Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

باب سوئم

زبور کی دوسری کتاب

زبور ۴۲ سے۷۲

سوال۱۱: زدبور کی دوسری کتاب کی کفیت بیان کرو۔

جواب:زبور کی دوسری کتاب ۳۱ یعنی ۴۲ سے ۷۲ زبور ہیں۔کہ غالباً سلیمان کی ہیکل کی عبادت کے لیے۔تالیف ہوئے تھے۔ان میں ۸ یعنی ۴۲ سے ۴۹ بنی قرع کے ہیں۔

۵۰ واں زبور آصف کا ہے۔۱۸ یعنی ۵۱ سے ۶۵ اور ۶۸ سے ۷۰ زبور کے ہیں۔زبور ۶۶ ، ۶۷ اور ۷۱ گمنام ہیں۔اور زبور ۷۲ سلیمان کا ہے۔اس کتاب کی یہ خاصیت ہے کہ اس کسی نا معلوم وجہ سےلفظ ایلوہیم بجائے یہواہ کے بکثرت استعمال ہوا ہے۔زبور پہلی کتاب میں لفظ یہواہ ۷۲ دفعہ اور ایلوہیم ۱۵ دفعہ استعمال ہوا ہے۔اور دوسری کتاب میں لفظ ایلوہیم ۶سے ۷ دفعہ استعمال ہو ہے۔اور یہواہ ۷۴بار استعمال ہوا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں کئی ایک قابل اور قادرِ کلام شاعروں کی فکر رسا کے نتائج ہیں۔جن کی مفصل کیفیت پر حتی المکان غور کریں گے۔اوپر ذکر ہوا ہے کہ اس کتاب کے ۳۱ زبوروں میں سے ۸ زبور بنی قرع اب دریافت کرنا چاہیے کہ یہ بنی قرع کون تھے؟اور ان زبوروں کی خاص وجہ اور موقعہ کیا تھا؟

خروج ۶ باب ۱۶ آیت سے معلوم ہوتاہے کہ بنی لاوی جیر سوم مراری اور قہات تھے۔اور اس باب کی ۱۸ویں آیت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ بنی قہات امرام ۔ اور از ہار اور ازُئیل تھے۔پھر ۲۱ ویں آیت سے ظاہر ہے کہ بنی اظہار تعرع نضج اور ذکری تھے چنانچہ قرع بن قہات بن لاوی تھے۔

گنتی ۱۶ باب ۱ سے ۳۵ آیت میں ذکر ہے کہ یہ وہ قرع ہے جس نے داتن اور ابیرام کے مل کر موسیٰ کے ساتھ فتنہ سازی کی تھی۔اور عجیب طرح مارا گیا۔اور گنتی ۲۶ باب اور ۱۱ آیت سے ظاہر ہے کہ قرع کے لڑکے اس ہلاکت سے محفوظ رہے۔اور چونکہ وہ لاوی تھے۔اور گانے ۔بجانے میں کافی دسترس رکھتے تھے۔داؤد نے ہیکل کی عبادت کے لیے مقرر کیا۔چنانچہ پہلی تواریخ باب ۱۶ ، ۱۷ ، ۱۹ اور ۲۵ آیت۔میں ذکر ہے کہ جب داؤد نے یروشلیم میں عہد کے صندوق کے لیے جگہ تیار کی تواس نے لایوں کےسرداروں کوفرمایا کہ اپنے بھائیوں میں سے گھانے والوں کو مقرر کریں۔کہ موسیقی کے سازیعنی بربطیں کنارتیں اور منجیر بجاوے اور بلندآواز سے گھائیں سو لایوں نے بہمیان بن یوئییل کو اور اس کے بھائیوں میں سے آصف بن برقیا کو اوربنی امراری میں سے ایتان کو مقرر کیا۔اور ان کےسادتھ کئی ایک اور بھی تعینادت ہوئے اور عہد کے صندوق کو اوبیدادوئم کے گھر سےنکال یروشلیم میں بخوشی چڑھائیں۔اور پہلی تواریخ ۲۵ باب ۱ آیت سے ظاہر ہے کہ داؤد اور لشکر کے سرداروں نے آصف اور ہیمان یدوتن کے بیٹوں میں سے بعض کو عبادت کے لیے تعین کیا۔اور بربطوں اور کنارتوں اور جھانجوں سے نبوت کریں۔اس باب کی ۵ ویں آیت میں ہیمان بادشاہ کا غیب بین بتلایا گیا ہے۔اور ذکر ہے کہ ہیمان کے بیٹے خدا کے معاملوں مین سینگ بلند کرنے کو تھے

سینگ کا باجا زور سے اور بلند آواز سے بجاتے تھے۔اور خدا اس کو ۱۴ بیٹے اور ۳ بیٹاں دییں۔اور وہ اپنے پاب کی صلاح و ہدایت مطابق خداوند کے گھر میں جھانجھ ، بربط اور کنارت سے گانے کو حاضر تھے۔کہ خدا کے گھر کی خدمت کریں۔جیسا کہ ہیمان یدوتوں اور آصف کو خداوند کی طرف سے حکم ہوتا تھا۔پہلی تواریخ ۶ باب ۳۱ سے ۳۲ آیت میں مرقوم ہے کہ یہ وہ ہیں جنہیں داؤو نے بعد اس کے کہ آرائگاہ میں پہنچا۔ گانے والوں کے گروہوں پر مقرر کیا۔سو وہ خیمہ کے مسکن کے آگے جب تک کہ یروشلیم میں سلیمان نے خداوند کا گھر تعمیر نہ کیاوہ گانے کی خدمت کرتے تھے۔اوراپنی اپنی باری پر خدمت کے لیے حاضر ہوتے تھے۔۶ باب ۲۳ آیت میں مرقوم ہے کہ وہ جو اپنے لڑکوں سمیت خدمت گزاری کرتے تھے۔یہ ہیں بنی قہات میں ہیمان سرودی اور ۶ باب ۴۳ اور ۴۴ آیتسے ظاہر ہے کہ آصف لاوی کے بیٹے جیرسوں سے نکلا اور ایتان مراری کے خاندان میں سے تھا۔یہ سب کے سب لاوی تھے۔ملعوم ہوتا ہے کہ جب ضرورت پڑی تو انہوں نے موقعہ کے مطابق ملہم ہو کرزبور تصنیف کیے۔

سوال ۱۲:دوسری کتاب کے بنی قرع کےآٹھ زبوروں کی تفصیل کرو۔

جواب:زبور ۴۲اور۴۳ کی ترکیب اور ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں یہ ایک ہی زبور تھا۔زبور ۴۲ کا سرنامہ یہ ہے کہ سردار معنی کے لیے بنی قرع کا مشکیل جب کہ زبور ۴۳ کا بلکل کوئی سرنامہ نہیں۔یہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ کہ زبور ۴۳ زبور ۴۲ کا تیسرا حصہ ہے۔یہ دونوں زبور ۴۲ اور ۵ آیت کے ان الفاظ سے تینوں حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ کہ میرے دل تو کیوں گرا جاتا ہے اور تو میرے میں کیوں بے آرام ہے۔خداپر بھروسدہ رکھ کہ میں آگے کو بھی اس کی ستائش کروں گا۔کہ اس کا چہرہ نجات دینے والا ہےان زبوروں کا حصہ اول زبور ۴۲ ۱سے ۵ میں ہے کہ جس میں مصنف خدا کی حضوری کے لیے۔ایک ہرنی کی طرح جو کہ پانی کے سوتوں کی پیاسی ہو۔پیاسا اورآرزومند ہے۔اب معلوم ہوتا ہے کہ مصنف گانے والوں میں سے تھا۔اور ان دنوں یروشلیم سے دور اور ہیکل کی عبادت سے محروم تھا۔اور عید کے ایام میں اس گروہ کے ساتھ جو کہ خوشی کی آواز سے گاتا ہوا اور شکرگزرای کرتا ہوا خداوند کے گھر کو جاتا تھا۔شریک و شامل نہ ہو سکا۔

اس کے حصہ دوئم یعنی آیات ۶ سے ۱۱ میں مصنف اپنی حالت پر غور کرتا اور خدا سے فریاد کرتا اور کہتاہے۔کہ سے میرے خدا میرا جی گرا جاتا ہے۔میں پروں کی زمین میں اور حرموں میں کوہِ مصفاپر تجھے یاد کروں گا۔گو وہ ہیکل میں عبادت نہ کرسکا۔تو بھی یہاں کہی ہے خدا کو یاد کرتا ہے۔

حصہ سوئم: یعنی زبور ۴۳ میں دعا کرتاہے۔کہ خداوند اس کو اس کے دشمنوں سے رہائی بخشے تاکہ وہ پھر بدستور عبادت میں شریک ہو سکے اور کہتا ہے کہ تب میں خدا کے مذبح کے پاس خداکے حضور کمال خوشی سے بربط بجا کر ستائش کرتا ہوا جاؤں گا۔اس حصے کی پانچویں آیت میں وہ اپنے جی کو تقویت دے کر کہتا ہے کہ اے میرے جی! تو کیوں گرا جاتا ہے۔اور تو مجھ میں کیوں بے آرام ہے۔خداوند پر توکل کر کہ میں آگے کو بھی اس کی ستائش کروں گا۔جو میرے چہرے کی نجات اور میراخدا ہے۔

زبور ۴۴:بنی قرع کا مشکیل جو جی سردار مغنی کے سپرد کیاگیا۔خدا کے حضور میں گایا جائے۔اس میں بنی قرع بنی اسرائیل کا وکیل ہو کر بیان کرتا ہے کہ گو اسرائیل کی صداقت اور وفا داری مستقل رہی تو بھی خدا نے ان کو مصائب میں گرفتار کیا۔اور وہ خدا کی مہربانی کا طلب گار ہے۔

اس زبور میں پانچ مختلف باتیں ہیں۔

(۱) آیات ۱سے ۳ میں وہ خدا کو یاد دلاتا ہے۔کہ سابق زمانہ میں باپ دادوں کی شہادت کی وجہ سےاس نے اس کے ساتھ نیک سلوک کیا اور اس ملک سے قوموں کو نکال کر انہیں بسایا۔

