جان ویزلی صاحب کا احوال
باب پنجم
اس وقت سے ویزلی صاحب نے ایک ایسی جلیل خدمت کو شروع کیا جس کے سبب ہر قوم کے بہت سے لوگوں نے جن کا شمار قیامت تک نہیں ہو سکے گا نجات پائی اور جو کچھ اس نے تجربہ کاری میں پایا تھا ایک کی مانند جوآپ میں گواہی دیتا ہے بے خوف اوردل سے منادی کی اور اپنے شک و شبہ کو یاد کرکے ان کے ساتھ جو تاریکی اور تکلیف میں چلتے تھے دل و بان سے ہم درد ہوا اور اگلینڈ میں اس وقت آدمی کی حالت مذہب کی نسبت بہت بری اور کم بخت تھی اسی سبب سے وہ جو دیندار تھے بہت فکر مند رہتے تھے اس کے سبب سے عام لوگوں نے تعلیم پائی پر انگلینڈ میں ایسا نہ تھا بلکہ جس وقت میٹھوڈسٹ کلیسیا کا شروع ہوا تھا صرف تھوڑے آدمی پڑھ سکتے تھے اور بہت جگہوں میں جنگلی کے موافق تھے اور روم کیتھولک کے دین باطل سے بچ گئے تھے بلکہ سچے دین کی بابت سوائے دو تین آسان باتوں کے اور کچھ نہیں جانتے تھے اور ان باتوں کے محتاج تھے اور اب تک انگلینڈ دکھن اور پچھم کے اطراف میں کئی ضلع ہیں جن میں آدمی کا حال بہتر نہیں ہے اور(در بنولا )ایک خادم الدین نے یہ بات چھپوائی کہ ڈیون شہر میں کئی گاؤں ہیں جہاں کہ اب تک یہی نماز ہے جو کہ انھوں نے اپنے باپ دادوں رومن کتھولک سے پائی ۔ یعنی کہ متی ،مرقس ،لوقا اوریوحن میری کھاٹ کو برکت کرن
اور کچھ کہنا ضرور نہیں ہے ۔اس وقوت کئی آدمی اور جگہیں بائبل سے ناواقف اور دین کی طرف سے بے فکر رہتے تھے۔اور بہدت جگہوں میں سرگرم منادی کرنےوالوں نے انفرمشن (Information) کے وقت میں رومن کیتھولک کلیسیا میں سے نکلے تھے نہایت بڑی تاثیر کی تھی اور اکثر شہروں میں ان نے بینروں کو تاریکی سے روشنی میں لہرایا تھا۔ لیکن اکثر رومن کیتھولک خادم الدین بے فکر کلیسیا کے ساتھ تبدیل ہوئے اور جیسے کہ وہ پیشتر اپنی خدمت گزاری کے لیے کیا کرتے تھے ویسے ہی اپنی خدمت کرتے اور رومن کیتھولک رسول ہمیشہ سب رسولوں کی پرستش کرتے تھے اور خادم الدین پورتن ازم پھیل جانے کے سبب نئی تعلیم کے سر گرم تھے اور بہترے دیندار اورعقل مند ہوگئے یہاں تک کہ دینداری میں ترقی پانے لگے لیکن شروع میں یہ کام بگڑ گیا تھا ۔کیونکہ حکومت بدلتی رہی اور خانہ جنگی چہارطرف پھیل گئی یہاں تک کہ لوگ دین پر بلکل فکر نہیں کرتے تھے۔