Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque
Bismillah 6
معجزاتِ مسیح

قاناء میں بادشاہ کے ملازم کے بیٹے کو شفا بخشنا
۲۔معجزہ

انجیلِ عیسیٰ پارہ یوحنا رکوع ۴آیت ۴۳سے ۵۴
مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے
؁ ۱۹۰۵ء

معجزاتِ مسیح
Miracles of Christ

2—Miracle
Jesus Heals an Official's Son – John 4:43-54
Rev. Talib-u-Din
1905

اس معجزے کا بیان تو ۴۶ آیت سے شروع ہوتا ہے۔لیکن ۴۳-۴۶آیات کے پڑھنے سے ایک مشکل نظر آتی ہے ۔ جس کا حل کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ان آیات میں لکھا کہ "مسیح گلیل کو گئے۔ کیونکہ آپ نے گواہی دی کہ نبی اپنے وطن میں عزت نہیں پاتا "(آیات ۴۳-۴۶) او رپھر لکھا ہے " کہ گلیلیوں نے اسے قبول کیا"۔ اب مشکل یہ ہے کہ گلیل ہی آ پ کا وطن تھااور اگر آپ وہاں قبول کئے گئے تو پھر آپ کا یہ قول کہ "نبی اپنے وطن میں عزت نہیں پاتا " کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟بعض نے اس مشکل کو اس طرح حل کیا ہے کہ چونکہ وہ یہودیہ کے بیت لحم میں پیدا ہوئے۔ اس لئے یہودیہ آپ کا وطن تھااور جب آپ وہاں قبول نہ کئے گئے تو گلیل کو گئے ۔ بلکہ برعکس اس کے ہم جانتے ہیں کہ کئی لوگوں نے یہودیہ میں بپتسمہ پایا اور آپ کی پیروی اختیار کی ۔ بلکہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس درجہ تک قبول کیا کہ فریسیوں کو بھی خبر ہوگئی۔ اور اسی سبب سےآپ کو گلیل جانا پڑا۔ اس طرح کی کئی اور تشریحیں بھی کی گئی ہیں۔لیکن وہ تسلی بخش نہیں ہیں سب سے بہتر خیال یہ ہی ہے کہ جب مسیح نے یہ فرمایا کہ "نبی اپنے وطن میں عزت نہیں پاتا ۔تو آپ کا اشارہ ناصرت کی طرف تھا۔ پس مطلب یہ ہے کہ مسیح سامریہ سے اپنے وطن ناصرت کو نہ گئے بلکہ گلیل کو روانہ ہوئے۔لفظ وطن انجیل کے کئی اور مقامو ں میں بھی ناصرت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس علاقہ کی طرف نہیں کرتا۔ جس میں ناصرت واقع تھا اور گلیل کہلاتا تھا۔ (انجیل عیسیٰ پارہ متی رکوع ۱۳آیت ۵۴تا۵۵۔ انجیل عیسیٰ پارہ مرقس رکوع ۶ آیت ۱تا۴اور انجیل عیسیٰ پارہ لوقا رکوع ۴ آیت ۲۳،۲۴)۔