(۲) آیات ۴ سے ۸ میں وہ خدا کو اپنا بادشادہ تسلیم کرکےدعوے کرتا ہے۔کہ اس کی مداد سے میں اپنے دشمنوں کو دھکیل دوں گا۔اور اس کے نام سے ان کو جو مجھ پر چڑھتے اور حملہ کرتے ہیں۔پامال کروں گا۔نیز وہ وہ یہ بھی گمان رکھتا ہے کہ خداوند خود بغیران کی مدد کےبچانے والا۔اور کہتا ہے کہ وہ ان کو جو ہم سے کینہ رکھتے ہیں، رسوا کرتاہے۔کہ ہم ابد تک اسی کی ستائش کریں گے۔

(۳) آیات ۹ سے ۱۶ میں وہ خدا کے سامنے فریادد کرتا ہے کہ وہ گزشتہ کی طرح ان کی مدد نہیں کرتا۔اس نے ان کو ترک کر رکھا ہے۔اور ان کو ان کے دشمنوں کے آگے بھگا دے گا۔اور مفت میں بیچ ڈالا ہے۔اور ہم کو قوموں کے درمیان ضرب المثل کیا ہے۔

(۴) آیات ۱۷ سے ۲۲ میں اسرائیل دعوے کے کہتے ہیں کہ ہم ایسے سلوک کے سزاوار نہ تھے۔کیونکہ ہم خدا کو نہیں بھولے۔اور اس کے عہد میں بے وفائی نہیں کی بلکہ ہم خدا کے لیے سارا دن مارےجاتے ہیں۔اور ذبح کی ہوئی بھیڑوں کی مانندگنےجاتے ہیں۔

(۵) ۲۳ سے ۲۶ آیات میں وہ سب مل کر عرض کرتے ہیں۔کہ خدا جاگے اور بے دار ہو۔اور ان کو ہمیشہ کے لیے ترک نہ کرے۔نیز وہ ایک سوال بھی کرتے ہیں۔کہ ۔وہ اپنا منہ کیوں چھپاتاہے؟اور اس ظلم کو جو ہم پرہوتا کیوں بھلا دیتا ہے۔آخر میں عرض بھی کرتے ہیں۔و ہ اپنی رحمتوں کے واسطے ان کو رہائی دے۔

زبور۴۵: بنی قرع کا مشکیل یعنی غزل معشوقوں کی بابت جو سوسنوں کے سر پر گائی جائے۔اس میں دلہا اور دلہن کی تشبیہ سے مسیح اور کلیسیا کے مبارک اتحاد کا تصور دلایا گیا ہے۔اس کی پہلی آیت تمہیدی ہے۔اس مصنف وجہ تصفنیف بیان کرتا ہے۔ آیات ۲سے ۹ میں وہ بادشاہ کا حسن،عزت ،جلال اور صداقت ظاہر کرتا ہے۔اور اس کی شاہانہ خوبیوں اور اوصافِ کاملہ کا بیان کرکے تاکیدکرتاہے۔کہ وہ اپنی بزرگواری سے سوار ہو۔اور سچائی، ملائمت اور صداقت کےواسطے آگے بڑھے۔اور کہتا ہے کہ تیرا دہنا ہاتھ تجھ کو مہیب کام سکھائے گا۔

آیات ۱۰ سے ۱۲ میں مصنف دلہن کی طرف مخاطب ہو کر تاکید کرتا ہے کہ اے بیٹی سن سوچ اور اپنا کان ادھر لگا۔اپنے لوگوں اور اپنے باپ کے گھر کو بھول جا۔غرض کہ کلیہ مخصوصیت طلب کیا گیا ہے۔ آیات ۱۳ سے ۱۵ میں وہ آراستہ دلہن خوشی اور شادمانی کے ساتھ دولہا کے ساتھ پہنچائی جاتی ہے۔اوروہ بادشاہ کےمحل میں داخل ہوتی ہے۔

آیات ۱۶ سے ۱۷ میں مصنف بادشاہ کو کہتا ہے کہ تیرے بیٹے تیرے باپ دادا کے قائم مقام ہوں گے۔اور تو ان تمام زمین کے سردار مقرر کرے گا۔اور سب لوگ ابدالاباد تیری ستائش کریں گے۔زبور۴۶ ، ۴۷ اور ۴۸ بنی قرع کے یہ تین زبور جوکہ بنی اسرائیل کی ایک خاص رہائی کی یاد گار اور اس کی شکر گزاری میں تصنیف ہوئے۔جو کہ باسلسلہ ہیں۔زبور ۴۶ میں یہ حقیقت پیش ہے کہ یروشلیم کی حفاظت کی وجہ اس میں خدا کی حضوری تھی۔زبور ۴۷ خدا کی تعریف ہے۔کہ وہ مہیب ہے۔اور تمام زمین کے اوپر بادشاہ عظیم ہے۔اور زبور ۴۸ میں بیان ہے کہ یروشلیم کی فوقیت اس سبب سے کہ یہواہ اس میں بودو باش کرتا ہے۔اور کہ وہ شاہِ عظیم کا شہرہے۔بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ زبور اس وقت تصنیف ہوئےحزقیا نے خداوند سے دعاد مانگی۔اور شاہِ اسور سنہریب سے بچ گیا۔دوسرا سلاطین ۱۹ باب ۲۴ سے ۳۷ آیت۔ اگر یہ خیال درست ہے تو ان زبوروں کی تالیف کا وقت جیسا کہ بعض مصنفوں کا گمان ہے۔زمانہ سلیمان ہو سکتا ہے۔ان تینوں زبوروں کی تفصیل اس طرح ہے۔زبور ۴۶ کی پہلی تین آیات میں یقین دلایا گیا ہے کہ اگر خداوند موجود ہو تو زمین کے انقلابات سے کچھ بھی خوف و خطر نہیں ہو سکتا۔

آیات ۴ سے۷ میں شہر یروشلیم کی حفاظت کا سبب یوں بیان کیا گیا ہے۔کہ خدا اس کے بیچو بیچ ہے۔سو اس کو ہرگز جنبس نہ ہو گی۔ اور اہلیانِ شہر کمال خوشی اور اطمنان سے بودو باش کریں گے۔

آیات ۸سے ۱۱ میں تاکید ہے کہ خدا کی کاروائی پر غور کیا جائے۔اور ۱۰ ویں آیت میں خدا فرماتا ہے کہ تھم جاؤ۔اور جانو کہ میں خدا ہوں۔میں قوموں بلند اور زمین پر سر بلند ہوں گا۔

زبور۴۷:میں بنی قرع سردار مغنی کی معرفت سب لوگوں کو طلب کرتا ہے۔کہ تالیاں بجائیں۔اور کہتا ہے کہ خوشی کی آواز سے خداوند حضور نعرہ مارو۔ اس کی پہلی چار آیات میں ایک دعوتِ عام ہے۔کہ ۔یہواہ کو جو کہ کل دنیا کا بادشاہ ہے۔ستائش کروکہ وہ خوشی سے للکارتے ہوئے۔اوپر چڑھاوہ سب جہانا اک بادشاہ ہے۔سو چاہیے کہ سوچ سمجھ کر اس کی ستائش کلے گیت گائیں۔

آیات ۸ سے ۹ ظاہر کرتی ہے کہ دنیا کی سب اقوام خدا کی عالمگیر حکومت کو تسلیم کرکے ابراہام کےخدا کے لوگوں کے ہمراہ جمع ہوئی ہے۔ہیں۔

زبور۴۸: میں بنی قرع صیحون کی خوش نمائی اور جلال کی تعریف کرتے ہیں۔اس کی پہلی دو آیات وہ یہواہ کی بزرگی تعریف کرکےکہتے ہیں کہ وہ اس قابل ہیں کہ ہمارے خدا کے شہر میں اس کے مقدس پہاڑ پر اس کی ستائش بہت طرح سے کی جائے۔اور اس کے کی تعریف تمام زمین پر ہو۔

آیات۳ سے ۸ میں وہ کہتے ہیں کہ یہواہ کاجلال اس شہرمیں اس قدر موجود تھا۔کہ دشمن دیکھ کر فوراً دنگ ہوئے۔اور گھبرا کر بھاگ گئے۔آیات ۹ سے ۱۴ میں وہ بیان کرتا ہے کہ اس رہائی کا ان پر کیا اثر ہونا چاہیے۔ یعنی یہ کہ وہ اس کی ہیکل میں خدا کی مہربانی پر غور کرکے اس کی عدالتوں کے سبب خوشی کریں۔نیز چاہیے۔وہ اس شہر پر خوب اپنادل لگائیں۔ تاکہ آنی والی پشتوں کواس کی خبر دینے قابل ہوں گے۔اور بتا سکیں کہ یہ خدا ابدالآبادتک ہمارا خدا ہے۔اور مرتے دم تک ہماری ہدایت کرے گا۔

زبور۴۹:بنی قرع کا زبورپہلی چار آیادت میں دبیاچہ ہے۔جس میں سب امتیں طلب کی گئیں ہیں۔کہ کان لگائیں اور سنیں۔کیونک وہ ایک راز کی بات پیش کرنا چاہتے ہیں۔اور وہ راز یہ ہے کہ دولت انسان کی بہبود کے لیے لاحاصل ہے۔کسی فضول شخص کو مقدور نہیں کہ وہ بھائی کو اس کا کفارہ دے کر چھڑا سکے۔چنانچہ آیات ۵ سے ۱۳میں وہ دعوے سے کہتے ہیں کہ مصیبت کے ایام میں دولت بالکل بے سود اوربے اثر ہے۔کیونکہ دولت بھی اوروں کی طرح مرتےہیں۔اور اپنی دولت اوروں کے لیے چھوڑ جاتے ہیں۔

