جان ویزلی صاحب کا احوال
باب نہم
ان محبتوں اور خادم الدین کے سفر کانے کاذکر ہے جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ میتھوڈسٹ کلیسیا کی بنیاد جو چل رہی ہے وہ بہت اور محنت سے ڈالی گئی۔اور جیسا کہ چارلس ویزلی صاحب نے بڑا مشکل کام کیا اور وہ سب جو خادم تھے ان کام کرنے میں ان کی مانند ہوئی جو کہ ہم پر ایک چٹھی سے ظاہر کرتی ہے ایک خادم الدین نے ویزلی صاحب کو شہر لنکن سے یہ لکھ دیا کہ منادی کرنے کے اب بہترے دروازے کھلے ہیں مگر منادی کرنے والےنہیں ہیں میری مدد کے واسطے کسی کو بھیج دیجیےورنہ کام میں بہت نقصان ہو گا اور اب میری سرکٹ اتنی بڑی ہے کہ دو ہفتوں کےعرصے میں مجھے ڈیڑھ سو میل کا سفر کرنا پڑتا ہے اوراس عرصے میں ۳۴ دفعہ منادی کرتا ہوں اور سوا اس کے بیماروں کےپاس جانا اور کلاسوں کے پاس جانا اور کلاسوں کا دیکھنا اور اکثر اور کام ہی پیش آئے ہیں اور کئی پریچیر دنیاوی کام کرتے ہیں اور فرصت میں اپنے اپنے پڑوس میں منادی کیا کرتے ہیں اور کبھی کبھی اپنے اپنے ہم جنسوں کے بچانے کے لیے بڑا سفرکرتے ہیں اور بعضوں نے کئی عرصے تک منادی کرنے کا کام کیا اور اس کے بعد اور کام میں مشغول ہوئے اور بعض اشخاص ویزلی صاحبوں کے مدد گار ہوئے اور اس بڑے حکم کے اورکچھ بہت فکر نہیں کیا اور مقررہ وقت پر آزمائش میں رہ کر سنجیدہ دعا کے ساتھ کانفرنس کی پوری شراکت میں شامل کیے گئے اور یہی ان کا مقصد تھا اور ان کے گزارے کے واسطے کوئی بندوبست اس وقت مقرر نہ تھا سو وہ نہ تھیلےاور نہ جوتی لے جاتے بلکہ انھوں نے اپنے تئیں خداوند کی پرورش اور کلیسیا کی مہربانی پر سونپ دیا اورسوالوں کے موافق وہ کلیسیا سے مدد پاتے رہے اورانھوں نے اپنا کام کئی جگہوں تک بڑھایا اور جیسا کہ رسولوں کی بابت کہا گیا تھا کہ ویسا ہ ان کی بابت کہا جائے کہ وہ کوئی جگہ رہنے کی نہیں رکھتے اور ان کی بڑی محنت اوربرداشت کے سبب سے بعض جوانی کے عالم میں ضعیف ہو گئے۔ اور ہم نے آتھویں باب میں سالانہ کانفرنس کا ذکر پڑھا ہے ہم ان تعلیمات کو جو شروع سے ان کانفرنس ٹھہرائی گئی تھیں بیان کریں گے۔اور ہر ایک بات ٹھہرانے کے پیشتر اس پر بہت گفتگو اور مباحثہ ہوااور اس ہی طرح اور مفید اور لائق کتاب قانونی مذہب کی بنائی گئی اورجب کانفرنف بڑھ گئی اورویزلی صاحب کی تعلیموں کا واعظ اور اس کی انجیل کی تفسریں تعلیم قانونی کے واسطے ٹھہرائی گیں اور اس پہلی کانفرنس میں پادریوں نے اس نقشے کے مطابق اپناسارا کام کیا کہ ہم خدا سے رضامندی اور روشنی مانگیں تاکہ ہم ہرایک تعلیم جانے کہ آیا وہ خدا سے ہے یا نہیں اور انھوں نے اپنے شروع میں ٹھہرایا کہ ہر کوئی جو