوبھی میں یقین کرتا ہوں کہ اس کتاب کا بیان تھیک اور سچ ہے لیکن اگر ایسا ہی ہے تو بشپ اوسیس ایک ہی عہدہ ہے۔اور ہرایک مسیح کی شراکت ایک ہی کلیسیا ہے۔اور ۱۷۴۵م کوسالانہ کانفرنس میں پوچھا گیا کہ تھا کہ اسقفی پابسٹرین یا انڈی پینڈٹ کس کے طور پران میں سے کسی کی حکومت کرتی عقل کے موافق ہے جواب کلیسیا کی حکومت یوں شروع ہوتی کہ مسیح کسی کو انجیل کی منادی کرنے بھیجےاور کئی اس کی سنیں اور توبہ کریں اور انجیل پر ایمان لائیں تب وہ جانیں گے کہ جس نے انجیل کی باتیں ان کوسنائیں ان کا نگہبان اور راہنما ہے تاکہ وہ ترقی پاتے ہوئے راستبازی کی راہوں میں چلیں تو ان کا حال یہ ہے کہ وہ ایک جماعت ہے سوائے پادری کے اور کسی کلیسیا کے اور آدمی کے اختیار میں نہیں ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد کئی اشخاص کہ جنھوں نےاور جگہ اس کی منادی سنی ہے تو اپنے اس منادی کرنے اور تسلی دینے کو بلایا اور اس نے قبول کیا اور جب تک کہ وہ اپنی پہلی جماعت کے خاص و عام سے نہیں پوچھے گا اور ان کے واسطے ایک لائق راہنمااورنگہبان مقرر نہیں کر چکے گا تب تک وہ ان کو نہیں چھوڑے گا اوراگربا اقتضا خدا اس جگہ میں چند جماعت مقرر ہوجائےتو خادم الدین ویسا ہی اس جگہ میں کلیسیا بناتا ہے اور راہنمامقرر کر تا ہے اور یہ راہنماڈیکن یا کلیسیا کے خادم ہوتے ہیں اور اپنے پہلے پادری کو اپنی کلیسیا ؤں کا باپ اور گڈریا جانتے ہیں اوریہ جماعت خود مختار نہیں ہوتی کیونکہ وہ ایک ہی گڈریا رکھتی ہے اور جب جماعت بہت بڑھ جائے اور ان ڈیکن کی مدد کرنے کے واسطے اور ڈیکن یا مدد گار کی ضرورت ہو تو وہ پہلے ڈیکن قصیص ہو جاتے ہیں اور پہلا خادم الدین سبھوں کا بشپ یا سردار یا گڈریا ہو جاتا ہے اور اس کتاب مرقوم سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ ویزلی صاحب نے اپنے منادی کرنے والوں کو جو اس نے شروع سے بھیجے تھے قدیم تواریخ اور پہلی کلیسیا کی رسموں کے موافق خادم الدین اور قصیص سمجھا اور اس نے اپنے تئیں کتاب مقدس کے موافق ایک بشپ سمجھااور لارڈ کنگ صاحب کی تصنیف پڑھنے سے اس رائے پرقائم ہو گیا اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ ویزلی صاحب کی پہلی کانفرنس میں ایک دن تک وہ ڈسپلین کی بابت صلاح لیتے رہے اور ویزلی کے طریقوں پر یعنی اس کی جماعت بنانےاور پریچر بلانے پر کہ جس سے ایک خاص گروہ بن جائےباتیں کرتے رہے اورپھر کلیسیا کی حکومت پر بہت باتیں کی اور کانفرنس میں جو کہ ۱۸۴۴م میں ویزلی صاحب کےبلانے کے موافق جمع ہورہے تھے وہ باتیں جو کہ کلیسیا کی حکمرانی کی بابت مرقوم ہو ئی تھیں ٹھہرائی گئی۔ یہاں پر صرف ایک سوال ہے ۔