Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

Bismillah 1
ضروریاتِ عقلی
ضروریاتِ عقلی

ضروریاتِ عقلی

علامہ مولوی پادری عبدالحق صاحب فاتح قادیان

The Necessity of Logic

By

Rev. Mulawi Abdul Haqq

1st Time Published in July 20th 1967
Noor-ul-Huda

Rev. Mulawi Abdul Haqqپھربھی کاملوں میں ہم حکمت کی باتیں کہتےہیں ۔لیکن اس جہاں کی اوراس جہان کے نیست ہونے والے سرداروں کی حکمت نہیں۔ بلکہ ہم خدا کی وہ پوشیدہ حکمت بھید کے طورپر بیان کرتے ہیں۔ جوخدا نے جہان کے شروع سے پیشتر ہمارے جلال کے واسطے مقرر کی تھی "(۱کرنتھیوں ۲: ۶، ۷)۔

ایسی ضروریات عقلی جو صرف بائبل مقدس کی الہٰی حکمت پر مبنی مسیحی عقائد میں ہی پوری ہوسکتی ہیں ان میں سے چند بطور مختصر طالبان حق کے فائدے کے لئے پیش کی جاتی ہیں۔ اس بیا ن کے دوحصہ ہوں گے۔ حصہ اول میں چند ضروریات عقلی اختصار کے ساتھ براہین عقلی سے مبرہن ہوں گی۔ اورحصہ دوم میں بائبل مقدس کے بیانات کے رو سے ان ضروریات کی تکمیل وتشریح پیش کی جائے گی۔

(۱)

وحدت وکثرت مضافین ہیں۔ کیونکہ ایک کے مفہوم کا تعقل دوسرے کے مفہوم کے تعقل پر موقوف ہے۔ نہ ان میں عدم وملکہ کا تقابل پایا جاتاہے نہ ضدین کا اورنہ نقیضین کا۔ پس اگرکسی معنی کی وحدت کا مفہوم ازلی مانا جائے گا۔ تووہ ازلی کثرت کی نسبت واضافت سے متعقل ہوگا اوربنابریں ہر مفہوم کی ازلی کثرت کے انکار سے ہرمفہوم کی ازلی وحدت کا انکار لازم آئے گا۔ چنانچہ خارجی عالم میں ایسی وحدت کا مفہوم ناپید ہے۔ جوکہ ہر طرح کی کثرت ونسبت واضافت کے بغیر متعقل ہوسک اورانسانی عقل بھی ایسی وحدت کے ثبوتی مفہوم کے تعقل وتصور سے عاجز وقاصر ہے جوکہ ہر طرح کی کثرت کے ثبوتی مفہوم کی نسبت واضافت کے بغیر مفروض ہو۔ اور لامحالہ جس مفہوم کا ثبوتی طورپر تعقل ہی محال ہو۔ اورجس کی مثال تک اعیان میں موجود نہ ہو۔ اس کا مصداق خلاف عقل ٹھہرے گا نہ کہ فوق العقل کیونکہ فوق العقل وہ امر ہوگا۔ جس کے وجود کی ضرورت ازروئے عقل ثابت ہو۔ اورجس کا ثبوتی مفہوم مثالی پیرایہ میں معلوم ہوسکے۔ لیکن اس کے مصداق کی مثل، عالم محسوسات میں نہ پائی جائے۔ اوراس کی حقیقت وکیفیت کا علم، انسانی عقل کی پہنچ سے باہر ہو۔ پس جس امر کا کوئی ثبوتی مفہوم ہی متعقل نہ ہوسکے اورجس کی خارج میں مثال تک ناپید ہو۔ وہ وہم محض پر مبنی اورخلاف عقل ٹھہرے گا۔ اورلوگ خدا تعالیٰ کی ایسی وحدت ذاتی کے قائل ہیں کہ جس کا مفہوم ہرطرح کی کثرت کے مفہوم کا منافی ہے وہ نہ ایسی وحدت کے مفہوم ثبوتی کی تعریف بیان کرسکتے ہیں۔اورنہ اس کی مثال پیش کرسکتے ہیں اورجیساکہ کتاب " اثبات التثلیث فی التوحید" میں "بحوالہ" حیات النفوس واجب والوجود کی صلبی وحدت کی تشریح منقول ہوچکی ہے۔ اُردو میں اس کا خلاصہ یہ ہےکہ: جو واحد کثیر پرمحمول نہ ہو۔ اوراس کا مفہوم اعتباری محض نہ ہو۔ تووہ قابل قسمت ہوگا یا نہ ہوگا؟ اگر قابل قسمت نہ ہوگا۔ تووہ اشارہ حیّ کے قابل ہوگا یا نہ ہوگا؟ اگر ہوگا تووہ نقطہ ہے۔ اوراگراشارہ حیّ کے قابل نہ ہوگا۔ تووہ واحد مطلق ہے اوروہ واحد مطلق میں اگر کثرت کا عقلی اعتبار (بطور اعتباری محض ممکن ہو۔ توعقل ہے اوراگر کثرت کا عقلی کااعتبار بھی ممتنع ہو۔ تو واجب الوجود ہے۔

اس بیان سے ظاہر ہے کہ واجب الوجود کی وحدت کا مفہوم نہ صرف ایک مفرض شی نقطہ ہی کا صلبی مفہوم ہے ۔ بلکہ فقط کا صلبی مقابلہ واحد مطلق ہے۔ اورواحد مطلق کے بھی ثبوت وصلبی دومفروض مفہوموں میں سے ثبوتی مفہوم حکما کی ایک مفروض ومفہوم کلی عقل ہے اورعقل کا صلبی مقابل واجب الوجود ہے۔ اوراس مفرض صلب محض کے معتقدین واجب والوجود کے ہرثبوتی مفہوم کوشرک قرار دیتے ہیں مگراپنی طرف سے توحید واجب کا کوئی ثبوتی مفہوم پیش کرنے کے بجائے ممتنع الوجود کے مفہوم کا مفروض واجب الوجود پیش کردیتے ہیں۔اوراگرچہ وہ واجب الوجود کے مفرض مفہوم (صلب محض) کی طرف بعض ایسی ذاتی صفات منسوب کرتے ہیں ۔ جن کے مفہومات ممتاز اورثبوتی ہیں۔ اوجوپیشتر بائبل مقدس میں مذکور ہوچکے ہیں۔ جیسے کہ حیات ،کلام،علم،ارادہ، قدرت،ان کثیر ثبوتی صفات ک ےذات واجب کی مفروضہ صلیب وحدت کے ساتھ علاقہ کی معقول توضیح پیش کرنا ان کے لئے مشکل ہے ۔چنانچہ ایک فرقہ اس لئے کثیر صفات کو غیر ذات قرار دیتاہے ۔ کہ کثیر کواوحد محض کا،عین قرار دینا محال ہے۔لیکن اس عقیدہ سے تعدافدما کا استحالہ لازم آتاہے۔ اس لئے ایک اور فرقہ صفات کثیرہ کوذات واحد محض کا عین قرار دیتا ہے۔ جس سے درحقیقت صفات کی کثرت کے حقیقی ہونے کا انکار لازم آتاہے اوروہ اعتباری محض ٹھہرتی ہیں۔ اوران کو ذات واحد محض کا عین فرض کرنا کثیر صفات کی نفی کا متلزم ہے۔ نیز اس صورت میں صفات کے ثبوتی مفہوم کا علم ہی محال ٹھہریگا کیونکہ صفات کے بغیر ذات واحد محض کا کوئی ثبوتی مفہوم ہونہیں سکتا اورجب صفات کو عین ذات فرض کرلیاگیا توصفات کے ثبوتی مفہوم کا علم ذات کے ثبوتی مفہوم کے علم پر موقوف ٹھہریگا۔ پس صفات کے ثبوتی علم کا حصول ممتنع ہوگا۔ اورذات واحد محض کے ساتھ کسی طرح کی ذاتی یا اضافی صفات کا لگاؤممکن نہ ہوگا۔