دوسرا سوال یہ برپا ہوتا ہے کہ کیا یہ وہی معجزہ ہے جو انجیل عیسیٰ پارہ متی رکوع ۸ آیت ۵اور انجیل عیسیٰ پارہ لوقا رکوع ۷آیت ۲میں پایا جاتا ہےایک ہی شخص کا بیان قرار دیا ہے ۔لیکن دونوں بیانوں میں کئی ایسے فرق پائے جاتے ہیں جن کے سبب سے ہم ان دونوں بیانوں کو ایک ہی شخص کا تذکرہ نہیں مان سکتے ۔مثلا ً جس صوبہ دار کا بیان حضرت متی اور حضرت لوقا میں پایا جاتا ہے وہ غیر قوم تھا اور یہ بادشاہ کا ملازم یہودی تھاوہ اپنے نوکر کے لئے آیا ۔یہ اپنے بیٹے کے لئے اس کی درخواست اس وقت پیش کی گئی جبکہ مسیح کفرناحم میں داخل ہورہے تھے۔ مگر اس نے اپنے بیٹے کی شفا کی التجا قاناء میں کی۔ اس نے اپنی درخواست اوروں کے ہاتھ بھیجی اس نے خود آکر کی اس بیان میں بیماری فالج تھی۔ اس بیان میں بیماری بخار کی تھی۔ ماسواء ان ظاہری تضادتوں کے ایک اور گہرا فرق بھی پایا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ صوبدار ایک مضبوط ایمان کا نمونہ ہے۔ اور یہ ملازم کمزور ایمان کا وہ صوبہ دار یہ مانتا تھاکہ مسیح اگر کہہ دے تو میرا خادم اچھا ہوجائے گا لیکن یہ ملازم بڑی سرگرمی سے یہ منت کرتا ہے کہ مسیح اس کے ساتھ اس کے گھر جائے۔ اس کے ایمان کی تعریف ہوتی ہے اس کو ایک ہلکی قسم کی ملامت کی جاتی ہے۔

لائٹ فٹ صاحب کا جن کی اسے ایسے معاملات پر سند سمجھی جاتی ہے اور کئی اور مفسرین کا یہ گمان ہے کہ ملازم قوزا تھا۔( انجیل عیسیٰ پارہ لوقا رکوع ۸ آیت ۳) جس کی بیوی ان عورتوں میں شامل تھی جنہوں نے اپنے مال سے جناب مسیح کی خدمت کی۔ یہ خیال ناممکن معلوم نہیں ہے کیونکہ ہیرودیس کے دیوان کے کل خاندان کا مسیح کے پیروؤں میں داخل ہونا کسی ایسے ہی عجیب واقعہ پر مبنی ہوسکتا ہے۔

آیت ۴۶۔جنابِ مسیح پھر قاناء گلیل میں آئے۔

مسیح کے قانائے گلیل میں دوبارہ آنے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ آپ کا شاگرد نتھانی ایل وہاں کا رہنے کا والا تھااور نیز ہم پہلے معجزے میں دیکھ آئے ہیں کہ شاید اس جگہ حضرت مریم صدیقہ کے رشتہ دار بھی رہتے تھے۔

بادشاہ کا ایک ملازم تھا جس کا بیٹا کفر ناحم میں بیمار تھا۔ ہم اس کا ذکر اوپر کرآئے ہیں کہ وہ ہیردویس کا دیوان تھا۔ لائیٹ فٹ صاحب کا خيال ہے کہ اگر یہ شخص قوزا نہ تھا تو منائین ہوگا۔یادر ہے کہ دونوں خیال صرف گمان ہیں ۔ ممکن ہے کہ پہلا گمان صحیح ہو مسیح کے شاگردفقط غریب ہی نہ تھے بلکہ امیروں اور رئیسوں میں سے بھی تھے۔

رایل صاحب فرماتے ہیں کہ جو معجزات کفرناحم میں دکھائے گئے وہ تو جہ طلب ہیں نیز ان لوگوں کے منصب اور مرتبہ پر غور کرنی چاہیے جن کے لئے وہ معجزات کئے گئے اسی جگہ مسیح نے صوبہ دار کے خادم کو شفا دی۔( انجیل عیسیٰ پارہ متی رکوع ۸ آیت ۵)اور اسی جگہ آپ نے عبادتخانہ کے سردار یایئرس کی بیٹی کو زندہ کیا۔ (انجیل عیسیٰ پارہ مرقس رکوع ۸آیت ۲۱) او ریہیں آپ نے اس ملازم کے بیٹے کو شفا بخشی ۔ تین مختلف قسم کے لوگوں کے درمیان ایک ایک معجزہ دکھایا ۔یہ صوبہ دار ایک غیر قوم شخص تھا اور جایرس اعلیٰ درجہ کا کلیسائی عہد رکھنے والا تھااو ریہ ملازم اعلیٰ درجہ کے سرکاری منصب پر ممتاز تھا ۔ مسیح کے یہ الفاظ "اے کفر ناحم تو جو آسمان تک بلند ہے " (انجیل عیسیٰ پارہ متی رکوع ۱۱ آیت ۲۳) بیجا نہ تھے۔ بیشک کسی اور جگہ کو اتنی بزرگی اور برکت حاصل نہیں ہوئی ۔

