پادری جان صاحب کا احوال
باب دوئم
اس وقت جان ویزلی صاحب نے اَکس فرڈ میں دل و جان سے مذہب قبول کیا اورتفید سے اس کا اقرار کیا کہ ہم راستباز ہونے کے سبب اور مطلب کو ہوشیاری سے دریافت کریں کیونکہ وہ مذ ہب کے سبب سے ایسا مشہور ہوا کہ لوگوں نے اس کا ٹھٹھااڑایااور تکلیف بھی دی مگر اس نے اسی وقت خود کو باعنقریب مسیح نہ سمجھا کیونکہ یہ بات تنزل کی ٹھوکر کا باعث تھی جیسا کہ اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ اگر کوئی ظاہری طور پر دیندار ہے تو وہ حقیقی طور پر بھی دیندار ہےاگرپولس رسول وہاں پر ہوتا تو لوگ اس پر بھی الزام لگاتے کیونکہ اس نے کہا ہے کہ میں سب گناہ گاروں میں بڑا گناہ گار ہوں حالانکہ وہ موسیٰ کی شریعت کے موافق بے عیب تھا۔ویزلی صاحبان اَکس فرڈ میں بانسبت ثالوث کے نہ صرف اچھی حالت میں بلکہ اور طرح کی دینی تجربہ کاری رکھتے تھے ۔اگر ہم انجیل کے مطابق فکرِ دین کریں تو ہم کو معلوم ہو گا کہ اگرچہ وہ آدمیوں کےنزدیک بے عیب اور مقبول تھےتو بھی خدا کے سامنے محتاج تھے اور ان دلی تبدیلیوں کے جو کہ مسیحی مذہب کے ذریعے کی جاتی ہیں وفا دار اور چھوٹی باتوں میں دیانت دار تھے جس سبب سے خدا نے ان کو سچی دولت دی اور انھوں خدا وند کو اپنے سارے دل سے ڈھونڈا اور آ خر اس کو پیایا ۔بشپ ٹیلر صاحب کی تصنیف میں پاک ارادہ رکھنے کے بیان میں ایک بات ہے جس کے پڑھنے سے ویزلی صاحب قائل ہوا کہ جیسا فعل میں درست اور دیانت ہوتے ہیں ویسا ہی دل میں پاک ہونا واجب اور ضرور ہے چنانچہ ایک دیندار آدمی سے دوستی رکھ کر اپنی تمام گفتگو سے آراستہ کرنے لگا اور نئی زندگی کا شوق شروع کیا وہ ہفتہ وار عشائے ربانی لیا کرتا اور گنا ہ کی ہر بات اور ہر فعل کو ہوشیاری سے چھوڑ دیا کرتا لیکن وہ جانتا تھا کہ جس کے واسطے وہ اتنی کوشش سے ڈھونڈتا تھا وہ مجھے اس وقت تک نہیں ملی اور وہ غلطی جو اس کے دل میں پڑی ٹیلر صاحب اور لا صاحب کی کتابوں سے سیکھی تھی اور وہ غلطی یہ ہے کہ اس نے راستباز ٹھہرنے اور پاکیزہ ہونے میں فرق نہ سمجھا یا کہ اس نے یہ سمجھا کہ پاکیزہ ہونا راستباز ٹھہرے جانے کا ایک باعث ہے اور اس نے اس وقت تک تعلیمِ رسول نہ سیکھی تھی اور وہ نہیں جانتا تھا کہ بے دین لوگ توبہ کرکے بخشش کے طور راستباز کیے جاتے ہیں خاص اس شرط پرکہ وہ مسیح پرایمان لائیں اور ایمان لانے کے بعد آدمی ہر طرح کے اندرونی اور بیرونی گنا ہ کی طرف سے مر جاتے ہیں تاکہ وہ جو راستباز گنا گیا گناہ کی حالت میں زیادہ نہیں رہ سکتا مگر یہ بہت فائدہ مند ہے کہ ہم اس کے دل کی قید کے درمیان اس کی تمام خرابی دریافت کریں جو کبھی جاتی نہ رہےبلکہ اس کے سبب سے اس کا چہرہ روشن ہے اور آخر عمر تک اس دل خوش رہا۔
ٹیلر اور لاصاحبان کی تصنیف کی ہوئی معمولی کتابوں کے نتیجے میں ویزلی صاحبان کے کام اور دستورات میں جلد ظاہر ہوئے کیونکہ کہ اس نے اپنے پیشے کی طالب علموں کی تربیت زیادہ سختی اور تربیت سے کی یہاں تک وہ ان سے زیادہ دیانت دار معلم تھا۔ اور اس نے حسبِ مقدوراپنے طالب علموں کی ترقی کرنے اور ان کو اخلاقی کام اور دستور سکھانے اور ان دینی تعلیم کےدرست کرنے میں ازبس کوشش کی اور اس کالج میں اس کےتربیتی دستور یہ ظاہر ہوئےکہ اس نے اہلِ مدرسہ کو بہت سویرے پلنگ سے اٹھنے کا حکم دیا اور ان کے پڑھنے کے واسطے بس کتابیں مقرر کی اور ان کے تمام چال وچلن ایسے درست ہو گئے جو ہرگز حکم عدولی نہیں کرتے تھے اس بات پر بعضوں کے دوست ناراض ہو گئے اوروں کے دوستوں نے اس کو مشکور چتھیاں بھجیں اور بعض طالب علموں نے خود اس کی تعریف کرکے کہا کہ ہم اس کے قرض دار ہیں کیونکہ جو کچھ ہماری دین داری ہے اسی کی کوشش سے ہم کو حاصل ہوئی۔اور اس نے ہن کو علم دار کیااور ہماری سب برائیوں کو جو کالج میں سب کہی جاتی تھیں روکا۔اس وقت یہ چھوٹی جماعت اپنا کام بڑھانے لگی۔اورجب جان ویزلی صاحب اس میٹھوڈسٹ جماعت میں پہلے شامل ہوا تو اس کے شریکوں نے اس جماعت کا سب بندو بست اس کے ہاتھ میں سونپ دیا۔اور جان ویزلی صاحب نے اپنے ورز نامچہ میں اس کی بابت یوں لکھا ہے کہ ماہ نومبر ۱۰۲۹م اکسفرڈ کے چار جوان صاحبان یعنی جان ویزلی صاحب رفیق لنکن کالج میں اور چارلس ویزلی صاحب کرایسٹ چرچ طلبا اور مارگن صاحب امین کرائسٹ چرچ طلبہ اور کرک من صاحب طالب علم مرٹن کالج کے ہفتہ وار شام کے وقت یونانی انجیل پڑھنے کے لیے جمع ہونے لگے اوراس کے دوسرے سال ویزلی صاحب کے تین طالب علموں نے اس میں شریک ہونے کی اجازت مانگی اور کے بعد چارلس ویزلی صاحب کے ایک طالب نے بھی وہی اجازت چاہی اور ۱۷۲۲م اور۱۷۳۲م میں رینگم صاحب کو بین کالج کا اور بروٹن صاحب ایک سینٹر کالج کا ان کےشمار میں آئےاور ماہ اپریل میں کلیٹن صاحب مع اپنے دو(۲) تین (۳) طالب علموں کے ان میں شریک ہوئے اور اس وقت کے قریب جیمس ہردی صاحب اور جارج واہٹ صاحب نے ان میں شریک ہونے کی اجازت پائی ۔ مارگن صاحب اول اس چھوٹی جماعت کے راہنما ہوئے کہ اَکسفرڈ میں جیل خانہ کے پاس جایں اور قیدیوں کو نصحیت اور تعلیم فرمائیں اور انھوں نے اس وقت سے یہ ارادہ کیا کہ ہر ہفتے میں دو(۲) تین (۳) گھنٹے بیماروں کی ملاقات اور غریبوں کی مدد کرنے میں جہاں پر گنے کا خادم الدین ۔۔۔۔۔۔وہ ایسا نیا کام تھا اور بعضوں کے نزدیک دستور العمل کے ایسا برخلاف کہ جان ویزلی صاحب نے اپنے باپ سے اس پر اصلاح لی اور اس نے اسے چٹھی میں ایسا جواب دیا کہ لوگ اس کی تعریف کرتے تھے یعنی اس نے انھیں بڑی خوشی سے اچھے کام کرنے کی اجازت دی اور خدا کا شکر کیا کہ اس نے اس کو ایسے بیٹے بخش دیئے کہ وہ اَکسفرڈ میں فضل اور بہادری پا کر گناہ گار دینا اور شیطان کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اس نے انھیں دلاوری دے کر کہا کہ خدا کے نام سے خدا کی بتلائی راہ میں آگے جاؤ۔ اور اس نےیہ اصلاح دی کہ جیل خانہ کے خادم الدین سے مشورہ کرو۔اور بشپ صاحب سے اجازت مانگو ۔چنانچہ انھوں نے جلد یہ اجازت پائی ۔ لیکن یہ ان کو اس قدر کافی نہ تھی ۔ کہ وہ ان کو شیر گرم والوں کے دانت سےیا غصہ فریبی دلوں کی ملامت سے بچائےاور اس وقت اس جماعت کا کوئی شریک اتنی بہادری اور ایمان نہیں رکھتا تھا کہ لعن اور طعن ، ٹھٹھا اور رروکا جو لوگ ان کے برخلاف کرتے تھے ۔برداشت کرے اور جو کوئی ان کامقابلہ کرنے کے مشہور اور بہادر لوگ رکھتا تھا اس جماعت کو اس نے چھوڑ دیااور ویزلی صاحب نے انپے سے پھر اصلاح دریافت کی۔جس کا اس کتاب میں نقل کرنے کے لائق ہے مگر تحریر نہ ہوگا۔
