Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque
Bismillah 6
معجزاتِ مسیح

مچھلیوں کے پکڑنے کا پہلا معجزہ
۳ ۔معجزہ

انجیل عیسیٰ پارہ لوقارکوع ۵ آیت ۱تا ۱۱ تک
مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے
؁ ۱۹۰۵ء

معجزاتِ مسیح
Miracles of Christ

3—Miracle
First Miraculous Catch of Fish – Luke 5:1-11
Rev. Talib-u-Din
1905

یہ معجزہ رسولوں کے کام کی گویا ایک پیشن گوئی ہے جو الفاظ کی بجائے مثال کے وسیلے یا فعلوں کی زبانوں میں بیان کی گئی ہے۔ قبل اس کے اس معجزہ کی تشریح شروع کی جائے ایک دقت کا رفع کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آیا یہ بیان وہی بیان ہے جو انجیل عیسیٰ پارہ متی باب ۴ آیت۱۸ اور مرقس رکوع ۱ آیت ۱۶ تا ۲۰میں درج ہے یا اس سے مختلف ہے۔ مقابلہ کرنے سے بعض باتیں ایسی معلوم ہوتی ہیں۔ جن کے سبب سے کئی مفسروں نے ان کو دو مختلف بیان کہا ہے ۔ مثلاً بزرگ اگسٹن کا خیال ہےکہ یہ معجزہ حضرت متی اور حضرت مرقس کے بیان سے پہلے واقع ہوا۔ اور جناب مسیح نے اس کے وسیلہ شاگردوں کو صرف اتنی بات بتائی کہ تم آدمیوں کے مچھیرے بنوگے۔ مگر اس موقع پر آپ نے فقط ان کے آئندہ کام اور اعلیٰ پیشہ کی نبوت کی۔لیکن ابھی ان کو یہ حکم نہیں دیا کہ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر میر ے پیچھے ہولو۔ پس وہ اس معجزہ کے بعد بھی اپنے پیشہ ماہی گیری میں مصروف رہے۔ او راسے قطعی اور آخری طور نہ چھوڑا ، جب تک کہ آپ نے ان کو سب کچھ چھوڑنے اور اپنے پیچھے آنے کا حکم نہ دیا۔ جو پارہ متی باب ۴ آیت ۱۸ اورپارہ مرقس باب ۱ آیت ۱۶ تا ۲۰ تک میں قلمبند ہے۔

لیکن واضح ہو کہ یہی دقتیں ایسی نہیں جو رفع نہ ہوسکیں۔ اور یا سوا اس کے اگر ہم ان دونوں بیانوں کو مختلف سمجھیں اور کہیں کہ حضرت لوقا اور وقت کے اور حضرت متی اور مرقس ایک اور وقت کا ذکر کرتے ہیں توکئی اور مشکلات برپا ہوجائیں گی۔ مثلا ً اس سوال کا جواب دینا مشکل ہوجائے گا کہ ایسے بخیدہ اور عظیم موقع سے بڑھ کر اور کونسا موقعہ ان کو آخری طور پر بلانے کے لئے موزون تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ بات ناممکن نہیں کہ وہ ان کو جالوں کےپاس بیٹھے دیکھ کر اور یہ جان کر کہ وہ مچھیرے ہیں اس استعارے کو استعمال کرسکتے تھے۔ "میں تم کو آدمیوں کے مچھوے بناؤں گا ۔"لیکن مسیحی عالم ِدین ٹرنچ صاحب فرماتے ہیں کہ اس معجزے کے بعد ان کلمات کا سننا اور سب کچھ چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے جناب مسیح کی پیروی کرنا ایک گونہ لطف رکھتا تھا۔ کیونکہ آپ نے ان کو حکم دیا تھا کہ اپنا جال دریا میں ڈالو۔اور انہوں نے آپ کی فرمانبرداری کرکے آ پ کی معجزانہ قدرت کا کرشمہ دیکھا۔ اور بہت سی مچھلیاں پکڑی تھیں۔ لہذا آپ کا یہ فرمان کہ "میں تمہیں آدمیوں کے مچھیرے بناؤں گا ۔" اس موقع پر نہایت پُر مطلب تھا۔ کیونکہ یہ معجزہ ظاہر کرتا تھا کہ جس طرح انہوں نے آپ کے حکم کی اطاعت سے مچھلیوں کو کثرت سے پکڑا ۔ اسی طرح اگر آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے تو آدمیوں کے مچھیرے بھی بنیں گے۔گویا یہ معجزہ ان کو یہ کہہ رہا تھاکہ تم اپنا پرانا پیشہ چھوڑو۔ اور آدمیوں کے مچھیرے بننے کا نیا اور اعلیٰ پیشہ اختیار کرو۔ پش تینوں مقام ایک ہی واقعہ کے ساتھ علاقہ رکھتے ہیں۔ بعض دقتیں جو تطبیق طلب ہیں یہ ہیں۔

