Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

چھٹا باب

سیدنا مسیح کا مرُدوں میں سے جی اُٹھنا

ہم پچھلے ابواب میں اُن مختلف مضامین پر جو معجزے سے علاقہ رکھتے ہیں بحث کرچکے ہیں۔ چنانچہ ہم نے دکھادیا ہے کہ معجزے کی کیا غرض ہے اور وہ قوانین قدرت سے کیا تعلق رکھتاہے۔اور کہ جو گواہی انجیلی معجزات کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہے وہ رد کرنے کے لائق نہیں۔ علاوہ بریں ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ مسیح اوراُس کے شاگردوں کے معجزوں میں اور اُن اچنبھوں میں جن کا دنیا دعویٰ کرتی ہے کیا فرق ہے۔ اس باب میں ہم ایک خاص معجزے کو ناظرین کے ملاحظہ کے لئے پیش کرتے ہیں اورہماری منت ہے۔ کہ وہ بے تعصبی اورانصاف سے ان چند سطور پر غور فرمائیں ۔ اورہم اُمید کرتے ہیں کہ اگر ایسا کیا جائیگا تو ضرور یہ امر روشن ہوجائیگا کہ مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا ایسی محکم دلائل پر مبنی ہے جن کوکسی طرح کی منطق غلط نہیں ٹھیرا سکتی۔

مسیحی نوشتوں کا دعویٰ ہے کہ مسیح مردوں میں سے جی اُٹھا ہے اور یہ عقیدہ مسیحی مذہب کی جان ہے جیسا کہ پولوس کے کلام سے ثابت ہوتاہے

مسیحی نوشتوں کا یہ دعویٰ ہے کہ مسیح مصلوب ہونےکے بعد تیسرے دن مردوں میں سے جی اٹھا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے ۔ کہ اُس کا مصلوب ہونا اورپھر تین دن بعد مردوں میں سے جی اٹھنا مسیحی مذہب کی جان ہے۔ چنانچہ پولوس رُسول کرنتھیوں کے پہلے خط میں مسیح کی جی اٹھنے کے بارے میں یوں لکھتاہے "۔ اگرمسیح نہیں جی اٹھا تو ہماری منادی عبث ہے۔ اورتمہارا ایمان بھی عبث ہے ۔ بلکہ ہم خدا کے جھوٹے گواہ بھی ٹھیرے کیونکہ ہم نے خدا کی بابت گواہی دی کہ اُس نے مسیح کوپھر جلایا ہے"۔ اور پھردوسری جگہ یوں کہتاہے "۔ اگرہم صرف اسی زندگی میں مسیح سے اُمید رکھتے ہیں توہم سارے آدمیوں سے کم بخت ہیں"۔(۱کرنتھیوں ۱۵: ۱۴، ۱۵، ۱۹)ان مقاموں سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا مسیحی مذہب کی بنیادی تعلیم ہے۔ پولوس کے نزدیک یہ واقعہ ایسا ضروری تھا کہ وہ کہتا ہے کہ اگر وہ سرزد نہیں ہوا تو سب رسول اورگواہ جھوٹے ہیں اورجو اُن کی گواہی سے مسیح پر ایمان لاتے ہیں وہ درجہ اول کے بدبخت اوربد نصیب ہیں۔

پولوس کو کیوں ایسے الفاظ لکھنے پڑے

پولوس کویہ الفاظ غالباً ایسے زور سے اس واسطے تحریر کرنے پڑے کہ شہر کارنتھ میں جہاں اُن دنوں فلسفہ کا دودوران تھا ایسے مسیحی پیدا ہوگئے تھے جو مردوں کے جی اٹھنے پرشک لانے لگ گئے تھے۔ یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ وہ مسیح کے جی اٹھنے کے بھی انکاری ہوگئے تھے ۔ مگر رسول اس بات کوسن کر کہ وہ قیامت کا انکار کرنے پر آمادہ ہوئے جاتے ہیں اُن کو لکھتا ہے کہ اگر مرُدے اپنے جسموں کے ساتھ نہیں اٹھینگے تو مسیح بھی نہیں اٹھا پر " اگر مسیح نہیں جی اٹھا توہماری منادی عبث ہے اورتمہارا ایمان بھی عبث وغيرہ"۔ شاید ان کرنتھیوں میں سے بعض یہ کہتے تھے کہ اگر قیامت ناممکن ہےتوکچھ مضائقہ نہیں۔ ہم مسیح کی پیروی نہیں چھوڑینگے۔ اُس کی تعلیم اوراُس کا نمونہ ہمارے لئے غنیمت ہے۔ کیونکہ انسان اُس کی تعلیم اوراُس کا نمونہ کے وسیلے اپنے فرائسن کو ادا کرنے کی تحریک پاتا۔ نامناسب جذبات کواپنے قابو میں رکھنا سیکھتا۔ اوراپنے خدا کی عبادت اور خدمت میں مصروف رہتاہے۔ پولوس اُن کی غلط فہمی کو دورکرتاہے اورایسے الفاظ میں جن سے ظاہر ہوتاہے کہ اگر مسیح نہیں جی اٹھا تو اُن کا ایمان لانا عبث ہے۔بلکہ یوں کہنا چاہیئے۔ کہ مسیحی مذہب بالکل جھوٹا ہے۔

مسیحی دین کے مخالف اس بات کوبخوبی سمجھتے ہیں

اورمخالفان دین عیسوی نے اس بات کو خوب پہچانا ہے۔ یعنی وہ جانتے ہیں کہ اگر مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا مان لیا جائے توپھر اس کے ساتھ اوربھی بہت کچھ ماننا پڑیگا۔لہذا مخالفوں نے طرح طرح کے اعتراض کئے ہیں اورہم چاہتے کہ قبل ازیں کہ ہم اس تواریخی واقعہ کی گواہی پیش کریں اور وہ دلائل جو منصف مزاجوں کے نزدیک کافی ووافی ہیں ہدیہ ناظرین کریں اُن اعتراضوں یا مختلف تاویلوں پر غور کریں جو معترضوں نے اپنے واہمہ سے تجویز کی ہیں اور وہ پانچ مختلف صورتوں میں پیش کی جاتی ہیں اُن تاویلوں کے وجود میں آنے کی اصل یہ ہے کہ نکتہ سنج لوگوں نے اس واقعہ کے حقیقی وزن کو خوب محسوس کیا ہے۔ چنانچہ وہ جانتےہیں کہ مسیحی عقیدوں میں یہ عقیدہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو سب سے پرُانا ہے۔ اورکہ اس نے مسیحی مذہب کو زندہ رکھنے اور دور دور تک پھیلانے میں بڑی مدد دی ہے۔ لہذا باتوں باتوں میں اسکو اڑانا  مشکل کام ہے ۔ مثلاً بارصاحب جنہوں نے انجیل کے بیانات کی تاویل عقلی طورپر پیش کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا جانتے تھے کہ مسیحی مذہب بغیر اس اعتقاد کے دنیا کو فتح کرنے کے لئے ایک قدم نہیں اٹھاسکتا تھا۔گور صاحب انجیلی بیانات اور معجزات کی وہمی تاویلیں پیش کرنے میں عجیب دعووں اور تھیوریوں کو اختیار کرتے ہیں مگر مسیح کے جی اٹھنے کے معاملے میں خاموش ہیں۔ اس خاموشی کودیکھ کر سٹراس صاحب جن کا ذکر اوپر کئی بار ہوچکا ہے کہتےہیں کہ بار صاحب اس سخت سوال کو ہاتھ نہیں لگاتے بلکہ اُسے ایک ایسا واقعہ تصورکرلیتے ہیں کہ اُس پر بحث نہیں ہوسکتی۔ اوریوں اُس سے درگذرکرکے صرف اُس کے تواریخی نتائج کا سراغ لگانے پر اکتفا کرتےہیں۔ممکن ہے کہ بارصاحب کی خاموشی کسی قدر تجاہل عارفان کی صورت رکھتی ہو۔ مگراس کے ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس واسطے خاموش رہے کہ وہ جانتے تھے کہ مسیح کے جی اٹھنے پر جوجو حملے اور اعتراضوں ہوچکےہیں وہ ناقابل اطمینان ہیں۔ مگر بار صاحب کی سی دوراندیشی کی توقع ہر معترض اورمنکر سے نہیں کی جاسکتی ۔ لہذا ان لوگوں نے مسیح کے جی اٹھنے کی مختلف تشریحیں اورتاویلیں پیش کی ہیں تاکہ یہ ثابت کریں کہ وہ کبھی مردوں میں سے زندہ نہیں ہوا۔ پر اس باہمی جنگ وجدل میں یہ تماشہ دیکھنے میں آتاہے کہ جو شرح ایک شخص پیش کرتاہے۔ دوسرا اس کوکاٹ ڈالتا ہے۔ اب ہم اُن تاویلوں پر غور کرینگے۔ وہ یہ ہیں۔

تاویلیں

۱۔ کہ مسیح کا جی اٹھنا محض ایک بنائ ہوئی بات ہے جس کی بنا جھوٹ اور چوری پر قائم ہے ۔

۲۔ کہ مسیح صلیب پر مرا نہیں تھا بلکہ بے ہوش ہوگیا تھا۔ اورجب ہوش میں آیا تواپنے شاگردوں کو کئی بارملا۔ اورپولوس سے ملاقات کرنے کےوقت تک زندہ رہا۔ زاں بعد کسی کنج تنہائی میں یا جس طرح بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ کشمیر میں جاکر مرگیا۔

۳۔ کہ مسیح کبھی جسم کے ساتھ دکھائی نہیں دیا۔ اُس کے نظارے محض ذہنی یا وہمی تھے۔ چونکہ شاگرد اپنے استاد کی مفارقت سے بیکل ہورہے تھے اوراُن کا دھیان اُسی طرف لگاہوا تھا اوریہ خواہش دامنگیر ہورہی تھی کہ اس کے چہرہ کو دیکھیں۔ اُن کا یہ کہنا جھوٹ بولنا نہ تھا کیونکہ انہوں نے اپنے وہم کے تصویر خانہ میں اُس کی صورت کوایک طرح ضرور دیکھا۔ گووہ صورت حقیقی مادی صورت نہ تھی بلکہ ایک وہمی عکس تھا۔ پس یہ لوگ فریب خوردہ تھے۔

۴۔ کہ مسیح کی وفات کے بعداُس کے بدن کے جو نظارے شاگردوں کو نصیب ہوئے وہ کلیہ طورپر وہمی نہ تھے بلکہ اُن میں کچھ کچھ حقیقت بھی تھی۔ یایوں کہیں کہ جوکچھ انہوں نے دیکھا وہ مسیح کا مادی بدن نہ تھا۔ بلکہ وہ اُس کی جلال روح تھی جس نے اپنے تئیں شاگردوں پر ظاہر کیا تاکہ اُن کے مجروح دل تسلی اور آرام پائیں۔ گویا یہ آسمانی نظارے تارکی خبریں تھیں جن کا یہ مقصد تھا کہ شاگردوں کو پتہ لگ جائے۔ کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔

۵۔کہ نہ مسیح کا بدن دکھائی دیا اورنہ اس کی روح دکھائی دی۔ بات اصل یہ تھی کہ ۔ کہ مسیح کے مصلوب ہونے کے بعد شاگرد یہ منادی کیا کرتے تھے کہ وہ اب بھی زندہ ہے پر وہ اس بات پر ایسا زور دیا کرتے تھے کہ اُن کے مبالغہ آمیز کلام سے آخر کار وہ قصہ پیدا ہوگیاجسے اُس کا مردوں میں سے جی اٹھنا کہتے ہیں ۔ اب ہم نے دیکھاکہ یہ پانچ تاویلیں مسیح کے جی اٹھنے کے متعلق پیش کی گئی ہیں۔ کیا مناسب نہیں کہ ہم تھوڑی دیر کے لئے ان پر ترتیب دار غور کریں اوردیکھیں کہ ان میں کہاں تک راستی پائی جاتی ہے۔

پہلی تاویل کہ مسیح زندہ نہیں ہوا بلکہ اس کی لاش چرائی گئی

ان میں سے پہلی تاویل یہ بتاتی ہے کہ مسیح توکبھی مردوں میں سے نہیں اٹھا تھا۔بلکہ وہ مرنے کے بعد قبر میں پڑا رہا۔ پر اُس کے شاگردوں نے اُس کی لاش چُرالی اورمشہور کردیا۔ کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھاہے۔ واضح ہوکہ یوروپ کے تمام منکر نے اس تاویل کو ناقص بلکہ گندی سمجھ کر ترک کردیا ہے۔

یوروپ کے منکروں نے اس تاویل کو ناقص سمجھ کر ردکردیا ہے

اور شاید بہتر ہوتا کہ ہم بھی اس کے کمینہ پن کے سبب سے اس کو یہاں جگہ نہ دیتے ۔ مگر اس خیال سے کہ شائد کوئی یہ کہے کہ تم نے اس کا جواب دینے کی کوشش اس واسطے نہیں کہ تم جانتے ہو کہ تمہارے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم چند سطور اس پر تحریر کریں۔ اس الزام کی مدافعت کے لئے ذیل کے دلائل غورطلب ہیں۔

اس تاویل کی تردید

۱۔ ہم پوچھتے ہیں کہ لاش کو چُرالے جانے میں شاگردوں کو کونسا فائدہ مد نظر تھا؟کونسی ضرورت دامنگیر تھی؟ اگر وہ یہ مانتے تھے کہ وہ خود بخود اپنی طاقت سے جی اٹھیگاتوانہیں اس بات کی حاجت ہی نہ تھی کہ اس کی لاش کو چُرالائیں۔پر اگر وہ یہ نہیں مانتے تھے تواس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ وہ اس کے جی اٹھنے کی انتظاری بھی نہیں کرتے تھے۔اوراگر اس بات کی انتظاری نہیں کرتے تھے تو کیا ضرورت تھی کہ اُس کی لاش کو چُرا لائیں؟ جس طرح اورمرُدے دفنائے جاتے ہیں ۔ اُسی طرح وہ بھی دفن کیا گیا تھا۔ جس طرح اور لوگ اس دنیا سے کوچ کرتے ہیں وہ بھی کوچ کرگیا تھا۔ پھر اُس کی لاش کوایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں کیا بہتری مدنظر تھی؟ اس کا جواب صرف ایک ہی ہوسکتا ہے۔ اور وہ یہ کہ اس کے شاگرد دنیا کو فریب دینے پر کمر بستہ تھے۔ لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے اُن کوکونسے نفع کی اُمید تھی؟یہودیوں کو غصہ دلانے اور گورنمنٹ کا قصور کرنے میں کیا فائدہ متصور تھا؟ کیا وہ روپے یا زریا عزت کے بھوکے تھے؟ سوائے ان باتوں کے اورکوئ معقول وجہ اُن کے فریب کے لئے نظر نہیں آتی۔ مگرہم دیکھتے ہیں کہ ان چیزوں میں سے کوئی چیز ان کو دستیاب نہ ہوئی ۔ جیساہم اوپر ایک جگہ دکھاچکے ہیں حکام وقت اُن کے برخلاف تھے۔ یہودی سردار اُن کی جان کے درپے تھے۔ ارباب علم وفضل اُن کو بیخ کنی میں لگے ہوئے تھے اور عام لوگ اُن کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ تاج کے عوض صلیب، فارغ البالی کی جگہ تنگدستی ، عزت کے لئے بے عزتی اُن کو نصیب ہوئی وہ کونسا لالچ تھا جس کی خاطر انہوں نے دین اور دنیا دونو کھودئے؟

