Jesus Christ the Son of God
By
Dr. M.H. Durrani
پیش لفظ
اہلِ اسلام کے نزدیک ربنا المسیح نہ صرف ابنِ مریم ہیں بلکہ روح اللہ اورکلمتہ اللہ بھی ہیں ۔ اس لئے وہ بڑے فخر سے یہ کہتے ہیں کہ اُن کے دلوں میں مسیح کلمتہ اللہ کی عزت واحترام ہرگز ہرگز مسیحیوں سے کم نہیں ۔ بایں ہمہ وہ ربنا المسیح کی ابنیت کے قطعی قائل نہیں بلکہ اُن کے نزدیک یہ کفرہے۔
اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ اُن کے نزدیک "اللہ لاشریک ہے" ۔ سورہ اخلاص میں مرقوم ہے کہ اللہ بے نیاز ہے نہ اِس سے کوئی پیدا ہوا اورنہ وہ کسی سے پیدا ہوا اورنہ کوئی اُس کے برابر کاہے" دوسری وجہ یہ ہے کہ خدا کی کوئی جورونہیں " (سورہ انعام ۱۰۱آیت، سورہ جن ۱۰۲آیت ) اب اگرربنا المسیح کوابن اللہ مان لیا جائے تویہ ماننا لازم آتاہے کہ خدا اپنی ذات میں دوسرے کوبھی شریک کرتاہے اورکہ وہ جورورکھتاہے۔ اوریہ دواُمورایسے ہیں جو مسلمانوں کے نزدیک نہ صرف کفُر ہے بلکہ محال ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے نزدیک بھی مسیح کلمتہ اللہ کی ابنیت کا یہ جسمانی تصور نہ صرف کفر ہے بلکہ محال ہے لیکن چونکہ قادرِمطلق خدا خود سیدنا مسیح کی شکل میں ظاہرہوکر انسانی سطح پر رہا۔ قادرمطلق خدا کا یہ فعل تجسم ہرگزہرگز شانِ خداوندی کے خلاف نہیں۔ اورنہ ہی اس میں مسیح کلمتہ اللہ کا کوئی جسمانی تصورپایا جاتاہے ۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم اہلِ اسلام کو سمجھائیں کہ جب ہم ربنا المسیح کوابن اللہ کہتے ہیں تواس سے ہماری کیا مراد ہے۔
انجیل مقدس کے سطحی مطالعہ سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ قادرمطلق خدا، جوہماری ساری کائنات کا خالق ومالک ہے وہ اپنی ذات میں محبت ہے، اورمحبت کا تقاضا ہے کہ وہ ظاہر ہو، لہذا وہ اپنے ظہور کو ابن کہتاہے ۔ لہذا مسیح کلمتہ اللہ کی ابنیت جسمانی نہیں ہوسکتی۔ اگرچہ آپ انسانی صورت میں ظاہرہوکر انسانی سطح پر رہے بایں ہمہ ذات وماہیت کے اعتبار سے جیسا کہ آپ نے فرمایاکہ" میں اورباپ ایک ہیں "(یوحنا ۱۰: ۲۰)۔
جلالی نام
مختصر یہ کہ انجیل مقدس میں خصوصیت سے مسیح کلمتہ اللہ کو" ابن اللہ" کہا گیاہے لیکن یہ خطاب بدیں وجہ ہمیشہ زیربحث رہا کہ" جب خدا کی جورو نہیں توپھر مسیح عیسیٰ کیسے خدا کے بیٹے ہوسکتے ہیں ؟
یہاں مناسب نہیں کہ ہم دلالت لفظی پر بحث کریں تاہم یہ کہنا غیر موزوں نہ ہوگاکہ لفظ بذاتِ خود کوئی حقیقت نہیں رکھتے، بلکہ وہ علامت ہیں جن کے ذریعے ہم کسی خاص تصور کا اظہار کرتے ہیں ، مثلاً ضرورت سے زیادہ زمانہ ساز کو" ابن الوقت" کہا جاتاہے۔ لیکن کیا ہم اس سے یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہوں گے کہ فلاں زمانہ ساز کسی " وقت "نام شخص کی صلب سے پیدا ہواہے؟ اس لئے کہ لفظ ابن الوقت ایک خاص مطلب اورایک مخصوص تصور کے اظہار کے لئے وضع کیا گیاہے جواپنے معنوں میں نازیبا اورمعیوب نہیں۔ کیونکہ جہاں کوئی لفظ معنی میں غیر امکان ہو، وہاں وہ مجاز ہوتاہے۔ پس جس طرح ابن الوقت ایک خاص تصور اورمطلب ہے۔ اُسی طرح ابن اللہ کے ایک خاص معنی ہیں جس کا مادی تصور کے ساتھ کوئی علاقہ نہیں ، بلکہ ہم اس جلالی نام سے سیدنا مسیح کی الوہیت تسلیم کرتے ہیں اورسچ تویہ ہے کہ
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے گہُر سے کہ صدف سے
کوزہ میں دریا
چنانچہ کلمتہ اللہ نے فرمایا ہے کہ" میں اورباپ ایک ہیں"۔ اور میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے" اورکہ" میں خدا سے نکلا ہوں"۔ اس تعلق کو جس کے اظہار کرنے میں قرآن قاصر تھی۔ اُسے انجیل مقدس نے ابن اللہ کے لطیف استعارہ میں سمجھ کرگویا دریا کو کوزہ میں بند کردیا۔ پس کلمتہ اللہ اُن معنوں میں خ دا کے بیٹے نہیں، جن معنوں میں اولادِ آدم ہے بلکہ ان معنوں میں ابن اللہ کہلائے کہ آپ کا ظہور خداتعالیٰ سے ہے۔ اس لئے آپ کونئے عہدنامہ میں " خدا کا جلال کا پرتو اوراُس کی ذات کا نقش " اورمثالی طورپر " اکلوتا بیٹا" کہا گیا ہے۔
خدا نور ہے
چنانچہ قرآن شریف میں خدا کے لئے آیاہے کہ " یس کمثلہ شی"اس پرسورہ ور میں خدا کو روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے۔" اللہ آسمان اورزمین کا نور ہے اوراُس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے کہ طاق ہو اورطاق میں ایک چراغ رکھاہے اورچراغ ایک شیشے کی قندیل ہے اورقندیل اس قدر شفاف ہے کہ گویا موتی کی طرح چمکتا ہوا ایک ستارہ ہے اورچراغ زیتون کے ایک مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتاہے کہ جونہ پورب کے رُخ واقع ہے اورنہ پچھم کے رُخ ۔ اس کا تیل اس قدر صاف ہے کہ اگراس کو آگ نہ چھوئے تاہم معلوم ہوتاہے کہ آپ سے آپ جل اٹھے گا غرض کہ نور پُرنور ہے اوراللہ نے اپنے نُور کی طرف جسکو چاہتاہے راہ دکھاتاہے اوراللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتاہے"۔
