پادری ویزلی صاحب کا احوال
باب دہم
اب میتھوڈسٹ کلیسیا کی مذہب اور قوانین حکومت مقرر ہوئے اور ویزلی صاحب نے ان سالانہ کانفرنس کی یا دداشتوں کا خلاصہ جو کہ ۱۷۴۹م سے ۱۷۶۵م سال بہ سال جمع ہوئی تھیں نہیں چھپوایا۔۱۷۶۵م میتھوڈسٹ کی ۳۹ شرکت تھی انگلینڈ میں کانوال سے نیوکیسل ۲۵ اسکاٹ لینڈ ۴ اورویلس ۲۰اور ایرلینڈ ۸ اور اس وقت کل ۹۲ پریچر تھے جنھوں اپنے تئیں بلکل اسی کام میں سپردکیا تھا اور وہ ویزلی صاحب کا حکم ہر بات میں مانتے تھے اور ان ۱۶ برسوں میں جو ویزلی صاحب نےکام کیے ہم اس کا مختصر سا بیان کر یں گے اور پیشتر جنھیں لکھا ہے کہ وہ کیسے چالاک تھے اور کس طرح انھو ں نےم بہت سی محنت اور تکلیف اور ایذارسانی برداشت کرکے کلیسیا کی بنیاد ڈالی اور اب اگرچہ وہ برابر موت تک کام کرتے رہےمگرہم ان کے عجائبات کا بیان کریں گے اور پانچویں بات جو باقی ہے اسے مختصر لکھیں گے۔
چارلس ویزلی صاحب نے ۱۷۴۵م مین منادی کی مگر تو بھی انھوں نے ذرا سا کام نہ چھوڑا اورایک زلزلہ کے وقت شہر لندن میں تھا اور دوسرے صدمہ کے وقت وہ بہت سویرے فوندری میں منادی کرتا تھا۔
اور پم اس کے روزنامہ میں اس زلزلے کا بیان دیکھتے ہیں کہ جس سے معلوم ہوا کہ ایمان کس طرح سے غالب اورجلیل ہوتا ہے اور اس نے یوں لکھا ہے آج بتاریخ ۸فروری فجر کے سوا پانچ بجے زلزلے کا ایک صدمہ ہولناک ہوااور میں اس وقت اپنا مضمون پڑھ رہا تھا اور جب گرجا ایسا ہلا کہ لوگوں نےم جاناکہ یہ ہمارے سروں پر ضرور گرےگا اور عورتوں اور لڑکوں نے بہت غل مچایا تب میں بڑی آواز سے بولا کہ اس لیے کہ پمیں کچھ خوف نہیں اگرچہ زمین کا انقلاب وہ اور پہاڑ اپنی جگہ سے ہل کر مندر کے پیچھے پہنچ جائیں کیونکہ خداوندرب الفواج ہمارے ساتھ ہے یقوب کا خدا ہماری پناہ ہے اور خدانے میرا دل ایمان سے بھر دیا اور میرا منہ جن سے ان کے بدن اور روح ہل گئی پہلے زمین پچھم کی طرف ہلی اور پھر یورپ کی طرف اورپھر پچھم کی طرف ہلی اوراس کا اثر تمام شہر لندن اور ویسٹ پیٹر میں معلوم ہوا۔اور وہ حرکت دیر تک معلوم ہوتی رہی۔اور اس کی آوازبادل گرجنے کی سی تھی۔بہترے گھر ہل گئے اور بہتری انگٹھی گر گئیں مگر ان کے سوائے اور کچھ نقصان نہ ہوا۔