کیا اُن میں ایک بھی فریب سے آزاد نہ تھا

پھر یہ بھی ثابت کرناچاہیے۔ کہ وہ سب کے سب فریبی اور مکار تھے۔ کہ اُن میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جوراستی کا طالب ہوتا۔ کیا اُن میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جس نے مسیح کی باتوں کو اُس کے وعدوں کو اواس کی نبوتوں کوبرحق سمجھ کر اُس کی پیروی اختیار کی تھی؟ اوراگرہم یہ کہیں کہ اُن میں ایسے بھی تھے جو راست گواور سچائی کے طالب تھے۔ توہم پوچھتے ہیں کہ وہ کب اس فریب میں شامل ہوتے ؟ ناظر ہم آپ سے منت کرتے ہیں کہ آپ تھوڑی دیر کے لئے فرض کیجئے کہ آپ بھی اس کے شاگردوں میں شامل ہیں اوریہ مانتے ہیں ۔ کہ وہ اپنے قول کے مطابق تیسرے دن مردوں میں سے جی اٹھیگا ۔ فرض کیجئے کہ آپ بھی محبت یا تعظیم کی راہ سے دیگر شاگردوں کے ساتھ مل کر اس کی لاش کو قبر سے نکال لاتے ہیں اوراسے بڑے ادب اور عزت کے ساتھ کسی جگہ رکھ دیتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ آپ اُس کی باتوں کو سچ جاننے کے سبب سے اس بات کے منتظر ہیں کہ وہ مردہ لاش جو آپ کے سامنے پڑی ہے۔ تیسرے دن آپ اٹھ کھڑی ہوگی۔ فرض کیجئے کہ تیسرا دن آتا اور گذ جاتا ہے مگر لاش نہیں اٹھتی ۔ اب ہم پوچھتے ہیں کہ اس مایوسی کی حالت میں آپ کیا کرینگے ؟ کیا آپ یہ اشتہار دیتے پھرینگے کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ہے یا اس لاش کی طرف متوجہ ہوکرروتے اورنالہ کرتے ہوئے یہ کہینگے ۔ اے یسوع یا تو تونے خود دھوکا کھایا تونے ہمیں قصداً دھوکا دیا ۔ دونو حالتوں میں تو نے ہم کو سخت نقصان پہنچایا۔

گئے دونو جہاں کے کام سے ہم نہ ادھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے

تیری پیروی کے سبب سے ہم ملکی افسروں اور مذہبی لیڈروں اوراپنے خویش واقارب کی نظروں سے گرگئے ۔ اب سوائے ندامت کے اورکچھ ہمارے حصہ میں نہیں۔ تیرے وہ وعدے کہ میں آسمان کی بادشاہت قائم کرونگا کہ میں مردوں میں سے جی اٹھونگا کہاں ہیں؟ اوراب یہ لاش جس میں ذرا حس وحرکت نہیں پائی جاتی سوائے طمعہ زاغ وزعن ہونے کے اورکسی لائق نہیں۔

ناموں کا خیال بھی فریب کا موجب نہیں ہوسکتا تھا

پھر کیا آپ اس لئے اس فریب میں شامل ہوتے کہ آپ کا نام تمام دنیا میں مشہورہوجائے بیشک دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں پطرس اوریوحنا اور پولوس کا نام مشہور نہیں۔ پر اُن کو اس عزت سے یا اس شہرت سے کیا فائدہ ؟ کیا اب مرنے کے بعد وہ اپنی تعریف کو سنتے۔ اورسن کر خوش ہوتے ہیں؟ اگر وہ فریبی تھے اور اگر مرنے کے بعد روح زندہ رہتی ہے اوراگر ان کی روحیں زندہ ہیں۔ تو اپنی شہرت اورناموری سے خوش ہونے کی بجائے وہ اب عقوبت دوزخ میں گرفتار ہیں اورہائے ہائے کہہ کر اپنے اپنے فریب پر ماتم کرتے ہیں پر کوئی شخص شہرت کودنیا کی بے عزتی اور عاقبت کے عذاب سے نہیں خریدتا ۔

وہ اُس لاش کو چراہی نہیں سکتے تھے

۲۔ پر ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ کسی طرح اس کی لاش کو چراہی نہیں سکتے تھے ۔ ہاں اگر وہ سب مل کر اس بات کی کوشش بھی کرتے تو تو بھی کامیاب نہ ہوتے۔ غور فرمائیے۔

کیونکہ اُن کا شمار تھوڑا اور وہ پہلے بزدل تھے

الف۔ شاگرد اس وقت شمار میں بہت تھوڑے تھے اور خود اُن کے بیان سے ظاہرہوتاہے کہ اس وقت وہ بڑے بزدل اور کم حوصلہ تھے۔ جب مسیح گرفتار کئے گئے اس وقت وہ سب اس کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ پطر س نے تین بار اُس کا انکار کیا۔ صرف یوحنا صلیب تک ساتھ گیا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں کے ڈر کے مارے یہ شاگرد کئی دن تک باہر نہ نکلے۔ جب سیدنا مسیح نے ایک مرتبہ بند کمرے میں اُن کے درمیان کھڑے ہوئے اُس وقت وہ اُسے بھوت سمجھ کر ڈرگئے وہ اس بند کمرے میں اس واسطے جمع ہورہے تھے کہ یہودیوں کے حملے سے ڈرتے تھے ۔ کیا ایسے لوگ سپاہیوں کے پہرہ کا مقابلہ کرنے کی جرات رکھتے تھے ۔ شاید اُن میں ایک آدھ ایسی جرات کرتا تو کرتا مگر وہ سب کے سب اس سازش میں نہیں مل سکتے تھے۔ اورپھر کیا اُن کو اس بات کا خطرہ نہ تھا ۔ کہ اگرہم میں سے کسی نے راز فاش کردیا۔ توہم سب کے سب گرفتار ہوجائینگے۔

علاوہ بریں قبر کی نگہبانی کے لئے

ب۔ پر اگر بفرض محال ہم یہ بھی مان لیں کہ ان چند کم حوصلہ آدمیوں نے لاش چرانے کی سازش کرلی تھی توایک اورمشکل پیش آتی ہے۔ اور وہ یہ کہ قبر کی نگہبانی کےلئے سپاہیوں کی ایک گارد موجود تھی۔ اب سپاہی ان کو لاش چرانے کی کب مہلت دینے لگے تھے؟ اگریہ کہا جائے کہ وہ سوگئے تھے تویہ ناممکن ہے ۔ کیونکہ رومی قانون کے مطابق جوسپاہی نگہبانی کے کام میں غفلت کرتے تھے وہ سخت سزا پاتے تھے یادر ہے کہ اسوقت ساٹھ سپاہیوں کا پہرا موجود تھا۔ کیا وہ ساٹھوں کےساٹھوں سوگئے؟چند سال بعد پولوس اورسیلاس فلپی کے قیدخانے میں ڈالے گئے۔ اورجب معجزانہ طورپر اُن کی زنجیریں کٹ گئیں اورجیل کے دروازے کھل گئے تو داروغہ جیل خود کشی کے لئے تیار ہوگیا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا۔کہ قیدیوں کا اُس کی غفلت سے نکل جانا اُس پر سخت سزا لائیگا۔ مشہور ایچ ۔پی۔ لڈن صاحب اپنے ایسٹر سرمنوں کی پہلی جلد میں پطرس کی زنجیروں کےمعجزانہ طورپر کٹ جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہیرودیس سنتریوں سے ایسا ناراض ہواکہ اُن کو جان سے مار ڈالا۔ تعجب ہے کہ جو سنتری یا سپاہی مسیح کی محافظت کے واسطےمقرر کئے گئے ایسے نڈر تھے کے سب کہ سب سوگئے۔اور سوئے بھی گھوڑے بیچ کر۔ قبر پر سے ایک بڑا بھاری پتھر جس پر مہریں لگی ہوئی تھیں سرکایا جارہا ہے۔ خاصہ شورہا ہے۔ خاصی دیر لگ رہی ہے۔ مگر وہ ایسی لمبی تانے پڑے ہیں۔ کہ کروٹ تک نہیں بدلتے۔ کون اس بات کو مانیگا؟ اب اگر یہ کہا جائے کہ اگر سپاہی واقعی اپنی غفلت کے سبب سے سزا پاتے تھے۔ اوراگر وہ سپاہی بھی جو مسیح کی قبر کے نگران تھے غافل ہونے کی وجہ سے معرض خطر میں آسکتے تھے توانہوں نے یہودیوں سے رشوت کیوں لی کیونکہ متی کہتاہے کہ سردار کاہنوں نے " بزرگوں کے ساتھ جمع ہوکر اورصلاح کرکے سپاہیوں کو بہت روپے دئیے اوربولے تم یہ کہنا کہ رات کو ہم سوتے تھے اس وقت اس کے شاگرد آکر اسے چرالے گئے اوراگریہ بات حاکم کے کان تک پہنچیگی تو ہم اسے سمجھ کر تمہیں اندیشے سے بچالینگے۔ پس انہوں نے روپے لے کر جیسے سکھاے گئے تھے ویسا ہی کیا۔اوریہ بات آج تک یہودیوں میں مشہور ہے "۔(متی ۲۸: ۱۲تا ۱۵)۔ اب اگرانہوں نے اپنے خطرے کو جان بوجھ کر یہ عہد کرلیا کہ ہم کہہ دینگے۔ کہ ہم سورہے تھے ۔ اوراس کے شاگرد آکر اس کی لاش کو چرالے گئے ۔ توانہوں نے قصداً اپنے اوپر وہ جرم لیا جس کی سزات موت تھی۔یا یوں کہیں کہ وہ جان بوجھ کر اپنی مرضی سے وہاں اجل میں جاپڑے۔ پر اس کے جواب میں ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ متی کی اس عبارت کے پڑھنے سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ یہودیوں نے یہ رشوت اس واسطے نہیں دی تھی کہ سپاہی حاک کے سامنے جاکر یہ کہیں ۔بلکہ اس لئے کہ عام لوگوں کو جوانہیں سزا دینے کا کچھ اختیار نہیں رکھتے تھے یہ کہیں کہ اُس کی لاش کو اُس کے شاگرد چرالے گئے ہیں۔ چنانچہ وہ رشوت دیتے ہوئے خود کہتے ہیں "۔ کہ اگریہ بات حا کے کان تک پہنچیگی توہم اسے سمجھاکر تمہیں بچالینگے"۔ جس سے صاف ظاہرہوتاہے کہ جب سپاہیوں نے روپیہ لیا تو اُس وقت اُن کو یقین تھاکہ یہ بات حاکم نہیں جائیگی۔ پس ہم روپے کیوں ہاتھ سے جانے دیں۔ اور کچھ تعجب نہیں کہ اُن کا یہ بھی خیال ہو کہ اگر اس معاملے کی حاکم کے سامنے باز پرس ہوئی توہم اسی طرح سارا حال صحیح صحح طورپر اُس کے سامنے بھی بیان کردینگے"۔دیکھو متی ۲۸: ۱۱۔

پس صاف ظاہرہے کہ ان سپاہیوں کے پہرہ میں سے مسیح کی لاش اُڑالے جانے ناممکن بلکہ محال تھا۔

پھر یہ بھی یادر ہے کہ یہ عید کا موقعہ تھا کئی لاکھ آدمی موجود تھے

ج۔ پھر اس بات پر بھی غو کیجئے کہ یہ موقعہ ایک بڑی عید کا موقع تھا۔ کہتےہیں کہ بیس تیس لاکھ یہودی اس موقعہ پر یروشلیم میں جمع ہوا کرتے تھے۔ اور وہ سب اپنےدینی رہنماؤں اورپیشواؤں سے پوری پوری ہمدردی رکھتے تھے۔ وہ مسیح کی پست حالی کے سبب سے اُسے مسیح موعود نہیں جانتے تھے ان لوگوں سے یروشلیم کے گلی کوچے بھرے پڑے تھے۔تعجب ہے کہ ان میں سے بھی کسی نے اُن کو لاش چراتے نہ دیکھا۔ اورنہ لے جاتے دیکھا۔ نہیں یہودی خود جانتے تھے کہ لاش چرائی نہیں گئے۔ چنانچہ جب پطرس اور یوحنا نے مسیح کے جی اٹھنے کی منادی کی تواُنہوں نے اُن کو کوڑے لگائے پر یہ نہیں کہا ہم تم کو اس لئے مارتے ہیں کہ تم نے مسیح کی لاش چرائی اورجھوٹ سے یہ بات مشہور کردی کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔ اُنہوں نے استفنس کو سنگسار کیا۔ اور اور مسیحیوں کو ستایا مگر اُن پر کبھی یہ الزام نہ لگایا کہ تم چور ہو۔ تم یسوع کی لاش چرالے گئے۔ اورتم نے جھوٹ موٹ یہ بات مشہور کردی کہ وہ جی اٹھا ہے۔ اب مذکورہ بالا باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ وہ تاویل جویہ کہتی ہے کہ مسیح کبھی زندہ نہیں ہوا بلکہ اُس کے شاگردوں نے اُس کی لاش چراکریہ مشہور کردیا کہ وہ زندہ ہوگیا ہے بالکل بے بنیاد ہے۔ بلکہ ناپاک ہے کیونکہ وہ اُن لوگوں پر جنہوں نے سچائی کے لئے اپنی جانیں دیدیں جھوٹ اور فریب کا الزام لگاتی ہے۔