یہ ہے قرآن کی پوری عبارت ۔مگرآج تک کسی مسلمان نے اس سے یہ نہیں سمجھاکہ خدا واقعی ایک روشنی ہے جوقندیل کی طرح کسی طاق میں رکھی ہے اورروغن زیتون سے جل رہی ہے ۔ مگرحیرت ہے کہ جب کبھی کسی مسیحی کی زبان سے " خدا کا بیٹا" سن لیتے ہیں تواُن کا ذہن ولدیت کی طرف دوڑجاتاہے ۔ لیکن قرآن شریف نے جب اپنے واسطے لفظ" اُم الکتاب" تجویز فرمایا(آل عمران ۵) اورمکہ کے شہر کو" اُم القریٰ" کہا تواس سے کوئی جنسی پہول مراد ہے؟ ہم کہتے ہیں قطعی نہیں۔ کیونکہ جب کسی انسانی محاورہ کا اطلاق خدا تعالیٰ پر کیا جاتاہے توتمثیلاًیااستعاراً ہوتاہے۔ہماری زبان میں ایسے الفاظ کا مفہوم جوہمارے لئے ہوتا۔ وہی مفہوم ذاتِ باری کے لئے سمجھنا سخت نادانی ہے۔ اس لئے کہ مادی اوردینوی خیال کا اطلاق آسمانی اور روحانی تعلقات پر عائد نہیں ہوسکتا۔ پس لازم ہے کہ مسیح ابن اللہ کے الہٰی تصور کے لئے " عالم بالا کی چیزوں کے خیال میں مگن رہو نہ کہ زمینی"۔
اُمہات المومنین
مثال کے طورپرہم مسلمانوں کو یاددلاتے ہیں کہ قرآن شریف میں آنحضرت کی ازدواج مطہرات کو اُمہات المومنین کہا گیا ہے (سورہ افراب غ) لیکن کیاہم اس وجہ سے اُنہیں مسلمانوں کی مائیں سمجھ لیں کہ وہ نبی کی بیویوں کے بطن سے پیدا ہوئے ہں ؟حالانکہ خود قرآن شریف نے اس خیال کی تردید بدین الفاظ کردی ہے ک مائیں تووہی ہیں جنہوں نے اُن کو جنا"(سورہ مجادلہ) پھر نبی کی بیویاں کیونکر مسلمانوں کی مائیں ٹھہرائی گئیں ؟ کیا یہ عقیدہ لاینخل نہیں؟ ہاں ضرور ہے بشرطیکہ اس کے نورانی پہلو کونظر انداز نہ کیا جائے۔ کیا حضرت منصور نے " انا اُلحق"یاحضرت یزید بطامی نے" من خدایم من خدا اورحضرت محی الدین العربی نے " لا الہ الاانا" کہہ کر کسی مادی تعلق کا مظاہرہ کیاتھا؟
سمیع وبصیر
اس ضمن میں ہمیں ایک اورمثال کا ذکر کرناہے اوروہ یہ ہے کہ قرآن شریف میں خدا کو"سمیع وبصیر" کہا گیا ہے لیکن ہم خدا کو انسان کی طرح صاحبِ جسم اس وجہ سے تسلیم کرلیں کہ ذاتِ خداوندی سے "سننے" اور"دیکھنے" کی صفات منسوب کی گئی ہیں۔ نہیں قطعاً نہیں ۔ اس لئے کہ ہم خدا تعالیٰ کے قول وفعل سے ہوتی ہے اورجو الفاظ قرآن میں خدا سے منسوب کئے گئے ہیں ، وہ مثالی ہیں۔ گوخدا تعالیٰ صاحبِ اعضا نہیں تا ہم اس میں اتنی قدرت ہے کہ وہ بغیر آنکھ کے دیکھ سکتاہے اوربغیر کان کے سن سکتاہے۔ اسی طرح خدا بغیر جورو کے بیٹا رکھتاہے جو"نہ جسم کی خواہش سے نہ خون سے پیدا ہوا بلکہ وہ " خدا سے نکلا ہے"۔
الہٰی عطیہ
کلامِ مقدس میں بطورپیش گوئی اس معرفت کا یوں بیان آیاہے کہ ہم کوایک بیٹا بخشا گیا اورسلطنت اس کے کاندھے پر ہوگی اوروہ اس نام سے کہلاتاہے " عجیب، مشیر ،خدائے قادر اورابدیت کا باپ اورسلامتی کا شہزادہ"(یسعیاہ ۹: ۶)۔ یہاں لفظ "بخشا" آیا ہے، جس سے ظاہر ہوتاہے کہ"بیٹا " مخلوق نہیں بلکہ الہٰی عطیہ ہے۔ البتہ اس کی بشریت مخلوق تھی۔
اورابن اللہ نے بشریت کے جامہ کو معجزانہ طورپر پہنا لہذا ابن اللہ کی بشریت ظرف کے طورپر ہے لیکن وہ اس کا مظروف ہے پس انسانیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الوہیت کے لحاظ سے وہ " ابن اللہ " ہے۔ اسی وجہ سے آپ نے فرمایا" میں خدامیں سے نکلا اورآیاہوں" (یوحنا ۸: ۴۳) پیشتر اس سے کہ ابراہام پیدا ہوا" میں ہوں"(یوحنا ۸: ۵۵)۔
اس نکتہ کو مقدس رسول یوں پیش کرتاہے کہ" ابن اللہ "اگرچہ خدا کی صورت پر تھا۔ " لیکن انسانی شکل میں ظاہر ہوکر اپنے آپ کو پست کردیا اوریہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔ گویاکہ شہنشاہ ہوکر بے نواؤں کا یارومددگاربنا۔ مالک ہوتے ہوئے خادم کی صورت اختیار کی تاکہ ہمیں مالا مال کرے۔ اگرچہ وہ ابن اللہ تھا مگرابن مریم بن گیا تاکہ ہمیں بھی خدا کے فرزند بننے کا استحقاق بخشے۔ پس کلمتہ اللہ انسان ہونے کی وجہ سے ابن اللہ نہیں بلکہ ابن اللہ ہونے کی وجہ سے انسان اورآسمان کی بادشاہی کا سلطان ہے۔
بیٹے سے مراد
لہذا کلامِ مقدس میں لفظ" باپ" اوربیٹے کا استعمال بطور شرع ہے۔ باپ سے مراد کسی کا شوہر نہیں اورنہ ہی بیٹے سے مراد جُورو کے بطن سے پیدا ہونے والا ہے۔ بلکہ یہ الفاظ درحقیقت خداتعالیٰ اورمسیح کلمتہ اللہ کا باہمی تعلق ظاہر کرتے ہیں۔اب اگر ان الفاظ کے معنی وہی لئے جائیں جس مقصد کے لئے یہ وضع کئے گئے ہیں تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ خدا دائرہ الفاظ کی مقید بہ الفاظ ہے۔ جوقطعاً درست نہیں۔ ورنہ خدا تعالیٰ کو سمیع وبصیر کہنے سے اس کے کان اورآنکھ اور"وجہ اللہ" سے اُس کے دانت ، زبان چہرہ اور" ید اللہ" کہنے سے ہتھیلی اور انگلیاں وغیرہ کا وجود لازم آئے گا۔ لیکن جیسے کہ اُس کے منہ ، ہاتھ، کان، آنکھ وغیرہ سے ہمارے جیسے اعضا مراد نہیں بلکہ اُن کا مفہوم وہی ہے جو اس کی الوہیت کی شان کے نمایاں ہے۔
