دوسرا باب
قوانین قدرت اور معجزات
ہمارے ملک میں معجزے کی مخالفت ایک نیا واقعہ ہے کیونکہ سب قومیں کسی نہ کسی طرح کے معجزے مانتی آئی ہیں
ہمارے ملک میں معجزات کی مخالفت ایک نیا شگوفہ ہے۔ کیونکہ کوئی اس بات کا انکار نہیں کرسکتا۔کہ ابھی تھوڑا عرصہ گذرا کہ ہر طرح کی زوداعتقادی اورباطل پرستی حد تک پہنچی ہوئی تھی۔ اور اب بھی ملک بطالت سے پورے طورپر آزاد نہیں ہوا۔ بعض بعض فرقوں کا قوت اعجاز سے انکار کرنا واقعی ہندوستان کی مذہبی تاریخ میں ایک نیا واقعہ ہے۔ ہندوؤں کی دینی کتابیں عجیب قصوں اورکہانیوں سے بھری پڑی ہیں۔ اوراگر ہم ان کو بھی معجزات کے نام سے موسوم کریں تو وہ اس قدر ہیں کہ ان کا شمار کرنا آسان کام نہیں۔ اور ہزاروں بلکہ لاکھوں سناتن دھرم کے ماننے والے ہندوباوجود ویدانتی عقائد کے جو معجزانہ اظہارات کے سخت مخالف ہیں پرانوں کے قصوں اورکہانیوں کو اب بھی برابر مان رہے ہیں۔ یہی حال اسلا م کا ہے ۔ وہاں بھی یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف انبیاء کی معجزانہ قدرت پر اکتفا کی بلکہ اپنے ولیوں اور غوثوں اور قطبوں کی کرامات کے بھی قائل ہوئے اور ادنیٰ درجہ کی قوموں اور فرقوں میں تو اس زوداعتقادی کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ پیروں اور فقیروں کی عبادت۔ قبروں اور خانقاہوں کی زیارت اور پرستش کا رواج اب تک چلا جاتاہے۔ اوراس کا سبب یہ ہے کہ لوگ یہ مانتے ہیں کہ ان وسائل سے ہماری مرادیں برآئینگی۔
پر یہ سربیع الااعتقادی علم کے سامنے قائم نہیں رہ سکتی تھی
دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں ۔ کہ وہ لاریب قوت اعجاز کے اظہاروں کے قائل ہیں ۔ لیکن یہ بیڈھنگی زوداعتقادی علم کے سامنے قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ لہذا جب سائنس کی روشنی چمکی اور تعلیم یافتہ لوگوں نے دیکھا کہ جن واقعات کو ہمارے آباواجداد کرامات مانتے چلے آئے ہیں وہ ایسے بے بنیاد ، ایسے بے ربط ، ایسے عجیب الخلقت اورحقیقی تاریخ کی خاصیتوں سے اس قدر بے بہرہ ہیں کہ ارباب علم وفضل ان کو ہر گز قبول نہیں کرسکتے توانہوں نے ولایتی نیچیریوں کی تقلید اختیار کی اورکہا کہ معجزہ بالکل نا ممکن ہے۔ کیونکہ وہ قوانین قدرت کے برخلاف ہے۔ ان لوگوں میں ہمارے بھائی برھموجن کی صدق دلی اور نیک ذاتی کے ہم تہ دل سے قائل ہیں اور آریہ سماج اور بعض ویدانتی ۔ اور کئی نیچری شامل ہیں۔ مگر چونکہ ان لوگوں نے ہماری رائے میں اہل یورپ سے معجزوں کی مخالفت کرنا سیکھا ہے لہذا ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم اصل مخالفوں کی طرف متوجہ ہوں جن کی تصنیفات سے ہمارے مخالفانِ اعجاز نے خوشہ چینی کی ہے۔ جہاں تک ہم کو علم ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے اپنے ہم وطن بھائیوں سے معجزے کی تردید میں سنا ہے وہ نئی باتیں نہیں بلکہ وہی باتیں وہی اعتراض ، وہی مخالفتیں ہیں جویورپ کے رشینلسٹوں اور ڈی اسٹون اورتھی اسٹون اور منپتھی اسٹون کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔
معجزانہ مخالفت کا ماخذ
مناسب معلوم ہوتاہے کہ ہم اس جگہ اس بات پر غو رکریں کہ اس مخالفت کا اصل ماخذ کیا ہے ۔ کیا سائنس معجزوں کی مخالفت میں علم اٹھائے ہے یا کوئی اوربات ہے جس کے سبب سے لوگ مخالفت کررہے ہیں۔
سائنس نہیں بلکہ اپنے اپنے فلسفانہ عقیدے
ہمیں پروفیسر بروس صاحب کا خیال بالکل صحیح معلوم ہوتاہے جوانہوں نے اپنی کتاب" دی مرے کیولس ایلیمنٹ ان دی گاسپلز" ( The Miraculous element in the Gospels) میں ظاہر فرمایا ہے کہ فوق العادت کی نسبت جو بے اعتقادی پائی جاتی ہے اس کی ماسائنس نہیں بلکہ اس کا اصل سبب فلسفیانہ میلان ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ جس خیال کی طرف طبعیت مائل ہوتی ہے وہی درست معلوم ہوتاہے۔ اورممکن ہے کہ ایسا فلسفانہ میلان اختیار کیا جائے جس کی مخالفت کو کسی طرح کا ثبوت بھی دور نہ کرسکے۔
دہریہ اورہمہ اوستی اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق مخالفت کرتے ہیں
مثلاً دہریوں کے اعتقادات اورہمہ اوستیوں (پنتھی اسٹوں) کے اعتقائد ہیں یہ سختی میلان کی صاف نظر آتی ہے ان دونو میں سے کوئی بھی انتظام نیچر کی متواتر بے تبدیلی میں معجزانہ رخنہ اندازی کا قائل نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ دہرئیے کے نزدیک جو صرف مادے کی ہستی کا قائل ہے فوق العادت کچھ چیز نہیں ہے مگر ایتھی ایسٹ کے نزدیک فوق العادت خالی از مطلب نہیں۔ وہ ایک صورت میں فوق العادت کا قائل ہے ۔ پر جسے وہ فوق العادت کہتاہے وہ نیچر سے جدا نہیں۔ بلکہ نیچری ہی میں ظاہر ہوتاہے۔ یا یوں کہیں کہ نیچر کا روحانی تصور اس کے نزدیک فوق العادت ہے۔ ایک کے نزدیک اگر کوئی حقیقت ہے تو وہ نیچر ہے۔ اورخدا ایک مہمل اوربے معنی شے ہے۔ دوسرے کے نزدیک نیچر بصورت خیال خدا ہے۔ اورخدا کی حقیقت نیچر ہے۔ اب دونو عقیدوں میں سے خواہ کوئی عقیدہ اختیار کیا جائے معجزہ ہر حالت میں نا ممکن ٹھیریگا۔
اب اس سے یہ دعویٰ نہیں کیا جاتا کہ معجزہ کے انکاری فقط دہریہ اور نپھتی ایسٹ ہی ہوتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ ہیں جو خدا کی ہستی کے قائل ہیں اورپھر بھی معجزہ کے انکاری ہیں۔