اس شراکت میں شامل ہو ہر طرح کی مسیح آزدی پائے گا جیسا کہ اس سوال وجواب میں ہے سوال جو کانفرنس کا بڑا حصہ کسی بات کو ٹھہرائے کہاں تک اس بات کا ماننا ہم پر فرض ہے جواب مائل کرنے والی باتوں کا ماننا چاہیے بشر طیکہ عقل قابل ہو اورعملی باتوں کو ماننا چاہیے صاف دل ہو کر جان سکیں سوال کیا کہ اس سے زیادہ کسی اور آدمی یا دنیاوی جماعت کا تابعدار ہوسکتاہے جواب معلوم ہے کہ کوئی اس سے زیادہ نہیں کر سکتا اور بنیاد کی بات کہ ہر ملک مصلح مقرر کرے یعنی ہر ایک آدمی اپنے واسطے خدا کو حساب دے گااور اب کہہ سکتے ہیں کسی اور مسیح کلیسیا کی بنیاد اس کے موافق آزادی میں انجیل میں ڈالی نہیں گئی اور ہم ان گفتگو پر جن سے وصلاً میتھوڈسٹ تعلیم ظاہر ہوتی ہے خیال کریں گے تو معلوم ہوگا کہ وہ ایک خاص تعلیم رکھتے ہیں کہ جس کے سبب سے وہ ایک مشہور گروہ ہیں مگر یاد رکھنا چاہیے کہ وہ خادم الدین جو کہ کانفرنس میں جمع ہوئے تعلیمات کی کتاب بنانے کو جمع نہیں تھے اور وہ حکومت کی کلیسیا کے خادم الدین تھےاور وہ ان تعلیمات کو جو کہ اس کلیسیا قانوں اور واعظوں میں مندرج ہیں قبول کرنے والے تھے اور پوچھتے تھے کہ ہم ان تعلیمات کو کس طرح سے سمجھیں اور اسبات میں مباحثہ کرکے روشنی ڈھونڈتے تھےاورہر ایک بات کو کتابِ مقدس سے آزماتے تھے اور راست ٹھہرائے جانے کاذکر جو پہلے پیش آیا اس کا بیان وہ بڑی صفائی سے کرتے تھے اورانھوں نےا سے یوں بیان کیا ہے کہ وہ معافی ہے یا کہ خدا کے رحم میں مقبول وہ ہونا اور یہ بیان بائبل میں مندرج ہے جسکی بعض آیتو ں میں راست ٹھہرائے جانا اور معاف ہونا ایک ہی بات ہے اور خدا کا لے پالک فرزند ہونا اس برکت یعنی معافی کا انجام ہے۔اور ویزلی صاحب کی رائے کے مطابق ازسرِ نو پیدا ہو نا ایک باطنی تبدیلی ہے جو کہ روح پاک کی تاثیرسے ایمان لانے والوں دی جاتی ہے اور جس وقت وہ ایمان لا کر راست ٹھہرائے گئے توراست ٹھہرانے کا بیان انھوں نے یوں کیاکہ وہ ایسا حال ہے کہ اس میں جو کوئی ہوکے مر جائے وہ ہمیشہ کی زندگی پائے گا اوراس حال میں ہوکے کوئی گناہ کرے تو وہ اپنا زندہ ایمان پھنک دیتا ہے اوراپنے تئیں ہلاکت کے فتویٰ کےنیچے دبا دیتا ہے اور اس کی نجات بغیر توبہ کرنے کے ناممکن ہے اور سب اسباب پر متفق تھے کہ آدمی اس شرط پر راستباز ٹھہرایا جائے کہ وہ ایمان لائے اور ثبوت میں یہ آیت بڑی تھی جو اس پر ایمان لاتا ہے اس کے واسطے سزا کا حکم نہیں ہے لیکن جو اس پر ایمان نہیں لاتا اسف پر سزا کا حکم ہو چکا اور ویزلی صاحب نے اپنے واعظ میں ایمان کے بارےیوں لکھاہے کہ جب کوئی گناہگارمثلاًلڑکپن یا جوانی یا بڑھاپے کے عالم میں ایمان لاتا خدا اس کو معاف کرتا ہے اور راست ٹھہراتاہے اور اگرچہ اس میں اس وقت تک کوئی نیکی نہ تھی تو بھی خدا نے اس کو ضرور توبہ بخشی لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہم میں نیکی نہیں ہے بلکہ بدی بہت ہے اور جو نیکی اس وقت ہوتی ہے جب وہ یمان کا پھل ہے۔