طوفان کو تھمادینا انجیل عیسیٰ پارہ متی رکوع ۸آیت ۲۳تا ۲۷۔پارہ مرقس رکوع ۴آیت ۳۵تا ۴۱۔پارہ لوقا رکوع ۸آیت ۲۲تا ۲۵ |
4—Miracle |
مذکورہ بالاتینوں حواری اس تاریخ کو قلمبند کرتے ہیں اور اس امر میں متفق ہیں کہ یہ معجزہ گراسینیوں کے ا س شخص کے شفایا ب ہونے سے جس پر دیو چڑھا تھا پہلے واقع ہوا۔ شاید اسی شام کو واقع ہو ا ہو جس شام مسیح نے وہ تمثیلات بیان فرمائیں جو حضرت متی کے ۱۳ باب میں درج ہیں (مقابلہ کریں حضرت مرقس باب ۴ کے ساتھ ) بھیڑ کے ساتھ کلام کرنے کے بعد وہ شور وغوغا سے بچنے کے لئے دوسری جانب تنہائی میں جانا چاہتے تھے ۔ لہذ ا کشتی پر سوار ہوکر ادھر روانہ ہوئے۔ پر ابھی راہ ہی میں تھے کہ وہ طوفان آیا جس کے معجزانہ طور پر تھمنے کا ذکر اس بیان میں پایا جاتا ہے۔
پارہ متی رکوع۸آیت ۲۳۔جب وہ (یعنی سیدنا مسیح) کشتی پر سوار ہوئے توآپ کے حوارئین آپ کے ساتھ ہولئے۔
شاید اس کشتی میں بادبان نہ تھے۔ اور ممکن ہے کہ زیادہ تر مچھلی پکڑنے کے کام آتی ہوگی۔ جناب مسیح اس پر سوار ہوئےاور آپ کے شاگرد بھی آپ کے ساتھ ہولئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ اس کشتی پر سوار تھے اور کئی دوسری کشتیوں پر جن کا ذکر انجیل عیسیٰ پارہ مرقس رکوع ۴ آیت ۳۶میں آتا ہے۔ یہاں شاگرد سے مراد صرف بارہ رسول ہی نہیں بلکہ اور لوگ بھی جناب مسیح کے پیرو تھے۔ (انجیل عیسیٰ پارہ متی رکوع ۵آیت ۱) ۔
آیت ۲۴۔اوردیکھو جھیل میں ایسا بڑا طوفان آیا کہ کشتی لہروں سے چھپ گئی۔
دیکھیں حضرت متی اکثر اس لفظ کو کسی عجیب واقعہ کے بیان کرنے سے پہلے استعمال کرتے ہیں۔ تاکہ توجہ اس طرف کی جائے ۔ اصل لفظ کے معنی ہلنے اور جنبش کھانے کے ہیں۔ اور وہ لفظ اکثر زلزلہ کے لئے آتا ہے ۔ مگر یہاں طوفان سے مراد ہے جو زلزلہ کی طرح لوگوں کے گھروں کو ہلادیتا ہے۔ حضرت لوقا میں جو لفظ مستعمل ہے ۔وہ خاص طوفان یا ہوا کے لئے آتا ہے۔ یہی ہوا وادیوں میں اور گرمی آگ کی بھٹی کی طرح جلارہی تھی ۔ مگر اس وقت ٹھنڈی سی ہوا سطح مرتفع سے آنے لگی۔ اور وادیوں میں سے گز کر جھیل کی طرف جھکی ہوئی ہیں سطح آب کو جنبش میں لانے لگی۔ اندھیرا بڑ ھ گیا۔ او رہوا نے رفتہ رفتہ طوفان کی شکل اختیار کرنی شروع کی۔جھیل کی سطح گویا کف کی چادر بن گئی۔ سفید رنگ کی لہریں کنارے پر بڑے زور کے ساتھ ٹکر کھاتی تھیں۔ اب ہوا کی ملائم آواز ایک ہولناک اور حیرت افزا شور میں تبدیل ہوگئی۔جو ہوا کو سر سراہٹ او رپانی کے حرکت سے پیدا ہوا۔ کچھ فاصلہ پر ایک چھوٹا سا ڈونگا دکھائی دیا جو لہروں کی تھپیڑوں سے تہ وبالا ہورہا تھا او رپھر اس غبار میں غائب ہوگیا۔
چونکہ یہ جھیل بحر اعظم کی سطح سے بہت نیچے ہے۔ لہذا ہوا بہت گرم ہوتی ہے اور رقیق ہو کر اکثر اوپر چڑھ جاتی ہے ۔اور پھر غلا کو بھرنے کے لئے مشرق اور مغرب کی سطح مرتفع سے ٹھنڈی ہوا زور وشور سے آتی ہے ۔ (این امریکن کامنٹری آف دی نیو ٹیسٹیمنٹ) ۔