یہاں یہ جتلادینا ضروری ہے کہ بلاشبہ خدا تعالیٰ کا نہ توکوئی شریک ہے اورنہ ہی کوئی مثل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بیانِ الہٰی کے ضمن میں کوئی مثال تک پیش نہیں کرسکتا۔ خدا کے لئے مثلِ معن ہے لیکن مثال جائز ہے۔ چنانچہ ہم سطور بالا میں قرآن شریف کے حوالے سے یہ بیان کرچکے ہیں کہ خدا کو "نور" کہا گیا ہے اور" نور کو" طاق چراغ سے تشبیہ دی گئی ہے اوراسی طرح خدا کوحاکم، مالک اوربادشاہ کہا جاتاہے حالانکہ انہیں القاب سے انسان کو بھی ملقب کیا جاتاہے لیکن اگرمجازی طورپر بھی ان الفاظ کا استعمال شرعاً جائز ہوتا توخدا تعالیٰ ایسی اصطلاح سے اپنے کلام کو مبرا رکھتا۔ جس سے ایسے الفاظ کے استعمال کا جواز نہ لیا جاسکتا۔
ان مثالوں کوآپ کے سامنے پیش کرنے سے صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ خدائے قادرمطلق چونکہ روح ہے۔ یعنی انسان کی طرح صاحبِ جسم نہیں اور نہ ہی انسان کے سے خیالات ،خواہشات اورجذبات رکھتاہے ۔ اس لئے کلمتہ اللہ کی ابنیت جسمانی نہیں ہوسکتی۔ لہذا یہ مرقوم ہے کہ" جوجسم سے پیدا ہوا جسم ہے اورجوروح سے پیدا ہواہے روح ہے"(یوحنا ۳: ۶)۔ چونکہ کلمتہ اللہ خدا سے نکلے ہیں اس لئے وہ بحثیت ذات، خدا سے خدا ہے اور بحثیت انسان کامل انسان ہے۔
ازلی بیٹا
کلامِ مقدس میں کہیں ایسا اشارہ نہیں پایا جاتاکہ سیدنا مسیح کلمتہ اللہ خدا کا جسمانی بیٹا اورنہ یہ کہ جب خدا نہ تھا۔ جس طرح خداباپ، کا شروع نہیں، اسی طرح" ابن اللہ" کا شروع نہیں۔ اگرچہ ہمارے جسمانی رشتہ میں ایک زمانہ پایا جاتاہے ۔ یعنی قدامت میں پہلے باپ ہے اوربعدمیں بیٹا۔ نیز مرتبہ میں باپ اعلیٰ متصور کیا جاتاہے اوربیٹا ادنیٰ، لیکن کلمتہ اللہ کی ابنیت اوراولادِ آدم کی ابنیت میں یہی ایک فرق ہے کہ وہ یعنی کلمہ ازلی قائم بالذات اللہ اورکہ دنیا کی پیدائش کا وسیلہ ہے" ابتدا میں کلمہ تھا اورکلمہ خدا کے ساتھ کلمہ خدا تھا"(یوحنا ۱: ۱)اورکہ"ساری چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اورجوکچھ پیدا ہوا اُن میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی (یوحنا ۱: ۳)۔ غرضیکہ ازلی خدا کا کلمہ زماں ہے اورجوشے محیط زماں ہو اُس پر تقدم وتاخر کا اطلاق عائد نہیں ہوسکتا ۔لیکن باپ اور بیٹا ہم ذات اورہم جوہر ہیں اس لئے باپ اوربیٹے کی ماہیت وقدامت میں غیریت کا عقلاً محال ہے۔ لہذا لفظ باپ اوربیٹے میں مغائرت لفظی ہے نہ کہ ماہیت کے ۔
پدرنوروپسر نورایست مشہور< br /> ازیں جافہم کن نورعلی نور
مزید برآں
واضح رہے کہ ازروئے قرآن شریف " سیدنا عیسیٰ مسیح ابن اللہ" (مرقس ۱: ۱) کی ابنیت کے تصور کے لئےجسمانی باپ کے وجود کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ جب جبرائیل نے مریم صدیقہ کے پاس آکر یہ خوشخبری سنائی کہ کلمتہ اللہ آپ کے بطن سے پیدا ہوں گے توصدیقہ نے کہا کہ " اے میرے رب ، میرے لڑکا کیونکر ہوگا"۔ حالانکہ مجھے کسی بشر نے نہیں چھوا۔ فرمایا یہ کام مجھ پر آسان ہے ۔ اس طرح اللہ جو چاہے پیدا کرسکتاہے۔ وہ جب کام کوٹھہراتا ہے توصرف اتنا کہہ دیتاہے کہ" ہوجا سوہوجاتا ہے"(مریم ع۲ آل عمران ع ۵)یہاں قرآن شریف نے نہایت واضح طورپر بتلایا ہے کہ سیدنا مسیح کلمتہ اللہ کی ولادت کے لئے باپ کا وجود لازم نہیں ہے اورانجیلی عقیدہ تویہ مانتا ہی نہیں کہ جسمانی معنوں میں کسی کاباپ ہے۔
اس سلسلہ میں کہ" باپ" ،"بیٹا" اور"ماں" کے تصور ظاہر کرنے کے لئے جسمانی تعلق لازم ہے یا نہیں۔ ذیل کے اقتباس سےملاحظہ فرمائیے۔
چنانچہ قرآن شریف کہتاہے" اللہ نے تمہاری بیویوں کو جن کو تم ماں کہہ بیٹھے ہو،تمہاری سچی ماں نہیں بنایا۔ اورنہ تمہارے لےپالک بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا ٹھہرایا ہے۔ یہ توتمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں ، اوراللہ سچ فرماتاہے۔۔۔۔نبی کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں(سورہ احزاب ع)۔ان آیات کی رو سے اسلام میں (صلبی) بیٹے کی بیوی حرام ہے (۲)لیکن لے پالک کی بیوی حرام نہیں۔ (۳) بلکہ لےپالک توکسی کاوارث نہیں۔ (۴)نبی کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں")۔
اسی طرح سے قرآن میں حضرت رسول عربی کے چچا کو جس کااصلی نام عبدالعزیٰ تھا۔ ابولہب یعنی شعلے کا باپ کہا گیا ہے ۔ کیا شعلہ کی کوئی بیوی یا بیٹا ہوتاہے؟"۔
" قرآن میں آٹھ مقامات میں راستہ کے مسافر کیلئے لفظ " ابن السبیل" یعنی سڑک کا بیٹا وارد ہواہے(بقر ۷۲)۔ اب ناظرین انصاف فرمائیں کہ کیا کوئی مسافر لفظی معنوں میں سڑک کا بیٹا ہوسکتاہے؟ اورکیا سڑک کی کوئی جوُرو بھی ہوتی ہے؟"۔
"اسی طرح قرآن نے اپنے واسطے" اُم الکتاب" تجویز کیا ہے۔ (آل عمران ۵۔انعام ۹۲) اورکہ مکہ کے شہر کو " ام القریٰ" کہاہے۔اب ناظرین ہی انصاف فرمائیں کہ کیا یہاں بھی کوئی جنسی پہلو مراد ہوسکتاہے؟"۔
