جان ویزلی صاحب کے احوال
باب سوئم
اب جان ویزلی صاحب نے جارجیہ کےجانے کے واسطےتیاری کی جس جگہ کی بابت یہ فرمایا ہےکہ وہاں خدانے مجھے فروتن کیا اور میری آزمایش کی اور میرےدل کا حال مجھ پر ظاہر کیا۔الاّ قبل اس کے جانے کے اس کے دوستوں نے عرض کیا کہ مت جاؤ اور اس نے آہستہ اور کامل طور پر ان کو جواب دیا اگرچہ خطا کاروں نے اس کا ٹھٹھا کیا پر اس نے مختصر جوا ب دیا۔ایک یہ کہتا تھا ۔کہ یہ کیا ہے؟ کیاتو دیوانہ ہے؟ کیا تیرے واسطے کچھ اور کام مکتفی نہیں؟کہ توں ہوا کی چکی کا مقابلہ کرتا ہے اس کے میں ویزلی نے کہا کہ صاحب اگر بائبل راست نہیں ہے تو میں نہایت دیوانہ ہوں جیسا کہ آپ فرماتے ہیں لیکن اگر وہ خدا کی طرف سے ہے تو میں مدبر آدمی ہوں ۔
اور چارلس ویزلی صاحب بھی اسی وقت اپنے بھائی کی خلاف مرضی اس کے ساتھ جانے کے واسطے خادم الدین مخصوص کیا گیا۔ اورویزلی صاحب اپنی مشن کےتکلفات اور نفس کشی اپنی نجات اور دن کی مدد کے واسطےوسیلہ جانتے تھے اوراس کی چٹھیوں سے ظاہر ہے۔ کہ انھوں نے لکھا ہےکہ ہم اپنے دیس کو محتاج ہونے کےڈر سے نہیں چھوڑتے کیونکہ خدا نے دنیا کی خوبیاں بہت سی دی ہیں۔یہ نہیں دولت اور عزت کی گندگی اور کدورت حاصل کریں لیکن خاص مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی روں کو بچائیں اور خدا کے جلال کے واسطے زندہ رہیں ۔اس سے ثابت ہوا کہ وہ اپنی نجات کے لیے اپنے کام اور چال پر تکیہ کرکے بھروسہ رکھتا تھا جارجیہ اس وقت ایک نو آباد ملک تھا ،جس میں میٹھوڈسٹ کی جماعت بہت زیادہ تھی مگر ویزلی صاحب وہاں ایسے کام کے وسطے ادمید نہیں رکھتے تھے ۔پس ناامید ہو کر اس نو آبادی سے چلےسے گے۔ اور۱۷۳۲م میں پہلے بسنے والے انگلنڈ سے چلے گئے جن کاسردار جیمس اگلی تھا رپہ صاحب تھا۔جو اس نو آبادی کا امین ہوا اور سیوانہ شہر کی بنیاد ڈالی اور ۱۷۹۲م امیروں نے انگلیڈ کے بادشاہ کو عہد نامہ دیا اور جارجیہ اس سلطنت کا ایک حصہ بن گیا ۔ تب ویزلی صاحب نے اپنا کام شروع کیا ۔اور اس لیے کچھ تعجب نہیں کہ وہ تکلیف اور ایذا میں پڑکے ناامید ہوئے ہوں اور نوآبادی میں خاص کر ان کے فروغ میں اکثر لوگ جھگڑے اور بے صبری اور عجیب گوئی میں مبتلا ہوجاتے تھے جس کے باعث سے وہ حکومت کو پسند نہیں کرتے تھے اور یہ حال جارجیہ میں ہوا۔اوراگرچہ اگلی تھارپہہ صاحب اکثر اچھا گورنر تھا تو بھی اس ویزلی صاحب کو لائق عزت اور مدد نہ دی اور ویزلی صاحبان اگرچہ ارادے میں بلکل بے عیب تھےتو بھی اپنی خالی ضرورت کے موافق ہوشیار نہ تھے اور کلیسیا کی ھکومت کرنے میں ایسے ۔۔۔۔تبدیل تھے کہ ان کی خصوصیت کے سبب سے لوگوں نے خیال کیا کہ مذہب کسی کے دل کی خوشی کا باعث نہیں ہے ۔ اور وہ اس روشنی کے موافق چلتے تھے کہ ان کے پاس نہیں لیکن مسیح کی محبت سے ناواقف ہو کراس کے ذریعے سے لوگوں پر نقش نہیں کر سکتے تھے اور وہ ارادہ رکھتے تھے کہ آدمیوں نفس کشی کے سبب سے اپنی مانند مسیحی بنا دیں اور جس وقت یہاں پر تھے تو انھوں اپنے اوقات گزرانے کے لیےایک تھیک تدبیر کی اور پہلے اس جہازی سفر پر مرادی مسیحی ان کو ملے۔