آیت ۱۴ سے ۱۵ میں متمول ملحدین کی کیفیت پیش کرکے اس کا دینداروں کی آخری حالت سے مقابلہ کرتا ہے۔یہ دو آیات بہت ہی غور طلب ہیں۔ان میں ذکر ہے کہ بے دین دولتمند بھیڑوں کی طرح پاتال میں ڈالے جاتے ہیں۔اور کہ موت انہیں چیر جائیں گی۔راستکار صبح کے وقت ان پر مسلط ہوں گے۔اوران کا جمال پاتال ہی کھولے گا۔

اور ان کا کوئی گھر نہ رہا۔لیکن اپنی بابت وہ یقین سے کہتا ہے کہ خداوند میری جان پاتال سے چھڑا دے گا۔اور مجھے لے رکھے گا آیات ۱۶ سے ۲۰میں وہ ایک تاکید کرتے ہیں کہ جب کوئی آدمی دولت مند ہونے لگے۔تو یہ خوف و ہراس کا باعث نہیں۔ لوگ اس کی تعریف کریں گے۔مگر موت کے وقت وہ کچھ ہمراہ نہ لے جائے گا۔اس کی شوکت اس کے پیچھے قبر میں نہ اترے گی۔ آخری آیت میں ذکر ہے کہ وہ انسان جو حشمت والے ہیں مگر بےسمجھ ہیں۔بلکل حیونوں کی مانند ہیں۔جو کہ فنا ہوجاتے ہیں۔

زبور ۵۰:آصف کا زبور ہے چونکہ آصف لاوی کے خاندان اور مشہور ماہرینِ موسیقی میں سےتھا۔ہم اس کے زبور کا مطالعہ بنی قرع کے زبوروں کے ساتھ کریں گے۔زبور کی کتاب میں بنی قرع کے بارہ زبور ہیں۔یعنی زبور ۵۰ ، ۷۳ اور ۸۳ یہ سب زبور کتاب کے کے تیسرے حصے میں ہیں۔ہم ان زبوروں کے مطالعہ کےوقت آصف کی کیفیت پر غور کرتے ہیں۔

آصف کے سب زبور خصوصاً نبوت سے تعلق رکھتے ہیں۔ان میں مصنف کل بنی آدم سے مخاطب نہیں بلکہ صرف یہواہ کے لوگوں سے مخاطب ہے۔زبور پچاس میں وہ ان لوگوں توجہ عدالت کی طرف لگاتا ہے۔اور ان کو بتاتا ہے کہ خداوند مدعی اور قاضی ہے۔

(۱) پہلی ۶ آیات میں وہ خداوند کی عدالت کے واسطے آنے کا ذکر کرکے بتاتا ہے کہ جس طرح کوہِ سینا پر بادل گرجتے اور بجلی تھی۔ویسے ہی عدالت کے لیےاس کی آمد ہو گی۔چنانچہ آیات ۲ سے ۴ میں بیان ہے کہ ہمارا خدا آئے گا۔اور چپ چاپ نہ رہے گا۔آگ اس کے آگے فنا کرتی جائے گی۔اور اس کے گردا گرد شدے سے طوفان ہوگا۔اس میں وہ آسمان و زمین کوطلب کرتا ہے۔تاکہ وہ اپنے لوگوں کی عدالت کرے۔یہ عدالت خاص انہیں کی ہے۔جن سے کہ اس نے عہد کیا۔دیکھو آیت۵۔

(۲) آیات ۷ سے ۱۲ میں خدا قاضی کی حیثیت ان سے مخاطب ہوتا ہے۔جو کہ رسم پرستی سے اس کی عبادت کرتے ہیں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کہ قربانیاں پیش کرتے اور اس وہم میں ہیں کہ چونکہ بپتسمہ یافتہ ہیں۔اگر صرف گاہے بگاہے وہ عبادت میں شریک اور حاضر ہوں تو بس وہ خدا کے لوگ ہیں۔لیکن خدا ان پر ظاہر کرتا ہے کہ وہ ان کی قربانیوں کا محتاج نہیں۔کیونکہ سب جاندار اسی کے ہیں۔

سو مصنف کہتا ہے کہ شکر گزاری کی قربانیاں خداکے آگے گزارو۔اور حق تعالیٰ کے حضور اپنی نظریں ادا کرو۔اور خدا خود فرماتا ہے کہ مصیبت کے دن مجھ سے فریاد کرو۔میں تمہیں مخلصی دوں گا۔اور تم میرا جلالن ظاہر کرو گے۔غرض کہ خدا اپنے لوگوں سے رسمی اور ظاہری نہیں بلکہ روحانی پرستش طلب کرتا ہے۔خدا روح ہے اس کے پرستاروں پر لازم ہے کہ روح اورراستی سے اس کی پرستش کریں۔

(۳) آیات ۱۶ سے ۲۱ خداریاکاروں سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے۔کہ تم کیوں اپنے منہ سے میرے عہد کاذکر کرتے ہو۔حالانکہ تربیت سے نفرت رکھتے ہو۔اور میرے کلام کو پیچھے پھنکتے ہو۔وہ لوگ دینی اور روحانی معاملات میں تو بہت کچھ خرچ کرتے تھے۔یعنی ہونٹوں سے خداکی بزرگی اور ستائش کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے تھے۔لیکن بدی اور بے دینی سے اپنے آپ کو باز نہیں رکھتے تھے۔سو خداکہتا ہے کہ میں تمہیں تنبیہ دوں گا۔اور تمہارے کاموں کو تمہاری آنکھوں کے سامنے ایک ایک کرکے دکھاؤں گا۔

سوال۱۳:زبور کی دوسری کتاب داؤدکے جو ۱۸ زبور ہیں۔ان کی تفصیل بیان کرو۔

جواب:اس کتاب کے باقی ماندہ زبور داؤد ہیں۔اور ان میں ۱۸ کے سر ناموں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب کسی خاص تواریخی واقعہ سے واقعہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان۱۸ زبوروں کے علاوہ باقی تعلیمی اور نصیحتی ہیں۔ان ۱۸ زبوروں میں زبور ۵۱ نادمی زبور ہے۔یاد کہ کلب سات یعنی ۶، ۳۲ ،۳۸ ، ۵۱ ، ۱۰۲ ، ۱۳۰ اور ۱۴۳ زبور نادمی ہیں۔یہ زبور دعائیہ بھی ؤہیں۔زبور ۵۱ کے سرنامے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زبور کی داؤد نے اس وقت مانگی جب ناتن نبی نے اس کو حتی اوریا اور بنت سبع کے گناہوں کی نسبت تنگ قائل کیا۔۲ سموئیل باب ۱۲۔زبور ۵۱ پانچ حصوں میں منقسم ہے۔

حصہ اول:۱سے۴ آیات میں داؤد اپنے گناہوں اور گناہگاری کا اقرار اس طرح کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اپنے گناہوں کو مان لیتا مان لیتا ہوں۔اور میری خطا ہمیشہ میرے سامنے ہے۔میں نے تیرا گناہ کیا ہے۔اور تیرے حضور بدی کی ہے۔

حصہ دوئم:۵ سے ۸ آیات میں وہ اپنی سر گزشت کی اخلاقی ناقابلیت کا اس قامل سر شت سے مقابلہ کرتا ہے کہ جو کہ خدا اس سے طلب کرتاہے۔ اورعرض کرتا ہے کہ اے خدا میرے باطن میں دانائی سکھلا۔اور زوفہ سے مجھ کو پاک کرکہ میں صاف ہو جاؤں۔مجھ کو دھو

میں برف سے زیادہ سفید ہو جاؤں۔

حصہ سوئم:۹ سے ۱۲ آیات میں پھر وہ معافی کے واسطے عرض کرکے کہتا ہے کہ اے خدا میرے اندر ایک پاک دل پیدا کراور ایک مستقیم روح نئے سرے سے میرے باطن میں ڈال دے۔اور مجھ کو اپنے حضور سے مت ہانک اور اپنی پاک روح مجھ سے نہ نکال بلکہ مجھ کو اپنی آزاد روح سے سنبھال۔

حصہ چہارم:آیات ۱۳ سے ۱۷ میں وہ وعدہ کرتا ہے کہ جب تو میری عرض کے مطابق مجھ سے سلوک کرے گا۔تو میں تیری رہیں خطا کاروں کو سکھلاؤں گا۔اور گنہگارتیری ترف رجوع کریں گے۔وہ یہ بھی عرض کرتا ہے کہ اے خدا مجھ کو خون کے گناہوں سے رہائی دے۔کہ میری زبان تیری صداقت کے گیت بلند آواز سے گائے۔

حصہ پنجم:آیات ۱۸ سے ۱۹ کل جماعت عرح کرتا ہے کہ خدا صیحون کے ساتھ بھلائی کرے گا۔اور یروشلیم کی حفاظت کرے۔

زبور۵۲ :اس زبور کے سر نامے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اس وقت کی تصنیف ہے۔یہ اس وقت کی تصنیف ہے۔جب ادومی دویئگ نے سال کو اطلاع دی کہ داؤد ؛ؤنے اخیملک کے پاس جا کر اس سے روٹی اور جولیات کا تیغہ لے لیا۔اس کے دو حصے ہیں۔

حصہ اول:۱سے ۵ آیات میں بد کردار کو ملامت کیا جاتی اور اس کے حق میں کہا جاتاہے کہ اسکی زبان خرابیاں ایجادکرتی ہےاور نیز استری کی مانند دغا بازیاں پیدا کرتی ہے۔نیز اس کی بند کرداری کا نتیجہ بھی مذکورہے۔کہ خدااس کو ابد تک برباد کرے گا۔اور وہ زندگی کی زمین سے اکھاڑ دیا جائے گا۔

حصہ دوئم: ۶ سے ۹ آیت میں دکھایاگیا ہے کہ اس کااثر صادقوں پر کیا ہو گا۔کہ وہ ڈرے گیں اور خدا کے گھر میں ہرے بھرے درخت مانند ہوں گے۔اور خدا کی رحمت پر ابد تک بھروسہ رکھیں گے۔بھروسے کی دلیل دعا اور عبادت ہے۔

