جان ویزلی صاحب کا احوال
باب ہفتم
اب ہم اس بات میں بیان کریں گئے کہ یہ حواری بڑے کاموں اور زیادہ سخت لڑئیوں میں مشغول ہوئے اور اخباروں میں بدنام کیے گئے اور کلیسیا کے مختار ان پر چین بابرو ہوئےاور کبھی کبھی انگلنیڈ اور دینرمین لوگوں نے لعن طعن کی بلکہ شہر لندن میں ہٹلڑان کے برخلاف جمع کیے گئےاور ان کے ہاتھوں سے انھوں نے گرجوں میں بہت سی تکالیف پائیں اور ان تکلیفوں کی بابت یہ نقل کرتے ہیں کہ کئی سرداروں نے ان کی سرگرمی کو اچھا سمجھا چنانچہ ۱۷۴۲م کے آخری دنوں میں سر جان گنبل صاحب نے ویزلی صاحب سے ملاقات کرکے کہا صاحب یہ ضرور نہیں ہے کہ آپ لوگ ان بدمعاشوں کے ہاتھ سے ا س قدر تکلیف اتھا ئیں کیونکہ مجھ کو اور سب صاحبان مجسٹریٹ کو حکم ملا ہے کہ تمہاری مدد کریں جس وقت کہ تم ہم کو خبر دو گئے فوراً اس کو ہم اس کا تدارک کریں گے۔
تھوڑے عرصے کے بعد میتھوڈسٹ لوگوں نے مجسٹریٹ صاحبان کو خبر دی کہ لوگ ہم کوتکلیف دیتے ہیں تب فوراً ان بدمعاشوں کو سزا ملی تب وہ سلامتی میں اپنی مرضی کے مطابق خدا کی بندگی کرتے رہے اب میتھوڈسٹ کلیسیا کی حکومت کرنے یہ بہت اچھی بات ہے کہ ہر ایک کلیسیا چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں کہ جن کو کلاس کہتے ہیں تقسیم کی جاتی ہے اور یہ بیان دسٹلین میں مندرج ہے۔اور کلاس میٹنگ کا شروع ایسا ہوا کہ برسٹبل کلیسیا کے گرجا بنا نے میں قرض دار ہوگئے تو انھوں نے یہ بندوبست ٹھہرایا کہ ہر ایک شخص ہر ہفتے ایک پنی یعنی تین پیسے دے اور ایک کلاس میں ایک دیانت دار آدمی چندہ جمع کرے اور مختار ان کے دینے واسطے مقرر ہوا۔اور جب کہ یہ حکمت بہتر کام کے لیے لگائی گئی تو ویزلی صاحب کے نزدیک بہت اچھی معلوم ہوئی تھی توا س نے کئی سرگرم آدمیوں کو اپنے پاس بلایا۔اور ان سے صلاح لے کر لندن کی کلیسیا کو بھی کئی کلاسوں میں تقسیم کیا اور ان آدمیوں کو لیڈر ٹھہرایا جو کہ اپنی کلاسوں کے لوگوں کے گھروں میں ہفتہ وار جا کر ان کے ساتھ گفتگو کریں اور تسلی دیں لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ ان کو ایک جگہ جمع کرنے لگے ۔اور اس کلاس میٹنگ کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک آدمی اپنے دل کی تجربہ کاری کو بیان کرے۔اور لیڈر ہر ایک کو اس کے حال کی ضرورت کے مطابق دوستی اور محبت کے طور پر صلاح دے تاکہ ایک دوسرے کے حال سے واقف ہو۔ اور لیڈر سب کا دوست اور صلاح کار ر ہے اور باہم فراہم ہو کر کئی دفعہ دعا مانگنے سے مقدسوں کی رفاقت پیدا ہوتی ہے اور لیڈروں کے یہ فرائض ڈسپلین میں مندرج ہیں۔
اور کلاس میٹنگ کی بابت ویزلی صاحب یوں فرماتا ہے کہ میری دانست میں یہ دستور مسیحی کلیسیا میں شروع سے جاری تھا پہلے زمانے میں انھوں نے جن کو خدا نے بھیجا ہر شخص کو انجیل کی منادی سنائی خواہ وہ سننے والے تھے یا غیر قوم امتی اور جس وقت ان کے بیچ میں سے کئی آدمیوں نے اسے قبول کیا یعنی وہ گناہ کو چھوڑ کر نجات کو خوشخبری پر ایمان لائے تو فوراً منادی کرنے والوں سے ان کے نام لکھ کر اور صلاح دے کر ایک دوسرے کی نگہبانی کرنے پر انھیں قائم کردیا اور جدائی میں ان کو الزام یا نصیحت صلاح دی یا ان کے ہمراہ ان کے حالوں کے موافق دعا مانگی۔