۱۔حضرت لوقا اس شخص کی شفا کا بیان جس پر بدروح چڑھی ہوئی تھی اور جسے مسیح نے کفر ناحوم میں شفا بخشی۔ ا س معجزے سے پہلے کرتے ہیں حالاکہ حضرت مرقس اس کا ذکر شاگردوں کے بلانے کے بعد کرتے ہیں۔

۲۔حضرت متی اور مرقس بیان کرتے ہیں کہ مسیح اس وقت جھیل کے کنارے پر پھررہے تھے۔ جب آپ نے ان کو پیچھے بلایا۔

۳۔حضرت لوقا حضرت اندریاس کا ذکر نہیں کرتے ۔

۴۔حضر ت متی اور مرقس اس معجزے کا ذکر نہیں کرتے ۔ ان مشکلات کو اس طرح حل کرسکتے ہیں۔

۱۔حضرت مرقس نے غالباً بدروح والے شخص کا بیان حضرت پطرس کی ہدائت کے مطابق ترتیب وقت کے بموجب قلمبند کیا۔ لیکن حضرت لوقا اس معجزہ کو مچھلیوں کے معجزے سے پہلے شائد اس لئے رقم کرتے ہیں کہ جو کچھ ناصرت (جناب مسیح کا آبائی گاؤں)میں ہوا اسے ان واقعات کے بالمقابل ترتیب دیں جو کفر ناحوم میں سرزد ہوئے تاکہ بے ایمانی اور ایمان کو پہلو بہ پہلو رکھ کر ان کا فرق ظاہر کریں۔

۲۔یہ نہیں لکھا کہ جناب مسیح نے ان کو کنارے پر سے بلایا۔صرف یہ لکھا ہے کہ وہ کنارے پر سے جارہے تھے ۔ پس حضرت لوقا کے بیان کو حضرت متی اور مرقس کے بیان کے ساتھ ربط دینے میں کچھ بھی مشکل نظر نہیں آتی۔ اگر حضرت لوقا یہ نہ بھی بتاتے کہ مسیح تعلیم دینے کے لئے کشتی پر بیٹھے تو ہم کو یہ نتیجہ خود حضرت متی اور مرقس سے نکالنا پڑتا ۔کیونکہ یہ بات قبول نہیں کی جاسکتی کہ جب حضرت پطرس بیٹھے اپنے جال مرمت کررہے تھے اس وقت جناب مسیح نے کنارے پر سے ان کو پکارا کہ میرے پیچھے ہولو۔ بلکہ زیادہ تر تسلیم کے لائق یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ ان کے ساتھ کشتی پر موجود تھے اور وہیں اس معجزے کے بعد ان سے فرمانے لگے کہ " میں تم کو آدمیوں کے مچھیرے بناؤں گا "سو اب تم سب کچھ میرے واسطے چھوڑو۔ اور میرے پیچھے پیچھے چلو۔ اور پھر کبھی مجھ سے جدا نہ ہو۔

