پانچواں باب
جھوٹے اور سچے معجزے ۔ آج کل معجزے کیوں نہیں ہوتے
دو سوال غور طلب
اس باب میں ان دو سوالوں پر بحث کی جائیگی جو عنوان میں درج ہیں ۔ ان میں پہلا سوال یہ ہے کہ جھوٹے اور سچے معجزا میں کیونکر امتیاز ہوسکتاہے ؟
پہلے سوال کے جواب دینے کی ضرورت
ہم اس سوال کا جواب دینے کی ضرورت اس لئے محسوس کرتے ہیں کہ یہ سوال اکثر ہمارے اُن بھائیوں کی طرف سے کیا جاتا ہے جو معجزات کے قائل نہیں۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ اگر معجزات مذہب کے منجانب اللہ ہونے کا ثبوت ہیں تو وہ تمام مذہب یا طریقے جو کسی نہ کسی طرح کے معجزات یا فوق العادت اظہارات کا دعویٰ کرتے ہیں خدا کی طرف سے ہیں۔ لہذا مسیحی مذہب اُن پر کسی طرح کی فوقیت نہیں رکھتا۔
واقعی اگر دوسرے مذہبوں میں سچے معجزات پائے جاتےہیں تووہ بھی ماننے کے لائق ہیں
یہ سوال واقعی غور طلب ہے کیونکہ فوق العادت قدرت کے اظہاروں کا دعویٰ دنیا کے لوگوں نے طرح بطرح کیا ہے ۔ یونان اور روم اور مصر اورہند کی متھالوجی (علم الاصنام) اگردیکھیں توہم وہاں نبوت کا دعویٰ بیماروں کو شفابخشنے کادعوے اوربدروحوں سے آزاد کرنے کا دعویٰ بافراط پائینگے۔ اسی طرح مسیح اور رسولوں کے زمانہ کے بعد مسیحی کلیسیا میں بھی بعض لوگوں نے معجزوں کا دعویٰ کیا اور زمانہ حال میں بعض لوگوں نے مذہب سے قطع تعلق کرکے ایک نئی راہ نکالی ہے۔ اورفلسفانہ بنیاد پر ایک عجیب قسم کی سوپر نیچرل از قائم کرکے اندیکھی دنیا کے ساتھ راہ اور رابطہ پیدا کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اگریہ سب باتیں صحیح ہیں تو پھر مسیحی مذہب کے لئے خصوصیت نہیں رہتی۔
انجیلی معجزات کو چھوڑ کر باقی فوق العادت اظہارات کس طرح پیدا ہوئے
اب سوال یہ برپا ہوتاہے کہ وہ کثیر معجزے اورکراماتیں جن کا دعویٰ اس دنیا میں کیا جاتاہے کس طرح پیدا ہوئے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انسان طبعاً اس بات کا خواہشمند ہے کہ اسے فوق العادت قدرت کا نظارہ نصیب ہو اور اس کے ساتھ ہی وہ یہ امید رکھتاہے کہ جو تکلیفیں اسے دنیا کی طاقتوں سے پہنچتی ہیں ان سے رہا کرنے کے لئے خدا قوانین قدرت کے عمل میں دست اندازی کرتاہے۔ پس کچھ توجلوہ الہیٰ کی دیدکا شوق اورکچھ دکھ اور بیماری سے چھوٹنے اور غیب کی باتوں کو جاننے کی خواہش وغیرہ باتیں قوت متخیلہ کی مدد سے قسم قسم کے معجزے اورطرح طرح کے فوق العادت اظہار پیدا کرلیتی ہیں ۔ اوران معجزوں یا فوق العادت اظہاروں کی موجودہ وقت کے اعتقادوں اورخیالوں اورعلموں سے تقویت دیتی ہیں ۔ یعنی کبھی مذہبی صداقتوں اورکبھی فطرت کے عجیب اظہاروں اورکبھی بعض بعض علوم کے مسئلوں کی آڑ میں فوق العادت کے لئے راہ کھول لیتی ہیں ۔
معجزات اور پروردگاری کے عجیب کاموں میں فرق ہے
مسیحی مذہب کا یہ عقیدہ ہے کہ گو خدا اپنے بندوں کی دعا سنتا ہے اوراُن کے دکھ اورسکھ میں اُن کے ساتھ رہتا اوراپنے عجیب پر اوی ڈینس(پروردگاری ) سے اُن کی مشکلات حل کرتا اوراُن کی حاجات رفع فرماتاہے تاہم معجزہ اپنے اصطلاحی معنوں کے مطابق صرف اسی وقت وقوع میں آتاہے جب خدا کو اپنے وہ ارادے ظاہر کرنے منظور ہوتے ہیں۔ جنہیں انسان محض نیچر کی روشنی سے دریافت نہیں کرسکتا۔لہذا معجزہ اُن فوق العادت اظہاروں سے جو اس غرض کے لئے واقع نہیں ہوتے فرق رکھتا ہے۔ اور وہ فرق مقابلہ سے فوراً ظاہر ہوجاتاہے اور عقل سلیم کو ماننا پڑتاہے کہ انجیلی معجزات پر سچائی کی مہر لگی ہوئی ہے ۔ ایک عالم نے خوب کہا ہے کہ حقیقی معجزات کو ایسا ہونا چاہیے کہ اگرانہیں بناوٹی معجزوں کے انباروں اور ڈھیروں میں پھینک دیں تو اُن میں مل جل کر غائب نہ ہوجائیں بلکہ ان کے درمیان بھی اپنی صداقت کو ظاہر کریں اوربتائیں کہ وہ کس چشمہ سے برآمد ہوئے ہیں۔ اگرمسیحی معجزات ایسا نہیں کرسکتے تو وہ اپنے مقصد میں قاصر نکلینگے۔ پر جب ہم انجیلی معجزات کا مقابلہ ان معجزانہ اظہاروں کے ساتھ کرتے ہیں جنکا دعویٰ دنیا میں مختلف صورتوں میں کیا جاتا ہے تو دونو میں زمین وآسمان کا فرق نظر آتاہے ۔