اور اس وقت ویزلی صاحب کے حاسدوں نے یہ شہرت پھلائی کہ وہ اور ان کے پیررومن کیتھولک ہیں لیکن وہ اس تہمت کذب سے آسانی سے بچ رہے اور پھر ویزلی صاحب نے اپنا کام اتر کی طرف پھلایا۔پہلے ضلعلیہڑ کو بلایا گیا اور سفر پر مارک شہر کو اور برسیٹل میں تھوڑے عرصے تک ٹھہرا اور وہاں صادق خاں تلس صاحب کی منادی اور گفتگو کے ذریعے سے بہترے آدمی آگاہ کیے گئے ۔اور یہ جان تلس صاحب پہلےلندن میں ویزلی صاحب کی منادی سن کر از سرِ نو پیدا ہوا تھا۔اور لوگوں کی نجات کی خواہش رکھ کر بریسٹل کو لوٹا تھا اور صاحب دیانت دار اور بہت تیز فہم تھا۔اور حلیم الطبع آدمی تھا تو بھی مجسٹریٹ صاحبوں اور حکومت کی کلیسیا کی خادم الدین نے اس سے بڑی بد سلوکی کی حالانکہ اسف کی منادی سے بہت آدمی قائل ہوگئے۔ اورمسیح پر ایمان لا کر قائم ہو گئے تھے اور اس کی دینی گفتگوبہت شرینی تھی۔
تو جب ویزلی صاحب بریسٹل پہنچا تو اس نے یہ حال پایا کہ ٹیلس صاحب کی کوشش سے بہت اچھا کام شروع ہوا یہاں تک کہ اس شہر کا حال بلکل بدل گیا تھا ۔ اور ویزلی صاحب نے بریسٹل کوہ پر بڑی بھیڑ کے اوپر منادی کی اور سر دوڑ بری مور میں منادی کی اور ٹیلس صاحب کے کام وتسلی دے کر نوح کی نسل کو گیا اور اس امید پر کہ جیسا کنگزوڈ میں کوئلہ کھودنے والوں کے بیچ میں کلام کا بہت اثر ہوا ویسا ہی نوح کی نسل میں ہوا اور اس طرح اس نے ظاہر کیا کہ وہ آدمیوں کی روحوں کو بہت پیار کرتا تھا اور اس نے اب منادی کرنے والوں کے واسطے یہ کام بتلایا کہ انف کے پاس جو اوروں سے بہت زیادہ کلام کے محتاج ہیں جاؤ اور ویزلی صاحب کے روز نامہ میں اس شہر کی بابت یوں بیان ہے کہ کھانے کے بعد میں شہر کی سیر کرنے گیا اور بہت حیران ہوااس لیے کہ پیشتر میں نے اتنی نشہ بازی اور ٹھٹھہ بازی نہیں دیکھی اور نہ سنی تھی اوردروغ گوئی ازبس تھی۔اوراکثر آدمی بہت برے کام کرتے تھے اور اتوار کے روز ۳۰ مئی فجر کے وقت غریبوں کی جگہ یعنی سینڈ گیٹ کو گیا اور گلی کے سرے پر جان ٹیلرصاحب کے ساتھ کھڑے ہو کرسو (۱۰۰) زبور گانے لگا تو تین (۳)،چار(۴) آدمی دیکھنے کو نزدیک آئے اور جلد ان کی تعدادچارسو (۴۰۰)اور پانچ سو (۵۰۰ )ہو گئی اور شائد ختم کرنے کے وقت پانچ سو(۵۰۰) آدمی حاضر تھے جن سے میں نے باتوں میں منادی کی یسعیاہ نبی کے ۵۳ باب کی ۵ آیت ‘‘حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائل کیا گیا اور ہماری بد کرداری کے باعث کچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لیے اس پر سیاست ہوئی تاکہ اس کےمار کھانے سے ہم شفا پائیں’’۔اس کے بعد دکھن کی طرف یارک کے شہر کی طرف منادئی کی اور اپورتھ کو جہاں کہ میتھوڈسٹ کلیسیا جمع ہوئی اور گرجا گھر کی دروازے اس پر بند کیے گے او ر اس نے قبر ستان میں اپنے باپ کی قبر پر کھڑے ہو کر بڑی جماعت پر منادی کی اور ویزلی صاحب اورساری بھیڑ بہت سنجیدہ ہوئی اور ان سبھوں نے خیال کیا کہ یہ کیا بات ہے کہ ویزلی صاحب اپنے باپ کی راکھ پر سے وہی سنجیدہ باتیں سناتا ہے جن کی اس کے باپ نے برسوں تک منادی کی تھی اور یہ حال مذکورہ ماہ جون ۔۔۔اتوار کے دن واقع ہوا اور اس کے بعد بذہ کے روز اس نے اپنے روز نامہ میں یوں لکھا ہے کہ میں گھوڑے پر سوار ہو کر فلاں گاؤں کے نزدیک مجسٹریٹ صاحب کی ملا قات کرنے گیا تو میں نے دیکھا کہ فلاں گاؤں کے آدمی میتھوڈسٹ لوگوں پر بہت غصہ ہو کو ان میں سے چند اشخاص کو گاڑی پر لاد کر مجسٹریٹ صاحب کے سامنے لے جاتے ہیں اور جب کہ مجسٹریٹ صاحب نے پوچھا کہ ان آدمیوں نے کیا گناہ کیا ہے؟