پادری جان ویزلی کا احوال
باب چہار دہم
جان اورچارلس ویزلی صاحب جو کبھی متفرق یا کسی اور سبب سے دشمن نہیں ہوئے اب موت کے باعث سے الگ ہوگئے تھے۔
پادری جان ویزلی صاحب نے جب کالج میں بہت زیادہ پڑھنے سے اپنے بدن کو مارا تو کچھ کمزور ہوگیا اور گاہے گاہے بیمار بھی ہوا مگر اس کی عمر دراز ہوئی اور ہمیشہ خوش مزاج رہا۔اور جب وہ موت کے کنارے پر پہنچا تواس نے فروتنی سے اپنے تئیں بدل کر بلکل خدا کے سپرد کیااور اس کی روح ہمیشہ سلامت رہی۔اور اس نے دو تین روز پیشتر اپنےمرنے کے ایک بہت اچھا گیت اپنے قلم سے لکھا۔اوراس نےاناسی(۷۹) سال اور تین (۳) مہینے کی عمر پا کر ماہ مارچ کی انتیس(۲۹) تاریخ کو وفات پائی۔اور اپریل کی پانچ (۵) تاریخ کو مری بون کے قبرستان میں دفنایا گیا ۔اور کی قبر کے پتھر پر اس کا گیت لکھا گیا۔اور اپنے بیٹےااور بیٹیوں کو بہت پیار کرتا تھا اوراس کے بیٹے علم موسیقی بہت مشہور تھے۔اور چارلس ویزلی صاحب بڑا گیت لکھنے والا تھا اس نےاڑتالیس(۴۸) جلد کتاب لکھ چھپوائیں اور کئی کتابیں بڑی قلمی تھیں جو کہ چھاپی نہیں گئی اور اس کے گیتوں کے برابر انگریزی میں کوئی گیت نہیں ہے۔۱۸…۳م کو گریٹ برٹن میں اس کے گیتوں کی کتابوں کی سات ہزار(۷۰۰۰) جلدیں فروخت ہو گئیں۔اور امریکہ میں اس سے زیادہ اور جو فائدہ کہ جان ویزلی صاحب کے گیتوں کلیسیا کو ہوا لاحد ہے ۔
اور اس وقت جان ویزلی صاحب کی موت نزدیک آئی۔اور اس اپنے روز نامہ میں یوں لکھا کہ آج میں ستاسی(۸۷) سال کو شروع کرتے ہوئے معلوم کرتا ہوں کہ میں دُہند ہلاتا ہوا ور میں بہت مشکل سے پھرتا ہوں میری طاقت جاتی رہی اور میں آہستہ چلتا ہوں مگر مجھے چاہیے کہ میں اپنے باپ کا کام کرو اور اس کےبعد وہ ائرلینڈ کانفرنس ڈیلن شہر اور کانفرنس کا پریزیڈنٹ تھا اور اس کے بعد وہ لندن میں آیا اور بادستور برسٹل ہو کے پچھم میں کانوال کو منادی کرنے گیا اور پھر وہ کال نومہ کو گیااور اس کی بابت اس نے کہاکہ چالیس(۴۰) گزرے کہ جیسے میں جہاں آیا اور اس وقت ایک بڑی بھیڑ نے مجھ کو قید کرکے بد سلوکی کی اور اب کتنا فرق دیکھتا ہوں کہ یہاں سب کے سب چھوٹے بڑے راہ کے کنارے دیکھنے آئے اور وہ ایسی میری عزت کرتے ہیں کہ گویابادشاہ گزرتا ہے شام کے وقت میں نے ایک پہاڑ پر ایک بڑی بھیڑ میں منادی کی اور خدا نے ان کے دلوں پر عجیب طورتاثیر کی اور پھر کانوال سے پرسبل اور ماناہہ ہو کے کے لندن کو لوٹا۔اور پھردوسرے سال پرسٹل کو گیا۔اور وہاں بدھ کے روز منادی کرکے برمن نہم کو گیااور وہاں سے اسٹافرڈ میں ہوکے میدلی کو گیا اور اس نے کاکہاکہ نو(۹) بجے میں نے ایک چنی ہوئی جماعت کے واسطے خدا کی گہری چیزوں کی منادی کرنی ہے اور ہر شام کے وقت اس آیت پر کہ وہ ان سب کو جوخدا کے پاس اس کے وسیلےسے آتے ہیں بکل بچا سکتا ہے منادی کی اور جمعرات میں اپنا وعظ شادی پوشاک کے بیان میں ختم کیا اور شاید یہ میری پچھلی تصنیف ہے۔لیکن خاک میں ملنے سے پیشتر میں مقدور بھر خدا کے واسطے کام کرنا چاہتا ہوں اور شہر جشٹر اور شہر لنکن کی اوتر کی کلیسیانے اپنے باپ کو پہلی دفعہ دیکھا تب وہ دکھن کی طرف شہر یارک کی طرف ہل تک ہر جگہ میں موت کی زبان کے کنارے سے منادی کرتا ہوا گیا اور وہ اپورتھ اور لنکن شہر کا سفر کرکے بعض گاؤں کو گیا اور جب وی اٹھاسی (۸۸) برس کا ہوا اس نے یوں لکھا اب میں اپنے اٹھاسیواں(۸۸) سال شروع کرتا ہوں۔