دوسری تاویل

دوسری تاویل جوہم اوپر بیان کر آئے ہیں یہ ہے کہ مسیح مرا نہیں تھا بلکہ بے ہوش ہوگیا تھا۔ پھر جب کچھ عرصہ کے بعد اُس کو ہوش آیا تو وہ اپنے شاگردوں کو ملا۔ اور چند دن زندہ رہ کر پھر مرگیا اس تھیوری کے ماننے والے اس طرح استد لال کرتے ہیں۔ صلیبی موت میں خواہ ہاتھوں اورپاؤں میں میخیں بھی گاڑی جائیں تاہم خون بہت ضائع نہیں ہوتا۔ اورمصلوب کچھ بھوک کے مارے اورکچھ غش سے تڑپ تڑپ کر دیر بعد مرتاہے اب اگر مسیح صرف چھ گھنٹے کے بعد صلیب سے اتارا گیا تو وہ مرا نہیں تھا۔بلکہ غش کے سبب سے بے ہوش ہوگیا تھا۔ پس قبر میں تھوڑے عرصہ تک رہنے کے بعد وہ پھر ہوش میں آگیا۔ بعض کہتے ہیں کہ کسی مرہم کے استعمال سے وہ چنگا ہوگیا۔ اس دلچسپ بحث پرضربت عیسوی مصنفہ اکبر مسیح کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم یہاں صرف وہ خیالات پیش کرنا چاہتے ہیں جو ایسی کمزور تاویلوں کی تردید کرتے ہیں۔

انجیل شریف کا صاف بیان اس وہمی تاویل کا مخالف ہے

پہلی بات اس تاویل کی تردید میں یہ ہے کہ چاروں راوی انجیل شریف کی گواہی اس تاویل کے برخلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسیح واقعی مرگیا تھا۔ لڈن صاحب نے خوب کہا کہ یہ تو تعجب کی بات نہیں کہ وہ صلیب پر فقط چند گھنٹے رہ کر مرگیا۔ تعجب اس میں ہے کہ وہ اس سے جلدی کیوں نہ مرا کیونکہ اُس نے مصلوب ہونے سے پہلے سپاہیوں اور عوام کے ہاتھ سے بہت صدمے اٹھائے تھے۔ پھر ہم پڑھتے ہیں ۔ کہ بھالے سے اُس کی پسلی چھیدی گئی ۔ کیا وہ سپاہی کی برچھی کھانے کے بعد بہت مدت تک زندہ رہ سکتا تھا ؟ ہم کو انجیل نویس صاف بتاتے ہیں کہ سپاہیوں نے اُس کی ٹانگوں کو بالکل نہ توڑا کیونکہ وہ پلے ہی سے مرگیا۔ اورکہ پلاطوس نے لاش کو نیچے اُترنے نہ دیا ب تک کہ صوبہ دار سے دریافت نہ کرلیا کہ وہ فی الواقع مرگیا ہے۔ پر اگر یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ جب وہ صلیب پر سے اتاراگیا اُس وقت زندہ تھا۔ توایک اوربات سامنے آتی ہے جواُسے مدت تک زندہ رہنے نہ دیتی اور وہ یہ کہ جب یوسف ارمتیار اور نقودیمس نے اُس پر خوشبو بیان ملنی شروع کیں۔ اگر وہ اس وقت زندہ ہوتا تو دم گھٹ کر مرجاتا ۔ کیونکہ لکھا ہے کہ وہ کوئی پچاس سیر مرُ اور عود اپنے ساتھ لائے تاکہ اُن چیزوں کو اس کے جسم پر ملیں اورپھر اُس کے بعد یہودی دستور کے مطابق اُس کو کفن پہنایا ۔ یعنی اُس کا منہ سر سب کچھ لپیٹ دیا۔ یہ ساری باتیں دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ لوگ کیوں اس سیدھے سادھے بیان کو قبول نہیں کرتے۔ مورخ صاف بتاتے ہیں کہ وہ مرگیا تھا۔ دشمنوں کا بھالا صاف کہے دیتا ہے کہ وہ مرگیا تھا۔ پچاس سیر مُر اور عود گواہی دیتے ہیں کہ وہ مرگیا تھا ۔ کفن اورقبر پکاررہے ہیں کہ وہ مرگیا تھا۔ اُس کے زمانہ کے تمام یہودی کہتے ہیں کہ وہ مرگیا تھا(یہ بات قابل غور ہے۔کہ یہودیوں نے گواور کئی طرح سے شاگردوں پرحملہ کیا۔ مگر کبھی یہ نہیں کہا کہ مسیح صلیب پر کبھی مرا نہیں تھا۔ مگرہمارے بعض مہربان دوست اس بات کو نہیں مانتے حالانکہ خود اُس وقت موجود نہ تھے۔بروس صاحب نے اس موقعہ پر جو کلام سٹراس کی تحریر سے اقتباس کیا ہے غور کے لائق ہے۔

سٹراس اس لچر تاویل کا مخالف ہے

سٹراس کا نام اس کتاب میں باربار آچکا ہے۔ یہ شخص مسیحی نہ تھا۔ بلکہ مسیحی مذہب کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ اور مسیح کے جی اٹھنے کا قائل نہ تھا۔مگرتاہم اس تاویل کا مخالف تھا ۔ چنانچہ وہ کہتا ہے ۔" یہ ناممکن ہے کہ وہ شخص جو کہ ادھ موا سا قبر میں سے نکلا تھا۔ جو بیمار اور کمزور آدمی کی طرح لڑ کھڑا کرچلتا پھرتا تھا۔ جسے حکیم کےعلاج کی ضرورت تھی۔ جومرہم پٹی اور طاقت وغيرہ کا محتاج تھا اورجو آخر کاراپنی تکلیفوں سے مغلوب ہو ہی گیا ہاں یہ ناممکن ہے کہ ایسا شخص شاگردوں پر یہ اثر پیدا کرتاکہ وہ اسے موت اورقبر کا فاتح اور زندگی کا شہزادہ سمجھنے لگ جاتے۔پرہم دیکھتے ہیں کہ یہی عقیدہ اُن کی آئندہ خدمت کی تہ میں تھا۔ پس اگر وہ صرف غش سے ہوش میں آتا۔ تواس سے وہ اثر بھی جاتا رہتا جواُس نے پہلے اپنی زندگی اورموت کے وسیلے اُن پر ڈالا تھا۔ اس قسم کی زندگی شاید زیادہ سےزیادہ غم پیدا کرتی۔ لیکن کسی طرح سے اُن کے غم کو سرگرمی میں تبدیل نہیں کرسکتی تھی۔ اورنہ تعظیم کو عبادت میں"۔

ان دنوں اس خیال کو بیدار مغزا شخاص بہت کم مانتے ہیں۔ اورجو خیالات ہم اوپر عرض کرچکے ہیں اُن پر غور کرنے سے ہر منصف مزاج شخص کوماننا پڑتا ہے۔ کہ کوئی بات اس بے بنیاد تاویل کی تائید نہیں کرتی۔ پس مسیح صلیب پر سے زندہ اترا تھا۔

تیسری تاویل

اب ہم تیسری تاویل کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ تاویل ظاہر کرتی ہے کہ ہمارا مولا کبھی مردوں میں سے زندہ نہیں ہوا تھا۔ پر شاگردمدت تک اُس کی نسبت سوچتے رہے اورآخر کا ر اُن کے ذہن پر اُس کی صورت ایسی نقش ہوگئی کہ وہ خیال کرنے لگ گئے کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔یا یوں کہیں کہ اُس کی تصویر اُن کے سامنے کھنچ گئی۔

رینان کا خیال کہ مسیح کی دید کے نظارے وہم سے پیدا ہوئے تھے

اس دعوے کو رینان کے الفاظ میں یوں ادا کرسکتے ہیں"۔ سرگرمی اورمحبت کے لئے کوئی قید نہیں۔یہ دونو صفتیں ناممکن باتوں کو بھی ہلکا جانتی ہیں اور امید منقطع کرنے کے عوض حقیقی باتوں میں بھی تصرف کر بیٹھتی ہیں۔ لہذا کئی باتیں جو استاد نے کہی تھیں اس معنی میں لی گئیں کہ وہ قبر میں سے نکل آئیگا۔ علاوہ بریں یہ اعتقاد ان لوگوں کی طبیعت سے ایک خاص مناسبت رکھتا تھا۔ پس شاگردوں کا ایمان اس قسم کا قصہ بآسانی ایجاد کرسکتا تھا۔ حنوک اورالیاس جیسے بڑے بڑے نبیوں نے کبھی موت کا مزہ نہیں چکھا تھا پس جو کچھ اُن کے تجربہ سے گذرا تھا ضروری امر تھا کہ مسیح کے تجربے سے بھی گذرے موت کا کسی بالیاقت یا کسی کشادہ دل شخص کو مارنا ایسا پرُ حماقت کام معلوم ہوتاہے کہ لوگ نیچر کی ایسی غلطی کو مان نہیں سکتے۔ بہادر اشخاص کبھی نہیں مرتے۔ اس بزرگ اُستاد نے اس دائرے کو جس کا مرکز وہ آپ ہی تھا خوشی اوراُمید سے معمور کر رکھا تھا "۔

" پس کیا اُس کے شاگرد یہ دیکھ سکتے تھے۔ کہ وہ قبر میں پڑا سڑا کرے"؟ مطب رینان کا یہ ہے کہ اول تو مسیح کے کلام ہی میں بعض ایسی باتیں پائی جاتی تھیں جن کی یہ تشریح ہوسکتی تھی کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھیگا۔ اورپھر یہودیوں کے بعض نبی ایسے تھے جن کی نسبت مانا جاتا تھا کہ وہ کبھی موت کے چنگل میں گرفتارہی نہیں ہوئے۔ اب شاگرد چاہتے تھے کہ اُن کا استادان نبیوں سے کسی طرح کم نہ رہے لہذا ان سب باتوں نے مل جل کر یہ اثر پیدا کیا کہ انہوں نے اُسے قبر میں سڑتے دیکھنا گوارا نہ کیا۔پس اپنے واہمہ میں اسے زندہ دیکھ کر مشہور کردیا کہ وہ جی اٹھا ہے۔ گویا جب شاگردوں کی جماعت نے مسیح کو قبر میں پڑا دیکھا تواُن میں سے کسی ایک نے کہا کہ ہم رائے پیش کرتے ہیں کہ مسیح مردوں میں نہ رہے۔ دوسروں نے اس رائے کی تائید کی اورآخر کا ریہ زیرولیوشن پاس ہواکہ مسیح کسی نہ کسی طرح مردوں میں اٹھادیا جائے۔یوں معتقدوں کی جماعت مردے کو زندہ دیکھنے اورماننے کے لئے تیار ہوگئی اس پر طرہ یہ ہوا کہ جب انہوں نے قبر کوخالی دیکھا تو وہ اوربھی دھوکا کھانے کے لئے تیار ہوگئے۔ (لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ قبر کس طرح خالی ہوئی )مریم مگدلینی پہلی عورت تھی جس نے یہ وہمی رویہ دیکھی۔ وہ قبر کے پاس کھڑی روتی تھی۔ سوجب اُس نے ذراسی آہٹ سنی اور لوٹ کو نظر ڈالی توایک آدمی کودیکھا۔ اس سے پوچھا کہ نعش کہاں ہے ۔ اس سوال کے جواب میں اپنا ہی نام " مریم " سنا۔ یہ آواز تھی کہ جس نے بارہا اُس کے بدن میں لرزہ پیدا کردیا تھا۔ سواس نے سوچاکہ یہ مسیح کی آواز ہے۔ یوں محبت کا معجزہ کامل ہوگیا اب وہ کہتی ہے کہ میں نے اسے دیکھا اوراس کی آواز سنی ہے۔ اب جب ایک نے اس کودیکھ لیا تودوسروں کے لئے اسے دیکھنا کچھ مشکل کام نہ تھا پس یہ روئتیں ایسی متعدی ہوگئیں کہ ایک ایک شاگرد کو مسیح نظر آنے لگا۔ واضح ہوکہ اس طرح رینان اوراس کے ہم مکتب احباب نے مسیح کے جی اٹھنے کی نسبت رائے دی ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ جہاں جوش اوراُمید اورمحبت جیسی صفتیں موجود ہوتی ہیں وہاں اگربیرونی اسباب سے ذرا بھی مدد ملے تو فوراً جس شخص کو چاہیں اسی کو پوری پوری شکل پیدا ہوجاتی ہے۔ بلکہ یوں کہیں کہ وہ آپ آکر سامنے کھڑا ہوجاتاہے۔

سٹراس کا خیال

سٹراس اس عجیب وقوعہ کواورہی طرح حل کرتاہے وہ کہتا ہے کہ پولوس یہ دعویٰ کرتاہے کہ میں نے مسیح کو مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعددیکھا اورمیرا دیکھنا اسی قسم کا ہے۔ جس قسم کا پہلے رسولوں کا تھا۔ لیکن جو نظارہ پولوس کو نصیب ہوا اور وہ لاریب خیالی تھا اورپولوس اسی طبیعت اور مزاج کا آدمی تھا کہ ایسے خیالی نظاروں کودیکھنا اُس کے لئے کچھ مشکل نہ تھا۔ کیونکہ وہ خودہم کو بتاتاہے کہ ایک طرح کے وجد کی حالت اُس پر اکثر طاری ہوجاتی تھی( ۲کرنتھیوں ۱۲: ۱) اب اس کے اس قسم کے دعووں سے یہ خیال گذرتاہے کہ وہ شاید مرگی کی سی کسی بیماری میں گرفتار تھا اوریہی وہ سبب تھا جس کی وجہ سے عجیب قسم کے نظارے اُس کی آنکھوں کے سامنے آتے تھے۔ اورجب وہ وقت آیا جس وقت اسے مسیح کی پیروی کا فیصلہ کرنا پڑا۔ جس وقت طرح طرح کے جذبات اُس کے دل میں جوش زن تھے۔ جس وقت نئے اورپرُانے خیالوں میں ایک قسم کی جدوجہد جاری ہوگئی تھی اُس وقت اُس کے خیالات کا انسانی صورت اختیار کرکے اُس کے سامنے آکھڑا ہونا اُس کی طبیعت کے عین مطابق تھا۔ اورجو روشنی اُس کے تجربے سےہم کو ملتی ہے اس کی امداد سے یہ عقیدہ بھی حل ہوجاتاہے۔ کہ پہلے رسولوں اورشاگردوں نے کس طرح مسیح کو زندہ دیکھا یعنی جس طرح پولوس نے دیکھا اسی طرح انہوں نے دیکھا مسیح کی موت نے ان شاگردوں کے ایمان کو ہلادیا تھا۔اور اغلب ہے کہ اس وقت اُن کے دلوں میں یہ تحریک پیدا ہوئی ہو کہ کسی نہ کسی طرح اُس نقص پر جو مسیح کی موت سے برپا ہوا ہے غلبہ پانا ضروری امر ہے اوراس کے ساتھ جب انہوں نے نوشتوں کی چھان بین شروع کی تووہاں اس قسم کے نوشتے پائے جن سے ظاہرہوتاتھا کہ مسیح موت کا شکار توہوگا۔مگر موت اُس پر غالب نہ رہیگی۔ یوں اُنہوں نے موت اورجی اٹھنے کے ہر دوواقعات کو مسیح کے تجربہ میں شامل کردیا۔ پس جب مسیح مرگیا تواُنہوں نے یہ انتظاری شروع کی کہ وہ نوشتوں کے مطابق جی بھی اٹھیگا۔ اب جبکہ  وہ ایسے واقعہ کےظہور کے دل وجان سے منتظر تھے اُس وقت اُن کے انتظار میں سے مسیح کے جی اٹھنے کے وہ نظارے پیدا ہوئے جو انجیل شریف میں مندرج ہیں۔

