پادری ویزلی صاحب کا حوال
باب اول
جان اور چارلس ویزلی صاحب ویسلن میتھوڈسٹ کلیسیاکے بانی پادری سموئیل ویزلی صاحب کے بیٹے جو اپورتھ ضلع لنکن کا پادری تھا۔
سو اس پادری صاحب اور اس کی میم صاحبہ بی بی سوزانہ جو کہ ڈاکٹر انسلی صاحب کی بیٹی تھی اور نیز ان کے باپ تھے جن کے احوالات بہت سی کتابوں اور تصنفات میں پائے جاتے ہیں چنانچہ ڈاکٹر کلارک صاحب فرماتے ہیں کہ خاندان ویزلی ایسا سمجھا جاتا ہے کہ ان کے باپ دادے پیشتر ساکنی ملک سےانگلنڈ میں آئے اور نیز ایک گروہ ان کا ائرلینڈ میں جاآباد ہو گیا۔
بعض خیال کرتے ہیں کہ لفظ ویزلی اسپنش زبان سے نکلا ہے اگرچہ قول راست ہےتو وہ شاید عربی زبان سےبرآمد ہوا ہوگا کیونکہ اس اصول عربی موجود ہیں۔پس اگر ہم عربی زبان کو جو اس ملک میں مدت تک جاری رہی اور جو اسپنش اور فارسی زبان میں خلا اور ملا ہو گئی تھی دریافت کریں تو وہ نام ہم کو ہم کو مع اپنے عجیب اور عمدہ معنی کے ملے گا یعنی ویزلی اور ویزلہ جو کہ ویزل سے نکلے ہیں عرب والوں میں ایک افضل شخص کا مشہور نام ہے یعنی ابو ویزلی جس کا ذکر فیروز آباد نےاپنی تصنیف میں کیا ہے اور اس کے معنی بگانگی کا باپ یا صلح کرنے والا ہےمگر میتھو ڈست کلیسیا کے بانی کے واسطے کوئی ایسا عہدہ اور نام ہم کو نہیں ملتا۔
ویزلی صاحب کے باپ دادوں کا ذکر اس کتاب میں صرف اس قدر پایاجاتاہےکہ ہم کی خوش وضعی سےان کے جوان مرد بیٹوں کی فہم و سلامت روی پر انصاف کرسکیں۔
سموئیل ویزلی اپورتھ کاپادری تھا اور اس کی شریف بی بی کے والدین عقل اور دین داری میں شہرہ آفاق تھے جب وہ جوان ہوا تو اس کا باپ مر گیا۔پس اس نے عین شباب میں سرکاری کلیسیا کے دستو رالعمل قبول کیے اور کبھی اپنے بیٹوں جان اور چارلس کی سر گرمی کو جو صریح کلیسیا کے قانوں اور دستورالعمل کےبرخلاف سرزد ہوئی تھی مانع نہ ہوتا بلکہ ان میں شریک ہو کر انکے حقوق پر لحاظ رکھنا تھا۔
اور وجہ اپورتھ کے پادری ہونے کی یہ ہے کہ ایک مر تبہ بادشاہ جیمس ثانی کے اہل کاروں نے اس کی منت کی کہ وہ درباری منصوبوں میں ان کی ان کی مدد کریں مگر اس نے انکار کیا اور برخلاف اس کےاس نے تبدیل ِسلطنت کی تعریف میں جو کہ ۱۶۸۸م میں واقع ہوا کتابیں لکھیں کہ جن کا لکھنا ان کے درست ہونے پر دلالت نہیں کرتابلکہ بذریعہ اس کےپروٹسٹنٹ کلیسیاپوپ کے کے خطروں سے بچ گئی ۔ بنابران جلددےحسن کارگذاری اپورتھ کی ملی اورچند برس بعد اس کے معاش بھی مرحمت ہوئی۔پس وہ چالیس (۴۰) برس کے زیادہ اپورتھ میں رہا اور اپنے کار متعلقہ کو ایمانداری اور تندہی سےانجام کرکےمشہور ہوا چنانچہ اس کی تصانیف سےاس کی قابلیت اور علمیت عیاں ہے۔ اور اسی طرح جان ویزلی کی والدہ بھی یعنی بی بی شوزانہ اپنےخاوند کی مثل عالمِ شباب میں سرکاری کلیسیا میں شامل ہوئیں ۔اس کے حوال لکھنو والے کہتے ہیں کہ اس نے تیرہ(۱۳) برس کی عمر میں سب تقریریں جدالی کی بابت پڑھیں۔اور خوب پہچانیں۔