اس فرق کو دریافت کرنے کےلئے مقابلہ کی ضرورت ہے
آؤ ہم تھوڑی دیرکے لئے بائبل کے سوپر نیچرل اظہاروں کا باقی سوپر نیچرل اظہاروں کے ساتھ مقابلہ کریں اوردیکھیں کہ حق کس طرف ہے۔
اس مقابلے میں پہلے یہ بات نظر سے گذرتی ہے کہ حالانکہ لوگ طرح طرح کی معجزانہ قدرتوں کے خود قائل ہیں۔ تاہم انجیلی معجزوں میں اوراپنے یہاں کے معجزوں میں فرق کرتے ہیں۔
(۱۔)مقابلے میں جو بات پہلے نظر گذرتی ہے وہ یہ ہے کہ جولوگ فوق العادت اظہاروں اورطرح طرح کی کرامتوں کے وجود کے قائل ہیں وہ خود اس بات کا اقبال کرتے ہیں کہ مسیح کے معجزوں اوردنیا کے باقی فوق العادت اظہاروں میں بڑا فرق پایا جاتاہے۔ مثلاً جب قدیم زمانہ میں لوگوں نے مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کا حال سنا تواُنہوں نے فوراً کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔حالانکہ اُن کے یہاں خود کرامتوں اور معجزوں کادعویٰ مسیحی معجزوں کےپہلو بہ پہلو جاری تھا۔ کیا وہ مسیح کے جی اٹھنے کا انکار کرتے اور اسے ناممکن ٹھیراتے اگر واقعی اُن کے درمیان فوق العادت طاقتوں کا عمل جاری ہوتا اس کے ساتھ یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ بت پرست یہ دعویٰ نہیں کرتے تھے کہ سوائے ہمارے اورکسی کو فوق العادت قدرتوں کا نظارہ نصیب نہیں ہوتا۔ پھر کیوں انہوں نے مسیح کے جی اٹھنے اور دیگر معجزات کو اپنی کراماتوں سے مختلف سمجھا؟ اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ ایک قسم کے معجزات حقیقی اور دوسری قسم کے معجزات غیر حقیقی ہیں۔
یہودیوں کا یہی حال تھا
اسی طرح یہودیوں کے درمیان بھی فوق العادت اظہاروں کا اعتقاد پایا جاتا تھا۔ مگر وہ بھی اپنے معجزوں اور مسیح کے معجزوں میں ایک قسم کا فرق مانتے تھے۔ مثلاً جب مسیح نے ایک جنم کے اندھے کی آنکھوں کو روشن کیا توانہوں نے ایسا ظاہر کیاکہ گویا وہ معجزہ اُن اچنبھوں سے جو وہ دکھایا کرتے تھے بالکل مختلف تھا۔ اورانہوں نے اُس معجزے کی مخالفت اُسی زور شور سے کی جیسی معجزے کے منکر ہونے کی حالت میں کرتے ۔
مسیح کے جی اٹھنے پر انہوں نے حجت کی
پھر انہوں نے یہی مخالفت اُس وقت کی جبکہ سیدنا مسیح نے اپنے جی اٹھنے کی نسبت نبوت کی چنانچہ اس کے مصلوب ہونے کے بعدانہوں نے حاکم سے کہا۔" اے خداوند ہمیں یاد ہے۔ کہ اس دھوکے باز نے اپنی زندگی میں کہا تھا کہ میں تین دن کے بعد جی اٹھونگا"۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اُنہوں نے مسیح کو دھوکے باز کیوں کہا؟ اگر وہ اس بات کو سچ جانتے تھے کہ سوائے انبیاء کے اور لوگ بھی معجزات دکھاسکتے ہیں۔ تو مسیح کے جی اٹھنے کی پیشینگوئی کودھوکابازی کہنے سے اُن کو کچھ فائدہ نہ تھا۔ بلکہ ہماری رائے میں اُن کو زیادہ فائدہ اس وقت پہنچتا جبکہ وہ یہ دعویٰ کرتے کہ مردوں میں سے جی اٹھنا کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ۔یہ توایک معمولی سی بات ہے ۔ لہذا مسیحی مذہب کو مسیح کے جی اٹھنے سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچیگا۔پس چاہئیے تھا ۔ کہ وہ مسیح کے جی اٹھنے کی پیشین گوئی یا دعویٰ کو قبول کرتے مگر اس نتیجے کو جو اس کے جی اٹھنے سے نکل سکتا تھا رد کرتے یعنی اس نتیجہ کو کہ وہ خداکا بیٹا ہے۔مگرانہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اورایسا نہ کرنے کے وسیلے اس بات کا اقرار کیاکہ اگر وہ فی الحقیقت جی اٹھا ہے۔ تو وہ خدا کا بیٹا ہے۔ اب کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ اس بات کے قائل تھے ۔ کہ جو فوق العادت عنصر خدا کے رسولوں اورنبیوں کے کاموں میں ہوتاہے ۔ وہ ان کراماتوں اور اچنبھوں میں نہیں پایا جاتا جن کا دعویٰ عام لوگ کرتے ہیں ۔
قدیم کلیسیا کے بزرگ گو خدا کی پروردگاری کے عجیب کاموں کے قائل ہیں ۔ مگر حقیقی معجزوں کے بارے میں اقرار کرتے ہیں کہ وہ رسولی زمانہ میں ختم ہوگئے
