تیسرا باب
معجزات اور گواہی
دوسرا سوال غور طلب یہ ہے کہ بائبل کے معجزات کی نسبت جو گواہی پیش کی جاتی ہے وہ قابل تسلیم ہے یا نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان تین طرح حقائق اشیاء کو دریافت کرتاہے یا یوں کہیں کہ تین طرح کی شہادتیں موجود ہیں اوران میں سے کسی نہ کسی کے مطابق ہر شے کی حقیقت اور صداقت ثابت کی جاتی ہے۔ اور وہ یہ ہیں۔
(۱۔)حواس کی گواہی
(۲۔)وہ ثبوت جوعلوم ریاضی کے اصول کے وسیلے بہم پہنچتاہے ۔
(۳۔) انسان کی گواہی
ہر قسم کی شہادت اپنے اپنے دائرے میں کام کرتی ہے
اب ان تینوں میں سے ہر شہادت یا ثبوت اپنے اپنے خاص دائرہ میں کام کرتاہے اوراپنے خاص دائرہ میں کافی سمجھا جاتاہے۔ کسی زاویہ کی مقدار کہ آیا وہ قائمہ ہے یا منفرجہ۔ یا یہ دعویٰ کہ ہر مثلث کے دو ضلع تیسرے ضلع سے بڑے ہوتے ہیں ۔ علم ریاضی کے مقرری اصول سے ثابت ہوتے ہیں۔ پر اگر ہم یہ ثابت کرنا چاہیں کہ جس گھر میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں وہ موجود ہے یا نہیں تو اس ثبوت میں اقلیدس کے اصولوں کی ضرورت نہ پڑیگی۔ یہاں ہمارے حواس کی گواہی کام دیگی۔ اوراسی طرح جب ہم یہ کہتےہیں کہ سنکھیا مہلک ہے۔ یا یہ کہتےہیں کہ لندن سب شہروں سے بڑا ہے تواس کے ثبوت میں بیان کرنے والے سے نہ ثبوت اقلیدس اورنہ شہادت حسی طلب کی جاتی ہے ۔ بلکہ اس کی گواہی فوراً قبول کی جاتی ہے۔
یقینی اورامکانی شہادت
پہلی دوقسم کی شہادت کویقینی (Certain) اور تیسری قسم کی شہادت کو اہل فلسفہ امکانی (Probable) کہتے ہیں ان لفظوں کے استعمال سے اکثر یہ مغالطہ پڑجاتاہے کہ امکانی یقینی گواہی کے مقابلے میں کمزور معلوم ہوتی ہے۔ لیکن یادر ہے کہ یہ فرق صرف اصطلاحی ہے۔ امکانی گواہی رد کرنے کے لائق نہیں۔ وہ اپنے حدود میں معتبر اورمستند ہوتی ہے۔ مثلاً یہ دعویٰ کہ ہم اس دنیائے فانی سے کوچ کرجائینگے۔ امکانی گواہی پر مبنی ہے تاہم کوئی شخص اس کی سچائی پر شک نہیں لاتا بلکہ سب اس کی صداقت کے معترف ہیں۔
معجزات پر انسانی گواہی کی قدر
اب وہ معجزات جو بائبل میں مرقوم ہیں۔ اگر ثابت ہوسکتے ہیں ۔ تو انسانی گواہی سے (جسے تواریخی گواہی بھی کہتےہیں ) ثابت ہوسکتے ہیں۔ان کے ثبوت میں نہ ہمارے حواس کی گواہی کام آئیگی کیونکہ ہم ان واقعات سے کئی صدیاں دورنکل آئے ہیں ۔ اورنہ ان کو ریاضی کے اصول سے ثابت کرسکتے ہیں۔ کیونکہ ان واقعات کا اس علم سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ اور مخالفوں نے بھی اس بات کو خوب پہچان لیا ہے۔ کہ معجزات کی صداقت پر لغویت تواریخی گواہی پر منحصر ہے ۔ لہذا انہوں نے یہ دیکھا نیکی کوشش کی ہے کہ انسانی یا تواریخی گواہی اس بارے میں قبول کرنے کے لائق نہیں۔ اس قسم کے مخالفتوں کے پیر اور استاد ڈیوڈ ہیوم ہیں اور اگر ان کے اعتراض کا جواب دیدیا جائے توان کے شاگردوں کےاعتراضوں کو رد کرنا مشکل نہ ہوگا۔
ڈیوڈ ہیوم کا اعتراض
مازے صاحب نے اپنے مشہور لیکچر زآن مرے کلز Lectures on Miraculous میں ڈیوڈ ہیوم کے اعتراضوں کو اسی کے الفاظ میں نقل کرکے اس پربحث کی ہے اس کا اعتراض یہ ہے کہ فطرت کی بے تبدیلی کی نسبت جو اعتقاد ہم رکھتے ہیں ۔ اس کی جڑ ہمارا تجربہ ہے جو ہمیشہ یکساں رہتاہے۔(یا یوں کہیں ۔ کہ غیر متبدل ہے ۔ مترجم) اور وہ اعتقاد جو ہم انسانی گواہی کی نسبت رکھتے ہیں۔ اس کی جڑبھی ہمارا تجربہ ہی ہے۔ لیکن یہ تجربہ تبدل پذیر ہوتاہے کیونکہ انسانی گواہی نے بعض اوقات ہم کو دھوکا دیا ہے۔ لہذا ہم اس غیر متبدل تجربہ کو جومعجزے کے برخلاف ہے۔تبدل پذیر تجربہ پرجو معجزے کے ثبوت میں (بصورت گواہی) پیش کیا جاتاہے ترجیح دیتے ہیں"۔ ایک اور شخص اس کی دلیل کا خلاصہ مطلب (Encyclopedia Britannica) سے اس طرح نقل کرتاہے۔کسی " شے کی حقیقت کی نسبت جو ثبوت ہمیں چشم دید گواہوں کی گواہی سے حاصل ہوتاہے ۔ وہ کسی اوراصول پر مبنی نہیں۔ سوائے اس تجربہ کے جو ہم انسانی گواہی کی صداقت کے بارے میں رکھتے ہیں۔ پر اگر وہ حقیقت جس پر گواہی دی جاتی ہے ۔ معجزہ ہے۔ تو اس سے دو متفرق تجربوں میں فساد برپاہوتاہے۔ یایوں کہیں کہ ایک قسم کی شہادت دوسری قسم کی شہادت کے برخلاف برپا ہوتی ہے۔اب معجزہ قوانین فطرت کے توڑنے کا نام ہے ۔ مگر چونکہ ایک مضبوط اور غیر متبدل تجربہ نے ان قوانین کو بے تبدیل ثابت کردیا ہے ۔ لہذا ان قوانین کا استحکام بجائے خود معجزوں کے برخلاف ایک ایسا کامل ثبوت ہے کہ کوئی اور دلیل اس سے بڑھ کر معجزہ کے برخلاف قیاس میں نہیں آسکتی ۔ اور اگریہ دعویٰ ٹھیک ہے۔ تو پھر یہ نتیجہ بھی ناگریز ہے۔ کہ وہ ثبوت جو انسانی گواہی پر مبنی ہے۔ اس ثبوت کو رد نہیں کرسکتا "۔ مطلب یہ ہے۔ کہ ہمارا تجربہ یہ ظاہر کرتاہے ۔ کہ قوانین قدرت کبھی نہیں بدلتے۔ لیکن انسان کی گواہی ہمیشہ یکساں نہیں ہوتی۔ بلکہ بدلتی رہتی ہے۔ لہذا ہم اپنے اس تجربہ کو سچا سمجھتے ہیں ۔ جو کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔پس معجزے ناممکن ہیں۔ کیونکہ ان کے ثبوت میں صرف انسانی گواہی پیش کی جاتی ہے ۔ مگر انسانی گواہی ہمیشہ معتبر نہیں ہوتی۔
تجربہ ہر حالت میں گواہی کا مصدر یہ معیار نہیں ہوسکتا
اب ان اقتباسوں سے ظاہرہے ۔ کہ ہیوم نے گواہی کا ماخذاور مصدر تجربہ کو قرار دیا ہے۔ اور یہ ثابت کرنا چاہا ہے ۔ کہ گواہی کا کذب ا س قدر تجربہ کے برخلاف نہیں۔ جس قدر معجزوں کی صداقت تجربہ کے برعکس ہے۔ وہ دلیل متذکرہ بالا تحریر کرکے اپنے زعم میں معجزوں کا فاتحہ پڑھ بیٹھا۔ کیونکہ اس نے اپنی دانست میں اصول اسقتراء کی بناء پر معجزوں کو دائرہ امکان سےخارج کردیا۔ جبکہ یہ دکھادیا۔ کہ وہ ہمارے غیر متبدل تجربہ کے برخلاف ہیں اور اسی طرح انہیں گواہی کے احاطہ سے بھی نکال دیا۔ جبکہ یہ ثابت کردیا۔ کہ ہمارا تجربہ گواہی کی حیثیت کےبارے میں بدلتا رہتاہے۔ یعنی گواہی کبھی سچی ہوتی ہے۔اور کبھی جھوٹی ۔
لیکن یہ دعویٰ صرف اسی وقت قابل تسلیم سمجھا جاسکتاہے۔ جب وہ قضئے جن سے یہ دعویٰ بطور نتیجہ کے مستنبط کیا گیا ہے۔ صحیح تسلیم کئے جائیں۔ اول تو یہ امر مسلمہ نہیں ہے کہ گواہی کی حیثیت ہمیشہ تجربہ پرمبنی ہوتی ہے۔ اور کہ گواہی کا اعتبار یا عدم اعتبار تجربہ پرمنحصر ہے۔
بچے بغیر تجربہ ہماری گواہی قبول کرتے ہیں
کیونکہ اس حالت میں کوئی تازہ خبر اور نئی بات گواہی کی شہادت پر قبول نہ کی جائیگی۔ لیکن برعکس اس کے ہم دیکھتے ہیں۔ کہ وہ جو تجربہ کے سرمایہ سے بے بہرہ ہیں۔ وہ گواہی کی صداقت پر زیادہ تر انحصار کرتے ہیں۔مثلاً بچے گواہی کی صداقت کو بےچوں وچرا قبول کرلیتے ہیں۔ جب ہم اُن کو زہر کی خبردیتے ہیں تو وہ ہماری گواہی کورد نہیں کرتے۔ اگر وہ ہم کو یہ جواب دیں کہ ہم نے ابھی سنکھایا کو اپنے تجربہ سے نہیں آزمایا۔ اور چونکہ انسانی گواہی کا تجربہ تبدیل پذیر ہوتاہے۔ اس لئے ہم آپ کی بات کو قبول نہیں کرسکتے۔ لہذا ہم پہلے سنکھیا کو آزمائينگے۔ اورپھر آپ کی بات کو تسلیم کرینگے۔ ہاں اگر ہمارے بچے ہمارے ساتھ اس طرح حجت کریں۔ اوربات بات پر ہیوم کے اصول کو پیش کریں۔ تو اُن کا مال کار کیا ہو؟ یہ کہ نہ وہ جیئں۔ نہ وہ ترقی کریں۔ اور نہ دولت علم سے بہرہ اندوز ہوں۔
انسانی گواہی کو بلاتجربہ قبول کرنا انسانی ذات کا جبلی خاصہ ہے۔ گواہی کااصل معیار گواہ کی صداقت اور لیاقت ہے