آیت ۴۷ ۔وہ سن کر کہ مسیح یہودیہ سے گلیل میں آگئے ہیں آپ کے پاس گیا اور آپ سے درخواست کرنے لگاکہ چل کر میرے بیٹے کو شفا بخشیں وغیرہ۔

اس آیت سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ مسیح کی شہرت تمام گلیل میں ہوگئی تھی۔ کچھ اس معجزے کے سبب سے جو آپ نے قاناء گلیل میں دکھایا تھااور کچھ ان عجیب کاموں کے سبب سے جو یروشلم میں کئے گئے تھے۔ جن کو ان گلیلیوں نے جو عید کے تقریب پر وہاں گئے ہوئے تھے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ سب جان گئے تھے کہ مسیح نہ صرف شفا بخشنے کی قدرت رکھتے ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ بیماروں کو شفا بخشے۔

واضح رہے کہ یہ شخص مسیح کے پاس صرف ایک جسمانی ضرورت کے سبب سے آیا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ اس ضرورت کو بھی مسیح ہی رفع کرسکتے تھے۔ تاہم یہ جاننا ضروری ہے روحانی ضروریات کی شناخت اس کو آپ کے پاس نہیں لائی تھی۔کیونکہ پروردگار فرماتے ہیں کہ "جب تک تم نشان اور عجیب کام نہ دیکھو گے ہر گز ایمان نہ لاؤ گے۔"

ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہےکہ یہ ملازم اپنے ہم وطنوں کا ہم خیال تھا۔ ان کی طرح نشان کا منتظر تھا۔ وہ ان سامریوں کی مانند نہ تھا۔ جنہوں نے کوئی نشان طلب نہ کیا۔بلکہ صرف مسیح کا کلام سن کر آپ کو قبول کیا۔( انجیل عیسیٰ پارہ یوحنا رکوع ۴ آیت ۱۴) ا س ملازم اور اس کے ہم وطنوں نے مسیح کے جلال کو آپ کی شخصیت اور تعلیم میں جلوہ گر تھا نہ پہچانا او ریہی سبب تھا کہ وہ مسیح کو ساتھ چلنے پر زور دیتا تھااور نہیں جانتا تھا کہ اگر وہ یہیں سے کہہ دیں تو آپ کا کلام شفا بخشنے کے لئے کافی ہے۔

آیت ۴۸۔مسیح نے اس سے کہاجب تک تم عجیب کام نہ دیکھو گے ہر گز ایمان نہ لاؤگے۔

ان لفظوں میں جیسا اوپر بیان ہوچکا یہودیوں کی عام آرزو اور تمنا کااشارہ پایا جاتا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم اس کی مسیحائی کے ثبوت میں معجزے اور نشان دیکھیں ۔ مسیح یہ فرماتے ہیں کہ کیا تم بغیر ان معجزوں اور نشانوں کے ایمان نہیں لاسکتے ؟یاد رہے کہ مسیح یہاں معجزوں کی تحقیر نہیں کرتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان اصل مطلب سمجھا جائے۔ ان کا مدعا یہ نہیں کہ وہ زبردستی ایمان پیدا کریں بلکہ یہ کہ ان لوگوں کے ایمان کو مضبوط کریں جو خدا کے رسول کی تعلیم اور اسکی صداقت سے موثر ہوچکے ہیں۔نیز یہ بات غور طلب ہے کہ گو مسیح کے کلام میں ایک قسم کی دھمکی اور ملامت پائی جاتی ہے ۔تاہم ملازم کی درخواست کے منظور کرنے کا انکار ثابت نہیں ہوتا ۔بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس قدر ان الفاظ سے ملامت ٹپکتی ہے اسی قدر یہ امید مترشح ہے کہ معجزہ دکھایاجائے گا کیونکہ وہ جانتا تھے اس کے معجزے کو دیکھ کر یہ شخص زندگی کے مالک پر بھروسہ کرے گا۔