اس نقل کے مطابق پیڑجوپہلے اچھا ہوا اس کا پھل بھی اچھا ہوگا اور اب یہاں ویزلی صاحب کی اظہاری توبہ کے بیان میں لکھتے ہیں اس نے اپنے پہلے بیان کے مطابق کہا کہ راست اور صادق ٹھہرائے جانے کے پیشتر گناہگاروں کو توبہ کرنا چاہیے لیکن اسکے نزدیک سارے کام جو کہ راست ٹھہرائے جائیں گے پیشتر ہم سے ہوتے ہیں مثل گناہ ہیں اور وہ معافی کے باعث نہیں ہوسکتے اس لیے ان کی جڑ خدا کی محبت میں نہیں ہے اور اس نے کہا کہ سچی توبہ یقیناً خداکی بخشش ہے اور اگرچہ بہت پھل لاتی تو آدمی کا علاقہ خدا کے ساتھ نہیں بدلتاہےانسان گناہگار ہے اور گناہگار کی طرح راست گنا جانا ہے کیونکہ راست ٹھہرایا جانا معافی کے طور پر ہے نا کہ راستباز معافی پاتے ہیں بلکہ گناہگار لوگ معاف کیے جاتے ہیں اور ایمان لانے سے آدمی معاف ہوتا ہے اور اب ہم وہ بات چیت جو کہ پہلی کانفرنس میں ایمان کی بابت ہوئی اس جگہ نقل کرتے ہیں سوال جب ہم دل سے معلوم کرتے ہیں کہ ہمارے گنا ہ معاف ہوئے تو کیا یہ تاثیر نجات بخش ایمان ہے؟جواب نہیں ! جواب نہیں! نجات بخشش ایمان ہے۔نجات بخش یمان کے یہ معنی ہیں کہ جس کے پاس وہ ایمان نہیں ہے وہ خدا کے غضب اورلعنت کے نیچے ہے معانی کی تاثیر یہ ہے کہ جو اسے جانتا ہے وہ یقیناً معلوم کرتاہے کہ اس کے گناہ معاف ہوئے۔ دوسرا (۲) یہ کہ معافی ہر ایک سچے مسیحی کا خاص استحقاق ہے ۔ تیسرا (۳) مسیحی لوگ ایمان کے ذریعے سے صاف دل ہوجاتے ہیں اور دنیا پر غالب ہوتے ہیں لیکن صادق بخش ایمان معافی کی تاثیر نہیں ہے کیونکہ معافی ہم کو اس شرط پر ملے گی کہ ہم ایمان لائیں۔سوال کیا ہماری کلیسیا کی تعلیمات میں یہ بات شامل ہے ؟جواب : ہاں !لیکن ہم شریعت اور عہد نامے پر نظر کریں کہ جو کچھ ان کےمطابق ہے سچ ہے اور حق ہے اور وہ ہمیشہ تک قائم رہے گا اورویزلی صاحب نے صادق بخش ایمان کا بیان یو ں کیا ہے کہ آدمی الہٰی مدد سے اپنا سارابھروسامسیح کی موت پررکھ کر یقین کرتا ہے کہ مسیح میرے واسطے موااور جو کوئی اس پرایمان لاتا ہےاس کا ایمان راستبازی گناجاتا ہے اور اس ایمان کے پھل یہ ہیں سلامتی اور شادمانی اور محبت باطنی اور گناہ پر غالب ہونے کی طاقت۔اگر کوئی اپنےصادق ایمان کو کھو دے تو وہ توبہ کرنے اوردعا مانگےبغیراس کو کبھی نہیں ملے گا کوئی مگر کوئی ایمان دار خوف ن ہیں کھائے گا کیونکہ اگر وہ غافل اور بےوقوف ہو کر اپنے فرائض کو چھوڑ دےگا اور گناہ نہ کرے گا تو اس کا ایمان کھویا نہ جائے گا۔