زبور۵۳: داؤد کا مشکیل جو کہ بانسریوں کے ساتھ گایا جائے۔ اس زبور کا مضمون احمق کی جماعت اور شرارت ہے۔اس کی پہلی تین آیات میں اس کی حالت کا سبب یوں بیان ہے۔کہ چونکہ وہ خدا کا منکر ہے۔اور اس کا طالب نہیں وہ خراب ہوا ہے۔اس کا کام مکروہ ہے۔ان مین سے کوئی نیکو کار نہیں۔

آیات ۴ سے ۵ میں سوال ہے کہ کیا ان بدکاروں کو عقل نہیں کہ وہ خدا کے لوگوں سے بے ڈھرک بدی کرتے ہیں۔اور یہاں خوف کا مقام نہیں وہاں ڈرتے ہیں۔خدا کی حضوری کا عدم احساس باعثِ خوف و ہراس ہے۔۶ویں آیت میں دعا ہے کہ اسرائیل کی نجات صیحون ہی سے ہو تواس کی شادمانی ہوگی۔

زبور۵۴:اسکے سرنامہ سےمعاوم ہوتا ہے کہ یہ زبوراس وقت کی اور اس واقعہ کی یادگارہے جبکہ زیف کے لوگوں نےحبع میں آکے ساول کو خبردی کہ داؤدان کے ہاں چھپا ہواہے۔۱ سموئیل ۲۳ باب ۱۹ آیت یہ زبور لفظ سلا سے حصوں میں منقسم ہے۔

حصہ اول:۱ سے آیات میں داؤد بدے دین دشمنوں سے رہائی پانے کےلیے دعا کرتا ہے۔کہ خدا اپنے نام کی خاطر مجھ کو بچا اور اپنی قوت سے میرا انصاف کر۔

حصہ دوئم: ۴ سے ۷ میں مصنف اپنا یقین ظاہر کرتا ہے۔خداضرور ہی اس کو بچائے گا۔اور کہتا ہے کہ دیکھو خدا میرا مدد گار ہے۔اور وہ ان کے درمیان ہے میری جان کو سنبھالتے ہیں۔

زبور۵۵: اس کےسرنامے سے اس کے موقع تصنیف کا کچھ پتہ نہیں لگتا۔تو بھی خیال ہےکہ یہ اس موقع کی یاد گاری میں تصنیف ہوا۔ جب ابی سلوم نے داؤد سے بغاوت کرکے اجلونی اخی طفل کو جو داؤد کا مشیر تھا۔اس کے شہر اجلون میں سے جب کہ وہ قربانیاں

گزرانتا تھا بلایا۔۲ سموئیل ۱۵ باب ۱۲ سے ۳۱ آیت شائد داؤد کو اپنے بیٹے کی محبت مجبور کرتی ہےکہ اس کو بدنام نہ کرے۔ اس زبور کے چار حصے ہیں۔

حصہ اول: ۱ سے ۸ آیات میں داؤد خدا سے عرض کرتا ہے۔کہ اس کی دعا سن لے۔اور اس کی منت سے منہ نہ پھیرے۔اور کہتا ہے کہ مجھ پر ظلم کیا چاہتا ہے۔اور غضب سے مجھ سے کینہ رکھتا ہے۔اور میں موت کے ہولوں مین پڑا ہوں۔ڈرنا اور کاپننا مجھ پر پڑا کپکپی مجھ پر غالب آئی۔کاش کہ کبوتر کے سے میرے پنکھ ہوتے تو میں اڑ جاتا اور آرام پاتا۔

حصہ دوئم:۹سے ۱۱ آیت میں وہ خدا سے اپنے دشمنوں کی ہلاکت کے واسطے عرض کرتا ہے۔اور چاہتا ہے کہ ان کی زبانوں میں تفرقہ ڈالا جائے۔کیونکہ ان ہی کے سبب شہر میں ظلم اور جھگڑا پیدا ہوتا ہے۔

حصہ سوئم:۱۲ سے ۱۵ آیات میں وہ دشمنوں کیئ کیفیت بیان کرتا ہے۔ان میں سے ایک کے حق مین وہ یوں کہتا ہے کہ وہ میرا ہم درجہ آدمی ہے۔ یہ غالباً اس کا بیٹا اب سلوم ہے۔ایک اور کی نسبت کہتا ہے کہ وہ میرا انقی بند اور میرا جان پہچان تھا۔ہم مل کر اختلاطی کرتے تھے۔اور گروہ کے ہمراہ خدا کے حضور جایا کرتے تھے۔یہ شخص غالباً خیطفل اس کا مشیر تھا۔جس کے حق میں داؤد نے دعا بھی مانگی تھی کہ اے خدا میں تجھ سے منت کرتا ہوں کہ اخیطفل کی اصلاح کو حماقت اور بطالت سے بدل دے

۲ سموئیل ۱۵ باب ۳۱ آیت ۔۔۔وہ اپنے سب دشمنوں کے واسطے مجموعئی طور پر یہ منصوبہ رکھتا ہے کہ ان سب پر ناگاہ موت آ پڑے۔وہ جتے جی پاتال میں اتریں۔کیونکہ ان کے گھروں میں اور ان کے بیچ میں شرارت ہے۔

حصہ چہارم: آیت ۱۶ سے ۲۳ میں اس کا بھروسہ جاتا رہتا ہے۔اور وہ بلکل مایوس ہوجاتا ہے۔اور کی طرف توجہ کرنے سے اس کا اطمنان بحال ہوتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ میں خدا کو پکاروں گا۔تو خداوند مجھ کو بچا لے گا۔کیونکہ جو کوئی اپنا بوجھ خداوند پرڈالتا ہے وہ ضرور ہی سنبھالا جاتا ہے۔وہ صادق کو لغزش کھانے نہ ددے گا۔

زبور ۵۶:اس کے سرنامے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس موقعہ کی تصنیف ہے جب فلسطنیوں نےجات میں داؤد کوپکڑا زبور ۳۴ اور ۵۶ داؤد کی آوارا گردی کی حالت بتاتے ہیں۔جب وہ ساؤل سے رگیدہ جارہاتھا۔یہ زبور آیات ۴ اور ۱۱ کے ان الفاظ سے کہ میرا خدا پر ہے۔میں ڈرنے کا نہیں۔انسان میرا کیا کرسکتا ہے۔دو حصوں پر مشتمل ہے۔

حصہ اول: آیات ۱ سے ۴۔ حصہ دوئم آیات ۵ سے ۱۱ آخری دو یعنی ۱۲ اور ۱۳ میں تتمہ ہے۔حصہ اول وہ خدا پر اپنا توکل رکھنے کا پہلا سبب بیان کرتاہے۔کہ خدا نے اپنے لوگوں کی حفاظت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ داؤد کو کامل یقین ہے کہ خدا ضرور بالضرور اپنے قول اور مرمودہ کو پورا دکرے گا۔اس کو اس بات کا علم ہے کہ خدامیں صرف ارادہ ہی نہیں بلکہ چونکہ وہ قادرِ مطلق ہے۔اس کل قوموں پر قدرت حاصل ہے۔اس واسطے وہ کہتا ہے کہ میرا توکل خدا پر ہے۔میں ڈرنے کا نہیں انسان میرا کیا کرسکتا۔

حصہ دوئم:داؤداپنے دشمنوں کی کل کارروائی اور اس کی تفصیل خدا کے سامنے پیش کرتا ہے۔اور یقین رکھتا ہے کہ خدا ان کی تمام حیلہ سازیوں کو باطل و بے کار کرے گا۔چنانچہ وہ پکار اٹھتا ہے کہ میرا توکل خدا پر ہے۔میں ڈرنے کا نہیں۔انسان میرا کیا کر سکتا تتمہ میں خدا کی شکر گزاری یہ کہہ کر کرتا ہے۔کہ اے خدا تیری منتیں مجھ پر ہیں۔میں تیرا شکر ادا کروں گا۔کیونکہ تونے میری جان موت سے بچائی۔ اور میرے پاؤں پھسلنے نہ دیا۔تاکہ میں تیرے آگے زندوں کے نور میں چلوں۔

زبور۵۷: جیسا کہ اس کے سرنامے سےظاہر ہے۔ داؤد نے یہ زبور اس وقت لکھا کہ سلیمان نےاس رگیدہ اور وہ اپنی حفاظت کے لیے مغارے میں بھاگ گیا۔جہاں کہ اس نے یہ زبور لکھا۔وہ اس میں اپناکامل بھروسہ خدا پر ظاہر کرتا ہے۔زبور ۵۶ میں وہ اپنی نسبت خیال کرتا اور کہتا ہے کہ میرا ےتوکل خدا پر ہے۔میں ڈرنے کا نہیں۔انسان میرا کیا کرسکتا ہے۔لیکن اس زبور میں وہ اپنے دل میں خدا کا خیال مقدم رکھتا۔اور اس کی فرازی محسوس کرکے کہتا ہے کہ میں تیرے پروں کے سایہ کے تلے پناہ لیے رکھوں گا۔جب تک کہ یہ آفتیں ٹل نہ جائیں۔یہ زبور ان الفاظ سے کہ تو آسمانوں پر سرفرازہو اے خدا۔اور ساری زمین پرجلال ظاہر ہو۔دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔مصنف چاہتا ہے کہ الوہیم ایل یوں اپنی فوقیت اور عالمگیر حکومت ظاہر کرے۔ اس کےب حصہ اول میں پہلی ۵ آیات ہیں۔جن میں داؤد خدا کی رحمت کےواسطے خدا سے دعاکرتا ہے۔اور اگرچہ وہ کہتا ہے کہ میری جان شیروں کے بیچ میں ہے۔اور میں آتش مزاج لوگوں میں رہتا ہوں۔تو بھی اس کو یقین ہے کہ خدا اس کے ہر ایک انجام دے گا۔

حصہ دوئم:۶ سے ۱۱ آیت وہ خدا سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ میرا دل قائم ہے۔میں لوگوں کے درمیان تیرا شکر ادا کروں گا۔ اورامتوں کے درمیاں تیری مدح سرائی کروں گا۔اے خدا تو آسمانوں پر سرفراز ہو۔اور کل زمین پرتیرا جلال ظاہر ہو۔