وہ اس طرح دلیر کیے جانے کے بعداپنی راہ میں فروتنی سے چلے گئے۔اور غریبوں کے واسطے زائد روپیہ اورگاہے بگاہے اپنی ضروری نقدی بھی خیرات دیتے رہے اور زیادہ کوشش کی کہ اپنے ہم درسوں کے دلوں پر دینی تاثیر کریں جیسا کہ وہ بے علموں اور غریبوں اور بیماورں کے دلوں پر تاثیر کرتے تھے جب لوگ ان کےدینی اور کائق کاموں کو برخلاف فریادکرتے تھے ۔ویزلی صاحب نے فروتنی سے ایک عذر ایسا لکھ دیا کہ جس سے معلوم ہوا کہ دینی تجربہ کاری یونیورسٹی میں اس وقت بہت کم تھی اور جیسا اس کے ایک تذکرہ کرنےوالوان نے خیال کیا ویسے ہی پم بھی سوچتے ہیں ۔کہ ایسے نیک اور خیر اندیش کام دوسری طرح کے بدلے کے لائق ہیں۔اور اگر کالج کے حامی اور مدرس ان میٹھوڈسٹ کے ٹھٹھے اور لعن طعن سے بازرہ کر ان کے نمونے پر چلتے تو ان اور نیز دنیا کے واسطے زیادہ مفید ہوتا۔
ان کے بڑے بھائی سموئیل نے بھی اپنی نصیحت بذریعہ ایک چھوٹی اور موثر چٹھی کے ان کو قائم کرنے کو دی۔اس کے بعد بیماری اور صلیب اٹھانے کی درستی شمار اس شراکت کے شریکوں میں جو نیک کام کرنے میں مستعد و سرگرم تھے کم ہوئی اور باوجود اس بات کےکہ جان اور چارلس ویزلی صاحب کےلیے چھوڑے گئے تو بھی سرگرم اورچالاک اور قائم رہے اور ہم تعجب کرکے کہتے ہیں کہ یہ خدا کا فضل اور برکت ہے کہ جو ا ن کو وہ عمدہ اور سخت کام کرنے کے واسطے تیار کرتا ہے اور اس حالت میں ہو کر ان کے دل میں اس عجیب اور اچھے عناصر پر قائم ہوئے۔اور اس نے اپنے بھائی سموئیل جس نے یہ خیال کیاتھاوہ حدسے زیادہ نیک کام اور دینی تجربہ میں ہیں یوں بیان کیا۔
اول یہ میں اپنی زندگی کے انجام کی بابت یہ قانون بیان کرتا ہوں کہ میں حد سے زیادہ خوش نہیں ہو سکتااس لیے کہ حد سے زیادہ پاک نہیں ہوسکتاہوں۔اس سے یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ میں اپنی آنکھیں برابر اپنی عمدہ بلاہٹ کی صلح پر لگاتا ہوں۔اوراپنے تمام خیالات الفاظ اور کام اس انجام پر یعنی پاک ہونے پر لگاؤں۔
دوئم اپنی زندگی کے انجام حاصل کرنے میں مقرر کیے ہوئے وسیلون کی بابت میں یہ قانون مقرر کرتا ہوں کہ میں مقدور بھر ان وسیلوں کو استعمال میں لاؤں وہ چیزیں آپ میں مجہول مطلق ہیں لیکن اگر وہ میرا نقصان کریں وہ میرے واسطے مجہول مطلق نہیں بلکہ خود مجھے اس سے بلکل پرہیز کرنا چاہیے۔اور اس نے دیندار ہونے کی بابت حد سے زیادہ اپن ماں کی منت کی کہ وہ ہر ایک بات میں وہ غافل تھے بتلا دےاوراس کے گھر کے لوگ ان کی بابت فکر کرتے تھےکیونکہ لوگ کالج اور جگہوں میں ان کے کاموں کی متعجب تھے اور کبھی اس کے روکنے کا ارادہ نہیں کیا اس لیے ان کا باپ اپنے سفر لندن سےآکسفرڈ کو بڑھا اور ان کو دیکھ کر خوش ہواور اس نے اپنی بیگم صاحبہ کو یوں لکھا کہ میں اپنے بیٹوں کی روشنی دین دیکھ کر اپنے سفر لندن کا عوض پا چکا۔اوران کی چٹھیوں سے معلوم ہوا کہ اگرچہ وہ نیک کام کرنے میں بہت سرگرم تھے تو بھی اپنے کام اور احکام بجالانے کو نجات کا باعث جانتے تھے ۔اس کے بعد اس نے سچ جانا کہ میں اس حالت میں جو کہ انجیل کے مطابق مسیحیوں کا حق ہے نہیں ہوں اوربہت حیران ہوا کہ وہ محبت اورکامل خوشی اورمیل جس کے واسطے اتنی بڑی کوشش سے متلاشی ہوا۔اور اس کے حاصل کرنے کو خدا کے ہر ایک فرض اور حکم کو بجا لایا جو خدا کے نزدیک مطمئن نہیں اور کبھی وہ سوسائٹی اور کلیسیا کے دستور العمل کو ظاہرداری سے مانتا تھا اور اس کے سبب سے وہ بہت پریشان اور اداس ہوا یہاں تک کہ وہ نہیں جانتا تھا کہ خوشی اور خرومی کی راہ کون سی ہے اس نے اس وقت اپنی ماں کو ایک چٹھی لکھ بھیجی جس سے معلوم ہوا کہ وہ ایسی عجیب فکر میں سرخوش متلاشی تھا۔کہ اس کی راہنمائی اور دستگیری بھی اس کی دانشمندی کے قابل نہ تھی کہ اس کی زخم ہوئی اور فکرمندروح اپنے کام پر بھروسا رکھنے سے کنارہ کرکے اپنا بوجھ مسیح کی صلیب تلے اٹھا ڈالے ۔
ویزلی صاحب یوں فرماتےہیں کہ میں ایک ہی دلیل کے باعث پاک ساکرامنٹ کی بابت تمہاری تعلیم قبول کرتا ہوں اور وہ دلیل یہ ہے کہ اگر ہم یقین کریں کہ مسیح کا جسم کس طرح سے ساکرامنٹ میں موجودہوتا تو ہم کو سمجھنا چاہیے کہ یا تو وہ روٹی اور مے کے ساتھ موجود ہے یا مے اور روٹی بلکل بدل کر مسیح کا بدن بن جاتی ہےلیکن میں یقین کرتا ہوں کہ مسیح کی الوہیت بے شک پاک ساکرامنٹ لینے کے وقت ہمارے ساتھ ایسی مستمل ہے جیسا کہ گویا ایمان لانے والوں کے ساتھ ہوتی ہے لیکن میں اس متفق ہونے کے عجیب طریقے دریافت نہیں کرسکتا کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ باطنی ترقی کرنے والا وسیلہ ان پر جو بے سوچ رہتے ہیں تےتاثیر نہیں کرتے تو مجھے کچھ تعجب نہیں کہ صرف لائق لینے والوں کو یہ برکتیں مذکور ملتی ہیں اور نے اپنے اس جلیل مضمون کا ایسا بیان کیا تھا مارگن صاحب اورمیرے بھائی نے لائق تاثیر پائی اور میں نے بھی اپنی عقل آپ کی تعلیم کو قیمتی جانالیکن اپنے دل میں تاثیر پائی اس کا کیا سبب ہے صرف یہ کہ دل جسمانی ہوا کیونکہ جسمانی فہم ان سچائیوں کو جو روح سے دیکھی جاتی ہیں دریافت نہیں کرسکتا ۔لیکن میں ان نوشتوں کو جن کو خدا نے اس مقصد کے لیےدیا ہے اپنے پاس رکھتا ہوں اور بہت سی اور کتابیں جن کے تصنیف کرنے کے واسطے خدا نے آدمیوں کو فضلیتیں دی ہیں اور جن کے ذریعےسے میں کتاب مقدس کو میں سمجھ لیتا ہوں میرے پاس موجود ہیں اور مجھے ان کے پڑھنے کے لیے فرصت نہیں ملتی ۔اسےادپنے دل پر لگاؤں ۔مجھے دعا عام اور دعالوشیدہ مانگنے کی ہی فرصت ملتی ہےاور سب سے بہتر یہ ہے کہ میں ہفتہ وار ساکرامنٹ لیتا ہوں لیکن میں کیا کروں یہ برکتیں میرے واسطے کامیاب ہوئیں کہ میں ان کے ذریعے سے وہ مزاج جو مسیح یسوع کا تھا حاصل کروں کہ میں اس میں روز روز زیادہ مشغول رہوں پس جاگ جو تو سوتا ہے۔کیا ایک ہی خدا نہیں اور ایک ہی روح القدس نہیں ؟ کیا ہماری بلاہٹ کی ایک ہی امید نہیں ؟اور اس امید کے لیے ایک ہی راہ نہیں ؟تب مجھے بھی دنیا ترک کرنا چاہیے اور یہ وہی کام ہے جو میں کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی محبت اس دنیا سے کھینچ کر ایک پر جو اس سے اچھا ہے لگاؤں لیکن کس طرح سے سب سے چھوٹی اور اچھی راہ کون ہے ؟ کیا یہ نہیں کہ فروتن ہوں فی الحقیقت فروتن ہونا اس کی طرف کو لمبا قدم رکھنا ہے لیکن پھر سوال پیش آتا ہے کہ میں کس طرح فروتن ہوں؟فروتن ہونے کی ضرورت کو اقرار کرنا فروتن ہونا نہیں ہے ۔