"دنیابھر کے مسلمان حضرت رسول عربی کے مشہور صحابی ابوہریرہ کے نام سے بخوبی واقف ہیں ،کیونکہ اُن سے اتنی حدیثیں مروی ہیں کہ کسی دوسرے شخص نے اس کثرت سے روایات بیان نہیں کیں۔ چونکہ آپ بلی سے محبت رکھتے تھے ۔ آپ کا نام ابوہریرہ پڑگیا اورایسا مشہور ہوگیا کہ عوام الناس آپ کا اصلی نام بھی نہیں جانتے۔ کیا آپ بلی کے حقیقی باپ کسی طرح سے بھی ہوسکتے تھے؟اورکیا بلی کی ماں آپ کی بیوی ہوسکتی تھی؟۔
سچ تویہ ہے کہ اربابِ دانش ایسی مضحکہ خیزدلائل سے اپنی روزانہ زندگی میں قائل نہیں ہوسکتے۔ ہرفرقہ کے بزرگ روزانہ بات چیت میں بیسوں کوپیار کی رُو سے بیٹا کہتے ہیں اوراس لفظ سے اُن کی مراد ہرگز یہ نہیں ہوتی کہ وہ سب کے سب اُن کے صلبی بیٹے اورشرعاً اُن کی جائیداد کے وارث ہیں۔پھر معلوم نہیں کہ معترض انجیل جلیل کی تعلیم پر اعتراض کرتے وقت معمولی عقل کو بھی استعمال نہیں کرتے "(ابوت کا الہٰی مفہوم تصنیف پادری برکت اللہ صفحہ ۱۹، ۲۰)۔
خصوصی امتیاز:
مختصر یہ کہ جو ابنیت کا رشتہ کلمتہ اللہ کی ذات سے تعلق رکھتاہے ، وہ بے مثل ہے جوکسی مخلوق کو نصیب نہیں ہوسکتا۔ کو مجازی حیثیت سے بندگانِ خدا کوبھی" اطفال اللہ کہا گیا ہے۔ لیکن ان کی یا تو محض مخلوق ہونے کی وجہ سے یا کلمتہ اللہ کے وسیلے سے روحانی پیدائش حاصل کرنیکے سبب سے " اطفا اللہ" کہا گیا ہے۔ لیکن چونکہ مجاز کسی حقیقت سے متعلق ہوتی ہے۔ اس لئے کلمتہ اللہ جواس اعجاز کی حقیقت اورسبب ہے۔ اس لئے وہی " حقیقی بیٹا" ہے۔
انجیل مقدس سے یہ امر بصراحت واضح ہے کہ جب کبھی کلمتہ اللہ نے اپنے صحابیوں سے خدا کے "باپ" ہونے کا ذکر کیا توعموماً پیرایہ میں کیا جس سے یہ عیاں ہوجائے کہ خدا تعالیٰ اُن کا باپ اُسی معنوں میں نہیں جس مفہوم میں آپ کا ہے۔ الغرض کلامِ مقدس میں کلمتہ اللہ کے سوا کسی انسان کے متعلق یہ مذکور نہیں کہ وہ خدا سے نکلا، یا یہ کہ پیدائش عالم کا سبب ہے"۔ اورنہ کسی انسان کو" عین اکلوتا بیٹا" کہا گیاہے۔ لفظ اکلوتا اس امر پر دلالت صریح ہے کہ اس معنی میں کوئی اورخدا کا بیٹا نہیں ۔ کیونکہ وہ " اکلوتا بیٹا ہے"۔
پس سیدنا مسیح کلمتہ اللہ کی ابنیت ایک لاثانی حقیقت رکھتی ہے۔ اول۔ تقدس کے لحاظ سے ۔ دوم لاثانی اختیار کے اعتبار سے ۔ سوم۔ اعجازی ظہور کی بنا پر ۔ چہارم۔ آپ خود متصف بصفات ذاتِ باری تعالیٰ ہیں۔ چنانچہ انجیل شریف کے مطالعہ سے یہ امر بدیہی ہے کہ کلمتہ اللہ نے اپنے لئے " ابن" کا خطاب ایس طورپر استعمال نہیں فرمایا کہ جس سے یہ شبہ پیدا ہوسکے کہ یہ رشتہ خدا کے ساتھ محض جسمانی یا محض روحانی تعلقات کوظاہرکرتاہے۔ جو دُوسرے انسان بھی حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اس رشتہ میں باپ اوربیٹے کی ازلی وذاتی ماہیت ظاہر ہوتی ہے۔
انجیل مقدس میں یہ امتیاز یوں ہے کہ سیدنا مسیح چونکہ خداوند تعالیٰ سے ازلی وذاتی اتحادرکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے آپ " کلمہ خدا " ہیں۔ (یوحنا ۱: ۱)۔ کائنات کی پیدائش کا وسیلہ ہیں "۔ (یوحنا ۱: ۳)۔ اوراکلوتا بیٹا "ہیں(یوحنا ۶: ۱۶)۔ اس حیثیت سے آپ حقیقی خدا ہیں۔ اورکلام مجسم ہونے کی حیثیت میں آپ چونکہ انسانیت کے ساتھ حادث اوراختیاری اتحاد رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے آپ حقیقی انسان ہیں لہذا سیدنا مسیح کو جیسے ابن اللہ کہہ سکتے ہیں۔ ویسے ہی ابن آدم یا ابن مریم کہہ سکتے ہیں۔اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے انسان روح اورجسم دوجداگانہ ماہیتوں کے باوجود ذی روح اورذی جسم ہے۔ اسی مثال کے مطابق سیدنا مسیح بھی محض انسان ہونے کے بجائے صاحبِ الوہیت اورصاحبِ انسانیت ہیں۔ مگریہ اتحاد بطورترکیب وتحلیل نہیں بلکہ بطورظاہر ومظہرا قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے آپ الوہیت ازلی وابدی ہے اورآپ کی انسانیت محدود اورحادث ہے پس نتیجہ صاف ہے کہ سیدنا مسیح کی حیثیت اول ابن اللہ کی ہے اورحیثیتِ دوم ابن آدم کی ہے۔
ثالوثِ اقدس
چنانچہ کلامِ مقدس سے یہ معرفت حاصل ہوتی ہے کہ ذات الوہیم میں اب ، ابن اورروح میں اقنوم ہیں(متی ۲۸: ۲۹)۔ اوران اقانیم کا امتیاز، ذات الوہیم ہی میں بطور راز کے ہے۔ ذاتِ خداوند ی میں ان اقانیم کا اجماع ، خارجی نہیں اورنہ ہی کسی بیرونی تفریق کو اس میں راہ ہے۔ بلکہ یہ ازل سے ذاتِ خداوندی میں ہیں۔ جیسے سورج میں ذاتی اوراندرونی طور سے روشنی ،گرمی پائی جاتی ہے۔ ویسے ہی ذات الوہیم میں تین اقانیم ہیں۔ اقنوم اول میں باپ ہے کہ اقنوم ثانی یعنی کلمہ اس سے صادر اورظاہر ہوا ہے(یوحنا ۱: ۱۸)۔جو"پہلوٹا ہے،" اکلوتا بیٹا"(یوحنا ۱: ۵)۔ کہلاتاہے۔ اوراقنوم ثالث باپ اوربیٹے کا روح ۔۔۔رومیوں ۸: ۹)۔ اورجس طرح کلامِ مقدس میں باپ کو خدا اورخدا وند کہا گیا ہے اسی طرح کلمہ یا بیٹا کو(یوحنا ۱: ۱، رومیوں ۱: ۵ اورعبرانیوں ۱: ۸) اورروح القدس کو ۔۔۔۲کرنتھیوں ۳: ۱۷ تا ۱۸)۔ خدا اورخداوند کہا گیا ہے"( بخیال از اثبات التثلیث فی التوحید")۔
