چوتھا باب
چند خیالات جو معجزات کی گواہی کی تواریخی صحت کی تائید کرتے ہیں
معجزات کی گواہی کے متعلق دو سوال ۔ عقلی اور تواریخی
معجزات کی گواہی کے متعلق دو سوال برپا ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک عقلی اور دوسرا تواریخی ہے۔ ہم پہلے سوال کا جواب گذشتہ باب میں دے چکے ہیں ۔ ہم نے وہاں دکھادیا ہے کہ معجزات کے بارے میں جو گواہی انجیل شریف میں درج ہے۔ وہ اس سبب سے کہ بعض اشخاص معجزات کو تجربہ کے برخلاف سمجھتے ہیں ردنہیں کی جاسکتی ۔
انجیلی معجزات کی تواریخی گواہی رد نہیں کی جاسکتی
اس باب میں ہم دوسرے سوال پر غور کرنے کے لئے تیار ہیں اوریہاں ہم دکھائینگے کہ مسیح کے معجزات کے متعلق جو گواہی انجیل شریف سے دستیاب ہوتی ہے اس میں ایسی خاصیتیں موجو دہیں جو اس کی تواریخی صحت پر دلالت کرتی ہیں۔
اس تواریخی گواہی کے متعلق انجیل شریف میں اصلیت اور معتبری پر غور کرنا ضروری ہے
معجزات پر لکھنے والے اس موقعہ پر عموماً انجیل کی اصلیت اور قدامت اور معتبری ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے اس بات کے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا جن کتابوں میں مسیحی معجزات درج ہیں وہ انہیں اشخاص کی لکھی ہوئی ہیں جن سے ان کی تصنیف منسوب کی جاتی ہے یا نہیں ؟ ہم اس چھوٹے سے رسالے میں اس وسیع مضمون کا ذمہ نہیں لے سکتے تاہم اتنا کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ قدیم زمانوں میں کبھی کسی نے انجیل کی قدامت اور معتبری پر اعتراض نہیں کیا تھا۔ بلکہ مخالف اور معاون سب ان کتابوں کو رسولوں کی تصنیف سمجھتے تھے۔مگر متاخرین نے جب فوق العادت اظہارات اورمعجزانہ واقعات کے امکان کا انکار کرنا شروع کیا تو یہ سوال برپاہوا کہ انجیل کےساتھ جن میں مسیح کے معجزات پر تواریخی گواہی موجود ہے کیا کیاجائے ؟ انہوں نے دیکھا کہ اگر ہم انجیل کو اصلی مانتے ہیں تو ہم کو یہ بھی ماننا پڑتاہے کہ مسیح کے معجزات برحق ہیں ۔ پریہ ہم نہیں کرسکتے ۔ پس اس دقت کو رفع کرنے کے لئے انہوں نے انجیل کی اصلیت اور قدامت ہی کا انکار کردیااور کہا کہ وہ متی اور مرقس اور لوقا اور یوحنا کی تصنیف ہی نہیں ہیں۔ بلکہ دوسری صدی کے آخری حصے میں کسی وقت لکھی گئیں۔ اور ان کے مصنفوں نے مسیح کی شان اورنام بڑھانے کے لئے معجزانہ قصے اورکہانیاں بھی اُن میں شامل کردیں۔ پروفیسر بروس صاحب کا یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ اگر وہ معجزانہ عنصر جو انجیل میں پایا جاتاہے نکال دیا جائے تو پھر وہ لوگ جو اب انجیل کی اصلیت پر حملہ کرتے ہیں کبھی نہ کریں۔ بیشک انجیل کی اصلیت میں تو کسی طرح کا نقص نہیں پایا جاتا ۔ پر وہ لوگ جو معجزات کے منکر ہیں مجبور ہیں کہ ان کی اصلیت اور قدامت پر نقص چسپاں کریں۔
گوہم اس جگہ انجیل کی قدامت اور اصلیت اور معتبری پر بہت کچھ لکھنے کو تیار نہیں۔ تاہم اتنا کہے بغیر خاموش بھی نہیں رہ سکتے ۔ کہ مسیحی علماء نے مخالفوں کے اعتراضوں کے جوجواب دئيے ہیں وہ نہایت زبردست بلکہ فیصلہ کن ہیں۔
انجیل کی اصلیت کے ثبوت میں جو دلیلیں مختصر طورپر پیش کی جاتی ہیں
انجیل کی اصلیت کے دو طرح کے ثبوت پیش کئے جاتے ہیں جوبیرونی اورباطنی کہلاتے ہیں۔ بیرونی ثبوتوں سے وہ گواہیاں مراد ہیں جو قدیم مسیحی بزرگوں اور بدعیتوں اور معترضوں کی تصنیفات اور دیگر خارجی اسباب سے بہم پہنچتی ہیں ۔ مثلاً اگرہم قدیم مسیحی بزرگوں کی تصانیف کو لیں اور سلسلہ تحقیقات شروع کریں توہم دیکھینگے کہ تیسری چوتھی صدی سے لے کر رسولی زمانہ تک ان بزرگوں کی گواہی برابر چلی جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ وہ اپنی تصانیف میں ہماری موجودہ انجیل کے بے شمار مقام اقتباس کرتے ہیں۔ اورنیز ہم یہ دیکھینگے کہ وہ اس انجیل کو انہیں مصنفوں سے منسوب کرتے ہیں ۔ جن سے ہم منسبو کرتے ہیں ۔ زمانہ حال کے معترض اس ثبوت کے زور کو محسوس کرتے ہیں۔ پر اُسے نظر انداز کرنا چاہتے ہیں مگر کون بآسانی کو رد کرسکتا ہے ؟ اگر ہمارےناظرین اس مضمون کے متعلق کتاب " زندہ مسیح اور انجیل اربعہ" کا مطالعہ فرمائیں تو اُن پر واضح ہوجائیگا کہ انجیل شریف کی اصلیت کے ثبوت میں یہ دلیل لاجواب ہے۔
مسیحی مذہب کے قدیم مخالف انجیل کی اصلیت کے قائل
ماسوائے اس کے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ ان مسیحی بزرگوں کےمخالف تھے اور ان سے مذہبی بحث کیا کرتے تھے وہ بھی اس انجیل کی اصلیت اور معتبری پر شک نہیں لاتے ۔ البتہ وہ مسیحی تعلیمات اورمسائل پر حملہ کیا کرتے تھے۔ مگر اس کا انکار نہیں کرتے تھے کہ متی کی انجیل کو متی نے اور مرقس کی انجیل کو مرقس نے اورلوقا کی انجیل کو لوقا نے اور یوحنا کی انجیل کو یوحنا نے تحریر کیا ہے۔
انجیل کی باطنی خاصیت بھی اُن کی اصلیت اور قدامت کو ثابت کرتی ہے
لیکن زمانہ حال کے مخالفوں نے بیرونی شہادتوں سے کسی قدر روگردانی اختیار کی ہے اور انجیل کی باطنی خاصیتوں کی نکتہ چینی پر زيادہ زور دیا ہے۔ چنانچہ طرز تحریر کے تفاوتوں۔ عبارت کی خاصیتوں اور لفظوں کی بحثوں اوراسی طرح کی کئی اور باتوں پر یہ دعویٰ قائم کیا ہے کہ یہ انجیل دوسری صدی میں تصنیف کی گئی تھیں ۔ لیکن مسیحی علماء نے انجیل کی عبارتوں اور لفظوں اورلوکل واقعات اور خصوصیات سے ثابت کردیا ہے کہ یہ انجیل اصلی ہے۔ انگریزی زبان میں بے شمار کتابیں اسی دلچسپ بحث کے متعلق موجود ہیں وہ یا توخاص اسی مضمون پر لکھی گئیں ہیں یا علم انٹرودکشن سے علاقہ رکھتی ہیں ۔ شائقین ان کتابوں کودیکھ کراس مضمون کی نسبت خود فیصلہ کرسکتے ہیں ۔
نتیجہ
اب نتیجہ یہ نکلتاہے کہ جن کتابوں میں مسیح کے معجزات مندرج ہیں وہ انہیں لوگوں کی لکھی ہوئی ہیں جو ان معجزات کو بچشم خود دیکھنے والے تھے۔ اب ہم ان باتوں پر غور کرینگے جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ مسیح کے معجزات جو انجیل میں قلمبند ہیں وہ چشم دید گواہوں کی بنا پر قبول کرنے کے لائق ہیں۔مگر ان کا شمار پیش کرنے سے پیشتر ایک اوربات یادرکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ ہے کہ مسیحی مذہب کے سوائے اورکوئی مذہب ایسا نہیں جس نے اپنے دعووں اور تعلیموں کے ثبوت میں معجزات کی شہادت پیش کی ہو۔ یہ ہم مانتے ہیں کہ شاذہی کوئی ایسا مذہب ہوگا جس کے پیروؤں نے اپنے رہبر یا بانی سے کسی نہ کسی طرح کے عجیب کام منسوب نہ کئے ہوں مگر فرق یہ ہے کہ وہ اپنے بانیوں کے من جانب اللہ ہونے کے ثبوت میں معجزات کو اسطرح پیش نہیں کرتے جس طرح مسیح مذہب کرتاہے ۔ یا یوں کہیں کہ ان کےبانیوں نے کوئی ایسا معجزہ اپنے دعووں کے اشتہار کے ساتھ نہیں دکھایا جس کو لوگ اپنے حواس سے محسوس کرتے اورنقودیمس کی طرح بول اٹھتے"۔ اے ربی ہم جانتےہیں کہ تو خدا کی طرف سے استاد ہوکر آیا ہے۔ کیونکہ کوئی یہ معجزے نہیں دکھاسکتا جب تک خدا اس کے ساتھ نہ ہو"۔ ہم پھر کہتے ہیں کہ ہمارا یہ دعویٰ نہیں کہ مختلف مذاہب نے کبھی معجزوں کا دعویٰ نہیں کیا۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بت پرست قوموں کی تاریخ جھوٹے معجزوں کے قصوں سے بھری پڑی ہے۔ پس جو ہمارا مطلب ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کے مذاہب نے کبھی اپنے دعووں کی تصدیق کے لئے معجزات کو پیش نہیں کیا۔ بلکہ ان کے معجزات ان کے قائم ہوجانے کے بعد شہرت پذیر ہوئے۔ یا یوں کہیں کہ ان مذہبوں کا وجود اُن کے بانیوں کے معجزات پر مبنی نہیں۔ بلکہ ان کے معجزات کا وجود اُن مذہبوں کے وجود پر مبنی ہے۔ یعنی جب وہ مذہب قائم ہوگئے اورلوگوں نے ان کو قبول کرلیا تب معجزات نےبھی ان مذہبوں کے متعلق رواج پایا۔نہ کہ ان مذہبوں نے معجزات کے وسیلے ہستی کی صورت دیکھی۔ چند معجزانہ واقعات محمد صاحب سے بھی منسوب کئے جاتے ہیں۔ مگرانہوں نے اپنی رسالت کے ثبوت میں کسی طرح کے معجزوں کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ اُن لوگوں کو جو اُن سے نشانات طلب کرتے تھے ۔ صاحب کہہ دیا کہ خدا کہتاہے کہ ہم نے تجھے اس واسطے معجزانہ نشانات نہیں دئے کہ اگلی قوموں نے ایسے نشانات کو فریب سمجھا۔ ایک اور واقعہ پر لوگ ان سے یہ کہتے ہیں کہ جب تک توہم کو کوئی نشان نہیں دکھائیگا ہم تجھ پر ایمان نہیں لائینگے۔ اس کے جواب میں آنحضرت نے یہ کہا کہ اس قسم کے نشان دکھانا خدا کی قدرت میں ہے۔ اور وہ فرماتاہے کہ کیا یہ تمہارے لئے کافی نہیں کہ میں نے تم کو قرآن دیدیاہے۔ تاکہ تم اسے پڑھا کرو۔ ہم جانتے ہیں کہ محمد صاحب نے بعض فوق العادت باتوں کا دعویٰ کیا۔ مثلاً معراج کے وسیلے عرش معلیٰ کی سیر کرنا، جبرئيل کی مخفی اورپوشیدہ ملاقاتوں کا خط اٹھانا اور غیر مخلوق فرقان کا وقت بوقوت نازل ہونا ان کے دعووں میں شامل ہے مگر ہم ان کو ایسے معجزات نہیں کہہ سکتے کہ جن کی درستی یا نادرستی حواس کے وسیلے دریافت کی جائے۔ کیا آنحضرت اس بات سے واقف نہ تھے کہ معجزات کے سبب سے گذرے زمانہ میں مسیحی مذہب کو بڑی اقبالمندی حاصل ہوئی ؟ ہاں وہ اس سے واقف تھے کہ معجزات کے سبب اس نے ترقی پائی ۔ کیا لوگ ان سے معجزانہ نشانات طلب نہیں کیا کرتے تھے؟ ہاں کیا کرتے تھے ۔ کیا وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اگر معجزانہ نشانات دکھائے جائیں توایسا اثر ہوگاکہ بہت لوگ میرے دعووں کو قبول کرینگے۔ کیا انہوں نے فوق العادت سے بالکل کنارہ کشی کرنا مناسب سمجھا؟ نہیں انہوں نے کئی فوق العادت باتوں کا دعویٰ کیا۔ مثلاً جبرئیل کی ملاقاتیں ، معجراج اور غیر مخلوق قرآن کا نزول یہ سب باتیں خرق عادت پر دلالت کرتی ہیں اور وہ جانتے تھے کہ اگر یہ دعوے قبول ہوگئے تو عجیب قسم کی کامیابی نصیب ہوگی۔ یہ سب باتیں وہ جانتے تھے مگر پھر بھی انہوں نے کبھی ایسے معجزوں کا دعویٰ نہ کیا۔ اورنہ کوئی ایسا معجزہ دکھایا جس کے وقوع اور وجود کی تواریخی صحت چشم دید گواہوں کی گواہی پر مبنی ہوتی۔ گو محمد صاحب کے عجیب دعووں کو معجزانہ نشانات کی شہادت کی ضرورت تھی۔ گو انہوں نے بعض بعض فوق العادت واقعات کا جن کا گواہ سوائے اُن کے اورکوئی نہ تھا دعویٰ بھی کیا ۔ اور گو ان کے معاصرین علم وتہذیب کے اعتبار سے ایسی لیاقت نہیں رکھتے تھے کہ حقیقی اور غير حقیقی معجزات میں امتیاز نہ کرسکتے۔ کیونکہ ملک عرب اس وقت عجیب تاریکی میں مفلون تھا۔ تاہم باوجود ان اسباب کے آنحضرت نے کبھی کوئی ایسا معجزہ نہ دکھایا جسے غیر لوگ دیکھتے اور اپنے حواس سے محسوس کرتے اورپھر اس کی صحت پر گواہی دینے کے لئے جان پر کھیل جانے کو تیار ہوجاتے ۔ ہم بڑی عجزاور انکسار سے عرض کرتے ہیں کہ کیا اس کا یہ سبب نہیں کہ آنحضرت جانتے تھے کہ جبرئیل کی ملاقات اور معراج کی سیر اور قرآن کے فوق العادت نزول کا دعویٰ کرنا آسنان ہے بہ نسبت ایسے معجزات دکھانے کے جن کی حقیقت سے عرب کے جاہل اور غیر مہذب باشندے بھی بوسیلے اپنے حواس کے بخوبی واقفف ہوسکتے ہیں۔ پس بائبل ہی کا مذہب اکیلا وہ مذہب ہے جو اپنے دعووں کی تصدیق وتائید میں معجزات کی شہادت پیش کرتاہے ہم ذرا آگے چل کر اس بات پر غور کرینگے۔ کہ جھوٹے معجزے کس طرح پیدا ہوتے ہیں۔ اوراُن میں اور مسیح کے معجزوں میں کیافرق ہے ۔ یہاں ہم اُن خاصیتوں کو ہدیہ ناظرین کرنا چاہتے ہیں جن کے ملاحظہ سے مسیح کی معجزانہ قدرت کی حقیقت ظاہرہوتی اور اس کے معجزانہ کاموں پر روشنی گرتی ہے۔ مسیحی علما نے ذیل کی باتیں اس خصوص میں پیش کی ہیں۔
مسیح کے بہت سے معجزے ایسے ہیں جن کے وقوع کو فطرت کی طاقتوں سے منسوب نہیں کرسکتے
(۱۔) جو معجزانہ واقعات مسیح سے منسوب کئے جاتے ہیں ان میں سے کئ ایسے ہیں جن کو کسی طرح فطری اسباب سے منسوب نہیں کرسکتے ۔ یعنی ان کی نسبت یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان میں سوپرنیچرل (فوق العادت ) قدرت صرف نہیں ہوئی ۔بلکہ انہیں نیچر کی طاقتوں نے پیدا کیا اور مسیحیوں نے سہو سے ان کو معجزہ مان لیا۔ مثلاً اگر یہ درست ہوکر پانچ ہزار اشخاص کو آسودہ کرنے سے پہلے واقعی سوائے پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں کے اور کچھ موجود نہ تھا۔ اگریہ درست ہوکہ صوبہ دار کا خادم مسیح کے اس کلمہ جاں بخش سے اچھا ہوگیا جو اُس کی زبان مبارک سے اس وقت نکلا جبکہ وہ صوبہ دار کے گھر سے بہت دور کھڑا تھا۔ اگریہ سچ ہو کہ ایک جنم کا اندھا فقط مٹی لگانے اورشیلوخ کے حوض میں نہانے سے بینا ہوگیا۔ اگر یہ صحیح ہو کہ لعزر جو چار دن سے قبر میں مدفون تھا۔ مسیح کے کلام سے مردوں میں سے جی اٹھا تو یہ سب واقعات ایسے واقعات ہیں جو معجزانہ قدرت کے سوائے اورکسی طرح وجود میں نہیں آسکتے تھے۔ کیونکہ ان کی شرح اورکسی بناپر نہیں ہوسکتی۔ پس ہم دونتیجوں میں سے ایک نتیجہ کو قبول کرنے کے لئے مجبور ہیں یا توہم رسولوں کی گواہی کو رد کرکے ان واقعات کی معجزانہ خاصیت کا انکار کریں۔ یا یہ مانیں کہ یہ واقعات حقیقت میں معجزے ہیں۔
مسیح کے معجزات حواس خمسہ سے پہچانے جاتے تھے
(۲۔) مسیح کے معجزات اس قسم کے تھے ۔ کہ دیکھنے والے اپنے حواس کے وسیلے ان کی حقیقت اور درستی پر رائے زنی کرسکتے تھے۔ معجزات کے لئے یہ لازمی امر ہے کہ دیکھنے والوں کو ان کے وجود پر کسی طرح کا شک وشبہ نہ رہے۔ اوراس شناخت کے لئے علم اور تہذیب کی چنداں ضرورت نہیں۔ کیونکہ عالم اورجاہل سب اپنے حواس کے وسیلے اس بات کا فیصلہ کرسکتے ہیں کہ آیا وہ واقعہ جو ہم دیکھ رہے ہیں درحقیقت واقع ہورہاہے یا نہیں۔ مثلاً جب نائین کی بیوہ کے مردہ فرزند کا جنازہ قبرستان کی طرف جارہا تھا اس وقت عالم اور جاہل مرد اور عورت ،دوست اورمخالف سب دیکھ رہے تھے کہ وہ مرگیا اور لوگ اسے دفن کرنے کو لئے جارہے ہیں۔ اُنہوں نے بیوہ اوراس کے ہمدرد دوستوں کو ماتم کرتے دیکھا۔انہوں نے مسیح کو جنازہ ٹھیراتے اوراس مردہ نوجوان کو اپنے کلام سے زندہ کرتے دیکھا۔ اورپھر اس کے بعد اس کو ایک مدت تک نائن شہر میں بودوباش کرتے دیکھا۔ انہوںن ے اپنے حواس سے اس معجزے اور دیگر معجزات کی سچائی کو مسحوس کیا۔
ان معجزوں کو نہ صرف دوست بلکہ غیر بھی دیکھتے تھے
(۳۔)مسیح کے معجزات برملا طور پر دکھائے گئے ۔ ان کے دیکھنے والے نہ صرف مسیح کے شاگرد ہی تھے۔ بلکہ اغیار بھی تھے۔ اس کے دشمن جواس کی اور اس کےدعووں کی بیخ کنی کرنا چاہتے تھے ان کودیکھتے تھے۔ ارباب علم وفضل اورناخواندہ اوراجہل صاحب مال ومنال اوربے برگ وبے کنگال ۔ فریسی اورکاہن صوبہ دار اورمحصول لینے والے سب اس کے معجزوں کو دیکھتے تھے۔
ہر جگہ دکھائے جاتے تھے
وہ اپنے معجزے کونے میں گھس کر نہیں دکھایا کرتا تھا۔ اس کی قدرت کے کرشمے جابجا جلوہ گر ہوتے تھے۔ وہ عبادت خانوں اوربازاوں ، کھلے میدانوں اور لوگوں کے گھروں میں سرزد ہوتے تھے۔ بارہا یروشلیم میں عیدوں کی تقریب پر جبکہ ہزارہا یہودی وہاں موجود تھے مسیح کے معجزات وقوع میں آتے تھے ۔
تعداد میں بے شمار تھے جن کا مفصل ذکر انجیل میں درج ہے
پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس کے معجزات بے شمار تھے ۔ کیونکہ اس نے صرف وہی معجزات نہیں دکھائے جن کا تذکرہ انجیل میں قلمبند ہے ۔ وہ مشتے نمونہ ازخروارے کا کام دیتے ہیں۔ کیونکہ ہم انجیل کے کئی مقامات سے سیکھتے ہیں کہ ان نےماسوائے ان معجزات کے جن کا مفصل ذکر انجیل میں درج ہے اوربہت سے معجزات دکھائے۔ وہ شخص جو فریب سے کام لیتا ہے وہ صرف دو یا تین ہتھکنڈوں پر اکتفا کرتاہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس قدر ان کا شمار زیادہ ہوگا اسی قدر میر ی شرارت کے فاش ہوجانے کا اندیشہ زیادہ ہے۔ ہندوستان میں زوداعتقاد لوگوں کے درمیان بارہا ایسے لوگ نمودار ہوتے ہیں جو اپنی کرامات سے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں مگر ان کی کامیابی تھوڑے سے عرصے میں کافور ہوجاتی ہے ۔ کیونکہ وہ اپنی غداری کو بہت دیر تک چھپا نہیں سکتے ۔ اگر مسیح بھی فریبی ہوتا اورنادانی سے بہت سی کراماتیں دکھانے کے لئے چالا کی کو کام میں لاتا تو اس کا نام اس کے مرنے سے پہلے مٹ جاتا ۔ اوراگر وہ بہت ہوشیاری سے کام لیتا تو صرف دو تین اچنبھوں پر اکتفا کرتا۔ ماسٹر رام چندر بوس کا یہ قول بالکل صحیح ہے کہ " مسیح کا بے شمار معجزات دکھانا اس بات کو بخوبی ثابت کرتاہے کہ وہ نہ کوتہ اندیش دھوکے باز اور نہ چالا ک فریبی تھا ۔بلکہ خدا کا بھیجا ہوا تھا۔ وہ اپنی فوق العادت قدرت سے بخوبی واقف تھا۔ اور اس عظیم الشان کام جن سے اس نے اپنی رسالت کو ثابت کیا حقیقی معجزات تھے"۔
اور وہ موقعے بھی جن پر وہ اپنے معجزات دکھاتا تھا۔ مختلف اقسام کے ہوتے تھے۔ پس کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کے لئے پہلے سے تیاری یا سازش کی جاتی تھی۔ مثلاً جو کوئی بیماری سے شفا پانے کو آتا تھا ۔ لوگ اس کی حالت سے پہلے ہی واقف ہوتے تھے۔ اورپھر اس کے شفا پانے کے بعد اس کے حالات سے بخوبی آگاہ ہوسکتے تھے۔ جو لوگ مردوں سے زندہ کئے جاتے تھے وہ زندہ ہوتے ہی مرنہیں جاتے تھے۔ اورنہ کسی ایسی جگہ چھپ جاتے تھے کہ ان سے ملنا ناممکن ہوتا۔ بلکہ وہ جینے کے بعد اپنے رشتے داروں اور جان پہچانوں کے ساتھ برابر اٹھتے بیٹھتے تھے۔ وہ مسیح کی قدرت کی ایک زندہ مثال تھے۔ مثلاً لعزر کی قبر کے ارد گرد کئی یہودی جو سیدنا مسیح کی مسیحائی کے قائل نہ تھے موجود تھے۔ وہ دریافت کرسکتے تھے کہ کیا وہ زندہ ہواہے یا جھوٹ موٹ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہوگیا ہے ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ زندہ ہونے کے بعد وہ ان کی نظروں سے غائب نہیں ہوا بلکہ تھوڑی دیر کے بعد بیت عینا میں ضیافت کے موقعہ پر ان کے ساتھ شامل ہوا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ کئی اوریہودی اس جگہ آئے تاکہ اسے جو مردوں میں سے زندہ ہوا تھادیکھیں۔علاوہ بریں ہم یہ بھی پڑھتے ہیں کہ کاہنوں نے مل کر یہ منصوبہ باندھا کہ اسے جان سے مار ڈالیں کیونکہ وہ خیال کرتے تھے کہ بہت سے یہودی اسی کے سبب سے مسیح پر ایمان لائے ہیں۔
مسیح کے معجزے مختلف قسم کے تھے
(۴۔) لیکن ایک اور صفت مسیح کے معجزوں کی ہے کہ وہ طرح طرح کے تھے ۔ اس نے فقط دو یا تین قسموں کی بیماریوں کو چنگا نہیں بلکہ مختلف قسم کے امراض کو دور کیا۔ اس کے کلام معجز نظام سے طرح طرح کے مریضوں نے شفا پائی ۔ بلکہ مردے بھی اپنے قبروں سے جی اٹھے جنم کے اندھے بے اُمید کوڑھی ، اور وہ جو ما کے شکم سے لنگڑے پیدا ہوئے تھے اور وہ جو سوکھ کر کا نٹا ہوگئے تھے۔ وہ جو فالج کے پنجہ میں گرفتار اور دیوانہ پن کے شکار ہوگئے تھے سب اس کے کلمہ اعجاز سے شفا یاب ہوئے دو مرتبہ اس نے ہزارہا اشخاص کو معجزانہ طورپر کھانا کھلاکر سیر وآسودہ کیا۔ تین مردوں کو زندہ کیا۔ سمندر اس کا مغلوب اورفطرت کی قوتیں اس کی محکوم تھیں۔
فی الفور وجود میں آتے تھے
اس موقعہ پر یہ بھی جتادینا ضروری ہے معلوم ہوتاہے کہ سیدنا مسیح کے معجزوں کی ایک یہ عجیب خصوصیت تھی کہ جوں ہی کلام اس کے منہ سے نکلتا تھا اسی وقت مریض فائز المرام ہوجاتا تھا۔ نہ کبھی دیر لگتی اور نہ شفا میں نقص رہتا تھا۔ بلکہ شفا اعلیٰ طورپر اور علے الفور نمودار ہوتی تھی۔
مسیح کبھی کسی معجزے کے قصد میں ناکام نہیں رہا
علاوہ بریں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ایک دفعہ بھی معجزہ دکھانے کے قصد میں ناکام نہیں رہا ۔ جس معجزے کا ارادہ اس نے کیا وہی وجود میں آیا۔ کیا ان فقیروں اوررمالوں میں یہی بڑا نقص نہیں ہوتا کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ کبھی کبھی پورا ہوتاہے۔ لوگ منتیں مانتے اور مرادیں مانگتے ہیں اور اگر اتفاق سے کوئی بات پوری ہوجاتی تو زود اعتقاد لوگو ں کا اعتقاد اوربھی مضبوط ہوجاتا ہے۔ پر وہ اس بات کو بھی جانتے ہیں کہ اگر ان لوگوں میں سچ مچ مرادیں عطا ہونے کی قدرت ہوتو ان کی بات رائگاں نہ جائے بلکہ ایک ایک وعدہ تیر برہدف کا کام دے ۔ اب اگر مسیح معجزانہ اظہاروں کے متعلق کبھی کبھی کامیاب ہوتا تو لوگ فوراً اس بات کو جان لیتے اوراس کے فریب کا بھانڈا پھوڑدیتے ۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ مسیح کے مخالف اس سے اکثر بحث کیا کرتے تھے۔اوراس کے بعداس کے شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں کے ساتھ بحث کرتے تھے۔ اس بحث اورمناظرے کی کتابیں اب تک موجود ہیں۔ مگر کبھی کسی نے یہ الزام نہ لگایا کہ تمہارے ہادی نے فلاں وقت فلاں معجزہ دکھانے کی کوشش کی پر وہ کامیاب نہ ہوا۔
اب اگر یہ بفرض محال مان لیا جائے کہ وہ تمام معجزات جو کہ انجیل میں درج ہیں سب کے سب فریب پر مبنی ہیں توہماری رائے میں یہ بات بجائے خودایک عجیب معجزہ ہوگی کہ باوجودیکہ مسیح کے تمام معجزات فریب پر مبنی تھے مگر پھر بھی وہ اس فریب دہی میں ایسا کامیاب نکلا کہ کبھی کسی شخص نے ایک دفعہ بھی اس کی ناکامیابی اور فریب کو نہ پکڑا۔ تعجب ہے کہ جن فریب آمیز اسباب کو وہ کام لایا کرتا تھا ان کی کل پرُزے ایسے کا رکن اورکارگر تھے کہ کبھی ان میں نقص نہیں آتا تھا اوراس کے فریب کا سکہ ایسا جم گیا تھا کہ عالم اور عاقل ، نادان اورجاہل ، دیندار اور بے دین سب کے سب اس کے جل میں آجایا کرتے تھے ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ زود اعتقاد کون ہے ؟ کیا وہ شخص جو مسیح کے معجزوں کا قائل ہے یا وہ شخص جو اُن کا انکار کرتاہے ۔
انجیلی معجزات کی گواہی کا فیصلہ کرتے وقت یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وہ کتنے عرصہ میں دکھائے گئے
اسی کے ضمن میں ایک اوربات غور طلب ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمیں مسیح اور اس کے شاگردوں کے معجزات کی سچائی کا موازنہ کرتے وقت یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے اوراس کے شاگردوں کے معجزے کتنے عرصے میں سرزد ہوئے ۔ مسیح کے زمانہ سے لے کر اس کے آخری شاگردوں کی موت تک ستر سال کا عرصہ حائل ہے اور ہمیں انجیل کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ اس تمام عرصہ میں معجزانہ صحت کا چشمہ فیض برابر جارہا۔ اورہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ جس قدر جو فروشی اور گندم نمائی زیادہ دیر تک اختیار کی جاتی ہے اسی قدر شرارت کی پردہ دری کا زيادہ اندیشہ ہوتاہے ۔ اب کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ستر برس تک مسیح اوراس کے شاگرداس مکاری اورعیاری کے کام میں مصروف رہے۔ پر کسی نے ان کا منہ بند نہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ وہ سب کے سب ایک ہی جگہ اکٹھے نہیں رہے بلکہ مسیح کی وفات کے چند دن بعد اِ دھر اُدھر تتر بتر ہوگئے۔ نیز یہ یاد رکھیں کہ یہ معجزات چھوٹے چھوٹے گاؤں میں نہیں دکھائے گئے جہاں لوگ چالاکی اور شرارت کو دریافت کرنے کی لیاقت نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ رومی سلطنت کے اُن بڑے بڑے شہروں میں دکھائے گئے جہاں علم وہنر کی روشنی خوب چمکتی تھی۔ کیا ایسے ایسے شہروں میں بھی مسیح اور شاگرد اپنی چالا کی یا مکاری سے باز نہ آئے واضح ہو کہ فریب دینے والے ایسا نہیں کرتے ۔ کوئی بے وقوف ایسے کوتہ اندیش کام کرے تو کرے مگر بے وقوفوں کی بے وقوفی فوراً فاش ہوجاتی ہے ۔