کشی لہروں میں چھپ گئی مگر وہ (سیدنا مسیح ) سوتے تھے ۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ کشتی پانی سے بالکل بھر گئی کیونکہ ایسا ہوتا تو ڈوب جاتی یونانی فعل استمرار کو ظاہر کرتا ہے۔ (امریکن کامنٹری ) یعنی مطلب یہ ہے کہ چھپی جاتی تھی ۔ حضرت مرقس فرماتے ہیں کہ "کشتی پانی سے بھری جاتی تھی اور حضرت لوقا بتاتے ہیں کہ وہ خطرے میں تھی ۔"
کشتی اس وقت درحقیقت خطرے میں تھی ورنہ بچپن سے اس جھیل کے تمام حالات سے واقف تھے کبھی نہ گھبراتے او رکبھی مسیح کے پاس نہ آتے ۔لیکن "وہ سوتے تھے " لفظ وہ پر زور ہے ۔ حضرت مرقس بتاتے ہیں کہ " وہ (سیدنا مسیح ) پیچھے کی طرف خود گدی پر سوررہے تھے "کیسا عجیب سماں ہے مسیح گدی پر سر رکھے سورہے تھے اور آندھی زور وشور سے چل رہی ہے ۔ اور اپنے تھپیڑوں سے کشتی کو تہ وبالا کررہی ہے۔
جناب مسیح اس روز کے کام سے تھک کر سورہے تھے ۔ مگر حضرت یوناہ (یعنی یونس ) کی طرح نہیں حضرت یوناہ ایک خراب ضمیر کے ساتھ سورہے تھے۔ مگر مسیح پاک ضمیر کے ساتھ ۔ حضر ت یونہ خطرہ کا باعث تھے اور مسیح خطرے سے بچانا کا وسیلہ ہوا۔
یہاں یہہ بتانا مناسب ہے کہ یہ معجزہ ایک حقیقی تاریخی واقعہ ہے۔ مسیح نے درحقیقت طوفان کو تھمایا۔ بعض کی رائے ہے کہ مسیح نے اس طوفان کو جو شاگردوں کے دل میں دہشت سے پیدا ہوگیا تھا تھمادیا۔ او ران کے ایمان کو ایسا مضبوط کردیا ۔ کہ ظاہری طوفان ان کی نظر میں طوفان نہ رہا۔ نہ پھر ان کے کان میں اسکی ہولناک آواز آئی اور کہ انجیل نویسوں نے اسی امن کو نیچر کا امن کہا ہے۔ پر درحقیقت مراد اس امن سے ہے جو اس کے کلام نے ان کے دل میں پیدا کیا ۔ لیکن یاد رہے کہ اگر شاگرد ایسی غلطی کرتے یعنی دل کے امن کو نیچر کی قوتوں کا امن کہتے تو یہ غلطی جناب مسیح سے چھپی نہ رہتی ۔ ما سوا ا سکے یہ اثر ان پر نہیں ہوسکتا تھا ۔ جو ایمان نہیں لائے تھے اور شاگرد نہ تھے۔ مگر اس امن کے قائل کیا شاگرد اور کیا غیر شاگرد سب تھے۔
آیت ۲۵۔اُنہوں نے پاس آکر اُنہیں (جنابِ مسیح) کو جگایا اورکہا اے مالک ہمیں بچائیے ہم ہلاک ہوئے جاتے ہیں۔
معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے مسیح کو کچھ دیر کے بعد جگایا اور دہشت بھری آواز کے ساتھ جگایا۔ مثلاً حضرت لوقا بتاتے ہیں کہ انہوں نے کہا ۔ "صاحب ،صاحب ہم ہلاک ہوئے جاتے ہیں اور حضرت مرقس کے الفاظ سے کسی قدر خفگی بھی ٹپکتی ہے ،"اے استاد کیا آپ کو فکر نہیں کہ ہم ہلاک ہوئے جاتے ہیں"اس ،"ہم " میں جناب مسیح بھی شامل تھے۔ حضرت متی "خداوند " اور حضرت مرقس " استاد " اور حضرت لوقا "صاحب ،صاحب " کہتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انجیل نویس ہمیشہ وہی الفاظ جو استعمال کئے گئے رقم کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ کئی بار آزادگی کے ساتھ مطلب کو اپنے الفاظ میں ادا کردیتے ہیں۔ ہم ہلاک ہوئے جاتے ہیں مراد جسمانی ہلاکت یا یوں کہیں کہ نیچرل موت سے ہے ۔