خدا کا یہ تصور محض تصور ہی نہیں بلکہ ایسا تصور ہے جوایک صریح حقیقت کا بیان کرتاہے۔ اوریہ انکشاف خدا کی ذات کاہے۔ جس میں اقنوم ثلاثہ کاکامل اتحاد ہے۔ وہ ایسے حاکمِ مطلق کی طرح نہیں ہے جسے اپنے اکیلا پن ہی میں اپنی شوکت نظر ہو۔ خدا محبت ہے اورمحبت کا خاصہ ہے کہ وہ رفاقت رکھتے۔ اس لئے اُس وحدت میں تثلیث کی معموری پائی جاتی ہے۔اوریہی محبت اس امر کی محرک تھی کہ وہ انسان کو جسے اُس نے اپنی صورت پر خلق کیا اپنی رفاقت میں رکھے اوراسی باعث کلمہ مجسم ہوا تاکہ انسان اپنے خالق کو جانے، اُسے پہچانے اوراس کی رفاقت میں رہنے کے قابل ہو ، واضح رہے کہ الہٰی محبت کے اس فعل کا محرک صر ف کلمہ ہی اکیلا نہ تھا بلکہ اس میں ثالوثِ مقدس کے تینوں اقنوم شامل تھے۔
خدائے برحق
انجیل مقدس سے یہ ثابت ہے کہ سیدنا مسیح کے صحابی آپ کو انسانی صورت خدائے برحق مانتے تھے۔اسی وجہ سے وہ آپ کی پرستش کرتے تھے(لوقا ۲۴: ۵۲، متی ۲۸: ۱۷)۔ حالانکہ وہ خدائے واحد کے ماننے والوں میں سے تھے لیکن چونکہ اُنہوں نے سیدنا مسیح ابن خدا " کی رفاقت میں رہ کریہ تجربہ کیاکہ آپ خدا تعالیٰ سے لاثانی اوربے عدیل تعلق رکھتے ہیں(مرقس ۱: ۱۱، ۹: ۱۷)۔ اورآپ ان معنوں میں خدا کے بیٹے نہیں جس مفہوم میں دیگرانسان خدا کے بیٹے کہلاتے ہیں۔ (متی ۱: ۲۷)۔ اوراسی وجہ سے آسمانی باپ نے سب چیزیں اُس کے ہاتھ میں دے دی ہیں" (یوحنا ۳: ۳۵)۔ اورکہ" جس طرح باپ مردوں کو اٹھاتا اورزندہ کرتاہے "(یوحنا ۵: ۲۱)حتیٰ کہ آپ کی زندگی کا مقصدوہی ہے جوباپ کا ہے (یوحنا ۵: ۱۷)اس لئے آپ کی زندگی کا ہر واقعہ ، اورآپ کا ہرمعجزہ آسمانی باپ کی محبت کا کامل مظہر ہے(یوحنا ۱۰: ۲۲۔ ۳۹)۔ ان وجوہات پر اُنہوں نے ماناکہ" سیدنا مسیح ابن خدا ہی "الفا اوراُومیگا،اول اورآخر ، ابتدا اورانتہا ہے(مکاشفہ ۱: ۱۸۔ ۲۲: ۲۳)۔
پس ذاتِ الوہیم میں تین اقانیم کا انکشاف کسی فلسفی نظریہ پر مبنی نہیں بلکہ سیدنا مسیح کے اقوال ومبارک زندگی سے ظاہر وثابت ہے کہ ذاتِ الوہیم محبت کے تین اقانیم پر مبنی ہے۔ جس کا ظہور ہم پر باپ بیٹے اورروح القدس کے رُوپ میں ہواہے۔ اوریہ الفاظ اس لئے استعمال کئے گئے ہیں کہ کوئی اورایسا لفظ ہماری لغت میں نہیں جس سے ہم ایسے مانوس ہوں اورجوباپ اوربیٹے کے شخصی تعلق اورمحبت کوکماحقہ ظاہر کرسکے۔
لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ ہم تین خداؤں کومانتے ہیں بلکہ یہ کہ واحد خدا کی ذات میں وحدت اورکثرت دونوں کو مانتے ہیں۔ یعنی اس کی واحد ذات میں ایک باپ ہے جوبھیجنے والا ہے اورایک بیٹا ہے جواس واحد ذات کوظاہر کرنے کےلئے بھیجا گیا ہے اورایک روح القدس ہے جواس سے صادر ہے۔ لہذا وہی خدا جس کی خبرہم نے نبیوں کی معرفت، عہدقدیم میں سنی تھی ۔ عہدجدید میں باپ اوربیٹے اورروح القدس کے رُوپ میں نظر آتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ اگرہم کسی پہاڑ کو دُور سے دیکھیں تواُس کی سطح ہمیں بڑی دلکش اورہموارنظر آتی ہے۔ لیکن جونہی ہم اُس کے قریب جائیں گے تووہ سطح جوُدور سے ہموار اور دلکش نظر آتی ہے تھی۔ اونچی نیچی ٹوٹی پھوٹی اورپیچ درپیچ بل کھاتی ہوئی نظر آئے گی۔ اسی طرح جس قدر ہم خدا کے قریب ہوتے ہیں اُسی قدر خداوند تعالیٰ کی واحد ذات میں جوامتیاز ہیں وہ ہم کو اورزیادہ واضح نظر آتے ہیں۔
چنانچہ جب ذاتِ باری مسیح کے وسیلے ہماری سطح پر آگیا توشاگردوں پر یہ رازکھلا کہ سیدنا مسیح انسانیت کے پردے میں آسمانی باپ کا اکلوتا بیٹا ہے اوروہ اس لئے ہماری سطح پر آیا ہے کہ ہم پر ذاتِ الہٰی ظاہر کرے اوریو ں اُنہیں ذاتِ الہٰی میں کثرت کا تجربہ ہوا۔ کیونکہ اول وہ بیٹے کی رفاقت میں رہتے تھے اوردوم روح القدس سے اُن کو یہ معرفت حاصل ہوئی ۔ اسی باعث یوحنارسول کہتاہے کہ
اس زندگی کے کلام کی بابت جوابتدا سے تھا اورجسے ہم نے سنا اوراپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اوراپنے ہاتھوں سے چھوا۔ یہ زندگی ظاہر ہوئی اورہم نے اسے دیکھا اور اس کی شہادت دیتے ہیں اوراسی ہمیشہ کی زندگی کی تمہیں خبردیتے ہیں جو پروردگار کے ساتھ تھی اورہم پر ظاہرہوئی )۔ جوکچھ ہم نے دیکھا اورسناہے تمہیں بھی اس کی خبر دیتے ہیں تاکہ تم بھی ہمارے شریک ہو اورہماری شراکت پروردگار کےساتھ اوراس کے ابن سیدنا عیسیٰ مسیح کے ساتھ ہے۔ اوریہ باتیں ہم اس لئے لکھتے ہیں کہ ہماری خوشی پوری ہوجائے۔(۱۔یوحنا ۱: ۱تا ۴)۔
ہمارا دعویٰ صرف یہ ہے کہ کلمتہ اللہ کے لئے لفظ" ابن اللہ کا استعمال نہایت ہی زبیا ہے۔اوّل اس لئے کہ وہی اکیلا خدا کا ظاہر کرنے والا ہے۔ ورنہ اندیکھی ذات کا عرفان بغیر کسی مظہر کے کیونکر ممکن ہے" اکلوتا بیٹا جوباپ کی گود میں ہے اُسی نے ظاہر کیا "(یوحنا ۱: ۱۸)۔ ثانیاً اس لئے کہ اندیکھی ہستی کو نہ کوئی جان سکتاہے اورنہ ہی بتلاسکتاہے کہ خدا کیسا ہے"؟ جس نےمجھے دیکھا اُس نے باپ کودیکھا"(یوحنا ۴: ۱۰)۔ پس وہ لوگ جولفظ" ابن اللہ" کے استعمال پر اعتراض کرتے ہیں، چاہیے کہ وہ پہلے یہ ثابت کریں کہ جس تصور کے اظہار کے لئے یہ لفظ" کتاب اللہ میں استعمال ہواہے وہ زیبا ومعیوب ہے؟