لوگ ان معجزوں کی حقیقت کو بخوبی جان سکتے تھے
(۵۔ ) ایک اوربات جو ہم ناظرین کے غور کے لئے پیش کرتے ہیں یہ ہے کہ لوگ مسیح کے معجزوں کی حقیقت سے اسی وقت جبکہ وہ وقوع میں آتے تھے۔ بلکہ وقوع سے بہت مدت بعد بھی ان کی حقیقت سے بخوبی واقف ہوسکتے تھے۔ یادر ہے کہ جھوٹے معجزے اسی وقت بازار خریداری میں قیمت پاتے ہیں۔ جبکہ حاکم وقت اوراصحب اقتدار اشخاص کی رائے اورعام لوگوں کا خیال اُن کے حق میں نیک ہوپر اگرحکام کا سایہ سرپر نہ ہو اورلوگ مخالفانہ پہلو اختیار کریں اور فریبی اتنے معجزے دکھائے جتنے مسیح نے دکھائے تو تھوڑے ہی دنوں میں فریب کی قلعی کھل جائے۔ اب اگر آپ تاریخ کا مطالعہ فرمائیں تو آپ کو معلوم ہوگا۔ کہ مسیح کے زمانہ میں بعینہ یہی حال تھا۔ اس کی انجیل کو حاکم وقت کا سایہ عاطفت کبھی نصیب نہ ہوا۔ لوگوں نے کبھی ہمدردی نہ دکھائی تمام دنیا اس کی مخالف تھی تاہم اس نے اپنے معجزات اپنی مسیحائی کے ثبوت میں پیش کئے ۔ اورایسی جگہوں میں قوت اعجاز کے کرشمے ظاہر فرمائے جہاں خاص وعام جمع ہوتے تھے اورچونکہ انجیل کا مقصد یہ تھاکہ یہودی مذہب کی دینی حکومت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے اور مسیحی مذہب کا پھر یراغیروں قوموں کے بوسیدہ مذاہب کے کھنڈرات پر لہرائے ۔ لہذا اس کے ان دعووں کو دیکھ کر دنیا کی حکومت کی عداوت ۔ یہودی اوربت پرست کاہنوں کی مخالفت ۔ تمام لوگوں کے تعصبات کی روک سارے زور سے اس کی انجیل کی مخالفت پر ڈٹی ہوئی تھیں ۔ خصوصاً یہودی کاہنوں اور فریسیوں اور فقہیوں کےعناد اور بغض اورکینے کی توکوئی حدہی نہ تھی جوں جوں اس کے معجزات کودیکھ کر لوگ اس کی پیروی اختیاکرتے جاتے تھے اسی قدر ان کی آتش حسد زیادہ بڑھتی جاتی تھی۔ کیا آپ قیاس کرسکتے ہیں کہ ان لوگوں نے جو اس کے مخالف تھے ان معجزات کی سچائی اورجھوٹ کے دریافت کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا رکھا ہوگا۔
دشمنوں کے پاس ان معجزوں کو دیکھنے واسطے کافی موقعہ موجود تھا
واضح ہو کہ اس کے دشمنوں کے پاس معجزات کے سچ اور جھوٹ کو جاننے کے لئے عمدہ اور موزون موقعے موجود تھے اور لوگوں نے اکثر اپنے بزرگوں سے معجزات منسوب کئے ہیں مگر وہ دائرہ تحقیقات سے ہمیشہ باہر پائے گئے ہیں مثلاً فرانسیس زیویر سے بھی کئی معجزات منسوب کئے گئے ہیں پر اگر پوچھا جائے کہ کہاں اورکب سرزد ہوئے توان سوالوں کے جواب اس صورت میں دئے جاتے ہیں کہ ان کی نسبت تحقیق کرنا نہایت مشکل بلکہ محال معلوم ہوتاہے کون اُن مشرقی ممالک میں گھومے جہاں جہاں زیویر گھوما۔ کون ان لوگوں کو جمع کرے جو اس وقت ان جگہوں میں رہتے تھے ۔ کون اُن سے پوچھے کہ تم زیویر کے معجزوں کی نسبت کیا کہتے ہو۔کیا زیویر نے کبھی تمہارے سامنے معجزہ دکھانے کا دعویٰ کیا ؟ پر مسیح کے معجزوں کی نسبت ایسا نہیں کہا جاسکتا رسولوں نے اُن معجزوں کی اُنہیں جگہوں میں منادی کی جہاں وہ دکھائے گئے تھے۔ بلکہ برعکس اس کے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کاہن اور فقیہہ اور فریسی اس کے معجزات کے متعلق مشورہ کرتے تھے اورجب دیکھتے تھے کہ ہم ان کا انکار نہیں کرسکتے تو آخر کاربعل زبول سے منسوب کرتے تھے۔ مگر ان کے وقوع کا انکار ہر گز نہیں کرسکتے تھے اس کے شاگرد بڑی دلیری اوربیباکی سے مسیح کے معجزات کی منادی سب لوگوں کے سامنے کیا کرتے تھے۔ چنانچہ دیکھئے کس طرح پطرس نے پنتیکوست کے موقعہ پر ہزارہا لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر جو جگہ جگہ سے یروشلیم میں آئے ہوئے تھے یہ کہا" ۔ اے اسرائیلی مردو یہ باتیں سنو کہ یسوع ناصری ایک مرد تھا جس کا خدا کی طرف سے ہونا تم ثابت ہوا۔ان معجزوں اوراچنبھوں اورنشانیوں سے جو خدا نے اس کی معرفت تمہارے بیچ میں دکھائیں"۔ اعمال ۲: ۲۲ وہ لوگ اسی قسم کی باربار منادی کیا کرتے تھے۔ کیا آپ خیال کرسکتے ہیں کہ کیا ایسے دعویٰ سن کر لوگ خاموش بیٹھتے رہتے تھے کسی طرح کی تحقیقات نہیں کیا کرتے تھے ؟
اس کے ساتھ ساتھ اس خیال کی طرف بھی توجہ فرمائیے کہ وہ شخص کون تھے جن کے معجزانہ کاموں کا امتحان اورملاحظہ اس طرح کیا جاسکتا تھا۔ اگر وہ لوگ زیور علم سے آراستہ ہوتے۔ اگر دولت کے سازوسامان سے مالا مال ہوتے یا یوں کہیں کہ اگران کے پاس فریب وہی کے سب سامان اوراسباب مہیا ہوتے تو شاید اُن کی فتنہ پر دازیوں کی پوست برکندہ کرنا مشکل ہوتا۔ پر مسیح اوراس کے شاگرد کیا تھے جو فریب کاری میں بے روکے ٹوکے کامیاب ہوتے چلے جاتے ان کو نہ اپنی سوسائٹی میں اور نہ علم وہنر کی دنیا میں ایسا رتبہ حاصل تھا کہ اُن کے فریب کی پردہ دری نہ ہوتی ۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی معجزہ ہوسکتا ہے کہ ایک نواز بڑھئی جس نے کبھی کسی مدرسے یا سکول میں تعلیم نہیں پائی تھی۔ اپنے شاگردوں کے ساتھ جوگمنام اور اَن پڑھ سے مچھوے تھے اور سوائے ماہی گیری کے اورکچھ نہیں جانتے تھے مل کر ایک ایسا عجیب منصوبہ فریب کا باندھا کہ ہزار ہا دشمنوں میں سے جوبخوبی اس کی اوراس کے شاگردوں کی شرارت کو دریافت کرسکتے تھے ایک بھی ایسا نہ نکلا جواُن کے بھید سے واقف ہوکر ان کی سازش کو طشت ازبام کردیتا۔
(۶۔) پھر ایک اورقابل یادبات ہے ۔ کہ تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم مسیحیوں کو لوگوں نے بہت پھسلایا اوردھمکایا کہ وہ اُ س عقیدے کوجسے انہوں نے معجزوں کی شہادت کے زور پر قبول کیا تھا چھوڑدیں لیکن انہوں نے اپنی جان دیدی مگر یہ نہیں کہا کہ ہم نے معجزے نہیں دیکھے بلکہ بڑا دھوکا کھایا ہے۔ ہاں ان میں سے کبھی کسی نے یہ نہ کہا کہ جن فوق العادت اظہارات کو درست سمجھ کر ہم نے انجیل کی تعلیمات کو قبول کیا تھا۔ وہ جھوٹ نکلے۔ دعوے یہ نہیں کہ کبھی کسی شخص نے قدیم زمانہ میں مسیحی عقیدے کو ترک نہیں کیا۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ کئی ضعیف ایمان لوگوں نے شکنجوں اور آگ کے شعلوں اور تلوار کی دھار کےڈر سے مسیح کے نام کا انکار کیا۔ مگر دعویٰ یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے یہ نہ کہا کہ وہ معجزے جن کوہم نے صحیح جانا تھا جھوٹے تھے وہ مسیح پر ایمان لاتے تھے ان کو رسولوں کے پوشیدہ حال سے بخوبی واقفیت ہوجاتی تھی کیونکہ وہ مسیحی ہونے کے بعد مسیحی مذہب کے ہمدرد سمجھتے جاتے تھے لہذا ان سے کسی طرح کا پردہ نہیں تھا۔ اگر مسیح اوراس کے شاگرد اپنے معجزات کے معاملے میں جھوٹے ہوتے اور اگر وہ کسی طرح چالاکی کوکام میں لاتے تو وہ لوگ جواُن سے آملے تھے ضرور اُن کی چالاکی کو جان لیتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوران میں سے وہ جنہوں نے پھر مسیح کا انکار کیا ضرور اگر کوئی چالا کی یا فریب ہوتا۔ تو انشاء راز کردیتے اول تو وہ خود ہی عیسايئوں کے دھوکے سے تنگ آکر ایسا کرتے ، دوئم مسیح کے دشمنوں کے سامنے ایسا کرنے سے بہت سا انعام بھی پاتے۔ اب یہ بات یہودا اسکر یوطی کے حال سے بخوبی کھل جاتی ہے۔ وہ اُن بارہ شاگردوں میں سے تھا جو ہمیشہ مسیح کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ وہ روپیہ پیسے کا حساب رکھا کرتا تھا ۔ اگر مسیح کے کاموں پر کسی طرح کا پردہ پڑا ہوا تھا تو یہود ا اس سے بخوبی واقف تھا۔ اگر سیدنا مسیح کسی فریب سےکام لیا کرتا تھا تو یہوداہ جانتا تھا ۔ کہ وہ فریب کیا ہے۔ اور اس فریب کو طشت ازبام کرنا بھی اس کے لئے کچھ مشکل نہ تھا۔ کیونکہ جب اس نے خود معجزے دکھانے والے (یعنی یسوع) کو پکڑا وادیا تواس کے فریب کو (اگر فریب اس کے کاموں میں داخل ہوتا )فاش کرنا اس کے لئے ناممکن کام نہ تھا ماسوائے اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے لئے ہر طرح کی ترغیب موجود تھی کہ چھپے ہوئے رازوں کو فاش کرڈالے۔ چنانچہ اگر کوئی فریب ہوتا۔ اگر کوئی چالا کی ہوتی اوروہ اسے ظاہر کردیتا تو ایسا کرنے سے اُسے زیادہ روپے اپنی خدمت کے صلے میں دستیاب ہوتے۔ پر ہم پوچھتے ہیں کہ کیا اس نے کوئی ایسی بات مسیح کے دشمنوں کوبتائی جس سے یہ ثابت ہوتا ۔ کہ مسیح کے معجزے چالا کی یا فریب کے ہتھکنڈے تھے؟ برعکس اس کے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ مسیح کے بدن کو تو مصلوب ہونے کے لئے پکڑوادیتا ہے ۔ مگراس کی سیرت پر کسی طرح کا عیب نہیں لگا۔ وہ اس کے کاموں کو فریب سے منسوب نہیں کرتا۔ اورنہ اُن کی حقیقت کا منکر ہے ۔ آپ ذرا کائفا کے دربار کا ملاحظہ فرمائیں۔مسیح وہاں بصورت مجرم موجو دہے۔ گواہ طلب کئے جاتے ہیں ۔ کیا یہودا ان گواہوں کے درمیان موجود ہے ؟ جھوٹے گواہ تو حاضر ہیں ۔ پر یہوداہ کہاں ہے ؟ کیا وہ شخص جس نے اُس کے بدن کو تیس روپیہ کو بیچ ڈالا۔ اب اُس کے برخلاف کچھ نہیں کہیگا؟ کیا کائفا اور دیگر مخالف اس نکتے کو نہیں سمجھتے کہ اس موقعہ پر یہواد کی گواہی اکسیر ہوگی؟ کیا یہودا نہیں جانتا کہ اگرایک لفظ بھی اس موقعہ پر اپنی زبان سے کہہ دوں تو حبیب دِرموں سے پرُہوجائیگی ؟ ہاں یہودا کی گواہی جو وقعت اس وقت ہوسکتی تھی اسے یہودی اوریہودا بخوبی جانتے تھے۔ تاہم یہودا نے کوئی الزام مسیح پرنہ لگایا ۔بلکہ اس نے بڑے عجیب طور پر مسیح کی راستبازی اوراس کے کاموں کی سچائی پر گواہی دی۔ یہودا بڑالا لالچی اور طامع شخص تھا۔ اُس نے اپنی طمع کے سبب سے مسیح کو پکڑوایا مگر بعد میں جب ضمیر کی کاوش نے ستانا شروع کیا تو اس نے وہ روپے جو مسیح کے دشمنوں سے ملے تھے پھینک دئیے۔ اورکاہنوں اور بزرگوں کے روبر اقرار کیا کہ " میں نے گناہ کیا کہ بے قصور کو قتل کے لئے پکڑوایا "۔ یاد رہے ۔ کہ یہودا جانتا تھا۔ کہ میری اس حرکت سے ان لوگوں کا نائیرہ غضب مشتعل ہوجائیگا۔ مگر پھر بھی اس نے مسیح کی بے گناہی کا اقرار کیا۔ پر اُس نے اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ ضمیر کی ملامت سے تنگ آکر اپنے تئیں قتل کر ڈالا ۔ چنانچہ لکھا ہے کہ وہ روپیوں کو مقدس میں پھینک کر چلا گیا اورجاکر اپنے آپ کوپھانسی دی"۔ اگرہم کسی بات کی صداقت اورراستی کی گواہی چاہتے ہیں ۔ توہمیں اس سے بڑھ کر اورکوئی مضبوط گواہی نہیں مل سکتی۔
اگرانجیلی معجزات فی الحقیقت وجود میں نہ آئے تو مسیح اوراس کےشاگرد وں نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا
(۷۔) واضح ہوکہ ان معجزات کے متعلق دوباتوں میں سے ایک بات ضرور ماننی پڑتی ہے۔ یعنی یا تو ہم یہ مانیں کہ وہ معجزات جن کا ذکر انجیل میں درج ہے فی الحقیقت وجود میں آئے اوریا ہم نہ یہ مانیں کہ کوئی معجزہ سرزد نہیں ہوا بلکہ لوگوں نے جھوٹ موٹ کہہ دیا کہ معجزہ وقوع میں آیا ہے ۔ اب اگر مسیح کے معجزات حقیقی معجزات نہ تھے۔ اگراس کے رسولوں کے معجزات حقیقی معجزات نہ تھے تو وہ لوگ جو معجزہ دکھانے کا دعویٰ کرتے تھے ۔ یعنی مسیح اور اس کے رسول جانتے تھے کہ جب ہم ان کاموں کو معجزہ کہتے ہیں تو ہم جھوٹ بولتے ہیں ۔ پس وہ جانتے تھے کہ ہمیں خدا نے مقرر نہیں کیا اورنہ اس نے ہم کو بھیجا ہے۔ مگرپھر بھی ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمیں خدا نے اپنا پیغام دیکر بھیجا ہے۔ اب اگر یہ بات صحیح ہے تو وہ دیانت دار یا خدا پرست یا دیندار لوگ نہ تھے ۔ کیونکہ اگر وہ دیانت دار اور دیندار لوگ ہوتے۔ اگر وہ صادق اور راستی پسند آدمی ہوتے تو ایسی جلعسازی کو کام میں نہ لاتے ۔ پھر سوال برپا ہوتا ہے کہ انہوں نے اس جعلسازي کو کس مقصد سے اختیار کیا؟ کیا فائدہ نظر تھا ۔ کہ جو کام معجزے نہ تھے انہوں نے لوگوں کی نظروں میں انہیں معجزے بنادیا ؟ کیونکہ دغاباز اور دروغ گو لوگوں سے بھلائی کی توقع نہیں ہوسکتی اورنہ ہم اسے بھلائی کہہ سکتے ہیں جس کی بناد غابازی اورجعلسازي پر قائم ہے۔ پس اُن کا مقصد سوائے اپنی حرص اور لالچ کو پورا کرنے کے اورکچھ نہ تھا۔ اگر اب یہ دعویٰ درست ہو تو ہمیں یہ کہنا پڑیگا کہ انہوں نے اپنے لالچ کو پورا کرنے کے لئے ایک ایسا طریقہ اختیار کیا جس سے سوائے حماقت اور نقصان کے اور کچھ نہیں ٹپکتا کیونکہ ایسے طریقوں کے اختیار کرنے سے دنیاوی غرض کبھی پوری نہیں ہوسکتی اب آپ تھوڑی دیر کے لئے یہ فرض کریں کہ وہ جھوٹے اور جعلسازآدمی تھے۔ کہ وہ اپنی مطلب براری کے لئے معجزوں کا دعویٰ کیا کرتے تھے اوراُن کے معجزات کو نظر تعمق سے دیکھتے ہوئے ان میں کسی دینوی غرض کا سراغ لگائیں۔ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ اُن میں یہ سراغ لگاسکینگے۔ کہ مسیح اوراس کے شاگرد حریص اور دنیادارآدمی تھے؟ اگرآپ ان معجزات کا اورمختلف موقعوں اور حالتوں میں دکھائے گئے تھے تاہم اُن سے کوئی دنیاوی غرض نہیں ٹپکتی ہے۔ اگر ہم اُنہیں جھوٹے معجزے تصور کریں تو اور بھی حیرت آتی ہے کہ اُن پر ایسی عجیب حکمت سے روغن کیا گیا ہے ک دیکھنے والوں میں سے ایک نے بھی ان کے اصل مطلب کو نہ پہچانا ۔ اب کسی ملک یا کسی زمانہ کے جھوٹے معجزوں کو لیجئے اورتاریخی حالات دریافت کیجئے ۔ آپ کو فوراً معلوم ہوجائے گا کہ ان کے مدعیوں کا اصل مطلب کیا تھا۔پر اگر مسیح اوراس کے شاگردوں کے معجزے جھوٹے معجزے تھے تو یہ ماننا پڑیگا ۔ کہ انہوں نے سب معجزوں سے انوکھا معجزہ یہ دکھایا کہ اپنی اصل غرض کو ایسی حکمت سے چھپایا کہ کوئی شخص اُسے نہ جان سکا۔ بات اصل یہ ہے کہ اُن سے کسی طرح کی دینوی غرض ، کوئی ادنے مقصد متشریح نہیں ہوتا بلکہ ان کی خاصیت سے خدائے تعالیٰ کی الہی شوکت اُس کی پاکیزگی ۔ اُس کا انصاف ، اس کا فضل، اُس کا رحم اوراس کی محبت ظاہر ہوتی ہے ۔ ہاں مسیح کے معجزات اُس کی جلیل سیرت اورعالیشان عہدے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ وہ اس کے عہدے کو ثابت کرتے اور اس کی محبت بھری زندگی کو روشن کرتے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ اُن پر الہیٰ تجلی اوربے غرضی اورمحبت کی مہر لگی ہوئی ہے۔ اُن سے کوئی ایسی بات نہیں ٹپکتی جس سے یہ ظاہر ہو کہ مسیح اوراس کے شاگردوں نے یہ ساری کارستانی اپنی کسی مخفی غرض کو پورا کرنے کے واسطے اختیار کی دیکھئے کہ وہ جا بجا دشمنوں سے گھر جاتا ہے ۔ وہ کبھی اسے پتھر اؤ کرنا چاہتے ہیں۔ کبھی پہاڑ پر سے گرانے کی فکر میں لگ جاتے ہیں ۔ کبھی اسے ٹھٹھوں میں اڑاتے ہیں اورآخر کار بصد تحقیر وتکفیر اُسے صلیب پر چڑھا دی تے ہیں ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ گو وہ عجیب طرح کی قدرت رکھنے کا دعویٰ کرتاہے تاہم اس سے کبھی کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہوتی جس سے انتقام کی بوآئے۔لوگاسے حقارت کی نظر سے دیکھتے اور رد کرتے ہیں مگر اس کے معجزات سے نہ اشتیاق ناموری نہ حصولِ دولت اورنہ تمنائے عزت کی خواہش ظاہر ہوتی ہے۔ گوہزاروں کوسیر کرتاہے ۔ مگر خود بے زراوربے گھر ہے۔ وہ نیک گڈریے کی طرح دوسروں کی جانوں کی سلامتی ڈھونڈتا ہے ۔ مگر اپنی جان کی پروا نہیں کرتا ۔ اُنہیں دکھ اور محتاجی سے رہائی دینے کوتیار ہے۔ مگر اپنی فکر مطلق نہیں کرتا۔ ان باتوں کودیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ اگر مسیح کے معجزات جھوٹے تھے تو اُن کے جھوٹ کے سامنے سچائی ماند ہے اور یہ بھی ایک معجزہ ہے۔