اگر آپ ہر جمعرات صرف اتنا وقت جو آپ نے پیشتر علم سکھلانے کے واسطے ٹھہرایا تھا ایسے کامو ں کے واسطے مقرر کر دیں گے تو میں جانتا ہوں کہ بے فائدہ نہ رہے گا ۔جب کہ میں دیکھتا ہوں کہ آدمی بہت جلد مر جاتے ہیں اور بہت آہستہ روحانی بہتری کو صاحل کرتے ہیں تب سوچتا ہوں کہ شاید وہ اپنی اپنی زندگی کی تیاری حاصل کرنے سے پیشت مرجاتے ہیں کیونکہ میں اگر جانتا کہ چاندی کی ڈوری قطاًکھولی نہ جائےاور حوض چرخ ٹوٹ نہ جائے تو بھی اتنے بڑے کام کے واسطےکتنی چھوٹی فرصت ہوتی ہے تو چالیس(۴۰) برس بانسبت ابدیت کے کیا ہیں؟ اگر میں اور آدمیوں سے زیادہ فضلیت پا کر ان باتوں کی بابت دور اندیش ہوتا تو مجھے یہ کیا چاہیے۔
؎ میں جاتا ہوں اپنی قبر کو
جہاں نہ حمد نہ تجھے مدد ہو
میں موت کے دریا میں ڈوب جاؤں گا
کیا رحم کیا معافی پاؤں گا
بچا اب مجھے جب تک جیتا ہوں
آندھی کو روک کہ میں پناہ پاؤں
تو مجھ کو رحمت اب دکھلا
اے قدرت کے خد
اور اس نے مرادی لوگوں سے نہیں سکھا کہ میں سچا مسیحی نہ تھا کیونکہ ہم ان باتوں سے معلوم کرتےہیں کہ وہ خود کو مسیحی درجے سے پیچھے سمجھتا تھا ۔ وہ اپنی چٹھیوں غلام کی روح کو جس سے وہ ڈرتا تھا دکھلاتا تھا اور معلوم ہوا کہ وہ لے پالک ہونے کی روح کا جس سے وہ آبا اے باپ پکار پکار کہتے ہیں محتاج تھا ۔ ۱۷۳۲م میں ویزلی صاحب نے لندن میں جا کر دیندار اور معتبر اشخا ص سے دوستی کی اور پھر اس نےدو سفر اپورتھ کے کیے اور اس پچھلا سفر اس مطلب پر تھا کہ ایک اور مرتبہ ویزلی خاندان جمع ہوئے پیشتر اس سے کہ موت کے باعث جدا کیے جاویں یہ سفراس نے پاپیادہ کیے اس نظر سے کہ خیرات کے واسطے روپیہ بچاے اور محنت کا دستور لگاے اور ہمیشہ اس نے ان سفرون منادی کی کہ جس سبب سے ہم اس کو گشی واعظ کہتے ہیں ۔اور دوسرے سال وہ پہر پورتھ اورآکس فرڈ ااور نیز اور دو(۲) تین (۳) شہروں کو گیا۔لیکن اس کی غیر حاضری کا آکس فرڈ کی میٹھوڈسٹ جماعت کے واسطے بڑانتیجہ نکلاکیونکہ اس کے شریک ٹھٹھا اور ملامت کرنے سے ڈر گے اور سر کی غیر حاضری ہونے کےسبب اپنے قانون کے تفید کو چھوڑنے لگے تب اس نے اپنے باپ کو چٹھی میں یہ خبر بھیجی کہ پچیس(۲۵) آدمیوں سے کہ جو ہفتہ وار پاک ساکرامنٹ لیتے تھے صرف پانچ(۵) قائم رہے ہیں الآ ویزلی صاحب کی دلیری کم نہ ہوئی یعنی وہ بر وقت واپس آنے اور اور اس نقصان کے درست کرنے کے واسطے زیادہ کوشش اور محنت کرنے لگا اوراس سال کے آخر میں وہ جسمانی اور فہمی زیادہ پرہیز گاری کے سبب ایسا سخت بیمار پڑا کہ اس کا پھیپھڑا پھٹنے لگا اس کی حالت ایسی تھی کہ اس کے سب دوست ڈر گئے۔الاّ اس کی بیمار طبیعت پر غالب آئی اور وہ بیماری کے سبب سے آسمانی چیزوں کی تلاش میں زیادہ تیز اور چالاک ہوا اور نئے سرے سے کامل پاکیزگی کو ڈھونڈااور اپنے ہم جنسوں کی نجات کے واسطےسعی کرنا شروع کی اور اس وقت وہ بڑے افسوس اور آزمائش میں پڑا اور اور اس کے باپ نے دوراندیشی سے چاہا کہ اپنے پرگنے کے لوگوں کی روحانی تعلیم دینے کا بندوبست اچھی طرح سے کرے۔اور لوگ بھی جان ویزلی کواپنا خادم الدین بنانا چاہتے تھے ۔ اوراس کے بھائیں نے بھی یہی چاہا کہ وہ اپورتھ کا پادری ہو کر اپنے خان دان کے واسطے رزق بچائے چنانچہ اس کے باپ نے چٹھی میں اصلاح دی کہ وہ اپورتھ کی کلیسیا کے روز گار کے عرض کرے۔