اب اس سے کیا ثابت ہوتاہے ؟ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا۔کہ انسانی گواہی کی بلا تجربہ قبول کرنا ہماری ذات کاجبلی خاصہ ہے۔ اورہم اس بات کو جو انسانی گواہی کے زور پر ہمارے سامنے رکھی جاتی ہے۔ بدوں ملاحظہ اورامتحان کے قبول کرلیتےہیں۔ ہمارے رائے میں ہیوم کا اصول انسانی تجربہ کے برخلاف ہے۔
پس معتبر گواہی کی پہچان کے لئے تجربہ کوئی معیار نہیں ہے۔ اس کی سچائی اور کھوٹ کو پرکھنے کی کسوٹی کوئی اورہی ہونی چاہیے ۔ اب وہ کیا ہے ؟ گواہی کے جھوٹ اور سچ پہچاننے کے لئے دوباتیں ضروری ہیں صدق اور لیات یعنی علم اگر وہ گواہ جو کسی بات کی خبر ہم کو دیتا ہے صادق اور دیانتدار ہے۔ اور نیز اس بات کے ہر پہلو کو سمجھنے کی لیاقت کافی رکھتا ہے۔ اوراس کا علم رکھتاہے۔ تواس کی گواہی قبول کرنے کے لائق ہے۔
معجزانہ واقعات کی بیرونی صورت اوراُن کے اصل موجد میں امتیاز کرنا ضروری امر ہے
البتہ یہ ہم مانتے ہیں۔کہ معجزانہ واقعہ اور اس کے موجد یا سبب میں امتیاز کرنا لازم ہے۔ اورمازے صاحب نے بڑی خوبصورتی سے اس فرق کوظاہر کیا ہے ۔ چنانچہ صاحب موصوف اس اعتراض کا کہ "انسانی گواہی فوق العادت کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتی یا یوں کہیں کہ انسانی عقل فوق العادت باتوں کو سمجھ نہیں سکتی"۔ جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ کہ اگر اس سے یہ مراد ہے۔کہ انسانی گواہی اُس موجد کو ثابت نہیں کرتی۔ جو معجزہ کا سبب ہے۔ توہم اس کو مان لیتے ہیں۔ کیونکہ گواہی کا یہ کام نہیں کہ وہ فوق العادت کو ثابت کرے۔
پر معجزانہ واقعات کے وقوع کے متعلق جو گواہی ملتی ہے وہ ردنہیں کی جاسکتی
اس کا ثبوت دوسری قسم کی شہادت سے بہم پہنچتاہے۔ مگر گواہی جو معجزانہ واقعہ کے وقوع کے متعلق پیش کی جاتی ہے اس کو غیر معتبر سمجھ کر رد نہیں کرسکتے۔ یعنی اگر اس دعویٰ سے یہ مراد ہے ۔ کہ جن واقعات کی خبر گواہ دیتے ہیں وہ اس طرح جس طرح وہ بیان کرتے ہیں ۔ سرزد نہیں ہوئے ۔ لہذا ان کی گواہی ان کےوقوع کے متعلق تسلیم کرنےکے لائق نہیں۔ تو یہ دعویٰ فلسفہ اورمذہب اور ہر دوصورتوں سے ناقص ہے۔ کیونکہ اگر کوئی حادثہ قوانین قدرت سے مختلف ہے ۔ تو اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے ۔ کہ وہ عقل کے بھی برخلاف ہے ۔ اورجو شے برخلاف نہیں۔ وہ گواہی کے حدود سے خارج نہیں ۔ مثلاً گواہی صرف اتنی بات بتاتی ہے ۔ کہ ایک شخص چاردن کا مردہ تا وہ مسیح کے کہنے سے قبر میں سے نکل آیا۔ اوریہ عجیب واقعہ کئی گواہوں کی آنکھوں کے سامنے سرزد ہوا۔ وہ یہ دعویٰ نہیں کرتی ہے ۔ کہ خدا کی قدرت سے سرزد ہوا۔ اس بات کا ثبوت دوسری شہادت پر موقوف ہے۔ اور وہ یہ کہ ہم اس واقعہ کا معجزہ ہونا اس ایمان کی بنیاد پر تسلیم کرتے ہیں۔ کہ خدا موجود ہے۔ اور وہ عجیب کام کرنے والا ہے۔ اور سوائے اس کے اور کوئی معجزوں کی مانند عجیب کام نہیں کرسکتا۔ مگر وہ اپنے سارے کام کسی نہ کسی علت غائی کو مدنظر رکھ کرکرتاہے اور معجزہ دکھانے میں اسے یہ مقصد زیر نظر ہے۔ کہ اپنے بندوں کو راہ راست پر لائے۔ پر اس کے جواب میں یہ کہاجاتا ہے ۔ کہ ہم معجزانہ واقعات کو گواہی کی حدود سے خارج نہیں کرتے ہیں بلکہ اس شرح کو رد کرتے ہیں۔ جو ان واقعات پر چسپاں کی جاتی ہے اورجو انتظام موجودات کے برخلاف ہے۔ پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے ۔ کہ جو تشریح ان واقعات کی کی جاتی ہے وہ اورہی قسم کی شہادت پر مبنی ہے۔
معترض کی نئی تاویل کہ واقعہ کچھ اورتھا مگر اس کی تاثیر رسولوں پر کچھ اور ہوئی
