پادری جادن ویزلی صاحب کا احوال
باب یازدہم
اور اس وقت میتھوڈسٹ کلیسیا کے بعض شریک انگلینڈ اور ائر لینڈ سے امرکہ میں جا بسے اور کلیسیا وہاں شروع ہوئی اور وہ پادریوں کے محتاج تھے۔اور ۱۷۶۹ کی کانفرنس میں سوال پوچھا گیا کہ ہمارے پریچروں کے بیچ میں کوئی ایس پریچر ہے جو اپنے تئیں امریکہ میں کام کرنے کو سپرد کرےگا؟چنانچہ ریچرڈ بورڈ من اور جوزف فلموز قبول کرکے اس کام کے واسطے مقرر ہوئے اور اس کے بعد اس ملک میں بہت کام پھیل گیا یہاں تک مری لینڈ اور ورجینا اور بعض یارک اور پیمنسلونیا میں بہت سی سستی پڑ گئی اور اس وقت سے میتھوڈسٹ کلیسیا امریکہ میں اب تک خدا کو بڑا فضل رہتا ہے اور اس وقت اس ملک میں بعض بعض جگہ اور انگلینڈ میں بھی جوئے مذہب کے تھے جو کہ طرح طرح ککی تایثر سے ہوئے ۔اور کبھی کبھی ایسا حال ہوا کہ لوگ بے ہوش زمیں پر گر پڑے گویا کہ وہ کہ مر گئے ہیں اور تھوڑی دیر لیٹ کے پھر اٹھ کھڑے ہوئے اور بڑےشور سے خدا کی طعریف کرنے لگے ایسی اور تاثیر کبھی کبھی پریر مٹنگ پر بھی اور کلاس مٹنگ میں بھی ہوئی اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ روشنی معلوم نہ دی اسوقت بہتروں نے ان کے خلاف بول کے کہا کہ یہ شیطان کے دھوکے ہیں لیکن ویزلی صاحب نے اورمیتھوڈسٹ پادریو ں نے کہا کہ ان کے ان کے پہلوؤں سے وہ پہچانے جاتے ہیں کیونکہ اگر ان تاثیروں کے ذریعے سے آدمی اپنے بڑے چال وچلن کو چھوڑکے خدا کی بندگی کو اختیار کرے تو وہ خدا سے ہیں اور اس تایثروں سے بہتری جگہوں میں سے سینکڑوں اور نے ہزاروں نے ادپنی بری حالت سے آگاہ ہو کے مسیح کو قبول کیا۔اور ویزلی صاحب نے بائبل سے ثابت کیا کہ خدا کی رون آدمیں کے متفرق مزاجوں مطابق طرح طرح کی تاثیر ان کے دلوں پر کرتی ہے اور جس وقت خدا کی روح سے تاثیر ہوتی ہے اس سے اچھا پھل ہوتا ہے اور آدمی ازسرِنو پیدا ہوکے خدا کی کلیسیا میں شامل ہوتا ہےاور ان کی نجات کے واسطے کوشش اور دعا کرتا ہے اور ویزلی صاحب کے روز نامہ سے یہ حال دیکھتے ہیں کہ وہ ۱۷۷۰م میں بدستور بہت چلاکی سے ہر طرح کے نیک کام میں مشغول رہا۔اور جگہ روحانی سر گرمی اور سچی تعلیم دیتا رہا اور کوئی اس کے سارے روز نامے پڑھے تو اس کو یقین آئے گا کہ اس کی برابر کام کرنے اور منادی کرنےاور بیماروں کے پاس جانے اور کتابون کے تصنیف کرنے اور دورہ کرنے میں کوئی نہ تھا۔اور علاوہ اس کے وہ ہمیشہ ان کے مطالعہ کرنے سے ہر طرح علم اور عقل کی تدربیت حاصل کرے گا اور اس وقت کچھ کانونی تعلیم ہر کلیسیا میں پھیل گئی کہ جس سے میتھوڈسٹ کلیسیاؤں میں نقصان ہوا۱۷۷۰م کے سالانہ کانفرنس میں مذہبی تعلیمات کا ذکر ہوا اور بہت سی باتیں ہوئیں جن کا خلاصہ یہ ہے سوال: ہمارے بیچ میں کون اب خدا مقبول ہے؟جواب: وہ جو اب محبت اور فرمانبر داری سےمسیح پر رکھتا ہے۔سوال جنھوں نے مسیح کی خبر نہیں سنی ان کے بیچ میں کون مقبول ہے؟جواب: وہ جو اس نور کے مطابق جو اس کا ہے خدا سے ڈرتا ہے اور راستبازی کا کام کرتا ہے ۔سوال کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ نیک کاموں سے نجات ہے؟ نیک کام نجات کا باعث نہیں بلکہ اس کے وسیلہ میں رنٹ نومی کی تعلیم اس بات کی بابت یہ ہے کہ ہم خاموش بیٹھے ہیں تاکہ خدا ہم کو اپنی مرضی اور قدرت کے مطابق بغیر ایمان لانے کے یا نیک کام کرنے سے نجات بخشے گا لیکن ایسی تعلیم دی ہے اور اسے مانے گا کبھی اس کی نجات نہ ہو گی خداہم کو انجات دے گا اور سارے جلال آپ لے گا اورہماری شرط کے مطابق نہیں بلکہ اپنی شرط اور خدا کی شرط یہ ہے پس توبہ کرو اور انجیل پر ایمان لاؤتب تم نجات پاؤ گئے اور اس وقت بہت مباحثہ ہوا تو بھی میتھوڈسٹ کلیسیا بہت بڑھ گئی اور بہت سو سائٹی بن گئی کیونکہ سارے پریچر بڑے دیندار اورسرگرم تھے اگرچہ جان ویزلی ۷۰برس کا تھا تو بھی وہ جوان مردی سے ان سوسائٹیوں کو خوبی سے دیکھتا اور وہ اس وقت بھی سوچنے لگا کہ جب میں مر جاؤں تو میرا کام کون کرے گا اور اس پادری جان فلیچرصاحب سے درخواست کی کہ آپ اپنے تئیں اس کام میں دیجیے اور میرے جان نشین ہو جایئے۔مگر پادری جان فلیچر صاحب آپ کو اس کام کے لائق نہ جانا اور اسے قبول نہ کیا اور اس وقت گریٹ برٹن اور ائر لینڈ کے پریچروں کا شمار ایک سو پچاس(۱۵۰) تھا اور ممبر پینتیس (۳۵) ہزار تھے اور چارلس ویزلی صاحب نے جان ویزلی صاحب کو یہ صلاح دی کہ آپ کلیسیا کے اوپر زندگی بھر اختیار رکھیں اور بعد اپنی موت کے جو سے اچھے ہوں ان کو دے جائیں۔