آیت ۲۶۔ مسیح نے اُن سے فرمایا ۔ اے کم اعتقادو ڈرتے کیوں ہوں؟ تب آپ نے اٹھ کر ہوا اور پانی کو جھڑکا اور بڑا امن ہوگیا۔
اب حضرت متی سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گویاد دھمکی پہلے دی گئی ۔ اور طوفان پیچھے فردہوا۔ مگر حضرت مرقس اور حضرت لوقا سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا طوفان پہلے تھما یا گیا۔ اور جھڑکی پیچھے دی گئی۔ اغلب ہے کہ خداوند پہلے اور پیچھے دو نو مرتبہ ان کے ساتھ ہم کلام ہوئے۔ پہلے جاگ کر ان کی طرف مخاطب ہوئےاور پھر طوفان کو ہلکا کرنے کے بعد ان کے ایمان کی کمی کے باعث دوبارہ انکو دھمکا نے لگے۔ یاد رہے کہ وہ ان کو بے ایمان نہیں کہتے۔ بلکہ حضرت متی کے بیان کے مطابق "کم اعتقاد " کہتے ہیں۔ وہ ایمان سے خالی نہ تھے ۔چنانچہ ہم ان کی بے اعتقادی میں بھی ان کا اعتقاد چمکتا ہوا دیکھتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے خطرے کے وقت جناب مسیح ہی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔تاکہ آپ سے مدد کی استد عا کریں۔ حضرت لوقا کہتے ہیں کہ مسیح نے فرمایا ،"تمہارا ایمان کہا ں گیا " ایمان تو ان میں تھا ۔لیکن اس وقت ان کے ایمان کا ایسا حال تھا ۔ جیسا اس ہتھیار کا جسے سپاہی رکھ کر بھول جاتا ہے اور وقت پر کام نہیں لاتا ۔ اب سوال یہ ہے کہ کس بات میں ان کی کم اعتقادی پائی گئی ؟کیا اس بات میں کہ انہوں نے مسیح سے مدد مانگی ؟نہیں یہ تو عین ایمان کی با ت تھی۔ کم اعتقادی اس میں تھی ۔کہ انہوں نے نہایت دہشت کھائی اور خیال کیا کہ وہ کشتی جس پر جناب مسیح آرام فرما رہے تھے تباہ ہوجائے گی ۔ڈرتے کیوں ہو۔اصل کے مطابق "کیوں بزدلی کرتے ہو "یہ ایک ناقص اور نامردانہ خوف تھا۔
تب مسیح نے اٹھ کر ہوا اور پانی کو جھڑکا اور بڑا امن ہوگیا۔
یہ الفاظ بڑے توجہ طلب ہیں۔ کیونکہ ان سے وہ طریقہ ظاہر ہوتا ہے جس سے جناب مسیح نے اس طوفان کو تھمایا۔ حضرت متی کہتے ہیں کہ "پانی کو جھڑکا " اور حضرت مرقس اس طرح بیان کرتے ہیں کہ گویا مسیح نے سمندر سے مخاطت ہوکر فرمایا "چپ رہ تھم جا"مسیح لہروں سے یوں خطاب کرتے ہیں جس طرح کوئی کسی شخص سے کیا کرتا ہے ۔ایک مسیحی علما ٹرنچ صاحب کہتے ہیں کہ یہ کلام گویائی کا یا فصاحت کا طرز بیان نہیں ۔ جناب مسیح ان لہروں میں شیطان کو یا یو ں کہیں کہ اس کی قدرت کو دیکھتے ہیں جس کے سبب سے فطرت کی طاقتو ں میں بے اتحادی اور ابتری پیدا ہورہی ہے ۔ وہ ان تمام بے ترتیبیوں کا موجد ایک شخص کو سمجھتے ہیں ۔سیدنا مسیح ایک اور جگہ بھی انہیں لفظوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اُس موقعہ پر بخار کی طرف متوجہ ہوکر اسے جھڑکا تھا (انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا ۴باب ۲۹آیت ) ۔