مذکورہ مشکلات سے بچنے کے لئے ایک اورفرقہ لاعین ولاغیرہ کاقائل ہے۔ تاکہ نہ تکثر وجیاء کا محال لازم آئے اورنہ صفات کثیرہ کی نفی لازم آئے۔ لیکن اس سے صریح طورپر ارتفاع نقیضین کا محال لازم آتاہے جس کوان کی کوئی رکیک تاویل ردنہیں کرسکتی ۔غرضيکہ واحد محض کا مفہوم چونکہ صلب محض ہے۔ اس لئے کسی طرح کے حقیقی اورثبوتی صفات کثیرہ کی نسبت واضافت اس کے ساتھ ممکن ہی نہیں۔

اورجس طرح سے ازلی واحد محض کا عقیدہ خلاف عقل ٹھہرتاہے اسی طرح سے تین متغائرازلی ماہیتوں کا عقیدہ بھی خلاف عقل ہے۔ کیونکہ اگرمتعدد متغائر ازلی ماہتیں فرض کرلی جائیں تو:

(الف) ان کی کثرت کسی وحدت کی نسبت کے بغیر مفروض ہوگی۔ جس کی نہ کوئي ثبوتی تعریف ہوسکتی ہے اورنہ خارج میں اس کی مثال ہی پائی جاتی ہے(ب) یا تووہ متغائر ماہتیں واجب یا بالذات مفروض نہ ہوں گی۔ اوراس سے ان کی ازلیت باطل ٹھہرے گی۔ اوریاان کے مختلف ماہیتوں کا وجود کلی مشکک ٹھہریگا کیونکہ ہر ماہیت کے وجود کا الگ الگ مفہوم ہوگا اوریہ صریح بطلان ہے۔ کیونکہ وجود کے استقلال اورقائم بالذات ہونے کے ماسوا وجود کا کوئی مفہوم نہیں ہوسکتا۔ (ج) تین مختلف ماہیتوں کی کثرت عددی ماننی پڑے گی۔ اورایک معدود س ےزائد دوسرا اور دوسر زائد تیسرا معدود ہوگا۔ جس سے تینوں محدود ٹھہریں گے کیونکہ غير محدود سے زائد کا فرض ہی محال ہے۔ اورکوئی محدود واجب بالذات نہیں ہوسکتا کیونکہ اس سے بعض جگہ اسکے نہ ہونے کی ضرورت بااسکے ہونیکا امکان لازم آئیگا۔ حالانکہ واجب کا وجود ہرجگہ اورہر زمانہ میں ضروری ہے اگرکسی جگہ یاکسی زمانہ میں اس کا عدم یاامکان لازم آیا تو اس کا وجود ضروری اورواجب نہ رہا۔

پس ازروئے عقل ،ذات، واجب کی ازلی وذاتی وحدت اوراس کی ازلی وباطنی کثرت کی ضرورت ثابت ہے اورکائنات عالم سے اس کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اس بے مثل ذات کی مثل ممتنع ہے۔ اس کی وحدت ذاتی وکثرت باطنی کی حقیقت وکنہ کا علم فوق العقل ہے۔ پس نہ اس کی ازلی وحدت کی حقیقت مخلوقات کی وحدت کی مثل ہوسکتی ہے۔ اورنہ اس کی کثرت کی حقیقت ،کائنات عالم کی کثرت کی مانند ہوسکتی ہے۔

(۲)

واجب الوجود کا مفہوم کلی ہوگا یا جزئی۔ اورکلی وہ مفہوم ہے جس کے کثیر پن پر صادق ہونے کوعقل جائز رکھے اورجزئی وہ مفہوم ہے جس کے کثیر پن پر صادق ہونے کو عقل جائز نہ رکھے مسلم منطقین نے واجب الوجود کا مفہوم کلی ماناہے کیونکہ جزئی مانیں تووہ ضرور کلی ذاتی کی طرف مضاف ہوگا۔ اس لئے کہ کلی وجزئی مضافین ہیں لیکن مسلم حکماء نے واجب الوجود کوکلی ممکن الافراد ماننے کے باوجود اس کے ساتھ ایک فردممکن اوردیگر افراد کے امتناع کی شرط بلا ثبوت صرف تقلیدی اعتبار سے لگادی ہے۔ کیونکہ واجب الوجود کوواحد محض مان کر اس کی باطنی کثرت ثابت ہی نہیں کرسکتی۔ اورخارجی افراد کے فرض سے اس کے شکار لازم ٹھہریں گے۔ اس لئے اُنہوں نے واجب الوجود کوکلی ممکن الافراد ماننے کے باوجود اس کے ایک فرد کے ممکن ہونے اوردوسروں کے امتناع کا حکم کسی عقل حجہ وثبوت کے بغیر ادارہ متحکم لگادیا۔ ورنہ یہ حکم عقلی ہونے کے بجائے خلاف عقل ٹھہرتاہے۔ کیونکہ اس صورت میں ایک ہی کلی کے افراد پر امکان وامتناع کے نقیضین کا حکم لازم آئے گا اوراس طرح سے ممکن الوجود اورممتنع الوجود دونوں واجب الوجود کلی کی جزئیاں ٹھہریں گی جس سے اجتماع نقیضین کا استحالہ لازم آئے گا۔اورواجب الوجود کوکلی ماننے سے اس کا متعلق سکوت اختیار کرنے میں ہی مصلحت سمجھی ہے۔ لیکن کلیاں چونکہ دوعرضی اورتین ذاتی پانچ ہی قسم کی ہوسکتی ہیں ۔ اس لئے واجب الوجود کو کلی مان کران میں سے کسی کی مثال قرار دینا ضرور ہے۔ پس ذات واجب کو دوعرضی کلیوں میں سے کسی کی مثال قرار دینا خارج ازبحث ہے۔ اورکلی ذاتی میں سے جنس اورفصل چونکہ جزماہیت یعنی جزمقوم اورجز مقسم ہیں ۔ اس لئے وہ غیر ستجزی ذات کی ماہیت سے متعلق نہیں ہوسکتے اور اس کی ذات پر واجب الوجود کا اطلاق بھی اس کی فوق العقل حقیقت کو مثالی طورپر سمجھنے کے لئے ہے۔ ورنہ وجود اس کا جز عام نہیں اورواجب اس کا جز مخصص نہیں ۔ کیونکہ اس کی ذات پاک میں کس طرح کے تغائیر وتماثل کا امکان ہی نہیں۔ اوراس کے لئے عمومیت و خصوصیت کا فرض ہی باطل ٹھہرتاہے ۔ چنانچہ وجود کا اطلاق اس پر اعتباری معنی میں ہے۔ جیسے کہ ممکن الوجود اورممتنع الوجود پربھی اس کا اطلاق اعتباری ذہن کے طورپر ہے۔ نہ کہ اعتباری نفس الامری کے طورپر۔ کیونکہ ممتنع کا خارج میں عدم ضروری ہے۔ پس عدم محض پر وجود کا اطلاق صرف ذہنی اعتبار کے طورپر ہی ہوسکے گا۔ اورکلی ممکن الافراد (امکان بمعنی خاص) کا کوئی فرد ازل میں موجود نہ ہونے بلکہ سبوق بالعدم ہونے کے باوجود وہ ممکن الافراد ہے جس سے مراد یہ ہے کہ خارج میں اس کے عدم وجود دونوں کا امکان ہے اوراُس کے عدم پر وجود کی ترجیح کا سبب تاثیر واجب الوجود ہے۔ ورنہ اپنی ماہیت کے اعتبار سے نہ اُس کا وجود ضروری ہے اورنہ عدم ضروری ہے۔ اورکلی واجب الوجود کے عدم کافرض بھی ممتنع ہے۔ کیونکہ کوئی جگہ ایسی فرض نہیں کی جاسکتی ۔ جہاں اس کا وجود ضروری نہ ہو اور کوئی زمانہ بھی ایسا مفروض نہیں ہوسکتا۔ جبکہ اس کا وجود ضروری نہ ہو۔