۳۔حضرت اندریاس کا ذکر نہ کرنے کا سبب یہ ہے ۔ کہ اس معجزے میں جس شخص کی طرف زیادہ توجہ دلانی منظور تھی وہ حضرت پطرس تھے۔ ماسوا اس کے حضرت لوقا کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ کشتی میں اور لوگ بھی تھے ۔ دیکھئے آیات (۲۔۵۔۹) اور پھر وہ رسولوں کی فہرست میں حضرت اندریاس کا نام درج کرتے ہیں۔ (دیکھئے انجیل عیسیٰ پارہ لوقا رکوع ۶ آیت ۱۴) اب اگر وہ ان کے بلا نے کا ذکر نہیں کرتے تو کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ دوسرے رسول یعنی حضرت متی اور حضرت مرقس ا س کی دعوت کا ذکر کرتے ہیں۔

۴پھر یہ بات بھی کہ حضرت متی اور حضرت مرقس اس معجزے کو تحریر نہیں کرتے کچھ مشکل نہیں۔ کیونکہ جناب مسیح نے بے شمار معجزے دکھائے۔ اور حواری مجبور نہ تھے کہ سب کو رقم کریں۔ علاوہ بریں ممکن ہے کہ حضرت مرقس جو اپنی انجیل حضرت پطرس کی زیر نگرانی تحریر کرتے ہیں شائد اس لئے اس معجزہ کو درج نہیں کرتے کہ حضرت پطرس کی فروتنی اور حکم مانع ہے کہ ان کے شخصی احوال قلمبند کئے جائیں۔ چنانچہ وہ آپ کے پانی پر چلنے کو بھی رقم نہیں کرتے ۔ لیکن حضر ت لوقا کو کوئی ایسا خیال روکنے والا نہیں ہے۔ بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ اس واقعہ کو جو خدا کا جلال اور حضرت پطرس کی بزرگی ظاہر کرتا ہے روکنے والا نہیں ہے۔ لہذا وہ اسے تحریر کرتے ہیں۔ اب ان باتوں سے ظاہر ہے کہ یہ تینوں بیان ایک ہی واقعہ سے علاقہ رکھتے ہیں۔ اور حضرت یوحنا کہ مطابق انجیل شریف میں جو بیان شاگردوں کی بلاہٹ کا پایا جاتا ہے وہ انکی پہلی ملاقات کا بیان ہے جس کے بعد وہ اپنے اپنے کاموں میں لگے رہے۔ مگر حضرت لوقا اور حضرت متی اور حضرت مرقس کے بیانات سے وہ گہرا تعلق ظاہر ہوتا ہے جس کے سبب سے انہوں نے اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہمیشہ آپ کے ساتھ رہنا اختیار کیا۔

آیت۴۔جب جنابِ مسیح کلام کرچکے۔ توشمعون سے کہا گہرے میں لے چلو اور شکار کے لئے اپنا جال ڈالو۔

پہلی تین آئتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بھیڑکے سبب سے جناب مسیح کشتی پر سوار ہوئے تاکہ کنارہ سے ذرا الگ ہوکر لوگوں کو تعلیم دینا شروع کریں۔ اور جب اس کا م سے فارغ ہوئے تو حضرت پطرس کو حکم دیاکہ کشتی کو گہرے میں لے چل ، اور جب وہاں پہنچے تو حکم دیا کہ اپنے اپنے جال دریا میں ڈالو۔اس کا مطلب یہ تھا کہ ان مچھیروں کو مچھلی پکڑے کے وسیلے اپنی محبت اور فضل کے جال میں پھنسائے ۔ ٹرنچ صاحب خوف فرماتے ہیں کہ وہ جو کمزوروں سے نہ درآوروں کو شرمندہ کرنے والا ہے خوب جانتا تھا کہ میری خدمت کے لئے یہی مچھوے موزون ہیں تاکہ میری کلیسیا دنیا کی دانائی اور قدرت پر نہیں بلکہ خدا کی حکمت اور ملاقات پر قائم سمجھی جائے ۔

آیت۵۔شمعون نے جواب میں کہا۔ ہم نے رات بھر محنت کی اورکچھ نہ پکڑا۔ مگرآپ کے کہنے سے جال ڈالتاہوں۔