جان ویزلی صاحب نے یہ سوچ کر کہ آکس فرڈ میں وہ خدا کے واسطے زیادہ کام کرے کیونکہ خدا نے اس کو اس جگہ ٹھہرایا تھا ۔اس نے اپنےباپ کی درخواست قبول نہ کی ۔اور اس کے باپ نے ایک دوسری چٹھی لکھ بھیجی ۔اور۔۔۔۔سموئیل نے بھی سخت چٹھی لکھی جس میں بھی یہ مضمون تھا کہ اپورتھ کا دآنا تم پر فرض ہے ۔کیونکہ تم خادم الدین مقرر ہوئے۔اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم اپورتھ میں بانسبت آکس فرڈ کے خدا کی بندگی اور اپنے نجادت کے کام برابر نہیں کرسکتے چنانچہ جان ویزلی صاحب نے ان باتوں کے جوا ب میں پھر لکھا کہ میں آکس فرڈ کی بانسبت کسی اور جگہ پر اپنا کام اتنی اچھی طرح سے نہیں کر سکتا ہوں اور یہاں میرے دوست ہیں اورکتاب کے مطالعہ کرنےکی بھی مجھے فرصت نہیں ملتی ۔اور اپو رتھ میں دو ہزار آدمیوں کو تعلیم دینے اور خبر داری اور نگہبانی کرنے کےقابل نہیں ہوں ۔اور جیسا کہ اس کے بھائی سموئیل اس کے خادم۔۔۔۔ الدین ہونے پر خیال کیا ویسا اس نے خیال نہ کیا ۔اوراس رائےمیں وہ بشپ بھی جس نےاس کو خادم الدین مقرر کیا تھا شامل تھا تو اس خط وکتابت سے ہم ویزلی صاحب کی حالت دریافت کرسکتے ہیں ماہ اپریل ۱۷۳۵م جان ویزلی صاحب کے باپ نے وفات پائی وہ ظاہراً عرصہ سے اپنی موت کے واسطے تیار ہو جاتا تھا اور اس کے آخری وقت جان اور چارلس اس کے دونوں بیٹے اس کی تسلی کرنے کے لیے حاضر تھے وہ موت سے ڈرا اور کبھی کبھی خداکی سلامتی اور شادمانی پڑی ۔۔۔۔جسمانی دردروکے گئے اورجب وہ درد پھر آیا تو اس پر غالب ہوااور جب ۔۔۔۔ اس کی زندگی جاتی تھی تو بیٹے جان نے پوچھا کہ کیا آپ نے آسمان کے نزدیک نہیں ہیں اس نے امید و شاد مانی سے صاف جواب دیا کہ میں آسمان کے نزدیک ہوں تب جان نے اس کےواسطے دعامانگ اے خدا کے ہاتھ میں سونپ دیا تب ان کی ماں نے ان سے کہا کہ تم سب کچھ کرچکے کیونکہ یہ اس کی پچھلی باتیں تھیں اور وہ ایسی سلامتی اور خاموشی سے سو گیا تھا اس کے بیٹے دیر تک شک میں رہے کہ آیا وہ رخصت ہوا یا نہیں اور اسں کی بی بی نے کچھ تسلی پائی اور سوچا کہ خدا ے میری دعا سنی کہ میرے خاوند کوآسانی سے وفات دی اور اس نے موت کے وقت ایمان کو صاف سمجھا تھا اور اس کے بیٹے بھی اس وقت ایمان اس کے ایمان کی بابت زیادہ تر واقف ہوئےاور اس سال کے بیچ میں اس نوآبادی جارجیہ کے امین نے ارادہ کیا کہ اس ملک میں خادم ادلدین کو بلاوے تاکہ وفہ یہاں کے باشندوں کو روحانی تعلیم دیں اور متوحشون سکھلاکر دین میں داخل کریں چنانچہ جان ویزلی صاحب اور کئی ایک اس کےدوستوں کو ان کی سر گرمی اورنفس کشی جکے سبب سے اس کام کےلیے پسند کیا سو ویزلی صاحب نے کچھ عرصے بعد اپنے رشتہ داروں سے اصلاح لے کر قبول کیا اور اگرچہ اپورتھ کے جانے واسطے کبھی آکس فرڈ کو نہ چھوڑا مگر اس نے مشنری کام کرنے کے واسطے جو بہت محنت اور نفس کشی سے کیا جاتا ہے آکس فرڈ ہی چھوڑ دیا کیونکہ اس نے سوچا کہ امریکہ میں خدا کے لیے بہت زیادہ نکام کرسکتا ہوں اور اس نے یہ بھی خیال کیا تھا کہ کوشش کرنی اور تکلیف اٹھانی اوراس کی کمالیت حاصل کرنے کےلیے فائدہ مند ہوگی پس اس مشن کو پسند کرکے اس کا رہنا آکس فرڈ میں تمام ہوا اوراس کو اس وقت کے حوال ختم کرنے میں ایک چٹھی میں شہادت دیتے ہیں جو گمبول صاحب ویزلی کے رشتہ دار نے لکھ بھیجی تھی اور گمبول صاحب بہت فہم اور دیندار شخص تھا اس نے اپنے دوست کے پھر نہ دیکھنے کی امید رکھ کر اس کی خصلت اور دل چشپ کام بیان کیے ۔