پھر جب ہم مسیحی کلیسیا کے قدیم زمانہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں توہم دیکھتے ہیں کہ مسیحی بزرگ بھی اس فرق کو مانتے ہیں۔ اس بات پر غور کرتے وقت ہم دیکھتے ہیں ۔ کہ قدیم مسیحی جو سچائی اور راستبازی کے عاشق تھے یہ مانتے تھے کہ ان کے زمانہ میں معجزانہ قدرت اپنا کام کرتی تھی۔ اورہم اُن کی نیکی اورراستبازی اور سچائی کو دیکھ کر ان کی بات کو جھوٹ نہیں کہہ سکتے ۔ مگر تاہم جوبات یادرکھنے کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ جسے وہ معجزانہ قدرت کہتےہیں وہ معجزانہ قدرت نہ تھی بلکہ وہ خدا کی وہ قدرت تھی جو اس کے عجیب پروردگاری کے کاموں کے وسیلے جلوہ نما ہوتی ہے۔ اور وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ گو خدا کی عجیب قدرت کے کام جو مساوی معجزات کے تھے ان کے زمانہ میں واقع ہوتے تھے مگر اصل معجزے رسولوں پر ختم ہوگئے تھے۔
ہمارے ہندوستانی بھائی بھی مختلف صورتوں میں فوق العادت کے قائل ہیں ۔ مگر انجیلی معجزوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں
اور اگر آپ آج ہندوستان کے عام لوگوں کودیکھیں اوران کی حالت پر غورکریں تو آپ فوراً معلوم کرلینگے ۔ کہ وہ کیسے زود اعتقاد ہیں۔ جادو ٹونے گنڈے تعویذ وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ پتھروں سے مرادیں مانگتے ہیں ۔ قبروں سے حصول مدعا کی اُمید رکھتےہیں۔ پرندوں اور چرندوں کے آگے گر کر سجدہ کرتے ہیں ۔ تاکہ اُن کے وسیلے اُن کی مرادیں برآئیں پر اگر اُن سے مسیح کے معجزوں یا جی اٹھنے کا ذکر کیا جائے تو اُس پر لاکھ اعتراض کرتے ہیں۔ اس کا یہی باعث ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ جس قسم کی فوق العادت قدرت کے ہم ماننے والے ہیں وہ ناقص ہے۔ اورجس فوق العادت قدرت کے معجزوں کا مسیحی ذکر کرتے ہیں اورجس کے ثبوت میں وہ معقول گواہی بھی پیش کرتے ہیں اگر صحیح مانے جائیں تولازمی نتیجہ پھر یہی ہوگا کہ ان کا مذہب برحق سمجھا جائے ۔ اب ہم نے دیکھا کہ جب ہم مسیحی معجزوں کو مقابلہ اُن کراماتوں یا اچنبھوں کے ساتھ کرتے ہیں جو دنیا میں مانے جاتے ہیں تو پہلا فرق جو ہماری آنکھوں کے سامنے آتا ہے یہ ہے کہ دوسرے اقسام کے اچنبھے یاکرامات خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے اورمسیحی معجزوں کے درمیان بڑا فرق ہے ۔
(۲۔) اب اگر آپ تھوڑی دیر کے لئے خاص اُن واقعات پر جنہیں لوگ کراماتیں کہتےہیں غور کریں ۔ توانہیں دیکھ کر بھی آپ کو ماننا پڑے گا کہ واقعی مسیحی معجزوں میں اوراُن میں ایک گہرا فرق پایا جاتاہے۔ چنانچہ آپ دیکھینگے کہ ان واقعات میں ایمان کی کمی نظر آتی ہے بلکہ اکثر الحاد اپنارنگ دکھاتاہے ۔ اورکہ وہ کبھی ادنیٰ درجہ کے طبقے سے اوپر نہیں اٹھتے۔ اور عموماً ذومعنی اورایک ہی قسم کے ہوتے ہیں۔ اب ان باتوں سے اُن کا نقص صاف ثابت ہوجاتاہے ۔ مثلاً وہ جو چھوٹی سی میز پر ہاتھ دھرواکر دوسری دنیا کے باشندوں سے باتیں کرواتےہیں۔ وہ سوائے اس کے اور کوئی معجزانہ کام نہیں دکھاسکتے ۔ وہ جانتے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے ہیں لہذا اپنے حدود کے اندر اندر ہمیشہ کام کرتے ہیں ۔ یا جو ہندوستان میں گنڈے تعویذوں سے بیماروں کو چنگا کرنے یا بدروحوں کو نکالنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ ہمیشہ اسی قسم کےکام کیا کرتے ہیں اوراُن کو چھوڑ کر اور کسی طرح کا معجزہ دکھانے کی کوشش نہیں کرتے۔ اب ان حرکتوں کو معجزہ ثابت کرنا پڑا مشکل کام ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایسے کام کبھی فی الفور واقع نہیں ہوتے اورنہ ایسے دعویٰ کرنے والے سب کے سب فائیر المرام ہوتےہیں۔ اوراگر پوچا جائے کہ تم نے الحاد کی بوانِ کاموں میں کہاں سے پائی تو اس کاجواب یہ ہے کہ جو کام خدا کی عزت نہیں دیتے وہ سراسر الحاد پر مبنی ہیں۔ کیا وہ لوگ جو دوسری دنیا کی روحوں سے باتیں کرواتے ہیں ۔ اپنے کاموں اورحرکتوں کو خدا کی قدرت سے منسوب کرتے ہیں یا کسی اپنے مقرر کردہ طریقے سے ؟ کیا وہ جو قبروں اور منتروں اور گنڈے تعویذوں سے اپنا کام لیتے ہیں فی الحقیقت خدا کی عزت کرتے ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو ہم کس طرح مانیں کہ یہ کام خدا کی طرف سے ہیں۔ بات اصل یہ ہے کہ اس قسم کی باتوں میں اول تو خود ہی مبالغہ کا عنصر موجود ہوتاہے اورپھر بیان کرنے والے بھی اپنی مبالغہ آمیز تشریحوں سے اُن پر اعجاز کا روغن پھیر دیتے ہیں ۔ مگر جب وہ ان باتوں کو مسیحی معجزات کے ساتھ امتحان کی کسوٹی پر کستے ہیں تو اُنہیں ماننا پڑتا ہے ۔ کہ ان میں اورانجیلی معجزات میں بڑا فرق ہے۔ چنانچہ پرُانے زمانہ کے بت پرستوں نے اس بات کو خوب محسوس کیا کہ اگر عیسیٰ مسیح فی الحققیت مردوں میں سے خدا کی قدرت کے وسیلے جی اٹھا ہے تو یہ واقعہ لاریب ایک سچا معجزہ ہے کیونکہ اس میں اوران معجزوں میں اسقولیپس کے مندر میں واقع ہوتے ہیں بڑافرق ہے۔ اسقیو لیپس کے مندر میں ہزاروں بیمار آتے تھے مگر شفایاب فقط معدودے چند ہی ہوتے تھے۔ اب پرُانے بت پرست دیکھتے تھے کہ اس میں کچھ بھید ہے کیونکہ سب بیمار شفا نہیں پاتے ۔ اب ہزاروں میں سے چند ایک کو چنگا کرنے کا معجزہ تو ہر شخص دکھاسکتا ہے بشرطیکہ اس کو یہ اختیار دیا جائے کہ جب اس کا جی چاہے تب اُن میں سے بعض کو چنگا کردے۔ پر کبھی کوئی صاحب عقل اس قسم کی شفاؤں کو معجزہ نہیں کہیگا۔رومن کیتھولک کلیسیا کے لوگوں نے بھی معجزانہ اظہاروں کا دعویٰ کیاہے۔ مگر جو کام وہ بطور معجزات پیش کرتے ہیں اُن پر بھی یہی حجت قائم ہوتی ہے۔ اس موقعہ پر یہ کہنا ضروری معلوم ہوتاہے کہ بسا اوقات جھوٹ موٹ معجزانہ دعویٰ دوباتوں کے سبب سے کیا جاتا ہے۔
دوباتوں سے پیدا ہوئے
(الف)کسی تعلیم کو رواج دینے کے مقصد سے
(ب) کسی شخص کی بزرگی کو ثابت کرنے کی غرض سے
پہلی بات کی نسبت ہم یہ عرض کرتےہیں ۔ کہ اگر تعلیم عقل اوراخلاقی اصول کے برخلاف ہے توہم اسے خدا کی طرف سے نہیں مان سکتے ۔ اور اگر وہ منجانب اللہ نہیں۔ تو خدا کی معجزانہ قدرت سے مدد نہیں پاسکتی۔ یادرکھنا چاہیے ۔ کہ ممکن ہے کہ کوئی مسئلہ یا تعلیم ہماری سمجھ سے بالا یا باہر ہو مثلاً ثالوث یا الوہیت مسیح یا کفارہ مسیح اوغیر مگر یہ ناممکن ہے کہ کوئی تعلیم جو خدا کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کرتی ہے نیکی یعنی (Morality) کے برخلاف ہو۔ اس کا ذکر ہم ذرا آگے بڑھ کر مفصل طورپر کرینگے۔ یہاں ہم اس کا اشارہ فقط اس بات کے لئے کرتے ہیں کہ معلوم ہوجائے۔ کہ اکثر اوقات دھوکابازوں نے خواہ وہ عیسائی ہوں یا کسی اورمذہب کے ہوں اپنی مطلب براری کےلئے جھوٹی تعلیموں کو رواج دینے کےواسطے معجزات کا دعویٰ کیا ہے۔مگر ان کی تعلیموں کا نقص ظاہر کرتاہے کہ ان کی امداد میں الہیٰ قدرت استعمال نہیں کی گئی۔ کیونکہ خدا ایسی گندی یا ناقص تعلیموں کا بانی نہیں ہوسکتا۔
کسی شخص کی اخلاقی خوبی یا بزرگی کے ثبوت کے لئے بھی معجزات کی ضرورت نہیں
اورپھر جیسا ہم نے اوپر کہا یہ بھی دیکھا جاتاہے ۔ کہ بعض اوقات کسی شخص کی عزت یاشاں بڑھانے کےلئے یااس کی پاک زندگی کے ثبوت میں معجزانہ دعوے کئے گئے ہیں۔ پر جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتاہے کہ سیرت کی خوبی یا پاکیزگی کے ثبوت کے لئے معجزانہ اظہاروں کی تائید کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم ہزاروں اشخاص کو عزت دیتے ہیں اوراُن کی نیکی اوربزرگی کےقائل ہیں ۔ حالانکہ انہوں نے کبھی کوئی معجزہ ہم کو نہیں دکھایا۔ سیرت کی خوبی معجزانہ کسوٹی سے نہیں پرکھی جاتی اس کے پرکھنے کا معیار اور ہی ہے۔ پس اکثر اوقات لوگوں نے دھوکا کھاکر یادھوکا دینے کے لئے گذرے ہوئے لوگوں کےساتھ معجزانہ قدرت کو مربوط کیا ہے۔ مگر وہ اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکتے ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے رومن کیتھولک بھائیوں پر شاید اور فرقوں کے لوگوں پر بھی یہ دونوں باتیں بہت درجہ تک صادق آتی ہیں ۔