عقدہ لایخل:
الغرض لفظ" ابن اللہ" سے ہماری مراد یہ قطعاً نہیں کہ کلمتہ اللہ خدا کا جسمانی بیٹاہے، البتہ قرآن شریف کلمتہ اللہ کو معنی میں آدمی اپنے بیٹے کو" جان پدر " کہتاہے ، لہذا ہم اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں قرآن شریف کی صرف دوآیتیں نقل کردیتے ہیں۔ اور اُمید کرتےکہ اس بحث میں ہمارے اوراہل اسلام کے درمیان بہت کچھ فیصلہ ہوجائیگا۔
پہلی آیت یہ ہے کہ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ یعنی تحقیق مسیح عیسیٰ ابن مریم اللہ کا رسول ہے اوراللہ کا کلمہ ہے جوڈالدیا مریم کی طرف اوراللہ کی روح ہے"(نساء آیت ۱۷۱)۔ دوسری بھی ملاحظہ فرمائیے وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَ ۔ یعنی مریم عمران کی بیٹی جس نے محافظت کی اپنی شرمگاہ کی۔ پس پھونکا ہم نے بیچ اُس کے روح اپنی کو'(سورہ التحریم آیت ۱۲)۔
پہلی آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ خدا نے " اپنا کلمہ مریم میں ڈالا" اوردوسری آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ " خدا نے اپنا روح مریم میں پھونکا"۔ اب" ڈالنا" اور"پھونکنا" ۔ خدا کے نزدیک ایک ہی بات ہے ۔ لہذا ہردوآیات میں خدا " فاعل" ہے۔ ڈالا اورپھونکا " فعل" ۔مریم" ظرف" اورکلمہ وروح مظروف ۔ پس اگراہلِ اسلام کوکوئی امرمانع نہ ہو تووہ ہمیں کشادہ دلی سے بتائیں کہ اس سے بڑھ کر میاں بیوی میں گہرا تعلق اورکیا ہوتاہے؟
مزید براں
یہ عقدہ اوربھی لایخل بن جاتاہے جبکہ اہل اسلام کے بعض فرقے خدا کی جسمیت کے قائل ہیں۔ چنانچہ علامہ شہرستانی لکھتے ہیں کہ ومثل مفرو کمش واحد ہجمی وغیرھم من اہل السنتہ قالو امعبودھم صورتہ ذات اعضا الیاس۔۔۔۔۔۔ الخ یعنی مضروکمش واحمد ہجمی وغیرہ اہل سنت سے تھے جواس بات کے قائل ہیں کہ اللہ صورت رکھتاہے۔ اُس کے عضا بھی ہیں اورجزوبھی خواہ وہ روحانی ہوں یا جسمانی۔ وہ انتقال بھی کرسکتا ہے وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ چلائے ، وہ بلندی پر چڑھ سکتاہے اورنیچے بھی اُترسکتاہے ۔ اس کے بعد علامہ مذکور لکھتے ہیں کہ قرآن یا حدیث میں اس قسم کے لفظ وارد ہوئے ہیں وہ سب کے لفظی معنی مُراد لیتے ہیں۔ کتاب ملل )۔
مضر اورکمش کوئی معمولی شخص نہیں تھے بلکہ امام بخاری اورامام مسلم کے اساتذہ تھے۔ وہ مذہبی " میزاں الاعذال میں لکھتے ہیں کہ کمش ثقہ ہیں، صالح ہیں اورہرروز شب میں ایک ہزار سے زیادہ نماز پڑھا کرتے تھے۔ امام ذہبی خود جسمیتِ خدا کے قائل تھے۔ چنانچہ لکھاہے " ومکنہ غلب علیہ مذہب الاثبات ومنافرہ التاویل والغفتہ من التزیہ حتیٰ اشرذالگ فی طبوہ انعراف شدید من اہل التنزیہ ومہم توبالی اہل الاثبات یعنی ذہبی پر مذہب اثبات غالب ہے اور تاویل سے نفرت اور تنزیہ سے غفلت جس نے اُن کی طبعیت میں ایسا اثر کیاکہ وہ اہل تنزيہ (جواللہ کی جسمیت وغیرہ سے منزہ جانتے تھے) سے منحرف تھے اور اُن لوگوں کی طرف زیادہ مائل تھے جوجسمیت کوخدا کے لئے ثابت کرتے ہیں "(ملاحظہ ہو ابوِت الہٰی کا مفہوم صفحہ ۶تا ۹)۔
چنانچہ دورِ حاضرہ کے قادیانی مسیح جنابِ مرزا غلام احمد صاحب آنجہانی کے نقطہ نظر سے خدا تعالیٰ رجولیت کی قوت کا اظہار بھی کرتاہے ۔ چنانچہ مرزا صاحب کے ایک مرید خاص قاضی یارمحمد صاحب بی ۔ اے ۔ او۔ ایل پلیڈر اپنے ٹریکٹ نمبر ۳۴۔ موسوم بہ اسلامی قربانی مطبوعہ ریاض ہند ۔ پریس۔ امرتسر میں لکھتے ہیں کہ:
"جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے ایک موقعہ پر اپنی حالت یہ فرمائی ہے کہ کشف کی حالت آپر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اوراللہ تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا۔ سمجھنے والے کے واسطے اشارہ کافی ہے۔ (استغفر اللہ ) توضحیح المرام صفحہ ۲۷)۔
سوال
لیکن امام رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ وہ پیدا کیا گیا اللہ کے کلمہ سے اوراُس کے حکم سے بغیر کسی وسیلہ یا نطفہ سے " (جلد سوم صفحہ ۵۰۲)۔ اوربیضاوی میں ہے کہ کلمہ القہا یعنی اسمیں (مریم) واصل کیا گیا۔ اوراس میں ڈالا گیا۔ نہ کسی وسیلہ سے جس کے ذریعے تخم قرار پکڑتا ہے اورنہ اس مادہ سے"(جلد اول صفحہ ۲۱۹)۔
اب یہ امرتصدیق کا محتاج نہیں کہ جوچیز آدمی ڈالتاہے اُسے"نطفہ" کہتے ہیں اور جو خدا نے ڈالا اس کا نام" کلمہ" اور" روح" ہے۔ یہ صرف نام کافرق ہے۔ نتیجہ ایک ہی ہے یعنی بچہ پیدا ہوا۔امام بیضاوی کا یہ فرمانا کہ نہ " کسی وسیلہ سے جس کے ذریعے تخم قرار پکڑتاہے اورنہ مادہ سے" لیکن بندہ نواز! تخم موجود ہے یعنی " کلمہ " اور" روح" مادہ بھی موجود ہے۔ یعنی " مریم" ۔لہذا تخم نے پکڑا اورلڑکا پیدا ہوا۔ اب کون سے ذریعہ اوروسیلہ کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ اوراگر نہ کوئی ذریعہ ہے نہ وسیلہ نہ تخم اورنہ مادہ توپھر بچہ کیسے پیدا ہو؟ کیا یہ عقدہ لایخل نہیں؟