اور نیز ہر طرح کی بد تعلیم کلیسیا میں جاری ہو گئی اور پادری لوگ بے علم رہ کر صرف نام کے مسیح تھے اورانفر مشن (Information)کی تعلیمات مدرسوں اور ممبروں سے خارج کی گئی اور اگرچہ اس وقت بہت تھوڑے خادم الدین عالم اور مباحثہ کرنے میں نادر اور فصیح تھے تو بھی وہ اپنی فصاحت اور علم، دینداری پھیلانے کے لیے استعمال میں نہ لائے اور بہترے پادری ایسے تھے جو بہت بڑے کاموں میں مشغول رہتے تھے اور انگلینڈ کا ایسا حال ہوا کہ ویزلی صاحبان اور واہٹ فعل صاحب اور تھوڑے جو ان کے موافق کلیسیا کے پاک کرنے کے واسطے اپنا آرام ا ور نام اورزندگی قربان کرنے کو مستعد ہوئے ویزلی صاحب اس کے حال کے شروع کرنے سے پیشتر کہ جس کے سبب وہ بہت مشہور ہوا اور اپنے اور لوگوں کو روحانی فائدہ حاصل کرانے کا کچھ طریقہ نہ جانتا تھا۔ جرمنی ملک کو گیا تاکہ اول مرادی مسیحیوں کی کلیسیاؤں کو دیکھے اور راستہ میں اس نے ہالیڈ اور جرمنی میں کئی دیندار پادریوں سے ملاقات کی اور مرین پورن میں اس نےان کی سب تعلیمات کو قبول نہ کیا اور وہاں سے روانہ ہو کر ہرن بٹ کو گیا اور وہاں وہ افسیسوں کے ساتھ گفت وشیند کرنے میں دو ہفتے تک ٹھہرا اور اس کلیسیا کے دستور العمل کو دیکھا اور اس میں سے کئی دستور پسند کرکے اپنی جماعتوں میں مقرر کیے اور اس نے کرسچن ڈیوڈ کاواعظ کیا کہ ہمارے ایمان کی بنیاد کیا ہے اس مضمون پر خلاصہ یوں لکھا اور ہمیشہ ایمان کا بیان اور اس کے مطابق کیا۔
اس ملاپ کی باتیں جو اس نے جو اس نے اپنی تعلیمات کی ،بنیاد رکھی ہیں سو یہ ہیں کہ ہم خدا کے ساتھ اپنے کاموں اور راستبازی کے ذریعے سے نہیں ملے بلکہ محض اور فقط مسفیح کے خون کےب وسیلے سے لیکن کیا کوئی کہے گا میں اپنے گناہوں کہ واسطے غم آلودہ نہیں ہوں اورکیا میں اپنے نیک خدا کے سامنے فروتنی نہ کروں اور یہ کیاسب درست اور صحیح نہیں؟ اور کیا ان سب کو کرنا واجب اور ضرور نہیں؟خدا کو آپ سے راضی ہونے سےپیشتر کہتا ہوں کہ یہ سب درست اور صحیح ہے تجھ کو خدا کے سامنے فروتن ہونا ضرور ہے۔اور تمہارا دل ٹوٹا ہوا اور شکستہ ہونا چاہئے۔لیکن خیال کرو کہ یہ تمہارا کام نہیں تو غمگین ہوا اس لیے کہ تو گناہگار ہے یہ روح القدس کا کام ہے کیا تو پیشمان ہے کیاتو خدا کےسامنے خاک سار ہے کیا تو فی الحقیقت غم کھاتا ہے اور تیرا دل میرے اندر ٹوٹا ہےیہ سب کام وہی روح کرتی ہے۔پھر خیال کرو کہ یہ بنیاد نہیں ہے۔کہ جس کے ذریعے سے تو بچ جاتا ہے اور یہ وہ راستبازی اور نہ اس کا کوئی حصہ ہےکہ جس سے تیرے اورخدا کے بیچ میں میل ہوتو اپنے گناہ کے سبب غمگین ہے تو نہایت مناسب ہے تیرا دل ٹوٹا ہوا ہے یہ سب اچھی ہیں مگر توان سب کاموں اور حالات کے ذریعے سے راستباز نہ ٹھہرایا جائےگا تیری معافی اسی سبب سے نہیں ہوتی بلکہ تیرا راستباز ٹھہرایاجانا ان سے روکا جائے گا اگر تو ان پر تکیہ کرے گااور اگر تو کہے گا کہ مجھے اتنافروتن ہونا اور اتنا غم کھانا پیشتر اس سے کہ میں راستباز گنا جاؤں۔