آیت ۴۹۔بادشاہ کے ملازم نے مسیح سے کہا اے مالک میرے بچے کے مرنے سے پہلے چلئے۔

ان لفظوں میں اس ملازم کی سرگرمی آشکارا ہے۔ پروہ بھی مسیح کا مطلب نہیں سمجھاکہ وہ بغیر جان کے ا سکے بیٹے کو شفا بخش سکتے ہیں۔ وہ دو قسم کی غلطی میں گرفتار ہے۔ ایک یہ کہ مسیح موت کے بعد زندہ نہیں کرسکتے ۔دوئم یہ مسیح یہ نہیں جانتے کہ میرا بیٹا کیسی نازک حالت میں گرفتار ہے۔اگر جانتے تو اتنی تاخیر نہ کرتے۔لہذا وہ زیادہ سرگرمی سے التجا کرتا ہے "اے مالک میرے بچے کے مرنے سے پہلے چلئے "

آیت ۵۰۔مسیح نے اس سے فرمایا جا تیرا بیٹا جیتا ہے۔اُس شخص نے اس بات کا یقین کیا وغیرہ ۔

یہاں تین باتیں غور طلب ہیں ۔

۱۔مسیح کی مہربانی۔ وہ اس ملازم کے ایمان کی کمزوری کا چنداں خیال نہیں کرتے بلکہ اس کے بیٹے کو شفا بخشتے ہیں۔

۲ ۔ مسیح کی لامحدود قدرت غور طلب ہے۔آپ اپنے کلمے سے بیمار کو شفا بخشتے ہیں۔

۳۔ اس ملازم کا بھروسہ غور طلب ہے اب وہ کسی طرح کی چون چران نہیں کرتا بلکہ اس بات کا قائل ہوجاتا ہےکہ مسیح کا کلام قدرت سے ملبس ہے۔

مسیح کس طرح ہمارے ایمان کو بڑھاتے ہیں وہ عجیب طرح سے ہر شخص سے پیش آتےہیں اس کے ایمان کو تقویت دینے کے طریقے جدا جدا ہیں۔ نقودیمس ،سامریہ کی عورت یہ ملازم اس بات کی نظیر یں ہیں۔

مفسر اس بات کی طرف ہم کو متوجہ کرتے ہیں کہ مسیح نے اس معاملہ میں وہ طریقہ اختیار نہ کیا جو صوبہ دار کے خادم کو شفا بخشتے وقت اختیار کیا دیکھئے یہ ملازم درخواست کرتا ہے کہ میرے ساتھ چلئے اور وہ نہیں جاتے۔ صوبہ دار کہتا ہے کہ آپ کو میرے گھر جانے کی ضرورت نہیں تاہم آپ ادھر روانہ ہوتے ہیں ۔مسیح اس ملازم کے گھر اس لئے نہیں جاتے کہ ا س کا ایمان مضبوط ہواور صوبہ دار کے گھر اس لئے جاتے ہیں کہ اپنی حضوری  سے ا سکے ایمان کو مزین او را سکی فروتنی کو ممتاز کریں۔پھر یہ بات بھی ظاہر ہے کہ مسیح طرفداری کے لوث سے مبرا ہیں ۔جہاں چاہتے ہیں وہاں اپنی حکمت کے مطابق جاتے ہیں جہاں جانا نہیں چاہتے وہاں اپنی حکمت کے مطابق نہیں جاتے ۔