مقابلہ سائنس اور فلسفیانہ عقیدوں کا
اورنہ ہی اس بات سے انکار ہے کہ سائنس اس مخالفت کی معاون ہے مگر تاہم یہ درست ہے کہ سائنس اتنی مخالفت نہیں کرتی جتنی وہ طریقے کرتے ہیں جنہیں لوگ مان رہے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس معاملے میں کئی باتوں کے متعلق سائنس کا رخ کسی اور طرف ہے۔
سائنس تین باتوں پر گواہی دیتی ہے اور یہ عقیدے اس گواہی کی مخالفت کرتے ہیں
اور میٹریل اسٹک فلسفہ (The Materialistic Philosophy) کا رخ کسی اور طرف ہے یعنی دونوں میں اتحاد اور اتفاق نہیں پایا جاتا ۔ مثلاً موجودہ سائنس نیچر کے اظہارات سے یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ دنیا حادث تو ہے مگر اسے وجود میں آئے کئی لاکھ برس گذرگئے ہیں اور ایماندار لوگ اس نتیجہ کو بڑی خوشی سے قبول کرتے ہیں۔
دنیا کے آغاز کے بارے میں
مگر دہرئیےاور ویدانتی باوجود اس گواہی کے مادہ کی ازلیت کو مانتے چلے جاتے ہیں ۔ اور سائنس کی بات کو نہیں سنتے۔ اورسبب اس کا یہ ہے کہ اگر مادہ کو حادث مان لیں تو یہ لازم آئیگا کہ خدا کو بھی مانیں جو اس کا موجد ہے۔
زندگی کی اصل کے بارے میں
اسی طرح زندگی کی اصلی کی نسبت کچھ اسی قسم کا تخالف نظر آتا ہے ۔ مثلاً سائنس بڑی گہری تحقیقات کے بعد یہ فیصلہ کرتی ہے کہ زندگی خود بخود پیدا نہیں ہوتی ۔ خوردبین پکار پکار شہادت دے رہی ہے کہ جہاں زندگی پہلے موجود نہیں وہاں کسی طرح کی زندگی برآمد نہیں ہوتی۔ اب اگر یہ بات مان لی جائے تو یہ نتیجہ صاف ظاہر ہے ۔ یعنی اگر زندگی خود بخود پیدا نہیں ہوتی تو سب سے پہلی زندگی کہاں سے آئی۔ کیا وہ آپ ہی آپ پیدا ہوگئی یا خدا کی خالقانہ قدرت سے وجود میں آئی ؟ اب دہریہ باوجود یکہ کوئی شہادت اس کے برخلاف پیش نہیں کرسکتا ۔ پھر بھی یہی کہے چلا جاتا ہے کہ زندگی آپ ہی آپ پیدا ہوگئی یا خدا کی خالقانہ قدرت سے وجود میں آئی ؟ اب دہریہ باوجود یکہ کوئی شہادت اس کے برخلاف پیش نہیں کرسکتا۔ پھر بھی یہی کہے چلا جاتا ہے کہ زندگی آپ ہی آپ پیدا ہوئی ہے۔ مثلاً ہکسلے صاحب جن کے کلام کو مفصل طورپر اقتباس کرکے بروس صاحب نے اپنی کتاب متذکرہ بالا میں بحث کی ہے ۔ کہتے ہیں کہ اگرمجھے یہ طاقت ملتی کہ میں اس دور دراز زمانہ کو دیکھتا جس میں دنیا طبعی اور کیمیائی حالتوں سے گذر رہی تھی تو مجھے یقین ہے کہ میں بے جان مادہ جس سے جاندار پروٹو پلازم(Protoplasm) کو نکلتے دیکھتا۔ اوربروس صاحب فرماتے ہیں کہ ہکسلے صاحب آپ ہی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ میری یہ رائے فلسفانہ خیال سے بڑھکر نہیں۔
علم النفس کے بارے میں
یہی حال علم النفس کی بابت پایا جاتا ہے ۔ یعنی دہرئیے اپنے انکاری دعوےٰ سائینس کی گواہی کے برخلاف پیش کر رہے ہیں حالانکہ بڑے بڑے اہل سائنس یہ گواہی دیتے ہیں کہ خیال (Thought) کو حرکت (Motion) نہیں کہہ سکتے مگر سٹراس باوجود اس گواہی کے خیال یعنی قوت متخیلہ کو فقط حرکت کی ایک صورت مانتا ہے ۔
وہ فرقے جو خدا کی ہستی کو مانتے مگر پھر بھی معجزات کے مخالف ہیں
اب ہم تھوڑی دیر کے لئے ان فرقوں کی طرف متوجہ ہونگے جو خدا کی ہستی کے تو قائل ہیں مگر معجزانہ اظہارات کے قائل نہیں ہیں ہم شروع میں اُن فرقوں کی طرف اشارہ کرآئے ہیں جو ہمارے ملک میں پائے جاتے ہیں ۔ جو خدا کو مانتے ہیں ۔لیکن معجزات کو قابل تسلیم نہیں سمجھتے۔ یہاں ہم ان یورپین فرقوں کا ذکر کرینگے جو باوجود خدا کی ہستی کے اقرار کے معجزات کے انکار پر جمے کھڑے ہیں۔ اوران کا ذکر کرنا بہت ضروری معلوم ہوتاہے۔ کیونکہ زبان انگریزی کے وسیلے ان کے خیالات اور اعتراضات ہمارے ملک میں داخل ہوتے جاتے ہیں اورہماری تھیالوجی (علم الہیات) اور سوسائٹی وغيرہ پر اپنا اثر ڈال رہے ہیں۔
ان کے خیالات اس رشتہ کی نسبت جو خدا کی حضوری فطرت سے رکھتی ہے
یوروپ میں جو لوگ خدا کی ہستی کومانتے اور معجزوں کو ناممکن گردانتے ہیں دو حصوں میں تقسیم کئے جاسکتے ہیں اوریہ تقسیم ایک خاص مسئلہ پر مبنی ہے ۔ اوروہ یہ کہ خدا اس دنیا سے یا عالم موجودات سے کیسا اور کیا علاقہ رکھتاہے۔ یہ رشتہ دو لفظوں سے ظاہر کیا جاتاہے ان میں سے ایک لفظ ایک فرقے کی اور دوسرا لفظ دوسرے فرقہ کی جان ہے۔
دولفظ (۱۔) ٹرن سنڈنس
ایک لفظ " ٹرن سندنس" ہے اور دوسرا لفظ" افے نیننس" ہے۔ ٹرین سنڈنس کا یہ مطلب ہے کہ خدا جس نے اس دنیا کو پیدا کیا ہے دنیا سے برتر اور بلند ہے۔ یعنی اس سے الگ ہے یا یوں کہیں کہ وہ اس دنیا کی کل کو بناکر اس سے جدا ہوگیا ہے اوراب اس سے کچھ سروکار نہیں رکھتا اوراس کی قدرت براہ راست یعنی معمولی قوانین سے جدا ہوکر دائرہ فطرت میں کچھ کام نہیں کرتی ہے۔ جو قوانین اور قواعد اس نے مقرر کردئیے ہیں۔ جو طاقتیں اس مشین میں بھردی ہیں وہی اس سلسلہ موجودات کو قائم رکھتی ہیں۔ لہذا خدا کواس سلسلہ میں آنے اور دخل دینے کی کچھ ضرورت نہیں۔
ایمے فیننس