زبور ۵۸:داؤد کا زبور جو کہ التشت کے سر پر گایا جائے۔التشت کے معنی ہیں برباد نہ کرنا اس کے سر نامے کے کچھ ظاہر نہیں کہ یہ زبور کس خاص واقعہ کی یاد کی تصنیف ہے۔مگر بعض لوگوں کاخیال ہے کہ یہ زبور ابی سلوم کی مکاری سے نسبت رکھتا ہے۔جب کہ اس نے کوشش کی یروشلیم کے باشدوں کو ورغلائے۲ سموئیل ۱۵ باب ۲ سے ۶ آیت۔اس میں دو تین خاص باتی ہیں۔

(۱) آیات ۱ سے ۵ میں مصنف شریروں کی مکاری کی خاصیت پیش کرتا ہے۔اور ان کے حق میں کہتا ہے کہ ان کا زہر سانپ کا زہر ہے۔وہ اس بہرے ناگ کی مانند ہیں جواپنے کان بند رکھتا ہے۔اور منتر پڑھنے والوں کی آواز نہیں سنتا۔

(۲) آیات ۶ سے ۸ میں اسن شریروں کی بربادی کے بارے کے عرض کرتا ہے۔

(۳) آیات ۹ سے ۱۱ میں اپنا یقین ظاہر کرتا ہے۔کہ خدا ان کو ضرور برباد کرےگا۔اور کہتا ہے کہ صادق ان کی بربادی سے خوش ہوں گے۔اور وہ یقین کریں گے۔کہ ایک خدا ہے جو زمین پر انصاف کرتا ہے۔

زبور ۵۹: اس کےسر نامے ہی سے معلوم ہوتاہے کہ یہ زبور اس وقت کی تصنیف ہے کہ جب ساؤل نے داؤد کے گھر پر ہلکارے بھیجے کہ اس کی خبر رکھیں۔اور صبح اسے مار ڈالیں۔مگر اس کی بیوی میکل نے کھڑکی راہ اسے نکال دیا۔اور وہ بھاک کر بچ گیا۔۱ سموئیل ۱۹ باب ۱۱ سے ۱۲ آیات سو یہ زبور داؤد کی دعا ہے۔جس میں وہ دشمنوں سے حفاظت کے واسطے عرض کرتا ہے۔اس کی تقسیم آیات ۹ سے ۱۷ کی یکساں عبارت سے دو حصوں میں ہوئی ہے۔

حصہ اول:۱سے ۹ آیت میں دو باتیں ہیں

(۱) پہلی پانچ آیات میں وہ خطرہ محسوس کرکے بچاؤ کے لیے عرض کرتا ہے۔کیونکہ اس کو معلوم ہواتھا کہ اس کے دشمن زور آور لوگ ہیں۔اور کہ وہ دوڑتے ہیں اور خود کو تیار کرتے ہیں۔اور اس کے در پہ ہوتے ہیں۔حالانکہ وہ بے قصور ہے۔

(۲) آیات ۶سے ۹ میں وہ کہتا ہے کہ شریر لوگ بڑے استقلال سے اس کے تعاقب میں مشغول ہیں۔وہ شام کو لوٹتے ہیں اور کتے کی مانند بھونکتے ہیں۔اور شہر میں ہر طرف پھیلتے ہیں۔باوجود اس کے اس کو کامل یقین ہے۔خدا اس کو ان کے ہاتھوں سےمحفوظ رکھے گا۔کیونکہ وہ اس کی پناہ ہے۔اور وہ پناہ گیری کے لیے اس پر بھروسہ رکھتا ہے۔

حصہ دوئم:۱۰ سے ۱۷ آیات میں وہ پہلے عرض کرتا ہے کہ خدا ان شریروں کو بلکل ہلاک ہلاک نہ کرے بلکہ صرف پست کردے۔ تاکہ و ہ لوگوں کے لیے نمونہ اور باعثِ عبرت ٹھہریں۔ترھویں آیت میں وہ خدا سے عرض کرتا ہے۔کہ وہ ان کو اپنے قہر فنا کرے۔کہ وہ باقی نہ رہیں۔ اور لوگ خدا کی حکومت عالمگیر دیکھیں۔

آیات ۱۴ سے ۱۷ میں وہ کہتا ہے کہ اگرچہ وہ کتے کی مانند شام کو لوٹیں۔ اور بھونکتے ہوئے شہر کے ہر طرف پھریں۔ تو بھی اے خدا میں تیری ثناگاؤں گا۔کہ تو میرا محکم قلعہ اور مصیبت کے روز میری پناہ ہے۔

زبور ۶۰:اس کے سر نامے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زبور اس وقت لکھا گیا۔جب داؤد آرام نہرائیم اور آرام صوبے لڑا۔اور یوآب پھرا نمک کی نشیب میں بارہ ہزار آدمیوں کومارا دوسراسموئیل ۸ باب ۱۳ سے ۱۴ آیت ۱۔ سلاطین ۱۱ باب ۱۵ سے ۱۷ آیت۔

دوسری تواریخ سےمعلوم ہوتا ہے۔کہ جب داؤد شمال میں آرام نہرائیم اور آرام صوبے سے جنگ کرہا تھا۔تو جنوب میں ادوم یہوداہ کے جنوبی حصے پر لشکر کشی کی اور جب اس کی تباہی میں مشغول تھا۔تو داؤد کو اپنی فوج کی تقسیم کرنی پڑی اور ایک حصہ یواب کو دے کر بھیجا۔کہ وہ ادومیوں کا مقابلہ کرے۔چنانچہ وہ گیا اور ادمیوں کو نیست کردیا۔۱ سلاطین ۱۱ باب ۱۵ سے ۱۷ آیت پیشتر اس کے کہ وہ دشمنوں پر قابض ہوئے۔داؤد نے یہ زبور بنایا۔اس وقت اسے ایسا محسوس ہوا کہ گویا خدا نے اس کو رد کردیا۔ اور ضرور فوج کی تقسیم کے سبب سے برباد ہوں گے۔سو وہ اس زبور میں فریاد پیش کرتا ہے۔اس زبور کے تین حصے ہیں۔

حصہ اول:۱ سے ۴ آیات میں داؤد اس واسطے خدا سے حجت ہے کہ اس کے خیال میں خدا نے ان کو رد کرکے پراگندہ کردیا تھا۔وہ عرض کرتا ہے کہ خدا ان کی طرف پھر متوجہ ہو۔

حصہ دوئم:۵ سے ۸ آیات میں وہ خدا کو یاد دلاتا ہے کہ اس نے اسرائیل کے ساتھ وعدہ کیا تھا۔کہ وہ ملکِ کنعان ان کے قبضے میں کر دے گا۔اور ان کو قوموں پر فتح بخشے گا۔اور عرض کرتا ہے۔ کہ خدااپنے وعدے کے مطابق ان سے سلوک کرے۔جلعاد دریائے یردن کے یورپ کی طرف یہاں روبن جد اور منسی کا نصف فرقہ بسایا گیا تھا۔افرائیم اور یہوداہ یردن کے پچھم کی طرف دلالت کرتے ہیں۔ مواب اس برتن کی مانند ہوگا۔اور ادوم اس غلام کی مانند ہے جس کی طرف فتح مند بادشاہ اپنا جوتا اتار کر اتار کرپھینک دیتا ہے۔کہ وہ اٹھا لے۔مطلب یہ ہے کہ ادوم ضرور ان کے قبضے میں آئے گا۔

آیات ۹ سے ۱۲ میں وہ دعوے سے کہتا ہے۔ کہ رہائی صرف خدا کی طرف سے ہو سکتی ہے۔کیونکہ اس نے اسے رد کردیا تھا۔ سو بحالی بھی اس کی طرف سے ہو گی۔وہ رہائی جو انسان کی طرف سے ہے عبث ہے۔کہ صرف خدا ہی اس کے دشمنوں کو پامال کرسکتا ہے۔

زبور۶۱: اس کے سر مانے سے اس زبور کی وجہ تصنیف یا تواریخی موقعہ نہیں بتایا گیا۔تو بھی خیال ہے کہ یہ اس وقت تصنیف ہوا جب داؤد منہائیم میں تھا۔اس کے بعد کہ ابی سلوم شکست کھا کر مارا گیا۔اورداؤد منتظر تھا کہ کہ اس کی رعایا اس کو یروشلیم لے جا کر نشین کرے۔۲ سموئیل ۱۹ باب ۱۱ سے ۱۵ آیت میں داؤد صرف رعایا کی رضامندی سے بحالی کا ہی خواہش مند نہیں بلکہ یہ یہ بھی چاہتا ہے کہ خدا خود اس کو اپنے مسکن میں لے چلے۔اس زبور کے ۲ حصے ہیں۔

حصہ اول:۱ سے ۴ آیات میں مصنف اپنا اعتماد خدا پر ظاہر کرکے عرض پرداز ہے کہ جس طرح ایامِ سابقہ میں وہ اس کی دعا قبول ومنظور فرماتا تھا۔اسی طرح اب بھی کرے۔اور اس کو اس چٹان تک جو کہ اس سےاونچی ہے۔پہنچا دے۔اس سے اس کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا اس کو اسجائے محفوظ سے میں پہنچا دے جہاں کہ خود اپنی طاقت اوربل بوتے پہ پہنچ نہیں سکتا۔اور وہ جگہ خدا کے سایہ میں ہے۔

چنانچہ یوحنا ۶ باب ۴۰ آیت میں مسطور ہے کہ کوئی شخص میرے پاس آنہیں سکتا۔جس حال میں کہ باپ جس نے مجھے بھجا ہے۔ اسے کھینچ نہ لائے۔

حصہ دوئم:۵ سے ۸ آیت میں وہ اپنی گزشتہ دعاؤں اور عرضوں کی قبولیت کو ۔یاد کرکے تسلی پذیر ہوتا ہے۔اور یقین کرتا ہے کہ خدا اس اس کی زندگی بہت بڑھائے گا۔وہ ؒخدا سے عہدکرتا ہے کہ اے خدا میں ابد ۔تک تیری ثناگاؤں گا۔اور ہر روز اپنی نظریں گزرانوں گا۔زندگی بھر کی مستقل بحالی زندگی بھر کی شکر گزاری طلب کرتی ہے۔