کیونکہ ۲۶ آدمی جرمنی جومرادی مسیحی تھے اس نوآبادی کے لیے جہاز پر جاتے تھے اور ویزلی گفت وشنید کرنے جرمنی زبان سیکھنے لگا۔اور ۔۔۔۔صاحب اور وہ ۔۔۔۔صاحب انگریزی زبان ان سے سیکھنے لگے اور اس سفر میں کئی ایک سخت طوفان آئے اور ان سے ویزلی صاحب موت سے بہت ڈر گیا جس سے اسے معلوم ہوا کہ میں موت کے واسطے تیار نہیں ہوں اور اس کو مرادی لوگوں میں موت کا خوف نہ رہنے بڑا تعجب ہوا۔اور ان کو کہا کہ میں ان کی چال چلن کی سنجیدگی بہت دیر سے دیکھ رہا ہوں۔کہ ان کی فروتنی اس میں ظاہر ہے کہ وہ اور دن کے واسطے وہ کافدم کرتے ہیں کہ جس سے انگریز لوگ انکار کرتے تھے۔اور وہ ان کے واسطے مزدوری نہیں لیتے تھے۔بلکہ انھوں یہ کہا کہ یہ کام ہماری دلی مغروری کو نیست کرنے کواچھا ہے۔اور ہمارے مسیح نے اس سے زیادہ ہمارے واسطے کام کیا ہے اور ورز ہر ایک طرح کی بے عزتی اور نقصان اور حلیمی دکھلاتے تھے۔یہادں تک کہ اگر وہ کبھی مارے جاتے تواٹھ کے خاموش چلے جاتے۔لیکن ان کے منہ سے کسی طرح کی گالی یانالائق بات نہیں نکلتی تھی ۔اور اس سفر میں ان کو فرصت ملی تاکہ وہ ظاہر کریں کہ مغروری اور غصہ اور کینہ سے کس طرح بچیے اورجب کہ وہ اپنی عبارت کے شروع میں اپورتھ کو جاتے تھے اس وقت سمندر کی لہروں نے جہاز کےبڑے پال کو پھاڑ ڈالا اور جہاز کو چھپایا اور تختہ بندی کے بیچ میں پانی بھر گیا گویا یہ کہ سمندر نے ہم کو جہاز سمیت نگل لیا۔تب انگریز لوگ بڑے شور سے چلانے لگے۔مرادی لوگ گاتے رہے۔اور بعد اس کے میں نے ایک سے پوچھا کہ کیا تم اس طوفان میں نہ ڈرےاس نے جواب میں کہا کہ خداکا شکر ہے کہ میں نہیں ڈرا۔میں نے پھر پوچھا کہ کیاآپ کی عورتیں اور لڑکے بالے نہیں ڈرتے تواس نے حلیمی سے جواب دیا کہ ہماری عورتیں اورلڑکے بالے موت سے نہیں ڈرتے۔تب ویزلی نے دیکھا کہ جو مسیحی دیندار ی دل سے ہو تو آمی دل کو ہر حال میں سلامت رکھتی ہے۔اوریہ ماہ فروری ۱۸۳۷م کو ایک چھوٹا جزیرہ جوآباد نہ تھا جہاز سے اترے ۔اور اس جزیرہ سے اگلی تھارپھ صاحب اسیوانہ کوروانہ ہوئےاوردوسرے دن ایک اسپاننگ برگ صاحب کی بابت یوں لکھا ہے کہ میں نے فوراً اس کی روح پہچانی اوراس نے اپنے چال و چلن کی اصلاح دریافت کی کہ میں پیشتر آپ سے کئی سوال پوچھتا ہوں اور اس نے سوال دریافت کیے ۔کیا تمہارے دل میں گواہی ہے؟ کیا خدا کی ورح تیری روح کے ساتھ گواہی دیتی ہےکہ تو خدا کا فرزند ہے ؟میں حیران ہوا اور جواب دینا نہیں چاہتا تھا تو اس یہ حال دیکھ کر پھر پوچھا کہ تومسیح کو پہچانتا ہے تب میں نے تھوڑی دیر ٹھہر کر جواب دیا کہ البتہ وہ دنیا کا بچانے والا ہے ۔اس نے کہا کہ سچ !لیکن کیا تو جانتا ہے کہ اس نے تجھ کو بچایا؟میں نے جواب دیا کہ میرا بھروسہ ہے کہ وہ میرے بچانے کے واسطے موا اور اس نے اس پر یہ ٹھہرایا کہ تو خود کو پہچانتا ہے میں نے کہا ہاں میں خود کو پہچانتا ہوں لیکن اب میں ڈرتا ہوں کہ یہ باتیں باطل ہیں۔