امے فیننس سے اس کی وہ اندرونی موجودگی یا حضوری مراد ہے۔ جو قوانین قدرت میں ہوکر کام کرتی ہے۔ وہ فطرتی اظہارات میں اپنا جلوہ دکھاتی ہے ۔ لیکن ان سے الگ ہوکر کسی طرح کی فوق العادت دست اندازی نہیں کرسکتی ۔ اب ہم نے دیکھا کہ ایک خیال کے مطابق خدا نیچر میں بذات خود حاضر نہیں ہے بلکہ وہ طاقتیں جو اس نے ابتدا میں پیدا کردیں خود بخود کام کررہی ہیں اور دوسرے کے مطابق وہ حاضرتو ہے ۔ مگراس کی قدرت فقط قوانین مقررہ کے ذریعہ کام کرتی ہے۔
ڈی اسٹ اور تھی اسٹ
پہلے خیال کے ماننے والے ڈی اسٹ اور دوسرے خیال کے ماننے والے تھی اسٹ کہلاتے ہیں ۔ ڈی اسٹ اورتھی اسٹ میں معنی کے لحاظ سے توکچھ فرق نہیں کیونکہ ڈی اسٹ لاطینی ڈی آس(خدا) سے مشتق ہے اور تھی اسٹ یونانی تھیاس(خدا) سے نکلا ہے ۔ مگر تاہم جو تھی اسٹ ہیں وہ ڈی اسٹ کہلانا نہیں چاہتے ہیں۔ وہ کلام الہیٰ کی عزت کرتے اور سیدنا مسیح کی تعظیم کرتے ہیں ۔لیکن دونو معجزے کے انکاری ہیں۔ اورہم نے دیکھا کہ ان رشتوں کے سبب سے جو وہ اپنی اپنی رائے کے مطابق خدا اور خلقت کے درمیان مانتے ہیں معجزہ کا انکار لازمی ہے۔ البتہ وہ معجزے کے امکان کے اکاری نہیں کیونکہ وہ مانتے ہیں کہ خدا معجزہ دکھانے کی قدرت رکھتاہے اور اس بات کے بھی معترف ہیں کہ اس کا دنیا کو ہست کرنا اورموجودہ ترتیب سے مرتب کرنا بجائے خود ایک معجزہ ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں ۔ کہ جب یہ ترتیب اور انتظام سے مرتب کرنا بجائے خود ایک معجزہ ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب یہ ترتیب اورانتظام ایک مرتبہ قائم ہوچکا تو پھر معجزے کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ جو کچھ خدا نے بنادیا وہ انسان کی خوشی اور آرام کے لئے کافی ہے بلکہ یہی سلسلہ ضرورت ہے تو اس میں رخنہ پردازی کرنے سے کوئی اس سے بہتر صورت انسان کی خوشی اور آرام کی پیدا نہ ہوگی بلکہ قوانین قدرت درہم برہم ہوجائینگے۔
اگناسٹسزم
ایک اور عقیدہ ہے جس کی روسے خدا کی ہستی کا کسی قدراقرار کیا جاتاہے ۔ مگر وہ نہایت نامکمل اور ناقص ہونے کی وجہ سے مسیحی مذہب کے معجزوں کا سخت مخالف ہے وہ اگناسٹسزم کہلاتاہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ہم اس دنیا میں ایک قدرت کو معائنہ کرتے ہیں ۔ جو تمام فطری اظہارات کی جڑ اورموجد ہے مگر ہم نہیں جانتے اورنہ جان سکتے ہیں وہ کیا ہے۔ جن جن باتوں میں اس نے اپنے تئیں فطرت کے اظہارات کے وسیلے ہمارے اوپر آشکارا نہیں کیا وہ نا معلوم ہے اورجہاں تک آشکارا کیا ہے وہاں تک معلوم ہے جہاں تک لامحدود اوربے بیان ہے وہ نا معلوم ہے۔ اورجہاں تک اپنے اظہاروں کی ترتیب سے ظاہر ہے وہاں تک معلوم ہے۔ یہ خیال اس مسئلہ کے ساتھ وابستہ ہیں جسے ایوولیوشن کہتے ہیں ۔ جویہ مانتا ہے کہ شروع میں متعدد اشیاء موجود تھیں۔ اورجو کچھ اب نظر آتاہے وہ انہیں سے بڑھتے بڑھتے پھیلا ہے۔
ہم جو کچھ اوپر بیان کرچکے ہیں اس سے ناظرین پر بخوبی ظاہر ہوگیا ہوگاکہ کس کس جانب سے معجزے کی مخالفت برپا ہوتی ہے۔ پرہم آسانی کے لئے ان خیالات کو جو مخالفت کی گویا جڑ ہیں بطور خلاصہ ذیل میں درج کرتے ہیں۔
خیالات مذکورہ بالا کا خلاصہ اور تردید
دہریوں کا خیال جو خدا کی ہستی کا مطلق قائل نہیں۔ اس جگہ ہم خدا کی ہستی کے ثبوت پیش نہیں کرسکتے۔ کیونکہ یہ مضمون معجزے کے مضمون سے تعلق نہیں رکھتا تمام علماء متفق ہیں کہ معجزہ انہیں لوگوں کے نزدیک وقعت رکھتاہے جو خدا کی ہستی کے قائل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ معجزہ خدا کی ہستی کو پہلے ہی سے مانتا ہے "۔ معجزہ دکھانے والا لوگوں پر یہ ثابت نہیں کرتا کہ خدا ہے۔ بلکہ وہ ان لوگوں کے پاس جاتا ہے جو خدا کی ہستی کو تسلیم کرتے ہیں اوران کے پا سجاکر کہتاہے کہ جس خدا کو تم مانتے ہو اسی نے مجھے اس پیغام کے ساتھ تمہارے پاس بھیجا ہے ۔ پس جو ملحدہیں ان کے قائل کرنے کے لئے ان دلائل کی ضرورت ہے جو خدا کی ہستی کو ثابت کرتے ہیں۔
خدا کے رشتہ کی نسبت ہم ڈی اسٹوں اور تھی اسٹوں کے خیال کو نہیں مان سکتے کیونکہ وہ صحیح نہیں
وہ مسلئہ جو متعلق اس رشتہ کے ہے جو خدا اس عالم موجودات کے ساتھ رکھتاہے ۔ اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا ہمہ اوستی کے خیال کے مطابق دنیا کی مانند ہے اورنہ اس سے کسی طرح کی مشابہت رکھتاہے اور نہ وہ ڈی اسٹوں کے خیال کے مطابق نیچر سے ایسا جدا ہے کہ اس میں کسی طرح کا دخل نہیں رکھتا اورنہ ہی اسٹوں کی رائے کے بموجب وہ قوانین فطرت کے اندربند ہے ہم کرسلب کے ساتھ متفق ہیں کہ جو رائے ان خیالات کے بیچ بیچ میں ہے وہ درست ہے یعنی یہ رائے کہ خدا ہر شے کے اندر موجود ہے تاہم اس سے جدا اورآزاد ہے ۔ وہ ہر شے سے برتر اور بلند ہے تاہم اس میں موجود ہے۔ وہ نیچر سے الگ ہے توبھی نیچر کے اندر حاضر ہے ۔ اسی صحیح اور سچے رشتہ الہیٰ میں جو وہ کائینات سے تعلق رکھتا ہے ۔ معجزے کا امکان نہیں کرسکتا۔ اگرہم خدا کو صاحب مرضی مانتے ہیں یعنی اس بات کے قائل ہیں کہ وہ قوت ارادی سے متحلےٰ ہے اور قوت ارادی محدود محکوم نہیں ہے تو اس کا سلسلہ نیچر میں دخیل ہونا ناممکن نہیں۔ لیکن اس کی مداخلت ہی کا نام معجزہ ہے۔
دنیا بہ ہئیت موجودہ کامل نہیں کیونکہ اس میں گناہ نے رخنے ڈال رکھے ہیں