کیونکہ کبھی کبھی بڑی سلامتی اور یقین اورشادمانی کےبعد شک اور خوف دل میں آتا ہے اور کبھی کبھی خدا کا فضل اور مانگنے کے پیشتر روح افسوس اوررنج میں پڑی رہتی ہے اور اس نے سکھلایا کہ میتھوڈسٹ لوگ یقین کرتے ہیں کہ جس وقت خدا کسی کومعاف کرتا ہے وہ اس کو ازسرِ نو پیدا کرتا ہے اور ایمان لانے سے پیشتر آدمی نیک کام نہیں کر سکتا تو کتنازیادہ ایمان لانے سے پیشتر آدمی نیک کام نہیں کرسکتا تو کتنا زیادہ تقدیس ہو نا ایمان لانےاور معافی اورازسرِ نو پیدا ہونے کے پیشتر میں ہو سکتا ہے تو وہ ان کےبعد ہوتاکیونکہ ازسرِنو ایمان کا پھل نجات جس میں گناہ کرنے سےآزادی اور روح کا چنگا ہونااور خداکی صورت میں ازسرِ نوپیداہوتا ہے اور وہ اس حال میں پیداہو مزاج دکھلاتا ہے اورآسمانی گفتگوکرتا ہے اور ان ساری فضلیتوں میں بڑھ جانے کے لیے دعامانگنااورایمان لانا ضرور ہے زندہ ایمان سےآدمی کی روح بند جاتی ہےاور روح القدس اس کے وسیلے سے دل میں رہتی ہے اور اس میں تاثیر کرتی ہے اور جو ایمان رکھتا ہے وہ ہر طرح سے اپنے تئیں صاف رکھتا ہے اور فرشتوں اور آدمیوں کی مانند نہیں ہوتا۔ اور ایک تعلیم جس کے بیان میں ویزلی صاحب نے بہت باتیں لکھی ہیں وہ تقدس ہوتاہے جس کا بیان رسالہ مسیح کاملیت میں پایا جاتا ہے۔
اورایک اور تعلیم جو کہ ویزلی صاحب نے سکھلائی اور جس کے بیان میں اس پہلی کانفرنس میں باتیں ہوئیں۔یہ ہے کہ بابت انسان اپنی معافی کے لیے دل میں یقین رکھ سکتا ہے یا نہیں اور اس یقین کی بنیاد یا اصل جو روح القدس ہے اور جو لے پالک فرزند ہونے کی روح ہی ہے یا نہیں اس کانفرنس میں بیان کیا۔ سوال روح القدس کی گواہی کیا ہے؟ جواب وہ اصلی لفظ مارتوریا جس کا ترجمہ گواہ یاشہادت یا گواہی ہے جیسے کہ پہلے یوحنا کے ۵باب کی ۱۱آیت میں ترجمہ ہوا ہے ‘‘اور وہ گواہی یہ ہے کہ خدانے ہمیں ہمیشہ کی زندگی بخشی اوریہ زندگی اس کے بیٹے میں ہے’’۔اوراب وہ گواہی جس کا بیان ہم کرتے ہیں وہ ہے جو کہ خداکی روح ہماری روح کو دیتی ہے روح القدس وہ شخص ہے جو گواہی دیتا ہے اور وہ گواہی جو ہمیں بچاتی ہے یہ ہے کہ ہم خدا کے فرزند بنیں گے اور انجام جو فوراً اس گواہی سے نکلتا سوروح القدس کا پھل ہے اور روح القدس کا جو پھل ہے وہ محبت اور خوشی اورسلامتی اور صبر اور خیر خواہی اورنیکی اور ایمانداری اور پرہیز گاری وغیرہ ہے جس کے بغیر گواہی آپ جاتی رہے گی کیونکہ اگر ہم کسی طرح کا ظاہری گنا ہ کریں تویاکوئیئ فرض چھوڑیں یا آپ میں کوئی برائی رہنے دیں تو یہ روح کی گواہی نیست ہوگی یاجو کوئی خداکی مقدس روح کو رنجیدہ کرتا ہے تو وہ اس کوخاموش بھی کرتا ہے ویزلی صاحب یوں فرماتا ہے کہ میں نےکئی برس سے کہا تھا خدا کی گہری باتوں آدمی کے الفاظ سےبیان کرنا مشکل ہے۔