|
حقیقی مسیح بقلم جناب پادری آئی روشن خان صاحب لاہور The True Messiah By Rev. I. Roshan Khan Malik 1st Time Published in December 20th 1961
|
ناظرین اخوت پریہ امر اظرمن الشمس ہے کے خداوند کریم نے حضرت آدم کو اپنی شکل وصورت پیدا کیا۔خداوند تعالیٰ کے پاک کلام میں مرقوم ہے۔خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائيں"(توریت شریف کتابِ پیدائش ۱: ۲۶)۔ اورخدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ خداکی صورت پر پیدا کیا اوریہی ایک امر تھا جوکہ دنیا کے سردار کو برداشت نہ ہوسکتا تھا کہ حضرت انسان خدا کی صورت پر ہو۔ چنانچہ اُس نے موقعہ پاکر اماں حواکوگرادیا۔ اوراس کے وسیلہ سے حضرت آدم پر بھی غالب آیا۔جس کے باعث آدم خدا کی صورت پر نہ رہا وہ صورت بگڑ گئی اوربھدی ہوگئی۔ لیکن الہٰی محبت پدری نے بھی اس موقعہ پر جوش مارا ۔ اوراگرچہ آدم وحوا کو ان ک گناہ کی سزادی گئی۔ تاہم باغِ عدن میں وعدہ بھی عطا کیا کہ" عورت کی نسل سانپ کے سرکوکچلے گی" چنانچہ وقت مقررہ پر سیدنا مسیح بی بی مریم کے بطنِ مباک سے تولد ہوئے۔ جیساکہ انجیل میں مرقوم ہے:
جب دنیا کے سردار نے یہ دیکھا تواُس نے الہٰی مولود کو صفحہ ہستی سے نیست کرنے کی کوشش ہیردیس کے وسیلہ سے کی۔ بیت للحم اوراس کے اردگرد کے تمام معصوم بچے تہہ تیغ کئے گئے مگرخدا باپ نے اس الہٰی بچے کو محفوظ رکھا اوریہ بچہ نشوونما حاصل کرتا ہوا اپنے عالم شباب کو پہنچا۔لیکن دنیا کے سردار نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا بلکہ مردِ میدان بن کر اُس کے سامنے آیا اورتین آزمائشیں اُس کے سامنے رکھ دیں۔ لیکن سیدنا مسیح اُس مرحلہ پر بھی اس کوشکست دیتے ہیں اوراپنے باپ کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہوجاتے ہیں اوراپنے باپ کی مرضی کو پورا کرنے میں کوئی دقیقہ فردگذاشت نہیں کرتے۔ حتیٰ کہ آپ اپنی زمینی زندگی کے آخری ہفتہ میں قدم رکھتے ہیں۔ دنیا کا سردار اس موقعہ پر بھی آپ کے سامنے آتاہے لیکن آپ صلیب پر اس کا سرکچل کر رکھ دیتے ہیں۔ اورتمام آدم کے گناہوں کا فدیہ دینے اور تین دن تک عالم ارواح میں رہنے کے بعد زندہ ہوجاتے ہیں۔ اورچالیس روز تک صاحبہ کرام کو دیکھائی دیتے ہیں۔ اورپھر آسمان پر صعود فرماجاتے ہیں۔
صلیب پر شکست کھانے کے بعد دنیا کے سردار کو ایک اوربات سوجھی کہ وہ سیدنا مسیح کے زندہ ہونے کی خبر غلط قرار دلوائے۔ چنانچہ متی رسول کی انجیل کے ۲۸ویں باب میں اس امر کا تذکرہ موجود ہے۔ لیکن واقعات کے سامنے اس کی پیش نہ گئی۔ تواس نے اس امر میں مقرر سمجھا کہ سیدنا مسیح کی صلیبی موت ۔ اس کے زندہ ہونے اوراس کے صعود سے صاف انکار کیا جائے۔ اورسیدنا مسیح کی قبرکسی شہر میں مشہور کردی جائے تاکہ کفارہ کی تعلیم کوغلط قرار دے کر بنی آدم کو گمراہ کیا جاسکے۔
اس موقعہ پر میں یہ بھی عرض کرنا مناسب سمجھتاہوں۔ کہ خدا اوردنیا کے سردار کے درمیان ایک روحانی جنگ جاری ہے۔ اوریہ جنگ تاقیامت قائم رہے گی۔ لیکن حضرت انسان کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کی یاد میں رہے۔ اوردنیا کے سردار سے برسرجنگ رہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ آخرکار دنیا کے سردار نے شکست کھانی ہے۔ اورحضرت انسان کا ساتھ دیتے ہوئے الہٰی رفاقت کوکھودیتاہے اورخدا کی برکات سے محروم رہ جاتاہے۔