اصل غرض معترض کی یہ ہے کہ اعجازي خاصیت کو نئی تاویل پیش کرکے دور کردے۔ معترض معجزانہ واقعہ کی جگہ جو انتظام موجودات سے بظاہر مختلف معلوم ہوتاہے ایک عجیب تاثیر فرض کرتاہے جو دیکھنے والوں کے دل اور دماغ پر طاری ہوئی۔ اب اس کودوسرے لفظوں میں یوں ادا کرسکتے ہیں۔ کہ معترض یہ دعویٰ کرتاہے کہ انہوں نے دیکھا کچھ اور سمجھا کچھ اور ۔ اب اگر یہ صحیح ہے ۔ توہمیں یہ ماننا پڑیگا۔ کہ گواہی کے معاملہ میں انسانی فطرت کے اندر کوئی شے ہے جو نامعلوم اورنہایت تاریک اورغیر معمولی قسم کی ہے ۔ یعنی اس میں دھوکے کی جڑ مخفی ہے۔
یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ یہ ثابت نہ کیا جائے کہ ان کی عقلی طاقتوں میں فتور ہے
یا عقلی کی متانت میں کسی طرح کی بدنظمی یا نقص چھپا ہوا ہے۔ یا اس ربط میں جو عقل اورحواس میں موجود ہے ۔ کسی قسم کا عیب نہاں ہے جس کی وجہ سے یہ عجیب بات وارد ہوئی ۔ کہ جنہوں نے درحقیقت کوئی واقعات نہ دیکھے تھے۔ انہوں نے ایسا کہا۔ کہ ہم نے انہیں دیکھا ہے۔
ایک نظیر جس سے تاویل کا صنعت ظاہر ہوتاہے
پر یہ تاویلیں کیسی لچر ہیں۔ کیونکہ ان کے وسیلہ ہمارے حواس جھٹلائے جاتے ہیں۔ فرض کی جئیے۔ کہ ہمارے سامنے ایک شخص کی بصارت انسانی حکمت اور وسائل کے استعمال سے بحال کی جائے۔ کیاہم اسے معجزہ کہینگے ؟ اگر ہم دوا کا استعمال اورحکیم کا علاج اپنی آنکھوں سےد یکھیں ۔ توہم کبھی ایسا نہیں کہینگے ۔ پر اگر کوئی شخص ہمارے سامنے آئے ۔ اوراپنی قدرت کے کلام سے بلاوساطت معمولی وسائل کے کسی اندھے کی کھوئی ہوئی بینائی کو فے الفور واپس کردے توکون اس کے معجزہ ہونے پر شک لائیگا۔ اورکون یہ کہیگا کہ میں نے دیکھا کچھ اور تھا۔ مگر میرے حواس پر تاثیر کچھ اور ہوئی ۔
ایک اور سوال اور اس کا جواب
پھر ہمیں یہ بھی کہا جاتاہے ۔ کہ فرض کرو۔ کہ کوئی شخص تمہارے پاس آکر ایک عجیب الخلقت جانور یا فرضی حادثہ کی خبردے۔ جس کا وجود اس کی قوت واہمہ نے مختلف تصورات کی ترکیب سے گھڑ لیا ہے ۔ کیا تم اسے مان لوگے؟ اب اس سے انکار نہیں ہوسکتا۔ کہ انسان کی قوت اور واہمہ دور دور تک پرواز کرسکتی ہے اوراس میں یہ طاقت ہے۔ کہ وہ مختلف خیالات کو باہم ترکیب دے کر ایسا نیا مخلوق پیدا کرے جو اعتبار کے لائق نہ ہو۔ لیکن معجزہ میں اور اس وہمی مثال میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔اول تو یہ بالکل نا ممکن ہے ۔ کہ معتبر گواہی ایسی لغو باتوں کے ثبوت میں پیش کی جائے کیونکہ جو لوگ صادق صاحب عقل ہیں۔وہ کب ایسی باتوں کو قبول کرینگے۔ یا اوروں کو ایسی باتوں کے قبول کرنے کی ترغیب دینگے؟ اور پھر ان لغو باتوں کا ماخذ انسان کی قوت متخیلہ ہے۔ مگر معجزہ کی طاقت کا سرچشمہ خدا ہے۔ اورجب ہم معجزوں پر غور کرتے ہیں ۔ توہمیں معلوم ہوجاتاہے کہ وہ ایسی صورت اور ایسی شرائط کے ساتھ وارد ہوئے کہ ان شرائط نے ان کی رفتار کو فطرت کی راہ کے قریب قریب رکھا۔ اوراسی قدر اسے علیحدہٰ ہونے دیا۔ جتنا کہ الہیٰ غرض کو پور ا کرنے کے لئے کافی اور ضرورت تھا۔
گواہی کو گواہی ہی کا ٹ سکتی ہے
البتہ ایک صورت ہے۔ جس میں معجزوں کی نسبت رسولوں کی گواہی قبول نہیں ہوسکتی ہے۔ اور وہ یہ کہ کوئی ایسا شخص پیدا ہوجو آکر ان کی گواہی کے برخلاف یہ کہے ۔ کہ لعزر کبھی نہیں جلایا گیا کیونکہ میں وہاں موجود تھا۔ میں نے اس کے مردہ بدن کو دیکھا۔ میں نے اس کو دفن ہوتے دیکھا۔اورپھر کئی مدت تک قبر میں سڑتے اور گلتے دیکھا۔ معجزوں کے بارے میں جو انسانی گواہی پیش کی جاتی ہے اس کی صداقت میں اگر کوئی بات خلاف تجربہ پیش کی جاسکتی ہے تو صرف اسی صورت میں پیش کی جاسکتی ہے۔
اگرہم انسانی گواہی کو بے تبدیل تجربے کی بنا پر ردکریں تو پھر کوئی نئی بات قبول نہیں کرسکینگے