ہاں کوئی بافدت نہیں ہے کہ جس سے ہم لائق طور پر اس کام کو جوخدا کی روح اس کے دل میں کرتی بیان کریں لیکن کوئی کہے کہ اس کے نزدیک روح القدس کی گواہی کے معنی یہ ہیں کہ وہ تاثیر وہ ہے جو خدا کی روح میرے دل اور من پر لگاتی ہےاور جس کے ذریعے سے وہ روح مجھ کو بلاواسطے گواہی دیتی ہے کہ میں خداکا فرزند ہوں کہ یسوع مسیح نے مجھ سے محبت کی اور میرے عوض اپنے تئیں خداکے آگے نذر اور قربان کیا کہ میرے سارے گناہ مٹائے گئے اور میں بھی خداسے مل گیااگر کوئی اس کا درستی سے کرسکتا ہے تو اجازت ہے کہ وہ کرے مگریادرکھناچاہیےکہ مین یہ نہیں کہتا کہ خدانے کسی جسمانی آواز سے گواہی دی ہے اور نہ وہ ہمیشہ باطنی آوازسے گواہی دیتا ہے اور میں نہیں سوچتا کہ وہ روح ہمیشہ کوئی آیت دل پر لگاتی ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ روح انسان کے دل پر ایسی بلا واسطے تاثیر سے جنبش کرتی ہے کہ تکلیف کاطوفان اور رنج کی لہریں بلکل خاموش ہوجاتی ہیں اور دل مسیح کی گود میں آرم لیتا اور گناہگار صاف صاف معلوم کرتا ہے کہ اس کے سارے گناہ معاف کیے گئے اور اس کی خطائیں ڈھانپی گئیں اور اس تعلیم مذکور کی بابت لوگ کچھ کچھ مباحثہ کرتےتھے تو ویزلی صاحب نے اس کے بیان مین زیادہ لکھ دیا کہ اس کی نقل یہاں پر نہ ہوگی اور ویزلی صاحب نے یہ تعلیم اختیا ر کرکے بڑی کوشش اور سرگرمی سے سکھلائی اور اب تلک میتھوڈسٹ لوگ پسند کرتے ہیں اور دل سے مانتے ہیں اورسر گرمی سے سکھلاتے ہیں اور آدمی ڈھونڈنےاور کوشش کرنے میں ویزلی صاحب سے زیادہ دیانت دار نہ تھا اور ہر بات اور تعلیم کو بائبل کی باتوں سے آزمایا اور گویا وہ ایک کتاب کا آدمی تھا اورجو کوئی اچھی بات اس میں تھی وہ اس نے کتاب مقدس سے سب کوشش کرکےسیکھی تھی اور وہ ان تعلیمات میں اکیلا نہ تھا۔کیونکہ وہ جو راست ٹھہرائےجاتے تھے اور نجات بخشش ایمان لاتے اور روح القدس کی گواہی کی بابت قبول کرتا اور سیکھتا تھا اور لوتہر کالوننگ بیزا اور ارمنی اور انگلینڈ کی ملکوں کے رہنے والے رکھتے اورسکھلاتے تھے اور امام اور پادری جیسا کہ ہوپرااوراینڈوزا اوربال اور ہوکر اور عشر اور بردن رگ اور ویک اور پرس اورسپیردا اور وین اور پول تھے جو کہ اور کلیسیاؤں میں امام پادری تھے بہت صاف سکھلاتے مگر ویزلی صاحب ان سب صاحبوں سےسرگرم ہوااس سبب سے لوگوں اس پر تعجب کیا۔