زبور ۶۲: خیال ہے کہ یہ زبور بھی ابی سلوم کی بغاوت کےدنوں میں لکھا گیا۔چنانچہ داؤد اس کے سروع ہی میں کہتا ہے کہ میری جان فقظ خدا ہی کی منتظر ہے۔مصنف انسان پر بھروسہ نہیں کرتا۔بلکہ اپنی دل جمعی اور تسلی صرف خدا ہی میں دیکھتااور پاتاہے۔کیونکہ وہی اس کی مظبوط چٹان، اونچا برج ،حفاظت، نجات اور امیدہے۔اس زبور کے تین حصے ہیں۔

حصہ اول:آیات ۱ سے ۴ میں مصنف کہتا ہے کہ اس کا بھروسہ صرف خدا پر ہی ہے۔کیونکہ وہی اکیلا قابلِ اعتماد و لائق و اعتمادہے۔ انسان منصوبے باندھتے ہیں۔اور جھوٹ سے خوش ہوتے ہیں۔

حصہ دوئم:آیات ۵سے ۸ میں وہ اپنی جان کو تاکید کرتا ہے کہ چھپ کر فقط اسی کے انتظار میں رہ۔کہ میری امید اسی سے ہے۔وہی اکیلا میری چٹان اور میری رہائی اور میرا گڑھ ہے۔سو مجھ کو جنبش نہ ہو گی۔مصنف اوروں کو بھی بتاکید کہتا ہے کہ سب لوگ ہر اس پر توکل رکھیں۔

حصہ سوئم:آیات ۹ سے ۱۲ وہ بڑے یقن سے کہتا ہے کہ زور صرف خدا کاہے۔سو لازم و انسب ہے کہ صرف اسی پر ،بھروسہ رکھا جائے کہ عالی قدر اشخاص جھوٹے ہیں اور ظلم اور لوٹ پاٹ پر تکیہ کرنے سے حاصل نہیں ہوتا۔

زبور ۶۳:داؤد کا زبور۔جب وہ دشت یہوداہ میں تھا۔جب کہ وہ اپنے بیٹے ابی سلوم کی بغاوت سے بھاگا۔تو تھکا ماندہ دشت یہوداہ میں مقیم ہوا۔۲ سموئیل ۱۵اور ۱۶ ابواب اور ۱۵ باب اور ۱۴ آیت میں وہ اپنے ہمراہی ملازموں کو جو کہ یروشلیم میں تھے۔کہتا ہے کہ اٹھو بھاگ چلیں ورنہ ہم ابی سلوم کے ہاتھ سے نہیں بچیں گے۔جلد چلو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اچانک ہمیں پکڑ لیں ہم پر آفت لائے اور تلوار کی دھار سے شہر کو غارت کرےغرض کہ وہ شہر میں ٹھہرنے سے کل شہر کی بربادی و تباہی کا موجب نہیں بننا چاہتا۔

چنانچہ ۱۵ باب ۲۴ سے ۲۵ آیت کاہن کو جس نے خدا وند کے عہد کا صندوق لیا ہوا تھا۔کہتا ہے کہ عہدکا صندوق شہر میں پھر لے جا۔اگر خدا کے کرم کی نظر مجھ پر ہو گی تو وہ مجھے بچا لے گا۔اور پھر لے آئے گا۔اور اپنا آپ اور اپنامکان مجھ کو پھر دکھائے گا۔یہ زبور خاص طور پرروحانی زبور ہےاس کی روحانیت کے سبب قدیم کلیسیا نے اس کو صبح کے واسطے استعمال کیا تھا۔

اس میں ایک ہی مضمون ہے۔یعنی خدا کی صحبت کے واسطے داؤد کی خواہش مندی اس لحاظ سےاس کی تقسیم تو نہیں ہو سکتی تو بھی تفصیل کے لیےمصنف کی خوہش تقسیم ہوسکتی ہے۔پہلی دوآیات میں وہ الوہیم کو اپنا ایل تسلیم کرکے شخصی طور اس سے ملاقات کا خواہش مند ہے۔ اور کہتا ہے کہ میری جان تیری پیاسی ہے۔اور میرا جسم تیرا مشتاق ہے۔آیات ۳ سے ۵ میں وہ کہتا ہے کہ خدا کی مہربانی زندگی سے بہتر ہے۔سواے خدا جب تک میں جیتا ہوں تجھ کو مبارک کہو گا۔

آیات ۶ سے ۷میں وہ گزشتہ برکتوں کے لیے شکر گزاری کرتا اورکہتا ہے کہ میں تیرے پروں کی چھاؤں کے نیچے خوشی مناؤگا۔

آیات ۸ سے ۱۱ میں وہ اپنے یقین کی بنا پر دعوے کرتا ہے کہ خدا اس کو بچائے گا۔اس کے دشمن تلوار سے کھیت رہے گے۔ بادشاہ خدا سے مسرور ہوگا۔

زبور۶۴: داؤد کا زبور سردار مغنی کے لیے۔ اس کے دو حصے ہیں۔

حصہ اول: ۱ سے ۶ آیات میں مصنف خدا سےعرض کرتا ہے کہ وہ اس کی فریاد سن لے اور اس کی جان دہشت سے جو کہ دشمنوں کے سبب سے بچا لے اور خدا کے آگے شریروں کی پنہانی مشورت اور حملہ آوری کی تحریکوں کی تفصیل کرتاد ہے۔

حصہ دوئم:آیات ۷ سے ۱۰ میں وہ یقین کرتا ہے کہ گو شریر خفیہ طورپر اپنے کارو بار کرتے ہیں۔تو بھی ان کو کامیابی نصیب نہ ہو گی۔ کیونکہ خدا ان پر ایک تیر چلائے گا۔اور وہ ناگہاں گھائل ہو جائیں گے۔دیکھنے والے بھاگیں گے۔اور سب لوگ ڈریں گے۔اور کے کام بیان کریں گے۔اور صادق خدا کے سبب خوش ہوں گے۔

زبور ۶۵:اس کے سر نامے میں اس کی تصنیف کی وجہ یا موقعے کا کوئی ذکر نہیں۔تو بھی اس کی چند ایک آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کی غرض یہ تھی کہ یہ زبور اس وقت گایا جائے جب لوگ فصل کے پہلےپھل لا کر خدا کے حضور پیش کریں چنانچہ اس دو آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ مسکن میں فراہم ہوا کرتے تھے۔کہ خدا کے لیے نذریں گزاریں۔آخری آیت سے ظاہر ہے کہ فصل کے شکرانے کے لیےوہ فراہم ہوا کرتے تھے۔اس میں تین حصے ہیں۔

حصہ اول:۱ سے ۴ آیات میں مصنف خدا سے مخاطب ہو کر اس کو یقین دلاتا ہے کہ صیحون میں اس انتظار چپکے سے ہوتاہےاور اس کی حمد وثنا ہوتی ہے۔اور اس کو اور نذر کی جائے گی۔

حصہ دوئم:۵ سے ۸آیت میں خدا کی تعریف اور تعریف کے اسباب بیان ہیں۔، کہ وہ صداقت سے ہولناک چیزیں جواب دیتا ہے اور کہ وہ ان کا جواب دینے والا ہے۔اور زمین کے سب کناروں اور ان سب کا جو کہ دریا کے بیچ میں ہیں۔بھروسہ ہے۔

حصہ سوئم:۹ سے ۱۳ آیات میں مصنف اس بات پر زور دیتا ہے کہ چاہیے کہ اسرائیل اس کی شکر گزاری کرے۔کیونکہ اس نے زمین کو سیرابی بخشی ہے۔اور اس کی ریگھاریوں کو خوب تر کیا ہے۔اور منیہ سے نرم کیا ہے۔اور اپنے لطف سے سال کو تاج بخشا ہے۔

یہاں تک کہ بیابان پر چراگاہوں پر قطرے ٹپکتے ہیں۔اور پہاڑیاں ہر طرف خوشی سے گھری ہوئی ہیں۔اور چراگاہیں گلوں سے ملبس ہیں۔اور نشیب گلے سے ڈھک گئے۔اور خوشی سے للکارتے بلکہ گاتے ہیں۔

زبور ۶۶: یہ ایک گمنام زبور ہے۔کیونکہ اس کے مصنف اور موقعہ تصنیف کا کچھ پتہ نہیں۔اس میں مصنف خدا کے عجیب کاموں کے لیے اور خصوصاً اس واسطے کہ اس نے اس کی دعا سن لی۔اس کی شکر گزاری ادا کرتا ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہ زبور ۶۵ کی طرح

عیدِ فسح کے ایام کے استعمال کے لیے تھا۔اور چونکہ اس کی نسبت زبور ۶۵ سے ہے۔ضرور ہے کہ اس کامصنف بھی داؤد ہی ہے۔اس کے دو حصے ہیں۔

حصہ اول:میں متکلم کے لیے صیغہ جمع اور حصہ دوئم میں صیغہ واحد آیا ہے۔ان ہر دو حصوں میں کئی ایک باتیں ہیں۔مثلاً حصہ اول۔

(۱) آیات ۱ سے ۴ میں کل دنیا کے باشندگان طلب ہوئے ہیں۔کہ خدا کی حمد کریں۔اور حمد کرتے ہوئے اس کی حشمت ظاہر کریں۔اور اس کی حکومت تسلیم کریں۔

(۲) آیات ۵ سے ۷ میں ان کو کہا گیا ہے کہ خدا کا کام دیکھو کہ وہ سب بنی آدم حق میں مہیب ہیں۔اس نے سمندر کو خشکی بنا ڈالا۔اس کی سلطنت ابدی ہے۔

(۳) ۸ سے ۱۲ آیات میں لوگوں تاکید ہے کہ وہ اسرائیل کے خدا کو مبارک کہیں کیونکہ اس نے ان کو آزمائش کرکے سیراب جگہ میں پہنچایا۔

حصہ دوئم:

(۱) آیات ۱۳ سے ۱۵ میں لوگوں کاوکیل کہتا ہے کہ میں سوختنی قربانی کے لیے تیرے گھر میں جاؤں گا۔میں تیرے لیے اپنی نظریں ادا کروں گا۔جو کہ میں نے بپتا کے وقت اپنے لبوں سے مقرر کی تھیں۔اور اپنے منہ سے مانی تھیں۔

(۲) ۱۶ سے ۲۰ آیات میں وہ خدا ترسی کی طرف مائل ہو کر ان لوگوں کو کہتا ہے کہ آؤ اور جانو کہ اس سبب سے کہ خدا نے اس کی سنی اور اسے رہائی بخشی۔اس کامقدمہ معقول ہے۔اور وہ خدا کو جس نے اس کی دعا کونہ پھیرااور اپنی رحمت سے محروم نہ مبارک کہتا ہے۔

زبور۶۷:یہ بھی گمنام زبوروں کے سلسلے میں سے ہے۔اور گیت یا زبور کہلاتا ہے۔جو کہ بین کے ساتھ گایا جائے۔اس کی نسبت خیال ہے

یہ عید پینتکوست کے واسطے تصنیف ہوا تھا۔یعنی اس موقع کے واسطے جب لوگ فصل کے بعد عبادت گاہ میں فراہم ہوتے تھے۔ کہ خداکی شکر گزاری کریں۔اس میں تین حصے ہیں۔

حصہ اول:آیات۱ سے ۲ میں مصنف کاہن کے طور پر برکت چاہتا ہے کہ خدا کی راہ زمین پر جانی جائے۔اور کہتا ہے کہ اے خدا تیری نجات سب قوموں پر ہو۔گنتی ۶ باب اور ۲۱ آیت۔

حصہ دوئم:۳سے ۴ آیت میں وہ اپنی خواہش ظاہر کرتا ہے۔کہ کل اقوام خداکی عبادت میں شریک ہوں۔اور اس بادشاہت دنیا پرقیام پزیر ہو۔اور سب اس پر خوش و خرم ہوں۔کیونکہ اس کی حکومت راستی سے ہو گی۔اور وہ زمین پر امتوں کی ہدایت فرمائے گا۔

حصہ سوئم:آیت ۵ سے ۷ میں وہ مندرجہ بالا برکات اور واقعات کی تاثیر جو کہ دنیا پر ہو گی بیان کرتا ہے۔کہ زمین اپناحاصل پیدا گی۔اور خدا ہم کو برکت دے گا۔اور زمین کے کنارے اس کاڈر مان مانیں گے۔

زبور ۶۸: اس کے سرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی داؤد ہی کا زبور ہے۔لیکن اس میں اس کی تصنیف کا موقع یا سبب نہیں بتایا گیا۔ اس زبور سے بعض کا گمان ہے کہ مصنف خدا کی سابقہ کارروائی پر غور کرتے ہوئے تسلی پزیر ہوا کہ وہ ضرور بالضرور سب اقوام مطیع و مسنجر کرکے اپنی باددشاہت عالمگیر بنائے گا۔زبور ۶۷ مرشدانہ یا کہانت کی برکات کے کلمات سے شروع ہوتا ہے۔او زبور ۶۸ کے مطلع میں وہ الفاظ ہیں جو کہ جو موسیٰ جب کہ عہد کا صندوق کوچ کے موقع پر اٹھایا جاتاتھا۔استعمال کرتا تھا۔گنتی ۱۰باب ۳۵ آیت میں مرقوم ہے کہ اٹھ اے خدا تیرت دشمن تتر بتر ہوں۔اور وہ تجھ سے کینہ رکھتے ہیں۔تیرے سامنے سے بھاگیں۔اس میں تین خاص حصے ہیں۔

حصہ اول:آیت ۱ سے ۶ میں تمہید ہے۔اس میں پہلی بات یہ ہے کہ خدا کی آمد اس کے دشمنوں کے خوف اور بربادی اور اپنے برگزیدوں کی مبارک حالی اور خوشی کا موجب ہے۔اور دوسری بات ۴ سے ۶آیت میں اس طرح ہے۔کہ خدا کے لوگ طلب ہوتے ہیں۔کہ خدا کی آمد پر اس کے گیت گائیں۔اور اس کے نام کی تعریف کریں۔جو کہ اپنے نام یاہ سے سوار ہو کربیابانوں سے گزر جاتا ہے۔اور اس کے حضور خوشی کریں۔اور اس کے راستوں کو سیدھا بنائیں خدا کے لوگوں کا یہ ضروری کام اور فرض ہے کہ خدا کے لیے راستہ تیار کریں۔یہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کا کام ہے۔اور ہمارا بھی۔

حصہ دوئم:۷ سے ۱۸:اسرائیل کے گزشتہ احوال کا جائزہ لیتا ہے۔اور اس کو کامل یقین ہو جاتا ہے۔کہ خدا ضرور اس قوم ذریعے اپنے کام کو انجام دے گا۔چنانچہ ۸ سے ۱۰ آیات میں خدا کی کمال رحمت اس میں دیکھتا ہے ہے کہ اس نے اسرائیل کو ملکِ مصر سے نکال کر اپنے آپ کو ان پر کوہِ سینا پر ظاہر فرمایا۔اوران کو شریعت دی۔ اورملکِ کنعان میں پہنچا دیا۔اور ۱۱سے ۱۴ آیات میں ملکِ کنعان پر ان کے غلبہ اور ظفریابی پر غور کرتا ہے۔اوراس میں ان کو خداوند کی رحمت و برکت سے مالدار پاتا ہے۔ وہ خدا صیحون کو اپنی جائے سکونت کے واسطے منتخب کرنے پر بھی سوچتا ہے۔

حصہ سوئم:۱۹ سے ۳۵ آیت میں وہ گزشتہ باتوں کو چھوڑ کر حال اور مستقبل واقعات دریافت کرتا ہے۔چنانچہ ۱۹ سے ۲۳ آیت میں وہ اس بات سے تسلی پذیر ہوتا ہے۔کہ خدا حالت میں اپنے لوگوں کاشاملِ حال ہوتا ہے۔اور ضرور ان کو تمام اعدا سے محفوظ رکھتا ہے۔۲۴ سے ۲۷ آیت میں وہ اپنے اپنا یقین ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل یک دل ہو کر خدا کی حمد و تعریف کریں گے۔۲۸ سے ۳۱ آیت میں وہ دعا کرتا ہے کہ خدا اپنی قدرت اس طرح ظاہر کرے کہ دشمنوں کی تمام مخالفت اور مخاصمت موقوف کر کردے۔وہ کامل بھرسہ رکھتا ہےاور کہتا ہے کہ اقوام جمع ہو کرخدا کی تعریف کریں گی۔آیت ۳۲ سے ۳۵ میں وہ سب قوموں کو طلب کرتا ہے۔کہ وہ خدا کی تعریف و توصیف میں اسرائیل کے ہم آواز ومؤہم نوا ہو۔اور خدا کی حکومت کو تسلیم کریں۔ اور نیز کہ اقوام اس بات کا اقرار کریں۔ کہ خدا اپنی مقدس ہیکل میں۔مہیب ہے۔اور اسرائیل کا خدا وہ ہے۔جو اپنے لوگوں کو زور اور طاقت بخشتا ہے۔اور وہ مبارک ہے۔

زبور ۶۹: اس زبور کے سر نامے میں صرف یہ آیا ہے کہ داؤد کا زبور جہ کہ سوسنوں کے سر پر گایا جائےبعض کا دعویٰ ہے کہ یہ زبور داؤد نے نہیں لکھا۔بلکہ یرمیاہ نبی نے لکھا ہے کیونکہ اس کے مصنف کی حالت یرمیاہ کی حالت سے کچھ نہ کچھ نسبت رکھتی ہے۔ مثلاًوہ کیچ اور کہ لوگ بے سبب اس سے کینہ رکھتے ہیں۔لیکن اس کی چند ایک آیات سے آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فی الحقیقت داؤد کا ہے۔مثلاًآیت ۳۰ میں مصنف کہتا ہے کہ میں گیت گاکر خدا کے نام کی حمد کروں گا۔اور شکر گزاری کرکے

اس کی بڑائی کروں گا۔یرمیاہ نوحہ کرنےوالا تھا۔تعریف کرنے والا نہیں۔یہ زبور خاص کر خداوند یسوع مسیح کی اس حالت پر دلالت کرتا ہے۔ جب کہ وہ اکیلا بغیر مونس غمخوار مصلوب ہونے کو تھا۔اور اس کے پاس کوئی پاس کوئی تسلی دینے والایاہمدردنہ تھا۔اور اس کی پیاس بجھانے کو سرکہ پلایا گیا۔یہ زبور کسی گناہ آلودہ شخص سے بھی نسبت رکھتا ہے۔کیونکہ اس کا مصنف اپنی نادانی اور تقصیروں کو تسلیم کرکے عرض کرتا ہے کہ خدا کی نجات اسے سرفراز کرے۔پانچویں آیت میں وہ یہ دعا کرتا ہے۔

کرتا ہے کہ خدا کی نجات اسے سرفراز کرے۔پانچویں آیت میں وہ یہ دعا کرتا ہے کہ اے خدا تو میری نادانی سے واقف ہے۔ اور میری تقصیریں تجھ سے چھپی نہیں۔اس کتاب کے اخیری زبور میں یعنی ۷۲ میں یہ مسطور ہے کہ داؤد کی دعائیں تمام ہوئیں۔

اور چونکہ یہ زبور ان زبوروں کےسلسلے میں ہےہم اس کو داؤد کا زبور تسلیم کریں گے۔اس زبور میں دو خاص حصے ہیں۔آیات ۱ سے ۱۸ اور ۱۹ سے ۳۶۔