تو ان کےجسم بخود ہو گئے تب ایک نے کہا کہ یہ لوگ اپنے تئیں اور افن سے بہتر جانتے ہیں اور علاوہ اس کے فجر سے شام تک دعا مانگتے رہتے ہیں تب مجسٹریٹ صاحب نے پوچھا کہ کیا انھوں نے اور کچھ کام نہیں کیا؟ تب ایک پیر نے کہا کہ جہاں پناہ انھوں میری بی بی کو ازسرِ نو پیدا کیا ہے ۔ اور پیشتر جب کہ وہ ان کے شریک کی گئی تھی بہت گالی بکنے والی تھی۔مگر اب وہ بھیڑ کے بچہ کی مانند کیسی چپ چاپ ہے تب مجسٹریٹ صاحب نےب اپنی زبان ِ مبارک سے فرمایا کہ ان کو جانے دو اور ہر ایک گالی بکنے والوں کو تبدیل کرنے دو اور اور دوسرے اتوار کو میں نے پچھلی دفعہ پورتھ کے قبر ستان میں ایک نہایت بڑی جماعت پر جو کہ چاروں طرف سے جمع تھی مسیح کے پہلے واعظ کے پہلے حصے بیان میں منادی کی۔ اور اگرچہ میں ان کے ساتھ تین گھنٹے تک رہا تو بھی انھوں نے مجھے بڑی مشکل سے جانے دیا۔اور ان سے میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ کوئی نہ کہے کہ میری محنت کا کام یعنی منادی کرنا بے فائدہ ہوتا کیونکہ میں اس کا پھل جلدی سے نہیں دیکھتا اور میرا باپ یہاں پورتھ میں برابر چالیس برس منادی کرتا رہا مگر بہت پھل اس نے نہیں دیکھا اورمیں نے بھی پھر اپنے لوگوں کے واسطے بڑی محنت کی جو کہ آج تک بھی پھل ظاہر ہوتی ہے۔لیکن ابھی پھل ظاہر ہوتے ہیں یعنی کوئی بھی نہیں ایک بھی نہیں جس کے واسطے میں نے اور میرے باپ نے نجات پانے کی کوشش کی اور اس کے بدل میں کلام کا بیچ جڑ نہ پکڑا ہوا اور پھل نہ لایا ہوا اب ان کے دل میں سچی توبہ پیدا ہوتی ہے اور وہ گناہ سے معافی پاتے ہیں۔
اور بر یسٹل سے وہ لندن کو اپنی ماں کے پاس جو اس وقت موت کے کنارے پر تھی طلب کیا گیاجس کی بابت اس نے یوں لکھا ہے
باتاریخ ۳ جولائی بروز جمعرات کو میں اپنی ماں کے پاس گیا اور یہ حال پایا کہ وہ نزع میں ہے اور میں نے اس کے پلنگ پر بیٹھ کر معلوم کیا کہ وہ اپنی پچھلی لڑائی میں ہے اور اگرچہ طاقت گفتگو کی نہیں رکھتی مگر ہوش میں ہے اور اس کا چہرہ خوش اور آراستہ ہے اور اس کی آنکھیں آسمان کی طرف لگ رہی ہیں اور اس نے اپنی روح خدا کے ہاتھ میں سونپ دی ہے اورتین بجے سے چار بجے تک عالم نزع اور جان کنی کا رہا اور حرکت یا آہیں کرکے اس کی روح آزاد ہو گئی اور ہم نے اس کا پلنگ گھپر کے اس کی پچھلی درخواست پوری کی یعنی اس نے کہا تھا کہ ‘‘لڑکو جب اس دنیا فانی سے رحلت کروں تو تم سب خدا کی حمدو ثنا کے گیت گانا چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا فی الوقعہ وہ ایک قائم گواہ ہے اس بائبل کی تعلیم پر ہے اور اس طرح سے اس نے اپنے تجربہ میں معلوم کیا تھا اور اپنی زبان سے فرمایا تھا کہ آدمی ایمان لانے سے راستباز ٹھہرایا جاتا ہے اور نیز جان سکتا ہے کہ اس کے گناہ معاف ہوگئے۔