چھیاسی (۸۶) برس تک میں نے بڑھاپے کی کمزریوں کو محسوس نہیں کیا۔کیونکہ نہ آنکھیں دھوندلائیں اور میری طاقت جاتی رہی۔مگر اگست مہینےمیں میراحال بدل گیا اور میری آنکھیں دھوند لا گئیں یہاں تک کہ آنکھیں بلکل کی نہ رہیں اور طاقت بھی جاتی رہی اور شاید اس دنیا میں پھر نہ آئیں گے لیکن کچھ درد نہیں معلوم ہوتا ہے۔ اور بلکہ زندگی کے پہیے تھکے ہوئے تھم مگر تو بھی اب تک اس نے کام نہ چھوڑا اور کام ا ور زندگی کو ایک ساتھ واپس دو اور ہر روز موت تک بدستور کام کرتا رہا اور اس نے اپنے سالانہ سفر اسکاٹ لینڈ اور ائرلینڈ میں کرنےکے لیےاپنے رتھ اور آگےبھیجے اور حالانکہ اس کا جی چاہتا تھامگر بباعثِ ناتوانی بدن کے وہ نہیں جاسکا اور ماہ فروری کی ۱۷ تاریخ ۱۷۹۱م اس نے سیم تن میں منادی کی اور لوٹ بہت تھک گیا اور بولاکہ میں نے سری پائی اور دوسرے دن پھر دستور لکھتا اور پھر پڑھتا رہا اور شام کے وقت اس نے کلیسیا میں اس آیت پر منادی کی بادشاہ کے کام میں جلدی کرناچاہیے اور ۲۳ تاریخ کو اس نےا سآیت کے بیان میں کہ جب تک خدا پایا جائے اس کوڈھونڈوں جب تک کہ وہ نزدیک ہے اس سے دعا مانگو اور یہ ویزلی صاحب کاپچھلا وعظ ہوا۔یہ اس پادری عظیم کا پچھلا کام ہوااور جمعرات کو بہت خوش ہوا اور مولف صاحب سے ملاقات کرنے گیا اور دوسرے روز بہت کمزور ہوا اور ڈاکٹر واہٹ بید صاحب بلوایا اور ہفتے کو بھی ویسا ہی رہا اور اتوا کے روزد وہ خوش ہوا اور چاہتا تھا کہ خدا مرتے دم تک اس کے ساتھ رہے اور اس کے دوستوں نے اس کے ساتھ دعا کی اور وہ آئیں آئیں بولا اور پھر اس نے کہا کہ جب میں برسٹبل میں تھا تومیری باتیں یہ تھیں میں سب سے بڑا گنہگار اور مسیح کفارہ ہے۔اور وہ کچھ ضرور نہیں۔ کسی نے کہا کہ اب آپ کے دل کی باتیں ہیں اور کیاآپ کا تجربہ ویسا ہی ہے اس نے کہا کہ ہاں تب اس شخص نے یہ گیت پڑھا دیکھو میں تخت کے پاس جاتا ہوں۔اور تاج کومسیح کے وسیلے سے پاتا ہوں تب ویزلی صاحب نے کہا کہ بس وہ ہمارا عمانوائیل ہے اور اس نے سب کچھ ہمارے واسطے مول لیا اور ہم کو ان کا وعدہ دیا وہ سب ہے۔وہ سب ہے اور اس کے بعد اس نے کہا کہ ہم سب کو ضرور ہے کہ اپنی سچی نبوت پر قائم رہیں میں سب سے گنہگار ہوں اور مسیح میرا کفارہ ہے ۔اور وہ کمزور ہو ہمیشہ خوش ہوا اور خدا کے کلام سبھوں کے واسطے کرتا رہا اور اس نے کہا کہ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے اور یعقوب کا خدا ہماری پناہ ہے اور اس کی پچھلی بات یہ تھی کہ فرذیل یعنی سلام ۔اور بدھ کے روز دس بجے سے پیشتر بتاریخ ۲۷ ماہ مارچ ۱۷۹۱م جب کئی دوست اس کےپلنگ کے چاروں طرف گھٹنے ٹیکے ہوئے تھے یہ مردِم خدا ہزاروں کا گڈریا اور نگہبان خاموشی اور خوشی سے خداوند کی شادمانی میں شامل ہوا۔اور اسی طرح جس نے پینسٹھ(۶۵) برس تک منادی کی تھی خوشی کے ساتھ اپنے اٹھاسی(۸۸)برس میں گزر گیا۔ڈاکٹر واہٹ بند صاحب نے اس کے دفنانے کاوعظ کیا اور پادری ریچرڈ صاحب نے اس کے دفنانے کی دعا پڑھی اور جب پڑھتے پڑھتے اس بات پر آیا کہ یہاں لکھا ہے کہ چونکہ خداکی مرضی ہوئی کہ ہمارا عزیز بھائی ہمارے درمیان میں سے لیا جائے تو اس نے بھائی کی بجائے باپ پڑھا جس کی تایثر بڑی جماعت پر یہ ہوئی کہ سب کےسب فوراً آوازسے رونے لگے اور اس کے تابوت پر یہ کلام لکھاگیا۔