اور اس کی چٹھی میں سے یہ نکالا گیا ہےکہ ماہ مارچ کےدرمیان میں چارلس ویزلی صاحب سے میری اول ملاقات ہوئی اس کے بعد اس اپنے بھائی جان سے ملاقات کروا کر کہا کہ یہ مجھ سے بڑا عقل مند ہے اور آسانی سئ آپ کا شک رفع کرسکتا ہے۔ میں نے کبھی ایسی عزت جواس نے اپنےبھائی کو دی کسی میں نہیں دیکھی۔اور یہ تعجب ہے کہ وہ بھائی اور بھائی ہو کو برابر نہ ہو۔حالانکہ وہ علم میں بھی برابر ہیں۔مگر تو بھی چارلس اپنے بھائی کا پیرو ہے۔اور اگر میں ان میں سے ایک کا بیان کروں تو وہ دونوں کا ہو گااس لیے میں چارلس کی بابت زیادہ نہ لکھوں گا سوائے کہ وہ محبت ہی کے واسطے پیدا ہوا اور اپنی خوشی اور خرومی سے اپنے دوستوں کا دل تروتازہ کیا کرتا تھا۔اور نہایت ہوشیاری سے ان کی تکلیف میں ان کو تسلی دے کر ان کے لیے ہر ایک کام چھوٹا یا بڑا کیا کرتا تھا۔اور باعث اس کی بےتکلفی سے کسی طرح کی بد مزگی اور بگاڑ واقع نہ ہوا۔
ویزلی صاحبان ابھی کے دینی کام کرنے کے سبب سے جنھیں مارگن صاحب نے شروع کیا تھا مشہور ہوگئے اوران کے دوستوں سے ایک شراکت ہوئی اور اس کا سردار جان ویزلی صاحب ہوا جو کہ اس کام کے واسطے نہایت لائق تھا اور صرف اورں عقل مند اور کار ہی نہ تھا بلکہ وہ ایسا چالاک تھا کہ ہمیشہ ترقی کرتا رہا اور وہ ایسا مستقل تھا کہ اس نے کبھی کچھ نہ کھویا اور جو کچھ کہ اس نے کبھی کسی سے درخواست کی ضرور اس کو ملا کیونکہ وہ بہت سنجیدہ تھا اور وہ اس کی غرض سے انکار نہیں کرسکتے تھے۔اوروہ کبھی تبدیل نہ ہوتا تھا اور وہ ہر ایک کام کرنے سے پیشتر اس کے انجام پر خیال اور غور کیا کرتا تھا ۔اور اگرچہ وہ اپنی خاصیت میں تیز فہم تھا تو بھی وہ صحیح امتیاز اورخدا ترس تھا اور فروتن تھا اور حالانکہ اس کے چہرے پر کس قدر حاکمی اور اختیار جمیت معلوم ہوتا تھا ۔مگر تو بھی اس نے کسی طرح کا اختیار یا زبردوستی اپنے دوستوں پر نہ کی بلکہ انھیں ان کے خیالات ظاہر کرنے کے لیے اجازت دی اور نیز ان کی رائے مثل اپنی رائے کے استعمال میں لایا اور ان کے کام کئی حصوں مین تقسیم کیے۔ (۱)۔پہلا جوان طالب علموں کے ساتھ گفتگو کرنی۔(۲)۔ دوسراقیدیوں سے ملاقات کرنی۔(۳)۔محتاج خاندانم کو تعلیم دینی ۔(۴)۔ ایک مدرسہ اور ایک کارخانہ خبرداری کرنی ۔اور انھوں بہت خبر داری اور کوشش کی کہ طالب علموں کو بد رفیقوں سے پرہیزگار اور مطالعہ پسند بنا دیں۔چنانچہ ان کہ اچھے نوجوانوں سے ملاقات کرائی اورمشکل سبق سیکھنے میں ان کی مدد کی اور دردمندی سے ان کی نگہبانی کی۔ان میں سے ہرروز کوئی بڑے جیل خانہ کو جاتا اور ایک دوسرا دوسرے جیل خانہ کو جاتا اور جوکوئی بڑے جیل خانہ میں آتا سب قیدیوں کو جو چیپل میں آتا پڑھایا کرتااور ان کی روھانی نگہبانی کرتا اور ہر ایک کے ساتھ اکیلا گفتگوکرتا س اور جو کوئی نیا قیدی آتا تو وہ اس کے ساتھ پانچ چھ دفعہ بہت کوشش اور ہوشیاری سے گفتگو کرتا۔اور جس کسی کو موت کا فتویٰ دیا جاتا تھا تو وہ اس کے ساتھ مل کر دعاکرتا اورتسلی دیتا ۔