اب اس کوخوب سمجھو کہ اگر تو کہے گا کہ مجھ کو معاف ہونے سے پیشتر پیشمان ہونا زیادہ فروتن غمگین ہونا زیادہ گناہ کی برائی زیادہ صاف سمجھنا تَو تُو اتناغم اور فروتنی اپنے راستباز ٹھہرائے جانے کی بنیاد بناتاہے اورا س لیے وہ تیرے راستباز ٹھہرائے جانے کو روکتے ہیں اور یہ ایسا روکاؤ ہے کہ جس کا ہتایا جانا ضرور ہے پیشتر اس کے کہ تو نیک بنیاد ڈال سکے گا اور وہ کوئی چیز تیرے اندر نہیں بلکہ کچھ چیز ہے جو تجھ سے بلکل باہر ہے یعنی مسیح کا لہو کیونکہ کلام یہ ہے ‘‘مگر جو شخص کام نہیں کرتا بلکہ بے دین کےراستباز ٹھہرانے والے پر ایمان لاتا ہے اس کاایمان اس کے لیے راستبازی گنا جاتا ہے’’(رومیوں۵:۴)۔کیا تو نہیں دیکھتا کہ ہم نہیں ہیں خدا ا ور بے دینوں کے بیچ میں کوئی علاقہ یا رشتہ نہیں ہے وہ ایک دوسرے بلکل الگ ہیں اگر تو اچھی بنیاد ڈالنی چاہتا ہےتواپنی تمام بےدینی ساتھ لے کرسیدھے مسیح کےپاس جاؤ اور اس سے کہو کہ اے (یسوع ) تو جس کی آنکھیں آگ کے شعلہ کی مانند ہیں اور میرے دل کو دیکھتا ہے کہ میں بےدین ہوں تو مجھے اس پاس جو بے دینوں راستباز ٹھہراتا ہے پہنچا دے تیرا خون میراکفارہ ہے کیونکہ مجھ میں سوائے بے دینی کے اور کچھ نہیں یہاں بھید ہے یہاں دنیا کے عقل مند بے وقوف ہوتے ہیں اور اپنی چترائیوں میں پھنس جاتے ہیں اس بات کو دنیوی عقل مند نہیں سمجھ سکتے اور وہ ان کے نزدیک بے وقوفی ہے گناہ وہ ایک بات ہے کہ جس سے آدمی خدا سے جدا کیے ہیں لیکن گناہ کے سبب سے مسیح کی محبت زیادہ ہوئی جس کے ذریعے سے ہم خدا کے نزدیک پہنچ سکتے ہیں اور جس کی منادی ہم دیتے ہیں یہ میل کاکلام ہے یہ وہ بنیاد ہے جو کہ کبھی ہل نہیں سکتی او ر ایمان سے اس بنیاد پر بنائے گئے ہیں اور ایمان بھی خدا کی بخشش ہے جو کہ اور ہمیشہ ان کو جو اس کے متلاشی ہیں دیا کرتا ہے اور جب کہ ان کے دل اس بخشش کو پا چکے ہوں تو پگھل جاتے ہیں۔کہ انھوں نے کبھی اس کا گناہ کیا ہے لیکن یہ کیا خدا کی بخشش دل میں ہے اور سر میں نہیں رہتی ہے۔ عقلی ایمان جو کہ آدمیوں سے خواہ کتابوں سے سیکھا گیا ہے کچھ کام کانہیں وہ نہ گناہ کی معافی نہ خدا کے ساتھ میل کراتا ہے کوشش کرو کہ سارے دل سے ایمان لاؤ اور تم مسیح کے خون کا کفارہ پاؤ گے اور سارے گناہ سے صاف کیے جاؤ گے اور روز ورز راستبازی اور کامل پاکیزگی میں ازسرِنو پیدا کیے جاؤ گے ۔