آیت ۵۱۔ وہ (مسیح) رستہ ہی میں تھے۔

یونانی کااصل ترجمہ نئے ترجمہ کے حاشیہ میں دیا ہوا ہے او ر وہ یہ ہے کہ "اتر ہی رہے تھے" جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قاناء پہاڑی خطہ تھا اور کفرناحم میدان میں واقع تھا۔ اس کے نوکر اس سے ملے او رکہنے لگے کہ تیرا لڑکا جیتا ہے یعنی وہ جو قریب المرگ تھا اب بیماری کے چنگل سےرہا ہے وہ جیتا ہے ۔

آیت ۵۲۔ اس نے ان سے پوچھا کہ اسے کس وقت سے آرام ہونے لگا تھا۔

مسیح کی بات کا خیال اس کے دل پرجما ہوا تھا اور اگر وہ مسیح کے کلام کی قدرت کو محسوس بھی کررہا تھا تاہم ا س کا ایمان ابھی اسی درجہ تک پہنچا تھا کہ مسیح کے کلام سے صرف اتنی توقع رکھتا تھا کہ لڑکے کو شفا بتدریج حاصل ہوگی۔ لہذا وہ یہ کلمات استعمال کرتا ہے ہے کہ " کس وقت سے آرام ہونے لگا " لیکن اس کے نوکر اسے بتاتے ہیں کہ کل ساتویں گھنٹے کے قریب بخارنے اسے بالکل چھوڑ دیا۔

آیت ۵۳۔ ساتویں گھنٹے کے قریب ۔

شمار وقت کے متعلق دو رائیں ہیں۔ ایک کہ حضرت یوحنا ہمارے دستور کے مطابق وقت کا حسا ب کرتے ہیں او رکہ ساتویں گھنٹے سے شام کا ساتواں گھنٹہ مرا دہے۔ دوسری یہ کہ یہودی طریق کے مطابق حساب لگاتا ہے جس کے مطابق وقت ایک بجے کے قریب تھا۔اس کی تپ اتر گئی نہ صرف گھٹنے لگی بلکہ فوراً اور بالکل اتر گئی۔

آیت ۵۴۔ پس باپ جان گیا کہ وہی وقت تھا ۔۔۔۔اور وہ خود ایمان لایا اور ا س کا سارا گھرانہ ایمان لایا۔

یہ مسیح کی رحمتوں کی کثرت کا نتیجہ تھا اب ا س نے وہ برکت جو سب برکتوں کی سرتاج ہے پائی ۔ اس نے اب نجات کا پیالہ بھی اس کے ہاتھ سے لیااور نہ صرف اسی نے لیا بلکہ اس کے ساتھ اس کے گھرانے نے بھی لیا۔بلکہ اس ساتھ اس کے گھرانے نے نے بھی لیا۔ رایل صاحب بڑی خوبی سے بیان کرتےہیں کہ ہمارے بچے بھی نجات میں شامل ہیں ۔ ہم ان کو مسیح کی نعمتوں سے خارج نہیں کرسکتے ملازم کے تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے درجے ہیں (۱)آغاز،(۲) ترقی ،(۳) کمال ۔ آغاز اس وقت ہوا جبکہ شخص مسیح کے پاس آیا۔ترقی اس وقت جبکہ مسیح نے کہا جا تیرا بیٹا جیتا ہے ۔کمال اس وقت جبکہ اس کا بیٹا شفا کی حالت میں اسے ملا ۔ اب ا س کا ایمان اس درجہ کو پہنچ گیا کہ وہ اپنا سب کچھ اپنے نجات دہندہ کی خاطر دینے کو تیار تھا۔

آیت ۵۵۔ یہ دوسرا معجزہ ہے جو مسیح نے یہودیہ سے گلیل میں آکر دکھایا۔

توبھی بہت لوگ یہودیوں میں سے ایمان نہ لائے۔ سامریہ میں بغیر معجزے کے بہت سے لوگ مسیح کے پاس آئے۔