پادری برگ صاحب نے جان ویزلی صاحب کو چتھی لکھ کر اس زلزلے کی تاثیر یوں بیان کی کہ اس بڑے شہر کےلوگ کئی روز سے بہت خوف میں رہتے ہیں وہ خیال کرتے ہیں زلزلہ پھر ہوگا چنانچہ کل ہزارہا آدمی شہر سے بھاگ گئے کیونکہ کسی سپاہی نے کہا تھا کہ مجھ کو الحام سے معلوم ہوا کہ۴ تاریخ بوقت نصف شب کے لندن شہر کا بڑا حصہ اور خاص کر ویسٹ منسٹر زلزلے سے نیست ہوگا پس تمام شہر کے لوگ بڑے خوف میں رہتے ہیں اور تمام گرجا گھر کانپتے ہوئے گناہگاروں سے بھر گیا اور خاص کر ہمارے وہ چاپل اور واہٹ فیل صاحب کی عبادت گاہ اور کئی کلاسوں نے اپنے انپےلیڈروں کےپاس آکے درخواست کی کہ آپ ہمارے ساتھ تمام را ت دعا مانگیں اور انھوں نے قبول کیا اورخدانے ان کو برکت دی ۔
اگرمیں اس نبی کی رسالت پر بالکل یقین نہ لا کر بدستور اپنے پلنگوسواگیا اور میں نے یہ خیال کیا کہ اگر اپنی جا ن مسیح کے ہاتھ میں سونپ دوں تو خدا مجھ کو بچا سکتا ہے اوراس نےن ہماری حفاظت کی اور فجر کے وقت میں منادی کرنے کے واسطے تیا رہوااور اس نے اپنے خط میں لکھا کہ بہت سی بھیڑ شہر سےےبھاگ گئی تو بھی بہترے لوگ رہ گئے اور گھروں کے گرنے خوف سے میدانوں باغوں میں بھاگ گئے اور رو رو کے چلاتے رہے کہ زلزلہ زلزلہ۔اور بوقت آدمی رات کےواہٹ فیل صاحب نے بمقام ہیڈ پاک ہزاروں پر منادی کی کہ یہ یقین بہتروں کےلیےرحم کے ایام ہوں گے بشر طیکہ میں جاگتا ہوا پایا جاؤں اور اس طرح سے ان بڑے پریچروں نے منادی کے واسطےفرصت بہت ٹھہرائی اور بعض ایک پریچر کام کے سبب سے خارج ہو گیا۔تب ویزلی صاحب نے زیادہ کوشش سے سب پریچروں کا امتحان لیا اور ان کے چال وچلن کو آزمایا اور نیز یہ کام چارلس ویزلی صاحب نے بھی کیا الاوہ جان ویزلی صاب کے موافق خوش مزاج نہ تھا مگربعد اس کے میتھوڈسٹ کے پریچروں نےاس کو جان ویزلی صاحب کی حکومت کے برابر نہیں جانا اور ۱۷۸۱م جان ویزلی صاحب نےہمیں شادی کرنا ہمارے کام کے لیے فائدہ مند ہو گا اور اس نے اس کے کرنے کاارادہ کیااوراس نے گریس مری بیوہ کو پیار کیا اور بہت دیندار عورت تھی مگر چارلس ویزلی صاحب نے خیال کیا کہ وہ ہمارے بھائی کے لائق نہیں ہے اور اس نے اس کی شادی پادری بنٹ صاحب سے کرادی اور جان ویزلی کی شادی خوشی کا باعث نہ ہوئی چونکہ اس کی بیوی بڑی لیاقتیں اور فضلیتں رکھتی تھی تو بھی وہ سب کی سب بباعث بدمزاجی اور بد گمانی کے ناکارہ تھیں اور وہ اسے سناتی رہتی اور روکنا چاہتی تھی اور اس کی بدنامی کرناچاہتی تھی اور وہ بیس برس تک اس کو دق کرتی رہی اور بعد ازاں اس کے کئی روزنامے اور کئی قلمی کتابیں لے کر گھر سے چلی گئی مگر اس نے اسے پھر بلایا اور وہ آئی اور اس وقت اس نے لاطینی زبا ن میں یوں کہہ دیا جس کہ ترجمہ یہ ہے کہ میں نے اس کو نہیں چھوڑا میں نے اس کو نہیں نکالا میں اس کو پھر نہیں بلاؤں گا اور ایک عرصہ کنگز وڈ بستی میں جو برستیل کے نزدیک ہے ایک سکول بنیا تھا اور ویزلی صاحب نے اس جگہ مدت سے کالج بنانے کا اردیہ کیا تھا تا کہ پریچروں اورمیتھوڈسٹ لڑکو ں کو سب سے اچھی تعلیم ملے اوروہ اخلاقی تربیت علم طالٰہی جو سبھوں کے واسطے مفید ہو دی جائے اورلادج مذکور۱۷۴۸م میں شروع ہو گیا اور ویزلی صاحب نے اس کا بیان یوں کیا کہ جو کوئی اس کی تمام تربیت پائیں گے اور اس کے علم کو حاصل کریں گے۔ تو وہ لو گ آکس فرڈ کی تربیت پانے والوں میں سے زیادہ ترعقلمند اور علم دار ہوں گے مگر میتھوڈسٹ لوگ ایسا بڑا کالج بنانے کے واسطے مستعد اور تیار نہ تھے بس کنگز وڈ اسکول میں پریچروں کے لڑکے بہت آئے اور بہترے اچھی تعلیم پا کر اور ازسرِنو پیدا ہو کر منادی کرنے کے واسطے روح القدس کے وسیلے سے بلائے گئے اور حالانکہ صاحب کے مقصد کے مطابق بڑاکالج نہیں بنا لیکن تو بھی کلیسیا کے واسطے کنگز وڈ اسکول سے بہت فائدہ ہوا اور پھر اسکول کی ضرورت محسوس ہوئی سو میتھوڈسٹ لوگوں نے یارک شہر میں ایک اور اسکول بنایا اور وہ دونوں مدرسے آج تک ۔موجود ہیں اور ۱۷۵۳ میں اسکاٹ مالینڈ کو گیا اور گلاسگومیں ایک بڑی جماعت پر منادی کی اور ڈاکٹر کلین صاحب نے اسے بلایا اور اس وقت کئی آدمیوں نے ایک بڑی سخت چٹھی لکھی اور اس نے بڑےصبر اور محبت سے ان کا جواب لکھا وہ مسیح کا سچا پیرو تھا اور گولیوں کے عوض گالی نہیں دیتا تھا اور سال کے آخری مہینے میں وہ بہت دفعہ سردی پاکرسِل کی بیماری میں مبتلاہوا اورڈاکٹر فادر گل صاحب نے اسے صلاح دی یونس نام میں ہوابدلنے جائے مگر وہ نہیں گیا اور اس نے خیال کیا کہ اس بیماری سے کیا ہوگااور لوگوں کو اپنی ثنا خوانی سےروکا اور اپنا کتابہ قبر پر یوں لکھ
جان ویزلی کا بدن یہاں لیٹا ہے
وہ ایک بوٹا ہے جو آگ سے نکالا گیا ہے
وہ سل کی بیماری سے اپنی عمر کے سال ۱۷۵۱م میں مر گیا اور جب اس کا فرض ادا کیا جائے گاتو اس کےمال سے صرف دس پونڈ باقی رہیں گےخدا مجھ نالائق بندے پررحم کرے۔واہٹ فیل صاحب نےاس کی بیماری کی خبرسن کر اس کو ایک چٹھی لکھی جس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ وہ کئی باتوں کی بابت بہت متفرق رائے رکھتے تھے تو بھی وہ روحانی طور پرایک ہی تھے مثلاً عزیز پادری صاحب جب میں نے آپ کو لندن چھوڑتے ہوئے دیکھا تو دل میں رنج آیا اور جب میرے کان تک خبر پہنچی کہ آپ موت کے کنارے پر ہیں تو مجھ کو افسوس کا بڑابوجھ جو کہ میری برداشت سے باہر تھا معلوم ہوا اور اپنےاور کلیسیا کے لیے بڑا افسوس کیا مگر آپ کے لیے کیونکہ آپ کے لیے ایک نورانی تخت تیار ہے۔