اور ۱۷۴۳م پہلے دورے میں چارلس ویزلی صاحب کے کام بہت بڑھ گئے اور خدا نے اپنی برکت اور سپردی اور اس نے اگلینڈ کے پچھم اشٹافرڈشیر تک منادی کی اور دینز بری میں اس نے تین سو آدمی کلیسیا میں شامل ہوتے پائے جن کی بابت اس نے کہا کہ وہ فضل میں ضرور ترقی پاتے جاتے ہیں اور وال سال کے بازار میں اس نے منادی کی اوروہاں بدمعاش آدمیوں سے بہت بدسلوکی پائی یعنی انھوں نے اسے پتھرایا اور واعظ ختم ہونے کے وقت انھوں اسے گرادیا اور اس کہا میں پھر اٹھ کر اپنی نجات کے خداوند کا شکر بجالایا اوران سے کہا کہ سلامتی سے رخصت لو ا ورتب میں ان بدمعاشوں کے درمیان سے ہوکے چلاگیا۔
ہیم اور ٹانگ ہیم میں ہوکے شفیلڈ کو گئے اور وہاں گویا ایک گلہ بھیڑوں کے بیچ میں تھا اور لوگ وہاں میتھوڈسٹ لوگوں پر غصے ہو کر ان کے پھاڑ ڈالنے کو تھے بوقت چھ (۶) بجے میں گرجے میں گیا اور جہنم کے دروازے ہمارا مقابلہ کرنے کو مستعد تھے اوجس وقت میں پادری ڈیوڈ ٹیلر صاحب کے ساتھ ممبر تھا لوگ بڑا غل مچانے لگے اور کسی فوج کے سردار نے میرا انکار کیا اور لعنت کی مگر میں نے کچھ پروا ہ نہ کی بلکہ گاتا گیا تب بدمعاش لوگ پتھر مارنے لگے اور مجھ پر اور کئی ممبروں پر اورکئی ان لوگوں پر جو نزدیک تھےلگے میں نے گھر کے بچاؤ کے وسطے کہا کہ میں راہ میں منادی کروں گا۔اور تمہارے منہ دیکھو گا۔ پس بدمعاشو ں کی ساری فوج میرے پیچھے ہولی۔ اور ان کے کپتان نے مجھے پکڑا اور میرے ساتھ بد سلوکی کرنے لگا تب میں نے اسے ایک رساکا اسے اس مضمون پر دیا کہ فرصت کی بات یا پلٹن کی نصیحت اور اس اور اس میں نےبہت سرگرمی سے جناب بادشاہ جارج کے واسطے دعا مانگی اورانجیل کی منادی بہت کوشش سے کی اور اکثر وہ پتھر میرے منہ پر لگے تب میں نے گناہگاروں ے واسطے جو کہ شیطا ن کے غلام ہیں دعا مانگی جس بات پر کپتان نے مجھ پردوڑ کر کہا کہ میں تجھ سے اپنے مالک کی بدنامی کےسبب بدلہ لوں گا۔اور تلوار کھینچ کر میری چھاتی کی طرف لگائی تب میں نے اپنی چھاتی برہنہ کرکے اس کے آنکھوں آنکھ سے لگائی اور تبسم سے کہا کہ میں خدا سے ڈرتا ہوں اور بادشاہ کوعزت دیتا ہوں۔تب اس کا چہرہ فی الفوراوداس ہو گیا اوروہ آہ کھینچ کر چپ چاپ چلا گیا اور اس نے کسی سے کہا تھا کہ تم دیکھو گئے کہ میں اپنی تلواراس کی چھاتی کی طرف لگاؤں گا تو فوراً مردہ دل ہوجائے گا چنانچہ میں اپنی بہادری پر یقین رکھتا تو شاید میرا ویسا ہی حال ہوتا اور ہم بھائی بنٹ صاحب کے گھر دعا کرنے کو لوٹے اوربدمعاش ہی ہمارے پیچھے آئے اور جو کچھ انھوں نے کیامیں نے اس کے برابر کبھی کوئی بد کام نہی دیکھاتھا۔اور وہ بدمعاش جو میں نے موزر فلیڈ اور کارڈف اور دال سال میں دیکھےان کی بانسبت بھیڑیوں کے بچے تھے اور شاید اس کا یہ بھی سبب تھا کہ شفلڑ میں کوئی مجسٹریٹ نہ تھا بلکہ ہر ایک آدمی اپنی مرضی کے موافق چلتا تھا تب اس گروہ نے ارادہ کیا کہ ہم لوگوں پر دعامانگنے کے وقت گرجا گھر گرادیں۔
اور چارلس ویزلی صاحب نے فرمایا کہ ہم پر جلال کا وقت تھا اور ہر نصیحت دل پر لگی اورہر دعاکا جواب آیا اور خدا کی روح جلیل تم پر بیتھی اور دوسرے دن گرجا بلکل گرایا گیا یہاں تک کہ ایک دوسرے پر نہیں رہا تب اس نے راہ پر منادی کی تو انھوں نے اتنی بہت تکلیف نہیں دی لیکن انھوں نے کہا اس گھر کو بھی جس میں تم رہتے ہو گرادیں گیں پھر اس نے باہر جا کر لائق نصیحت کی تب وہ چلے گے اور پھر تکلیف نہ دی اور دوسرے دن پانچ بجے اس نےاسف شراکت سے وہ باتیں جو کہ اعمال کے ۱۴ باب کی ۲۲آیت میں ہیں رخصت لی یعنی شاگر دوں کے دلوں کو تقویت دیتے اورنصیحت کرتے تھے ایمان پر