پس معجزہ نہ شخصی تجربہ کے خلاف ہے۔ (اگر مخالف کا مطلب شخصی تجربہ سے ہے ) کیونکہ اس حالت میں یہ نتیجہ برآمد ہوگا کہ کوئی بات گواہی کی بنا پر قبول کرنے کے لائق نہیں۔جب تک کہ اس کا ذاتی تجربہ حاصل نہ ہو۔ ملوین صاحب فرماتے ہیں ۔ کہ اس اصول کے مطابق کوئی شخص جو منطقہ حارہ میں رہتاہے ۔ کبھی اس بات کا یقین نہ کریگا۔ کہ امریکہ میں بعض حصص میں سردی کے ایام میں پانی جم کر ایسا یخ ہوجاتاہے کہ اس پر گاڑیاں چل سکتی ہیں ۔ اور اگر تجربہ سے سب بنی آدم کا تجربہ مراد ہے تواس کے جواب میں ہماری عرض یہ ہے ۔ کہ یہی معاملہ تو زیر بحث ہے ۔ کیونکہ ہمارا یہی دعویٰ ہے کہ بہت لوگوں نے مختلف جگہوں اورمختلف زمانوں میں معجزات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اوران کا تجربہ کیا۔ بشپ ملوین صاحب نے اپنی کتاب میں جس کا حوالہ ہم اوپر دے چکے ہیں۔ بشپ وائسن صاحب کی تصنیفات سے ایک مقام اقتباس کیا ہے جس سے ظاہرہوتاہے کہ اس اصول کو ماننا نہایت مشکل ہے ۔
ایک مثال اس بات کی کہ گواہی کا بلاتجربہ قبول نہ کرنا ایک امرنا ممکن التعمیل ہے
وہ خیال مازے صاحب کے اس خیال کی گویا تشریح ہے کہ گواہی بلا تجربہ قبول نہ کرنا۔ ایک امر ناممکن التعمیل ہے۔ پشب وائسن صاحب فرماتے ہیں ۔ کہ ایک ایسا وقت تھا ۔ جبکہ کوئی شخص مقناطیس کی خاصیتوں سے و اقف نہ تھا۔ مقناطیس کی خاصیتیں کئی صورتوں میں قوانین ثقل کو روکتی ہیں۔ اب اگر تجربہ کے ثبوت پر فیصلہ مبنی ہوتا تو ان کی بات کبھی نہ مانی جاتی جنہو ں نے قوانین مقناطیس کی خصائیص کو پہلے پہل دریافت کیا۔ مگر ان کو ردکرنا صداقت کورد کرنا ہوتا۔ اب یہ تو ہم مانتے ہیں کہ لوہے کے ایک ٹکڑے کا زمین پر سے اٹھنا اور ہوا میں سے بسرعت تمام اڑتے ہوئے ایک آہن میں جالگنا۔ اور وہاں بخلاف قانون ثقل معلق رہنا قوانین قدرت کے خلاف نہیں ہے مگر ایک ایسا وقت تھا۔جبکہ یہ واقعہ گو قوانین قدرت کے برعکس نہ تھا۔ مگر اس وقت تمام زمانوں اورملکوں کو تجربہ عامہ کے مخالف تھا۔ اس وقت ہیوم کی دلیل کے مطابق اس آدمی یا آدمیوں کی گواہی کو روکر دینا چاہیے تھا۔ جنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے اس حادثہ کو بچشم خود یکھا ہے اور وہ کونسے قوانین نیچر ہیں۔ جو اس مصنف (ہیوم) کی رائے کے مطابق ٹوٹ جاتے ہیں ؟ کیا وہ مختلف لوگوں کے نزدیک ان کی سمجھ اور لیاقت کے مطابق مختلف نہیں ہوتے ؟ مثلاً اگر مقناطیس اور برقی قوانین فقط چند لوگوں کو معلوم ہوتے اورباقی ساری دنیا اُن سے بے خبر ہوتی تواُن کے نتائج دنیا کی تاریخ میں نئے اورانسانی تجربہ کے خلاف ہوتے۔ اس لئے چاہیے تھا۔ کہ کوئی ان کو قبول نہ کرنا "۔ اب خواہ وہ واقعات جو نیچر سے بلند اوربالا ہیں اورجنہیں معجزات کہتےہیں تجربہ کی مخالفت کریں خواہ وہ واقعات اس کی مخالفت کریں جوگو قوانین نیچر کے خلاف تونہیں مگر نئے ہونے کے سبب سے اس وقت تک کے قوانین معلومہ کے برخلاف ہیں۔بہر کیف تجربہ مخالفت ضرور ثابت ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ہر دوحالت میں مخالفت تجربہ کی ہوگئی۔ لہذا کسی نئے واقعہ کو گواہی کے زور پر قبول نہیں کرناچاہیے ۔
البتہ گواہی کبھی کبھی جھوٹی بھی ہوتی ہے۔ مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا۔ کہ گواہی ہمیشہ نادرست ہو۔ جھوٹی گواہی میں ہمیشہ فریب ودغا کی آمیزش ہوتی ہے۔
جھوٹی اور سچی گواہی میں فرق