اس تاویل کی تردید

یہ حل یا شرح سٹراس کی طرف سے ہے۔ پر اس تاویل پر بھی بڑے حملے کئے گئے ہیں اوراس کی کمزوریاں فاش کی گئی ہیں ۔ پہلی بات اس کے برخلاف یہ ہے کہ رینان اور سٹراس کی تھیوری کے مطابق بہت وقت کی ضرورت تھی کیونکہ قلیل سے عرصہ میں شاگردوں کے دل اس قسم کے وہمی نظاروں کے دیکھنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتے تھے۔ لیکن انجیل نویسوں کے بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ مسیح اپنی وفات سےکل تین دن بعد اُن کو نظر آنے لگ گیا۔ اب اگر مسیح ایسا جلد نظر آنے لگ گیا جیساکہ انجیل شریف کے بیان سے عیاں ہے تووہمی نظاروں والے خیال پرایک یہ اعتراض قائم ہوتاہے کہ یہ وقت ایسا نہ تھا کہ وہمی روئتیں یا نظارے نظر آتے۔ کیونکہ شاگرد اس وقت انجیل شریف کے بیان کے مطابق شکتہ خاطر اور غم کے بھنور میں مبتلا تھے۔ چنانچہ انجیل شریف اُن کی سی حالت پر گواہی دیتی ہیں۔ مثلاً متی کہتاہے کہ جب مسیح شاگردوں کو گلیل میں ملا تو بعض نے شک کیا"(متی ۲۸: ۱۷)۔ مرقس کہتاہےکہ جب شاگردوں نے مریم مگدلیہ سے سنا کہ مسیح زندہ ہے اور میں نے اسے دیکھا ہے توانہوں نے یقین نہ کیا"۔ لوقا بتاتا ہے کہ عورتوں کی باتیں شاگردوں کو " کہانی سی معلوم ہوئیں"(لوقا ۲۴: ۱۱) یوحنا ایک خاص شخص کا ذکر کرکے بتاتاہے کہ اُنہوں نے یک بیک مسیح کے جی اٹھنے کو قبول نہیں کیا۔(مثلاً وہ توما کا ذکر کرتاہے اوردکھاتاہے کہ وہ کس طرح اس واقعہ کی خبر کو قبول کرنے میں محتاط تھا۔ اگرہم یوحنا ۲۰: ۲۴تا ۲۹ کو پڑھیں تو ہم دیکھینگے۔ کہ جب اس کو مسیح کے جی اٹھنے کی خبردی گئی تو اُس نے جواب میں کہا " کہ جب تک میں اُس کے ہاتھ میں میخوں کے سوراخ نہ دیکھ لیوں اورمیخوں کے سوراخ میں اپنی انگلی نہ ڈال لوں اوراپنا ہاتھ اُس کی پسلی میں نہ ڈال لوں ہرگز یقین نہ کرونگا"۔ اسی طرح عورتیں بھی اُس کے جی اٹھنے کی مردوں کی نسبت کچھ زیادہ منتظر نہ تھیں۔ وہ اس کی قبر پر اس کو زندہ دیکھنے نہیں گئی تھیں بلکہ اس کی لاش پر عطریات وخوشبات ملنے گئی تھیں۔ اورانجیلی بیانات کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ شاگرد مسیح کی صورت کودیکھ کر کبھی اس فکر میں پڑجاتے تھے کہ جو صورت ہم دیکھ رہے ہیں کیا وہ ایک ہوائی نقشہ ہے یا حقیقی صورت ہے۔ اورکبھی اس بات پر غور کرتے تھے۔ کہ جس مسیح کی شکل ہم دیکھ رہے ہیں کیا وہ مسیح ہے جو ہمارے ساتھ رہا کرتا ہے یا ہم کوکسی اورچیز کی شکل نظر آتی ہے؟ انہوں نے اسے روح یا بھوت بھی سمجھا اوراُن کا یہ خیال وہی خیال ہے جو رینان اور سٹراس کا تھا۔اب ہم دیکھ یہ دیکھ کر کہ وہ خود رینان اور اسٹراس کی طرح ان نظاروں کو جوانہیں نصیب ہوئے مشاہدہ کرنیکے بعد یہ سوچتے تھے کہ وہ کہیں وہمی نہ ہوں اورانہوں نے اپنے وہم کو روکنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اوراس بات کا فیصلہ کرنے میں کہ جونظارے ہم مسیح کی شکل کے دیکھ رہے ہیں وہ کہیں جھوٹے نہ ہوں۔انہوں نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ ہاں ان سب باتوں کو دیکھ کر ہم کس طرح رینان اور سٹراس اوران کے ہم خیال لوگوں کے اس دعوے کو قبول کرسکتے ہیں۔ کہ مسیح حقیقت میں زندہ نہیں ہوا تھا۔ فقط اس کی صورت کےوہمی نظارے شاگردوں کی انتظاری کے باعث پیدا ہوگئے تھے؟

دیگر اعتراضات

مگر ماسوائے اعتراضات مذکورہ بالا کے ذیل کی باتیں اس رکیک تاویل کے برخلاف ہیں۔

۱۔ کہ اگر یہ نظارے وہمی ہوتے تو ایسے نہ ہوتے جیسے بیان ہوئے ہیں۔ جو مسیح اُن کو نظر آتاہے اُ س کی حالتیں اورطریقے اُس مسیح سے جومرنے سے پہلے اُن کے ساتھ رہتا تھا ۔ مختلف تھے۔ اورپھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نظارے باوجود عجیب وغریب ہونے کے صاف اور سادا بھی ہیں۔

۲۔ یہ نظارے بہت جلند بند ہوگئے۔ اگر یہ وہم سے پیدا ہوئے تھے تو چاہیے تھا ۔ کہ مدت تک وہم اپنا کام کرتا رہتا اور مسیح اُن کو ہمیشہ نظر آتارہتا۔ کیا سبب ہے کہ فقط چند دن تک مسیح کے نظارے اُن کو نصیب ہوئے اور پھر بند ہوگئے؟ اس کا اور کوئی جواب نہیں سوائے اس کے کہ مسیح فی الحقیقت جی اٹھا تھا اورجب جب وہ اُن کو نظر آیا انہوں نے اس کو دیکھا۔ اورجب آسمان پر تشریف لے گیا ۔ تب یہ نظارے بھی بند ہوگئے۔

۳۔ کہ جوتبدیلی شاگردوں کے مزاج میں مسیح کے نظاروں سے فی الفور پیداہوئی وہ اُس ذہنی حالت کے برخلاف ہے جس سے وہمی نظارے پیدا ہوتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مسیح اُن کو نظر آیا تو وہ فوراً اُن کی حالت تبدیل ہوگئی۔ اورانہوں نے مسیح کے مسیحائی درجہ کا صحیح عرفان حاصل کیا اوراسی وقت سے اس کے نام پر گواہی دینے کا مصمم ارادہ ٹھانا۔ اوریہ ہمت باندھی کہ ہم اپنے مولا کے نام کی جو مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔ تمام دنیا میں منادی کرینگے۔ اب اگر اُن کا دماغ یا مزاج اپنی اصلی صحت سے بہ سبب طرح طرح کے غور وفکر کے گرا ہوا تھا۔ اوروہمی نظاروں کے لئے تیار ہورہا تھا تو ضرور تھاکہ وہ کم از کم کچھ مدت تک اُسی حالت میں رہتا۔ پس اُن کے مزاج میں جوتبدیلی فی الفور پیدا ہوئی رینان اور سٹراس کی تاویل کے برخلاف ہے۔

چوتھی تاویل

اب بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اوپر کی تاویلوں کو تو ناقص سمجھتے اوراُن کی تردید میں بڑی زبردست دلائل پیش کرتے ہیں۔ مگر مسیح کے جسم کے حقیقی طورپر جی اٹھنے کےقائل نہیں۔ مثلاً مرقومہ بالا سطور میں جو تین باتیں رینان اور اسٹراس کی تھیوری کےبرخلاف پیش کی گئی ہیں وہ اسی قماش کے لوگوں میں سے ایک شخص کےقلم سے نکلی ہیں۔

کہ یہ نظارے وہمی نہ تھے مسیح کی قدرت سے ظاہر ہوئے تاہم مسیح کے زندہ بدن کے حقیقی نظارے نہ تھے

اس کا نام کیم ہے۔ وہ اوراس کے ہم خیال اشخاص یہ مانتے ہیں کہ مسیح کے مرنے کے بعد جو نظارے اُس کےجسم کے جی اٹھنے کے اس کے شاگردوں نے دیکھے وہ وہم سے نہیں پیدا ہوئے تھے بلکہ وہ سچے تھے۔ مگر اس معنی میں نہیں کہ مسیح درحقیقت اپنے بدن کے ساتھ جی اٹھا تھا۔بلکہ اس معنی میں کہ اس کی روح زندہ تھی اوراسی روح نے وہ نظارے شاگردوں کو دکھائے جواُنہوں نے دیکھے تاکہ اُن کے دلوں کو اطمینان حاصل ہوا اور وہ جانیں کہ ہمارا مولا زندہ ہے اورموت سے اس کا وجود معدوم نہیں ہوا۔

اس تاویل یا تشریح کا مطلب ظاہر کرنے کے لئے زیادہ خاصہ فرسائی کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمیں اُمید ہے کہ ناظرین نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس تاویل کے ماننے والے ان نظاروں کی صداقت اورحقیقت کےقائل ہیں ۔ کیونکہ وہ یہ نہیں مانتے کہ یہ نظارے جو انجیل میں درج ہیں محض وہم سے پیدا ہوئے مگر وہ یہ مانتے ہیں۔ اورہم سے منوانا چاہتے ہیں ۔ کہ جو بدن شاگرد دیکھتے تھےوہ حقیقی بدن نہ تھا۔ لیکن وہ شاگردوں کے وہم کا نتیجہ بھی نہ تھا۔ کیونکہ مسیح کی زندہ روح نے وہ نظارے پیدا کئے تھے تاکہ شاگردوں کو معلوم ہوجائے کہ مسیح فنا نہیں ہوا بلکہ زندہ ہے۔

ہم اس تاویل کو بھی نہیں مانتے

اب ہم اس تاویل کو بھی قبول نہیں کرسکتے گویہ تاویل مسیح کے بدن کے جی اٹھنے کے اظہاروں کو ایک طرح اُس کی زندہ روح کے عمل سے منسوب کرتی ہے ۔ دراصل یہ تاویل بھی اسی مشکل سے پیدا ہوتی ہے جو لوگوں کو سُپر نیچرل کا منکر بناتی ہے اس تاویل کی تردید میں ذیل کے خیالات پیش کئے جاسکتے ہیں ۔

یہ تاویل بعض فوق العادت باتوں کو مانتی ہے

۱۔ اس تاویل کے ماننے سے اُن لوگوں کو جنہوں نے اس کو تجویز کیا ہے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا۔انہوں نے بدن کے جی اٹھنے کو قوانین قدرت کے برخلاف سمجھ کر یہ تشریح گھڑی ہے۔ پر جیسا بدن کا مردوں میں سے جی اٹھنا قوانین قدرت خلاف ہے۔ ویسا ہی مسیح کی زندہ روح کا فوق العادت نظارے پیدا کرنا قوانین قدرت کے خلاف ہے۔ پس جب اس تشریح میں بھی قوانین قدرت کو پنا ہ نہیں ملتی تو کیا ضرورت ہے کہ ہم انجیل کے سادا بیانات سے خلاف ورزی اختیار کریں اورکلیسیا کی قدیم تشریح اور عقیدے کو رد کریں۔

یہ تاویل روح کو جھوٹا ٹھیراتی ہے

۲۔ یہ شرح مسیح کی روح کو جس سے مسیح کے اظہارات منسوب کئے جاتے ہیں جھوٹا ٹھیراتی ہے کیونکہ تاویل ایک طرف تو یہ مانتی ہے ۔ کہ جن اظہارات کا ذکر انجیل شریف میں پایا جاتا ہے وہ مسیح کی روح کی قدرت سے وجود میں آئے پر دوسری جانب مسیح کے بدن کے جی اٹھنے کا انکار بھی کرتی ہے۔ اب اعتراض یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر مسیح کا بدن نہیں جی اٹھا تھا۔ تو اسکی روح نے شاگردوں کی تسلی کےلئے اوراُن کو یہ یقین دلانے کے لئے کہ مسیح نے فنا نہیں ہوا بلکہ زندہ ہے معجزانہ آواز کے وسیلے یہ خبر کیوں نہ دی کہ اے شاگردو تم کو معلوم نہیں ہونا چاہیے۔ اورنہ گھبرانا چاہیے۔ تمہارا استاد جو مرگیا تھا اس کی روح اب تک زندہ ہے؟ اگریہ خبر آواز کے وسیلے دی جاتی تو اس کے شاگرد اس کے جسم کو زندہ سمجھنے کی غلطی میں گرفتار نہ ہوتے۔ مگر برعکس اس کے ہم یہ دیکھتے ہیں ۔ کہ آسمان سے جب اس کی روح کے زندہ ہونے کی خبر آتی ہے۔ تووہ ایسے واقعات اورایسے الفاظ میں آتی ہے جو جسم کےزندہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں ۔ اب اگر مسیح کا جسم مردوں میں سے نہیں جی اٹھا تھا تو واقعی یہ آسمانی تار برتی صداقت کے اظہار کے بالعوض زیادہ تر مغالطہ میں ڈالنے والی تھی۔