تیسرا یہ خیال ہے کہ دنیا بہ ہئیت موجودہ بالکل درست اورکامل ہے اور معجزات کی ضرورت نہیں رکھتی۔ بلکہ ایک شخص نے جس کا اوپر ذکر ہوچکا ہے معجزات کو شگاف سے تشبیہ دی ہے۔ گویا اس کے نزدیک معجزات کا واقع ہونا قوانین فطرت کی بے تبدیلی میں شگاف پڑ جانا ہے۔ لیکن اگر ہم غور سے دیکھیں تو یہ دنیا شگافوں سے پرُ نظر آئیگی۔ گناہ نے اس کو پرُزے پرُزے کردیا ہے کیا کوئی صاحب نظر گناہ کی بربادی دکھ اور غم کی گر بازاری سے جو گناہ سے پیدا ہوتی ہے اوراسی طرح کی اوربہت سی باتیں دیکھ کر یہ کہہ سکتاہے کہ دنیا اس موجودہ حالت میں کمائی کے درجہ کو پہنچی ہے؟ معجزہ گناہ کے رخنوں کو دور کرنے کے لئے دکھایا جاتاہے ۔ اور اگر خداوند وہ ہدائتیں جو معجزے کی شہادت پر سچی مانی گئی ہیں عطا نہ فرماتااورہم ان کواپنی تاریک مسافت میں اپنا بدرقہ نہ بناتے اورزندگی کے روز مرہ فرائض کی انجام دہی میں دستور العمل نہ ٹھیراتے تو ہمارا کیا حال ہوتا ؟ یہ خیال کہ دنیا موجودہ صورت میں ہماری خوشی اورآرام کے لئے کافی ہے بڑا سنہرا خیال ہے۔ پر جو ایسا مانتے ہیں وہ شائد ان آہوں سے واقف نہیں جو مصیبت زدوں کی کلیہً اخران سے ہر روز اٹھتی ہیں۔
معجزات اور قوانین فطرت
چوتھا خیال جس پر بڑا زور دیا جاتا ہے یہ ہے کہ معجزات سے قوانین فطرت درہم برہم ہوجاتے ہیں۔ اس باب کا باقی حصہ اس اہم سوال کے حل کرنے میں صرف کیا جائیگا کہ کیا سچ مچ معجزات قوانین فطرت کو کوئی ایسا صدمہ پہنچاتے ہیں جس سے اس مشین کا ایک ایک پرزہ جدا ہوجاتاہے یا یہ خیال صرف وہم کا فساد ہے ؟
قانون کی تعریف
قبل ازیں کہ ہم اس بحث کو شروع کریں یہ ضروری معلوم ہوتاہے کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ قوانین فطرت یا نوایلیس قدرت کسے کہتےہیں۔ جب ہم لفظ قانون نیچر کے متعلق استعمال کرتے ہیں توہماری مراد ان نتائج یااظہارات سے ہوتی ہے جو ہمیشہ ان اسباب کی پیروی کرتے ہیں یا ان کے وسیلے برآمد ہوتےہیں جو موجداُن کے وجود کے ہوتے ہیں۔ یعنی جب ہم دیکھتے ہیں کہ فلاں اسباب کے وجود ہونے سے فلاں نتائج ہمیشہ پیدا ہوتے ہیں۔ توہم اس باہمی رشتہ کو خاص اسباب اوران کے نتائج میں پایا جاتا ہے قانون کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اورچونکہ ہم اس عالم میں یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ مقرری اسباب سے مقرری نتائج پیدا ہوتے ہیں ۔ لہذا ہم کہتے ہیں عالم موجودات میں وہ قوانین پائے جاتے ہیں جوکبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ اوراسی بنا پر معجزے کی مخالفت کی جاتی ہے۔ چنانچہ مخالف کہتاہے کہ ہمارا تجربہ ان قوانین کی نسبت بے تبدیل ہے ۔ یعنی ہم کبھی ان قوانین کو بدلتے نہیں دیکھتے لیکن معجزہ ان میں رخنہ اندازی کرتاہے لہذا وہ ماننے کے لائق نہیں۔
چند دلائل جو معجزے کے امکانات کو ثابت کرتے ہیں
اب ہم وہ دلائل پیش کرتے ہیں جو مسیحی علماء نے اس بارے میں دی ہے کہ معجزات کے وقوع سے نہ قوانین قدرت کو ضرب پہنچتتی ہے اورنہ کسی عقلی اصول کو ضررآتاہے۔
معجزات برخلاف عقل نہیں ہیں
مارے صاحب نے اپنی کتاب ایٹ لیکچرز آن مرے کلز(Eight Lectures on Miraculous ) میں عالمانہ طرز پر یہ بات ثابت کی ہے کہ نیچر کے انتظام کی بے تبدیلی اور قوانین قدرت کی دائمی بے انقلابی کا اعتقاد جو ہمارے درمیان پایا جاتاہے ہم اس کا عقلی ثبوت نہیں دے سکتے ہیں ۔ لہذا معجزات کو عقل کے خلاف نہیں کہہ سکتے۔ وہ کہتےہیں کہ ہم سب یہ مانتے ہیں کہ جو کچھ آئندہ ہوگا وہ اس کی مانند ہوگا جو ہوچکا ہے۔
ہم قوانین فطرت کی دائمی بے تبدیلی کا کوئی ثبوت یا دلیل نہیں دے سکتے
لیکن سوال برپا ہوتاہے کہ کیوں ایسا ہوگا؟ اب اگر اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ یہ امر بدیہی ہے وہ ثبوت کا محتاج نہیں۔تو یہ جواب تسلی بخش نہیں کیونکہ جوبات بدیہی ہوتی ہے اور ثبوت کے محتاج نہیں ہوتی ۔ اس کا عکس یا نقیض درست نہیں ہوتا۔ مگر قوانین کی بے تبدیلی کا عکس ذہن میں آسکتاہے یعنی جو کچھ اب ہورہاہے اگرا سکی نسبت یہ کہیں کہ وہ کل نہیں ہوگا تو عقل اس دعوےٰ کو متناقص نہیں سمجھتی۔ مثلاً یہ کہناکہ " آج سورج نکلا، مگر کل نہیں نکلیگا"۔ نادرست نہیں پر یہ کہنا غلط ہے۔ کہ " آج سورج نکلا اورآج سورج نہیں نکلا"۔
موجدات کی مدائمت بھی ثابت نہیں ہوسکتی
پھر قوانین قدرت کی بے اعتدالی کی نسبت یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب کوئی واقعہ بارہا سرزد ہوتاہے تو اس سے ظاہر ہوتاہے ۔ کہ وہاں کوئی دائمی سبب موجود ہے جو موجد اُس کے وقوع کا ہے۔ مگر ہم پوچھتے ہیں کہ یہ بات کہاں سے نکالی کہ وہ سبب دائمی سبب ہے اورجیسا کہ وہ کل اور پرسوں تھا ویسا ہی آئندہ رہیگا۔
تجربہ بھی مدائمت کی دلیل نہیں
پھر یہ بھی کہا جاتاہے کہ ہم اس بات کے کہ قوانین قدرت جیسے پہلے بے تبدیل تھے ویسے ہی آئندہ بھی بے تبدیل رہینگے اس لئے قائل ہیں کہ ہمارا تجربہ شہادت دیتا ہے کہ آئندہ ویسا ہی ہوگا جیسا گذشتہ تھا۔ لیکن اگر یہ سچ ہو ۔ تو آئندہ ماضی بن جائیگا۔ کیونکہ تجربہ ہمیشہ ماضی کا ہوتاہے نہ کہ آئندہ کا اورجو یہ کہا جائے کہ جواب ماضی ہے وہ کسی وقت آئندہ تھا اس جواب سے بھی سوال حل نہیں ہوتا کیونکہ گویہ سچ ہے کہ جواب ماضی ہے وہ کسی وقت آئندہ تھا۔ تاہم اس میں بھی شک نہیں کہ جواب آئندہ ہے وہ آئندہ ہی ہے وہ ماضی نہیں۔ لہذا اس کا تجربہ ہم کو نہیں ہے۔ پس ہم کس طرح کہہ سکتےہیں کہ جیسا پہلے ہوچکا ہے ویسا ہی آگے ہوگا؟