انجیل جلیل اور قرآن شریف نہایت واضح الفاظ میں اس امر کا تذکرہ کرتے ہیں کہ سیدنا مسیح زندہ آسمان پر موجود ہیں اورکوئی مسلمان جس کا ایمان قرآن شریف پر ہے۔ اس امر کا انکار نہیں کرسکتا۔ تواندری حالات یہ پراپیگینڈہ کرنا کہ مسلمان کو اس امرکا انکار کرنا چاہیے۔ کسی فرد بشر کو زیب نہیں دیتا۔ ایک اور امر کا ذکر کرنا بھی مناسب سمجھتاہوں ۔ قرآن شریف حضرت محمد کو خاتم النبین گرادنتاہے۔ گویا ازروئے قرآن شریف حضرت محمد کے بعد اورکوئی بنی نہ آئے گا۔ پس اندری حالات سیدنا مسیح بلکہ حقیقی مسیح کی آمد حضرت محمد سے پیشتر ہونی چاہیے نہ کہ مابعد۔ دوئم خداوند کریم کے وعدہ کے مطابق حقیقی مسیح عورت کی نسل ہونی چاہیے نہ کہ مرد کی نسل۔
چونکہ اخبار ہذاکا یہ نمبرکرسمس نمبر ہے اس لئے حقیقی مسیح کے مضمون کو طوالت دینا مناسب نہیں سمجھتا۔ لیکن چونکہ ماہ نومبر کے اخبار" اخوت" میں حقیقی مسیح کا سرسری ذکر آگیا تھا۔ اس لئے اس کی نسبت دوباتیں پیش کردی ہیں کہ اس کی آمد حضرت محمد سے پیشتر ہونی چاہیے اوروہ عورت کی نسل سے ہونا چاہیے۔ دیگرخیالات کا تذکرہ ماہ جنوری میں ہدیہ ناظرین کرسکوں گا۔انشااللہ!
میں نے اُوپر ذکر کیاکہ جب دنیا کا سردار اُس الہٰی صورت کو جس پرآدم بنایا گیا تھا۔ بگاڑنے میں کامیاب ہوا توالہٰی محبت پدری نے جوش مارا اورسیدنا مسیح کی آمد کا وعدہ باغِ عدن ہی میں آدم کو دیا گیا۔ اورعبرانیوں کے خدا کا مصنف اس کی آمد کی تذکرہ بدیں الفاظ کرنا ہے"
اگلے زمانہ میں اللہ وتبارک تعالیٰ نے آباؤ اجداد سے حصہ بہ حصہ اور طرح بہ طرح انبیاء کرام کے ذریعہ کلام کرکے ۔ اس ایاّم کے آخر میں ہم سے ازلی محبوب کے ذریعہ کلام کیا جسے پروردگار ِ عالم نے تمام چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور آپ کے وسیلہ سے اس نے عالم کو خلق کیا ۔آپ ر ب العالمین کی بزرگی کا عکس اور ان کی ماہیت کا عین نقش ہوکر تمام چیزوں کو اپنی قدرت کے کلام سے سنبھالتے ہیں۔آ پ گناہوں کی تطہیرکرکے عرشِ معلیٰ پر حشمت کی دہنی طرف جا بیٹھے ۔اور فرشتوں سے اسی قدر بزرگ ترین ہوگئے جس قدر آپ نے میراث میں ان سے عمدہ ترین نام پایا۔(انجیل شریف خطِ عبرانیوں ۱: ۱)۔
ہمارے مبارک آقا ومولا سیدنا مسیح کے آنے کا مقصد ہی یہ تھاکہ وہ اُس شکل وصورت کو حضرت انسان پر ازسر نو قائم کردے۔جس پر کہ سیدنا مسیح نے اس کو پیدا کیا تھا اورجس کو اس دنیا کے سردار نے خراب کردیا تھا۔ چنانچہ سیدنا مسیح نے اپنے میں انسان کا میل خدا باپ سے کرادیا اور حضرت انسان کو فرزندیت کا شرف عطا کیا۔ اس لئے حضرت یوحنا نہایت دلیری سے فرماتے ہیں کہ" اے عزیزو !ہم جانتے ہیں کہ ہم خدا کے فرزند ہیں" ۔ ماسوائے سیدنا مسیح کے اورکسی نے حضرت انسان کو یہ شرف نہ دلایا اورنہ دلاسکتا تھا۔ سیدنا مسیح میں الوہیت اورانسانیت دونوں میں موجود تھیں اس لئے وہ یہ قدرت رکھتا تھا کہ حضرت انسان کو الہٰی فرزندیت عطا کرے۔ چنانچہ یوحنا رسول اپنی انجیل کے پہلے باب میں اس امر کا ذکر کرتا ہے کہ " جتنوں نے اس کو قبول کیا اُس نے اُنہیں خدا کے بیٹے ہونے کا شرف عطا کیا۔ وہ نہ خون سے نہ جسم سے ۔ نہ انسان کے ارادے سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے ہیں"۔ اوراس طرح سے حضرت یوحنا اپنے پہلے خط میں رقم طراز ہے کہ" خدا سے پیدا ہوا وہ گناہ کرہی نہیں سکتا"۔