انجیل مقدس ہمیں بتاتی ہے کہ کلمتہ اللہ اقنوم ثانی ہونے کی وجہ سے ابن اللہ ہے۔ کیونکہ وہ خدا کوظاہر کرنے والا ہے اورمجسم ہونے کے لحاظ سے ابن مریم سے ۔ مگر قرآن شریف کلمتہ اللہ کو اُسی معنی میں روح اللہ مانتاہے جس معنی میں آدمی اپنے بیٹے کو جانِ پدرکہتاہے۔ کیونکہ بقول قرآن خداتعالیٰ وہ سب وسائل اختیار کرتاہے جوآدمی اپنی اولاد کے لئے کرتاہے تاہم مسلمان یہ قبول کرنا نہیں چاہتے کہ مقدسہ مریم اس معنی میں خدا کی " صاحبتہ" ہیں، جس معنی میں آدمی اپنی اہلیہ کہتاہے۔ تعجب ہے کہ ایک جوشیلا مسلمان کس شوخی اوربے باکی سے ہم سے یہ سوال کرتاہے کہ خدا کی جورو نہیں ، اس کے بیٹا کہاں سے ہوا اورنہیں جانتاکہ قرآن اس کو کیا جواب دیتاہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ خدا کی جُورو کیوں نہیں ۔ اس کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ وانہ تعالیٰ جلد ربنا ماتخذ صاحبہ ولا ولد یعنی بہت بلند پروردگار ہمارے کی۔ نہیں پکڑی اُس نے بیوی اورنہ اولاد " (جن کو گویا کہ ذاتی فخر، بلند ، مرتبہ ، عزت وقار جورو کا مانع ہے ورنہ وہ جورو رکھتا اورصاحبہ اولاد ہوتا۔
قولِ بشر
آیت مذکورہ سے ظاہر ہےکہ بیان کرنے والا غیر خدا ہے جوخدا کو واحد مذکرسمجھتاہے۔ اورعام دستور کے مطابق حکم لگاتاہے کہ بغیر جورو کا بیٹا ہونا محال ہے۔ یعنی خدا کا بے اولاد رہنا صرف جُورو کی عدم موجودگی ہے ،ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ خدا اولاد سے محروم رہتا۔ حالانکہ خدا کی نسبت ایسا گمان کرنا ایک ادنیٰ خیال ہے کیونکہ جہاں امکان شے نہیں وہاں امکان شبہ بھی نہیں ہوسکتا۔کوئی نہیں کہتاکہ خدا نہیں دیکھتا کیونکہ اُس کے آنکھ نہیں اورنہیں سنتاکہ اُس کے کان نہیں ، آنکھ کان وغیرہ رفع محتاجی کے آلات ہیں اورحیوانی زندگی کے لازمہ جُز ہیں لیکن اللہ تعالیٰ مستفنیٰ بالذات ہے جوبغیر آنکھ کے دیکھتا اوربغیر کان کے سنتا ہے اوربغیرہ جُورو کے بیٹا بھی رکھتا ہے ۔ پس یہ محال پیش کرنا کہ خدا کی جُورو نہیں توبیٹا کیسے پیداہوا؟ شبہ پیدا کرتاہے اگرخدا کی جورو ہوتی تو وہ ضرور صاحبِ اولاد ہوتا۔حالانکہ خدا کی ذات میں جورو کا امکان نہیں ۔ وہ جو چاہتاہے کرسکتاہے صرف اتنا ہی کہہ دینا خدا تعالیٰ کے لئے کافی ہے کہ ہوجا اور وہ ہوجاتاہے(پیدائش ۱: ۳)۔
ان وجوہات کی بنا پر اہلِ عرب نے قرآن کو قولِ بشر کہہ دیا بل قوالمہ اصنفات امہ یرمل افترہ ھد شاعر" یعنی وہ کہتے ہیں کہ قرآن پریشان خوابوں کا مجموعہ ہے بلکہ اُس نے جھوٹ باندھاہے بلکہ وہ شاعر ہے(سورہ انبیاء) اس پر آنحضرت نے بڑے درد سے شکایت کی وقال الرسول رب ان قومی انخلذ واھذی القرآن مھجورا یعنی کہا رسول نے اے میرے رب میری قوم نے ٹھہرایا اس قرآن کوجھک جھک (فرقان ع ۳)۔
فوق البشر
لیکن اگرقرآن شریف نے بلاواسطہ پیدائش کے سبب کلمتہ اللہ کو ابن مریم کہاہے تو یہ نرالا محاورہ دلالت کرتاہے کہ آپ فوق البشر ہیں اوربنی آدم کے سلسلہ سے نہیں حالانکہ انسا کی پیدائش کے سلسلہ میں حضرت پہلی کڑی ہیں لیکن کلمتہ اللہ بذاتِ خود ایک سلسلہ ہیں (یوحنا ۱: ۳)۔ لیکن چونکہ آپ انسانی شکل میں ظاہر ہوئے اس سبب سے آپ کو " ابن مریم " کہا گیا ۔ ورنہ آپ کی ابنیت (الوہیت)غیر مخلوق ہے۔ جیساکہ یسیعاہ نبی کے صحیفے سے آشکارا ہے کہ ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اورہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اورسلطنت اُس کے کاندھے پر ہوگی، اوروہ اس نام سے کہلاتاہے عجیب مشیر خدائے قادر ابدیت کا باپ، سلامتی کا شہزادہ (۹: ۶)۔
آیت شریفہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ " لڑکا تولد ہوا" یعنی موعود کی بشریت البتہ مخلوق ہے لیکن اُس کی ابنیت غیر مخلوق ہے۔ کیونکہ بیٹے کے متعلق " تولد ہوا" نہیں کہا گیا بلکہ "بخشا گیا" ہے۔ کیونکہ وہ ازل سے تھا لیکن جولڑکا تولد ہوا ہے، اس کی پیدائش کا سبب کوئی انسان نہیں(لوقا ۱: ۳۸)۔ اوریہ مولود مقدس" حکمت اورقدوقامت میں" یعنی انسان بن کر انسان کی طرح بڑھا اور"خدا اورانسان کی مقبولیت میں ترقی کرتا گیا"(لوقا ۳: ۵۲)۔ حالانکہ اُس کا نام "خدائے قادر "ہے۔(یسعیاہ ۹: ۶)۔ وہی اکلوتا بیٹا اورخدا کی ہم ذات ہے۔(متی ۱۶: ۱۶، یوحنا ۱۱: ۴، ۳: ۱۶، ۱۸۔ خدا کے برابر ہے(یوحنا ۸: ۱۸، ۱۹، ۲۳، ۱۰: ۳۰، ۔ ۱۴: ۱۔ اورحقیقی خدا ہے، یوحنا ۱: ۱۔ ۲۰: ۲۸۔ متی ۱: ۱۲، لوقا ۱: ۱۶، ۱۷)۔
اختیاری ولادت