مسیحی مذہب کے قدیم مخالف ان معجزوں کے وقوع کے قائل ہیں
(۸۔) پھر آپ دیکھئے کہ مسیح کے مخالف اور دشمن صاف اقرار کرتے ہیں کہ اس کے معجزے فی الحقیقت وقوع میں آئے اوراس کا یہ اقرار پہلے اس صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے کہ اس زمانہ کے تمام یہودی اور غیر قوم ایک لفظ بھی ان معجزات کے وقوع کے برخلاف نہیں کہتے اورنہ ان میں سے کوئی کبھی کسی شخص نہ یہ دعویٰ کیا کہ جو معجزات مسیح سے منسوب کئے جاتے ہیں وہ فریب کا ڈھکوسلا ہیں۔ ہم پھر منت کرتے ہیں کہ آپ اس بات کو نہ بھولیں کہ یہ معجزات حوا س خمسہ سے محسوس کئے جاتے تھے اور روز روشن میں واقع ہوتے تھے اورجا بجا اُن کی شہرت ہوجاتی تھی۔ اب اگر آپ روح پاک کے معجزانہ نزول کا معجزہ لیں جو پینتیکوست کے دن وقوع میں آیا توآپ دیکھینگے کہ اس روز مسیح کے شاگردوں کو جو بالکل ان پڑھ تھے اورجن کو سب لوگ جانتے تھے کہ ان پڑھ ہیں مختلف زبانیں بولنے کی طاقت بخشی گئی اور لوگوں نے جوکریت ، عرب ،مسوپتامیہ اور دیگر ممالک سے آئے ہوئے تھے مسیح کے شاگردوں کو اپنی اپنی بولی میں خدا کے عجیب کاموں کی منادی کرتے سنا۔ اب آپ دیکھیں کہ یہ واقعہ نزدیک ودور مشہور ہوگیا تھا۔ اس کی منادی کی گئی تھی اورآخر کار اعمال کی کتاب کے وسیلے شائع بھی ہوا یوں اس کی سچائی اورجھوٹ کے پرکھنے کا موقعہ لوگوں کو ہر طرح سے حاصل تھا۔گویا اس معجزے کا اشتہار اس بات کا اشتہار تھا کہ اگرکوئی اس کی سچائی جو جھٹلاسکتا ہے توجھٹلائے ۔اگراس معجزے میں کوئی کھوٹ ہوتا اور وہ اسے چھپایا چاہتے تو اس کام کے لئے بھی معجزے کی ضرورت پڑتی۔ بیشک اگرانجیلی معجزات میں سے کسی میں بھی جھوٹ یا فریب کی آمیز ش ہوتی تو تمام یہودیہ اوریونان نکتہ چینی سے گونج اٹھتا اوریہودیوں اور غير قوموں کی کتابوں میں جلی قلم سے وہ کھوٹ یا جھوٹ شائع کیا جاتا اورمابعد زمانہ کے مخالفان دین عیسوی اس کو بڑی قدر کے ساتھ اپنی کتابوں میں اقتباس کرتے۔ پر کیا ایسا کیا گیا ؟ یہودی اوریونانی اور رومی تاریخ کے ورق گردانی کیجئے اوردیکھئے کہ کہیں اس قسم کا اعتراض مسیح یا اس کے شاگردوں کے معجزات کی نسبت نظر آتاہے ۔
تاریخ کہتی ہے کہ نہیں۔ اگر سچ پوچھا جائے تو مسیحی معجزوں کی صداقت کا یہ خاموش اقرار دشمنوں کی جانب سے اُن کے وقوع کا کافی اقرار ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر ہم اُن لوگوں سے اس بارہ میں اورکوئی گواہی طلب نہیں کرسکتے ۔ واقعی یہودیوں اور غیر قوموں اوربت پرست رہبانوں اور موسوی کاہنوں اوریروشلیم کے فقہیوں اور فریسیوں کارنتھ اور روم اور افسس کے فلاسفروں کا اس معاملہ میں خاموش رہنا اور عیسوی معجزات کی صداقت کے برخلاف کچھ نہ کہنا اُن کی صداقت اورحقیقت کا ایک عمدہ ثبوت ہے۔ پر اگر یہ دیکھ کر بھی لوگ یہ کہیں کہ نہیں ہم کو مخالفوں کی گواہی انہیں کے الفاظ میں چاہیے ۔ توہم اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں گو آپ کی یہ درخواست ایک ناجائز درخواست ہے ۔ پر آپ کو خوش کرنے کے لئے ہم اس تقاضے کو بھی دورکرنے کو تیار ہیں۔ اب اگر آپ پہلے مسیح کے ہمعصر مخالفوں یعنی یہودیوں کی طرف متوجہ ہوں تو آپ دیکھینگے کہ وہ اس کے معجزوں کی حقیققت کے مقر ہیں۔ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ انجیل کی تواریخی اصلیت اور معتبری کا انکار کوئی شخص نہیں کرسکتا لہذا جو تواریخی بیانات اُن میں درج ہیں وہ ہماری توجہ کے لائق ہیں۔ اب دیکھئے کہ وہ یہودی جو مسیح اوراس کے شاگردوں کے مخالف تھے۔ ان کے معجزوں کے حق میں کیا کہتے ہیں۔ مسیح کے معجزوں کی نسبت سردار کاہنوں اور فریسیوں کی گواہی اس طرح مرقوم ہے "۔ پس سردار کاہنوں اور فریسیوں نے صدر عدالت کے لوگوں کو جمع کرکے کہا ہم کیا کریں؟ یہ آدمی بہت معجزے دکھاتاہے"۔ (یوحنا ۱۱: ۲۷)اسی طرح اس کے شاگردوں کے معجزے کی نسبت لکھاہے کہ انہوں نے کہا"۔ کہ ہم ان آدمیوں کے ساتھ کیا کریں کیونکہ یروشلیم کے سب رہنے والوں پر روشن ہے کہ ان سے ایک صریح معجزہ ظاہر ہوا اورہم اس کا انکار نہیں کرسکتے "۔(اعمال ۴: ۱۶) پھرپطرس نے پینتیکوست کے روز دعوےٰکیا کہ تمام اسرائیلی جماعت جو اُس کے سامنے حاضر تھی اسی بات سے واقف تھی کہ سیدنا مسیح ایک ایسا شخص تھا۔ جس نے اپنا خداکی طرف سےہونا معجزوں اور عجیب کاموں اورنشانوں سے ثابت کیا ۔ (اعمال ۲: ۲۲) یہودیوں نے کبھی مسیح کے معجزوں کے وقوع کا انکار نہیں کیا۔ وہ اگر حجت کرتے تھے تویہ کہ اس کے معجزے بعل زبول کی مدد سے وقوع میں آتے ہیں ۔ اس اعتراض کو ہم ذرا آگے چل کر رفع کرینگے ۔ فی الحال ہم یہ دکھانا چاہتےہیں کہ یہودی ان کے وقوع کے قائل تھے اب اگرہم نوشتوں کو چھوڑ کر یہودیوں کی غیر الہامی کتابوں کی طرف رخ کریں تو وہاں بھی ہم اس اقرار کو اُن کے منہ سے سنینگے۔ مثلاف تالمود میں وہ ان معجزوں کے وقوع کو تسلیم کرتے ہیں گو وہاں بھی وہ یہی حجت قائم کرتے ہیں کہ یہ معجزات جادو کے وسیلے یا یہوداہ کے نام کو ایک خاص طورپر استعمال کرنے کے سبب سے وقوع میں آئے۔ ہم نے دیکھا کہ تمام یہودی انجیلی معجزات کے وجود اور وقوع کے مقرر تھے۔
غیر قوم قائل ہیں
پر علاوہ یہودیوں کے غیر قوموں کے فاضل، اورعلماء بھی ان معجزات کے قائل تھے۔ مثلاً سیلس جو دوسری صدی کے آخری حصہ میں موجود تھا اور جس نے مسیحی مذہب کے برخلاف اپنے قلم سے بہت سا کام کیا نہ صرف انجیل کے بڑے بڑے تواریخی واقعات کو صحیح سمجھتا تھا بلکہ اس بات کا بھی اقرار کرتا ہے کہ مسیح نے بہت سے معجزات دکھائےجن کے وسیلے اُس نے بہت سے لوگوں کو اپنا پیرو بنایا وہ اپنی تحریر میں ان کےوجود یا وقوع کا انکار نہیں کرتا گوان کوحقیقی واقعات تسلیم کرکے یہ دکھانے کی کوشش کرتاہے کہ وہ جادو سے (جو اس کے زعم میں سیدنا مسیح نے مصر میں سیکھا تھا) دکھائے گئے ۔
ہائیر اقلیز
ہائیر اقلیز جو تنبھنیا میں حاکم تھا اورمسیحیوں کو سخت ایذائیں پہنچایا کرتا تھا ایک کتاب میں جو اُس نے مسیحی مذہب کے برخلاف لکھی تھی مسیح کے معجزوں کو مانا ہے البتہ وہ اس کتاب میں مسیح کے معجزوں کوایک شخص کے معجزوں کے ساتھ جس کا نام اپالونی اس تھا اور جو غیر قوموں میں سے تھا اور ٹیناکا رہنے والا تھا مقابلہ کرتاہے۔ تاکہ یہ ثابت کرے کہ اور لوگوں نے بھی کرامتیں دکھائی ہیں اوریوں مسیحیوں کا منہ بند کرے اورانہیں مسیح کو خدا کہنے اورماننے سے روکے لیکن اس شخص اپالونی اس کے تاریخی حالات پر ایسا پردہ پڑا ہواہے کہ ہم اس کے معجزوں کی صداقت کی نسبت کچھ نہیں جان سکتے اسی طرح شہنشاہ جولین جو مسیحیوں کا جانی دشمن اور جو چوتھی صدی میں موجود تھا مسیح کے معجزوں کو مانتاہے چنانچہ وہ کہتا ہے " ۔ مسیح نے کوئی کام شہرت کے لائق نہیں کیا اگرکیا ہے توان کے لئے کیا ہے جو ماننے کو تیار ہوں کہ لنگڑوں کو چنگا کرنا اوراندھوں کو آنکھیں دینا اوربیت صیدا کےگاؤں میں دیوں کو نکالنا بڑے بڑے کاموں میں داخل ہیں"۔ وہ مانتاہے ۔ کہ مسیح ناپاک روحوں پر بڑا اختیار رکھتا اور سمندر کی سطح پر چلتا تھا۔