اور تھوڑے عرصہ میں اپنے مالک کی شادمانی میں داخل ہو گئے دیکھوں وہ مقدسوں اور فرشتوں میں کھڑاہے اور ہاتھ میں ایک بڑا تاج لیے تمہارے سر پر رکھنے کو تیار ہے لیکن افسوس کہ میں غریب جو انیس برس سے انتظاری میں تھا پیچھے رہ گیا خیر میرے دل کو تسکین ہے کیونکہ بہت عرصہ نہ گزرے گا کہ میرے لیے رتھ آئے گا اورہم دعاسےآپ کو روک سکتے تو آپ بھی ہمارے بیچ میں سے جانے کی اجازت نہ پاتے اور اگر ٹھہریاگیا کہ آپ مسیح میں سوجائے تو میں آپ کی روں کو چین سے رخصت کروں گا اور آنے والے ہفتے میں اگرآپ اس جہاں فانی میں جیتے رہیں گے تو میں آپ کو دیکھ کر رخصت لوں گا ورنہ ف۔ہی۔ر۔و۔ہی۔ ل۔ یعنی اسلام اور اگرچہ میں ساتھ نہیں تو مگر پیچھے پیچھے آتا ہوں ۔ اب میراہم دل بھر گیا اور آنسوں بہتے ہیں اور شائد تم بہت ضعیف اور ناتواں ہو گئے گے اس سبب سے اور نہ لکھوں گا میں آپ کو بے حد خدا کی رحمتوں پر سونپے دیتا ہوں خداوند کی انجیل کے مطابق میں ہوں آپ کا عزیز اور غمگین چھوٹا بھائی واہٹ فیل۔ لیکن اس وقت ویزلی صاحب نہ مرا خدا نے اس کو اور کامو ں کے واسطے زندہ رکھا اور وہ پھر یونس نام سے گرم (کوئی کو) جو کہ برسٹبل سے متصل ہے گیا اور وہان اس نےاپنا وقت غنیمت جان کر انجیل کی تفسیر کرنا شروع کی۔اور کچھ مدت تک اگرچہ ضعیف رہا تو بھی کتابیں پڑھا کرتا اور جب تک وہ کمزور رہا تب تک چارلس ویزلی صاحب اس کے بدلے جگہ بہ جگہ کلیسیا دیکھنےاور کام کرنے گیا اور ۱۷۶۵م کو سالانہ جلسے میں اس بات پر بہت مباحثہ ہوا جو کہ ہم حکومت کی کلیسیا سے جدا ہیں یا نہیں اور ٹھہرایا گیا کہ یہ اب فائدہ مند نہیں ہیں اور ۱۷۵۶م ویزلی صاحب ایک درس چھپوایا جس معلوم ہوا کہ اس نے ویسے چاہا کہ میتھوڈسٹ لوگ حکومت کی کلیسیا سے جدا نہیں ہیں اور ۱۷۶۴ میں اس نے ایک عہد نامہ لکھا اور اس میں یہ بندوبست مقرر ہوا کہ سارے پریچر اس کی موت ایک ساتھ رہیں اور اس کے بعد وہ آپس میں بندوبست کریں تاکہ میتھوڈسٹ کلیسیاقائم رہے اور عہد نامہ میں پریچر لوگ وعدہ کرتےہیں کہ میھتوڈسٹ کی تعلیم کی منادی دل و جان سے کریں گے اور میتھوڈسٹ ڈسپلن کی ہر ایک بات کو دل و جان سے مانیں گے اور بعد ازاں ایک اور بندوبست جو اس سے بہتر تھا ٹھہرایا گیا اور اس عہد نامہ سے معلوم ہوا کہ ویزلی صاحب کو حکومت کی کلیسیا کی کچھ امید نہیں رہی تھی اور اس نے آئندہ کو صرف اےنی کوشش کی کہ اس کی زندگی میں جدائی نہ ہوے اور اس کی مرضی کے موافق ویساہی ہوا۔