الحاصل ! کلی واجب الوجود کا مفہوم نہ عرض عام ہوگا اورنہ خاصہ۔ اورنہ جنس نہ فصل بلکہ بمنزلہ نوع کلی کے ہوگا، لیکن کسی حادث نوع کلی کی مانند نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ حادث و طبعی نوع کلی کے افراد گرچہ متفتتہ الحقیقتہ اورمتحد بالذات ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں کثرت عددی پائی جاتی ہے اور وہ الگ الگ اجسام کے محدود متغائر اشخاص ہونگے چنانچہ مثال کے طورپر نوع انسان جوکہ اپنے خالق کی صورت پر مخلوق ہوئی ) کے اشخاص اپنی ماہیت اورصفات ماہیت(نوع صفات) میں متحد ہیں۔لیکن شخصی صفات واجسام کو اعتبارے متعدد ومتغائر میں بنابریں نوع انسان کی ماہیت ،ذات واجب کی مثال ہوسکتی ہے اس کی مثل اورمانند نہیں ہوسکتی۔ پس واجب الوجود کا مفہوم بمنزلہ نورکلی کے ہے اوراس کے بمنزلہ اشخاص باطنی کثرت جومثال جزئیات ہے اورجس کواصطلاحی طور پربمنزلہ محل صفات کہہ سکتے ہیں) کا ذات وصفات میں واحد اورصفات فعل میں ممتاز ہونا قرین قیاس ہے کیونکہ کلی واجب الوجود کی کثرت نہ افرادی ہوسکتی ہے نہ خارجی اورنہ عددی ۔ اس لئے کہ اس کی ذات بے مثل اورلاشریک اورلامحدود ہے پس ا کی کثرت کا بمنزلہ محل صفات اورباطنی اورامتیازی ہونا قرینِ قیاس ہے۔

(۳)