قائم رہوں اور کیا ضرور ہے کہ ہم بہت مصیبت کے سبب سے خدا کی باد شاہت میں داخل ہون اوراس نے اپنے روز نامہ یوں لکھا کہ ہمارے دل کی تسلی ہوئی اور آپس میں اکھٹے رہتےاور اس بزرگ خدا کی حضوری جلال کی امید میں خوش وخرم رہتے تھے کہ اس نے ہم کو ایک شیر ببر کے منہ میں سے بچا رکھا تھا اور ڈیوڈ ٹیلر صاحب نے کہا تھا کہ ضلع تھارپ میں جن کے بیچ میں ہم جانے کو تھے ہمارے پر نہایت غصہ ہیں اور ویسا ہی ان نے کو پایا کہ جس وقت ہم بارلی ہال تک پہنچے تو لوگ گھات میں سے اٹھ کے پتھر اور انڈ ے اور میل ڈالنے لگے اور میراگھوڑا اِدھر اُدھر کودا اور کس طرح ان کے بیچو بیچ میں سے چلا گیا لیکن انھوں نے ڈیوڈ ٹیلر صاحب کی پیشانی پر زخم لگایا اور اس سے بہت خون بہا اور میں نےم پیچھے مڑکے پوچھا کہ کیا بات ہے؟کہ کوئی پادری اس طرف کو بغیر بد سلوکی نہیں چل سکتا تب وہ بھاگے اور ان کے سردار نے ان کو دلیری دے کر اورمجھے پتھروں اور ہولناک لعنتوں سےجواب دیا تو میرا گھوڑا خوف کھا کر بھاگااور کوہِ بری سے مجھے لے کر چلا اوردشمن دوڑ کر دور تک میرے پیچھے چلے آئے پر میں نقصان سے بچ گیا۔
بڑی بہادری سے یہ خاص آدمی اس طرح اپنے بھلے کام کیا کرتے تھے اور وہ اپنی زندگی خدا کے سپرد کرکے کسی جسمانی خطروں سے نہیں ڈرتے تھےاور چارلس ویزلی صاحب نے لیڈر شہر کو جاکے ہزار وں پر جو کہ شینت صاحب کے دروازے کے سامنے کھڑے تھے منادی کی اور لوگوں کو خداوند کے واسطے تیار ہوئے پایا اور بعد اس کے خادم الدین نے بھی اس کو بڑی عزت دی اور ہر طرح سے اس کے ساتھ حسن ِسلوک کیااورپاک ساکرامنٹ لینے میں تقسیم کرنے میں اس کو شریک کرکے اس سے مدد لی اور اسے ان کی مہربانی کے سبب سے تعجب کیا۔تب وہ نبو کیسل کو گیا اور وہاں اس نے صرف عام لوگوں کے واسطے بہت محنت کی بلکہ کلیسیا کو بہت بڑھاہوا پاکر اس کے واسطے نصیحت اور تسلی دی اور نگہابانی کرنے میں اس نےان کا حال بہت آزمایا اور بدن کی حرکت اور روح القدس کی تاثیروں کے بیچ میں تمیز کرکے ہر ایک کو ترغیب دی کہ اپنے تئیں کتابِ مقدس کےقادر قانون کے مطابق آزمادے تو اس سے ثابت ہوا کہ ویزلی صاحبوں نے بدن کی حرکتوں پر بھروسا نہیں رکھا اور اس وقت کی بابت چارلس ویزلی صاحب نے لکھا ہے کہ میں نے کبھی کلام کابیج ایسا پھل دار نہیں دیکھا اور تھوڑی دیر کے بعد جان ویزلی صاحب نے ایک گرجا گھر کی بنیاد ڈلوائی جس کی بابت اکثرو کہا کہ یہ اتنا بڑا ہے کہ وہ کبھی تیار نہیں ہو سکے گا پر ویزلی صاحب نے کہا کہ اورطرح کی سوچ رکھتا ہوں کیونکہ یہ گرجا خدا کے واسطے شروع ہوا تو وہ کوئی حکمت اس کے تیار کرنے کو ضرور نکالے گا اور ایسا ہوا کہ اگرچہ بہت تکلیف اس کے سبب سے ہوئی تو بھی وہ بنے گا اور کسی کا نقصان نہ ہوا اور اس سال میں انگلینڈ کے بیچ میں اور اترا اور دکھن میں کئی نئی میتھوڈسٹ کلیسیائیں شروع ہوئیں اور جہاں کہیں یہاں کہی میتھوڈسٹ کلیسیا ئیں شروع ہوئیں تھی بہت بڑھ گئیں۔ ۱۷۴۳م میں ویزلی صاحب نے اپنی کلیسائیں جو کہ لندن شہر میں تھیں ایک نیا درجہ کام کرنے والوں کا مقرر کیا اور درجہ بیماروں کا ملاتی ہوئے جس کیئ بابت وہ یو کہتا ہے کہ اسٹرڈ لوگ بیماروں کے سبب بہت تکلیف میں پڑے کیونکہ بیمار دن کا شمار بہت بڑ گیا تھایہاں تک کہ ان کی خبر اسٹرڈ کو نہیں پہنچی کہ کتنے ان میں سے گزر گئے اور جب کہ انھوں نے ان کی بابت سنا تو وہ اپنا کام نہیں چھوڑ سکتے تھے لیکن جب میں اس سب حال سے واقف ہوا تو میں نے تمام کلیسیا کو اکتھا بلایا اور ان سبھوں کے سامنے اس حال کا کیا اور ان کو بتلایا کہ اسٹرڈ لوگ یہ سب کام نہیں کرسکتے سب تمہارے بیچ میں کون اس کام میں یہ مدد کرسکتا ہے اور خوشی سے کرے گا دوسرے روز فجر کے وقت اکثروں نے بہت خوشی سے اس کام کے کرنے کو قبول کیا اور ان کے بیچ میں سے چالیس آدمی جو کہ کریم اور مہربان دکھائی دیتے تھے۔ چن لیا شہر کو تئیس(۲۳) حصوں میں تقسیم کرکے دو (۲) دو (۲) ان میں بھیج دیئے تاکہ وہ ہر ایک بیمار کے پاس جایا کریں اور ان کے فرائض یہ ہیں کہ پہلے ہفتہ وار وہ اپنے علاقہ میں ہر ایک بیمار کو تین دفعہ دیکھا کریں۔دوسرے وہ روحانی حال کو دریافت کریں اور ان کے واسطے حکیم بلا کر صلاح لیں چوتھے اگر کوئی محتاج ہو تو اس کوخیرات دیں پانچواں جو کچھ وہ ان کے واسطے کر سکتا ہو وہ کرےچھٹےہفتہ وار اپنا حساب اسٹرڈ کو دے اور میں نے معائنہ کیا کہ ہم پہلے کلیسیا کےنمونے پر تھیک تھیک جیتے ہیں پہلے خادم کو جس کا ذکر اعمال ۔۔۔۔باب اور اس کی ۶آیت میں مندرج ہے کس کام کے واسطے مقرر ہوئے اور خادموں کی جورؤاں جس کا ذکر پہلے تمطاؤس کے ۳باب کی ۱۱ آیت میں مندرج ہے۔کس کام کے واسطے ہیں اورمیں نے ان کے واسطے سوائے ان کے اور کوئی قانون مقرر نہ کیا۔ پہلا قانوں روحوں کے واسطے کام کرنے میں صاف بولو اور ایمان سے بھی۔حلیم اورکریم اور صابر ہو۔ تیسرے جو کچھ کہ بیماروں کے واسطے کروں تو صفائی سے کرو۔ چوتھے نازک مزاج مت ہو۔ اور وہی سال ویزلی صاحب کی زندگی میں مشہور تھا اس بات کے سبب سے کہ وہ ایک گروہ کے دیوانہ اورغضبناک بدمعاشوں سے بچ گیا اور اس بھیڑ کے جمع ہونے کا یہ سبب تھا کہ دس بڑے خادم الدین نے ویزلی صاحب اور میتھوڈسٹ کے لوگوں کے برخلاف ایک واعظ کیا تھا اور اکثر ایسا نہ ہوا کہ مجسٹریٹ صاحب کے گرہوں کو میتھوڈسٹ لوگوں کا سامنا کرنے کوفراہم کیا اسف عہد پر کہ ہم اپنی کلیسیا اور ملک کی عزت کرتے ہیں۔دبنس بری اور داسٹین اور وبسٹ بڑا مجھ میں بدمعاشوں نے خادم الدین اور مجسٹریٹ سے تقویت پا کر میتھوڈسٹ لوگوں کے ساتھ بڑی شدت سے بدسلوکی کی اور لڑکے بھی مارے اور سنگسار کیے گئے اور میل سے ملائے گئے اوران کے گھر زبردستی سے کھول لیے گئے اور ان کے مال خیرات کیے گئے اور چھین لیے گئے تب ویزلی صاحب فوراً ان کی تسلی کرنےگیا اور ایک روز دوپہر کے وقت وبنس بری میں بے تکلف اس نے منادی کی بلکہ شام کے وقت بدمعاشوں نے گھر کو گھیر لیا اور اس کے ہلاک کے واسطے ہر طرح کی کوشش کی مگروہ خدا کےفضل سے بچ گیا اور ناڑتنگ ہیم میں چارلس ویزلی صاحب اس کا بھائی اس کو ملا جس نے اپنےروزنامہ میں اس ملاقات کی بابت ایک بات لکھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ویزلی دلوں میں شک وشبہ کی روح رہتی تھی اور وہ بات مذکور یہ ہے کہ میرابھائی شیر ببر کے منہ سے بچایا ہوا آیا اور اس کا کپڑا پھاڑا ہوا تھا۔وہ مسیح سپاہی کیسا معلوم ہوا؟اور وبنس بری اور ڈالسٹن اور دال سال کے بدمعاشوں نے اس کو مار ڈالنے کا ارداکیا تھا اور کئی گھنٹے تک اِدھر اُدھر اس کولیے پھرنے کی اجازت پائی تھی۔