پس ان دونوں نے اپنی ان سنجیدہ اور پسندیدہ عادتوں کو جو کہ اس وقت بذریعہ تعلیم کے ان کے دلوں پر منقش ہو گئی تھیں نہیں بلکہ ہمیشہ خوفِ خدا اور راستبازی میں قائم رہے۔
لیکن اس تبدیلی میں ان کے دل ایمان سے راستباز ٹھہرتے اور روح القدس کے پاکیزہ ہونے سے قریب آخر عمر تک تاریک رہےوہ مثل اور لوگوں کی کلیسیا کے بانی اور ان کے جان نشین کی کتابیں چھوڑ کر پلاخی اور ارمنی سے جو کتابیں تصنیف ہوئیں پڑھاکرتے تھے اور باعثِ محتاجگی اور تمیز کے لیے انھوں نے قانونی تعلیم اور ان سچائیوں کو جو ارمنی لوگوں نےاپنے علمِ الہیٰ میں سکھلائی تھیں اور جو ان کے محر بیتے جان نے بتلائی تھیں چھوڑ دیا اوراس کے والدین کا ایسا ہونا اس کے بھائیوں کے واسطے بہت فائدہ مند ہواکیونکہ انھوں نے اپنے بچپن سے اس کے چال چلن میں یعنی ارپنے باپ کی صفتیں دیکھیں کہ لوگ معزز جان کر اس کی تعلیم قبول کرتے تھے اور اپنے والدہ میں تقدسِ عقل اور مردانہ دانست اور علمیت پائی جس کو انھوں نے بڑے ہو کر عزت دی ۔چنانچہ یہ قائم اور یکساں دینداری محبت مادری کے ساتھ ہوکر بے تاثیر نہ رہی کیونکہ جان ویزلی صاحب اپنی ماں کی تمیز اور پائدار صفت اور قائم اور مردانہ خاصیت اور دانش مندی اور چالاک دستور کا ٹھیک وارث ہوا یعنی یہ صفات مذکوراس میں اچھی طرح سے ملیں ہوئیں تھیں اور تینوں بھائیوں نے اپنے باپ کے دینی رائے مقاصد تسلیم کیے۔چنانچہ سموئیل اور چارلس ان پرقائم رہے اور جان بدل گیا۔
سموئیل پہلوٹا بیٹا۱۶۹۲م میں اور جان ۱۷۰۳م اورچارلس ۱۷۰۸م میں پیدا ہوئے۔سموئیل ویزلی جو کہ نیرو سٹمنسٹرکالج میں تربیت کیا گیا تھا اور۱۷۱۱م میں اکسفرڈ کالج کرائسٹ چرچ میں منتخب ہوا اور وہ شاعر ومصنف تھا اور طاقتِ گوئی ہجو بہت رکھتا تھا اور زبرک اور صاحبِ لطیف ہوا۔یہاں تک اپنے زمانے کے صاحبِ عالمین میں مشہور تھا۔آخرکارڈیون شہر میں ٹورٹن خیراتی مدرسہ میں ہیڈ ماسٹر مقرر ہوا یہاں اس نے ۱۷۳۹م میں انچاس سال کی عمر ہو کر وفات پائی بی بی شوزانہ ویزلی صاحبہ خود اپنے لڑکوں کی معلمہ ہوئی ڈاکٹر واہب ہیڈ صاحب کہتے ہیں کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ بی بی صاحبہ موصوف نے کبھی اپنے لڑکوں کو کسی مدرسہ میں بھیجا ہو ۔کیونکہ اسے اس وقت تعلیم تربیت کرنے کا دستور پسند نہ آیا اور معلوم ہوا کہ جان کی تعلیم و تربیت کرنے میں انہوں نے اس سبب سے بہت کوشش کی کیونکہ وہ جلتے ہوئے گھر میں سے خدا کے فضل سے بچ گیا تھا۔ایک کتاب جس میں اس کامخفی خیال لکھا گیا ہے ایک جگہ پر یہ ذکر ہے کہ اس نے اپنے آپ میں یہ ضرورت سمجھی کہ میں بہت ہوشیاری سے اس کو جسے خدا نے اپنی رحمت سے بچایا، تربیت کروں۔