اور وہاں بھی یہی تفسیر کام آتی ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ عین اس شور وغوغا کے درمیان فطرت مسیح کا حکم مانتی ہے کیونکہ وہ جو کامل انسان ہے اسی لئے آئے کہ فطرت پر انسان کی حکومت قائم کرے نیچر کا یہ کام تھا کہ ا س کی باندی ہوکر رہے ۔ لیکن وہ بدی کی قدرت کے قبضہ میں آکر بجائے خدمت اور مدد کے بارہا اس کو نقصان پہنچاتی ہے لیکن اس تھمانے کے لئے مسیح کا جو گناہ سے بری ہے ایک لفظ کافی ہے حضرت موسی ٰکی طرح ان کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ اپنا عصا بڑہائے۔آپ کا کہنا ہی کافی تھا۔ پس آپ کی آواز سن کر "ہوا بند ہوگئی اور بڑا امن ہوگیا " یہ بات بھی غور طلب ہے کہ فوق الاانسانی قدرت کے اظہاروں میں آپ انسانیت جلوہ گر دکھائی دیتی ہے۔ وہی جو جاگ کر ایسا کام کرتا ہے جوانسان نہیں کرسکتا ۔تھک کر سو بھی جاتا ۔
آیت ۲۷۔ لوگ تعجب کرکے کہنے لگے یہ کس طرح کا آدمی ہے کہ ہوا اور پانی بھی اس کے حکم میں ہیں۔
یہ الفاظ اس تاثیر کو ظاہر کرتے ہیں جو اس معجزہ کے سبب سے لوگوں پر ہوئی۔ انہوں نے آگے کبھی ایسا معجزہ نہ دیکھا تھا۔ اور اس اثر کا سبب یہ بھی تھاکہ وہ سمندر کے نظاروں اور طوفانوں کی بلا خیز آفتوں کا تجربہ رکھتے تھے۔ سو انہوں نے محسوس کیا۔ کہ سوائے خدا کی قدرت کے اور کوئی طوفان کو تھما نہیں سکتا تھا۔ اور شاید یہ اثر ان پر بھی جو دوسری کشتیوں پر تھے پیدا ہوا ہوگا۔ یہ کلمات تعجب آمیز کلمات ہیں۔ زبور نویس بھی کچھ اسی طرح کہتا ہے ۔(زبور شریف نمبر ۸۹ آیت ۹،۸)غرض اس معجزہ کی یہ تھی مسیح اپنے شاگردوں پر ظاہر فرمائے کہ ہر خطرے سے محافظت اور نجات پانا میری حضوری پر منحصر ہے۔ نیز وہ چاہتے تھے کہ یہ خطرہ ان کے ایمان کو مضبوط کرے کیونکہ بزرگ کر ساسٹم کے قول کے مطابق ان کو ایمان کے اکھاڑے میں پہلوان بننا تھا۔
او ریہی بات آپ کی حضوری تمام خطرات سے آزاد کرتی ہے۔ نہ صرف بیرونی طوفانوں پر صادق آتی ہے ۔بلکہ مسیح جو سلامتی کا شہزادے ہیں اس معجزہ کے وسیلہ یہ کہہ رہے ہیں کہ دل کے اندر جو طوفان جاری ہیں ان کو بھی میں ہی تھما سکتا ہوں۔ علاوہ بریں کلیسیا کی محافظت بھی اس پر منحصر ہے۔ وہ بارہا خطروں میں اور طرح طرح کی آزمائشوں میں گرفتار ہوئی اور ہوتی ہے مگر ان لہروں اور موجوں سے ا س کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا ۔ کیونکہ مسیح اس میں موجود ہے۔
نصیحتیں اور مفید اشارے
۱۔مسیح ہمارے کمزور ایمان کو خطروں کی جگہ لے جاتے ہیں اور وہا ں سے آخر تک خطرے کا مقابلہ کرنے دیتے اور پھر ایک طرح ہمارے ایمان کی نکتہ چینی کرتے تاکہ اسے حلیم بنائے اور تمام کمزوریوں سے آزاد کریں۔
۲۔شاگردوں پر واجب ہے کہ جہاں مسیح لے جائے اس کے ساتھ جائیں۔ ان کا فرض ہے کہ ہر راہ میں اس کی پیروی کریں۔
۳۔مسیح کا سونا ہماری دینداری او رایمان کی آزمائش ہے اور ان کا سوتے سے جاگنا ان کی قادر الوہیت کے جلال کاایک نیا اظہار ہے۔