شعمون جواب دیتا ہے کہ ہم رات بھر جو مچھلی پکڑنے کا سب سے اچھا وقت ہے محنت کی ۔ لیکن کچھ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ مگر خیر آپ حکم کی تعمیل کے لئے پھر جال ڈالے دیتا ہوں۔اب ان الفاظ سے حضرت پطرس کا یہ مطلب نہیں کہ میں جوماہی گیری کے فن میں مشتاق ہوں خوب جانتا ہوں کہ اب جال ڈالنا عبث ہے مگر چونکہ آپ کہتے ہیں اس لئے میں پھر ڈال دیتا ہوں گو اس سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ بلکہ برعکس اس کے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جناب مسیح کے کلام پر بھروسہ رکھتا تھا کیونکہ یہ ان کی پہلی ملاقات نہ تھی بلکہ وہ مدت سے ایک دوسرے کو خوب جانتے تھے ۔ لہذا وہ اس امیداورایمان سے جال ڈالتا ہے کہ جناب مسیح کے کلام سے ان کی محنت برومند ہوگی۔

آیت۶۔ایسا کرکے وہ مچھلیوں کو بڑا غول گھیرلائے اوراُن کے جال پھٹنے لگے۔

اب یہ سوال یہ برپا ہوتاہے کہ آیا معجزہ مسیح کی عالم الغیبی کا معجزہ تھا۔ یا آ پ کی قدرت کا کاملہ کا معجزہ تھا۔ کیا یہ جان کر کہ فلاں جگہ مچھلیوں کا غول موجود ہے۔ اور اگروہاں ڈال جال ڈالا جائے تو مچھلیاں کثرت سے پکڑی جائیں گی۔ آپ نے جال ڈالنے کا حکم دیا؟یا آپ نے اپنی قدرت سے مچھلیوں کو وہاں پہنچا دیا ؟مفسرین پچھلی رائے کو ترجیح دیتے ہیں مگر دوسرا خیال بھی خارج نہیں کیا جاسکتا؟لیکن معترض یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ اس معجزہ میں کون سی بات ہے کیونکہ جال اگر سمندر میں ڈالا جائے تو مچھلیاں اس میں ضرور پھنسیں گی۔ اگر ایک جگہ نہ پھنسیں تو دوسری جگہ پھنسیں گی۔اس کا جواب یہ ہے کہ معجزہ اس بات میں ہے کہ یہ عجیب نتیجہ آناً فاناً میں مسیح کے کہنے کے مطابق سرزد ہوا۔ معجزہ دکھانے والے کے کلام اور اظہار واقعات میں جومطابقت پائی جاتی ہے وہی معجزہ ہے یعنی جیسا آپ نے کہا ویسا ہی ہوگا۔ معجزہ انسان کی قدرت سے بلند اور بالا ہوتاہے۔ کوئی شخص مچھلیوں کا ایک غول ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنے کلام کے زور سے نہیں پہنچا سکتا ۔ جناب مسیح کے اختیار میں تمام اشیاء ہیں۔بحری اور بری سب چیزیں اس کے حکم کے تابع ہیں ( زبور شریف باب ۸ آیت ۶۔۸)۔

آیت۷۔اوراُنہوں نے اپنے شریکوں کو جودوسری کشتی پرتھے۔ اشارہ کیا کہ آکر ہماری مدد کرو۔ پس اُنہوں نے آکر دونوں کشتیاں یہاں تک بھر دیں کہ ڈوبنے لگیں۔

جو دوسری کشتی پر تھے اشارہ کیا۔ بعض کا (بارن صاحب ) کا خیال ہے کہ اشارہ اس واسطے کیا کہ ان کی کشتی بہت دور تھی اور آواز سے انہیں نہیں بلا سکتے تھے۔ لیکن بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت متی اور مرقس کے بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ کشتیاں اس قدر نزدیک تھیں کہ بولنے کی ضرورت نہ تھی سو انہوں نے صرف اشارہ کرکے انہیں بلالیا۔ علاوہ بریں دوسری کشتی والوں کی آنکھ بھی اس طرف لگی ہوئی تھی ۔کیونکہ وہ اس عجیب کرامات کو جو پطرس کی کشتی پر ہورہی تھی دیکھ رہے تھے۔ اور چونکہ ان کی توجہ ادھر لگی ہوتی تھی ۔ اس لئے صرف اشارہ کی ضرورت تھی۔دونوں کشتیاں یہاں تک بھر دیں کہ ڈوبنے لگیں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ڈوب گئی تھیں ۔مطلب صر ف یہ ہے کہ مچھلیوں کا بوجھ اتنا تھا کہ کشتیاں ڈوبنے کے خطرہ میں تھیں۔اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔

آیت ۸۔ شمعون پطرس یہ دیکھ کر جنابِ مسیح کے پاؤں پر گرا اورکہا۔ اے مالک میرے پاس سے چلے جائیے۔اس لئے کہ میں گنہگار ہوں۔

پطرس اب آپ کے دام محبت میں گرفتار ہوگیا ۔بزرگ کری ساسٹم کا یہ خیال نہائت غور طلب ہے کہ مسیح لوگوں کو اپنے پاس لانے کے فن میں خوب ماہر ہیں وہ عموماً لوگوں کو ان کے پیشہ کے وسیلہ سے اپنے قدموں میں کھینچ لاتے ہیں۔ مجوسیوں کو ستارہ کے ذریعہ اور مچھیروں کو مچھلیوں کے وسیلہ ۔ کیا پطرس نے اس معجزہ میں کسی طرح کا دھوکا کھایا؟نہیں کیونکہ یہ معجزہ اس لئے ایسا معجزہ تھا کہ اس میں اس کے لئے دھوکا کھانے کی کوئی جگہ نہ تھی ۔ او ریہی وجہ تھی کہ اس معجزہ کی تاثیر اس پر ایسی ہوئی کہ آگے کبھی ایسی نہیں ہوئی تھی۔

۱۔یہ معجزہ اس کے پیشہ سے علاقہ رکھتا تھا۔

۲۔اس کی کشتی پر واقعہ ہواتھا۔

۳۔اسی کا جال استعمال کیا گیا تھا۔

۴۔اسی کے بے پھل محنت کے بعد واقع ہوا تھا۔

۵۔اور خود اس کی آنکھوں کے سامنے واقع ہوا تھا۔

لہذا اس نے اس معجزے کو جو ایسے گہرے طورپر اس کے شخصی حالات کے ساتھ وابستہ تھا بہت اچھی طرح محسوس کیا۔ پس وہ حیرت اور شکرگزاری سے معمور ہوکر آپ کے پاؤں پر گر پڑا ۔ یہ فعل سجدہ کرنے اور دعا مانگنے کا معمولی طریقہ تھا۔ اب پطرس آپ کی قدرت اور حکمت کا قائل ہوگیا۔ اور اس کی حیرت اور شکر گزاری کے ساتھ یہ ادراک بھی مخطوط ہے کہ جس شخص کے سامنے سربسجود ہوں وہ ایسا بزرگ اور پاک اور عالی جاہ ہے کہ میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتا لہذا وہ کہتا ہے۔