سب سے آسان بات

پس سب سے آسان بات یہ ہے کہ ہم اُس بیان کو سچا اور راست سمجھیں جو انجیل شریف میں مندرج ہے۔ جس سے یہ ظاہرہے ہوتاہے ۔ کہ وہی جسم جو قبر میں رکھا گیا تھا ۔ پھر جی اٹھا اور شاگردوں کو نظر آیا اب کیا ہم اس بات کو اسلئے ردکریں کہ وہ مردہ بدن کا جی اٹھنا ہماری سمجھ سے باہر ہے؟ کیا اس بات کا سمجھنا زیادہ آسان ہے کہ مسیح کی زندہ روح خلا میں ایسی شکلیں پیدا کرسکتی تھی۔ جو مسیح کے مشابہ تھیں۔ مگر درحقیقت مسیح نہ تھیں ؟ ہماری رائے میں وہ آسمانی خبر جو زمین پر آکر ایک جسمانی صورت اختیار کرسکتی تھی ایسا ہی عجوبہ تھا۔ جیسا مردہ جسم کامردوں میں سے جی اٹھنا۔

پانچویں تاویل اور وہ فرق جو اُس میں اورباقی تاویلوں میں پایا جاتاہے

واضح ہوکہ مذکورہ بالا تشریحیں اس بات کی قائل ہیں کہ شاگردوں کے تجربہ سے کوئی نہ کوئی بات گذری جس سے یہ اعتقاد پیدا ہواکہ مسیح کا مردہ بدن زندہ ہوگیا ہے ۔لیکن آخری تشریح جس کا ذکر ہم اب کرنے لگے ہیں وہ کسی طرح کے تجربہ کی قائل نہیں یعنی وہ یہ مانتی ہے کہ مسیح صلیب پر سےبحالت غش اترا اور چند عرصہ کے بعد پھر ہوش میں آیا اوراس سے یہ بات مشہور ہوگئی کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔ اورنہ یہ مانتی ہے کہ شاگردوں کے واہمہ نے خیالی مسیح کی شکل اُن کے سامنے پیدا کردی اورنہ یہ ہی مانتی ہے کہ مسیح کی روح نے وہ نظارے پیدا کئے جو بعد میں اُس کا مردوں میں سے جی اٹھنا سمجھے گئے۔

اس آخری تاویل کا دعویٰ ہے کہ شاگردوں نے کسی طرح کا نظارہ نہیں دیکھا تھا

اس آخری تاویل کے مطابق کوئی ایسی بات سرزد نہیں ہوئی بلکہ مسیح مرگیا اور دفن ہوا اوربرابر اپنی قبر میں پڑا رہا۔ پر جب یہ پوچھا جاتاہے کہ مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کا اعتقاد کس طرح پیدا ہوا؟ تواس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے ۔ کہ شاگرد اس بات کو مانتے تھے کہ مسیح جو مصلوب ہوا ہے۔ اب بھی زندہ ہے۔ اوروہ عام لوگوں کی طرح زندہ نہیں بلکہ حنوک اور موسیٰ اورالیاس جیسے خاص خاص بزرگوں کے ساتھ زندہ ہے۔ اور فرشتوں کے ساتھ بودوباش کرتاہے جس وقت کلوری کا صدمہ ذرا ہلکا ہوا تو یہ اعتقاد فوراً ان کے دل میں پیدا ہوا۔ اوریہ اعتقاد ایک ایسا اعتقاد ہے جو ہر ایک شخص رکھتاہے یعنی جب حبیبوں کی جدائی کا رنج ذرا کم ہوجاتاہے تواس کے بعد یہ خیال پیدا ہی ہوجاتاہے ۔ کہ ہمارا پیارا فنا نہیں ہوا بلکہ زندہ ہے۔ یہی حال شاگردوں کا بھی ہوا۔ بلکہ اُن کو مسیح کے زندہ ہونے کا یقین اوربھی زیادہ تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ توایک بزرگ آدمی ہے جو کبھی فنا نہیں ہوسکتا ۔ یہ سچ ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے مسیح کو خودیکھا ہے پر اس کی وجہ یہ تھی ۔ کہ اگر وہ ایسا نہ کہتے تو کوئی اس بات کو ہر گز ہر گز نہ مانتا کہ مسیح آسمان پر زندہ موجود ہے ۔ کیونکہ اور لوگ مسیح کے حالات سے ایسے طور پر واقف نہ تھے جس طرح یہ شاگرد تھے۔ پس اُن کا یہ کہنا کہ ہم نے مسیح کو دیکھا ہے۔ اُسی طرح کا تھا۔ جس طرح پولوس کا یہ دعویٰ تھا کہ میں نے بھی مسیح کو دیکھاہے۔ مگر پولوس کا مسیح کا دیکھنا روحانی قسم کا تھا۔ پر پولوس اُس نظارے کوجو اُسے نصیب ہوا اُن نظاروں کی مانند بتاتا ہے جو اُن شاگردوں کو نصیب ہوئے۔ پس وہ نظارے جو شاگردوں کو حاصل ہوئے پولوس والے نظارے کی مانند محض روحانی تھے۔

اگریہ نظارے محض روحانی تھے تو مسیح کے جی اُٹھنے کی روایت کس طرح پیدا ہوئی

پر جب ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اگریہ نظارے روحانی تھے۔ تو پھر یہ عقیدہ کس طرح پیدا ہوا کہ مسیح مردوں میں سے بدن کے ساتھ جی اٹھا ؟ اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ عقیدہ اس سبب سے پیدا ہوا کہ یہودی اورغیر یہودی مسیح کے جی اٹھنے کے ثبوت میں روحانی یا وہمی نظاروں کی نسبت زيادہ بہتر اور مضبوط دلیل طلب کرتے تھے۔ پس جب اُن مسیحیوں نے جو رسولوں کے شاگرد تھے اس حالت کو دیکھا توجو کچھ انہوں نے رسولوں سے سنا تھا اُس کو بدل ڈالا ۔ چنانچہ روحانی نظاروں کو مادی نظارے بنادیا۔ اور رسول اس بات کودیکھ کر چپ رہےاور اس غلطی کی اصطلاح کی طرف بہت توجہ نہ کی۔

اس تاویل کے متعلق دو سوال

اب اس تاویل پر بھی دو اعتراض یا دو سوال کئے جاسکتے ہیں اور وہ یہ ہیں ۔

۱۔ کیا یہ تاویل پہلے شاگردوں کی حالت کا صحیح صحیح بیان رقم کرتی ہے؟

۲۔ کیا یہ تاویل واقعی زیادہ صحیح حل مسیح کے بدن کے جی اٹھنے کا پیش کرتی ہے؟

یہ تاویل یہودی عقیدے کے خلاف ہے

۱۔ پہلے سوال کی نسبت یہ کہا جاسکتا ہے ۔ کہ یہ تاویل یہودی عقیدے کےبرخلاف ہے۔ اس تاویل کے مطابق جو نقشہ آئندہ زندگی کا ہمارے سامنے آتا ہے وہ اپنی خصوصیات میں پیگن(بت پرست) عقیدے کے مطابق ہے اور یہودی عقیدے کے مطابق نہیں۔ بت پرست لوگ یہ مانتے تھے ۔کہ جو زندگی قبر کے بعد آتی ہے وہ خالص روحانی زندگی ہے۔ مگر یہودی یہ نہ مانتے تھے کہ جو زندگی قبر کے پرے ہے وہ گوجسم کی کمزوریوں سے بری ہے تاہم وہ انسانی زندگی ہے اورحسات سے محسوس کی جاسکتی ہے۔

پولوس کے تجربہ کا صحیح حل

علاوہ بریں پولوس کے تجربہ کی نظیر جس طرح پیش کی جاتی ہے وہ طرز بالکل ناقص ہے۔ پولوس کی شہادت ہمارے لئے بڑی بیش قیمت ہے۔ اول اس لئے کہ وہ کسی کی سنی سنائی بات پیش نہیں کرتا۔ بلکہ جوکچھ خود اس پر گذرا تھا اسے پیش کرتاہے اورپھر اس لئے بیش قیمت ہے کہ اس کی راست گوئی اوردیانتداری پر کسی طرح کا  دھبہ نہیں اورنہ اس کی حقیقت شناس قابلیت پر کوئی شک لاسکتاہے۔ وہ صاف بتاتا ہے کہ میں نے مسیح کو دیکھا۔ پر مخالف کہتاہے کہ ہاں اُس نے اُسے دیکھا مگر روحانی طور پر ۔ ہم کہتے ہیں کہ کیا وہ بیانات جو اعمال کی کتاب میں درج ہیں جن میں وہ مسیح کو دیکھنے کا دعویٰ کرتاہے روحانی نظاروں کی خبردیتے ہیں ؟ اس کے جواب میں یہ کہا جاتاہے ۔ کہ اعمال کے وہ بیانات قابل تسلیم نہیں ہیں۔اگرہم اعمال کوبھی چھوڑدیں توبھی اُس کے خط اسبات پر گواہی دینگے۔ مثلاً وہ اپنے خط کرنتھیوں میں دوبارہ مسیح کودیکھنے کا ذکر کرتاہے ۔(۱کرنتھیوں ۹: ۱، ۱۵: ۸) اب ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ پولوس کے اس دیکھنے سے محض روحانی معنی نہیں لئے جاسکتے ۔ ذرا غور کرنے سے ہمارا مطلب سمجھ میں آجائيگا۔ پولوس کی حلت اسوقت نہایت نازک تھی۔ بہت لوگ اس کی رسالت پر حملہ کرتے تھے۔ اورکہتے تھے ۔ کہ اسے کچھ اختیار نہیں کہ وہ انجیل کی نئی نئی تفسیریں پیش کرے۔ کیونکہ اُسے گیارہ رسولوں کی طرح مسیح کی طرف سے رسولی اختیار عطا نہیں ہوا۔ اب پولوس اپنے دعویٰ کی تائید میں منجملہ دیگر باتوں کے ایک یہ بات پیش کرتاہے کہ" میں نے سیدنا مسیح کودیکھاہے"۔

پولوس کی کیا غرض تھی جب اُس نے کہا کہ میں نے مسیح کودیکھا ہے

اب اگر اُن الفاظ سے اُس کی مراد محض روحانی اظہار یا دیدار سے تھی تواس سے دعوے رسالت کی کچھ تقویت نہ پہنچتی کیونکہ میں حالت میں اُس کے مخالف ضرور کہتے کہ اس قسم کے روحانی یا ذہنی نظارے اپنے اپنے دماغی خیالات کے مطابق ہر شخص کو نصیب ہوسکتے ہیں ۔ پر وہ اُن حقیقی نظاروں کو جو پہلے گیارہ رسولوں کو نصیب ہوئے کب پہنچتے ہیں ۔ اب اسی قسم کے حملوں سے اپنے تئیں بچانے کی غرض سےپولوس نے یہ کہا کہ جس طرح دیگر رسولوں نے مسیح کو مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعددیکھا اُسی طرح میں نے اُس کودیکھاہے ۔ اُنہوں نے اُسے جسم کے ساتھ دیکھا اُسی طرح میں نے اُس کو جسم کے ساتھ دیکھا ہے۔ زمانہ حال کے نکتہ چین اُس مشابہت سے جو اُن نظاروں میں پائی جاتی ہے جوپہلے گیارہ رسولوں اور شاگردوں کو اورپھر پولوس کے فرضی روحانی نظارے کی مانند گرادنتے ہیں۔ مگر بیچارا پولوس اپنے دعویٰ کی مضبوطی اور تقویت کے لئے یہ دکھانا چاہتا تھا کہ زندہ مسیح کا جو دیدار مجھ کو حاصل ہوا ہے وہ بہر نج اُسی طرح کا مادی اورفزیکل تھا۔ جیسا وہ پطرس اوردیگر شاگردوں کو نصیب ہوا۔ وہ یہ مانتا تھا کہ ان شاگردوں نے زندہ مسیح کے جسم کو اپنی آنکھ سے دیکھا اور دعویٰ کرتا تھا کہ اسی طرح میں نے مجسم مسیح کود یکھاہے۔ مگرمسیحی مذہب کے بیشمار مخالف اپنی مطلب براری کے لئے بات کو بالکل اُلٹ دیتے ہیں۔ قبل ازیں کہ ہم پولوس کے نظارے کو روحانی یا ذہنی یا وہمی نظارہ قرار دیں زیبا ہے کہ ہم اُس کے خطوط اوراعمال کی کتاب کا مطالعہ غوروفکر کے ساتھ کریں اوردیکھیں کہ وہ شخص جس نے اپنی گواہی کے لئے اپنی جان دیدی ۔ جس کی دماغی قوتیں برقرار تھیں۔ جوعلم وفضل سے بہرہ ور تھا وہ اس نظارے کی نسبت کیا کہتاہے۔

۲۔ اورپھر جب ہم دوسرے سوال کی طرف رُخ کرتے اورپوچھتے ہیں کہ اگر مسیح زندہ نہیں ہوا تھا۔ اگر وہ نظارے جو شاگردوں کو نصیب ہوئے محض ذہنی یا روحانی تھے تو یہ اعتقاد کس طرح پھیل گیا کہ وہ دوسروں میں سے اُسی بدن کے ساتھ جی اٹھا جس بدن کے ساتھ مصلوب ہوا ؟ تو اس کے جواب میں جو کچھ کہا جاتاہے ۔ وہ بھی تسلی بخش نہیں ہے۔