لیکن اس کا کام ختم نہیں ہوا اور اگر ایسا ہوتاتو وہ ان روحوں کے ساتھ جو مسند کے پیچھے ہیں شامل ہوتا اور چارلس ویزلی صاحب نے اپنا پہلا سفر کانوال کا کیا ۔اور اس کے بھائی چارلس نے ان کم بختوں پر کرم کیا جیسا کہ جان ویزلی صاحب نے ان کنگز وڈ اوراسٹافرڈ کے کوئلہ والوں رح م کیا تھا اور اس سے پیشتر وہ کانوال کو گیا اور اس نے کئی جگہوں میں گروہوں بیچ میں جو شفیلڈ کے بدمعاشوں کی برابر والے تھے منادی کی اور اگست مہینے میں جان ویزلی صاحب گیا تو اس نے ایک چھوٹی کلیسیا پائی اور اس نے بڑی خوشی سے قبول کیا سسبٹی ایک جڑ ہوئی جس سے اس نے بڑی خوشی حاصل کی اور بہت جماعتیں شروع ہوئیں جو کہ اس وقت سےآج تک شمار میں بڑھتی اورپھیلتی رہیں وہ تین ہفتے وہاں رہا اور کئی جو بہت آباد تھیں اس نے ایسی بڑی تاثیر سے ان میں منادی کی جو کہ آج تک قائم رہی اور مثل کانوال کے کسی جگہ میں میتھوڈسٹ کے طریقے ایسے طریقے جاری نہ ہوئے اورکانوال کے لوگ بےوفا نہ تھے جب کہ اس نے اپنا سب سے پچھلا سفر ان کے پاس کیا تو وہ ایسے خوش تھے کہ لوگ گاؤں اور گھروں میں سے اس کےدیکھنے کو آئے تھے۔اورسرگروہ فوج کے موافق وہ اس کو گاؤں گاؤں کی سیر کراتے تھے اور دوسرے شہر کلیسیاؤں کےپادری لوگ بھی ستائے گئے سنتابرین ان کا گرجا گھر گرایا گیا ااور ایک پادری اور تین اشخاص پکڑوائے گئے اور فوج میں بھیجے گئے اوربہترے پتھرائے گئے اور ان پر میل پھینکا گیا اور ہر طرح کی بد سلوکی سے وہ ستائے لیکن تو بھی ان کا نمونہ پرہیز گاری اور دینداری اور حلیمی میں بنا رہا اور فقط کانوال ہی میں نہیں بلکہ اور جگہوں میں بھی مجسٹریٹ صاحبوں نے پادریوں کو پکڑواکر فوج میں بھیج دیا اور اس وقت کے قریب جان ٹیلس صاحب اور طامس بیرو صاحب اس کام کے واسطے بھیجے گئے اسی اکیلے قصور کے سبب سے کہ وہ اپنے لوگوں کو توبہ کرنے کو بلاتے تھے۔اور جان ٹیلس صاحب کی بہادری برداشت کرنے میں مشہور ہے اور طامس بیرو صاحب اگرچہ اپنے دشمنوں سے نہ ڈرا تو بھی اس کا بدن بیماری سے ضیف ہو گیااور نوح کا نسل کے شفاخانے میں بھیجا گیا اور وہاں وہ ہر وقت خدا کا شکر کرتا رہا۔ اور بخار زیادہ ہوا اور اس نےفصد کھلوائی اور اس کا ہاتھ سوج کرکاٹا گیااس کےخدانے اس کی آزادگی پر مہر لگاکر اسے آسمان پربلا لیا اور اسٹافروڈ میں ہلڑ جاری رہے اوردال سال اوردالیسٹن وتبریزی اوباش لوگوں جوکہ ایک بڑےآدمی کےمزدور تھے اپنی خوشی سے میتھوڈسٹ لوگوں کے گھروں کو رات یا دن کو توڑ ڈالتے تھے۔ اور نقد اور جنس چھین لیا کرتے تھے اوراسباب خراب کیا کرتے تھےاور آدمیوں کو مارتے اور عورتوں بے عزت کرتے رہے اور انھوں نے کہا ہم ایک میتھوڈسٹ کو جو انگلینڈ میں مار ڈالیں گے۔اور اسی طرح بادشاہ کی بادشاہ کی دیانتداری اور فرمانبرداری رعیت آتھ مہینوں تک بدسلوکی کو برداشت کرتی رہی تب اخبار میں وہ بدنام ہوئے اور کئی منادی کرنے والوں نے بھی بد سلوکی سہی یہاں تک بعض زندگی بھر لنگڑے ہوئے اور بعض بلکل ہلاک ہوئے سنتادس ہامین صا حب کی اور شمس صاحب کی محنت کے سبب لوگ بہت ناراض ہوئے مگر یہ دونوں بھائی مذکور دینا کے آخر تک مشہور ہونے کے لائق ہیں۔