جن معجزوں کوہم نے ذومعنی کہا ہے اسی قسم کے معجزے مسیح نے بھی دکھائے ہیں کیا اُن پر وہی اعتراض نہیں ہوسکتے جو دوسروں کے معجزوں پر کئے گئے ہیں
پر قبل از یں کہ ہم اس خاص پوائنٹ کو چھوڑ کر آگے بڑھیں ہم ایک اور اعتراض کا جواب دینا چاہتےہیں جو اس موقع پر کیا جاسکتاہے ۔اوروہ یہ ہے کہ شاید کوئی ہم سے کہے کہ تم نے شفا دینے اور بدروحوں کے نکالنے اورآنے والی باتوں کو خبریں دینے کو ذومعنی اورملحدانہ واقعات کہا ہے۔ اب اگر یہ صحیح ہے تو کیا یہی اعتراض مسیح کے معجزوں پر نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں ۔ کہ اگر مسیح بھی شفا دیتے وقت یا بدروحیں نکالتے وقت یا نبوت کرتے وقت ذومعنی کلمات استعمال کرتا۔ اگر وہ بھی کبھی کامیاب ہوتا اور کبھی معجزہ دکھانے میں ناکامیاب رہتا۔ اگراس کی بات بجائے فی الفور وقوع میں آنے کے مدتوں تک انتظار کھچواتی اورپھر بھی واقع نہ ہوتی۔ اگراُس کی معجزانہ طاقتیں جو شفا اورنبوت اور بدروحوں کے نکالنے میں ظاہر ہوئیں انسان کی بھلائی اورباپ کے جلال کے لئے نہ ہوتیں توہم اسکے اس قسم کے معجزوں کو بھی اس ناقص زمرہ میں شمار کرتے ۔ ماسوائے اسکے یہ بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ جو معجزات دنیا ان باتوں کے متعلق ہمارے سامنے رکھی ہے وہ اس ادنیٰ طاقت کے پائے سے جو ان معجزات کےوقوع کےلئے ضروری سمجھی جاتی ہے اورجس میں طرح طرح کی نیچرل تاویلوں کی جگہ ہے ۔ کبھی اوپر نہیں اٹھتے۔ سوجب ہمیں مسیح کے معجزوں کا فیصلہ کرنامنظور ہوتو لازم ہے کہ ہم اس کے اُن معجزات پر غو رکریں جن کی تشریح کسی طرح نیچرل تاویلوں کی بنا پر نہیں ہوسکتی ۔ مثلاً اس کا پانچ ہزار کو پانچ روٹیوں اور دومچھلیوں سے آسودہ کرنا ۔ اس کا چاردن کے مرے ہوئے اوردفن کئے ہوئے مردے کو زندہ کرنا۔ اس کا آپ تیسرے دن مردوں میں سے جی اٹھنا ۔ اس کا آسمان پر تشریف لےجانا ایسے معجزات ہیں جن کےظہور کے لئے اعلیٰ الہیٰ قدرت کے فعل کی ضرورت تھی۔ اب اگر یہ معجزات صحیح اورراست ہوں تو اس کے ادنیٰ درجہ کے معجزات بھی ان اعتراضوں سے بری ہونگے جو اس قسم کے جھوٹے معجزات پر عاید ہوتے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ بڑے بڑے معجزات کی روشنی میں اس کے چھوٹے چھوٹے معجزات بھی سچے ظاہرہوتےہیں۔
دنیا کے معجزانہ اظہاروں کی اخلاقی خاصیت بھی غور طلب ہے
(۳۔) پھر اس مقابلہ میں ہمارا یہ بھی فرض ہے ۔کہ ہم ان واقعات کی اخلاقی خاصیت پر بھی بخوبی غورکریں اوردیکھیں کہ کیا ایسے کام خدا کی قدرت سےوقوع میں آسکتے ہیں۔ خصوصاً ہم ان سوالوں پر غور کریں ۔ کیا وہ واقعات جو بطور معجزات پیش کئے جاتے ہیں ۔ فی نفسہ پاک ہیں یاناپاک ہیں؟ کیا وہ عظیم الشان اورجلیل ہیں۔یا ہلکے اور تمسخر انگیز ہیں؟ کیا اُن سے حکمت اوردانائی ٹپکتی ہیں۔ یا حماقت اورلڑکپن کی حرکتوں کی بوآتی ہے ؟ اوریہ توہم سب جانتےہیں کہ خدا اپنی قدرت فضول طورپر صرف نہیں کرتا۔ اور نہ وہ ناپاکی اورگناہ کا بانی ہے۔اب اگرہم ان معجزات پر جویونانیوں اوررومیوں کے قصوں میں درج ہیں غور کریں توہم دیکھینگے کہ اُن میں بے شمار ایسے ہیں جو بالکل پاکیزگی اورحکمت اورحقیقی عظمت کے برخلاف ہیں۔ ہندوؤں کے یہاں جودیوتا مانے جاتے ہیں اوراوتار تسلیم کئے جاتےہیں اُن سے بڑے بڑے کام منسوب کئے گئے ہیں۔پر جب ہم اُن پر غور کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوجاتاہے۔ کہ یا تو وہ سرار ناپاکی سے بھرے ہوئے ہیں ۔ یا اُن سے حماقت ٹپکتی ہے یا اُن پر ہنسی آتی ہے۔اکثر ہندو اوتاروں کو مانتے ہیں ۔ پر جب ہم یہ دریافت کرنے لگتے ہیں کہ ایشور نے کیوں ، کچھ اوربارہ اورنرسنگ وغیرہ کا اوتار لیا تواس کے جواب میں ایسی وجوہات بتائی جاتی ہیں کہ انسان سن کر حیران رہ جاتاہے۔ کرشن ، ہنومان، برہما، وشنو اور مہیش سے ایسے اچنبھے منسوب کئے جاتے ہیں ۔ جن کو عقل ہرگزہرگز قبول نہیں کرسکتی ۔ پس وہ تمام واقعات جو معجزات ہونے کا دم بھرتےہیں مگر جن سے ناپاکی اورہلکا پن اور انتقام اور شہوت کی بوآتی ہے وہ کبھی خدا کی فوق العادت قدرت سے واقع نہیں ہوسکتے۔