اُس میں عمداً اور قصداً دروغ کا عنصر ملایا جاتاہے۔حواس کے سہواور امتیاز کی غلطی کو اس سے کسی طرح کا سروکار نہیں ہوتا۔ اورجب حواس کی غلطی کا احتمال ہوتاہے۔ تو راستباز گواہ اپنے بیان کو بڑی ہچکچاٹ سے پیش کرتا ہے اورکبھی پختہ دعویٰ کے ساتھ اپنے خیال کو بیان نہیں کرتا اوراگر یہ لازم آتا ہے۔ کہ ہم تمام انسانی گواہی کو اسلئے رد کردیں۔ کہ ہم نے بعض اوقات گواہی سے فریب کھایا ہے تو مسٹر لوس کے خیال کے مطابق یہ بھی لازم ہے ۔ کہ ہم اپنی آنکھوں کو نکال پھینکیں۔ کیونکہ وہ بھی کبھی کبھی جھوٹی گواہی دیتی ہیں وہ ستارے جو آسمان پر درخشاں لفظوں کی طرح بکھے پڑے ہیں۔ ہماری آنکھوں کو کبھی اس قدوقامت کے ساتھ نظر نہیں آتے ۔ جو وہ درحقیقت رکھتے ہیں۔
با ت یہ ہے ۔ کہ ہیوم کی اوراس کے پیروؤں کی جو معجزے پر حملہ کرتے ہیں۔ اصل غرض کچھ اورہی ہے۔
معجزات کے بعض مخالفوں کا اصل مقصد یہ ہے کہ خدا کا وجود ثابت نہ ہو
وہ معجزے کے اتنے مخالف نہیں جتنے مذہب کے ہیں۔ وہ خدا کے منکر ہیں۔ اور اس لئے فوق العادت اظہاروں کے بھی منکر ہیں اوران کے اعتقاد اور اغراض میں ایک قسم کی مطابقت پائی جاتی ہے ۔ لیکن جو لوگ خدا کی ہستی کو مانتے ہیں نہ معلوم وہ کیوں معجزہ کے نام سے گھبراتے ہیں ۔ شاید اسلئے کہ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر انہیں مانیں توہمیں اپنے پرانے مذہبوں کو چھوڑ کر مسیحی مذہب کو قبول کرنا پڑیگا۔ کیونکہ وہی ایک مذہب ایسا ہے جو اپنی تعلیم کی تصدیق میں معجزات کی گواہی پیش کرتاہے اوراسی کے معجزے قرین قیاس اور عقل کے موافق ثابت ہوسکتے ہیں۔ یادرکھنا چاہیے ۔ کہ خدا کی ہستی کی نسبت صرف ایک ہی خیال ایسا ہے ۔ جواپنے اعتقاد ومسائل کی مخالفت کئے بغیر فوق العادت کا انکار کرسکتا ہے اور وہ ویدانتی خیال ہے ۔ جو خدا کو ہمہ اورہمہ کو خدا مانتاہے۔ کیا یہ خیال درست نہیں کہ جو لوگ شخصیت کے قائل ہیں وہ خدا کی معجزانہ قدرت کے امکان کاانکار نہیں کرسکتے تاوقتیکہ اس کی لامحدود محبت اور قدرت کا بھی انکار نہ کریں۔
اب دیکھئے کہ ہیوم کیا کہتاہے ۔ جو الفاظ ہم اس وقت نقل کرنے پر ہیں ان سے یہی ثابت ہوتاہے کہ اگر مذہب کا یہ مطلب ہے کہ ایک قادراور پرُمحبت خدا موجود ہے جو واجب الوجود اور عبادت اور بندگی کے لائق ہے تو معجزہ کا انکار نہیں ہوسکتا ۔ پر ہیوم نہیں چاہتا کہ ایسا خدا مانا جائے اوراسی لئے وہ معجزے کی مخالفت کرتاہے۔
ہیوم کے اُن الفاظ سے یہی بات ثابت ہے
چنانچہ وہ کہتاہے " میری گذارش یہ ہے ۔ کہ جب میں دعویٰ کرتاہوں کہ معجزات کبھی ایسی صورت میں ثابت نہیں کئے جاسکتے کہ کسی طریق مذہب کی بنیاد ٹھیریں۔ تواس دعویٰ کے ساتھ جو قیودلازم ہیں انہیں بھی اس موقعہ پر سمجھادینا چاہتاہوں میں مانتاہوں کہ مذہب کو چھوڑ کر اور صورت میں معجزات یعنی فطرت کے معمولی سلسلہ کا ٹوٹ جانا ممکن ہے اورایسی صورت میں ممکن ہے کہ اس کا ثبوت انسانی گواہی سے دیا جائے۔ مثلاً فرض کروکہ تمام زبانوں کے سب مصنف متفق ہوکر کہیں کہ یکم جنوری ۱۶۰۰ء سے لے کر آٹھ دن تک تمام دنیا پر اندھیرا چھایا گیا۔ اور فرض کرو کہ اس عجیب واقعہ کی روایت اب تک متدادل اور زندہ ہو۔ ایسی کے تمام سیاح جو غير ممالک سےلوٹ کر آئیں۔ ہمارے پاس اس روایت کی ایسی خبر لائیں۔ جس میں کسی کا فرق اور اختلافات نہ پایا جائے۔ اگرایسا ہو ، تو اظہر ہے کہ ہمارے موجودہ فلاسفروں کو بجائے اس بات پر شک لانے کے اسے یقینی سمجھ کر قبول کرلینا چاہیے "۔ اب اس عبارت کے ساتھ ان الفاظ کو بھی پڑھنا چاہیے ۔جو وہ ایک اور قیاسی معجزہ کی نسبت بیان کرتاہے کہ " پر اگر یہ معجزہ کسی نئے طریق مذہب کے ساتھ منسوب کیا جائے۔ تو یہی واقعہ فریب کا پورا پورا ثبوت ٹھیریگا۔ اور سب سمجھ دار لوگوں کے نزدیک آپ ہی اس بات کا کافی ثبوت ہوگا کہ وہ اس کو رد کردیں اوربغیر امتحان کئےرد کریں۔کیونکہ اس قسم کی فضول باتوں نے ہر زمانہ میں لوگوں کو دھوکا دیا ہے"۔ غور کیجئے ۔ کہ ان دعوؤں میں کیسا تناقص پایا جاتاہے ۔ ان سے یہ ثابت ہوتاہے کہ معجزات اس وقت انسانی گواہی سے ثابت ہوسکتے ہیں۔ جبکہ کوئی خاص دینی مقصد ان سے منسوب نہ کیا جائے ۔ پر جب وہ مذہب کے ثبوت میں دکھائے جائیں ۔ تب گواہی سے ثابت نہیں ہوسکتے اوریہی حال معجزات کے تمام مخالفوں کا ہے کیونکہ وہ ان کی مخالفت چنداں اس لئے نہیں کرتے کہ وہ غیر متبدل فطرت سے مختلف ہوتے ہیں۔ بلکہ اس لئے کہ وہالہامی تعلیم اورمسیحی مذہب کا ثبوت ہیں۔