گذشتہ نمبر میں ایک مضمون نظر سے گذرا جس کا عنوان تھا " کرسمس " جس میں نامہ نگار نے اس امر کو آشکارا کرنے کی کوشش کی کہ وہ ۲۵دسمبر سیدنا مسیح کا یوم ودلات نہیں ہے۔میں اس کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں سمجھتا لیکن اتنا عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ابتدائی کلیسیا نے ۲۵دسمبر کو یوم ولادتِ مسیح مقرر کیا اوراس کے مطابق سیدنا مسیح کے پیروکار ہرسال ۲۵دسمبر کو یومِ ولادت مسیح مانتے ہیں۔ مضمون نگار کو اس امر سے انکار نہیں ہوسکتاکہ سیدنا مسیح اس دنیا میں آئے اوراُنہوں نے بی بی مریم بتولہ کے بطنِ مبارک سے جنم لیا۔ پس اس صورت میں مسیحیانِ عالم کا فرض ہے کہ اپنے منجئی کی پیدائش کی یادگار منائیں بلکہ بقول سیدنا مسیح کے کہ جس کے بہت گناہ معاف ہوئے وہ بہت پیارکرتاہے اور جس کے تھوڑے وہ تھوڑا۔ بہ الفاظ دیگر جس نے سیدنا مسیح سے جیسی برکات حاصل کیں اس کی محبت سیدنا مسیح سے ویسی ہی ہوگی جب کہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ اُس نے ہمارے گناہ کا فدیہ دیاہے ۔ وہ ہمارے واسطے مصلوب ہوا ۔ اسکے مارکھانے سے ہم نے شفا پائی۔تواس کی پیدائش کی یادگار منانا ہرمسیحی کا فرض اولین ہے۔ البتہ خوشی منانے کے طریقوں پر خامہ فرسائی ہوسکتی ہے۔ انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی میں ایک ایسی خوشی منانے کا تذکرہ موجود ہے۔ جس خوشی منانے کا انجام یوحنا بپتسمہ کی موت ہوا۔ بسااوقات ہماری خوشیاں ہمارے لئے آزمائش پیدا کردیتی ہیں۔ پس مسیحیوں کی خوشی اس موقعہ سعید پر نرالی خوشی ہونی چاہیے جوکہ بنی آدم کی دیگر خوشیوں سے بالاتر ہو۔
مقدس شمعون نے اپنا کرسمس کس طرح منایا؟ اس کو جب اس امر کی خبرملی کہ سیدنا مسیح بیت اللہ میں موجود ہیں۔ اُس نے اپنی خوشی کس طرح منائی ۔لکھاہے کہ وہ بیت اللہ میں تشریف لے گئے اورسیدنا مسیح کو اپنی گود میں لے کر اپنا گیت پڑھاکہ " اے مالک تو اپنے غلام کو اپنے قول کے موافق سلامت رخصت دیتا ہے کیونکہ میں نے تیری نجات دیکھ لی ہے"۔
مسیحی خوشی کا آغاز بیت اللہ سے ہے۔ اوراس لئے تمام مسیحی اس روز سعید پر اپنے محبوب وآقا ومالک کی یاد میں محو ہوتے ہیں۔ اوراُس کی عبادت کرتے اورشکرگزاری کرتے ہیں اورمقدس پولوس سمیت ہم کچھ اوربھی تلقین کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ" اے بچو تمہاری طرف سے مجھے پھرجننے کے درد لگے ہیں جب تک کہ مسیح تم میں صورت نہ پکڑلے اورایک مسیحی کی حقیقی خوشی اس میں پوشیدہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ مسیح تم میں صورت پکڑے۔سیدنا مسیح نے اُس بگڑی ہوئی صورت کو دوبارہ بحال کردیاہے۔ حضرت انسان ازسر نوخدا کی صورت پر ہوگیا۔ لیکن دراصل ضرورت اس امر کی ہے کہ مسیح مجھ میں صورت پکڑے۔ اوریہی میرا کرسمس ہے۔