نہ یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ یہ یقین جبلی ہے۔ اس لئے ثبوت کا محتاج نہیں ۔ کیونکہ جبلی اور غیر جبلی میں یہ فرق ہوتاہے کہ جو اعتقادات مخلوط بالطبع ہوتے ہیں ان کی ضد کا تصور قائم نہیں ہوسکتا۔ مثلاً کوئی اصول متعارفہ لو اور سوچو کہ آیا اس کی ضد قیاس میں آسکتی ہے یا نہیں ۔
نہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ یقین جبلی ہے
ہم جانتے ہیں کہ اس کی ضد کبھی درست نہیں ہوگی۔ مگر ترتیب فطرت کی نسبت نہیں کہہ سکتے کہ جوکچھ ہوتا آیا ہے اگر ویسا کل نہ ہوا تو تضاد واقع ہوگا۔ فلاسفر اوراہل سائنس گواہی دے رہے ہیں کہ دنیا کا یہ موجودہ سلسلہ ایک دن ختم ہوجائیگا۔ ہم پوچھتے ہیں کہ کیا اس دن تجربہ کی دلیل پر زور نہ ہوگی؟ لازم تو یہ ہے کہ اس وقت آگے کی نسبت بہت ہی پُرزور ہو کیونکہ اس وقت تو تجربہ زیادہ زمانوں کے گذرجانے اور سلسلہ موجودات کے برابر قائم رہنے سے اوربھی بڑھ جائیگا۔ پر اگر فلاسفروں کا یہ خیال صحیح ہے کہ یہ سلسلہ ایک دن ٹو ٹ جائیگا۔ توپھر تجربہ کا کیا حال ہوگا؟
اس بے تبدیلی کے ماننے میں انسان اور حیوان میں فرق نہیں۔ پس یہ یقین عقلی ثبوت پر مبنی نہیں
علاوہ بریں ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح ہم قوانین نیچر کے کی تبدیلی کے قائل ہیں اسی طرح حیوانات بھی ان قوانین کی بے تبدیلی کے قائل ہیں جو اُن سے علاقہ رکھتے ہیں۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ اُن میں عقل نہیں ہےبلکہ وہ صرف وہ طاقت رکھتے ہیں جسے ان سٹنکٹ یعنی عقل حیوانی کہتےہیں وہ نیچر کی تبدیلی کی کوئی دلیل نہیں دے سکتے اوران کی مانند ہم بھی کوئی عقلی ثبوت یا برہان نہیں دے سکتے کہ کیوں مستقبل ماضی کی مانند ہوگا بجز اس کے کہ ہمیشہ ایسا ہوا آیا ہے مگر اسے دلیل نہیں کہتے۔اب اس بحث کا تعلق معجزآت سے یہ ہے کہ چونکہ ہمارا یقین کہ سلسلہ موجودات ہمیشہ یکساں رہیگا کسی عقلی ثبوت کی بنیاد پر یعنی کسی دلیل پرمبنی نہیں لہذا وہ بات کٹ گئی جس کی بنا پر یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ معجزات سلسلہ موجودات سے برخلاف ہونے کی وجہ سے عقل کے برخلاف ہیں۔
جب یہ تبدیلی دلیل سے ثابت نہیں ہوسکتی تو معجزات خلاف عقل کیوں ہوئے
عقل کے برخلاف وہ اس وقت مانے جاتے جب عقل کسی طریق استدلال سے یہ ثابت کردیتی کہ جو پیچھے ہوچکا ہے وہی آگے ہوگا۔اگر ان دودعوں میں کہ " جو کچھ پہلے واقع ہوا ویسا ہی آئندہ واقع ہوگا"۔ ہم کوئی عقلی ربط دیکھتے توہم کہہ سکتے کہ واقعہ ماضی کی مانند وقوع میں نہ آئے وہ ناممکن ہے ۔ پر اگر ہم کوئی ثبوت یا دلیل نہیں دے سکتے کہ کیوں ایسا ہوگا توہم غیر معمولی واقعہ کو عقل کے خلاف نہیں کہہ سکتے ۔
تنبیہ۔ یہ سمجھنا ضروری امر ہے کہ ترتیب نیچر کے کس پہلو پر بحث ہوتی رہی ہے
اس موقعہ پر ایک بات یادرکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارا یہ دعویٰ نہیں کہ ترتیب فطرت میں جو مطابقت اورمناسبت پائی جاتی ہے اس کا کوئی عقلی ثبوت نہیں دیا جاسکتا ۔ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ جہاں جو مقدمات ہونگے وہاں وہی تالیات پیدا ہونگے جو اُن مقدمات سے خاص ہیں اوراس بات کو ہم نے عقل ہی سے دریافت کیا ہے۔ پر ہماری بحث اُس اعتقاد سے جو اس بات کا قائل ہے کہ جیسا گذشتہ میں ہوا ویسا ہی آئندہ میں بھی ہوگا۔اس کا کوئی عقلی ثبوت نہیں دیا جاسکتا ۔ پس یہ کہنا کہ معجزات خلاف عقل ہیں درست نہیں۔
معجزات کا اعلیٰ مطلب اُن کے امکان پر دلالت کرتا ہے
معجزات کے مقصدسے ظاہر ہے کہ وہ ان نیچرل نہیں ہیں وہ ایک اعلیٰ اور افضل نیچر سے علاقہ رکھتے ہیں ۔ پس وہ اس نظم قدرت کے جو ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے برخلاف نہیں گو اس سے برتر اور بلند ہیں اورانہیں ان نیچرل یعنی فطرت کا مخالف کہنا درست نہیں۔ کیونکہ یہ کہنا اس وقت درست اور واجب ہوتا جب معجزات ترتیب عالم کو بگاڑتے ۔ پر وہ تو اسی لئے اس دنیا میں قدم رکھتے ہیں کہ جس کمال کو انتظام موجودات نے کھودیا ہے اس کمال کی طرف اُسے پھر رجوع کریں۔ وہ ایک اعلیٰ فطرت سے علاقہ رکھتے ہیں اوراس دنیا سے آتے ہیں جس کی ترتیب اور انتظام میں کسی طرح کا فرق نہیں آیا تاکہ ہماری دنیا میں داخل ہوکر ان ناموافقتوں اور خرابیوں کودور کریں جنہوں نے اس کے انتظام میں ابتری پیدا کر رکھی ہے اوراسے الہیٰ منشا کے مطابق بنا کر اس میں اوراعلیٰ دنیا میں اتحاد اور تطبیق پیدا کریں ۔ کسی بیمار کو چنگا کرنا نیچر کے خلاف نہیں۔ کیونکہ صحت اصل منشائے نیچر کے موافق ہے۔ چنگا کرنا نیچر کے برخلاف نہیں۔ بیماری برخلاف ہے لہذا بخشنا اصلی ترتیب کو پھر قائم کرنا ہے۔
قوانین قدرت ازل سے آزاد اور مختار کل نہیں ہیں