علاوہ معجزانہ واقعات کی گواہی پربھی غور کرنا لازمی امر ہے
(۴۔) پھر اس مقابلہ میں گواہی کوبھی بڑا دخل ہے۔اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم انجیلی معجزات کو دیگر معجزانہ اظہارات کے ساتھ مقابلہ کرتےوقت اس بات پر بھی غورکریں کہ موخرالذکر کیسی گواہی اپنے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔ ہم یہ دریافت کریں کہ جولوگ ان کے وقوع پر گواہی دیتے ہیں کیا وہ معجزہ دکھانے والے یا والوں کے ہمعصر تھے ؟ کیا وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے ان معجزات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا؟ اورکیا اُن کی گواہی اسی زمانہ میں قید کتابت میں آئی یا صدیوں بعد بصورتِ روائت مشہور ہوئی ؟ اورخاص کر ہم یہ دریافت کریں کہ گواہوں نے اپنی گواہی کی سچائی کےلئے کہاں تک تکلیفیں سہیں ضروری امر نہیں کہ گواہ ہمیشہ طرح طرح کی تکلیفیں اٹھائے۔ تو بھی اس میں شک نہیں کہ فوق العادت کی گواہی کو ہماری نظر میں اُس وقت عجیب قسم کی وقعت حاصل ہوتی ہے جس وقت ہم کو یہ معلوم ہوجاتاہے ۔ کہ گواہ نے اپنی گواہی کے لئے اپنا سرتک بھی دیدیا۔ مگر اُس نے انکار نہ کیا۔
پر سب سے زیادہ غورطلب یہ پوائنٹ ہے کہ جن معجزات کا دعویٰ دنیا کرتی ہے اُن سے کون سے عجیب نتائج پیدا ہوئے
(۵۔) پر سب سے بڑی بات جو اس مقابلہ میں غور طلب یہ ہےکہ ہم یہ دریافت کریں۔ کہ انجیلی اور غیر انجیلی معجزات سے کیا کیا نتائج پیدا ہوئے ؟ کونسا پھل اُن میں لگا؟ ہم پوچھیں کہ مسیح کے معجزات کو چھوڑ کر باقی جو فوق العادت واقعات دنیا میں مانے جاتے ہیں انہوں نے دنیا کے لئے کیا کیا؟ کیا انہوں نے اس دنیا میں کوئی ایسی تعلیمیں پھیلائیں جن سے دنیا کی حالت اورمزاج میں فرق پیدا ہوا؟ اوربنی آدم کو ایسی دائمی بھلائی دستیاب ہوئی ہے جسے کوئی طاقت زائل نہیں کرسکتی ؟ کیا اُن معجزوں کی بنا پر کوئی ایسی مذہبی سوسائٹی قائم ہوئی جو تاقیامت زندہ رہنے کےآثار پیش کرتی ہے ؟ اگر آپ ان اہم سوالوں پرغورکریں تو آپ پر فوراً روشن ہوجائے گا کہ سوائے مسیحی مذہب کے اورکوئی مذہب نہیں ہے جس کی نسبت یہ کہا جائے۔ کہ اس کی تعلیمات نےمعجزات سے ثابت ہوکر تمام دنیا کی حالت کو تبدیل کردیا ہے۔
مسیحی مذہب کی بنیادی تعلیمیں جن کے ثبوت میں معجزات دکھائے گئے
مسیحی مذہب کی بنیادی تعلیمیں یہ ہیں کہ خداکا بیٹا مجسم ہوا۔گنہگاروں کے کفارے کے لئے مارا گیا مردوں میں سے جی اٹھا ۔ آسمان پر تشریف لے گیا اوروہاں باپ کے دہنے ہاتھ بیٹھ کر گنہگاروں کی سفارش کرتاہے۔ اوراپنی روح پاک کے وسیلے اپنے لوگوں کو پاکیزگی کی ایک منزل سےدوسری منزل تک پہنچاتا ہے۔ یہی ہیں وہ الہیٰ تعلیمیں جن کی تصدیق اور ثبوت کے لئے معجزات دکھائے گئے۔کیاان تعلمیں نے دنیا میں کچھ بھی نہیں کیا؟ اگرآپ انصاف کریں تو آپ کو مانناپڑیگا کہ انہیں تعلیموں نے ہمیں یہ سیکھایا ہے کہ خدا ہمارا باپ ہے اورانسان ہمارا بھائی ہے ۔ انہیں کی طفیل سےانسان نے انسانیت کے اصل جوہر کو پہچانا ہے ۔ انہیں کے وسیلے خدا کی محبت اورپاکیزگی کا جمال اورجلال ظاہر ہوا۔ انہیں تعلیموں نے اصل تہذیب اور سوشل ترقی کی بنیاد ڈالی۔ اورجہالت اوربطالت اورظلم اور ستم کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ ہمارے پاس وقت نہیں کہ ہم زیادہ تفصیل کے ساتھ دکھائیں کہ کیونکرمذہبی اور عقلی اورعلمی اور سوشل دنیا میں ان تعلیموں نے اپنے نیک اثر سے عجیب عجیب قسم کی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ پر یہ تعلیمیں انہیں معجزوں کے وسیلے سچی ثابت کی گئیں جن پر آج لوگ طرح طرح کے اعتراض کرتے ہیں ۔ کیا دنیا کےمشہور معجزات بھی اسی قسم کے دیرپا اور فیض رساں نتائج کے ساتھ وابستہ ہیں؟ اگراُن سے بھی ایسے بڑے بڑے نتیجے پیدا ہوئے ہیں تو وہ بھی خدا کی طرف سے ہیں ورنہ نہیں۔ پرتاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ مسیحی مذہب کے سوا اورکوئی مذہب ایسا نہیں جس کے مصنوعی معجزات نے ایسے نتیجے پیدا کئے ہوں۔ اب اگرہم اس وقت جبکہ انجیل کے معجزات کادنیا کے مصنوعی معجزات کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں مذکورہ بالا خیالات کو مدنظر رکھیں توہم فوراً اس بات کے قائل ہوجائینگے۔کہ فقط بائبل ہی کے معجزات سچے ہیں اورباقی سب معجزے ناقص اورناقابل یقین ہیں۔
دوسرا سوال کہ اب معجزات کیوں نہیں دکھائے جاتے
دوسرا غورطلب سوال یہ ہے کہ اب معجزے کیوں نہیں ہوتے؟ اس سوال کا جواب چند لفظوں میں اس طرح دیا جاسکتاہے۔ کہ اب ضرورت نہیں ۔ اس بات کو مفصل طورپر بیان کرنے میں ہم کو پھر انہیں باتوں کو رقم کرنا پڑیگا جوہم ابواب ماقبل میں عرض کرچکے ہیں ۔ پر ہمیں اُمید ہے کہ ہمارے روشن ضمیر ناظرین نے ان باتوں سے جوہم معجزے کی غرض اورمقصد پر تحریر کرچکے ہیں خود بخود یہ نتیجہ نکال لیاہوگا کہ اب معجزات کی ضرورت نہیں رہی ۔ مگرپھر بھی یہاں چند خیالات ہدیہ احباب کرتے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ معجزات کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی۔
اس لئے خدا بغیر اشد ضرورت کے معجزانہ طاقت کو استعمال نہیں کرتا
(۱۔)جو کچھ ہم اوپر لکھ چکے ہیں اُس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ گو مسیحی مذہب معجزات کے وجود اور وقوع کا قائل ہے۔ تاہم وہ اسبات کا بھی معترف ہے کہ بغیر اشد ضرورت کے خدا اپنی سوپر نیچرل طاقت کو کام میں نہیں لاتا ۔ وہ لوگوں کے اشتیاق عجائبات کوپورا کرنے کے لئے ۔ یا اُن کی حاسدانہ اغراض کو پورا کرنے کے لئے ۔ یا اُن کو آنے والی باتوں کی غیر ضروری خبریں دینے کے لئے یا شہوانی خواہشوں کوپورا کرنے کے لئے ۔ یا کسی انسان کی عزت اورجلال کے واسطے اپنی معجزانہ قدرت کو کام میں نہیں لاتا۔ اور عقل سلیم اورائے صائب اس بات کو تسلیم کرتی ہیں۔ پس معجزوں کی ضرورت کسی خاص موقعہ پر ہوتی ہے۔
(۲۔) اب مسیحی مذہب بتاتا ہے اورعقل اسے قبول کرتی ہے۔ کہ جس خاص موقعہ پر خدا معجزات دکھانا روا رکھتاہے وہ وہ موقعہ ہے جبکہ وہ اپنی مرضی کا ایسا مکاشفہ عطا فرماتاہے ۔ جسے انسان اپنی نیچرل طاقتوں سے معلوم نہیں کرسکتا۔ مثلاً سیدنا مسیح یہ بتانا چاہتاہے کہ میں زندگی اور قیامت ہوں۔ پر اس بات کے ثابت کرنے کے لئے یہ ضروری امر تھا۔ کہ وہ ایک ایسا معجزہ دکھائے جو دیکھنے والوں کو مجبور کرے کہ اس کے دعوے کو قبول کریں۔ جب لعزر کی قبر پر آکہ اس نے اُس مردے کو اپنے کلام کی طاقت سے زندہ کردیا۔ تب یا بات روشن ہوگئی کہ وہ زندگی کا سرچشمہ ہے۔ اورجوکہ اُس پر ایمان لاتےہیں وہ ہرگز ہرگز فنا نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ کی زندگی کے وارث بن جاتے ہیں۔ اُسے منظور تھا کہ لوگوں کو بتائے کہ مجھے گناہ معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ پرکون اُس کی بات کو مانتا اگر وہ یہ کہکر کہ اے بیٹا تیرے گناہ معاف ہوئے۔ اس مفلوج کو کھٹولا اٹھا کر چلنے کی طاقت نہ دیتا؟ اسی طرح خدا کے مجسم ہونے اور کفارے کے کام کو پورا کرنے اورانسان کی روح اورجسم کے بچ جانے کی تعلیمیں ایسی ہیں کہ اُن کے ثبوت کے لئے معجزات کی ضرورت تھی۔ پس معجزے کی غرض اور مقصد سے صاف ظاہرہے کہ ہر زمانہ اور ہر فرقے میں معجزات کے واقع ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
جن مذاہب کی تعلیمات نیچرل ہیں وہ معجزات کی حاجت نہیں رکھتے۔ کیونکہ اُن کی تعلیمات انسان کی عقل سے بلند وبلا نہیں ہیں