اور ویزلی صاحب کہتا ہے اگرکہ خد مجھے ا ور جگہ میں کام کرنے کو نہیں بلاتا ہے تو میں خوشی سے اپنی زندگی وہاں گزرانتا میں نے اس پسند دیدہ جگہ سے افسو س کے ساتھ رخصت لی، کا شکریہ مسیحی مذہب تمام دنیا میں پھیل جائے جیسا کہ پانی گھر اوپر اور پھر وہ یہ کہتا تھا کہ میں اپنے بڑے اچھے لوگوں کے ساتھ گفت و شنید کرنے سے نہایت خوش اور قائم ہواا۔اور انگلیڈ کو لوٹا اس ارادہ پر میں اپنی ساری زندگی مسیح کے فضل سے دکھلانے میں گزارؤں وہ ۱۷۳۸م میں لندن پہنچا اور آگے کے واسطے اپنے دل میں بندوبست نہیں ٹھہراتا تھا کہ جس سے یہ بات جو لوگوں نے کہی کہ اس نے پہلے ارادا رکھا کہ گروہ کا سربن جائے جھٹلائی گئی۔ثابت ہے کہ ایک کلیسیا کا خادم الدین ہونے کو انکار کیا اور وہ جس نے دنیا کو اپنی کلیسیا سمجھا کامیاب ہونے کی بابت بہت خیال کن ہوا اور شاید جو کچھ بشپ صاحب نے اس کے خادم الدین ٹھہرانے کے وقت کہا تھا یاد رکھا کہ تم پر فقط ایک جگہ میں خادم الدین ہونا دفرض نہیں ہے اگر تم اپنے نزدیک کسی اور طرح سے زیادہ کامیاب ہو سکتے ہو اور اگر وہ کسی اور بات پر بہت فکر کرئے تو اس پر کہ میں زندگی بخشش مذہب کی تازگی کا باعث ہو جاؤں اور اسی طرح جتنی جگہ میں کی بابت گوہی دے سکوں اور جہاں کہی اس نے اجازت پائی اس نے بے رواج تعلیم کی منادی کی یعنی یہ کہ آدمی فضل سے ایمان لا کر بچ جائےاور لندن بہت بڑی بھیڑ اس کے سننے کو جمع ہوتی تھی لیکن خادم الدین اس کی تعلیم کو قبول نہیں کرتے تھے اور نازک لوگ بڑی بھیڑ جمع ہونے سے نفرت کرتے تھے اور تھوڑے دنوں میں دارالسلطنت کے گرجے کے دروازے اس پر بند ہوئےمگر تو بھی اس نے اور گرجوں اور کمروں اور گھروں اور قید خانوں میں بہت سا کام کیا کہ جس کی تاثیر بہت مدت تک باقی رہی اور تھوڑے عرصے بعد وہ آکس فرڈ میں رہ کر اپنے دوستوں کو چتھی لکھنے میں مشغول ہوا جس سے خبر پائی جاتی ہے کہ آکس فرڈ اور لندن میں بہت سے آدمی اپنے حال سے واقف ہو کر یعنی غفلت کی نیند سے جاگ کر متلاشی ہیں ا ور اس ماہ اکتوبر بتاریخ ۱۰۔۱۳۔۱۷۳۸م ڈاکٹر کوکر صاحب کے پاس یہ خبر بھیجی کہ خدا نے مبارک روح نے اس قدر تاثیر کی ہے کہ سب لوگ آگاہ ہوئے اور بہترے پکار کے کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں جو نجات پائیں ۔اور جب تک کہ خدا اپنی فصل کے اور کاٹنے ولے نہ بھیجے تب تک میری فرصت کام کرنےکو ان کے واسطے بس نہیں ہے اور اس نے اسی روز ہرن ہرن ہتھ کی کلیسیا کو یوں لکھا کہ ہم بھی کوشش کرتے ہیں کہ تمہارے پیروں ہوں جیسا کہ تم مسیح کے پیرؤ ہو اور جب سے کہ تم ہمارے پاس آئے ہو ۱۴ آدمی ہمارے بیچ میں آئے ہیں اور اب ہماری شمار آتھ بند ہیں جن میں کل ۵۶ آدمی ہیں۔ اور سب محض مسیح کے لہو سے نجات ڈھونڈ تے ہیں ۔