ہم اس بات کے دل وجان سے قائل ہیں کہ جہاں تک ہمارا علم کام کرتاہے ہم نیچر کی کارروائی میں ایک قسم کی مناسبت اور پائداری دیکھتےہیں۔ ہم اسباب ونتائج ، مقدمات وتالیات ، علت اور معلول میں ایک قسم کا محکم رشتہ معائنہ کرتے ہیں۔ مگراس کے ساتھ ہی ہم اس بات کا بھی انکار نہیں کرسکتے ۔ کہ یہ قوانین اوران کا عمل ایک اعلیٰ قانون اورایک اعلیٰ قدرت کے تابع ہیں ہم نہیں مان سکتے کہ وہ آزاد ہیں اور ایسی شاہانہ قدرتیں ہیں جو قائم بالذات اوربے تبدیل ازلی اوبدی ہیں۔ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اگر خدا ہے تو اس نے ان قوانین کو تجویز کیا ہے اور اگر وہ ان کا مجوز ہے تو وہ ان پر مقدم بھی ہے۔ اوراپنی حکمت کے مطابق جیسا چاہتاہے ویسا کرتاہے سیدنا مسیح نے فرمایا" میرا باپ اب تک کام کرتاہے"۔ اورجب ہم ان الفاظ کے عمیق مطلب کو سمجھ لیتے ہیں اوراس بات کو مان لیتے ہیں کہ دنیا اپنی ہستی اور موجودگی کے لئے خدا کی قادر مرضی پر منحصر ہے اورخدا اپنے کام سے علیحدہٰ نہیں ہوگیا بلکہ اسے جاری رکھتا ہے اور احاطہ نیچر میں داخل ہونے کے لئے ہر جگہ ایک مدخل اس کے لئے موجود ہے تو یہ اعتراض خاک میں مل جاتاہے کہ خدا کے لئے معجزات دکھانا ناممکن ہے۔ سب معجزوں سے بڑا معجزہ خدا آپ ہے اورجب ہم نے اسے مان لیا اوراس کی تمام صفات کو قبول کرلیا تو پھر چھوٹے معجزوں کو ماننا کچھ مشکل نہیں ۔
یہ اعتراض کہ معجزات رخنہ اندازی کرتے ہیں
پر اعتراض یہ ہے کہ اس مقرر ترتیب میں رخنہ ڈالتا ہے جس کی بے تبدیلی اس بات کی سند ہے کہ دنیا ہمیشہ قائم رہیگی۔اور کہ یہ ترتیب ایسی خاصیت رکھتی ہے کہ ذرا سی مداخلت بھی اس کو برباد کردیتی ہے ۔ سٹراس اس مداخلت کو شگاف کہتاہے ۔ اس کے جواب میں اول تو ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات کے قائل نہیں کہ دنیا میں ہمیشہ موجودہ اسباب ونتائج کا علاقہ ہمیشہ اسی طرح چلاآیا ہے ۔ اورکہ اس میں کبھی مداخلت نہیں ہوئی ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ قوانین فطرت کی وہ بے تبدیلی جو اکثر معجزات کی مخالفت میں پیش کی جاتی ہے خود فطرت ہی کے حدود میں ٹوٹی ہوئ نظر آتی ہے ۔اب اگرہم مادہ کی ازلیت کو نہیں مانتے بلکہ تخلیق عالم کے قائل ہیں یعنی اس بات کے قائل ہیں کہ عالم نیست سے ہست ہوا تو یہ سلسلہ شروع ہی میں موجود نہ تھا۔ اب چونکہ مخلوق دنیا سے خلق کرنے کا قانون مستنبط نہیں ہوسکتا اس لئے جس قدر خدا کا وجود معجزہ ہے اسی قدر دنیا کا ہست ہونا ایک معجزہ ہے۔
دنیا کی پیدائش یا زندگی کا نمودار ہونا ایک رخنہ ہے
پر اگر مادہ کو بھی ازلی مان لیں توبھی اس بات کا انکار نہیں ہوسکتاکہ موجودہ سائنس کی رو سے ایک ایسا زمانہ تھا جب کسی طرح کی زندگی دنیا کے طبقہ پر نہیں پائی جاتی تھی ۔ اور قائم نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ زمین کی حد اس درجہ تک تھی کہ کوئی جاندار مخلوق زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ حتےٰ کہ ادنٰے قسم کی زندگی بھی قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ ایک فاضل کا خیال بالکل صحیح ہے کہ اس وقت فقط معجزانہ مداخلت بے جان مادہ سے جاندار مخلوق پیدا کرسکتی تھی۔
(ملر) اگریہ دعویٰ صحیح ہے (اوراس کی تردید کرنا سائنس کو جھٹلانا ہے )توایک آغاز ، ایک ابتدا قائم ہوتی ہے جس کی شرح صرف خالقانہ معجزے سے ہوسکتی ہے ۔ اوراس کے ساتھ یہ سوال بھی برپا ہوتاہے کہ روح کس طرح اس دنیا میں داخل ہوئی؟
روح کا نمودار ہونا بھی ایک رخنہ ہے
پہلے تو اس کا خلق ہوناہی ایک معجزہ ہے ۔ پر اگر ہم اس کو بھی ازلی تسلیم کرلیں توبھی اس کا بے جان مادہ کے ساتھ وصل ہوجانا اور ضمیر کے قوانین سے مزین ہونا جو کہ تمام قوانین فطرت سے نرالے اوربرتر ہیں ایک تیسرا معجزہ ہے ۔
معجزات ایسی تجاویز نہیں جو خدا کو بعد میں سوجھیں
پھر عموماً یہ بھی خیال کیا جاتاہے کہ معجزہ گویا ایسی تجویز ہے جو خدا کو بعد میں سوجھی تاکہ اخلاقی ابتری کو اس کے وسیلے دورکرے۔ اوراس سے یہ اعتراض قائم کیا جاتا ہے کہ اس سے انتظام موجودات کا نقص لازم آتاہے ۔ مگر یاد رہے کہ جو معجزات کے قائل ہیں ان کا ہر گز یہ دعویٰ نہیں کہ معجزات ایسی تجویز یں ہیں جو خدا کو پیچھے سوجھیں۔ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ معجزات خدا کے ازلی ارادہ میں شامل تھے اورجس ازلی مرضی نے اور مرضی کے ازلی قانون نے قوانین فطرت کو تجویز کیا۔ اسی نے معجزات کو بھی اس سلسلے میں داخل کیا۔ پس معجزات علیحدہٰ اورتنہا واقعات نہیں ہیں بلکہ عام انتظام موجودات کے حصے ہیں ۔ اب اگر اس کے جواب میں کہ کہا جائے کہ جو تعریف شروع میں قوانین فطرت کی تم پیش کرچکے ہو اس کے مطابق معجزات قوانین فطرت میں داخل نہیں ہوسکتے توہمارا جواب الجواب یہ ہے۔ کہ وہ باربار واقعہ نہیں ہوتے کیونکہ اگر ہوں تو اپنے اصل مطلب کو پورا نہ کرینگے ۔ تاہم وہ بے قانون نہیں ہیں۔ بلکہ اس قانون کے مطابق سرزد ہوتے ہیں جو الہیٰ مرضی اور ارادے سے وابستہ ہے۔ اورہم ذرا آگے بڑھ کر دیکھینگے کہ وہ قانون کس طرح بدون اور قوانین کو توڑنے کے اپنا عمل دکھاسکتاہے ۔
وہ نظایر جو معجزہ پر دلالت کرتی ہیں