خدا تعالیٰ نے واجب بالذات اورستغنیٰ عن الغیر ہے اس لئے اس کی حقیقتہ محصہ کا انکار نہیں ہوسکتا۔ نیز چونکہ وہ کائنات محدثہ کی علت العلل اورخالق مخلوقات ہے۔ اس لئے اس کی حقیقت کاانکاربھی ممکن نہیں۔ اوراگریہ دونوں حقیقتیں متغائر فی الماہیت مفروض ہوں۔ تونکثر وجبا کا استحالہ لازم آئے گا۔ پس دونوں حقیقتوں کا متضائف اورواحد بالذات ہونا ضرور ہے۔ اورازیں جہت دونوں ممتاز حقیقتوں کا یعنی مضافین ازلی میں۔ حقیقتہ وحدتہ لازم آئے گی اوراس طرح سے واحد واجب بالذات میں حقیقتہ محضہ حقیقتہ اضافہ، حقیقتہ وحدتہ کی ازلی اورباطنی کثرت کا مسلمہ صحیح ہوگا، واجب بالذات کی ازلی وحدتہ میں ازلی اورباطنی کثرت کے متعلق یہ پوچھا جاتاہے۔ کہ کثرت کا اعتبار تووہ سے لیکر الی مالا نہاعیہ ہے۔ پھرکیوں ذات واجب میں تین منزلہ محل صفات کی کثرت ہی معتبر ہے۔دویا چار کی نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ازلی وحدت کے مفہوم کے تعقل اورنسبت کے لئے ازلی کثرت کے مفہوم کی نسبت واضافت کی ضرورت ثابت کرنا عقل کا کام ہے۔ لیکن کثرت نفس الامری کی تعیین ،عقل کا کام نہیں۔ چنانچہ انبوہ یا فوج کے لفظ کا اطلاق ازروئے عقل فردواحد پر نہیں بلکہ غیر معین کثرت کے اعتبار پر ہوگا۔لیکن کسی خاص جگہ اوروقت کے انبوہ یا فوج کی واقعی کثرت ضرور معین ہوگی۔ اوراس کے خارجی شمار کی تعین اعتبار عقلی سے نہیں بلکہ مشاہدہ یا متواتر شہادتوں یا صحیح تواریخ سے متعلق ہے۔ اور یہ وسائل بھی بدیہی اورخارجی کثرت کے لئے ہوسکتے ہیں لیکن جس کثرت کا اعتبار نفس الامری ،نادیدہ اورفوق الحواس اورفوق العقل حقائق سے متعلق ہوگا۔ مثلاً فرشتوں یا ارواح کی خارجی کثرت یا ذات واجب کے محل صفات یا صفات کی باطنی کثرت کی تعین کا اعتبار نفس الارمی ضرورالہام اورروحانی ہدایت وروشنی سے متعلق ہوگا۔ پس ازروئے عقل، واحد ذات واجب میں ازلی وباطنی کثرت کی تعین کا اعتبار ضروری ہے مگر اس واقعی اورنفس الامری کثرت کی تعیین عقل کی پہنچ سے باہر اور فوق العقل ہے۔ اسکے باوجود استدلال افی اورشیش دت اتومان (یعنی مخلوق سے خالق پر استدلال ) کے روسے ذات خالق میں تین محل صفات کی کثرت سی قرین قیاس اورمرحج ہوسکتی ہے۔ چنانچہ انسان جواشرف المخلوقات اوراپنے خالق کی صورت پیدا کیا گیا ہے۔ اس میں تین ہی قسم کی صفات ہیں نمبر ۱ نفسانی، مثلاً بھوک ،پیاس ، سونا ، جاگنا، حس وحرکت وغیرہ۔ نمبر ۲ عقلی، مثلاً سوچنا ، سمجھنا بدیہیات سے نظریات کا استنباط وغيرہ نمبر ۳ روحانی ،مثلاً نیکی وبدی ایثار وخود غرضی، حلم وتکبر، اندیکھی حقیقتوں پر ایمان، موت کے بعد زندگی کی امید اورابدی راحت کے حصول کی آرزو وغیرہ۔ پس واحد ذات انسان میں تین ہی محل صفات ہیں ۔ یعنی نفس عقل وروح ، جوکہ نہ انسان کی ذات اورماہیت ہیں اورنہ صفات بنابریں انسانی ماہیت وصفات سے ان کے امتیاز کے لئے محل صفات کی اصطلاح مناسب معلوم ہوتی ہے اوریہ تین محل صفات نہ صرف ذات ماہیت میں متحد بلکہ ایک ہی انانیت سے متعلق ہیں۔ اوراپنے صفات فعل یعنی نفسانی، عقلی اورروحانی صفات کے آثار سے وہ باہم ممتاز ہیں۔ اسی طرح بائبل مقدس اوردیگر مذہبی کتب میں ذات الہٰی کونور کی مثال جودی گئی ہے اورطبعی نور کا منبع سورج ہے۔ اس کی واحد شعاع میں بھی باعث حرارت، باعث ضیا اورباعث کیمیائی تاثیر کے تین محل صفات ہی پائے جات ےہیں۔جوتین آثار یعنی گرمی روشنی اورجسمانی زندگیوں میں کیمیائی اثر کے اعتبار سے باہم ممتاز ہیں۔ اور ذات واجب کے متعلق اس حقیقت کو ماننا ناگریز ہے۔ کہ اس کی ذات وازلی لوازمات پر لفظی دلالت التزامی ہی ہوسکتی ہے نہ کہ مطابقی یا تضمنی، پس مخلوقات کے ذوات ومحل صفات وصفات اس کی مانند نہیں بلکہ مثال ہی ہوسکے ہیں۔ اوراس جہت سے اس ک لئے بمنزلہ ذات اوربمنزلہ محل صفات اوربمنزلہ صفات کے الفاظ کا استعمال فرین حقیقت ہوگا۔

(۴)

ذات واجب کو مخلوقات کا خالق ماننے کی جہت سے مخلوقات کے ساتھ خدا کی بضافت ضرور ہوگی کیونکہ علت ومعلول مصافین ہیں۔ پس یہ اضافت صرف ازلی مفروض ہوگی یا صرف حادث یاازلی وحادث دونوں ؟اگرمخلوقات کے اعتبار سے خالق کی اضافت اس کے ساتھ ازلی فرض کی جائے۔ تومخلوقات کی ازلیت لازم آئے گی۔ اوراگر صرف حادث اضافت فرض کی جائے توچونکہ ذات واجب ازل میں اضافت سے خالی مفرض ہوگی اس لئے حادث اضافت سے ذات واجب میں امکان کا اضافہ اورذات قدیم کے لئے اضافہ حادثہ کا انضمام لازم آے گاجومحال ومستحیل ہے کیونکہ ذات واجب کا مستقل بالذات وکامل فی الصفات ہونا ضرور ہے۔ پس اس کی ذات میں ازلی وباطنی اضافت ضرور ہے۔ اورحادث وخارجی اضافت اسی ازلی وباطنی اضافت کا اثر اور اس کے ازلی جلال کی معموری کا صدوری قیام ہوگا اورازلی مضافین میں ذاتی وحدت ضرورت ہوگی جس سے واحد ذات ازلی میں تین محل صفات باطنی کا ماننا قابل قبول ہوگا۔

(۵)

جیساکہ مبرہن ہوچکا۔ خداتعالیٰ کوکائنات عالم کا خالق ومالک وپروردگار ماننے سے ممکنات محدثہ کے ساتھ اس کی اضافت تخلیقی، تملیکی اورتمکینی لازم آئے گی۔ پس قضائف سے ذات واجب کا کمال اورجو وجوب مفروض ہوگا یا نقص اورامکان ؟نقص اورامکان کے فرض سے اس کے واجب بالذات اورکامل علی الاطلاق ہونے کا انکار لازم آئے گا۔ اورکمال دوجوب ماننے کے اعتبار سے اسکے تضائف کا صرف حادث اورخارجی ہونے کا مفروضہ باطل ٹھہریگا۔

کیونکہ:

نمبر ۱ خداتعالیٰ ازلیت میں اورمرتبہ ذات میں اس ضرورت اورکمال سے خالی مفروض ہوگا۔ نمبر ۲ ممکنات ، محدثہ (جن کے لئے وجود ضروری ہے نہ وہ کامل مطلق ہوسکتی ہیں) کے ساتھ کامل اورضروری تضائف کا فرض ہی ممتنع ہے۔پس اس کی ازلی وباطنی اضافت کی ضرورت ثابت ہے۔ اورذات واجب میں ازلی وباطنی اضافت ماننے اس کے ازلی وباطنی اضافت کی ضرورت ثابت ہے۔ اورذات واجب میں ازلی وباطنی اضافت ماننے سے اس کے ازلی وباطنی مضافین کی ازلی و حقیقی وحدت کی لزوم ثابت ہوگا جس سے حادث وخارجی مضافات اس کے ازلی وباطنی کمال کی معموری کے صدوری آثار ٹھہریں گے۔ نیز اگرواحد ازلی حقیقت کی کثیر اور حادث اشیا کے ساتھ خارجی اضافت ممکن مفروض ہوگی توواحد بالذات اورحقیقی مضاف کے ساتھ اس کی ازلی باطنی اضافت ضرورثابت ہوگی۔

تنبیہ: اگرحدوث اضافت کے ایراد کوٹالنے کے لئے خدا تعالیٰ کی ازلی اضافت:

نمبر ۱: خارجی ازلی ہستیوں کے ساتھ مفروض ہو۔

نمبر ۲: اس کے ازلی معلومات کے ساتھ منسوب کی جائے۔

نمبر۳: مخلوقات کی قدیم کلی کے ساتھ مفروض ہو۔ جس کی جزئیات حادث ہوں۔

یہ اعتباراول: (الف) خارجی ہستیوں کے ساتھ خدا کی ازلی اضافت کے مفروضہ سے تعداد قدما لازم آئے گا۔ جس کا بطلان مبرہن ہوچک(ب)وجوب کے لئے کلی عرضی۔ خارج ازماہیت اورتغیرپذیر ہونے کے محالات لازم آئیں گے کیونکہ متعدد ومتغائر ازلی ہستیاں مفروض ہوں گی۔

بہ اعتبار دوم۔ معلومات باری تعالیٰ کے حدوث وصدور سے پہلے ان کے ساتھ خالق کی اضافت اعتباری محض کے طورپر اورایک طرفہ مفروض ہوسکے گی کیونکہ اگرچہ محدثات کے وجود خارجی اور موجودات علمی ہونے کے اعتبار سے خدا تعالیٰ کے علم میں کوئی تغیر ممکن نہیں۔ اس لئء کہ اس کے نزدیک ماضی ومستقبل برابر ہیں۔ لیکن حادث زمانی کے خارجی وجود سے خدا تعالیٰ کی طر ف اس کی واقعی اضافت کا امکان ہی نہیں پایا جاتا۔ بہ الفاظ دیگر محدثات کے حدث سے پہلے خداتعالیٰ تواُن کا خالق ہے۔لیکن وہ اس کے واقعی اورحقیقی مخلوقا نہیں ٹھہر سکتے ۔ اس لئے ان کے ساتھ خدا کی حقیقی اور اضافت کا فرض ہی محال ہے۔

بہ اعتبار سوم: نمبر۱ کلی قدیم وجزئیات حادث فرض کرنے سے کلی وجزئی مضافین نہ رہیں گے۔ کیونکہ مضافین میں تقدوم وتاخر زمانی محال ہے نمبر ۲ اگرکلی قدیم موجودہ مفروض ہو۔ اورجزئیات حادث اور سبوق بالعدوم، توحدوث جزئیات سے پہلے کلی حقیقی ہوگی اورجزئی اعتباری مفروض ہوگی۔ اس لئے ان کی اضافت محال ہوگی۔ کیونکہ مضافین میں سے ایک حقیقی ہوگا۔تودوسرا ضرور حقیقی واعتباری میں اضافت ممکن نہیں۔نمبر ۳ قدیم کلی وحادث جزئیات میں انفکاک لازم آئے گا۔ حالانکہ کلی وجزئیات میں ملازمت پائی جاتی ہے اورانفکاک محال ہے نمبر ۴ کلی کا وجود اپنے افراد میں ہی پایا جاتاہے۔ چنانچہ کسی انسانی فرد کے بغیر انسان کلی (انسانی ماہیت) کا جداگانہ وجود محال ہے بلکہ انسان کا تصور ہی محال ہے پس حادث جزئیات سے قدیم کلی مرتب نہیں ہوسکتی۔ اورجزئیات کے بغیر کلی کا وجود ہی محال ہے۔

لیکن یہ تینوں باطل اعتبارات سے اس استحالہ کا کوئی عذر نہیں پیش کرسکتے کہ ذات الہٰی کی خارجی اضافت کا ازلی امکان فرض کرلینے کے باوجود مرتبہ ذات میں خدا تعالیٰ اضافت سے خالی مفروض ہوگا اورصرف خارجی اضافت سے وجود میں امکان کا اضافہ اورذات کا استکمال لازم آئے گا۔

(۶)

جیساکہ بیان ہوچکاہے کہ ذات الوجوب کی اضافت صرف مکنات محدثہ کے ساتھ ماننے سے اس کی ازلی اضافت کا انکار لازم آئے گا، جوکہ محال ہے، اورازلی اضافت کوصرف خارجی ماننے سے تعدوقدما کا فرض اورمرتبہ ذات میں عدم اضافت کا نقص لازم آئے گا۔ اوروہ بھی محال ہے پس جیساکہ مبرہن ہوچکا۔ ذات واجب کی حقیقی اضافت، ضرور ازلی وباطنی ہوگی اوراگر استعدلال سے استنباط کے لئے کائنات عالم پرغورکریں۔تووہ حقیقی اضافت بطور ظہورکے ہی ہوسکتی ہے، چنانچہ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ عالم محسوسات میں جتنے مدارج کی جسمانی زندگیاں پائی جاتی ہیں۔ ان سب کی ذاتی اضافت بطور اپنی ماہیت کے ظہور کے ہی ہوتی ہے۔جیسے کہ نباتات سے بیچ یا پھل وغیرہ کی اضافت میں ان کی ماہیت کا ظہور، اور حیوانات میں نرومادہ اور نوع انسان میں والدین (کیونکہ تذکیرتاثنیت کے متقابلین ہی حیوانی زندگی کی پوری ماہیت ہیں)سے بچوں کی اضافت میں اپنی ماہیت کا ظہور ، یعنی ماہیت سے ماہیت کا اضافی قیام اورظہور کے ہوتاہے۔نہ کہ فاعل سے فعل کے اضافی قیام کی مانند صدورکے طورپر ، لامحالہ صدوری قیام کے مقابل ظہوری قیام کہیں افضل ہے کیونکہ حیوانی زوجین کے طبعی میلان اورحقیقی راحت کی اضافت اپنی مصنوعات کے ساتھ اس اعلیٰ پایہ کی نہیں ہوسکتی ۔جیسی کہ اپنی اولاد کے ساتھ اورکسی فاعل کے ارادہ کے باوجود اپنے فعل پرقادر نہ ہونے کا سبب توقوت فعل یا آلات فعل کی کمی ہوگی۔لیکن طبعی خواہش کے باوجود اولاد کے قیام ظہوری سے بے بہرہ ہونا طرفین(دونوں یا ایک ) کی جسمانی ماہیت کے ظہور کی استعداد یا قانون فطرت کی تکمیل میں کمی پردال ہوگا۔ اس مثالی استدلال کے متعلق یہ نگہداشت ضرور ہے کہ نباتی اورحیوانی اور انسانی زندگیوں سے توان کی جسمانی ماہیت کے ظہور کی مذکورہ مثالیں محدود ومتخبری وحادث وستاد خراجسام کے ظہورات سے متعلق ہونگی۔لیکن ذات الہٰی چونکہ جسم واجزا وحدوث وحدود سے پاک ہے۔ اس لئے جبکہ گذشتہ بیانات میں خدا تعالیٰ کی ازلی وذاتی وباطنی اضافت متحقق ہوچکی ہے کہ تواس ازلی وذاتی وباطنی اضافت کی مثالی تعبیرہ حقیقی محض وازلی نور سے حقیقی اضافی وازلی نورکا قیام، ازلی وباطنی ظہور تجلی کے طورپر ہے۔ نہ کہ حادث خارجی ظہور تجزی کے طورپر اورازیں تہت انسانی تفہیم وتفہیم کے لئے مثالی معنی میں واحد الہٰی ذات کے باطنی مضافین میں حقیقتہ محضہ بمنزلہ اب کے ہوگی۔ اورحقیقتہ اضافہ بمنزلہ ابن کے اورمضافین کی ذاتی وحدت بمنزلہ حقیقہ روحی کے بالفاظ دیگر خلاصہ استدلال یہ ہے۔ کہ اگرمخلوقات (معلول ) سے خالق۔ (علت نام) کی ذات پر استدلال کریں۔ تومخلوقات کے مدارج میں اعلیٰ درجہ زندگی کا ہے اورزندگیوں میں اعلیٰ درجہ انسانی زندگی کا ہےجوعقل وغیرہ کی افضل صفات سے متصف ہے۔ اس سے مستنبط ہوتاہے۔ کہ ذات خالق میں حکمت ارادہ قدرت وغیرہ صفات کی لازمی شرط یعنی حیات کامل ضروری ہے۔ جس کے اعتبار کے بغیر دیگر صفات کا اعتبارہی محال ٹھہرے گا۔ اور مخلوقات سے خالق پرمثالی استدلال کے رو سے کامل حیات کا خلاصہ بلااستشنا مخلوقات کے ہردرجہ حیات میں اپنی ماہیت کے ظہوری قیام کا افادہ ہے۔ پس ذات خالق کا کمال بھی نہ صرف قیام صدوری (فعل تخلیق ) کی حادث ومحدود وخارجی اضافت بلکہ قیام ظہوری کی ازلی وذاتی وباطنی اضافت ہے۔ اورحادث ومحدود خارجی مضافات کاقیام اسی ازلی وذاتی وباطنی ظہور کی تاثیر کا صدوری اثراورمخفی کمال کی مشہودی مثال ہے اوراگر ذات واجب سے ازلی وذاتی وباطنی اورواحد اضافت کا ظہور ممتنع مفروض ہو(حالانکہ یہ وہم محض پر مبنی مفروضہ ہے جواستد لال کی رو س خلاف عقل ٹھہرتاہے)تو اس سے اسی ماہیت کے برخلاف (اگر اس کے لئے اضافت ذاتی ممتنع مفروض ہو) حادث ومحدود ومتغیر وخارجی اورکثیر مضافات کا صدوری قیام اور ان سے متعلقہ انضمامی اضافت کیونکر ممکن متصور ہوگی؟