دوسرے سوال کا جواب جو مخالفوں کی طرف سے ملتا ہے ذرا بھی تسلی بخش نہیں

اب جو کچھ اس دوسرے سوال کے جواب میں کہا جاتا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کی روایت اس اعتقاد پیدا کرتے ہیں اوریہ نہیں مانتے کہ اُس کے بدن کے جی اٹھنے کےسبب سے اس کی دائمی حیات کا عقیدہ پیدا ہوا۔ اسی طرح مخالف اسکے معجزوں کے ساتھ زبردستی کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتےہیں کہ مسیح سےمعجزے اس واسطے منسوب کئے گئے کہ لوگ اسے یہودی نبوت کا مسیحا مانتے تھے۔ پر یہ نہیں دیکھتے کہ لوگوں نے اسے یہودی نبوت کا مسیحا اس لئے مانا کہ اس نے بڑے بڑے معجزات کر دکھائے۔ اورخود دعویٰ کیا کہ مجھے میرے کاموں (معجزوں ) کے سبب سے قبول کرو۔ یہ بات غور طلب ہے کہ مخالفوں کی باتوں میں آپ ہی اختلاف پایا جاتاہے مثلاً اسٹراس مسیح کے معجزوں کی نسبت تویہ کہتا ہے کہ یہ معجزے اس سے واسطے منسوب کئے گئے کہ شاگرد اُسے مسیح موعود مانتے تھے۔ یعنی اس اعتقاد سے معجزات پیدا ہوئے نہ کہ معجزات سے اعتقاد پر جب مسیح کے جی اٹھنے کی طرف رخ کرتاہے توکہتاہے کہ یہ عقیدہ کبھی پیدا نہ ہوتا۔ اگرکسی نہ کسی طرح کا نظارہ شاگردوں کو حاصل نہ ہوتا پراُس کے زعم میں جو نظارہ ان کو نصیب ہوا وہ وہ رویت تھی جوانہیں کے دماغ کی خاص حالت نے اُن کے لئے پیدا کردی اب اس واقعہ کے بارے میں وہ صاف اقبال کرتاہے کہ اُن کے کسی پہلے اعتقاد سے جی اٹھنے کی روایت پیدا نہیں ہوئی ۔ بلکہ جی اٹھنے کے نظاروں نے (خواہ وہ وہمی ہی سہی ) اُس کے جی اٹھنے کی روایت پیدا کی اب ہم دیکھتے ہیں کہ سٹراس ایک جگہ اعتقاد کو مسیحی معجزات کے پیدا ہونے کی وجہ مانتا ہے ۔ اوردوسری جگہ یعنی مسیح کے جی اٹھنے کے معاملے اس ترتیب کو الٹ دیتاہے اورماننے لگ جاتاہے کہ یہ اعتقاد کسی خاص واقعہ سے پیدا ہوا نہ کہ کسی اعتقاد سے اس واقعہ کی روایت پیدا ہوئی ۔ ہماری رائے میں اُس کا خیال صحیح ہے۔ اورہم اُسے تاول زیر بحث کے جواب میں پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس اعتقادسے کہ مسیح کی روح زندہ ہے بدن کے مردوں میں سے جی اٹھنے کی روایت پیدا نہیں ہوسکتی تھی۔ بلکہ یہ لازمی امر تھا کہ مسیح کی جی اٹھنے کے نظارے پہلے نصیب ہوتے اور پھر یہ بات مشہور ہوتی ک مسیح مردوں میں سے جی اٹھاہے۔ پھر اس بات پربھی غور کرنا چاہیے کہ تاویل سب رسولوں اور شاگردوں کو فریبی بناتی اورجھوٹا ٹھیراتی ہے ۔ کیونکہ اس کے ماننے والے کہتے ہیں کہ شاگردوں نے اس واسطے یہ کہا کہ ہم نے مسیح کو دیکھاہےکہ اُن کے سننےوالے یقین کریں کہ مسیح فنا نہیں ہوا ۔ بلکہ زندہ ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کہتے توکوئی اُن کی بات کو نہ مانتا ۔ پر کیا رسول اورشاگرد نہیں جانتے تھے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مسیح مردوں میں سے اپنے اصل بدن کے ساتھ جی اٹھا ہے تو سننے والے وہی مطلب سمجھینگے جوان لفظوں سے ظاہر ہوتاہے ۔ کہ وہ ہماری گواہی کی بنا پر یہ ماننے لگ جائینگے کہ جو مسیح مصلوب ہوا تھا وہی مردوں میں سے جیٹھا اگرانہوں نے یہ سب باتیں جان کر بڑے زورشور سے یہ منادی کی کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ہے تو دیدہ ودانستہ لوگوں کو دھوکا دیا۔ اس میں اُن کی سچائی ، اُن کی دینداری، اُن کی دیانتداری کہاں رہی ؟ پس ہم اس تاویل کو بھی نہیں مان سکتے۔ کیونکہ یہ بھی مشکلات سے پرُ ہے ۔

حقیقی شرح کیا ہے

اب ہم نے دیکھ لیا کہ تاویلیں جو مخالفوں کی طرف سے مسیح کے مردوں سے جی اٹھنے کی روایت کی تشریح کے لئے پیش کی جاتی ہیں کسی طرح صاف اور مشکلات سے بری نہیں۔ اب ایک ہی اور شرح باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ جیسا انجیل شریف میں لکھا ہوا ہے مسیح اُسی طرح حقیقت میں مردوں سے جی اٹھا اوراپنے شاگردوں کو دکھائی دیا۔ اب ہم تھوڑی دیر کے لئے اس بات پر غو رکرینگے کہ اس شرح کے ثبوت میں عموماً تین دیلیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

وہ دلائل جو مسیح کے جی اٹھنے کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہیں

واضح ہو کہ اس واقع کے ثبوت میں عموماً  تین دیلیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔

۱۔ یہ کہ انجیل شریف میں صاف اس قسم کی گواہی موجود ہے کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ۔

۲۔ کہ شاگردوں کے مزاج اوراطوار کی تبدیلی اورمسیحی مذہب کے عروج اورترقی سے ظاہر ہوتاہے کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا۔

۳۔ مخالفوں کے مخالفانہ اعتراضوں کی ناکامی سے ثابت ہوتاہے کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ۔ تیسری دلیل کے متعلق اورکچھ نہیں لکھینگے کیونکہ جو کچھ اس کے متعلق ہمیں رقم کرنا تھا سو ہم کرچکے ہیں۔

۱۔ پہلی دلیل کے متعلق ہم مختصر طورپر دکھائینگے ۔کہ اول تو اس بات کا صاف ثبوت اُن کتابوں میں پایا جاتاہے جو مسیحی کتابیں کہلاتی ہیں اور دوم یہ ثبوت اس گواہی سے بہم پہنچتا ہے جو پہلی صدی کے مسیحیوں سے ان ڈائرکٹ طورپر ہم تک پہنچتی ہے ۔

جن کتابوں کی اصلیت پر یورپین معترضوں نے اعتراض نہیں کیا اُن میں مسیح کے جی اٹھنے کا بیان درج ہے

ہم اوپر ایک جگہ مسیحی نوشتوں کی اصلیت اور معتبری پر بحث کرچکے ہیں لہذا ضرورت نہیں کہ اس جگہ پھر اسی مضمون پر بہت کچھ تحریر کیا جائے ۔ تاہم اس قدر پھر اس مضمون پر تحریر کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ پولوس رسول کا وہ بیان جو ۱کرنتھیوں کے ۵باب میں قلمبند ہے اُس پر کسی نے غیر اصلی ہونے کا الزام نہیں لگایا۔ یعنی کرٹک(نکتہ چیں) مانتے ہیں کہ یہ مقام پولوس کا لکھا ہوا ہے ۔ اسی طرح مرقس اورلوقا کو رینان جیسے نکتہ چینوں نے قبول کیا ۔ چنانچہ رینان مانتا ہے کہ مرقس کی انجیل ایک ایسے شخص کی لکھی ہوئی ہے جو پطرس کا رقیق تھا اورلوقا کی انجیل کا مصنف پولوس کا ساتھی تھا۔ اورکہ اُسی شخص نے اعمال کی کتاب کو بھی تحریر کیا ہے۔ اسی طرح وہ بحث بھی جو آج کل یوحنا کی انجیل کی تصنیف پر ہورہی ہے اُس کی اصلیت کی تائید کرتی ہے۔ البتہ متی کی انجیل کی نسبت اس بات پر بحث ہے کہ وہ کس طرح عبرانی اوریونانی دونوزبانوں میں جدا جدا مروج ہوئی مگر اس بحث سے کلیسیا ئی روایت کو ضعف نہیں پہنچا۔ بلکہ فائدہ ہی ہوا ہے ۔ چنانچہ اسٹراس جس جیسے مخالفوں نے اس انجیل کی نسبت یہ رائے دی ہے کہ اس سے مسیح کی زندگی کا کافی پتہ لگ سکتا ہے۔ اور مکاشفات کا حال یہ ہے کہ جو یوحنا کی دیگر کتابوں پر حملہ کرتے ہیں وہ اس کو اس کی تصنیف قبول کرتے اورمانتے ہیں کہ وہ یروشلیم کی تباہی سے پہلے تحریر کی گئی تھی۔

انجیل شریف میں جگہ جگہ اس کی خبر ملتی ہے

نئے عہد نامہ میں جا بجا مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کی طرف اشارا پایا جاتاہے اوراگر آپ اس بات کو تحقیق کرنا چاہیں تو آپ کنکارڈنس (کلید الکلام) لے کر ان مقامات کو نکالیں جہاں مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کا ذکر پایا جاتاہے ۔ اگر آپ ایسا کریں، توآپ دیکھینگے کہ رسول یا مصنف بہت سے مقاموں میں اس بات کا ذکر اس لئے نہیں کرتے کہ لوگوں کو یہ خبر دیں کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ہے بلکہ اور تعلیموں یا مسئلوں یا فرضوں کا ذکر کرتے ہوئے اس واقعہ کا ذکر کرجاتے ہیں کیونکہ اس کا تعلق اُن تعلیمات وسائل سے ہوتاہے جن پر وہ اس جگہ لکھ رہے ہیں ۔ مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا مسیحی مذہب کی تعلیمات اور مسیحی زندگی سے ایسا گہرا تعلق رکھتاہے کہ بات بات پر اس کی طرف اشارہ کرنا ضرور ی معلوم ہوتاہے مگر ہم یہاں ایسے مقاموں میں گھسنا نہیں چاہتے ۔ پس اس جگہ ہم فقط انہیں مقاموں پر اکتفا کرینگے۔ جن میں مسیح کے زندہ ہونے اور رسولوں کو نظر آنے کا ذکر پایا جاتا ہے۔

کتنی دفعہ مسیح نظر آئے

دس دفعہ انجیل شریف میں جی اٹھنے کے بعد مسیح کے ظاہرہونے کا ذکر آتاہے۔ پانچ دفعہ اس دن دکھائی دیا جس دن مردوں میں سے جی اٹھا اورپان دفعہ اُس دن کے بعد اور عروج سے پہلے نظر آیا۔ اورپھر صعود کے بعد ایک دفعہ پولوس کو نظر آیا اورایک دفعہ بعض کے خیال کے مطابق یوحنا رسول کو جزیرہ پٹماس میں دکھائی دیا(دیکھو متی ۲۸: ۲۰، مرقس ۱۶: ۱تا ۸، یوحنا ۲۰: ۱۔۲۹، ۲۱: ۱۔ ۲۵، ۱کرنتھیوں ۱۵: ۵۔۹ مکاشفات ۱: ۹۔۱۸)۔اب ان تمام مقاموں کے مطالعہ سے بخوبی ظاہر ہوتاہے کہ اس کا جی اٹھنا  ایک حقیقی واقعہ ہے۔ اس عرصہ میں وہ اپنے شاگردوں کو دکھائی دیا۔ ایک مرتبہ پولوس کے قول کےمطابق دیکھنے والوں کا شمار پانچ سو کے تھا۔ وہ اُن سے گفتگو رہا ، اوراُن کے ساتھ کھایا پیا۔ اپنے زخموں کے نشان انہیں دکھائے۔اوراُن کو رسولی خدمت بجالانے یعنی تمام دنیا میں انجیل سنانے کا حکم دیا اوراپنی دائمی حضوری کے وعدے سے اُن کی تسلی اور تشفی کی اور حوصلہ بڑھایا۔

کیا ان بیانوں کی ظاہری ناموافقت سے یہ ظاہر ہوتاہے۔ کہ یہ واقعی درست نہیں ہے

ان مقاموں کی نسبت دوتین باتوں کا ذکر کرنا بہت ضروری معلوم ہوتاہے اُن میں سے ایک یہ ہے کہ مخالفوں نے اکثراوقات اُن وہمی اختلافوں پربڑا حملہ کیا ہے جومسیح کے جی اٹھنے کے بیانات میں اُن کو نظر آئے ہیں ہم اس کی نسبت یہ عرض کرتے ہیں کہ جو بات ہمارے مخالفوں کو ہماری کمزوری کا باعث معلوم ہوتی ہے وہی ہمارے زور کا سبب ہے۔اگرانجیل نویس ایک ایک شوشے اورنقطہ میں موافقت ظاہر کرتے توہم کو سازش کا شک گذرتا اورہم اُن کی گواہی کے قبول کرنے میں شش وپنج کرتے۔ مگر اُن کی تحریر اس قسم کی موافقت کے داغ سے مبرہ ہے اُن کے ایک ایک لفظ سے سچائی اور دیانتداری ٹپکتی ہیں۔اگرآپ یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیاواقعی مختلف انجیل شریف کے مختلف بیانوں میں حقیقی اختلاف پایا جاتا ہے تو یہ کام مشکل نہیں تطبیق انجیل شریف کا ملاحظہ فرمائیں اوردیکھیں کہ جوالزام لگایا جاتا ہے وہ صحیح ہے یا غلط ۔ آپ دیکھینگے کہ اختلاف کی جگہ اُن کے بیانوں میں پورے درجہ کا اتحاد موجو دہے۔ پھر بعضوں نےیہ اعتراض بھی کیا ہے کہ جتنا وقت ان نظاروں کو دیا جاتاہے وہ ان کے ظاہر ہونے کے لئے کافی نہ تھا۔ پس یہ سچے نظارے نہیں۔ہم کہتے ہیں کیا چالیس دن ان نظاروں کے لئے کافی نہ تھے۔

ایک اور اعتراض یہ ہے کہ کیوں مسیح اپنے جی اٹھنے کے بعد یہ سب یہودیوں اور بت پرستوں کو نظر نہ آیا؟ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ سب کو دکھائی دے کر ثابت کرتا۔ کہ میں مردوں میں سے جی اٹھا ہوں؟