خلقت کے مشاہدہ سے کئی نظیرین اسیی ملتی ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ فوق العات یعنی معجزہ ناممکن نہیں۔ مثلاً اس دنیا میں دیکھا جاتاہے کہ ادنیٰ درجہ کے قانون اعلیٰ درجہ کے قوانین سے روکے جاتے ہیں ۔ جمادات اور نباتات اور حیوانات کے طبقوں میں درجہ بدرجہ یہ تصرف ملاحظہ سے گذرتاہے ۔ کیمیائی قوانین پر زندگی کے اصول غالب آتے ہیں اورجسمانی قوانین پر روحانی اوراخلاقی مسلط ہیں۔ کیمیائی اصول یہ ہے کہ جب کوئی مرکب تحلیل ہوجائے تو اس میں سراہٹ پیدا ہو لیکن وہ قوانین بعض بعض حالتوں میں بیکار ہوجاتے ہیں مثلاً بعض حالتوں میں ان کو نمک کی ذاتی خاصیتیں بگڑنے نہیں دیتی ہیں۔اب اس عمل سے کیمیائی قانون فنانہیں ہوجاتے بلکہ نمک کے ذاتی قوانین کے تابع ہوجاتے ہیں ۔ انسان کی ساری طاقت اس بات میں صرف ہوجاتی ہے کہ وہ نیچر سے وہ پھل اور نتائج پیدا کرے جو وہ خود بخود پیدا نہیں کرسکتی ۔ جب ہم اپنا بازواوپر اٹھاتے ہیں توہم قانون ثقل کو معطل کرتے ۔ جب کوئی پودا اپنی چوٹی اوپر کی طرف اٹھاتاہے ۔ تو وہ اس قانون کو توڑتا ہے۔ وہ طریقہ جس سے پمپوں کے وسیلے پانی اوپر چڑھایا جاتاہے ۔ اس قانون کا مقابلہ کرتاہے مگرپھر بھی کوئی نہیں کہتا کہ یہ کیا غضب ہوا قانون ثقل ٹوٹ گیا۔ اب تو دنیا فنا ہوجائيگی ۔ پر اگریہ کہا جائے تو ایک ڈوبی ہوئی کلہاڑی کو خدا کا ہاتھ اٹھالایا اور وہ اس ہاتھ کے سہارے سے پانی کی سطح پر اس طرح پھرتی تھی کہ گویا تیررہی ہے تواس شور سے قیامت بپا ہوجاتی ہے کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ اس سے کشش ثقل کا قانون ٹوٹ جاتا ہے ۔ اگر آدمی ایک لوہے کے ٹکڑے کو اپنے ہاتھ میں لے کر پانی میں ڈوبنے سے بچاسکتا ہے تو کیا خدا نہیں ایسا کرسکتا ؟
انبیا زادوں کی کلہاڑی کا تیرنا
فرق صرف اتنا ہے کہ اگر میں ایسا کروں تو میرا ہاتھ نظر آئیگا۔لیکن خدا کا ہاتھ یعنی اس کی وہ قدرت جس نے انبیا زادوں کی کلہاڑی کو توہ سے نکال کر سطح آپ پر رکھ دیا نظر نہ آئی۔ اس موقعہ پر بشنل صاحب کا خیال یادآتاہے کہ جوایک مرتبہ ہماری نظر سے گذرا اور وہ یہ ہے کہ آدمی کی مرضی بھی ایک صورت میں فوق العادت ہے اور نیچر پر حکمران ۔ نیچر ہمارے لئے اشیاء پیدا کردیتی ہے ۔ سن اگادیتی ہے اورسینکڑوں چیزیں ہمارے لئے پیدا کرتی اورجمع رکھتی ہے۔ لیکن ان سے نازک اورمہین کپڑے بنانا اور طرح طرح کے عجائبات کو پیدا کرنا انسان کا کام ہے۔ اب ہم خواہ یہ مانیں یا نہ مانیں کہ انسان کی مرضی فوق النیچر ہے تاہم اس سے اتنا سراغ ملتاہے ۔ کہ جو اس سے بڑی اورلامحدود مرضی ہے وہ بھی اس قابل ہے کہ اگر چاہے تو سلسلہ فطرت میں اپنا جلودہ دکھائے ۔
نیچر ہم پر یہ ظاہر کرتی ہے کہ جہاں خاص خاص اسباب موجود ہونگے ۔ وہاں خاص نتائج پیدا ہونگے اور معجزہ اس قانون کے برخلاف نہیں اورنہ اس کوتوڑتا ہے۔ مثلاً کلہاڑی کے تیرنے کے معجزے سے یہ بات بخوبی روشن ہے کہ لوہے کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے اتنی قدرت یا طاقت کی ضرورت ہے جواسے غرق ہونے سے روکے۔ خواہ وہ طاقت خدا کی ہو۔ خواہ انسان کی خواہ اس پتھر کی جو دریا میں پڑا ہے۔ اگر یہ روک موجود ہو ۔ تو اس لوہے کا پانی میں ڈوبنا اتنا نیچر کے برخلاف نہیں جتنا ڈوب جانا اس کے برخلاف ہے۔
نتائج
جوریماکس ہم نے دلیل چہارم کے ضمن میں پیش کئے ہیں ان سے دونتیجہ برآمد ہوتے ہیں جو ہمیشہ یادر کھنے چاہئیں۔
(الف) اول یہ کہ ادنیٰ درجہ کی طاقتوں کے عمل سے اعلیٰ درجہ کی طاقتوں کی مداخلت کی نفی ثابت نہیں ہوتی۔ اوراس مداخلت کے انکار کو معجزات کے خلاف بطور ثبوت پیش کرنا صحیح نہیں کیونکہ یہ بات تو خود ثبوت طلب کرتی ہے کہ قوانین قدرت میں مداخلت نہیں ہوسکتی ۔ یعنی اگر کوئی یہ کہے کہ ان قوانین کی بنا پر اعلیٰ قدرتوں کی مداخلت ناممکن ہے تو گویا وہ یہ مانتا ہے کہ یہ قانون ہر جگہ اورہر حال میں غیر متبدل ہیں پر یہی وہ بات ہے جو ثبوت کی محتاج ہے۔
(ب) کہ اعلیٰ درجہ کی قدرتوں کی مداخلت سے قوانین قدرت زائل یا ساقط نہیں ہوتے بلکہ اپنے عمل کو جاری رکھتے ہیں اورکہ یہی بات خدا کی مداخلت پر صادق آتی ہے ۔ اس کی مداخلت سے بھی قوانین نیچر معطل نہیں ہوتے۔ بلکہ ان کی پائداری برابر قائم رہتی ہے ۔ اور کیوں؟ اس لئے کہ نیچر کی طاقتوں کو معجزے کے پیدا کرنے میں کچھ دخل نہیں اور نہ معجزات اپنے وقوع کے بعد ایسے علیحدٰ ہ رہتے ہیں کہ گویا تنہا واقعات ہیں بلکہ وہ واقع ہونے کے بعد نیچر کے عام سلسلہ میں داخل ہوجاتے ہیں اس جگہ ایک ضروری فرق پر غور کرنا مناسب معلوم ہوتاہے ۔
ضرور ی فرق
اور وہ یہ ہے کہ ایک قسم کے وہ معجزے ہیں جو اپنے وقوع کے لئے محض خدا کی خالقانہ قدرت پر منحصر ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے وہ ہیں جن کے وقوع میں نیچر کی طاقتیں اپنے معمولی عمل میں بڑھ جاتی ہیں۔ یعنی خدا کے حکم سے اپنے معمولی زور سے زیادہ کام کرتی ہیں ۔ اوراس معنی میں دوسری قسم کے معجزات ایک طرح نیچر سے مربوط ہوتے ہیں۔ مسیح کا بطن مریم میں آنا اور روٹیوں اور مچھلیوں کا بڑھ جانا پہلی قسم سے علاقہ رکھتے ہیں۔ اوران میں ہم کو خدا کی قدرت کا وہ عمل نظر آتا ہے جو دنیا کے خلق کرنے سے مشابہت رکھتاہے۔ خدا بلاواسطہ دیگر وسائل کے اس قسم کے معجزات کو انجام دیتا اورایک نئے واقعہ کو جو پہلے فطرت میں موجود نہ تھا اس کے سلسلہ میں داخل کردیتاہے۔ اب جو کچھ اس نے ابتدا میں تمام عالم محسوسات کے متعلق کیا۔ اگر وہی پھر اس کے کسی خاص حصہ کے متعلق کرے تویہ اس کے لئے ممکن نہیں ہے۔