(۷)

جیساکہ رسالہ اثبات فی التوحید میں بیان کیا جاچکا ہے۔

ممکنات محدثہ کے وجود وحدوث وبقا کے لئے تین صفتوں کی صورت ناگریز ہے۔

نمبر۱۔ علت مفیدہ کیونکہ ممکن الوجود کا اپنی ماہیت کے اعتبار سے نہ وجود ضروری ہے اورنہ عدم اوروہ سبوق بالعدم ہے پس اس کے وجود کی عد م پرترجیح کے لئے واجب موثر کے افادہ وعلت مفیدہ)کی ضرورت ہے۔

نمبر ۲۔ علت محدثہ کیونکہ علت مفیدہ کا افادہ ازلی ہوگا۔ اور کائنات محدثہ کا وجود حادث ہے پس حدوث وصدور ممکن کیلئے ایک اور یعنی علت محدثہ کی احتیاج بھی ناگریز ہے جوازلی علت معبدہ اورمعلول علت محدثہ میں بطور واسطہ ہو۔تاکہ ازلی علت معبدہ ہے خاص وقت میں معلول کے صدر کی ترجیح کا سبب ہو۔ ورنہ ازلی افادہ کی بجائے خاص زمانہ میں اورحادث تاثیر کے لئے ترجیح بلا مرحج نظر بخصوص وقت لازم آئے گی۔ پس علت قدیم کے ساتھ معلول حادث کے ربط کے لئے علت محدثہ کا واسطہ ناگریز ہے۔ جس کی علت معبدہ کے ساتھ تواضافت ازلی اورباطنی ہوگی۔ مگر مخلوق حادث کے ساتھ اضافت حادث اورخارجی ہوگی۔

نمبر ۳۔ علت مبقیہ۔ ممکن الوجود نہ صرف اپنے وجود وحدوث میں بلکہ اپنے بقا میں بھی تاثیر واجب کا محتاج ہے۔ کیونکہ وہ اپنے وجود میں مستقل اورقائم بالذات نہیں۔ اس لئے کہ اس کے وجود کے لئے علت معبدہ اورحدوث زمانی کے لئے واسطہ علت محدود اوراس کے بقا کے لئے واسطہ علت مبقیہ کی ضرورت ہے ، جوازلی مضافین کی ازلی اضافت یعنی وحدت آتی اورمثالی معنی میں بمنزلہ حقیقت روحی ہوگی۔ ورنہ دومتغائیر ازلی ماہیتوں کے فرض سے تیسری متغائیر ماہیت کی ضرورت اورتکثروجبا کا محال لازم آئے گا پس علت معبدہ سے علت محدثہ کے وسیلہ سے ممکنات محدثہ کا صدور(قیام صدوري) یعنی مخلوقات کی تخلیق ہوگی اورعلت محدثہ سے علت مبقیہ (مضافین ازلی کی حقیقتہ وحدہ) کے وسیلہ سے مخلوقات کے ارتقا اوربقا کی تاثیر کا عکسی افادہ ہوگا۔

(۸)