نصیحتیں اور مفید اشارے

۱۔مسیح کے فضل کی قدرت ہر مرتبہ اور ہر حالت کے لوگوں میں سے ایمانداروں کو کھینچ لاتی ہےاس انجیل کے شروع میں یعنی پہلے رکوع میں مچھوے ایما ن لاتے ہیں ۔ تیسرے بات میں ایک فریسی جو اپنے تئیں متقی پرہیز گار سمجھتا تھا۔ چوتھے رکوع کے شروع میں ایک گری ہوئی عورت اور ا سکے آخر میں ایک رئیس ایمان لاتا ہے جو شاہی دربار میں اعلیٰ عہدہ پر مامور تھا۔

۲۔دکھ سب پر آتا ہے امیر بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ امیر لوگ اس سے بڑ ھ کر اور کسی غلطی میں گرفتار نہیں ہوسکتے کہ وہ یہ سمجھیں کہ ہم پر دکھ کبھی نہیں آئے گا۔

۳۔ محبت جتنی اعلیٰ طبقہ سے نیچے اترتی ہے اتنی ادنیٰ طبقہ سے اوپر نہیں جاتی ہم کہیں انجیل میں یہ نہیں دیکھتے کہ بیٹے یا بیٹیاں اپنے باپ کی شفا کے لئے مسیح کے پاس آئے ہوں ۔ہمیشہ ماں باپ اپنے بچوں کے دکھ کو محسوس کرکے مسیح کے پاس آتے اور ان کے لئے دعا کرتے ہیں جتنی محبت خدا ہم سے کرتا ہے ہم میں اس عشر عشیر بھی نہیں پایا جاتا ۔

۴۔لکھا ہے کہ یہ دوسرا معجزہ تھا جو مسیح نے دکھایا۔ اس بات کے رقم کرنے کی کیا ضرورت تھی یہ کہ ہم کو معلوم ہوجائے کہ خداان تمام فضل کے وسیلوں اور موقعو ں کا حساب رکھتا ہے جو وہ ہمیں عطا کرتا ہے۔یہودیوں نے دوسرا معجزہ دیکھا اور پھر بھی ان میں سے صرف ایک گھر انہ ایمان لا یا۔ خدا نہ صرف اس بات کا حساب رکھتا ہے کہ سرمن سے کتنے لوگ ایمان لائے بلکہ اس بات کا بھی کتنے سرمن لوگوں نے ضائع کردیئے۔

۵۔ ایمان کے بغیر برکت نہیں ملتی۔

۶۔ ہم انسان کے ساتھ یہ طریقہ کام میں لاتے ہیں کہ پہلے اسے آزماتے اور پھر اس پر یقین لاتے ہیں لیکن خدا کے ساتھ یہ ترتیب بدل جاتی ہے وہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم پہلے اس پر بھروسہ کریں۔ اور پھر اسے آزمائیں۔

۷۔سچا ایمان زیادہ مضبوط ہوتا جاتا ہےاور صرف مسیح اسے مضبوط کرنا جانتے ہیں۔ نپولین اور ایک سپاہی کا قصہ۔ ایک دفعہ نپولین کے ہاتھ سے لگام گرگئی اور گھوڑا بھاگنے لگا۔ ایک سپاہی دیکھتے ہی دوڑا اور زرین کو جو اپنی جگہ سے ہل گئی تھی درست کردیا۔ نپولین نے کہا کپتان میں آپ کا نہایت مشکور ہوں۔وہ کپتان نہ تھا مگر اس نے بادشاہ کی بات قبول کی اورکہا حضور کس رجمنٹ کا بادشاہ خوش ہوا اور کہا میرے محافظوں کے دستہ کا۔ اس نے اسی وقت جا کر وہ جگہ اختیار کی۔لوگوں نے بہت مخالفت ک پر جب اس نے انگلی سے اشارہ کرکے بتایا کہ مجھے بادشاہ نہ مقرر کیا ہے تو سب چپ ہوگئے۔

۸۔ ہمیں اپنے بچوں کی بہبودی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اس بات کے لئے فکر مندہونا چاہیے کہ وہ مسیح کی شکل میں تبدیل ہوں ہم ان کے لئے سفارش کریں اور خاموش نہ ہوں جب تک مسیح یہ نہ کہے جا تیرا بیٹا جیتا ہے۔