مسیح کی پیدائش کا معجزہ
کرسلب صاحب جن کی نادر کتاب سے ہم نے اس باب میں بہت مدد لی ہےبڑی خوبصورتی سے دکھاتے ہیں کہ یہی حال اس وقت سرزد ہوتا ہے جب کسی اچھے درخت کی قلم اورادنیٰ قسم کے درخت میں پیوند کی جاتی ہے۔ وہ قلم بالکل اجنبی ہوتی ہے پر تاہم آئندہ زمانہ میں نئی حالتوں کے مطابق زندگی بسر کرتی ہے۔ اسی طرح مسیح بھی ایک قلم ہے جو خدا کی خالقانہ قدرت کے مطابق انسانی نیچر کے درخت میں پیوند کیاگیا (انجیل شریف : راوی حضرت یوحنا ۱: ۱۳)۔ اس نے اس نیچر کی شرائط اور خصوصیات کورد نہیں کیا بلکہ ہر حال میں ان کی حفاظت کی مثلاً اس کے آنے میں تاریخ کے لازمی قوانین زائل نہیں ہوئے ۔ تاریخ بھی بچوں کی طرح بڑھتی ہے۔ پس مسیح اس وقت ظاہرہوا ۔ جو اس کے لئے موزون تھا۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ وہ جو سانپ کے سرکو کچلنے والا تھا اس وقت تک ظاہر نہ ہوا جب تک کہ وہ تمام شرائط پوری نہ ہوئیں جواس کے ظہور سے پہلے لازمی تھیں۔ چنانچہ لکھاہے ۔ کہ " جب وقت پورا ہوا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا ۔ (خطِ اہلِ گلتیوں ۴: ۴) اسی طرح قوانین نیچر کی بھی رعایت کی گئی مثلاً وہ تیس برس کا جوان اورکل طاقتوں کی نشوونما کے ساتھ آسمان سے یک بیک نہیں اترا۔ بلکہ جب وہ خدا کی خالقانہ قدرت سے ماکے شکم میں درآیا اسی وقت سے پیدائش اورنموکے معمولی قوانین کے بھی تابع رہا۔ ا س کی نسبت لکھاہے کہ اس نے ساری راستبازی پوری کی۔ وہ اپنے باپ کا فرمانبردار تھا۔ اوراس نے اپنی فرمانبرداری کوآزمائشوں اورمصیبتوں میں ثابت قدم رہ کر ثابت کیا۔ اب کون شخص کہہ سکتاہے کہ نیچر ایسے واقعہ سے تباہ ہوجاتی ہے ۔ جس کے متعلق نہ اسے اچھ کرنا اورنہ کچھ نقصان اٹھانا پڑتاہے۔
وہ معجزات جن میں نیچر کی طاقتوں کا عمل معمول سے زیادہ تیز کیا جاتاہے
لیکن جن معجزات میں خدا کی نیچر کی طاقتوں کو معمول سے زيادہ منجمد کرکے فوق العادت اظہار نمایاں فرماتاہے (مثلاً طوفان اور مصر کی بعض آفتیں وغیرہ) ان کی خصوصیت یہ ہے کہ جو کام وہ طاقتیں بہت عرصہ کے بعد کرتیں اسے اپنے مزید عمل کےو سیلے فوراً وقوع میں لاتی ہیں اوریہ بھی کوئی ایسی بات نہیں جو خدا کے لئے ناممکن ہو بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بھی ایسا کرتاہے ۔ وہ بھی نیچر کی طاقتوں کواپنےقابو میں لاکر ایسے نتائج اورایسے واقعات پیدا کرلیتاہے جو نیچر خود بخود پیدا نہ کرتی۔ ولایت میں طرفتہ العین میں انڈوں سے چوزے نکالے جاتے ہیں۔اب ان انسانی واقعات اور الہیٰ معجزوں میں یہ فرق ہے کہ معجزات خدا کی قدرت سے اوراس کے نبی کے کہنے کے بموجب سرزد ہوتے ہیں اورکسی طرح کی معمولی وسائل ان کے وقوع میں استعمال نہیں کئے جاتے تھے۔
منکران اعجاز پر کیا فرض ہے
اب وہ جو اعجاز کے منکر ہیں ان پر فرض ہے کہ وہ ہمیں دکھائیں کہ جسے وہ نیچر کہتے ہیں اس میں کیا کچھ شامل ہے اورنیچر کی طاقتیں کہاں تک تیز کی جاسکتی ہیں۔ اور اگر وہ یہ کہیں کہ وہ تیزنہیں ہوسکتی ہیں تو یہ ثابت کریں کہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ نیچرل جو فو ق النیچر سے ہمیشہ برآمد ہوتاہے اس کی مداخلت قبول کرنے کےلئے تیار نہیں کیا خدا ہی جو تمام قوانین کا سرچشمہ ہے اس لائق نہیں کہ اپنے گھر میں آنے جانےکا مختار ہو۔
(۵۔) پر س دلائل کی سرتاج دلیل یہ ہے کہ خدا ایک ایسی شخصی مرضی ہے جو لامحدود اور مختار کل ہے۔
خدا ایک مختار اور آزاد مرضی ہے۔ لہذا معجزہ نیچر کے عین مطابق ہے
چونکہ پہلی دلیل کے ضمن میں اس پر اشارہ ہوچکا ہے لہذا اس جگہ اس پر زیادہ نہیں کہا جائیگا۔اورہم اس بات کو انہیں الفاظ کے ساتھ بند کرینگے جن الفاظ کے ساتھ مارے صاحب نے اپنی کتاب کا وہ باب بند کیا جس میں انہوں نے " نامعلوم قانون" پر بحث کی ہے "۔ کیا فعل مختاری انسان پر ختم ہوجاتی ہے یا انسان کے اوپر بھی آزاد مرضی کا کوئی دائرہ ہے جس میں انسانی مرضی کی طرح طبعی قانون نہیں بلکہ روح مادہ کو حرکت میں لاتی ہے؟ اور کیا وہ آزاد مرضی نامعلوم صورت میں تمام فطرت کے دائرہ میں داخل ہوتی ہے؟ اگرایسا ہوتا ہے تو بائبل کا ہر معجزہ ایسا ہی نیچرل ہے جیسا کوئی کیمیائی تجربہ جسمانی دنیا میں ہوا کرتا ہے ۔ اوراگر ایسا نہیں ہوتا تو اس فرمانروا مرضی کا تخت خالی پڑا ہے۔ اور فطرت کوئی ایسا سردار نہیں رکھتی جو شخصیت کی صفات سے موصوف ہو۔ فقط انسان اس حالت میں نردبان نیچر کا اعلیٰ زینہ ہے پر وہ بھی خود اس عظمت کے پایہ سے گرجاتاہے کیونکہ وہ خود ہونہار باتوں کے ہاتھ سے آزاد نہیں۔ یا تو تمام نیچر خدا کی طرف اوپر کو اٹھتی ہے۔یا قانون کی طرف نیچے گرتی ہے۔ پر اگر مادی اسباب کے اوپر خدا کی رزاتی اورپروردگاری کے لئے کوئی جگہ موجود ہے تو ظاہر ہے کہ نیچر کو حرکت میں لانے والی ایک عظیم ہستی موجود ہے جو آزاد مطلق ہے اور معجزات کا وقوع میں آنا عین نیچر کے مطابق ہے۔