شاید اس جگہ کوئی یہ کہے کہ بہت سی تعلیمیں دنیا میں مروج ہیں اور اُن کے ماننے والے بھی بکثرت ہیں۔ اور وہ تعلیمیں اپنی ذات میں نیک اورپسندیدہ ہیں۔ مگر اُن کے ثبوت میں کوئی معجزہ نہیں دکھایا گیا۔ مثلاً بودھ مذہب اورمحمدی مذہب میں کئی ایسی تعلیمیں پائی جاتی ہیں اب ہمارا یہ مطلب نہیں کہ ہر ایک بات کے لئے معجزے کی ضرورت ہے۔ بلکہ ہم تویہی دکھا رہے ہیں کہ ہربات کے لئے خواہ وہ بچی ہی کیوں نہ ہو معجزے کی ضرورت نہیں پڑتی بودھ مذہب کی تعلیمیں اورمحمدی مذہب کی تعلیمیں بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تمام تعلیمیں جو انسان کی نجات کو اُسی کے اعمال پر چھوڑتی ہیں نیچرل ہیں۔ اُن میں کوئی بات سوپر نیچرل نہیں لہذا انہیں سوپر نیچرل واقعات کے ثبوت کی ضرورت نہیں گواُنکے معتقدوں نے سوپر نیچرل واقعات اُن سے منسوب کردئیے۔
پس معجزے کے مقصد سے ظاہرہے کہ اب معجزے کی ضرورت نہیں
پس جب ہم معجزے کے مقصد اور غرض پر غو رکرتے ہیں ۔ تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ سوائے خاص خاص موقعوں کے اور سوائے اشد ضرورتوں کے معجزات وقوع میں نہیں آتے ۔
پھر انجیل کےکامل مکاشفہ سے بھی یہ ثابت ہے کہ اب معجزات کی ضرورت نہیں
(۳۔) اب آخری بات جو ہم اس سوال کے ضمن میں ہدیہ ناظرین کرنا چاہتے ہیں یہ ہے کہ مسیحی مکاشفہ ہمارے ایمان اور عمل کے لئے کامل ہے اب چونکہ ہماری نجات کے لئے مکاشفہ کی ضرورت نہیں۔ اس لئے معجزوں کی بھی ضرورت نہیں رہی ۔
مذہب کے دو پہلو۔ اُن میں سے ایک ایمان کا اورایک عمل کا پہلو ہے ۔
مسیحی مذہب کی وہ تعلیمیں جن پر ہم کو ایمان لانا چاہیے کامل ہیں
اب مسیحی مذہب اُن دونو پہلوؤں کی شرائط کو کامل طور پر ادا کرتاہے۔ مثلاً جو کچھ وہ ہم کو خدا اورانسان کی نجات ۔ اور دوزخ ، اوربہشت کی بابت بتاتا ہے۔ وہ ہمارے لئے کافی دوانی ہے۔ اورکوئی دوسرا مذہب ان معاملات میں اُس سے بڑھ کر صحیح اورکامل تعلیم نہیں دیتا۔
وہ ہم کو خدا کی ذات وصفات کی اوراس رشتہ کے متعلق جو خدا انسان اوریونیورس سے رکھتاہے پوری پوری خبردیتا ہے۔ پھر وہ ہم کو مکمل طورپر بتاتا ہے کہ گناہ کیا ہے اوراُس کا تعلق خدا اورانسان کے ساتھ کیا ہے ۔ وہ ہم کو سکھاتا ہے کہ نجات دہندہ کون ہے اوراسے کیسا ہونا چاہیے وغیر وغیرہ ۔ اگر یہ سب باتیں ہم کو صحیح اورکامل طور پر معلوم نہ ہوتیں۔ توہمارا ایمان ناقص رہتا۔ پر مسیحی مذہب نے ان اہم امور پر ایسی لائح روشنی ڈالی اورہماری موجودہ ضرورتوں کے بموجب ان کو ایسی کامل صورت میں پیش کیاہے۔کہ اب ایمان والی تعلیموں میں کسی طرح کے اضافے یا زیادتی کی ضرورت نہیں رہی ۔
اسی طرح مسیحی مذہب کی وہ ہدائیتیں اورنصیحتیں جو عمل زندگی سے متعلق ہیں کامل ہیں
اسی طرح جب ہم اس مذہب کے عملی پہلو پر غور کرتے ہیں تو وہاں بھی ہم کو یہی نظر آتاہے کہ جو کچھ درستی عمل کےلئے ضروری ہے وہ سب کچھ انجیل میں ہمارے لئے موجود اورایسی کاملیت کے ساتھ اورکسی جگہ سے وہ علم دستیاب نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ وہ ہمیں احسن طور پر بتاتا ہے کہ خدا کی اطاعت وبندگی۔خدا کی رضا جوئی اور فرمانبرداری کیا شئے ہے۔اورکیسی نیت کےساتھ اسے بجالانا چاہیے۔ وہ ہمیں بتاتاہے کہ انسان کوانسان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہئیے۔ ماں باپ کو اپنے بچوں سے۔ بچوں کو اپنے باپ سے۔ مالکوں کو اپنے خادموں سے ، خادموں کو اپنے آقاؤں سے پڑوسی کواپنےپڑوسی سے کیونکر پیش آنا چاہئیے۔ اُس کے اخلاقی کمالات کا اعلیٰ زینہ وہ محبت ہے جو خدا اورانسان کی خدمت میں اپنے تئیں قربان کرنا جانتی ہے۔ غرضیکہ اُس کی تعلیمات اوراخلاقی ہدایات ایسی کافی ہیں ۔ کہ ہم نئے مکاشفہ کے محتاج نہیں۔اب چونکہ وہ مکاشفہ الہیٰ جو انجیل کے وسیلے ہم کو پہنچاجس کی تائید وتصدیق میں سیدنا مسیح نے معجزات کر دکھائے کافی دوافی ہے۔ اورچونکہ خدا نجات کےبارے میں جو کچھ ہمیں بتانا چاہتا تھا بتاچکا ہے ۔ لہذا اب معجزوں کی ضرورت نہیں رہی۔ اوراسی لئے معجزے دکھائے نہیں جاتے۔