چنانچہ اس خاص خبر داری کی تاثیر الہٰی بخش ایسی اس کے دل پر اثر انداز ہوئی کہ وہ لڑکپن سے دینی فکر میں رہا اور آتھ برس کی عمر میں اس نے عشائے ربانی لینے کی اجازت پائی ۔۱۷۱۴م میں وہ چارٹر ہاؤس میں داخل ہو کر اپنی چالاکی اور علم حاصل کرنے کی وجہ مشہور ہوا۔ اور اپنی خاموشی اور قاعدہ المجنت کے سبب اپنے استاد ڈاکٹر صاحب کا مصاحب ہوا اور عمر بھر اس جگہ کو ایسا پسند کیا کہ ہرسال لندن سےسفر کرکے اس کی سیر کیا کرتا تھا جب کہ بہتوں کو ایسا سفرناپسند ہوتا ہے۔
مگر جان ویزلی صاحب نے اپنے گزشتہ ایام پرکبھی افسوس کے ساتھ خیال نہ کیا اور اس دنیوی فکر کے واسطے اس کے دل جو ہمیشہ آگے لگا رہتا تھا گنجائش نہ ہوئی جب وہ سترہ برس کا ہوا تو وہ اَکس فرڈ کالج میں کرائسٹ کے لیے مقرر ہوا اور وہاں پر وہ بہت کوشش اور قائدےسے قائدے سے اپنی کتابیں پڑھا کرتا تھا۔ڈاکٹر ویگن صاحب جو بڑا منصف اور معتبر شخص تھا اس کا معلم ہوا ۔سو جان ویزلی صاحب کا مزاج جوانی کے عالم میں بڑاخوش و خرم تھااور کس قدر زیرک اور خوش طبع بھی ہوا باب کاک صاحب اس کی بابت یوں کہتے ہیں کہ جب وہ اکیس(۲۱) برس کا ہوا تو وہ بہت دانشمند اور ہوشیار اہلِ مدرسہ اور جوان اور فیاض اور معتبر اور مردانہ ہوا اور یونانی اور لاطینی زبانوں سے خوب واقف ہوا جس کے باعث اس کی زیرکی مودب تھی اور اس کی تصنفات بہت عمدہ سے عمدہ ہوئیں اور اس وقت میں وہ اپنی خوشی کے لیے شعر بھی کہنے لگا تھا۔اور اس نے جو کچھ بھی لکھاتھا خواہ وہ لاطینی طریقے پر ہو خواہ لاطینی کا ہواس برس میں اس نے پینسٹھویں (۶۵) زبور لاطینی وزن پر لکھ کر اپنے باپ کے پاس بھیجا چنانچہ اس کے باپ نے اس کو لکھا کہ میں تمہارے شعر کو بہت پسند کرتا ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ عقل کو جو جوہرِ شریف ہے اسے بے کار مت کرو۔اس کے بعد وہ خادمِ دین ہونے کا ارداہ رکھتا تھا پس وہ اپنی دینی غفلت سے جو کہ دینی مدرسہ میں ہوئی تھی جاگ ۔اور بہت کرشش سے علمِ الٰہی پڑھنے لگا اورہمیشہ اپنی ماں کو چٹھی لکھا کرتا سو اس کے مضمونِ چٹھی کے یہ فکر منداس کا معلوم ہوا کہ ماں نے اس کے جواب میں یوں لکھا کہ تمہاری تبدیلی میرے لیے ایک بڑی سوچ کا باعث ہوئی اور میں تمہاری ترقی پر ہمیشہ امید رکھ کر یقین کرتی ہوں کہ تبدیلی تمہاری روح القدس کی تاثیر سے ہے تاکہ وہ دل کو دینوی چیزوں سے علیٰحدہ کرکے روحانی چیزوں کی فکر اور غور اور فکر کراوے اگر یہ ایساہے کہ اور تمہارامزاج اس طرح قائم رہے تو تم مبارک ہو اور دل و جان سے ارداہ رکھو کہ دینداری تمہاری ساری زندگی کا کام ہووے کیونکہ یہ چیز خاص کر ضرور ہے اور سب چیزیں زندگی کے لیے واسطے تھوڑی سی فائدہ مند ہیں اب میں ددل و جان سے چاہتی ہوں کہ تم بہت ہوشیاری سے اپنے تیئں آزمایا کرو تاکہ تم پہچانوکہ تمہاری سچی امید یسوع مسیح کے وسیلے سدے ہے یا نہیں۔