اور اب تک صرف دو بند عورتوں کے ہیں اس میں ایک میں تین اور دوسرے میں پانچ ہیں اور بلکہ جہاں بہت سے ایسے ہیں جو حرف سیکھنے کے واسطے ٹھہرے ہیں کہ ہم ان کو سکھا دیں تاکہ مسیح میں شریک ہو کر ایک دوسرے کی مدد کریں اور اگرچہ چارلس اور میں بہت سے گرجوں میں منادی کرنے کی اجازت نہیں پاتے تو بھی خدا بھی خدا کا شکر ہے کہ ہم اورو ں میں آنے کی اجازت پا کر مسیح کی سچائی میں ہیں اور علاوہ اس کے ہم شام اور مقرر شدہ شام کو میل کا کلام کبھی بیس ( ۲۰)، کبھی تیس (۳۰)،کبھی پچاس (۵۰)، کبھی ساتھ (۶۰)، کبھی تین سو (۳۰۰) اور کبھی چار سو(۴۰۰)آدمیوں کےساتھ مل کر جو اس کے سننے کو جمع ہوتے تھے منادی کرتے تھے۔اور ماہ دسمبر میں واہٹ فیل صاحب جو کہ امریکہ سے لندن لوٹا تھا۔اس کو ملا اور ایک ساتھ دینی گفتگو کرکے ایک دوسرے کو تسلی دیتے تھے اور دوسرے سال کے شروع میں پسٹریل جہاں واہٹ فیل صاحب نے باہر منادی کی تھی گیا اور ویزلی صاحب نے پہلے ایک چھوٹی جماعت پر جو بگلس گلی جمع ہوئی تھی منادی کی اور دوسرے دن وہ شبہے اور شکون پر غالب ہوا یہاں تک کہ وہ باہر گیا ایک اونچی پر کھڑے ہو کر دو ہزار آدمیوں پر منادی کی اور اس دستور کی بابت یہ کہتا تھا کہ میں نے پیشتر درستی اور ترکیبی پر ایسا تکیہ کیاتھا کہ اگر کوئی باہر بچ اجاتا تو میں اس کوگنا ہ سمجھتا لیکن اس وقت کے بعد میں اس کو نہایت شکر کا باعث جانا چنانچہ لاکھوں آدمیوں نے جو کبھی گرجے میں نہیں گئے تھے اور نہ کبھی جانے کہ ارادہ رکھتے تھے انھوں نےئ خدا کاکلام سن کر نجات پائی اور اس کی جو وہ اس وقت کیا کرتا تھا اس کے روز نامہ میں دیکھتے ہیں کہ وہ یوں کہتا ہے کہ ہر صبح میں نیوگیٹ میں پھرتا اور دعا کرتا اور ہر شام کو ایک دو جماعت میں منادی کرتا ۔ہر سوموار کی شام کو باہر برشبٹل اور منگل کو ماتھ اور ٹومیل ہل میں اور بدھ کو ٹپسیٹ میں اور ہر دوسری جمعرات کو نپس فرڈومین اور ہر دوسرے جمعہ کو کنگسر روڈ میں اور پیر سنچر کی شام اور ہر اتوار کی صبح بولنگ گرین میں اور اتوار کے گیارہ ( ۱۱) بجے ہنم کوہ کے نزدیک اور دو(۲) بجے کلفن میں اور پانچ (۵) بجے روز گرین میں منادی کرتا رہا اور جیسا کہ میرا کام تھا ایسی ہی میری طاقت بھی ہوئی اور جب کہ جان ویزلی صاحب جرمن میں رہا تب اس کا بھائی چارلس قید میں اس ہی کی تعلیمات کی منادی سر گرمی سے کرتا رہا اور کتاب مقدس کے بیان میں مشغول ہوا اور اس وقت وہ آکس فرڈ کو گیا اور وہاں وہ اپنے مکتب کے بچانے کا باعث ہوا اور جب جان ویزلی صاحب ہرن ہت سے لوٹا تو بڑی خوشی سے اس کا بھائی چارلس اسے ملا اور اسے خدا کی باتوں کی بابت اپنی تجربہ کاری اور دوسرے سے بتلائی اور تقدیر کی تعلیم جس کی بابت بہت سا