اے مالک میرے پاس سے چلے جائیے ۔ اس لئے کہ میں گناہ گار ہوں۔ ایسے موقعوں پر بناوٹ کی باتوں کو جگہ نہیں ملتی بلکہ انسان اپنےدل کی تہ سے بولتا ہے ۔ اور اس کے دل کی وہ باتیں جو چھپی ہوئی ہوتی ہیں۔ روشن ہوجاتی ہیں۔ اور ان میں سے ایک یہ بات ہے کہ انسان اس بات کی طبعی شناخت رکھتا ہےکہ مجھ میں اورخدا میں ایک وسیع فاصلہ حائل ہے ۔(توریت شریف کتاب خروج باب ۲۰آیت ۱۸۔۱۹۔دانی ایل باب ۱۰آیت ۱۷اور صحیفہ حضرت یسعیاہ باب ۶ آیت ۵)اس اقرار میں کسی خاص قسم کےگناہ کی طرف اشارہ نہیں ۔ صرف یہ ہے کہ اب پطرس اپنی ذاتی برائی اور نالائقی کو پہنچانے لگ گیا وہ اب جناب مسیح کی عظمت اور قدوسیت کو محسوس کرتا ہے اور بڑے علم اور فرونتی سے عرض کرتاہے کہ میں اس لائق نہیں کہ آپ میرے ساتھ رہیں۔یہ بھی یادرہے کہ وہ مسیح سے چلے جانے کی درخواست اس لئے نہیں کرتا کہ اس کے دل میں مسیح کی محبت اور عزت کا خیال نہیں محبت اور عزت اس کے دل میں تھی۔ مگر جب خدا کے ساتھ اس طرح آمنا سامنا ہوتا ہے تو ایسے کلمات بے ساختہ منہ سے نکل جاتے ہیں۔ یہی حال پطرس کا ہوا جو اس سے پہلے مسیح خصلت اور شخصیت سےکماحقہ طور پر واقف نہ تھا۔ یہ نکتہ بھی غور طلب ہےکہ انسان اور خدا کے درمیان جو فاصلہ حائل ہے اسے جناب مسیح دورکرتےہیں۔ جس طرح انسانیت اور الوہیت آپ کی شخصیت میں باہم ملتی ہیں اسی طرح آپ انسان اور خدا کا ملاتے ہیں۔خداکی حضوری جو گناہ گار کے لئے بھسم کرنے والی آگ ہے ۔ ایماندار کے لئے مسیح میں بڑی برکت کا باعث ہوتی ہے۔

آیت۹۔کیونکہ مچھلیوں کے اس شکار سے وغیرہ۔

یہ حیرت مسیح کے اظہار قدرت کے وسیلہ پیدا ہوئی اور اس کا نتیجہ یہ ہواکہ نہ صرف حضرت پطرس بلکہ حضرت اندریاس ،حضرت یعقوب ،اور حضرت یوحنا آپ کی خدمت اور پیروی کے لئے تیار کئے گئے ۔

آیت ۱۰۔ جنابِ مسیح نے حضرت پطرس سے فرمایا۔ خوف نہ کر و اب سے تم آدمیوں کو شکار کیا کروگے۔

خوف نہ کرو۔وہ حضرت پطرس کے خوف آمیزخیالات کو جو آپ کی عظمت اور بزرگی کے مشاہدہ سے اس کے دل میں پیدا ہوئے تھے۔ ان لفظوں سے دھیما کرتے ہیں اور اسے جتاتے ہیں کہ بجائے اس کہ میں تم سے جدا ہوں اب تمہیں ہمیشہ میرے ساتھ رہناہوگا اور اب سے تم آدمیوں کا شکار کروگے۔ ٹرنچ صاحب کا خیال جو ذیل کے الفاظ میں درج ہے نہائت نادر ہے۔ خدا کے نبی اور ا س کے خادم اپنے عہدہ پر معمور ہونے سے پہلے ہمیشہ کچھ اسی قسم کے تجربہ سے گذر ا کرتے ہیں ان کا تقرر کسی ظاہری رسم کے مطابق نہیں ہوتا اور نہ ہمیشہ ایک ہی صورت میں انجام پاتا ہے تاہم سب کو اپنے عہد کے فرائض ادا کرنے سے پہلے یہ معلوم ہوجاتاہے کہ جو زمینی ہے آسمانی کی تاب نہیں لاسکتا بلکہ اس کے سامنے زردروہوجاتاہے ۔ اس موقعہ پر انسان اپنی ناچیز حالت کو اور اپنی بدی کو پہچانتا ہے ۔ اور اس درجہ تک پہچانتا ہے کہ آگے کبھی اسے ایسی شناخت نصیب نہ ہوئی تھی۔ او ریہ عرفان اس کو اس لئے بخشتا جاتا ہے کہ جو کام اس میں خدا کی طرف سے ہونے والا ہے وہ انسان کا نہ سمجھا جائے ۔ بلکہ پورے پورے طور پر خدا کا ماناجائے۔ (دیکھئے توریت شریف کتاب خروج باب ۴ آیت ۱۰ سے ۱۷،صحفیہ حضرت یسعیاہ باب ۶ ،صحیفہ حضرت یرمیا ہ باب ۱ آیت ۴،)حضرت پطرس کو آدمیوں کا مچھیرے بننے کے کام پر مامور ہوتا تھا۔ لہذا ضروری تھا کہ وہ بھی اس عجیب تجربہ کی راہ سے گزرے۔