پس یہ عہدہ صلاح اس کے واسطے بے فائدہ نہ رہا یعنی اس کی ماں کی چٹھیاں فضلِ الٰہی سے ایک ایسا باعث خاص ہوئیں کہ چند روز میں اس کے خیالات بالکل بدل گئے اور اس عمر اس وقت بالکل بائیس(۲۲) کےقریب تھی اور جن کتابوں کووہ اس وقت پڑھا کرتا تھا اور اس جن سے خادمِ دین ہونے کی تیاری پائی وہ یہ ہیں۔
کرسچن پاٹن جو اس وقت جو تھامس ای کمپس صاحب نے تصنیف کی ہے اور رولز ادھولی لیونگ اینڈ ڈائنگ جو بشپ ٹیلر صاحب نے مقرر کی تھی اور وہ جو اپنے ماں باپ کو لکھتا تھا اس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس کی خوبی ہوشیاری سے تولتا ہے اور ان کا مطلب تھیک نکالتا ہے کہ زیرک پن اس کی روحانی اسناد تھیں اور اس کی ماں کے جوابات سے معلوم ہوا کہ وہ بہت سوچ اور تمیز نہیں کرتی تھیں بلکہ اس نے اور اس کے خاوند نے اچھی اچھی کتابیں جو اس کے لیے مفید تھیں اوراس کی حالت کے لائق تھی اسے چھوڑ دیا۔
ان خط و کتابت میں بعض باتیں سوچنے کے لائق ہیں کیونکہ جان ویزلی صاحب کی رائے دین جن پر وہ بعد ازاں بہت قائم ہوا اور اس کا بیان بہت صفائی سے کرتا ہے ظاہر ہوا کہ اس نے اپنی چٹھیوں میں اپنی ماں کو دو تین باتیں بتلائیں جن کی بشپ ٹیلر صاحب کی کتاب میں یہ بیان لکھا گیا ہے کہ فروتنی اور توبہ کے ضروری حصے ہیں اس میں سے فروتنی کی بابت یہ بیان ہے کہ ہم پر یقیناً فرض ہے کہ جب کبھی ہم کسی جماعت میں شامل ہو ں تو کہ ہم اپنے آپ کو اس بڑی جماعت کے ہر آدمی سے بڑا گناہ گارجانیں۔ اور توبہ کی بابت اس نے تبایا کہ ہم نہیں جان سکتے ہیں خدا نے ہم کو معاف کیا یا نہیں اس لیے ہر دم اداس ہونا چاہیے کہ ہم نے گناہ کیے ہیں۔
سو ویزلی صاحب کہتا ہےکہ میں اثبات سے زیادہ فکر مند ہوں کہ یہ باتیں اس کے آئندہ باب کی باتوں کے نہایت خلاف ہیں بشپ ٹیلر صاحب لکھتا ہے کہ عشائے ربانی میں سدب شریک آپس میں متفق ہو کر مسیح جو سپر ہے مل جاتےہیں اور باقی خاصیت کے لیے روح القدس ضروری فضائل کو ہم پر نازل فرماتی ہے اور ہماری روح اس خاصیت کا تخم پاتی ہے اور اب یقیناً فضائل ایسی ناطاقت نہیں ہیں کہ ہم پر تاثیر نہ کریں ہم اس حال سے ناواقف ہیں کہ ہم مسیح میں رہتے ہیں اور وہ ہم میں۔
اگر ہم یقین نہیں کر سکتے کہ ہم نجات کی حالت میں ہیں یا نہیں تو ہم کو ہر ایک دم اپنی زندگی کا وقت اداسی بلکہ خوف اور لرزنے میں گزرانا چاہیے اور یہ سچ ہےکہ ہم آدمیوں سے اداس ہیں ایسی خوف ناک امید سے خدا ہم کو محفوظ رکھے فی لواقع نجات پانے سے پیشترفروتنی ضرور ہے اور اگر اتنی فروتنی پانے کے لیے ضروری صفات ہیں تو کون فروتن ہوسکتا ہے اور کون نجات پا سکتا ہے؟ اس کی مانیں اس کے جواب ،میں اچھی اچھی باتیں تحریر کریں اور فروتنی کی بابت ٹھیک تمیزبتلائیں۔لیکن اس کی اس بات پر ہم نجات کی حالت میں ہیں یا نہیں۔اورہر چند کہ اس کے حاصل کرنے کی بابت شک میں رہا لیکن اس نے بتلایا کہ یہ ایمان لانے والے کا حق ہے۔اس وقت اس نے نجاتِ آیندہ اورموجودہ کے یقین میں تمیز کی۔مگر ان دو طرح کی نجات کے باہم کرنے سے بہت سے آدمیوں نے اس مضمون پر کہ مقدس لوگ کر نہیں سکتے نجات کے یقین چھوڑا۔
میں سچ جانتا ہوں کہ ہم اپنے گناہ کی معافی کا ایسا یقین نہیں کرتے کہ وہ پھر ہمارا مقابلہ کبھی نہ کرے گی نہیں ہم جانتے ہیں کہ وہ ضرور ایسا کرے گی جو کبھی نے رد کی تھی اور جب تک ہم آسمان پر نہ پہنچ جایئں تب تک ہمارا کوئی گواہ نہیں کہ ہم سیدھی راہ پر ثابت قدم رہیں گے اور میں جانتا ہوں کہ اگر ہم اپنی نجات کی حالت میں ہیں تو ضرور اس سے واقف ہیں کیونکہ خدا نے بائبل میں ہمارے ساتھ اس کا وعدہ کی ہے اور اگر ایمانداری سے کوشش کریں تو ہم یقیناً اپنی ایمانداری کی بابت ٹھیک انصاف کرسکتے ہیں اس چٹھی کی آخری ۔عبارت سے معلوم ہوا کہ وہ آسمانی باتوں کی بابت کتنا جانتا ہے اس نےچٹھی میں ایمان کا بیان ناقص کیا تھا جس کو اس کی ماں نے اس طور سے درست کیا چنانچہ یہاں تک اس نے بیان کیاوہ سب درست ہے مگر وہ ایمان جو بائبل میں شامل ہے اور جس کی تلاش میں ویزلی صاحب رہا پورا نہ ہوا اس نے اپنی چٹھی میں یوں لکھا کہ تم اپنے ایمان کی بابت کچھ بھول کرتے ہو۔کیونکہ سب ایمان ایک قبول ہے۔مگر سب قبول نہیں ہیں ۔بعض سچائی خود ظاہر ہے ۔اس لیےہم اسے قبول کرتے ہیں اور بعض سچائی نیک بخت کرنے کے بعد ظاہری سچائی کی مدد سے ظاہر ہوتی ہے اور ہم قبول کرتے ہیں اور یہ قبولیت مذکور ایمان نہیں ہےبلکہ علم ہے اور سچائی بھی ہےاور ہم ان کو اس لیے قبول نہیں کرتے کہ وہی ظاہر ہوں یا بحث کرنے کے بعد ہم نے ان کو ثابت کیا بلکہ ہم اس لیے ان کو قبول کرتے ہیں کہ خدا نے کو ہم پر نازل کیا ہے اور ایمانکی طاقت نازل کرنے والے پر موقوف ہے۔اور نازل کرنے والے کی طاقت اور سچائی ہوتی ہے تو افدیمان مظبوط و کامل ہوتا ہے۔جوکوئی خدا کے نازکیے ہوئے کلام کو قبول کرئے تواس کا قبول یقیناً الٰہی ایمان ہے ۔
اس دل چسپ خط و کتابت میں تقدیر کا بھی ذکر ہے کہ خادم الدین ٹھہرے جانے کے پیشتر کلیسیا کے قواعد اور احکام جانچنے سے اس کا اس مضمون پر لگا رہا اس کی بابت وہ یوں کہتا ہے کہ تقدیر کی بابت میں کیا کہوں اگر خدا نے چند آدمیوں کے بچانے کا اردہ کیا تو باقی اور سب آدمی جو نہیں چنے گئےنجات پانے سے باہر ٹھہریں گے اور اگر یہ ٹھہرایا گیا کہ آدمیوں کا مقرری حصہ نجات پائےتو باقی اور بڑے حصے ہلاک ہونے کے لیے پیدا ہوئے کہ ان کا بچنا اور کسی طرح ممکن نہیں۔