مباحثہ کلیسیا میں قدیم سے چلا آتا تھا اور جس کی بابت پہلے میٹھوڈسٹ کے بیچ میں اتنی بہت تقریر ہوئی تھی کہ تھوڑی دیر کے بعد کسی سفر کرنے کی جماعت میں پیش آیا اور چارلس ویزلی صاحب نے فقط اس کو انکار کیا وہ اس وقت بغیر لکھے منادی کرنے لگا اور ایک ہی ملا قات میں جو ویزلی صاحبان نے لندن کے بشپ کے ساتھ کی اور انھوں نے تعلیم کی بابت بشپ صاحب کے دل میں سے شک و شبہ رد کر دیا اور اسے خوب تسیکن ہوئی بلکہ اس نے کے دستورات اس بات میں کر دیے ان کو جنھوں نے اور کلیسیا کے خادم الدین سے بپتسمہ پایا تھا بپتسمہ دینا منظور کیا اور اس بات میں بشپ صاحب نے اپنی باتیں عالی ہمت اور کلیسیا کے دستور العمل جاننے والے ظاہرکین اور شاید وہ ان کے زور ایمان سے ڈر گیا تھا کیونکہ اس نے جانا کہ پاکیزہ ہونا ایمان لانے سے تعلق رکھتا ہے ۔
اور اس وقت واہٹ فیل صاحب آکس فرڈ میں تھا اورچارلس ویزلی مدرسے کے کام کی ترغیب دی جسے ہم معلوم کرتے ہیں کہ انھوں نے گشتی وعظ کرنے کا بندو بست نہیں ٹھہرایا تھا اور اس پر کچھ فکر کی تھی اور جبکہ جان ویزلی صاحب برسٹبل میں رہا تب اس نےب لمبٹ میں کنٹریری کے آرچ بشپ سےملاقات کی جس سے بہت افسوس ہوا آرچ بشپ نے ان کی تعلیمات کا انکار نہ کیا بلکہ ان کےبرخلاف دستور العمل کو بلکل نامنظور کیا اوریہ بھی کہا کہ شاید تم خارج کیے جاؤ گے اس سبب جس نے اپنی زاتی بہادری سے اسے ترغیب دی کہ آنے والے اتوارکو باہر منادی کیجیے کہ جس کام کو تم ٹھہرانہ سکو گے بلکہ آگے کو بڑھ جاؤ گے چنانچہ اس اصلاح پر وہ چلا اور وہ روز نامہ میں اس کی بابت یوں لکھتا ہے کہ ماہ جون کی۲۴ تاریخ کو میں نے دعا مانگی اور باہر یسوع مسیح نے چلا گیا اور میں نے مورفیلس میں قریب ایک ہزار لا چار گنادہگاروں کو میرے آنے کے واسطے ٹھہرتے پایا اور میں نے ان کو مسیح کےنام سے اور باتوں میں بھی ملایا یعنی میں نےانھیں کہا کہ‘‘ لوگ جو تھکے اور بڑے بوبھ سے دبے ہو سب میرے پاس آؤ کہ میں تمہیں آرام دوں گا’’(متی۱۸۔۱۱ حوالہ نمبر ٹھیک نہیں ہے) خداوند میرے ساتھ ہاں اپنے وعدے کے موافق میرے ساتھ جو اس کی منادی کرنے والوں کے بیچ میں سب سے نالائق اور اسٹپال میں اس روز کی زبور اور سبق اورساکرامنٹ وغیرہ سے مجھ میں ازسرِ نو طاقدت آئی اور میرا بوبھ اتر گیا اور میرے شک و شبہےجاتےرہے خدا نے میری راہ پر روشنی چمکائی اور میں نے پہچانا کہ یہ اس کی ہی مرضی کی بابت کلیسٹن کے میدان کو چلا گیا اور بہتروں کو چلایا کہ توبہ کرو اورانجیل پر ایمان لاؤ خداوند میرا زورتھا اور میری زبان اور میری حکمت سب اس لیے اس کی خوبیوں کی تعریفکریں۔