چارلس ویزلی صاحب شہر فیڈرک کا خادم الدین ہو گیا۔اور جان ویزلی گھر نہ تیار ہونے کے سبب جرمنی لوگوں کے ساتھ سیوانہ میں رہااوران کی روح اور چال چلن پر زیادہ غور کیااور ان کےساتھ بہت خوش ہوا کیونکہ اس نے اس دستور العمل بشپ کے مقرر کرنے اور مخصوص کرنے میں ان وقتوں کو جن میں بلکل شان و شوکت نہیں یاد کیا۔اور جب کہ اس نے سنا کہ چارلس ویزلی صاحب بہت تکلیف اور بیماری اور تنگی میں ہے تو اس کے بعد گورنر اگلی صاحب نے جو دیکھنے میں اس کا دشمن بن گیا تھا پھر دوستی کی اور اس کو انگلیڈ کو اپنوں کے پاس خبر لینے کو بھیجا۔چنانچہ ۱۷۳۶م وہاں پہنچ گیا اور اس مشنری کام جس میں وہ بہت سرگرم تھا ختم ہوا۔اورجان ویزلی صاحب سیوانہ کو واپس آیا کیونکہ وہ فیڈرک سے اچھا تھا اور وہاں اس نے دیسیوں کے واسطے منادی کرنے کا منادی کا موقع پا کر اپنے دوستوں سے صلاح کی کہ اپنا وقت سیوانہ کی کلیسیا کے واسطے فائدہ مندی سے کس طرح خرچ کرے؟اور انھوں نے ٹھہرایا کہ پہلے وہ سنجیدہ ہوں اور چھوٹی جماعت بن جائے اور التزام اور تعلیم اور نصحیت لینے اور دینے ہفتہ وار ایک دفعہ یا کئی مرتبہ جمع ہوں اور دوسرے یہ کہ ان چھوٹی جماعت کےواسطے ایسے لائق اشخاص چنے جایئں کہ وہ ہر ایک کے ساتھ گفتگو کریں اور وہ سب ہر اتوار کی شام ویزلی صاحب کے گھر میں جمع ہوں اور ڈاکٹر واہٹ ہیڈ صاحب کہتا ہے ہم اس میں کلاس مٹنگ اور پریر مٹنگ کاشروع دیکھتے ہیں۔اور شاید ویزلی صاحب نے مرادی لوگوں سے اس کی بابت کچھ سکھا تھا ۔اور یہ بھی اس کی دانست میں اچھا تھا کہ اس نے پیشتر ایسا خیال اور عمل کیا اور اس کی روح کی خاصیت نہایت معمولی تھی اور وہ مستعد تھا اور اس نے سب کچھ جو کہ آدمیوں کی تربیت اور نجات کے لیے ترقی کا باعث تھا ۔پسند کیا اور ایک سکول مقرر کیا ۔اور اس میں خود ویزلی صاحب نے لڑکوں سے دریافت کیا اور لوگوں کے گھروں اور کلیسیا میں باز پرس کی اور اس کے گھر میں لوگوں کےواسطے سنجیدہ دعا ہواکرتی تھی اوروہ ہمیشہ ہر طرح کے اچھے کاموں مشغول ہوتا رہتا تھا تاکہ ہر طور سے اپنی خدمت کا پورا کرے مگر اس پر بھی اس کی روحانی حالت ویسی ہی رہی اور اس ایک مرادی کی سلامت موت کے وقت ایمان کی قدرت دیکھی اور اس گرجنے اوربجلی کے طوفان سے معلوم کیا کہ وہ خدا کا فرزندنہ تھا۔اس کے انداز اب تک مخفی ہیں اور اس وقت اس نے کئی دیسی آدمیوں کے ساتھ جو کہ سیوانہ کو آئے تھے گفتگو کرکے سوچا کہ ان پر منادی کرنے کے واسطے اب راہ کھلی ہے۔اور اس نے بہ چاہاکہ ان کے مشنری کام کرنے کے واسطے جائےمگر گورنر صاحب نے اس پر اعتراض کیاکیونکہ سیوانہ کے واسطے کوئی اورخادمِ دین نہ تھا۔