یہ کس طرح کی رحمت اورانصاف ہے کیا ایک مخلوق کو ہمیشہ کے عذاب کے لیے ٹھہرانا رحم ہے اور جن آدمیوں نے تقدیر کے سبب لاچار ہو کر گناہ کیے سزا دینا عدل ہے اور اگر یہ سچ ہے تو خود خدا گناہ اور بے انصافی کا بانی ہے۔مگر سب جانتے ہیں کہ یہ اس کی پاک خاصیت اور کمالیت کے بلکل برخلاف ہے ویزلی صاحب کی ہمیشہ یہی رئے رہی کبھی انحرافی نہیں کی۔۱۷۲۵م میں وہ ڈیکن کے واسطے مقرر ہوا اور آئندہ سال میں وہ لنکن کالج کافیلو یعنی رفیق کے لیے چن لیا گیا۔اور اس کے سنجیدگی کے تحت لوگوں نے اسے ٹھٹھہ کیا اور اس کے مخالفوں نے کہا کہ اس کے خادمِ دین ہونے کو روکنے کا باعث ہے لیکن وہ علم اور چلاکی اورکامل منصب کے سبب نامور ہو کر فتح مند ہوا ۔اور اس کے واسطے یہ شکر کا مقام تھا کہ اسکے والدین اس سے ایسے محفوظ تھے کہ ان کی چٹھیوں سے ظاہر تھا اور اس کے دو (۲) تین (۳) نمونہ اشعار جو اس نے اس وقت تصنیف کیے تھےمعلوم ہوتا تھا کہ اگر وہ ایسے علم کو پسند کرتا تو وہ ہرگز فصیح شعرا کے بیچ میں چھوٹے درجے پر نہ ہوتا۔لیکن وہ جلد ایسے زیادہ سنجیدہ اور مفید کام میں مشہور ہوا اور فیلو ہونے کے بعد شہر لنکن میں گیا اور فرست پا کر ان ہی سنجیدہ مضمون پر جن پر ہمیشہ اس کے خیالات رہتے تھے اپنے والدین کےساتھ گفت وشنید کرکے موسم گرما گزران کیا بعد اس کے آکس فرڈ میں حاضر ہو کر اپنے رائج مطالعہ میں مشغول ہوا اور اس وقت یونیورسٹی علمداروں میں بڑا عالم قرار کیا گیا ہر طرف کے آدمیوں نے مشہور کیا کہ ویزلی صاحب بہت عقل مند ہیں اور قدیمی زبانوں میں حرف گیر ہیں ہوتے ہیں اور اس کے لفظوں سے جو عبارت میں فصیح اور صاف تھے اور مطلب میں صحیح اس کی معتبر منش ظاہر ہے اور علم منطق اس کا وقوف مشہور ہوااور یہ حسنِ طن لوگوں نے اس میں دیکھے جلد ظاہر ہوئے تھے اور جس وقت اس ماہ مارچ فیلو ہونے کی اجازت پائی تھی اس وقت وہ صرف ۳۳ برس کا تھااور ماسٹر آف آرٹس یعنی علم کے دوسرے درجہ پر تھا اور اس نے یہ مرتبہ ماہ فروری ۱۷۲۸م پایا تھا اور اسی سال کے اگست کے مہینے میں اپنے پاب کا امام ہوا اور ۱۷۲۸م آکس فرد کو خادم لدین کے دوسرے ددرجے پر یعنی ایلڈر کے عہدے پر مقرر ہونے کو گیا اور وہاں پر اور وہاں ایک چھوٹی مجلس کی جماعت میں جو چارلس ویزلی کے صاحب اور مارکین صاحب اور نیز دو (۲) تین (۳) صاحبوں نے یاین ارادہ بتا ئی نہیں کہ اپنی اوقات ایک دوسرے کی مدد سے علم حاصل کرنے اور نیک انجام دینے اور بسرکرنے میں شریک ہوا۔ایک مہینے کے بعد وہ اپورتھ میں واپس آیا اور حسب ِ درخواست ڈاکٹر مورلی صاحب کے آکس فرڈ میں جارہا اور طالب علموں کو فراہم کرکے معلم گیری اختیار کی اور چھ (۶)بار ہفتہ میں مباحثہ کرنے کی جماعت میں میر مجلس ہوا اور نیز ایک دینی جماعت کا بھی سردار مقرر ہوا۔