۴۔تمہارا ایمان کہا ں ہے ؟اب بھی سوال کیا جاسکتا ہے ۔مثلا ً (ا)یہ سوال زندگی کے متعلق کیا جاسکتا ہے ۔ (ب) ضمیر کے متعلق کیا جاسکتا ہے (ج) حالت زمانہ کے متعلق کیا جاسکتا ہے ۔
۵۔جناب مسیح سمندر کا ستارہ اور بادبان اور لنگر ،لائٹ ہاؤس اور باد شرط ہے ۔
۶۔جہاں مسیح ہے وہاں خطرہ ہوتاہے بلکہ اس جگہ کی نسبت جہاں وہ نہیں ہیں زیادہ ہوتا ہے مگر ہلاکت کے لئے نہیں پر آزمائش کے لئے ہوتا ہے۔
۷۔شاگردوں کی اور مسیح کی روش کا مقابلہ کرو وہ ان کو ملامت کرتے ہیں حالانکہ ابھی انہوں نے آپ کی قدرت کو کام کرتے نہیں دیا۔ لیکن وہ اس وقت ملامت کرتے ہیں جب پہلے طوفان تھما دیتے ہیں۔
۸۔دیکھو مسیح خطرہ میں کیا روش اختیار کرتے ہیں۔ (الف) طوفان کو شدت سے چلنے دیتا ہے (ب) اور آ پ ایسے بن جاتے ہیں کہ گویا کچھ خبر نہیں (ج) کہ گویا طوفان کا کھچ علاج ہی نہیں ہے ۔ مگر آخر کار جاگتے اور سارے طوفان کو دفع کرتے ہیں۔
۹۔پر وہ کیوں سوتے ہیں (الف) تاکہ ہم جاگیں او راپنی ناتوانی کو پہچانیں (ب) تاکہ اس کی قدرت کا کرشمہ حاصل کریں۔ (ج) تاکہ اس کی مدد کے لئے دعا مانگنا سیکھیں۔ (د) تاکہ آخر کار اس کی حمد اور تعریف ہو۔
۱۰۔جتنی صلیب بڑی ہوتی ہے اتنی ہی دعا سرگرم ہوتی ہے ۔
۱۱۔انسان کو نیچر پر حکمرانی کرنا اور اسے اپنی اطاعت میں لانا تھا ۔ لیکن طوفان اور آندھیاں اب اس سے سرکش ہیں اور اس سرکشی سے انسان کی سرکشی ظاہر ہوتی ہے اگر وہ ان شرارت کے طوفانوں اور آندھیوں میں جو اس کی سرکشی سے پیدا ہوئے ۔ مبتلا نہ ہوتا تو نیچر ا س سے باغی نہ ہوتی۔ گنہگار انسان کے مقابلہ میں مسیح کامل انسان کو دیکھو کہ کس طرح نیچر اس کے تابع ہے۔ اس کی سکون دلی اور شاگردوں کی گھبراہٹ اس کا اپنے اوپر قابو رکھنا ۔ اور ان کا بے قابو ہوجانا ۔ اس کا نیچر کی طاقتوں پر مسلط ہونا اور ان کا اس کے خطروں سے خائف ونالاں ہونا اس فرق کو ظاہر کرتا ہے۔
۱۲۔جناب مسیح سمندر کی طغیانی اور طوفان کی شدت کو روکتے ہیں کیونکہ اس پر حاکم ہیں کوئی ایسا طوفان نہیں جسے وہ روک نہ سکیں خواہ وہ (الف) فطرت میں نمایاں ہو۔ (ب) تاریخ ہو (ج) خواہ کلیسیا کی تاریخ میں ہو (د) خواہ گھر میں ہو یا دل میں ہو۔
۱۳۔اگر مسیح ہمارے ساتھ ہیں تو ہم کبھی ہلا ک نہ ہوں گے ۔کلیسیا کا جہاز بارہا ایذاؤں اور آزمائیشوں کے طوفان میں مبتلا ہوا مگر وہ ہمیشہ اسے بچاتا رہا۔
۱۴۔طوفان ہم کو دعا مانگنا سکھاتا ہے اور مسیح کو ظاہر کرتا ہے۔ (الف) وہ ظاہر کرتا ہے کہ مسیح سچا اور پاک انسان ہے (ب) کہ وہ دانا اور مہربان خداوند ہے ۔ (ج) کہ وہ قادر اور واجب الاطاعت بن خدا ہے ۔
۱۵۔انسان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ خطرے کو اس بات کا نشان سمجھتا ہے کہ خدا میری پروانہیں کرتا ۔
۱۶۔طوفان کے بعد ہمیشہ امن ہے۔ او ریہی خدا کے بندوں کی آزمائیشوں کا حال ہے ان کی آزمائیشوں کے بعد ہمیشہ سانتی آتی ہے۔
۱۷۔ مسیح کمزور سے کمزور ایمان کی بھی بے قدری نہیں کرتے ۔