اور انھوں ایک چھوٹا خزانہ جمع کیا کہ جس کے بڑھانے اس کےدوستوں نےسماہی چندہ جمع کیا اور کوئی تھوڑے قرض کے سبب سے قید ہوا تھا چھڑا دیا اور ان کے واسطے کتابیں اور ضروریات کی چیزیں خریدی اور ہر قید خانہ میں ہفتہ ، بدھ اور جمعہ کی شام کو دعا مانگی اور ہر ایک اتوار کو منادی کی اور ہر مہینے پاک ساکرامنٹ کی تقسیم کی اور جب وہ کسی محتاج خاندانکی مدد کرنا شروع کرتے تو وہ کم از کم ہفتہ وار ایک مرتبہ دیکھا کرتے اور کبھی کبھی ان کو خیرات دیتے اور ان کے گناہ بتلاتے اور ان کی تسلی اور پاک تعلیم ۔۔۔۔پڑھتے اور ان کے لڑکوں کا امتحان لیتے ۔ویزلی صاحبان سکول مقررکر تے اور مدرسوں کو طلب دیا کرت اور چند طلبا کو کپڑے دیا کرتے تھے ۔جب کوئی ان سکولوں کو دیکھنے جاتا تو وہ ہر ایک چال چلن کی بابت دریافت کرتا اور ان کے کام دیکھتا اور ان کو دعائیں پڑھاتااور کٹی کزم سنتا اور اس کو بیان کرتا۔اور اب ہم جان ویزلی صاحب کی خدا ترسی کی بابت بہت سی باتیں کہہ سکتے ہیں۔ کہ وہ دعا مانگنے کے سبب کیسی ترقی کرگیا اور نگہبانی سے حفاظت اور وہ اپنی خاصیت کی مغروری اور غصہ اور سب جسمانی خواہشوں خدا کے فضل کے ذریعے ایک چھوٹے لڑکے کی موافق بن گیا ۔
اور نے دعا مانگنے کو اپنا پہلا اوربڑا کام جانا ۔میں نے اس کو اس کمرے میں سےایسا اور خوش روشن آتے ہوئےدیکھا۔اور میں اس کی سب باتوں کا یقین کرسکتا ہوں۔کہ خدا کے پاس آ گیا وہ اجہی تعلیم اور نصحیت دیتا ہے۔اور اپنے سب کاموں اورخیالوں میں خدا کی مرضی بجا لاتا ہے۔ اور اگر ہم سے کو ئی کسی طرح کی باطل اور بے فائدہ باتیں پیش آتیں تو وہ ناخوش ہوتا اور اس نے ہمارے مطالعہ کرنے میں ایک طریقہ مقرر کیا تھا کہ ہم ان سب کو خدا کی نظر کریں اور اس کام کے سبب لوگوں نے کہا کہ علم کا دہشت دینے والا ہےلیکن اس نے ایسا نہ کیا اس کا پہلا کام یہ تھا اس نے طالب علموں کی سستی نیست کرنے کا اردہ کیا تھا۔اورسستی وہ صفت ہے جس سے مطالعہ کرنا بلکل رک جاتا ہے۔اور اس نےطالب علموں کو نیا مطالعہ کرنے اور سب کام سرانجام دینے کے لیے قاعدہ مقرر کیا اور اگرچہ وہ خفا ہوتا تو وہ مجھ سے ہی خفا ہوتاکیونکہ میں اس کے طریقوں کو آہستہ سے قبول کرتا تھا ۔
اب وہ مشنری ہو کر جارجیہ کو یہاں لوگ نادان ہیں گیا اور اب وہ زندہ ہے اس سبب سے اس کی تعریف سزا وار نہیں ۔مگر میں اپنی تعلیم اور رتربیت کی ترقی کے لیے ہمیشہ یاد کرتا ہوں یہ چتھی مذکور گمبول صاحب نے جب کہ وہ آپ نورسیدہ دیندار تھا لکھیں۔اور اگرچہ بات اس کے اور ویزلی صاحب کے لیے عزت کا باعث ہے تو بھی ہم ویزلی صاحب کی چٹھیوں سے جواس نے اپنی ماں کو لکھی تھیں معلوم کرسکتے ہیں کہ وہ روحانی طور سے ایسا کابل اور پاک مسیحی نہ تھا جیسا کہ گمبول صاحب نے خیال کیا فانی ناپاکی کے ساتھ لڑائی کرتا تھا جس کے سبب وہ پکارتا تھا کہ ہادں میں توسخت مصیبت میں ہوں ۔اس موت کے بندھن سے مجھے کون چھڑائے گا اور وہ اس مسیح کے کفارہ کی جگہ میں خود انکاری اور تنہائی اور دنیا سے نفرت رکھتا تھا اور نہیں جانتا تھا کہ اس کفارہ کی خوبیاں۔۔۔۔لانے سے حاصل ہوتی ہیں ۔اور اس سدے گناہ کا داغ فوراً جاتارہتا ہے ۔اور دل گناہ کے ذریعے سے کامل خوشی اور امید حاصل کرتا ہے اور خدا کی مانند پاک اور راست بن جاتا ۔اور وہ اس وقت کوشش کرتا تھا کہ اپنی نجات کام کوشش اور تھرتھرانے سے کیا کریں اور نہیں جانتا تھا کہ خدا ہی ہے جو تم میں اثر کرتا ہے کہ تم ا س کی مرضی کے چاہو اور کام بھی کرو۔