پس اس وقت سے وہ زیادہ دیندار ہو کر اوروں کی بھلائی کرنے کو ہوشیار ہوا اور اس آیت کو اس نے سچ پایا کہ سب کے سب جو مسیح یسوع میں دیندای کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ستائے جائیں گے اب ہم چارلس ویزلی صاحب کا احوال بیان کرتے ہیں جس کا کام میتھوازم کے پہلے اوقات میں اپنے بھائی جان کے کاموں سے چھوٹا تھا۔چارلس ویزلی صاحب جان ویزلی صاحب سے پانچ برس چھوٹا تھا۔اور اپنےبھائی سموئیل سکھلانے سے وسٹمنٹر کالج عالم ہو گیا اور حکومت کی کلیسیا میں اپنے بھائیوں سے زیادسرگرم ہوا اور کئی برس سکول میں رہا ۔بعد ایک دولت مند صاحب ساکن ایرلینڈ نے چارلس ویزلی صاحب کے باپ سے چٹھی لکھ کر دریافت کیا کہ اگر آہ کے کوئی بیٹا ہو تو میں اسے اپنے وارث کرناچاہتا ہوں اور میں نے اس کام چارلس سنا ہے چنانچہ ایک آدمی سکنہ لندن کی معرفت سالہاسال چند برس تک چارلس ویزلی صاحب کی پرورش اور خبر گیری ہوتی رہی اورایک دفعہ ایک اور صاحب نے شاید ویزلی صاحب خود تھے آکر دریافت کیا کہ تم میرے ساتھ ایرلینڈ کو چلو گے جو چارلس نے اپنے باپ کو لکھااور یہ جواب پایا کہ تم کو اختیار ہے سو اس نے انگلنڈ میں رہنا پسند کیا کہ اور اپنی خوش دلی کے سبب سے حالانکہ اس کا چال چلن بے عیب تھا اپنے بھائی صاحب کی یہ نصحیت نہ مانی کہ اب تم نےکرائسٹ چرچ میں طالب علم ہونے کی اجازت پائی ہے اب تم کو زیادہ سنجیدہ ہونا چاہیے مگر جب اس کا بھائی جان غیر حاضر تھا اور اپنے باپ کا عوضی واعظ تھا تب اس کی چٹھیوں سے معلوم ہوتا تھا کہ اب وہ زیادی سنجیدہ ہے جس کی بابت جان ویزلی صاحب نے کہا کہ جب میں ماہِ نومبر ۱۷۲۹م اَکس فرڈ کولوٹا تو میں نے اسے اپنی روح کےبچانے میں بہت جہت کرتے پایا اور اس کے حقیقت نامہ میں اس کے حالات کی بابت یہی پایا جاتا ہے کہ اس نے اول سال کالج میں کھیل کود کر گزار ددیا اور دوسرےسال مطالعہ کرنا شروع کیا اور جب کوشش کرنے سےبہت فکر مند ہوا تو اس نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ اپنے ساتھ اور دو(۲) تین (۳)
آدمیوں کو لے کر عشائے ربانی لیتا اور ان سب طریقوں کو جو کالج کے قوانین میں پائے جاتےہیں قبول کیا اس واسطے اس کا میٹھوڈسٹ لقب مشہور ہوا۔پس چارلس ویزلی پہلا میٹھو ڈسٹ تھا اور اس کلیسیا کا جو کہ اب تک اسی نام سے مشہور چلی جاتی ہے بانی تھا۔جس جان ویزلی صاحب اَکس فرڈ میں رہنے کے لیے لوٹا تو اس جماعت میں شریک ہوا اور اس کی چالاکی اور ہوشیاری سے جماعت کے لوگ اپنے روحانی فائدے حاصل کرتےاور ان کو مدد دینے میں زیادہ تر چالاک اور ہوشیار ہوگئے اور ویزلی صاحب کا دل کام کرنےاور حکومت کرنے کے لائق ہواور یہ جماعت اس کو پسند اور آئی اورخاص اپنی چالاکی کے سبب اس جماعت کا جس میں ہردی صاحب مصنف اور واہٹ فیل مشہور شریک تھے افسر ہوا۔