تعجب ہے کہ ان لوگوں نے ان معجزوں میں کوئی انہوںی بات نہ دیکھی مگر آج کل ایسے بال کی کھال اُتارنے والے نکتہ چین پیدا ہوگئے ہیں جنہوں نے دریافت کرلیا ہے کہ مسیح اور اس کے شاگردوں نے کبھی اپنے دعووں اورتعلیموں کو معجزوں کے وسیلے ثابت نہیں کیا حالانکہ اُن لوگوں نے جو اُن کے زمانہ میں اُسی زمانہ کے آس پاس موجود تھے ۔ اورجو ان کے مذہب سے سخت مخالفت رکھتے تھے اور جو صاحب علم بھی تھے اور سچ اورجھوٹ کو پرکھنے کی کافی لیاقت رکھتے تھے کبھی ان معجزوں کا انکار نہ کیا۔ تعجب ہے کہ سیلس اور پارفری اورہایلر اقلیز اورجولین اور فقیہ اور فریسی مسیحی معجزوں کے اصل بھید سے واقف نہ ہوئے حالانکہ وہ بڑے عالم اور پرُجوش مخالف تھے مگر ہمارے ہم عصر بھائیوں نے جو مسیح کے زمانہ سے بیس صدی دورنکل آئےہیں اُس بھید کو پالیا۔
قدیم مسیحیوں نے انہیں قبول کیا ہے اور ان کی گواہی زیادہ وقعت رکھتی ہے
(۹۔) لیکن ہم آخر میں یہ عرض کرنا چاہتےہیں کہ ہمارے پاس مخالفوں کی گواہی کی نسبت بہتر گواہی موجود ہے اور وہ ایمانداروں کی گواہی ہے۔ فرض کیجئے کہ یہی سیلس جس کا ذکر ہم اوپر کرچکےہیں اگر نہ صرف ان معجزات کے وقوع کااقرار ہی کرتا بلکہ ان کی گواہی کی صداقت کے زور کو محسوس کرکے بت پرستی چھوڑدیتا ہے اور طرح طرح کی اذیتیں سہکر اورموت کے خطروں میں پڑ کر مسیح کی پیروی قبول کرتا اوراس کی خدمت میں مصروف ہوتا۔ تو کیا اس کی گواہی کا زور کم ہوجاتا یا اس کی گواہی اوربھی زیادہ اعتبار کے لائق ٹھیرتی ؟
جو دشمن مطیع ہوجاتا ہے اُس کی گواہی زیادہ معتبر ہوتی ہے
ہم پوچھتے ہیں کہ اگر وہ مسیحی معجزات کی گواہی کے زور کو محسوس کرکے مسیح کی پیروی قبول کرلیتا توکیا ہم اُس کی گواہی کو یہ سمجھ کر کہ وہ مسیح کے ایک دوست کی گواہی ہے ناقص سمجھتے یا یہ جان کر کہ وہ ایک ایسے شخص کی گواہی ہے جو پہلے دشمن تھا زیادہ معتبر گردانتے ؟
عقل اورانسانی دستور تویہ کہتے ہیں کہ ہم اس کی گواہی کو بڑا زور آور سمجھتے ۔ اب اگر ہم اس قسم کی ہزارہا لوگوں کی نظیر یں پیش کریں تو کیا آپ اس بات کو تسلیم نہ کرینگے۔ کہ اُن کی گواہی اُن مخالفوں کی گواہی سے جن کا ذکر اوپر کیا گیا زیادہ اعتبار کے لائق ہے؟ آپ اگر ذرا غورکریں تو آپ دیکھینگے کہ مسیح کے رسول ایسے ہی آدمی تھے۔
مسیح کے رسول اور قدیم پیرواسی قسم کے لوگ تھے
مگر جو لوگ اُن کی گواہی کو بے ریا گواہی نہیں سمجھتے کیونکہ وہ کہتے ہیں ۔ کہ وہ تو مسیح کے دوست تھے۔ مگرہم پوچھتے ہیں کہ آپ بتائیے کہ وہ کیا بات تھی جس نے انہیں مسیح کا دوست بنایا؟ کیا وہ اور آدمیوں کی مانند آدمی نہ تھے؟ کیا وہ اوریہودیوں کی طرح یہودی نہ تھے؟ پولوس کی طرف دیکھئے کہ وہ کسی زمانہ میں عیسائيوں کے خون کا پیاسا تھا۔ اُسے کس بات نے مسیح کا دوست بنایا؟ ان تین ہزار لوگوں کی طرف متوجہ ہوجئے جو پینتیکوست کے دن عیسائی ہوئے جو ایذارساں یہودیوں میں سے تھے۔ اُنہیں کس بات نے مسیح کا دوست اورپیرو بنایا ؟ کیا اس بات نے کہ وہ مصلوب مسیح کی پیروی سے دنیاوی عزت یا فائدہ کی توقع رکھتے تھے ؟ یا کیا اس بات نے کہ وہ لوگوں کی ملامت کو پسند کرتے اور دکھ سے خط اٹھاتے اور موت کو عزیز جانتے تھے؟
یہ لوگ مسیح کے دوست کس طرح بنے
یا اس بات نے انہیں اس کا دوست بنایاکہ جب اُنہوں نے مسیح کے معجزات پر اور خصوصاً اس کے جی اٹھنے پر غور کیا تو ان معجزوں کو ایسابرحق پایا کہ ایذاؤں کا خوف اورمال ودولت اورخویش واقارب کی جدائی کا خیال اُن کو مسیح کی پیروی سے روک نہ سکا۔ پھر اُن ہزارہا لوگوں پر غور کیجئے جو یہودیوں اور غیر اقوام میں سے رسولوں کے ایام خدمت میں مسیح پرایمان لائے کہ وہ بھی کام اورکلام سے سخت عذاب اور موت کی حالت میں مسیح کے کاموں پر گواہی دیتے ہیں اب آپ بتائيے کہ ان لوگوں کی گواہی کیسی وقعت رکھتی ہے ؟ آپ کیا وجہ اس کی تبدیلی کی بتاسکتے ہیں جو اُن کی عادات وجذبات اور اوضاع واطوار میں مسیحی ہونے کے بعد وارد ہوئی ؟
ان کی تبدیلی کی اصل وجہ
کیا اُس تبدیلی کی وجہ درحقیقت یہ نہیں تھی۔ کہ اُنہوں نے بڑی سنجیدگی سے مسیح کےکام اورکلام کو راست اوربرحق قبول کیا؟ اور اگر کوئی یہ کہے کہ نہیں وہ دل سے ان باتوں کے قائل نہ تھے تو اس کا یہ کہنا گویا یہ دعویٰ کرنا ہے کہ انہوں نے بڑی بڑی خود انکاریاں بغیر کسی غرض یا ضرورت کے سہیں حالانکہ اُن کو بے ضرورت سہنا انسانی طبعیت کے سراسر برخلاف تھا۔ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ مسیحی ہوکر ہمارا مال ہم سے چھن جائیگا۔ دکھ سہنا اور موت کا شکار ہونا پڑیگا؟ پھر وہ کیوں عیسائی ہوئے ؟ اورکیوں اُس وقت جبکہ عیسائی ہونے کے بعد لوگوں نے اُن کو ناچیز سمجھنا شروع کیا۔ جب وہ کوڑے کرکٹ سے بدتر سمجھے جانے لگے جب عیسائی نام سے بڑھ کر لوگوں کے نزدیک اورکوئی ذلیل نام نہ تھا۔ جب اس نام کے لوگوں کو عذاب دینا ہر جگہ ثواب کا باعث سمجھا جاتا تھا اورسپاہی ان کو عذاب دینے کے لئے نئے طریقوں اور تدبیروں کی سوچ میں لگے ہوئے تھے اورطرح طرح کی اذیتیں اُن کو پہنچاتے تھے۔ جب ہزارہا اشخاص مسیح کے نام پر گواہی دینے کے لئے قتل کئے جاتے تھے۔ ہم پوچھتے ہیں انہوں نے کیوں اس وقت ثابت قدمی دکھلائی اورموت کا پیالہ پیا حالانکہ وہ خدا سے انکار سے اپنے تئیں بچاسکتے تھے؟ اس کا جواب اور کوئی نہیں سوائے اس کے کہ جس بات کی گواہی دیتے تھے۔ اُس کے دل وجان سے قائل تھے۔ پر کیا وہ مسیحی معجزات کے سچ یا جھوٹ سے ناواقف تھے؟ وہ تو معجزے دکھانے والوں کے زمانہ میں موجود تھے اورانہیں جگہوں میں رہتے تھے جہاں معجزات دکھائے گئے ۔ پس اگر کوئی ان معجزات کی سچائی کو دریافت کرسکتا تھا تویہ لوگ کرسکتے تھے۔ لہذا ان لوگوں پر ہر طرح ثابت ہوگیا تھا کہ جو معجزات مسیح سے منسوب کئے جاتے ہیں وہ فی الحقیقت وقوع میں آئے اوربہت سے ان میں سے ایسے بھی تھے جنہوں نے ان کو واقع ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اب پہلی صدی میں ہزارہا اشخاص اس قسم کے موجود تھے۔ وہ پہلے مسیحیوں کو دکھ دیا کرتے تھے وہ عیسائی مذہب کی بیخ کنی کے درپے رہتے تھے مگر جب انہوں نے انجیلی معجزوں اوردیگر حقیقتوں کو دریافت کرکے مسیحی مذہب کو قبول کرلیا تو اپنی جانیں سچائی پر تصدق کردیں۔ عزیزو اگرایسے لوگوں کی گواہی قابل اعتبار نہیں تواس سے بہتر اور مضبوط تر اور گواہی پیش نہیں کی جاسکتی۔ پر اگریہ گواہی رد کی جائے توپھر تمام تاریخ علم پر فاتحہ پڑھنا ایک لازمی امر ٹھیریگا۔
جو دلائل اس بات میں پیش کی گئی ہیں اُن کی نظر ثانی
اس بات کے ثبوت میں کہ انجیلی معجزوں کی گواہی ردنہیں کی جاسکتی کیونکہ اس میں سچائی کا ہر ایک عنصر کامل انداز کے ساتھ موجود تھے۔ ہم کئی خیالات پیش کرچکے ہیں ۔ مگر اس بات کو ختم کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ جو دلائل پیش کی گئی ہیں اُن پر آپ ایک مرتبہ پھر نظر ڈالیں تاکہ آپ اُن کے سارے زور کوایک دم محسوس کرسکیں اورایسا کرنے کے لئے آپ تھوڑی دیر کے لئے ان معجزوں کووہمی افسانے اوراُن کے مدعیوں کو فریبی اشخاص تصور کریں اوردیکھیں کہ اس سے کیا نتیجہ برآمد ہوتاہے۔
اگر یہ معجزے جھوٹے تھے تو مسیح اوراس کےشاگردوں نے ایسے کام کا بیڑا اٹھایا جو ناممکن تھا تاہم اس میں کامیاب نکلے