آدمیوں کا شکار کیا کرو گے ۔ دوسرے انجیل نویسیوں کے مطابق یہ مطلب اس طرح ادا کیا گیا ہے میں تجھے آدمیوں کا مچھیرا بناؤں گا۔ وہ اپنے وعدہ کو اسی فن کی اصطلاح میں ادا کرتا ہے۔جس سے پطرس بخوبی واقف ہے۔اس کام کو جواب پطرس کوملا۔ اس کے پہلے پیشہ پر دوطرح کی فضیلت تھی۔ اول کہ وہ اب مچھلیوں کا نہیں۔ بلکہ آدمیوں کا شکار کرنے کو تھا۔ دوئم آدمیوں کو مچھلیوں کی طرح موت کے لئے نہیں بلکہ زندگی کے لئے پکڑے کو تھا۔ جولئین جوایک بے دین شخص تھا ۔ طنراً کہا کرتا تھا۔ مسیح نے اچھا کام اپنے شاگردوں کے سپرد کیا کہ انہیں مچھیرا بنایا۔ جس طرح مچھوا مچھلیوں کو پانی سے جو ان کی زندگی کے لئے لابد ہے نکال کر جان سے ماردیتا ہے اسی طرح یہ رسول بھی لوگوں کو موت کے لئے بلاتے پھرتے ہیں۔ لیکن مفسرین بیان کرتے ہیں کہ جس لفظ کا ترجمہ شکار کیا گیا ہے اس کے اصل معنی "کسی شئے کو زندہ پکڑنے کے ہیں۔ "لہذا مسیح بنی آدم کو موت کے لئے نہیں بلاتے بلکہ دنیا کی امواج اور گناہ کے طوفان اور آزمائشوں کے تلاطم سے بچا کر کنا رے پر سلامت تک پہنچانے کے لئے بلاتے ہیں۔ خدا کی قید میں گرفتار ہونا اس آزادی سے جو دکھ سے بھر پور ہوہزار درجہ اچھا ہے۔یہ قید گویا گناہ سے آزاد اور خدا کا غلام بننے کا نام ہے۔کلام کی تبلیغ کی نسبت بھی یہاں ایک نکتہ قابل غور ہے۔ او روہ یہ ہے کہ مچھوا نہیں جانتا کہ کیسی اور کتنی مچھلیاں اس کے جال میں آئیں گی۔ بلکہ وہ اس اعتقاد سے اپنا جال دریا میں ڈالتا ہے کہ کامیابی خدا کی طرف سے آئے گی۔ یہی اصول انجیل شریف کی تبلیغ پر صادق آتا ہے۔ اس کے ساتھ یہی بھی یاد رہے کہ ماہی گیری کا کم حکمت اور ہوشیاری کا کام ہے ۔ سختی اور جبر کا کام نہیں ہے۔

آیت ۱۱۔ وہ کشتیوں کوکنارے پر لےآئے اورسب کچھ چھوڑ کر پیچھے ہولئے۔

اب جو کچھ انہوں نے چھوڑا وہ اگرچہ بہت نہ تھا تاہم وہ ان کا سب کچھ تھا۔ جتنا انہوں نے چھوڑا ۔اتنا ہی ان کے پاس تھا۔ اور وہ سب کچھ مسیح کی خاطر چھوڑا۔اس سے ان کی وہ محبت ظاہر ہوتی ہے جو وہ مسیح کے ساتھ رکھتے تھے۔ اور نیز ان کی وہ رضامندی ثابت ہوتی ہے جس کے سبب سے وہ مسیح کے لئے خود انکاری کے کام کرنے کو تیار تھے اور یہ خوبیاں اسی قدر ظاہر اور ثابت ہوتی ہیں۔ جس قدر بڑے بڑے محلوں اور کثیر دولت کےچھوڑنے سے ہوتیں ہیں ۔ مسیح یہی چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے خواہ تھوڑا ہو یا بہت اسے چھوڑے کے لئے تیار ہوں ۔ جس وقت وہ ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیں چھوڑنا چاہیے شئے کی زیادتی یا کمی پر منحصر نہیں بلکہ اس نیت پر منحصر ہے جس سے وہ شئے چھوڑی جاتی ہے۔ ایک شخص اپنی جھونپڑی کو اس قدر پیار کرتا ہے جس قدر دوسر ا اپنے محل کو کرتا ہے۔ دیکھو زبدی اپنے بیٹوں کے بغیر بیت حسدا کو ( انجیل شریف بہ مطابق حضرت مرقس باب 1 آیت 20) اور مسیح ان کے ساتھ کفرناحوم کو جاتے ہیں۔ہو ہمیشہ اس کے ساتھ رہتے ہیں ۔زبدی بھی نمونہ کے لائق باپ تھا۔

