پادری جادن ویزلی صاحب کا احوال
باب دو از دہم
اور ۱۷۷۵م میں ویزلی صاحب ائر لینڈ کے اور تر کی طرف دورا کیا اور وہاں ایک زمین پر سویا اور سردی پا کر بہت بیمار پڑا اور کئی روز تک بے ہوش رہا جس کے بعد خدا کے فضل سے پھر جلد اچھا ہوا پس پھر ایک اور مر تبہ خدا نے اس کو اور کام کے واسطے بچھایا اور دوسرےسال جب کہ شہر لندن میں تھا تو ایک حکم ہوا کہ ہر شخص جس کے پاس لوگ چاندی کے برتن ہونے کا احتمال کرتے ہیں چٹھی کے ذریعے سے محصول لکھوانے والے کے پاس طلب کیا جائے تو انھو ں نے ویزلی صاحب کو چٹھی یوں لکھی کمشن محصول شک میں ہیں کہ تمہارے پاس سے برتن چاندی کے ہیں اور تم نے ان کو نہیں لکھوایا اس لیے حکم یہ ہے کہ تم اپنے سارے چاندی کے برتن لکھو تاکہ ان پر اسی وقت سے جیسے پارلیمنٹ سے چاندی پر محصول لینے کا حکم ہوامحصول لیا جائے اور اگر تم یہ کرو گے تو کمشنر ہوس آف لارض کو خبر بھیجے گادیکھوہم فوراً جواب مانگتے ہیں۔ویزلی صاحب نے یوں جواب لکھا کہ صاحب جی میرے دو چھوٹے چمچے لندن میں ہیں اور وہ برسیٹبل میں اور ان کے سوائے اور کچھ چاندی میرے پاس نہیں ہے۔اور جب تک چاروں طرف بھوکے ہیں تب تک میں اور مول نہ لوں گا آپ کا تابعدار جان ویزلی۔
اور پھر ویزلی صاحب یہ سن کر سوڈاور میں کے جزیرے کےبشپ نے ایک سخت حکم میتھوڈسٹوں کے برخلاف فرمایا تھا وہاں جلدی گیااور۱۷۷۷م دو گلس ہابر میں اور سب لوگوں نے خوش دلی قبول کیا اورکچھ نے اس حکم کی بابت نہیں سنا اور جب کہ ویزلی صاحب پھر وہاں گیا تو اس بشپ کا جان نشین موجود تھا اور وہ ان پر سختی کرتا تھاپس وہاں کی کلیسیا پھلتی پھولتی رہی اور اس سال میں معلوم ہوا کہ دو قونڈری پرانا ہو گیا اور اس بڑی جماعت کے لیے اور اس جماعت کے لیے کافی نہ تھا جو کہ اس میں رہتی تھی اور ایک نیا گھر روڈ میں بن گیا اور ماہ نومبر کی پہلی تاریخ بن چکا اور کھولا گیا اور خدا کو دیا گیااور ایک نہایت بڑی جماعت فجر اور شام میں حاضر ہوئی اور اور خدا نے اپنا جلال ظاہر کیا اور ۱۷۷۸م ویزلی صاحب نے آڑنین میگزین چھپوانے لگا اور ایک رسالہ مقرر وقت پر چھاپا گیا اور اس میں نے تصنیفات سے تعلیم اور نصیحت اور مضمون پر کہ مسیح کا کفارہ سبھوں کے واسطے ہے اور اس طرح سے اس نے ان کا جواب دیا جو کہ اس تعلیم سے انکار کرتے تھے اوراس نے عمر بھر وقت بہ وقت چھپوایا اور وہ اب تک وصلا کانفرنس کی معرفت شہر لندن میں وصلاً میگزین کے نام سے چھاپا جاتا ہے۔اور ماہ جون ۱۷۸۳م ویزلی صاحب ہالینڈ ملک کو گیا اور بیس(۲۰) تک منادی کرتارہا اور دینداروں کے ساتھ ۔ملاقات کرنے میں مشغول کرنے میں رہا اور اس کےکام سے وہاں بھی بہت فائدہ نکلااور ۱۷۸۴م میں اس نے ایک ایسا بندوست کیا جس سے وہ موت کےبعد قائم رہےاور ترتیب سے چلے اورخدا کے جلال کا باعث ہوے۔اور وہ بندو بست اب تک قائم ہے اور اس سے ویزلی صاحب کی دانش اور دور اندیشی ظاہر ہوتی ہے اور اس بندوبست کرنے کے بعد وہ بہت خوش ہوا اور اپنے دل میں گمان کیا کہ اب مجھے اتنا وقت باقی ہے۔کہ مرتے وقت انہیں کاموں کو جن میں مَیں اتنے دنوں مشغول رہا خوشی سے کروں اور اس بندوبست کانام انگزی میں یہ ہےدی ڈیڈ آف ویکل ریشن (E DAD OF WAKIL RATION). یعنی اقرار کا عہد اور انگستان کی سب سے بڑی عدالت میں اس نام سے لکھا گیااور وہ بندو بست یہ ہے کہ ایک سو (۱۰۰) پریچر جن کے نام ویزلی صاحب نے لکھوائےمیتھوڈسٹ کی دینی عدالت کی گئی ۔اور میتھوڈسٹ کانفرنس متعلق اٹین ہو گئی اور سارے چابل اس کانفرنس کے مال ہو گئے اور مختاروں کے اختیار میں رکھے گئے اور کانفرنس کا اختیار تھا کہ وہ پریچروں کو گرجا گھروں میں بھیجے جیساد کہ ویزلی صاحب نے پیشتر کہا پس اس کلیسیا کے لیے جسمانی و روحانی حکومت کا بندو بست مقرر ہوا اور اس اقرار ِعہد میں مقرر ہوا کہ سال بسال وہ کانفرنس ایک پریزیڈینٹ اور سکرٹری مقرر کرے اور جس وقت اس سو(۱۰۰) کے جلسے میں کوئی مر جائے تو اس کی جگہ دوسرا مقرر کیا جائے اور اب تک انگلینڈ میں ویسے ہی میتھوڈسٹ کلیسیا اپنی حکومت کرتی ہے اور آپس میں خوب میل ملاپ رکھ کر مسیح کے لیے جیتی ہے اور بہت سا کام کرتی ہے۔اور بعد ازاں یہ بھی ٹھہرایا گیا کہ ان سو(۱۰۰) کے سوائے سب پریچر جو کہ پوری شراکت میں شامل ہیں سالانہ کانفرنس کے شریک ہوں۔