کتاب ہشتم
غزل الغزلات
سوال۱۵ اس کتاب کی تعریف کرو۔
جواب۔ یہ کتاب سلیمان کی تصانیف مین سے ایک ہے۔یعنی اس کے ایک ہزار پانچ گیتوں میں ایک ہے۔عبرانی میں اس کا نام شعر ہا سعریم یعنی گیتوں کا گیت یا سب سے عمدہ گیت ہے۔سلیمان کا یہ سب سے عمدہ گیت اس اتحاد پر دلالت کرتا ہے۔جو مسیح اور کلیسیا یعنی برگزیدوں کی جماعت کے درمیان ہے۔چنانچہ بائبل کے مولفوں نےاسے اس کو الہامی جان کر پاک نوشتوں میں مرتب کیا۔پہلی صدی عیسوی میں ایک یہودی بنام عقیبا نےاس کی نسبت کہا ہے کہ کسی اس رئیلی نے کبھی اس کے الہام پرشک نہیں کیا۔نیز کہ دنیا کے کل ایام میں سے وہ دن سب سے مبارک ہےجس یہ گیت لکھا ہے۔اسی صدی میں اکولہ نے اس کا ترجمہ عبرانی سے یونانی میں کیا۔
سوال۔۱۶ اس کتاب کی تفصیل کے بارے میں مفسرین کا کیا خیال ہے؟
جواب۔ مفسرین نے اس کو تین طرح سے سمجھا ہے۔
حصہ اول۔ بطور تمثیل کے یعنی اس کو تمثیلی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مسیح کی اور کلیسیا کی باہمی محبت پر دلالت کرتی ہے۔خاص کر اس نسبت پر جو قوم اسرائیل اور خداوند یسوع مسیح کے درمیان ہے۔اور باہمی اخلاص اور وفا کی مقتضی ہے۔نیز وہ کہتے ہیں کہ دولھا اور دولھن کا اتحاد سچا اور راسخ ہے۔اور اگر ممکنم ہو تو ایک دوسرے کے لیے جان دینے اور فدا ہونے کو تیار ہوتے ہیں۔
حصہ دوئم۔ مفسرین اس کو علامتی بھی سمجھتے ہیں۔اور یہ قصہ بیان کرتے ہیں کہ سلیمان بادشاہ نے کہیں ایک دو شیزہ بنام سلومیت کو دیکھا۔جو کہ نہایت خوش منظر اور شکیل اور نسوانی خصوصیت سے مزین تھی۔تو وہ اس پر نہایت ہزار جان سے فریفتہ ہو گیا اورمحل میں لے جا کر چاہا کہ اسے بیگمات میں شامل کرے مگر اس کی نسبت کسی باغبان سے ہو چکی تھی۔اور اس باغبان اور اس جمیلہ منصوبہ میں غایت درجے کا تعش و پیار تھا۔تو جب سلیمان نے اپنی خواہش اس لڑکی پر ظاہر کی تو اس نے تامل سے انکار کردیا۔اور اپنی محبت میں قائم اور محبت کے ساتھ وفادرا رہی ۔جب سلیمان نے اس لڑکی کی وفااور اس کے ایثار پر غور کیا تو میں تو پہلے خدا کو عزیز کھتا تھا۔وہ مجھ پر مہربان تھا۔
یہاں تک کہ اس نے مجھے بادشاہ بنا دیا۔اور ہر نوع کی ضروریات و برکات سے مالامل کیا۔مگر افسوس کہ میری وفادرای اور محبت کہاں گئی؟میں نے اس کو چھوڑا اورعور توں کی پیر وی میں بتوں کی پرستش کی۔غرض کہ وہ سخت نادم ہوا۔اور پھر خدا کی طرف پھرا۔معافی مانگی۔اور از سرِنو خدا پر بھروسہ اور اعتماد رکھنے لگا۔اور یہ کتا ب اسرائیل کی تربیت اور ہدایت کے لیے لکھی۔
سوئم۔ مفسرین اسے بطورں ڈرامہ یا ناٹک کے سمجھتے ہیں۔اور اس کی یوں تقسیم کرتے ہیں۔کہ حصہ اول میں پہلے چار باب اور حصہ دوئم میں پانچ سے آٹھ ابواب رکھتے ہیں۔اور کتاب کا مقصد یہ بیان کرت ہیں کہ یہودی قوم کثرت ازدواجی کو چھوڑ کر خاندانی زندگی کا لطف اٹھائیں۔مکرربحال کریں اور اس کا لطف اٹھا دیں۔نیز وہ کہتے ہیں پہلے چار ابواب سلومیت کی محبت کی آزمائش کی جاتی ہے۔
اس طرح کہ محل کی بیگمات اس کے سامنے سلیمان وصف اور خوبیاں بیان کرکے چاہا کہ اس کو دام میں پھنسا دیں۔مگر اس نے ان کی قیل و قال اور ان کی گفت و شنید سے تنگ آکر کہا کہ میں اپنے والدین کے ہاں جانا چاہتی ہوں۔تاکہ ان کی خدمت کروں۔اتنے میں سلیمان آیا اور چکنی چپڑی باتوں یعنی اس کی خوبصورتی اور خوشنمائی کی تعریف بامبالغہ کرکے اس کے سامنے عزت اور دولت کے وعدے کا جال پھلایا۔اور چاہا کہ وہ کسی طرح محل میں رہنے پر راضی ہو جائےمگر اس نے نہ مانا تھا۔سو وہ نہ مانی اور والدین کی عزت اور ناموس اور باغبانی کی محبت میں وفادار ٹھہری۔اورسلیمان سے منہ موڑا اور اس کی دولت و حشمت پر قناعت کی لات ماری۔
ابواب پانچ سے آتھ میں بتایا گیا ہے کہ سچی اور باوفا محبت کسیف لالچ یا شے مبادلہ سے کم یا محو نہیں ہو سکتی ۔دولت و عزت جیسی ناپائدار باتیں اس کو مغلوب و مطیع نہیں کرسکتیں۔بلکہ وہ سب مصائب و مشکلات اور تمام آزمائشوں سے کہیں اعلیٰ اور بعید از تسخیر ہوتی ہے۔اور سب پر غٓلب رہتی ہے۔اوردائمی اور مستقل ہوتی ہے۔
سوال۱۷۔ اس کتاب کے مدعا تصنیف کی نسبت یہ خیال کیا ہے؟
جواب: یہ کتاب خدا کی دائمی محبت جو کہ اسے اپنے برگزیدوں سے اور وفاداری اور اخلاص جو کہ برگزیدوں کو اس سے ہوتاہے۔ظاہرکرتی ہے۔یا با الفاظ انجیل یوں کہیے کہ دولھا کا تعش دولھن یعنی کلیسیا کے لیے اور دولھن کا سوزو گداز دولھا یعنی مسیح یسوع کے لیے ظاہر کرتی ہے۔پینٹی ٹیوک یعنی موسیٰ کی پانچ کتابیں صاف و صریح طور پر بتاتی ہیں کہ قوم اسرائی نے خود کو خدا کے لیے مخصوص کیا۔
مگر باہمی عہد پر قائم نہ رہی۔بلکہ بتوں کی طرف مائل ہوگئی۔اور خدا کو چھوڑ دیا۔اور یہ کتاب بتاکید بتاتی ہے کہ برگزیدوں پر لازم ہے کہ خدا اور حرفِ خدائی کو چاہیں۔اسی سے محبت رکھیں اور اس کی پیر وی کریں۔آمین