اور ان پہلی سالانہ کانفرنسوں کی باتوں کی یاد داشت میں سوائے مباحثہ تعلیماے کے اور باتوں کا ذکر بھی ہے ان میں کلیسیا کی حکومت کی بابت قانون اور احکام سال بہ سال کی ضروریات کے مطابق ٹھہرائےگئے۔ اور ان قانون اور احکام کے بیچ میں جو سب سے اچھے ہیں اب تک میتھوڈسٹ کی کلیسیاوں میں جاری ہیں مثلاً ہماری ڈسپلن کے دوسرے باب میں قوانین عام جو اس وقت مقرر تھے مندرج ہیں اور اس پہلے جلسے میں جو کہ ۱۷۴۴م میں جمع ہوا ایک واعظوں کے مدرسہ کے متعلق باتیں ہوئیں اور پھردوسری سالانہ کانفرنسوں میں سوال پوچھاگیاتھا کیا ہم ایک مدرسہ جس میں علم الہٰی سکھلایا جائے واعظوں کے واسطے مقرر کریں مگر یہ مدرسہ مقرر نہ ہواکس لیے کہ کام زیادہ پھیلتا رہا اور کوئی لائق مدرس ان کو نہ ملاتو وہ کنگز وڈ کا سکول جو پیشتر مقرر ہوا تھا اس کام کے واسطے مقرر ہوا اور ویزلی صاحب نے اپنے پریچروں پر یہ فرض رکھا کہ وہ نہ صرف اصلی توریت اور انجیل کو پڑھیں بلکہ یونانی اور لاطینی شعرا اور تواریخ کو بھی پڑھیں جس سے معلوم ہو کہ علم کا جاننا بہت ضرورہے اور یہ بھی ہر ایک پریچر پر فرض تھا کہ ہرایک کتاب جو ویزلی صاحب کی معرفت چھپوائی گئی یا اس سے قبول کی گئی پڑھیں اس طرح ویزلی صاحب نے اپنے لوگوں کے دل اور عقل کو بھی تعلیم دی اور ان جلسوں میں ٹھہرایا کہ وہ جو بے دینوں کے ساتھ شادی کریں اوروہ جو کوئی نشہ کی چدیز کھائیں اور وہ جو رہن لیں کلیسیا سے نکالے جائیں۔
اور کلیسیا کے عہدہ دار یہ تھے قصیص خادم الدین مدد گار اسنورڈ کلاس لیڈر اور ہینڈ لینڈبر بیماروں ملاتی اسکول ماسٹر اورخانہ دار یہ پچھلے عہدہ دار بھی تھوڑے عرصہ میں موقوف ہوئے اور منادی کرنے کی بلاہٹ کی بابت ہم سوالات یہا ں داخل نہ کریں گئے کیونکہ وہ ڈسپلین کے۱۱باب کی پہلی فصل میں مندرج ہیں پریچروں کی آزمائش پیشتر ایک برس کے ہوئی جو کہ بعد ازاں چار برس تک مقرر ہوئی اور انھوں نے ٹھہرایا کہ ایک چھوٹادواخانہ غریب لوگوں کی شفا کے واسطے لندن میں اور ایک بریسٹبل اور ایک نیو کیسل میں کلیسیا سے مقرر کیا جائے اورپریچروں کو ترغیب دی گئی کہ وہ عام عبادتد میں لیناگیت نہ گائیں اور جو کام کرکے زیادہ ضیف ہوگئے تھےچندہ ان کےواسطے مقرر ہوا اور عبادت کے وقت مباحثہ منع کیا اور کہا گیا کہ کم بولنا اور زیادہ پڑھنا اچھا ہے اور لوگوں کو حکم ہوا کہ پریچروں کے گوہر میں جیسا کہ کافی پینے میں جمع ہوتے تھے مت جمع ہو اور پریچروں سے کہا میلا گوہر نہ رکھنا بلکہ صاف ہونا اور ان کو کہنا کہ اول دینداری اور دوئم صفائی ہے اور وفات ناموں میں تھوڑی اور اچھی اور شریں باتیں لکھنا ہےاور۱۷۷۷م میں پہلے پوچھا گیا کہ اس سال میں کون کون پریچر گزر گیا کہ ہم اسف جگہ ان کے وفات ناموں کی نقل کریں گے ٹامس ہاس کنگ ایک جواں جو کام کرنے میں سرگرم اور چالاک اور چال چلن میں بے عیب۔