یہ امر مسلمہ کہ ہر شخص کی پیدائش میں باپ کا تصورلازم ہے۔ لیکن کلمتہ اللہ کی ولادت میں جسمانی باپ کا وجود لازم نہیں(آل عمران ع ۳۔ متی ۱: ۱۸ تا ۲۵۔ لوقا ۱: ۲۶تا ۳۵)۔بلکہ مسیحی مصطلحات کے مطابق سیدنا مسیح اپنی پیدائش کے مختار ہیں، یعنی اُن کو اختیار تھاکہ آپ بشری جامہ پہنتے یا نہ پہنتے۔ چنانچہ مرقوم ہے کہ اُس نے اگرچہ خدا کی صورت اختیار کی اورانسانوں کے مشابہ ہوگیا"اورانسانی شکل میں ظاہر ہوکر اپنے آپ کو پست کردیا اور یہاں تک فرمانبردار رہاکہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔ "فلپیوں ۲: ۶تا ۸)۔ یعنی کلمتہ اللہ کو اختیار تھا کہ آپ اپنی مرضی سے ایک حالت سے دوسری حالت میں آئیں یا نہ آئیں۔ لیکن چونکہ آپ نے بشریت کا جامہ پہنا ۔ اس سبب سے آپ ، انسان فانی نسل سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ گویاکہ خدا کی حکمت کادوہرا تعلق کلمتہ اللہ کی ذاتِ اقدس سے وابستہ ہے۔ یعنی ازلی حیثیت ،ابن اللہ ، اورانصافی حیثیت " ابن مریم" اورابن مریم کا نرالہ محاورہ کلمتہ اللہ کی"الوہیت اورانسانیت کا حامل ہے یعنی اتحادی حیثیت کوظاہر کرتاہے۔
الحاصل خدا نے آدم کوخلق کیا اورانسانی نسل کا سبب ٹھہرایا۔ لیکن" ابن اللہ" جیساکہ یسعیاہ نبی نے کہاہے کہ" بخشا گیا"ہے۔ اورلفظ" بخشا" اس امر پردلالت صریح ہے کہ " ابن اللہ " غیر مولود ہے۔ اورکہ ذات باطن کی حیثیت ظاہر ہے(یوحنا ۱: ۱۸)۔ پس کلمتہ اللہ بلاواسطہ پیدائش کے سبب جیسے" ابن اللہ" ہیں(لوقا ۱: ۳۶)ویسے"ابن مریم" بھی ہیں۔ ایک پہلو سے ابن اللہ" دراصل خدا باپ کے ساتھ ایک ہی ماہیت رکھتے ہیں اوردوسرے پہلو سے کلمتہ اللہ کیونکہ آپ مجسم ہوئے(یوحنا۱۱: ۱۴)۔ یہ الفاظ دیگرکلمتہ اللہ کی دوحیثیتیں ہیں۔ حیثیت الوہیت"۔ اورحیثیتِ دوم۔ بشریت ۔ اب اس بشری حیثیت کی خواہ ابن مریم کہئے یا ابن اللہ ایک ہی ہے وہ ہر حالت میں غیر مولود اورواجب بالذات ہے"(یوحنا ۱: ۱)۔
ابن آدم:
انجیل مقدس کا سطحی مطالعہ یہ بھی ظاہر کرتاہے کہ کلمتہ اللہ اس لئے " ابن آدم" کا خطاب اپنے لئے تجویز فرمایا جس سے یہ ظاہر کرنا مطلوب تھاکہ آپ نے کیوں" انسانی شکل" میں ظاہر ہوکر صلیبی موت گوارا کی" واضح رہے کہ کلمتہ اللہ کی صلیبی موت خدا کا ازلی لائحہ عمل تھا جو کسی بیرونی دباؤ کی وجہ سے واقعہ نہ ہوا تھا۔ بلکہ انسان کی بے بسی اور روحانی کشمکش دیکھ کر کلمتہ اللہ کے اندرتحریک پیدا ہوئی کہ آپ صلیبی موت کا مزہ چکھیں۔ جیساکہ کسی چیختے چلانے بچے کی طرف ہماری توجہ مبذول ہوجاتی ہے اورہم اُس کی مدد کے لئے طبعاً قرار ہوجاتے ہیں۔ ہماری اس غیر ارادی ہمدردی سے کہیں زیادہ درجے ابن اللہ نے نوع انسان کی نجات کی ضرورت کومحسوس کیا اورہماری نجات کے لئے شرم اورپچھتاوا صلیب پر ظاہر کیا۔ آپ کے دل پر ہمارے گناہوں کا بوجھ تھا۔ اس کا اندازہ ہم آپ کی اس حالت سے کرسکتے ہیں۔ جب آپ یروشلیم کودیکھ کرروئے۔ لہذا ابن اللہ کی موت میں کوئی ایسی بات نہ تھی۔جس کے لئے آپ پہلے تیار نہ ہوں۔چنانچہ آپ نے قصداً ان حالات کو اپنایا" جن کا نتیجہ موت تھا"۔ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ آپ کی موت ہی کے ذریعے خدا اورانسان میں ملاپ ہوسکتا ہے اس لئے آپ نے وقت مقررپر ایک وفادار ضامن کی طرح اپنا قول پورا کیا اورہمارے گناہوں کے فدیہ میں کوہ کلوری پر اپنی مبارک جان دے دی۔ حالانکہ " اس کا علم توبنائے عالم سے پیشتر سے تھا مگرظہور آخرزمانہ میں تمہاری خاطر ہوا"(۱پطرس ۱: ۲۰)۔
چنانچہ کلمتہ اللہ اس خطاب سے اول اپنے تجسم کا اظہار فرماتے ہیں اورثانیاً اپنے لئے ابن آدم کا خطاب ایک تخفیفی معنوں میں استعمال کرتے ہیں ، یا یوں کہیں کہ ربنا المسیح نے ایک عام لفظ سے اپنی جسمانی زندگی ، صلیبی موت ، فتحیاب قیامت اور ظفریاب آمدِ ثانی کا اظہار فرماکر اسے ایک اعلیٰ ترین خطاب بنادیا۔ اگرچہ آپ کا رُتبہ اس قدر بلند وبالا ہے کہ کوئی خطاب کماحقہ آپ کی ارفع ہستی کوظاہر نہیں کرسکتا ، تاہم ان خطابات سے جوانجیل اورقرآن میں مرقوم ہیں، کلمتہ اللہ کی الاانتہائت کا اندازہ لگاسکتے ہیں اور سچ تویہ ہے کہ ماعر فناک حق معرفتک تیری شان کے لائق ہم تجھے پہچان نہ سکے۔
منقولِ شرع
یہاں تک ہم نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسیح کلمتہ اللہ ان معنوں میں ابن اللہ ہے جوخدا کی شان کے شایاں ہے۔ بیوی کے ذریعہ پیدا ہونے والے کو ہم " ابن اللہ "نہیں کہتے۔ ہم حق تعالیٰ کے قول وفعل سے وہی اُمید نہیں رکھتے جوانسان کے قول وفعل سے ہوتی ہے۔ جیسے خدا کے سمع وبصر کوجسمانی کان اورآنکھ نہیں ۔ سمجھتے بلکہ بغیر آنکھوں اورکانوں کے تصور کرتے ہیں ۔ ویسے ہی خدا کی الوہیت بغیر زن وشوہی تعلقات کے مانتے ہیں ۔ پس کلمتہ اللہ کا ابن اللہ ہونا اس معنی میں نہیں جس مفہوم میں ہم اپنے صُلبی بیٹے کو ابن اللہ کہتے ہیں۔ بلکہ ہم اس خطاب سے کلمتہ اللہ کے اس ازلی وذاتی تعلق کو جو آپ ذاتِ الہٰی سے ہے اس لئے ذاتِ الہٰی سے رکھتے ہیں ، ظاہر کرنے کے لئے مثالی طورپر استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ کلمتہ اللہ کا ظہور ذاتِ الہٰی سے ہے ۔ اس لئے ذاتِ الہٰی کی حیثیت باطن کو" باپ" (ھو اللہ باطن) اورحیثیت ظاہر ہو" ابن اللہ" (ھواللہ ظاہر )کہتے ہیں۔ لہذا ثابت ہوا کہ ، ابن اللہ کا لفظ منقولِ شرع ہے اور سچ تویہ ہے۔ کہ عدیم است عیش چُوں خداوند کریم