نصیحتیں اور مفید اشارے

۱۔مسیح ان کو برکت دیتے اوران پر اپنے تئیں ظاہر کرتےہیں جو بیکار اور سست نہیں رہتے بلکہ اپنے کام میں مشغول ہوتےہیں۔ دیکھو گڈرئیے اپنی بھیڑوں کو چراتے تھے۔ عورت پانی بھرتی تھی اور حضرت پطرس اور دیگر شاگرد جالو ں کی مرمت کرتے تھے۔ جب جناب مسیح ان پر ظاہر ہوئے۔

۲۔مسیح اپنے لوگوں کو اپنی عجیب قدرت کے پر توس سے بسا اوقات سمندر کی گہری جگہوں میں مالا مال کیا کرتے ہیں۔

۳۔مسیح کے وعدوں پر ایمان لانا وعدوں کی برکتوں سے برومند ہونا ہے۔ کیا پطرس نے گہرے میں جال ڈال کر شرمندگی اٹھائی ؟

۴۔ وہی لوگ مسیح کی خدمت اچھی طرح بجالاتے ہیں جو اپنی گہنگاری اور مسیح کی قدوسیت کو پہچانتے ہیں۔

۵۔جب ہماری بدی ہم پر ظاہر ہوجائے تو ہماری اصل جگہ مسیح کے قدم ہیں۔ وہیں ہم حضرت پطرس کی طرح گرنا چاہیئے۔

۶۔مسیح کے حکموں پر ہمیں بعض اوقات اپنے سالہاسال کے تجربہ کو بھی قربان کرناپڑتا ہے ۔

۷۔زبدی کی روش غور طلب ہے ۔ اس نے اپنے بیٹوں کو یہ نہیں کہا کہ تم کیا بیوقوفی کرتے ہو۔ اپنا کام چھوڑ کر کہاں جاتے ہو۔ تمہاری عقل کہاں چرنے گئی ہے۔ مسیح کی پیروی میں کیا دھرا ہے۔ ہمارے لئے سبق یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو مسیح کی خدمت اختیار کرنے سے نہ روکیں کیا سب ماں باپ زبدی کی طرح اپنے بچوں کو اجازت دینے کے لئے تیار ہیں ۔

۸۔سب کچھ چھوڑے بغیر مسیح کی خدمت نہیں ہوسکتی۔ دیکھو اس دولتمند کا حال جو ہمیشہ کی زندگی کی تلاش میں تھا۔ جب اس سے یہ کہا گیا کہ اپنا سب کچھ بیچ کر اور غریبوں کو دے کر میری پیروی کر تو وہ غمگین ہوکر واپس چلا گیا۔

۹۔جناب مسیح اپنے شاگردوں اور خصوصاً اپنے خادموں کو خود ڈھونڈتے ہیں وہ ان کے آپ آنے کی ا نتظاری نہیں کرتے "قول المسیح تم نے مجھے نہیں چنا ۔ میں نے تم کو چنا ہے۔"

۱۰۔غور کرو کہ آدمی مسیح کے آنے سے پہلے کیا ہوتا ہے۔ اور جس وقت وہ آجاتا ہے تب کیا ہوجاتا ہے ۔ حضرت پطرس کیا تھے اور کیا ہوگئے۔