مسیح جی اٹھنے کے بعد یہودیوں اور غیر قوموں کو کیوں نظر نہ آئے؟

ہم اس کے جواب میں یہ کہتےہیں کہ یہ نظارے صرف انہیں نصیب ہوسکتے تھے جو ان کے قبول کرنے کے لئے تیار گو شاگردوں نے پہلے پہل ایسا ظاہر کیاکہ گویا وہ شک میں ہیں۔مگر درحقیقت اُن کے دل ہر طرح کی مخالفت اور بغاوت سے آزاد تھے۔ لہذا وہ اسے قبول کرنے کو تیار تھے۔ پر اگر وہ یہودیوں کو نظر آتا تو کیا نتیجہ ہوتا؟ یہ کہ وہ اسے پھر صلیب دینے کے لئے تیار ہوجاتے یا کسی اورطرح کا بہتان اُس پر یا اُس کے شاگردوں پر باندھتے اوراگر یہ کہا جائے کہ لازم تھاکہ وہ جی اٹھنے کے بعد اپنی قدرت سے اُن کی مخالفت کو مغلوب کرتا تو اس کا جواب یہ ہے۔ کہ اگر اُسے یہ منظور ہوتاکہ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرے تو وہ پہلے ہی مصلوب کیوں ہوتا؟یا آسمان ہی سے کیوں آتا؟ یادر ہے کہ وہ ایمان جو جبر سے پیدا ہوتاہے وہ اخلاقی عالم میں کچھ وقعت نہیں تھا۔ پس سیدنا مسیح کو یہ منظور تھا۔ کہ پہلے اس کے شاگرد اُسے دیکھیں اوراُس کے جی اٹھنے کی منادی کریں۔ اورپھر اُن کی منادی کے وسیلے سےدنیا اُس پر ایمان لائے اوریہ سیکھے کہ وہ فی الحقیقت مردوں میں سے جی اٹھا ہے اورکیا اس کا یہ ارادہ یا فیصلہ مایوسی میں مبدل ہوا لاکہا بنی آدم آج اُنہیں شاگردوں کی منادی کے سبب اس بات کو دل وجان سے مانتے ہیں کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا اورہماری سفارش کے لئےہمیشہ جیتا ہے۔

مسیح کا بدن جی اٹھنے کے بعد روحانی تھا

علاوہ ان باتوں کے ایک اور بات غور کے لائق ہے اوروہ یہ کہ مخالف یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ ان بیانوں کے پڑھنے سے کہیں تو ایسا ظاہر ہوتاہے کہ مسیح کا بدن بالکل مادی تھا اورکہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ مادے کے قیود سے بالکل آزاد تھا۔یعنی کہیں " دروازے بند ہیں، اور وہ مکان کے بھیتر چلاآتاہے۔ اورکہیں وہ اپنے ہاتھ پاؤں اور پسلی اپنے شاگردوں کو دکھاتاہے ۔ کیا ان باتوں میں اختلاف نہیں پایا جاتا؟ ہم اسکے جواب میں پہلے تو یہ کہتے ہیں کہ یہ ظاہری اختلاف انجیلی بیانوں کی سچائی کو ظاہر کرتاہے۔ کیونکہ اگر زندہ مسیح کے بدن کے نظارے حقیقت میں ایسے نہ ہوتے جیسے کہ رقم ہیں۔ تولکھنے والے کبھی یہ اختلاف اپنے بیان میں آنے نہ دیتے۔ بلکہ وہ اس کے بدن کو ایسے جلال کے ساتھ پیش کرتے جیسا کہ اُنہوں نے اُس کی صورت کے تبدیل ہونے کے وقت دیکھا تھا اورپھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے ۔ کہ اس کا مبارک بدن اب روحانی ہوگیا تھا۔ جسم اور مادے کی تمام قیدیں دور ہوگئی تھیں ۔ اورپھر یہ بھی یاد رہے ۔ کہ اس کا مبارک بدن اس بات کی علامت بلکہ نبوت ہے کہ ہمارے بدن بھی اسی کی مانند ہوجائینگے۔اگرجی اٹھنے کے بعد بھی وہی نقص ہمیں ستاتے ہیں۔ جواب وبال جان ہورہے ہیں توہمیں کیا فائدہ؟ مسیح کا روحانی بدن ظاہر کرتاہے کہ ہمارے بدن جیسے ہونگے وہ بقا اورجلال اور قدرت اورپاکیزگی سے آراستہ ہونگے۔

اب ہم اس گواہی کا جو چشم دید گواہوں سے ملتی ہے ذکر کرچکے ۔ اورجو مشکلات اُن کے بیانوں سے وابستہ ہیں ان کا حل بھی کسی قدر پیش کردیا گیا ہے۔ اب یہ دکھائینگے کہ اُس زمانہ کے تمام مسیحی اس واقعہ کو سچا واقعہ جانتے تھے۔ یہ خیال گوعینی شہادت کی جگہ نہیں رکھتا تاہم اس سے رسولوں کی گواہی کو بڑی تقویت پہنچتی ہے ۔

کلیسیائے عامہ کی گواہی

جو لوگ اس زمانہ میں موجود تھے وہ اس واقعہ کی سچائی اور جھوٹ کو بخوبی دریافت کرسکتے تھے۔ اگراُن کے پاس کافی وجوہات رسولوں کی بات کو راست ماننے کے لئے نہ ہوتیں تو وہ کبھی مسیح پر ایمان نہ لاتے۔ آپ جانتے ہیں کہ مسیح کا مصلوب ہونا اور پھر جی اٹھنا رسولوں کی منادی کا لب لباب تھا۔ سو اگر کوئی شخص اس واقعہ کو نادرست سمجھ کر رد کردیتا تو وہ مسیح کے سچے پیروؤں میں شامل نہ ہوسکتا۔ وہ مسیحی نہیں گردانا جاسکتا تھا۔ پر اگر اُن لوگوں کو مسیح کے جی اٹھنے کے کافی ثبوت نہ ملتے تو وہ کب اپنے مذہبوں کو چھوڑ کر مصلوب مسیح کی پیروی کرتے؟ کب یہودی اورپینگ اپنے دینوں کو چھوڑ کر اُ س شخص کو اپنا نجات دہندہ قبول کرکتے جو بڑی ذلت اور خواری کے ساتھ صلیب پر لٹکایاگیا؟ لیکن تاریخ کیابتاتی ہے ۔ وہ یہ بتاتی ہے کہ ایک دونہیں بلکہ سینکڑوں اورہزاروں لوگ ایسے تھے ۔ جو مسیح کی نسبت یہ مانتے تھے کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھا ہے ۔

کلام الہیٰ ہزارہا لوگوں کوہمارے سامنے لاتا ہے جنہوں نے پنتیکوست کے وقت مسیح کو قبول کیا۔ اور اگرآپ پطرس کی تقریر کو جواس نے اس موقعہ پر کی پڑھیں تو آپ دیکھینگے کہ اُس نے اسی بات کی منادی کی کہ مسیح مارا گیا اورپھر مردوں میں سے زندہ ہوا۔ اس کےساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنے کےقابل ہے۔ کہ یہ عقیدہ اُن لوگوں کے درمیان رفتہ رفتہ برپا نہیں ہوا تھا۔ بلکہ شروع سے چلا آیا تھا۔ اوراس کا ایک ثبوت یہ ہے ۔ کہ جس دن مسیح مردوں میں سے زندہ ہوا۔ مسیحی کلیسیانے اُسی دن کو سبت کی جگہ مقدس ماننا شروع کردیا۔ تاکہ اُس کے مردوں میں سے زندہ ہونے کا نادر واقعہ ہمیشہ یاد رہے۔ پلنی جوایک غیر قوم مورخ ہے کہتا ہے کہ عیسائی اسی دن مسیح کی مدح میں جسے وہ خدا سمجھتے ہیں فراہم ہوکر گیت گایا کرتے ہیں۔ اسی طرح سیلس بھی جو مسیحی مذہب کا مخالف تھا۔ اس بات پر گواہی دیتا ہے ۔ کہ تمام مسیحی اس بات کومانتے ہیں کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔اب ان باتوں سے کیا ظاہر ہوتاہے ؟ یہ کہ ان ہزارہا لوگوں کو جنہوں نے مسیح کو قبول کیا کافی ثبوت مل گئے تھے ۔ کہ وہ حقیقت میں مردوں سے زندہ ہوگیا ہے ۔ ورنہ وہ اس پر کبھی ایمان نہ لاتے۔

۲۔ دوسری دلیل جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے کہ شاگردوں (اوررسولوں) کی تبدیلی سے اورمسیحی مذہب کے عروج پانے سے ظاہر ہوتاہے کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا پہلے شاگردوں اوررسولوں کی تبدیلی دیکھے ۔ ہم اوپر ایک جگہ دکھلاچکے ہیں مسیح کے مصلوب ہونے کے وقت شاگردوں کی کیا حالت تھی۔ ان کے حوصلے پست ہوگئے تھے۔ چنانچہ جس وقت مخالفوں نے مسیح کو پکڑا اس وقت وہ سب اُس کو چھوڑ کر چلے گئے پطرس نے تین بار اُس کا انکار کیا وغیرہ۔ یہ باتیں مشتے نمونہ از خروارے کا کام دیتی ہیں اوران سے ظاہر ہوتاہے کہ جب مسیح مصلوب ہوا اس وقت یہ لوگ بھی اپنی اُمیدوں کا فاتحہ پڑھ بیٹھے اُن کو اُس وقت ہر گز ہرگز یہ آس نہ تھی۔ کہ ہماری امیدوں کاکملایا ہوا؟ پھول پھر بھی کبھی کھلیگا۔ گلیل کے مچھوے جونہ زر رکھتے تھے اورنہ خاندانی فخر، جو نہ علم رکھتے تھے اورنہ کسی طرح کا رتبہ کب یہ جرات کرسکتے تھے۔ کہ یہودی سرداروں اوررومی حاکموں سےبے خوف ہوکر انجیل شریف کی منادی کریں؟ ہم اوپر ایک جگہ دیکھ آئے ہیں کہ وہ تو مخالفوں کے ڈر کے مارے اپنے مکانوں کے دروازے بند رکھتے تھے ۔ لیکن تھوڑے ہی دن کے بعد اُن میں ایسی تبدیلی آجاتی ہے کہ وہ اپنے استاد کے لئے جان دینے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ وہ بڑی جماعتوں کے سامنے مسیح کے نام پر گواہی دینے سے نہیں ڈرتے۔ وہ کوڑوں اور قیدخانوں اور زنجیروں سے خائف نہیں ہوتے اورکئی ان میں سے اپنے مولا کی طرح صلیبی موت تک وفادار رہتے ہیں۔ پطرس کو دیکھوکہ وہ کس دلیری اور شجاعت کے ساتھ پینتیکوست کے روز ہزارہا لوگوں کے مجمع کے سامنے اپنے مولا کے نام پر شہادت دیتا اور یہودیوں کو اُن کے گناہ سے ملزم ٹھیراتا رہا پر یہ وہی پطرس ہے جس نے چند دن ہوئے تین دفعہ مسیح کا انکار کیا تھا۔ اب یہی پطرس اوریوحنا کوڑے کھاتے دھمکائے جاتے۔ قید خانہ میں نظر بند رہتے ۔ مگرایک دم کے لئے اپنے مولا کا اوراس کی سچائي کا جواُس میں ظاہر ہوئی انکار نہیں کرتے ۔ بلکہ جو تکلیفیں اسکے نام سے اُن پر حادث ہوتی ہیں انہیں اپنا فخر سمجھتے ہیں۔ یہی حال دیگر رسولوں کا تھا۔ اب یہ ماننا پڑتاہے ۔ کہ اس عجیب تبدیلی کی ضرور کوئی نہ کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے ۔ ورنہ کب ایسے قلیل عرصہ میں ایسی نادر تبدیلی وقوع میں آسکتی تھی؟

پھر مسیحی بادشاہت کی روحانی حقیقت کے سمجھنے میں اُن کے خیالات کا تبدیل ہونا

علاوہ بریں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اسی قلیل عرصہ میں ان کے اعتقادات میں بھی عجیب تبدیلی پیدا ہوئی۔ وہ جب مسیح کے پاس آئے اُس وقت اپنے ہم قوم یہودیوں کی طرح یہ مانتے تھے کہ مسیح آکر اس دنیا میں عجیب شان وشوکت کی بادشاہی قائم کریگا اوریہ خیال اُن کے دلوں میں ایسا جاگیر تھاکہ اُس کے مصلوب ہونے بلکہ جی اٹھنے کے بعد تک بدستور قائم رہا۔ مگرجب اُس کے جی اٹھنے کے بعد اس کی روح پاک کے وسیلے اُن کو اس امر میں ہدایت ہوئی ۔ تو انہوں نے سیدنا مسیح کی بادشاہت کی روحانی خاصیت کو پہچانا اور دینوی شان وشوکت اور کروفر کا خیال بالکل کافور ہوگیا۔کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اگر مسیح زندہ نہ ہوتا کہ اگر مسیح زندہ نہ ہوا ہوتا۔ اگرروح القدس کو زندہ مسیح نے نہ بھیجا ہوتا تو یہ تبدیلی کبھی پیدا نہ ہوتی ؟