حصہ اول:آیات ۱ سے ۱۸ کی تفصیل ذیل میں ہے۔۱ سے ۶ میں وہ خدا سے عرض کرتا ہے کہ وہ اس کو بچا لے۔کیونکہ وہ ایسی حالت میں مبتلا ہے۔کہ اپنے آپ کو بچا دنہیں سکتاوہ کہتاہے کہ پانی میری جان تک پہنچے ہیں۔میں گہرے کیچڑمیں دھنس چلا یہاں ہونے کی جگہ نہیں۔میں گہرے پانی میں پڑا ہوں۔سِل میرے اوپر سے گزر چلے۔اور میں چلاتے چلاتے تھک گیا ۔دعا ایسےموقع پر کار گر ہوتی ہے۔جب کہ انسان اپنی بے کسی کی حالت کو محسوس کرتا ہے۔اور صرف خدا ہی پر بھروسہ رکھتا ہے۔

آیت ۷ سے ۱۲ میں وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی مصیبت اور خطرہ اس سبب سے ہے کہ وہ خدا کو پیار کرکے اس کی تابعداری کرتا ہے۔چنانچہ ساتویں آیت میں وہ کہتا ہے کہ تیرے لیے میں نے ملامت اٹھائی۔اور نویں آیت میں کہتا ہے کہ تیرے گھر کی غیرت نے مجھ کو کھا لیا۔اور ان کی ملامتیں جو تجھ کلو ملامت کرتے ہیں۔مجھ پر آ پڑیں۔۱۳ سے ۱۸ آیت میں وہ جانفشانی سے کرتا ہے کہ خدا اس کو اس کیچڑ سے نکالے کہ وہ غرق نہ ہو۔اور کینہ پروروں سے محفوظ رہے۔

حصہ دوئم:دوسرے حصے کی تفصیل اس طرح ہے۔۱۹ سے ۲۱ آیت میں وہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا اس کی رسوائی اور بدنامی سے واقف ہے۔ اس کی ملامت کرنے والوں نے اس کے دل کوپھوڑا۔اور وہ اس سبب سے بیماری میں گرفتار ہوا۔۲۲ سے ۲۸ آیت میں عرض کرتا ہے کہ خدا اپنا غضب ان پر انڈیلے اور قہر شدید سے ان کو پکڑ لے کیونکہ انھوں نے اس کو جو تیر مارا ہوا ہے۔

ستایا ہے۔اور تیرے زخموں کی تکلیف باتوں سے بڑھاتے ہیں۔اور ۲۹ سے ۳۶ آیت میں وہ خدا کی تعریف اس سبب کرتا ہے۔ کہ وہ پریشان لوگوں کو تسلی دیتا ہے۔اور مسکینوں کی سنتا ہے کہ وہ ان کو جو کہ صحیح ہیں ان کو ضرور بچائے گا۔

زبور۷۰: اس کے سرنامے سفے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مصنف داؤد ہے۔اور کہ یہ تذکیر کے لیے تصنیف ہواہے۔یہ زبور کی ۱۳ سے ۱۷ آیت انتخاب کیا ہوا ہے۔اس میں کچھ الفاظ تبدیل ہیں۔مگر مطلب وہی ہے۔اس زبور میں صرف پانچ آیات ہیں۔اور یہ کے واسطے داؤد کی دعا ہے۔اور اس کے سرنامہ میں لکھا ہے کہ تذکیر کے واسطے ہے۔تو معلوم ہوتا ہے کہ داؤد نے خدا کوف یاد کرنے کے لیے اس زبور میں چالیس زبور میں سے چند آیات لے کر انہیں دوبارہ خدا ے حضور پیش کیاہے۔کیونکہ اس کو ازحد

رہائی کی ضرورت تھی۔اس کی پہلی آیت میں وہ خدا سے عرض کرتا۔کہ اس کی رہائی کے واسطے جلد آئے۔اور خدا کی طرف مخاطب ہو کر عرض کرتا ہے۔کہ میری کمک کے واسطے جلد آ۔۲ سے ۳ آیت میں وہ اپنی آرزو ظاہر کرتا ہے کہ جو اس جان کے درپہ ہیں۔وہ شرمندہ اور خجل کیے جائیں۔اور پھر اپنی بے کسی کو یاد کرکے عرض کرتاہے کہ خدا اس کی طرف جلد آئے۔ کیونکہ وہ کہتا ہے کہ وہی اس کا چارہ ہے۔اور خداوند کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اس سے عرض کرتا ہےکہ وہ دیر نہ کرے۔

زبور ۷۱:یہ زبور ۲۲ ، ۳۱ ، ۳۵ اور ۴۰ سے اتخاب کیا ہوا ہے۔جن کا مصنف داؤد ہے۔سو ہم اس کو بھی داؤد کا ہی کہیں گے۔اگرچہ یہ بات ممکن ہے کہ کسی دوسرے کے ہاتھ سےتالیف ہوا ہو۔یہ زبور اس شخص کے مستقل ایمان کو ظاہر کرتا ہے۔جس نے بہت دکھ اور مصیبت سہہ کر خدا کی عجیب محبت اور وفاداری کو خوب آزما کر معلوم کیا۔کہ وہ قابل بھروسہ ہے اس زبورکی کویہ خاص تقسیم نہیں ہے۔کیونکہ ہر ایک ۔آیت اس کی قرین آیت سے پیوستہ ہے۔اوایک ہی مضمون کو پیش کرتی ہے۔تا ہم کے واسطے اس کو دو حصوں میں تقسیم کی گیا ہے۔

حصہ اول:۱ سے ۱۳ آیات میں خاص کر دعا ہے۔حصہ ووئم ۱۴ سے ۲۴ میں تعریف زیادہ ہے۔

حصہ اول:اس کی آیات ۱ سے۳ زبور ۳۱ کی آیات ۱سے۳ الفاظ اور معنی میں نسبت رکھتی ہیں۔ادن میں مصنف خطرے موقع پر پورے

بھروسے سے خدا سے دعا کرتا ہے کہ جس طرح پہلی آیت سے ظاہر ہے۔اس میں وہ کہتا ہے کہ اے خداوند میرا بھروسہ تجھ پر ہے۔تو مجھ کو کبھی شرمندہ نہ ہونے دے۔میرے رہنے کی چٹان ہو۔یہاں میں جایا کروں۔

آیات ۴۱ سے ۸ میں یہ کہہ کر اپنی التماس کی وجی پیش کرتا ہےکہ اے خداوند یہواہ تو میری امید ہے۔میرے لڑکپن سے ہی میرا بھروسہ تجھ پر ہے۔اس حصے کی پانچ سے چھ آیات زبور ۲۲ کی آیات ۹ اور ۱۰سے ملتی ہیں۔

۹ سے ۱۳ میں وہ عرض کرتا ہے کہ خداوند اس کو بڑھاپے میں نہ پھنک دے۔اور ضعیفی کے وقت اس کو ترک نہ کرے۔نہ اس سے دور ہو۔

تفصیل حصہ دوئم:آیات ۱۴ سے ۱۶ میں وہ وعدہ کرتا ہے کہ میں ہر دم امید رکھوں گا۔تیری ساری ستائش زیادہ کرتا جاؤں گا۔اور آیات

آیات ۱۷ سے ۲۰ میں وہ اپنے آپ کو اس سےمستحقِ حفاظت جانتا ہے۔کہ خدا اس کی طفولیت سے تربیت کرتا رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ عجب تک میں تیری میں تیری عجیب قدرتیں بیان کرتا رہا ہوں۔

۲۱ سے ۲۴ آیت میں وہ ان الفاظ میں دعویٰ کرتا ہے کہ میں بین بین تیری ستائش اورتیری امانت کی ستائش کروں گا۔ اور اسرائیل کے قدوس کی طرف مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ میں بربط بجا کر تیرے گیت گاؤں گا۔اوراپنی زبان سے سارا دن تیری صداقت کی باتیں کہتا رہوں گا۔

زبور ۷۲: اس زبور کےسرنامے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سلیمان ہے۔تاہم بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ داؤد نے اس وقت تصنیف کیا جب کہ اس نے سلیمان کو بادشاہ مقرر کیاتھا۔لیکن اکثر یہ زبور سلیمان کا سمجھا جاتا ہے۔اور معلوم ہوتا کہ اس نے اس وقت تصنیف کیا جب کہ وہ بادشاہ ہو کر چاہتاتھا کہ تھا کہ خدا اس کو ایسی برکت بخشے کہ وہ اپنی بادشاہی کے فرائض اچھےطریقے سےسرانجام دے۔یہ زبور راستبازی کے نتائج کو ظاہر کرتا ہے۔اس میں تین حصے ہیں۔

حصہ اول:آیات ۱سے ۷ میں وہ بادشاہ کے لیے دعاکرتاہے۔کہ وہ خدا کی عدالتوں سے خوب واقف ہوکر ان کے مطابق چلے۔اور اپنی کے مسکینوں کا انصاف کرے۔اور محتاجوں کے فرزندوں بچائے۔اور ظالم کو ٹکڑے ٹکڑےکرے۔اور لوگ ہمیشہ خدا سے ڈرتے رہیں۔

حصہ دوئم:۸ سے ۱۴ آیات میں وہ اس بات کے لیے عرض کرتا ہے کہ اس کی حکمرانی سمندر سے سمندر تک اور دریا سے انتہا زمین تک ہو۔اور سارے بادشاہ اس کے تابع ہو کر اس کے حضور سجدہ کریں۔اور ساری گرہیں اس کی بندگی کریں۔چنانچہ یہ سب کچھ وقوع پذیر ہوا۔

حصہ سوئم:۱۵ سے ۱۷ آیت میں بادشاہ کے وسطے دعا ہے کہ اس کی عمر دراز ہو۔پیشنگوئی ہے کہ صبا کا سونا اسے دیا جائےگا۔اور اس کے حق میں سدا دعا کی جائے گی۔اس کتاب کے تتمہ یعنی ۱۸ سے ۲۰ آیات میں خدا کی جو کہ اسرائیل کا ہے۔تمجید ہے۔کیونکہوہی اکیلا عجیب کام کرتاہے۔کہ اس کا جلیل نام ابد تک مبارک ہے۔سارا جہاں اس کے جلال سے معمور ہو۔آمین ثم آمین۔اور کہا جاتا ہے کہ داؤد بن یسی کی دعائیں تمام ہوئیں۔