ہم ہیوم کی رام کہانی کو چھوڑ نہیں سکتے۔ جب تک یہ نہ دکھائیں کہ جو لوگ اپنی عقل اور فکر پر بھروسہ کرتے ہیں اورخدا کی ہدایت کے متلاشی نہیں ہوتے ۔ وہ خود اپنے خیالات اور تصورات سے خاطر خواہ اطمینان حاصل نہیں کرتے ۔ ملوین صاحب اس کے الفاظ کوایک جگہ اس طرح نقل کرتے ہیں " انہوں نے (یعنی فلسفانہ خیالات نے ) اس قدر مجھ پر اثر کیا ہے اورمیرے دماغ کو ایسا جلارکھاہے کہ اس ہر طرح اعتقاد اوربرہان کو ترک کرنے کے لئے تیار ہوں۔میں کسی رائے کو زیادہ مضبوط اورممکن سمجھ کر ترجیح دینے کوتیار نہیں ۔ میں کہاں ہوں اور کیا ہوں؟ کونے اسباب پر میری زندگی مبنی ہے؟ اور میں کونسی حالت کی طرف راجع ہوں ؟ کس کی خوشی اور رضا کا جویاں ہوں ۔ اور کس کی خفگی اورناراضگی سے خائف ہوں؟کونسی ہستیاں مجھے گھیرے ہیں۔ اورکن پر میں اپنا اثر ڈال رہاہوں اورکون مجھ پر اثر ڈال رہے ہیں؟ میں ان سوالات سے حیرن ہورہا ہوں۔ اوراپنےتئیں سخت افسوسناک حالت میں متبلا سمجھنے لگ گیا ہوں۔ میں اپنے تئیں ایک گہری تاریکی سےمحیط اور اور ہر عضو اور لیاقت کے استعمال میں عاجز پاتا ہوں"۔ پھر آگے چل کریوں کہتاہے ۔ کہ " میری خوش نصیبی سے ایسا ہوتاہے کہ جب عقلی خیالات ان بادلوں کو دور نہیں کرسکتے ۔ تو نیچر خود ان کو دورکرنے میں کافی ثابت ہوتی ہے ۔ اورمجھے اس فلسفانہ خبط اور سردردی سے چھڑاتی ہے "۔ اور پھر بتاتاہے ۔ کہ نیچر کیونکر اسے زندگی کے مشغلوں اور دوستوں کی صحبت کے وسیلہ اس مصیبت سے رہا کرتی ہے۔
دلی آرام کا منبع فلسفہ نہیں بلکہ الہامی مذہب ہے
اب اس سے دوباتیں ظاہر ہوتی ہیں ۔ ایک یہ کہ حیقیقی دلی آرام کا منبع فلسفہ نہیں بلکہ مذہب ہے ۔ دوئم یہ کہ جب یہ فلاسفر خوداپنے خیالات کو سردردی اورخبط سمجھتاہے ۔ توہم کس طرح اس کی دلائل اوربراہین پر تکیہ کرسکتے ہیں ؟ بلکہ اگرہم بھی اس کے فضول خیالات کو سردردی اورخبط تصور کریں۔ توہمیں گستاخی کے قصور کا مرتکب نہ سمجھنا چاہیے ۔ یہاں معجزانہ مذہب کی خوبی اور فلسفانہ طریقوں کی کمزوری اور سقم صاف ظاہر ہوجاتاہے۔ وہ تعلیم جومعجزانہ شہادت پر مبنی ہوتی ہے ۔ وہ ایسے زور اور اختیار کے ساتھ پہنچائی جاتی ہے۔ کہ اس کی سچائی پر کسی طرح کا ظن نہیں رہتا اورہم اسے سر تسلیم خم کرکے قبول کرلیتے اوراپنی زندگی کا دستور العمل سمجھ کر اس کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن یہ خاصیت ان طریقوں میں غیر حاضر ہوتی ہے۔ جو الہام ربانی کے منکر ہوتے ہیں ۔یا اگراس کے قائل ہوتےہیں ۔ تو صرف اس صورت میں کہ وہ ہر فرد بشر کو براہ راست اس کی ضمیر کو وسیلے پہنچتا ہے۔ اور ضمیر سے جدا اورکوئی راہ الہام کے لئے ممکن نہیں ہے۔ ڈیوڈ ہیوم کا ایک گہرادوست (Lord Claremont) کہتاہے ۔ کہ ہیوم کی طبعیت میں ہر قسم کی بات پر شک لانے کا افسوسناک عنصر عجیب طرح پر مخلوط تھا۔ اورمجھے پورا پورا یقین ہے کہ میں نے اس سے بڑھ کر سچا اوربے ریا منکر اور کوئی نہیں دیکھا۔ معلوم ہوتاہے ۔ کہ وہ اپنی موجودہ ہستی کا بھی قائل نہ تھا ۔ اوریقین ہے کہ نہ اپنی آئندہ حالت کی نسبت کوئی پختہ رائے رکھتا ہوگا۔ ہو خواہانِ عقل پر واجب ہے۔ کہ ان باتوں سے عبرت پکڑیں اورہدایت ایزدی کے جویاں ہوں۔