مسیحی مذہب کا پھیلنا مسیح کے جی اٹھنے کا ثبوت ہے

پھر یہ بات بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے ۔ کہ مسیحی مذہب چند سال کے عرصہ میں جا بجا پھیل گیا۔ مسیحی علماء اس بات کو مسیح کے جی اٹھنے کے متعلق سب سے بڑی دلیل مانتے ہیں اوراُن کا دعویٰ صحیح بھی ہے کیونکہ ناصرت کے بے برگ دبے پر بڑھئی کی ذلیل موت کے بعد اورکونسی بات تھی جو اُس کے مردہ دعووں کو از سرنوزندہ کرتی اوراس کے مذہب کوجو اُس کی صلیب کے ساتھ ایک طرح ملک عدم میں جا پہنچا تھا۔ پھر ہستی کی صورت دکھاتی؟البتہ مسیح کی تعلیم اپنی پاکیزگی اورمعانی کی گہرائی کے سبب لاثانی ہے ۔ واقعی وہ ایک بے نظیر استاد تھا۔ مگریہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے ۔ کہ وہ اپنی تعلیم کا آپ ہی مرکز تھا۔ اس کی تعلیم اوراستادوں کی طرح اُس سے جدانہ تھی۔ بلکہ اس کے کلام میں جہاں معانی زیادہ گہرے ہیں۔ جہاں خیال عقاب کی طرح آسمان پر بلندی پردازی کرتاہے جہاں اس کے لفظوں سے زیادہ نور کی شعاعیں نکلتی ہیں وہاں وہ خود ایسے طور پر اُن باتوں میں ملا ہوا ہے کہ اگرہم اُس کو نکال دیں تو پھر وہ صداقتیں بھی بے جان ہوجاتی ہیں۔ اب ہمارا مطلب اس سے یہ ہے کہ اگر ایسا شخص جو یہ دعویٰ کرتاہے کہ میں دنیا کا نور ہوں میں قیامت اور زندگی ہوں۔ میں اس دنیا میں ایک بادشاہت قائم کرنے آیا ہوں۔ میں اورباپ ایک ہیں مجھ سے جدا تم کچھ نہیں کرسکتے ۔ میرے پاس آؤ ۔ کہ میں تم کو آرام دونگا۔ کوئی میرے بغیر باپ کے پاس آنہیں سکتا۔ ہاں اگر ایسا شخص جو اپنی نسبت میں پرایسا زوردیتا ہے ذلت کے ساتھ مرے اور مرتے وقت کوئی ایسی ظاہری نتائج اپنے پیچھے نہ چھوڑے جواُس کے دعووں کی سچائی پر شہادت دیں تو اس کا مذہب اوراس کی تعلیم بھی اس کی موت کے ساتھ فنا ہوجائینگے اور سوائے اس کے کہ وہ جھوٹا اور فریب خوردہ سمجھا جائے اورکچھ اس کے حق میں نہ کھا جائيگا اورمسیح کا حال بھی یہی ہوتا اگر وہ مردوں میں سے زندہ ہوکر یہ ظاہر نہ کرتا کہ جو دعویٰ میں نے کئے ہیں میں ان کو پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہوں کیونکہ میں زندہ ہوں۔ ہاں اگر وہ زندہ ظاہر ہوکر اپنی قدرت کو منکشف نہ فرماتا اوراپنی حضوری کی برکتوں کا وعدہ اپنے دل شکستہ اور غریب شاگردوں سے نہ کرتا تواُن میں وہ جو ش پیدا نہ ہوتا جس نے تمام دنیا کو تہ وبالا کردیا۔اسی طرح اگر وہ زندہ ہوکر اپنی روح پاک کو نہ بھیجتا اوراُن اَن پڑھ شاگردوں کو لمعات حقائق اور انوار معارف سے روشن نہ فرماتا تو ہمیں کب وہ معرفت کے خزانے نصیب ہوتے جوانجیل شریف اوراعمال الرسل اور خطوط اورمکاشفات کی کتابوں میں موجود ہیں اگر وہ زندہ ہوکر اُن کو یہ حکم نہ دیتا کہ تمام دنیا میں جاکر انجیل کی تبیلغ کرواورمیں دنیا کے آخرتک تمہارے ساتھ ہوں تو کیسے ان میں مشنری روح پیدا ہوتی جس کے طفیل سے اُنہوں نے تمام دنیا میں انجیل کی تبلیغ سنانے کا بیڑا اٹھایا ۔ اور کب مسیحی مذہب میں وہ پھل لگتے جنکے سبب سے وہ اب ایک شجر پرُثمر کی طرح لہلہاتااور لدا ہوا دکھائی دیتا ہے؟ ہم بخوف طوالت اس بات پر زیادہ تحریر نہیں کرسکتے ۔ پس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جو لوگ مسیحی مذہب کی ابتدائی مشنری ترقی پر غور کرتے ہیں اورپہلے شاگردوں اوررسولوں کی عجیب تبدیلی اوراُن کے روحانی علم کا انصاف سے موازنہ کرتے ہیں وہ اس بات کےقائل ہوجاتے ہیں کہ سوائے مسیح کے جی اٹھنے کے اورکوئی واقعہ مسیحی مذہب کو زندہ نہیں کرسکتا تھا۔ اور نہ اُس دنیا کے ہرکونہ اورگوشے میں پہنچاسکتا تھا۔

مسیحی مذہب کا وجود اوراس کی تعلیمیں مسیح کے جی اٹھنے کا ثبوت ہیں

اس کے ساتھ ہی ہم ایک اوربات کا ذکر کرنا چاہتے ہیں ۔ اور وہ یہ کہ مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا مسیحی مذہب کی جان ہے پس اگریہ واقعہ مسیحی مذہب سے نکالا جائے تو مسیحی مذہب وہ مذہب نہیں رہتا جونئے عہد نامہ میں سکھایا گیا ہے اورجس کی منادی رسول کیا کرتے تھے۔مطلب اس سے یہ ہے ۔کہ اگر مسیح زندہ نہ ہوتا تو مسیحی مذہب پیدا ہی نہ ہوتا۔ اس بات کی طرف ہم آگے ایک آدھ جگہ اشارہ کرآئے ہیں مگریہاں کسی قدر تشریح کے ساتھ دکھانا چاہتے ہیں کہ مسیحی مذہب کے بانی کا زندہ ہونا اس کے رگ وریشہ میں ملا ہواہے بہت لوگ ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ مسیح کے بدن کے قبر میں سے جی اٹھنے کی کوئی اخلاقی ضرورت نہ تھی۔ اس کا بے داغ نمونہ زندہ ہے جو لوگوں کو اس دنیا میں زندگی بسر کرنے کا سبق دیتا ہے ۔ اس کی تعلیم زندہ ہے۔ لہذا جو شعاعیں ان نورانی مرکزوں سے نکلتی ہیں وہ دنیا کے لئے کافی ووافی ہیں۔ پس اس کے جسم کے جی اٹھنے کی منخی سے تعلیم کی کوئی ضرورت نہ تھی۔مگر یہ حضرات اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ مسیح دنیا کا نجات دہندہ ہونے کا دعویٰ کرتاہے ۔ اورنجات کے معاملے میں اس کا مردوں میں سے جی اٹھنا ایک ضروری امر ہے ۔چنانچہ پولوس رسول فرماتاہے" اگرمسیح نہیں جلایا گیا توتمہارا ایمان بے فائدہ اورتم اب تک اپنے گناہوں میں گرفتار ہو"۔(۱کرنتھیوں ۱۵: ۱۷)۔

مسیح کا معجزانہ طورپر پیدا ہونا۔ اُس کا بے گناہ زندگی بسر کرنا ۔ اُس کا لوگوں کے گناہوں کے لئے مارا جانا ۔ اُس کا جی اٹھنا اور آسمان پر تشریف لے جانا اوروح پاک کو پنتیکوست کے دن نازل فرمانا اور اپنے بندوں کی سفارش کے لئے ہمیشہ تک جینا وہ صداقتیں ہیں جو انسان کی نجات کے لئے اشد ضروری بتائی کئ ہیں۔ اگرہم ان میں سے کسی بات کوبھی دور کردیں۔ تو مسیحی نجات کی کل عمارت مسمار ہوجائیگی۔ اب دیکھئے کہ مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا باقی صداقتو ں کے ساتھ کیسا گہرا تعلق رکھتاہے۔

مسیح کا دعویٰ کہ میں خداکا بیٹا ہوں مسیح کی بعثت سے ثابت ہوتاہے

مسیح نے دعویٰ کیاکہ میں خدا کا بیٹا ہوں اورانجیل شریف کے بیانوں سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ وہ ایسے معنی میں اپنے تئیں خدا کا بیٹا بتاتاہے کہ اور کوئی مخلوق یا بشر یا فرشتہ اس معنی میں اسکا بیٹا نہیں سمجھا جاسکتا ۔ وہ اکلوتا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اورنہ صرف عام لوگوں کےسامنے اورتمام موقعوں پر ۔ بلکہ جب سردار کاہن اورشرکائے سنہڈرین کے سامنے اس سے ایک طرح حلفاً پوچھا گیا ۔ کہ کیا تو جیسا دعویٰ کرتاہے واقعی حق تعالیٰ کا بیٹا ہے تواس نے ہر طرح کے خوف سے آزاد ہوکر اس سوال کا جواب اثبات میں دیا۔ اور اس کے ثبوت میں یہ بات پیش کی کہ جب میں مردوں میں سے جی اٹھونگا تو میرا اورباپ کا باہمی رشتہ ثابت ہوجائیگا۔ اور پولوس رسول رومیوں کے خط کے پہلے ہی باب میں اس دعوے کے ثبوت میں اُس کی بعثت پیش کرتاہے۔چنانچہ وہ کہتاہے کہ " مسیح پاکیزگی کے اعتبار سے مردوں میں جی اٹھنے کے سبب قدرت کے ساتھ خدا کا بیٹا ثابت ہوا"۔(رومیوں ۱: ۴) اب اگر وہ مردوں میں سے زندہ نہ ہوتا تواس کی الوہیت کبھی ثابت نہ ہوتی بلکہ اس کی انسانیت پر بھی داغ آتا کیونکہ اس کی وہ نبوتیں جواُس نے اپنے جی اٹھنے کے بارے میں بیان فرمائی تھیں جھوٹي ثابت ہوتیں۔ اوراس کی نبوی نگاہ میں نقص پایا جاتا اوراس کی کسی بات کا اعتبار نہ ہوسکتا۔ پراصل بات یہ ہے کہ اگر وہ خدا کا بیٹا نہ تھا تو محض ایک معلم یا ناصح تھا۔ نجات دہندہ نہ تھا۔ کیونکہ کوئی انسان نجات نہیں دے سکتا۔ یہ کام خدا کا ہے۔پر ہم کس طرح جانیں کے فلاں شخص جو الوہیت کا دعویٰ کرتاہے وہ جو کچھ کہتاہے صحیح کہتاہے۔ اس دعوے کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے الہیٰ قدرت کے ایسے اظہار کی ضرورت ہے جو انسان کی قدرت سے بعید ہو۔ اب وہ مطلوبہ اظہار ہم کو مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے میں ملتاہے۔ اورنئے عہد نامہ کے مصنف اُسے اُس کی الوہیت کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں ۔

مسیح کے کفارے کی مقبولیت اس سے ثابت ہوتی ہے

پھر انجیل دعویٰ کرتی ہے کہ مسیح کا کفارہ انسان کی نجات کے لئے ضروری ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ مسیح اس دنیا میں اسلئے آیاکہ اپنی جان دے کر ہمیں گناہ کی سزا اور طاقت سے نجات دے۔ جب وہ صلیب پر تھا اس نےکہا " پورا ہوا"۔ جس سے یہ مطلب تھا کہ انسان کی نجات کا کام جہاں تک اس کا تعلق میرے کفارے سےہے پورا ہوگیا ہے۔ لیکن اگر وہ یہ دعوے کرکے قبر میں پڑا رہتا تو کون اُس کے کفارے کوقبول کرتا اورکون یہ مانتا کہ اس کی قربانی خدا کے حضور مقبول ہے؟ پر جب وہ مردوں میں سے جی اٹھا تو اس سرفرازی نے ثابت کردیا کہ خدا نے اس کی قربانی کو قبول فرمایا اور وہ ہمارا سچا کفارہ اور درمیانی ہے پھر جس طرح اس کی موت میں ہم گناہوں کی نسبت مردہ سمجھے جاتے اسی طرح زندہ مسیح کی زندگی سے زندہ سمجھے جاتے ہیں۔ اسی زندہ مسیح نے اپنی روح پاک اپنے شاگردوں پر نازل فرمائی جواُن کے تقدیس کے کام کو کمال تک پہنچاتی ہے پر نئے عہدنامے سے صاف ظاہر ہے کہ روح القدس کا نزول مسیح کے جی اٹھنے پر منحصر تھا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ اگر مسیح زندہ نہ ہوتا تو روح القدس پنتیکوست کے دن نازل نہ ہوتی اوردنیا اُن برکتوں سے محروم رہتی جو روح پاک کی حضوری سے صاد رہوتی ہیں۔

مسیح کی شفاعت اُس کے جی اٹھنے سےوابستہ ہے

پھر مسیح کی نسبت بتایا گیا ہے کہ وہ ہماری سفارش کے لئے ہمیشہ جیتا ہے۔ مسیحی تھیالوجی میں مسیح کی شفاعت کا یہ مطلب نہیں وہ قیامت کے دن وقوع میں آئیگی۔ کہ اس دن مسیح خدا سے کہدیگا کہ فلا ں شخص کو بخشدے ۔ مسیح کی شفاعت کا کام اس کے کفارہ پر مبنی ہے اوراسی دن سے شروع ہوا جبکہ وہ زندہ ہوکر آسمانی قدس الاقداس میں خدا تعالیٰ کے حضور جاپہنچا۔

مسیح کا جی اٹھنا اس کے بندوں کےآخری جلال کی خبردیتا ہے

آخر میں یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ اس کا مردوں میں سے جی اٹھنا اس کی دینوی پستی کا خاتمہ اورآسمانی سرفرازی اورجلال کا شروع تھا۔ وہ ازلی بیٹا ہونے کی حیثیت سے ازل سے الہیٰ جلال سے ملبس تھا۔ مگر تجسم کے وقت اس نے اپنے تئیں اس جلال سے خالی کردیا اورپستی اختیا رکی۔ پر جب مردوں میں سے جی اٹھا اورآسمان پر چڑھ گیا تو اس کا انسانی بدن بھی الہیٰ جلال سے بہرورہوا ۔ اب یہی وہ جلال ہے جس میں ہماری روحوں اوربدنوں کے شامل ہونے کا وعدہ انجیل میں ہم سے کیا گیا ہے۔ اگرمسیح زندہ ہوکر خود اُس جلال میں داخل نہ ہوتا توہم کو اس میں داخل ہونے کی کیا اُمید تھی؟ یادر ہے کہ یہی زندہ مسیح بادلوں میں پھر آئیگا۔ راج کریگا اور مردوں اورزندوں کا انصاف کریگا۔

اب ہم نہ دیکھ لیا ۔ کہ مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا کس طرح ہر مسیحی تعلیم اورمسئلے کے رگ وریشے میں گھسا ہوا ہے۔ اس کے بغیر مسیحی مذہب کچھ بھی نہیں رہتا۔اوراسی واسطے مخالفوں نے اس پتھر کوجو گویا کونے کا سرا ہے ہلانے کی کوشش کی ہے۔ مگر ہمیں یقین ہے کہ ان چند سطور کے پڑھنے سے ناظرین پر ثابت ہوگیا ہوگا۔ کہ جوگواہیاں اوردلیلیں اس واقعہ کی صداقت کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہیں وہ ان گواہوں اوردلیلوں سے کسی طرح کم یا کمزور نہیں جو تواریخی واقعات کے ثبوت میں اکثر پیش کی جاتی ہیں۔ بلکہ اُن سے کہیں زور آور ہیں۔

آخری التماس

اب آخر میں ہماری منت ہے کہ کیا وہ جس نے معجزات دکھاکر اپنے تئیں قادر نجات دہندہ ثابت کیا۔ جس نے مردوں میں سے زندہ ہوکر دکھادیاکہ میں زندگی اور جلال کا سرچشمہ ہوں۔ اس لائق نہیں کہ ہم اُس پر ایمان لائیں؟ ہاں اُس نے یہ سب کچھ اسی واسطے کیا کہ ہم اُس کا دامن پکڑیں اورہمیشہ کی زندگی کے وارث ہوں۔ پیارو" یہ (باتیں) اسی لئے لکھی گئی ہیں۔کہ تم ایمان لاؤ کہ یسوع ہی خدا کا بیٹا مسیح ہے اور ایمان لاکر اس کے نام میں زندگی پاؤ"۔ آمین۔