واضح ہو کہ اگرہم یہ مانیں کہ یہ معجزے جھوٹے تھے تو ہم کو یہ بھی ماننا پڑیگا کہ سیدنا مسیح اوراس کے شاگردوں نے ایسے کام کا بیڑا اٹھایا جو سراسر ناممکن تھا۔ ہاں ہم کو یہ ماننا پڑیگا کہ ان نادان اور دیوانوں نے جوبالکل اَن پڑھ اورادنیٰ حیثیت کے یہودی اوربے اختیار اشخاص تھے ایک ایسا مذہب قائم کرنے کی کوشش کی جودنیا کی عادات اور دستورات ، قواعد اور تعصباب کے بالکل برعکس تھا اوریہ اُمید رکھی کہ ان کا نوساختہ مذہب دنیا کے مذاہب کو مسمار کرکے اُن کی جگہ لے لیگا اوراس پر طرہ یہ ہواکہ اس ناممکن الوقوع تجویز کو جاری کرنے کےلئے انہوں نے یہ پیچ کھیلا کہ ان کاموں کے وسیلے جنہیں وہ معجزات کہتے تھے جن کو وہ اپنے دعووں کے ثبوت میں پیش کیا کرتے تھے اپنے دعووں کو ایسا آخر تک نبھایا کہ کوئی ان کی چالا کی سے واقف نہ ہوسکا۔ بلکہ انہوں نے جھوٹے معجزوں کے وسیلے اپنے رسولی عہدہ کی سچائی اورتبہ کو پایہ ثبوت تک پہنچادیا اورساتھ ہی خدا کے جلال اورپاکیزگی پر بھی بٹہ نہ لگنے دیا۔
علاوہ بریں یہ ماننا پڑیگا کہ گو وہ فریبی تھے مگر بڑے بڑے دانا بھی اُن کے فریب کو دریافت نہ کرسکے
ماسوائے اس کے ہمیں یہ بھی ماننا پڑیگا کہ مسیح اوراُس کے شاگرد ایسے بد تھے کہ اُنہوں نے دیدہ دانستہ فریب کا سلسلہ قائم کیا جس کے سبب سے انہیں ہمیشہ بددیانتی کے دلدل میں مبتلا رہنا اورخدا کی متواتر تحقیر اورتکفیر کا مرتکب ہونا پڑا اوریہ اس مقصد سے کہ یا روپیہ ہاتھ آئے یا نام حاصل ہو۔ پر اس کے ساتھ یہ بھی ماننا پڑیگا کہ ستر سال کے عرصہ تک انہوں نے اپنے چال وچلن سے ایسی بیغرضی اور بے ریائی ، ایسی نیکی اورپاکیزگی ظاہر کی ان کی خود غرضی اور بد نیتی کاکچھ پتہ نہ لگا بلکہ برعکس اس کے لوگ ان کی کمال درجہ کی خود انکاری اور دیندار انہ علم اورپستی اورپاکیزگی اوررحم اور فیاضی کے قائل ہوگئے اوریہ باتیں اس درجہ کمال تک ظاہر ہوئیں کہ ان کے دشمن بھی جو اُن کی کمزوریوں اورعیبوں کے کھوج میں برابر لگے رہتے تھے۔ ان کے فریب اور دغابازی کوپہچان نہ سکے۔
پھر یہ بھی ماننا پڑیگا کہ گواس سے کوئی دینوی فائدہ ان کو میسرا نہ ہوا تاہم وہ اس فریب کو ایسا پیار کرتے تھے کہ اس کے سبب سے موت اور ذلت جھیلتے رہے
ماسوائے اس کےہمیں یہ بھی ماننا پڑیگا کہ سیدنا مسیح کے رسول دولت یا عزت یا اختیار یاکسی اورچیز کے ایسے عاشق تھے کہ وہ اسے اول توایک ناممکن سی تدبیر کو اختیار کرکے ڈھونڈنے لگے۔ اور جب عزت حاصل کرنے کا موقعہ آیا توانہوں نے عزت کو رد کردیا۔ اورپھر جب انہوں نے دیکھاکہ ہمارے دشمنوں نے مسیح کو مصلوب کرکے ایک قسم کی فتح مندی حاصل کی اوراب ہمارے حصہ میں بجز نثر مساری اورافلاس اورایذاؤں کے اورکچھ نہیں آئیگاتواس وقت بھی اپنے شکست خوردہ رہبر کی پیروی میں ثابت قدم رہے اوراس کی تعلیموں کو سچا بتاتے رہے۔ اورپھر جب ایذارسانیوں کے طوفان دن بدن زیادہ گہرے ہوتے جاتے تھے اورانہیں معلوم ہوتا جاتا تھا کہ ہماری ثابت قدمی ہمیں ضرور طعمہ زاغ وزغن بنائیگی۔ اوراس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے تھے ۔ کہ اگر ہم اس راہ سے پھر جائیں توہماری جانوں کو کچھ آسیب نہ پہنچیگا۔ مگر پھر بھی وہ اپنی کسی نامعلوم مجذوبانہ خواہش کی پیروی میں ایسے لگے رہے کہ دکھ پر دکھ سہتے رہے ۔ شرمندگی پر شرمندگی اٹھاتے رہے ۔ حتےٰ کہ انجام کا رنہنگ موت کا لقمہ بن گئے اورپھر یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ وہ یہودی ہونے کے سبب سے اس عقیدے کے بھی متعقد تھے کہ ہمیں اس فریب اور سختی کے سبب سے ابد الاآباد دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہونا پڑیگا۔
اسی طرح ہمیں اور ناممکن باتیں بھی ماننی پڑینگی
ہمیں علاوہ اس کے یہ بھی ماننا پڑیگا کہ مسیح اوراس کے رسول ایسے کم سمجھ تھے کہ انہوں نے اپنے دعووں کو رواج دینے کے لئے ایسےمعجزانہ ثبوت پیش کئےجن کو جعلسازی سے پیدا کرنا سراسر ناممکن تھا۔ پھر اس سے بڑھ کر بیعقلی یہ کی کہ جس طرح اورفریبی اپنی فریب کاری کو چھپاتے ہیں اُنہوں نے کبھی اپنے جھوٹے معجزوں کو چھپانے کی کوشش نہ کی ۔ بلکہ کھلے میدانوں اوربڑے بڑے شہروں اور ہرقسم کے لوگوں کے سامنے طرح طرح کے معجزے دکھاتے رہے اورپھر چند ایک میں کامیاب ہونے کی غنیمت نہ سمجھا بلکہ بڑی بے باکی سے سالہسال تک دکھاتے رہے۔ معزز ناظرین ہم منت کرتے ہیں ۔ کہ آپ انصاف کیجئے اوربتائیے کہ کیا درحقیقت ہم کو یہ نہیں ماننا پڑیگا ۔ کہ مسیح اوراس کے شاگردوں میں متضاد صفات کا اجتماع نظرآتاہے کہ ایک طرف تو ناممکن تدبیروں کو ہاتھ لگانے سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ وہ ایسے چالا ک ایسے غدار اور فریب دہی میں ایسے مشاق اوربے مثال تھے کہ دنیا کو ان کا لوہا ماننا پڑا؟ کیاہم کو یہ نہیں ماننا پڑتاکہ یہ کوتہ اندیش مگر نہایت ہشیار فریبی انسانی فطرت کو ایسی اچھی طرح سمجھتے تھے۔ دنیا کے حالات سے ایسے واقفکار تھے۔ یہودیہ اوریونان اور روم کے عالموں اورحاکموں کے مقابلے کےلئے ایسے عجیب طورپر مسلح تھے۔ اوراپنی تجویزوں کو پورا کرنے کے فن میں ایسے ماہر ۔ اپنی حرکتوں کو عجیب لباس پہنانے کے ہنر میں ایسے استاد کار، اوراپنے بھیدوں کو مخفی رکھنے کے علم میں ایسے بے نظیر تھے کہ گو ان کے مخالفوں اورنکتہ چینوں کی آنکھ ہر دم اُن پر لگی رہتی تھی تاہم کوئی شخص اُن کی کارروائی میں سرمونقص نہ پاسکا۔ کوئی یہ نہ کہہ سکا لوگو تم کیا غضب کرتے ہو جو ان فریبیوں کی بات کو سچ مانتے چلے جاتے ہو۔ یہ جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ ان کے معجزوں سے نہ کوئی اندھا دیکھتا ہے۔ نہ کوئی لنگڑا چلتاہے اورنہ کوئی مردہ جی اٹھتا ہے؟ بلکہ برعکس اس کے بیت عنیا کے باشندوں نے ایسا دھوکا کھایا کہ وہ اس بات کے قائل ہوگئے کہ ہمارے گاؤں کا رہنے والا لعزر جو مرگیا تھا واقعی زندہ ہوگیا ہے۔ اوراسی طرح یروشلیم کے باشندے بھی مسیح کے جل میں ایسے آگئے کہ یہ ماننے لگ گئے کہ جو شخص جنم سے اندھا تھا اورہمارے پاس رہا کرتا تھا ۔ وہ اب مسیح کے طفیل سے بینا ہوگیا ہے اور اسی طرح پانچ ہزار اشخاص بھی دھوکے سے اس بات کے معتقد ہوگئے کہ عیسیٰ مسیح نے ہم بھوگوں کو ایک اجاڑ پر بت میں اپنی معجزانہ قدرت اور فیاضی سے سیر کیا ہے۔ اوریونہی سریا کے باشندے بھی اس فریب میں آگئے کہ وہ بھیڑ جیسے وہ عیسیٰ مسیح کے پاس لائے تھے ۔ جس میں طرح طرح کے مریض اوربیمار شامل تھے اپنے دکھوں اوربیماریوں سے رہا ہوکر واپس گئی۔ قصہ کوتاہ یہ کہ تمام یہودی اور بُت پرست دنیا ان بے علم اورسادہ لوح اورحقیر اور ستائے ہوئے چند یہودیوں کے جُل میں اسی طرح آگئی کہ اُسے اُن کے معجزوں کی سچائی کا اقرار کرنا پڑا۔ایسا کہ گویا فلاسفروں اورربیوں نے مسیح کے مذہب پر حملہ کیا مگر معجزوں کا انکار نہ کیا۔ بلکہ اُن میں سے کئی ایک نے اپنی کتابوں میں انہیں تسلیم کیا اورہزارہا ہزار اشخاص نے جوبڑے بڑے خاندانوں اورمہذب شہروں سے علاقہ رکھتے تھے رسولوں کے ایام میں ان غریب اورکمزولوگوں کی تعلیم سے مسخر ہوکر سب کچھ چھوڑنا گوارا کیا۔ اپنے تن من دھن کو قربان کردیا۔ اپنے جسموں کو آگ اورتلوار اور خونخواروں کے سپرد کیا۔ تاکہ معجزات دکھانے والے مسیح مصلوب کی پیروی اختیار کریں۔
پیارے ناظرین مسیح کے معجزات کے متعلق ہمارے پاس یہ گواہی ہے ۔ جوہم نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔ اب آپ اس گواہی کی خصائص کو پرکھ کر خود بتائیں کہ زور اعتقاد کون ہے۔ کیا وہ جو اس گواہی کو ردکرتاہے یا وہ جو اسے قبول کرتاہے۔