اور اس کے دوستوں نے بھی یہی خیال کیا کہ وہ یہاں سے نہ جائےکیونکہ نو آبادی کے لیے بہت ضرور ہے پس وہ سیوانہ ہی میں بہت عزت دار ہوتا گیا او راخیر انجام اس کا یہ ہوا کہ اس نے جارجیہ کوبلکل چھوڑدیا اور نے کسی کے ساتھ شادی بندوبست کرنا چاہا۔مگر بعد اس کے اس نےان سے صلاح لی اور خود بھی خیال کرکے کہ یہ شادی اس کی بہتری کا باعث نہ ہوگی اس کا بندو بست نہ کیا تب اس عورت کے رشتے داروں اور اقربا نےاس سے بدسلوکی کی اور نالش دائر کی اور اگرچہ وہ اس جھگڑے میں بلکل بے عیب تھا تو بھی کئی ایک آدمیوں نے اس کے بد گوئی اور اس وقت وہ جارجیہ سے انگلیڈ کو روانہ ہوا اور جب وہ سیوانہ میں تھااس کی منادی مسیح کے کفارہ میں ناقص ہوئی اور حالانکہ وہ خاصیت میں سینہ صاف اور ہر دل عزیز تھاتو بھی وہ الہٰی قدرت کے ذریعے سے نئے سرے پیدا ہوا۔جس پیدائش کا پہلا پھل حلیمی اور محبت ہے۔اور ویزلی صاحب نے اپنے جملہ تکلفات میں اپنے دوستوں سکنہ انگلیڈ اور امریکہ سے چند چٹھیاں تسلی آمیز پائیں اور بہترے آدمی جارجیہ میں ہین رہتے تھے جو ویزلی صاحب کو ان کی نیک بختی کے سبب بہت عزیز اور اور معزز جانتے تھے کیونکہ وہ ہر ایک اتوار کوپانچ چھ دفعہ مختلف قوموں کے آدمیوں کےواسطے مختلف زبان یعنی انگریزی اور فرانس میں منادی کرتا تھا۔اور اپنے تمام اوقات نیک کام کرنے میں گزرانتا تھا ۔اور تمام اپنا مال و متاع تقسیم کردیا یہاں تک کہ اس کے گھر میں ایک شلنگ تک باقی نہ رہا اور جب تک وہ امرکہ میں رہا اس کی طبیعت تندرست رہی اور اس نے ہر موسم کے خطروں کو برادشت کیا اور موسم گرما میں کبھی کبھی اس زمین پر سوتا اور سردی اس کے بال زمین پربرف سے بند رہ جاتے اور وہ ماہ فروری ۱۷۳۸م میں لندن میں گیا اوراپنے کاموں پر جو اس نے تکلیف اور محنت سے امریکہ میں کیے تھے خوشی سے خیال کیا اور اس نے اپنے روزنامہ میں یوں لکھا کہ بہت سے سبب ہیں جن سے میں خدا کا شکر گزار ہوں۔کہ میں اپنے ارداہ کے برخلاف غیر ملک میں بلایا گیا اور خدا نے مجھے وہاں فروتن کیا اور میری آزمائش کی اور جو کچھ میرے دل میں تھا مجھ پرظاہر کیا اور اسے مجھے اس طرح سکھلایا کہ میں آدمیوں سے خبر دار ہوں اور اس قدر فرصت دی کہ میں اس کے بندوں کو دیکھوں اور پہچانوں خاص کر ان کو جو ہرن ہتھ کی کلیسیا میں ہیں اور وہ اب بھی مجھے فرصت دیتا ہے کہ میں مقدسوں کی تصنیفات کو ارمنی اور اسپانش اور فانی زبانوں میں پڑھوں جن زبانوں کو میں نے جارجیہ میں سکھا تھا اور تمام جارجیہ والوں نے خداد کا کلام سنا اور بعض نے اسے قبول بھی کر لیا اور روحانی طریقے میں دوڑنے لگےاور وحشیوں اورامریکہ کے متوحش لوگوں پر منادی ہوئی اوراکثر لڑکوں نے سکھا ہے کہ کس طرح وہ خدا کی خدمت اور اپنے پڑوسیوں کی مدد کریں اس نوآبادی کے امین سے اس کی روحانی حالت دریافت ہوسکتی ہے اور اگر وہ چاہیں تو اس کی بنیاد آنے والی پشتوں کی سلامتی اورخوشی کے واسطے زیادہ قائم اور مضبوط کرسکتے ہیں۔