مبارک دونوں جب تک میری تصنیف ہے تب تک تمہاری شان قائم رہے گی۔اور ماہ اگست ۱۷۴۴میں ویزلی صاحب نے اپنے پچھلے واعظ آکسفرڈ و یورپین بیان کی اوروہاں چارلس ویزلی بھی موجود تھے اور اس نے روز نامہ میں اس واعظ کی بابت لکھاکہ میرے بھائی نے بڑی جماعت کے سامنے اپنی گواہی دی اور کہا کہ میں نےایسی سنجیدہ جماعت کبھی نہیں دیکھی کیونکہ انھوں نے بات بھی جانے نہ دی۔اور کئی کالج کے پریذڈنٹ صاحبان تمام وقت کھڑے ہو کر اپنی آنکھیں اس پر لگاتے رہتے اور ایسی درست تعلیم برداست کرسکتے تو اس کے واعظ کے ذریعے سے بڑی برکت ان پر ہوتی اور ویسٹبل جیمس لار نےاس کے پاس پہنچ کر اس کے واعظ تفسیر کی جس کو اس نے لفافہ میں بند کرکے فوراً بھیج دیا اور ویزلی صاحب نے آپ اسکی بابت یوں لکھا کہ میں ان آدمیوں کے خون سے بے گناہ ہوں میں نے اپنی روح کو بلکل بچایا اور اس کے کرنے بہت خوش ہوں اوراپنی تاریخ پر کہ جس پر سو(۱۰۰) برس پیشتر کے قریب ہوا اور دو ہزار خادم الدین اور چمکتی ہوئی روشنی ایک دم سے پہنچی ۔
لیکن میرے اور ان کے کہ بیچ کیا بڑافرق ہے؟ کہ وہ اپنے گھرو میں سے اور سارے مال میں سے جو وہ رکھتے تعھے جداکیے گئے مگر صرف انتانقصان اٹھاتا ہو کہ ہدر ایک جگہ سے منادی کرنے سے روکا گیا اور بھی عزت کے طور پر ہے کیونکہ مدرسوں نے مقرر کیا ہے کہ جب میری فرصت پیش آئےتو تو وہ اور کسی کو منادی کرنے کو بلائے گے اور اس کے واسطے مزدوری دیں گوے اور انھوں دو دفعہ ایسا ہی کیا اس وقت تک کہ میں مانے اپنے رفیق ہونے کی ازجات ان کو پھر دی پادری جیمس ارسکن صاحب اور پادری اور پادری جان ویزلی صاحب کے بیچ میں خط و کتابت ہوئیکہ جس کا ذکر بیان نہ آئے گا۔پہلا سالیانہ کانفرس بماہ جون ۱۷۴۴م کو بمقام شہر لندن جمع ہوا اور میتھوڈسٹ کلیسسیا انگلینڈ کے کئی جگہو ں پر لگائی گئی تھی بہترے پریچر جو کہ پیش گار اور مدد گار سے مشہور تھے ویزلی صاحب کے حکم کے بموجبکام پر مقرر ہوئے اور خادم الدین بھی دینِ حق کے شعلہ جلانے کے لیے لیڈر ہو کے مدد دیتے درہے اور اس کام چلانے کے لیے ویزلی صاحب نے انگلینڈ ملک کو کئی علاقوں میں جو کہ سرکٹ کہلاتی ہیں تقسیم کیا ہے اور ان میں لوگ بھیجے تھے جو کہ ان مقرر وقتوں پراورجگہوں کو بدل لے۔اور سپرنٹنڈنٹ یا حاکم اس کے ویزلی صاحبان تھے اور اس سالانہ کام میں ان کو اجہی فرصت ملی وہ آپس میں تعلیم اور دستوالعمل اور ہر ایک بڑی بات پر گفتگو کریں تاکہ ایک یہ بات بولیں اور ایک ہی دستور پر چلیں اور وہ جانوں کے موافق ترغیب ترتیب کرنے کے قانون ٹھہرا د یں اور آنے والے سال کے واسطے پریچروں کاکام بتلا دیں اور انھوں نے آپس میں صلاح کی کہ خدا کا کام کس طرح سے زیادہ پھیل جائے اور بڑھ جائےاور سب کام نہ کہ مقرر کیے ہوئے بندوبست کے مطابق بلکہ قدم بقدم حال کےلزوم کے مطابق چلایا جائےگا اور انھوں نے دنیا کی نجات کے واسطے کام کرنا سب سے بڑا عمدہ اور عزیز جاننا اور اپنی رائے اور اندیشہ اس سے چہوتی سمجھی جب کہ اس کانفرنسکی یادداشت سے معلوم ہوئی اور انھوں نے اسف وقت بھی سوچا کہ شاید ہمارے مرنے کے بعد یہ کلیسیا بڑی سے جدا کی جائے گی اور اس کی بابت دعا کے ساتھ باتیں کی اور یہ باتیں ٹھہرائیں کہ ہم اپنے مقدور بھر کوشش کریں گے کہ ایسا حال ہمارے گزرنے کے بعد کبھی نہ ہوئے مگر ہم بڑے انجام کے ڈر سے لوگوں کی جان بچانے کی فکر تا ابد نہ کھوئیں گے اور اس اور بات پر ویزلی صاحب اپنی عمر بھر قائم رہا فقط۔