ذی عقل ہستیوں کے ہر اختیاری کام کی ضرورکوئی غائت ہونا چاہیے پس اگر کوئی فاعل مختار کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرے گا۔ اس کام سے اس کا اپنا استفادہ مقصود ہوگایا کسی دوسرے کے لئے افادہ ۔ اورانسانی طبیعت کے موافق دوسروں کے لئے افادہ کا داعی (مقتضی فعل) حصول ثواب ہوگا یا اضافت محبت یعنی دوسروں کو فائدہ پہنچانے کا کام نیکی کے خیال سے کرے گا یا ان کی محبت کی وجہ سے۔اورجویہ کام کسی کے خوف ما اپنے لالچ کی وجہ سے کئے جائیں گے۔ وہ اضطراری ہوں گے کہ اختیاری اورطبعی میلان پر مبنی ۔ پس انسان کی طرف سے حقیقی ایثار کے کاموں کا داعی اضافت محبت ہی ہوسکتی ہے۔ اورمحبت کی فضیلت ہمہ گیر طورپر ایسی مسلم ہے۔ اوراس کے زیر اثر ہر طرح کے ایثار کا صدورایسا بدیہی امر ہے۔ کہ اس کے متعلق کسی قیل وقال کی گنجائش ہی نہیں۔ پس استدلال انی کے رو سے خالق کائنات کی کامل ذات اس افضل صفت کمال سے خالی نہیں ہوسکتی ۔ لیکن اگر اس کی محبت کی اضافت صرف مخلوق کی طرف مفروض ہو۔توازلیت اورمرتبہ ذات میں اس صفت کمال کے نہ ہونے سے استکمال لازم آئے گا۔ اوریہ صرف انضمامی ٹھہرے گی۔ نیز ازلی وغیر محدود ذات کی محبت کی سیری محدود وحادث مخلوقات کی اضافت سے ممکن نہیں۔ پس محبت کی اضافت کا واجب بالذات میں ازلی وباطنی ہونا ضرور ہے۔ اورجبکہ حقیقتہ محضہ سے حقیقتہ اضافہ کاظہور بطورازلی تجلی کے ماننا لاابد اورناگریز ہے۔ جیساکہ پیشتر مبرہن ہوچکا۔ توحقیقتہ محضہ بمنزلہ اب اورحقیقتہ اضافتہ بمنزلہ ابن میں محبت کی غیر محدود وازلی وباطنی اضافہ کے انکار کی گنجائش نہیں۔ پس حقیقہ محضہ سے حقیقہ اضافتہ کے وسیلہ سے ممکنات محدثہ کا صدور اس ازلی محبت کے کمال کی معموری اورباطنی تاثیر کا خارجی اثر ٹھہرے گا۔ جواس قسم کے سوالوں کا مسکت جواب ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کامل بالذات اورمستغنی عن الغیر ہے تواس نے کائنات محدثہ اورمخلوقات خارجہ کوکیوں پیدا کیا؟ اورکیوں اس کوسنبھالتاہے ؟ اوربنی آدم کی بے شمار نافرمانیوں اورمکروہ گناہوں کے باوجود وہ قدوس مطلق اورغیورخداوند کوں تحمل کرتاہے؟ اوراس کی قدوسی اورغیرت اورقدرت کیوں گنہگاروں اورسرکشوں کی ابدی ہلاکت کا موجب نہیں ہوتی؟

(۹)

جیالوجی اورارکیالوجی کی بدیہی شہادتیں اوراستدلال اورمشاہدہ پر مبنی حکماء عالم کے متفقہ مسلمات کے رو سے ویدنی کائنات کی تدریجی ارتقا اس قدر مسلم الثبوت ہے کہ اس کی تصدیق کے لئے کسی بحث ونظر کی ضرورت نہیں۔اگراس کے متلق اختلاف آراء ہے۔ تواس امر میں کہ اس تدریجی ارتقا کا حقیقی نظام فوق الفطرت اورالہٰی حکمت وقدرت سے متعلق سے باصعی اتفاقات سے وجود پذیر اورعقل وارادہ ہے۔بے بہرہ طبعی قوتوں کے اضطراری حوادث سے متعلق ہے؟

جولوگ خدا کی ذات پرایمان رکھتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتے ۔ کہ مخلوقات کے ارتقا کی تکمیل اوراس ۔۔۔۔۔اورانتہائی جزئی وہ ہوسکتی ہے۔ جس سے اعلیٰ درجہ ۔۔۔۔۔۔ امکان تک باقی نہ رہے۔ورنہ یا تومخلوقات کا سلسلہ ناقص ٹھہرے گا اوراس کی تکمیل کے لئے کسی اور مخلوق کی ضرورت لازم آئے گی۔ اورایا ایسے مخلوق کی آخری جزئی قرار دینے سے کہ جس سے اعلیٰ مخلوق کا امکان باقی ہو۔خالق کی قدرت مطلقہ کا انکار لازم آئے گا۔ کیونکہ ایسی جزئی کو اس کا آخری مقدور قرار دینا جس سے اعلیٰ مخلوق کا تصور ممکن ہو۔ اس کی قدرت کے لئے حد کا متلزم ہوگا۔

عالم محسوسات میں مخلوقات کے مدارج، جمادات، نباتات ،حیوانات اورنوع انسان ہیں۔ اورمذہبی عالم میں نوع انسان کوجسمانی اورروحانی عالم کا درمیانی مابالفاظ دیگر ایسی نوع مانا جاتاہے جس کی جسمانی طبعیت ، عالم اجسام سے اورروحانی طبیعت، روحانی نظام سے وابستہ ہے۔ مگر سارے غیر مسیحی مذاہب اس امر پر متفق الکلمہ ہیں۔ کہ انسانی نوع ہے مخلوقات کے سلسلہ کا آخری درجہ ہے۔اوراسی کے بعض افراد اپنی عبادت اوراعمال حسنہ اوردیگر اکتسابی ، سائل اور بعض اسکے علاوہ خالق کی طرف سے اعزازی رتبہ پانے کے سبب سے اپنی محدود وحادث قابلیتوں کے ساتھ ہی انجام کار خدا تعالیٰ کی غیر محدود وازلی ذات تک رسائی حاصل کرلیں گے۔ اوراس طرح سے انسانی افراد کومحدود حادث ماہیت کا انسان اورخدا تعالیٰ کوازلی وغیر محدود ذات کا خدا یعنی دونوں۔۔۔۔۔۔ ماہیتوں میں بون البعدا اورغیر مناہی وری ماننے کے باوجود انسانی افراد کا الہٰی ذات تک توصل ممکن مفروض ہوگا اور حادث ومحدود وانسان کی اپنی محدودت وحادثت قابلیتوں اور محدود وحادث ماہیت کے ساتھ غیر محدود ازلی ذات تک رسائی ہووسکےگی۔ لیکن یہ عقیدہ خلاف عقل ہے کیونکہ:

اپنی محدود وحادثت وترقی پذیر قابلیتوں کے ساتھ اور انسانی ماہیت رکھتے ہوئے انسانی افراد کی ذات الہٰی تک رسائی کا اعتبار اسی صورت میں ممکن ہوگا جبکہ ذات الہٰی کی ازلیت سے مراد انگنت واقات کی کمیت زبانی ہو۔ اوراس کی بے حدی سے مراد بے روک وسعت کی کمیت مکانی ہو۔ لیکن اس مستحیل اعتبار سے خدا تعالیٰ کے وجوب واستقلال اوراس کے محیط کل وعلیم کل اورسروپاک اورسروگیہ ہونے کے مسلمات، ریت پر لمبی عمارت کی طرح عقلی استدلال کے طوفان سے پاش پاش ہوجائیں گے۔اوراگراس کی ازلیت سے یہ مراد ہوکہ وہ زمانی اوقات کی ہراعتبار کی کمیت سے منزہ ہے اوراس کے نزدیک ایک دن اورہزار سال اور ماضی ومسقتبل برابر ہیں۔ اوراس کی بے حدی سے یہ مراد ہو ۔ کہ وہ ہر طرح مکانی کمیت کی حدود وقیود سے پاک ہے۔اوراس کے نزدیک دوری اورنزدیکی اورایک گز اورہزار میل کا ماپ مساوی ہے اوراس کی ذات ہر طرح کے ممکات اورمتکفیات سے اعلیٰ وارفع ہے۔ اوروہ مستقل بالذات اوربے تبدیل ہے۔توپھرکسی محدود وحادثت مخلوق کی اس تک رسائی کا فرض عقلی اوراعتبار سے محال اورمذہبی اعتبار سے بدترین کفر مصور ہوگا۔ کیونکہ اس اعتبار سے یہ مفروضہ لازم ہے آئے گا۔کہ انسانی ماہیت اپنی حدوحدوث کی صدوقیود کوپار کرکے ازلیت وبےحدی کی فوق القیاس رفعت تک پہنچ سکتی ہے یا سادہ الفاظ میں انسانی افراد، الوہیت کے درجہ تک پہنچ کر خدا بن سکتے ہیں پس اس سے بڑھ کر ازروئے عقل متلزم محال اوربہ اعتبار مذہب متلزم کفر مفروضہ ہونہیں سکتا۔اس وجہ سے یا تومخلوقات کے انتہائی اورآخری درجہ کے ساتھ ذات الہٰی کا اتصال قطعاً محال ٹھہرے گا اور اس فرض سے حادث ومحدود مخلوقات کا صدور بھی ذات الہٰی سے متلزم محال ہوگا۔ کیونکہ اگر مخلوقات کے کمال وانجام کی اضافت خدا تعالیٰ کے ساتھ ممتنع مفروض ہو۔ توا سکے آغاز ابتدا کی اس کے اضافت کا اعتبار بدرجہ ادنیٰ محال ٹھہرے گا تاوقتیکہ یہ نہ مان لیا جائے۔ کہ مخلوقات کے وجود کے صدور وآغاز کا باعث ممکنات(جوسبق بالعدم ہیں) کی استعداد نہیں۔ بلکہ ذات الہٰی کی حقیقتہ اضافتہ (جوحدوحدوث سے مناسبت رکھتی ہے)کے وسیلہ سے حقیقتہ محضہ کے ازلی افادہ کی حادثت تاثیر ہے اوراسی حقیقتہ اضافتہ کے واسطہ سے ازلی غیر محدود وذات الہٰی کی محدثات ومحدورات کے ساتھ اضافت ہے۔ اوراسی کے واسطہ سے ذات واجب کی علت مبعیہ کی تاثیر سے ممکنات ومحدثات کے لئے ارتقا وتاثر کا استفادہ ممکن ہے۔

الغرض مخلوقات کے کمال وانجام کی اضافت واتصال ذات الہٰی کے ساتھ عقلی اعتبار سے ضروری ثابت ہوتی ہے لیکن یہ ضرورت ممکنات کی طرف سے نہیں۔ بلکہ ذات الہٰی کی طرف سے تکمیل پاسکتی ہے۔یعنی ماہیت انسانی وماہیت واجب میں اتصال کا امکان، انسانی ماہیت کے ذات الہٰی کے ساتھ توصل کے اعتبار سے محال ہے۔ لیکن ذات الہٰی کے انسانی ماہیت کے ساتھ توصل سے نہ صرف ممکن بلکہ ضروری ٹھہرتاہے۔ یا مثالی اعتبار سے سادہ الفاظ میں یہ مطلب ہے کہ مخلوقات کے انتہا وانجام کے ذات الہٰی سے اتصال کا امکان، مخلوقات کی صعودی جزئی کے الوہیت کے ساتھ توصل کی جہت سے نہیں بلکہ ذات واجب کی حقیقتہ اضافتہ کے واسطہ سے ازلی محبت کے افادہ کے نزولی ایثار اورانسانی ماہیت کے ساتھ توصل کی جہت سے ہے۔ اور انسانی فہم کے مطابق مثالی الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ الہٰی اورانسانی ماہیتوں کی ملاقات انسانی ماہیت کے الہٰی ذات کے اختیار کرکے اس کے ساتھ اشتراک کی جہت سے تومحال اورکفر ہے۔ لیکن الہٰی ذات کے انسانی ماہیت کوبطور مظہر(حقیقی اضافی بیت اللہ) اختیارکرکے اس کے ساتھ اشتراک کی جہت سے نہ صرف ممکن ہے بلکہ ضروری ہے اور انسانیت کے الہٰی ذات کے ساتھ ملاقات اوراتصال سے مراد کسی انسانی فردکا ایمان کے وسیلہ سے حقیقی اضافی بیت اللہ (حقیقتہ اضافتہ کا ظرف ظہور) کی انسانیت میں روحانی اشتراک حاصل کرناہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ اگرذات واجب کوقادرمطلق اور سروشکیتمان ماننے کے باوجود یہ فرض کرلیا جائے کہ مخلوقات کا ارتقانوع انسان پرختم ہوگیا۔ اوریہی ۔۔۔۔۔۔کا آخری اور انتہائی مقدور ہے۔اورانسانیت والوہیت کے دریان جوغیر متناہی بعدپایا جاتاہے ۔ اس کو وہ کسی ایسی اعلیٰ ۔۔۔ سے پر نہیں کرسکتا۔جواپنی ماہیت کے اعتبار سے ۔۔۔۔۔۔ مخلوقات سے موافقت بلکہ الوہیت سے بھی موافقت ومناسبت رکھتی ہے۔ اورمخلوقات کی انتہائی اوراعلیٰ واکمل جزئی کے طورپر خالق اورمخلوقات میں درمیانی ہوسکتی ہے جس کے وسیلہ سے خداکا دنیا کےساتھ میل کرلینا ممکن ہو۔ تواس ضعیف مقدور یعنی انسان سے اعلیٰ مقدور ومخلوق کے امکان بلکہ کے باوجود قادرمطلق کی طرف سے اس کا افادہ نہ ہونا اسکی قدرت مطلقہ کے منافی ٹھہرے گا ۔

پس لامحالہ یہ ماننا پڑے گا۔ کہ خدا تعالیٰ نے انسان ہی کواعلیٰ اورآخری مخلوق نہیں بنایا ۔ بلکہ اس کے بعد حقیقتہ اضافتہ کے انسانی ماہیت کواپنا دائمی مقدس(حقیقی اضافی بیت اللہ)بنانے سے نوع انسان سے اعلیٰ اورنئی مخلوق کا وجود پذیر ہوناضرور ہے اوراس نئی مخلوق کا مثال آدم ہی اپنی ذاتی وازلی حیثیت سے ذات الہٰی کے ساتھ واحد، اوراپنے ایثار واختیار سے حادث ومحدود انسانی ماہیت کواپنا دائمی مظہر بنانے کے باعث اس سے متحد ہوکر خدا اورانسان میں درمیانی ہوسکتاہے اوراس کے وسیلہ سے ہی خدا اور دنیا میں میل ہوسکتاہے ۔ پس وہی الوہیت اورانسانیت میں واسطہ اتصال اورایشور تواورمنشتو میں سنگھم ہوسکتاہے۔