اب ہم آخر میں یہ دکھائینگے کہ جو گواہی معجزات کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہے زمانہ کے گذرنے سے اپنے زور میں کم نہیں ہوتی۔
وہ گواہی جومعجزات پر ملتی ہے اب تک کمزور نہیں ہوئی کیونکہ روایت کی صورت میں متدادل نہیں رہی بلکہ تحریر کی صورت میں آکر ہمیشہ محفوظ رہی ہے
عموماً یہ گمان کیا جاتاہے ۔ کہ گواہی وقت کی رفتار کے ساتھ ضعیف ہوجاتی ہے ۔ لیکن یہ خیال درست نہیں۔ البتہ اگر گواہی زبانی روایت کی صورت میں مروج ہو۔ تو اس میں ضعف آجائے یا اس کے تبدیل ہوجانے کا احتمال واجب ہے۔ پر اگر گواہی قلمبند ہوکر تغیر وتبدل کےآسیب سے محفوظ رکھی جائے۔ توپھر شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔
اسکی حفاظت کی ایک نظیر
ملوین صاحب نے جس نظیر سے نکتہ کو ثابت کیا ہے وہ نہایت دلکش اورموثر اور فیصلہ کن ہے۔ اس کا خلاصہ مطلب یوں ادا کیا جاسکتاہے ۔ فرض کرو کہ یہ باب ینگ منس کرسچن ایسوسی ایشن میں پڑھ کر سنایا جائے اوراسی ایسوسی ایشن کی روئیداد(منٹوں) میں داخل کیا جائے۔ اوروہاں اس کی حفاظت کی جائے اگرسو سال کے بعدایسوسی ایشن کا کوئی ممبر روئیداد کی کتاب کو نکالے ۔ اورس میں یہ تذکرہ پڑھے۔ کہ فلان سال فلاں تاریخ فلاں مضمون پر یہ درس اس سوسائٹی کے سامنے دیا گیا تھا۔تو وہ اس پر شک نہ لائیگا۔ اورنہ کوئی اوراس کی سچائی پر حجت کریگا۔ اسی طرح مسیحی کلیسیا کی سوسائٹی بھی اس وقت موجود تھی۔ جب یہ معجزانہ واقعات قلمبند کئے گئے۔ نئے عہد نامہ کی کتابیں وہ منٹ وہ روئيدار ہے ۔ جس میں اس سوسائٹی کا کانشٹیچیوشن (قانونی انتظام) اوراس کی ابتدا اور قدیم تاریخ کا تذکرہ درج ہے اورپشت بہ پشت محفوظ چلاآیا ہے۔ البتہ اس کے مختلف ممبر کو چ کر گئے ہیں مگر ان کے کوچ کرجانے سے سوسائٹی پر کوئی نقص عاید نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ تو برابر موجود رہی ہے ۔ وہی ان کتابوں کی محافظ اوران نوشتوں کی لائبریرین ہے۔ ہمارےجسم کا ہر ذرہ کچھ عرصہ بعد بدل جاتاہے مگر اس کے ساتھ ہماری خودشناسی اورہمارا وجود کالعدم نہیں ہوتا۔ ہمارا یہ یقین موجود رہتاہے کہ ہم وہی ہیں جو پہلے تھے۔ اسی طرح کو اس سوسائٹی کو قائم ہوئے بہت عرصہ گذرگیا ہے ۔ تاہم وہ ہی ہے جو شروع میں تھی اوراسے اپنے بچپن کے ایام کے وہ جلیل القدر واقعات جو اس کے موجود اور بانی کی ذات بابرکات سے صادر ہوئے اب تک یاد ہیں۔ جوباتیں اس کے ممبروں نے بیان کی تھیں۔ ان کو اس نے بڑی خبرداری سے محفوظ رکھاہے ۔ اس کے شرکاء انہیں اپنے معبدوں میں ہر جگہ اور ہر زمانہ میںاس وقت سے لے کر جبکہ رسولوں نے انہیں قلمبند کیا۔ آج تک برابر پڑھتے رہے ہیں۔ پس ان کی گواہی آجبھی ویسی ہی یقینی ہے۔
جس طرح دیگر تاریخی کتابوں کو قبول کرتے ہیں چاہیے کہ اس طرح ہم انجیل شریف کی تاریخ کو بھی قبول کریں
جیسی اس وقت تھی جس وقت اسےپہلے پہل چشم دید گواہوں نےرقم کیا۔ کیا یہی اصول نہیں۔ جس کی بنا پر اب یہ بات مانی جاتی ہے کہ جولیس قیصر نے انگلستان پر حملہ کیا۔ اور ہین با نے ملک اٹلی پر ۔ کلانيئو نے ہندوستان کو فتح کیا۔ اوربونا پارٹ نےتمام دنیا کو ہلادیا ۔ اورکیا اسی اصول کی بنیاد پر یہ پرانی باتیں تاقیامت سچی نہیں مانی جائینگی؟ لوگ اس اصول کے منکر نہیں۔ اگرہیں تو بائبل کے واقعات کے متعلق ہیں مگر یہ ہٹ دھرمی ہے۔ اگریہ اصول صحیح اور درست ہے۔ تو اس کا پابند ہر جگہ ہونا چاہیے۔جہاں سچی تاریخ کی شرائط موجودہوں۔ خواہ واقعات دینوی تاریخ سے تعلق رکھتے ہوں خواہ دینی تاریخ سےوابستہ ہوں۔ ہر دوحالت میں ہمارا فرض ہے۔ کہ ہم تواریخی گواہی کو قبول کریں۔