ایجارڈبرگ ایماندار اورصابر تکلیفوں سے کامل کیا ہوا جو کہ بڑھے کی مانند دانشمند اور ہوشیار اور بچو ں کی مانند بےعیب اور ارچرڈ بورومن ایک دیندار اور خوش مزاج دانش مند آدمی جس کو سارے اس کے اشنائی عزیز جانتے تھے ہمارے دو بھائیوں میں سے جنھوں نے خوشی سے امریکہ کے مشنری کام کے واسطے مستعد کیا ایک وہ تھا سکتے سے مرا اور اپنی وفات کے ایک رات پیشتر اس نے منادی کی اگر وہ زندہ رہتا تو وہ بہت کامیاب ہوتااور نیز خدا کی مرضی اسف کی بابت اچھی تھی تامس پین مسیح کا بہادر سپاہی تھا اس کا مزاج بہت سخت اور گرم تھا مگر مرنے کے پیشتر وہ سختی سب جاتی رہی یہاں تک کہ وہ شیر ببر بھیڑ کا بچہ ہو گیا اور وہ ایمان سے فتح پاتے ہوئے اور اپنے پچھلے دم سے خدا کا شکر کرتے ہوئے گزراجان پر کمزور ایک آدمی جو بلکل خدا کو دیا گیا اور کامل تقدس کا نہایت نمونہ تھا ٹامس مچل مسیح کا ایک بڑاسپاہی ۔جان ۔۔۔۔ساری تقدس اور پاکزگی کا نمونہ سوبرس میں کوئی آدمی اس کی مانند نہ ہواکاک عمر چھوٹا اور فضل میں بڑاتھا ساری پاکزگی کا نمونہ ایمان اور محبت اور سرگرمی سے مامور۔چارلس ویزلی صاحب جو کہ اسی برس تک بہت رنج اور درد سے کام کرتا رہا اور خاموشی سے ابر ہام کی گود میں لیاگیااس کو کوئی بیماری نہ تھا بلکہ وہ ضعیف ہو گیاتھا اس کی سب سے چھوٹی تعریف اس کی نظم ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر ڈاٹس صاحب نے کہا کہ وہ ایک گیت یعقوب کی بابت ہمارے گیتوں سے اچھاہے ان وفات ناموں سے معلوم ہے کہ ویزلی صاحب نے اختصار کو بہت پسند کیا۔اور اس نے فیلچر کی بابت کہ جس کی تعریف ہر ایک آدمی کے منہ میں اب تک ہے اوراپنے بھائی چارلس کی بابت جس نے سب سے اچھا گیت بنایاتھا بہت تھوڑی باتیں لکھ دیں۔
اور اب کلیسیاؤں کی خبرداری ویزلی صاحب کو فرض ہوئی اور کلیسیا بہت ہوئی اور بڑھ گئی اور ویزلی صاحب ان کا نگہبان تھا اور اس نے بہت کوشش کی اور چاہا کہ ہر طرح سے عقل اور دینداری میں لوگ اس کے موافق ہوں اور تاریک دنیا میں نور کی مانند چمکیں اور اس نے اپنے کام کا پھل دیکھا اور نہایت خوش ہوا اور اگرچہ اس نے کلیسیا کی نگہبانی میں بہت تکلیف اٹھائی تو بھی اس کا مزاج برابر رہا اور یہ تعجب کی بات ہے اور دشکر گزاری کا باعث بھی ہے کیونکہ اس زمانہ کے لوگ نادان اور گناہگار تھے اور ویزلی صاحب کو پریچر اور لیڈر اور اسٹورڈ کے واسطے الزام اور نصیحت اور تسلی اور ساری کلیسیا کے واسطے حکم اور قوانین دینے پڑے اور نیز خدانے اس کو مدد دی اور اس نے ایک گیت اپنے دل کا حال بتلایا۔