کیاکوئی جو کہ کلیسیا کی تعلیم پر نہیں رکھتا اور اس کا شریک ہے تو اس کلیسیا کا روحانی حاکم ہو سکتا ہے ؟جواب ہم سوچتے ہیں کہ اگرچہ بادشاہ کے حکم سے ظاہری حاکم کی باتوں میں ہو تو بھی وہ روحانی حاکم نہیں ہو سکتا۔ سوال :کیا انجیل میں جو کلیسیا لفظ درج ہے اس کے معنی ایک جماعت ہے؟جواب ہان!یاد نہین کہ لفظ انجیل میں کوئی اور معنی رکھتا ہے۔ سوال: تو انجیل سے حکومت کی کلیسیا ثبوت ہے یعنی کس طرح سے ثابت ہوا؟جواب :ہمارے نزدیک انجیل میں حکومت کی کلیسیا جاری کرنے کے واسطے کوئی نہیں بلکہ وہ حکومت کا ایک بندوبست ہے۔سوال :کیا ان تین عہدوں کا بیان انجیل میں مندرج ہے؟ جواب:رسولوں کے وقت مسیحی کلیسیا میں رواج تھا۔کیا تم قائل ہوئےکہ خدا نے ٹھہرایا کہ ہر زمانے میں تمام کلیسیا کے بیچ میں یہ تین عہدے ویسے ہی ہیں؟جواب : ہم ایسے قائل نہیں ہو سکتے کیونکہ ہم کتاب مقدس میں ایسا حکم نہیں پاتے ۔سوال :ایسا بندوبست حکومت کی کلیسیا کے واسطے ضرور ہے تو وہ کلیسیا جو اور ملکوں میں جاری ہے کہاں جائیں گی؟جواب :وہ ضرور مسیح کی کلیسیا کا کوئی حصہ ہے یہ بات محض بے وقوفی ہے۔سوال: کس زمانہ میں انگلینڈ کی کلیسیا نے بتلایا کہ اسقفی حکومت الہٰی ہے ؟ جواب: ملکہ الزبت کی حکومت کے بیچ میں پیشتر سب بشپ قصیص اورں کے ساتھ جو کہ بشپ ہاتھوں مخصوص نہیں کیے گئے تھےکلیسیا کے ساکرامنٹوں میں شریک تھے۔ سوال: کیا کلیسیاؤں میں متفرق بندوبست کا ہونا ضرور ہے؟جواب:ہاں ضرور ہے کیونکہ آدمیوں کی لیاقیتں اور فضلیتیں متفرق ہیں اور عہدہ اور عہدہ دار بھی تبدیل ہوجائیں۔ سوال : کیا سبب ہے کہ انجیل میں حکومت کا بندوبست مقرر نہ ہوا؟ خدا نے اپنی دانست میں خیال کیا کہ آدمیوں کا حال بدلتا رہے گا اور ہمیشہ متفرق ہوں گے۔ سوال کیا کلیسیا کی حکومت کالبیسٹن وقت کے پیشتر ہوا موافقت کا ذکر یا خواہش ہوئی؟ جوادب یقین ہےکہ ایسی بات کا ذکر نہ ہوا اور آدمی صرف خداکا کلام دیکھتا ہےتو اس وقت بھی اس کا ذکر ہوتا ہے اس سے صاف ثابت ہوا کہ کہ ویزلی صاحب نے شروع سے بہت سوچ کرکے اوبہت صلاح لےکے اپنےآگے کے کام کی بنیاد ڈالی اور اس نے معلوم کیا کہ اپنے لوگوں کے واسطے پادریوں کو مقرر کرنے اور ان کی حکومت کا بندوبست کرنا چاہیے۔اور اس نے دیکھا کہ اگر ان کے واسطے ان باتوں کا بندوبست نہ ہوا وہ اپنی روح کو بچانے میں بے مدد رہیں گے۔اس سبب سے اس نے باتوں بہت سوچا کہ اور جب کہ اس نے دیکھا کہ بائبل میں کسی طرح کی حکومت جاری نہیں کی گئی تب اس نے خوشی سے ان کے واسطے جو خدا نے اس کےوسیلہ سے ملایاحکومت کا زبردست مقرر کیا اور ان کے واسطے پادریوں کو بلایا اور ان کومخصوص کرکے بھیجا پر اپنے لوگوں کی ضرورت سے زیادہ کچھ نہیں کیا ۔ اور چارلس ویزلی صاحب بھی جو کہ ان سالانہ کانفرنس میں شریک تھا ۔۔۔۔ ویزلی صاحب کہتا تھا اوربہت برداشت اور مہربانی سے ان کو استعمال میں لایا تھا لیکن اگر وہ گناہ دیکھتا تو بہت سرگرمی اور چالاکی سے اس کو نکالتا۔ اور ماہ مارچ ۱۷۴۶م بارمنگ ہیم کو گیا اورکلیسیا کی بابت کہا کہ میں دیر تک اس کلیسیا کے بے پھل ہونے کے سبب شک میں رہا تھا مگراس وقت دریافت کرنے سے بہت جلد معلوم ہوا کہ اس کلیسیا میں اتنے بہت شریک تھے جو بے کار یا گناہگار تھے کہ خداکی برکت ان پر نہیں رہ سکتی تھی تو میں نے اس کام کو جلداس طرح سے ختم کردیا کہ سب جو قائم نہ تھے یکدم سے خارج کیا اور صرف وہ جو دل و جان سے اپنی روح بچانے کی کوشش کرتے تھے کلیسیا میں رہنے دیئے اور جب وہ پھر لندن کو لوٹا تو کئی آدمی جو اپنے تئیں ہی مشہور کرتے تھے اس کو ملے جن کی بابت ان نے کہا کہ وہ لاٹن زبان میں بولنا چاہتے ہیں مگر تھیک نہیں بول سکتے جس سے معلوم ہوا کہ وہ اپنا کام نہیں جانتے تھے اور اس وقت کے بعد وہ گرمی کے موسم میں برسٹبل اور ویلس اور ضلع ڈلون اور کانوال میں منادفی کرتا رہا اورلندن برسیٹل اور ان کے آس پاس کے گاؤں دس سال کےآخری مہینے تک کام کرتا رہا اور اس وقت اس نے کئی چھوٹیاں سپاہیوں سےپائیں جن سے معلوم ہواکہ فوج بہت پھیل گیا اور وہ از سرِ نو پیدا ہوئے روحانی و جسمانی طور پر بہت بہادر تھے اور اس حال کےسننے سے ویزلی صاحب بہت خوش ہوا کیونکہ اسے جو کہ کہا گیا تھا کہ وہ اس زندہوایمان کو رکھتے ہیں سو سست اور نافرمانبردار رہتےہیں دنیاوی کام چھوڑتے اور کسی کام کے لائق نہیں ۔۔۔۔پای
ماہ فروری ۱۷۴۵م وہ جاڑے اوربرف کو برداشت کرکے ضلع لنکن میں کام کرتا رہا اور وہ مارچ میں بمقام نیوکیسل اپنے بھائی چارلس ویزلی صاحب کی جگہ کام میں مشغول ہوا اور جو کہ ویزلی صاحب عظیم آپ میں رکھتا تھا یہ عمدہ صفت شامل تھی کہ وہ علم کے آراستہ بیان کرنے اور غریبوں کے بیچ میں پھیلانے کا بڑا شوق رکھتا تھا اور انجام اس نے کئی اس نے کئی علموں کے اختصار کو کرکے چھپوایا اور اس نیک اور خیر اندیش کا کہ جس میں بہترے نیک بخت آدمی اس وقت کے بعد مشغول ہوئے وہ صاحب رہنما ہوا اور اس نے لکھادیا کہ میں نے اس ہفتہ جوانوں کے ساتھ ایک علمِ فصاحت کا اختصار اورایک علم الخلاق کی کتاب کو پڑھا۔ اور میں سوچتا ہوں کہ جو کوئی اوسط عقل رکھتا ہے چھ مہینے عرصہ میں زیادہ علم فیلسوف کو حاصل کر سکتا ہے بہ نسبت اس کے جو کہ آکس فرڈ کالج کے طالب علم چاریاسات سال کے عرصہ میں اکثر حاصل کرتے اور جب کہ وہ انپے بڑے کاموں کو جو کہ اس نے اوتر کی طرف کیے تھےچھوڑے اور پھر وہ دکن کوع لوٹا وہ منچسٹر اور ڈاکٹر بیرم صاحب سے ملاقات کدرنے کو ٹھہرا اور جگہ کا کیسا بدل گیا وہ گھر جس میں وہ پیشترگرجا کرتے تھے اس بڑی بھڑ کے دسویں حصہ کے واسطے جو کہ پیشتر سننا چاہتے تھے کافی نہ ہوا اور پھر وہ کانوال کو گیا یہاں ہم اس کے روزنامہ میں دیکھتے کہ وہ کیسی ترتیب سے اپنی بھڑ کی حفاطت کرتا ہےاور اس نے یوں لکھا ہے کہ آتھویں تاریخ بدھ کے روز میں نےسنا کہ بلنیرمیں منادی کی اور جمعرات کے کلیسیا کے سارےاسٹورد اپنے پاس بلائےاور محبت سے دریافت کیا کہ ہر کلیسیا میں ایکزیٹرہیںاور آیا وہ ناپنے کام کے واسطے لیاقیتں رکھتے ہیں یا نہیں اور اگست کو ائرلینڈ کو گیا اور کے جانے پیشتر پادری ولیم صاحب کی معر فت میتھوڈسٹ کلیسیاشہر ڈیلن میں شروع ہوئی اور ٹری سسیٹی بن گئی تھی اورجب کہ وہ ڈیلن میں رہتا تھا۔ تورومن کیتھولک لوگوں کی نجات کے واسطے فکر کرتا تھا اور اس نے ان کے گرجوں میں منادی کرنے کی اجازت پاکر اس ان کے واسطے ایک درس لکھ کر چھپوایا اور تھوڑے عرصے تک اس شہرمیں رہ سکا تب اس نے اپنے چارلس کو بھیج دیا اور ماہ ستمبر میں وہ وہاں پہنچااور اس وقت کے پیشتر میتھوڈسٹ لوگ سنائے بھی گئے تھے اور چارلس ویزلی صاحب کہتا تھا کہ پہلے خبر جو کہ ہمارے کان تک پہنچی یہ ہے کہ چھوٹی کلیسیا اس زمانے کے طوفان کے بیچ قائم رہی اور تب رومن کیتھولک لوگوں نے ان پر بڑی زبردست سختی کی اور سرکار نے ان کو نہ روکا تب میں نے یقین کیا کہ خدا مجھ کو ان کے ساتھ دکھ اتھانے کی خاطر بلایاہے پسد میں ان کےساتھ جاملا اور پہلا واعظ اس مضمون پر کیا‘‘تم تسلی دو میرے لوگوں کو تسلی دو ’’وغیرہ اس کے بعد میں سسیٹی کے ساتھ رہا خدا نے ہمارے دلوں کو زنجیر ِمحبت سے مستحکم کیا جس سبب سے کہ ہم موت سے نہ ڈرے اور ہم ایک ساتھ روئےاورتسلی پائی اور مجھ کو ان کے مضبوط کردینے کا باعث بنایا اور چارلس ویزلی صاحب اس جاڑے کے موسم میں روزبروز ڈیلن میں منادی کرتارہا اور فروری میں وہ گاؤں گاؤں کو گیا اس کئی پریچر بہت کامیاب پائے اور اس طرح ائرلینڈ کے لوگو ں کے لیے ترتیب سے کام شروع ہوا اور جیسا کہ ویزلی صاحبو ں نےانگلینڈ میں پریچروں کے تبدیل کرنے اور سفر کرنے کا بندو بست مقرر کیا ویسا ہی ائرلینڈ میں یہ بندوبست جاری ہواکہ جس سے بہت فائدہ نکلا اس سبب سے کہ غریبوں کے پاس انجیل کی منادی کی گئی اور رومن کیتھولک اس مذہب میں شریک ہوئے اور اگر لوگ امریکہ کونہیں جاتے تو میتھوڈسٹ کلیسیا کی تاثیر بہت زیادہ ہوتی اور ۱۷۴۵م میں تمام سال چارلس ویزلی صاحب ائرلینڈ میں رہا اور بہت جگہوں میں بلکہ خاص شہر یارک بہت فائدہ کے ساتھ کام کیے۔