Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

Christ is Born
سیدنا مسیح

(بقلم جناب اسحاق رحیم بخش صاحب، بی ۔ اے ۔ایل ۔ ایل بی ۔ سینئیر سول جج لاہور)

Jesus Christ
By
Ishaq Raheem Bakash B.A.L.LB Senior Civil Judge Lahore
1st Time Published in December 20th 1961
January 1, 2007

ظہور المسیح سےقرن با پیشتر زمانہ بہ زمانہ اہلِ اسرائیل ، انبیاء کے الہامی اقوال اورپیشین گوئیوں کے باعث المسیح کے منتظر تھے۔ عہدنامہ عتیق کے صفحات پر یہ حقیقت ثبت ہے۔

جس زمانہ میں فی الحقیقت المسیح نے ظہور فرمایا۔ اہل اسرائیل بالخصوص آپ کی آمد کےمنتظر تھے۔ اُن کی توقع یہ تھی کہ آپ اُنہیں غیر قوم کی سیاسی غلامی سے رہائی دیں گے اور اقوام عالم پر اُن کی سیاسی اور اقتصادی برتری کی دھاک بٹھائیں گے۔ ان کا خیال تھاکہ بحیثیت حکمران وہ دنیاوی حشمت وجلال سے حکمرانی کریں گے اور بطور امام اعظم " شرعی رسومات" سرانجام دیں گے نہ انہیں ختم کریں گے۔چند صاحبانِ نظر المسیح کی ابدی کہانت اورآسمانی بادشاہی کے امکانات سےبے خبر نہ تھے۔ لیکن " من حیث القوم" اہل اسرائیل مسیحا کے صحیح اورروز اول سے " مقسوم" مقام سے بے خبر رہنا پسند کرتے رہے۔ انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ جب دل ودماغ روشن ہورہے ہوں تووہ اُن اقدامات پر زیادہ وقت صرف نہیں کرنا چاہتی جوروشنی کو پورے طورپر دل ودماغ پر قبضہ کرنے کے لئے ضروری ہیں۔

" توبھی اُس نے ہماری مشقتیں اٹھالیں اور ہمارے غموں کو برداشت کیا۔ پر ہم نے اُسے خدا کامارا کوٹا اورستایا ہوا سمجھا۔ حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کےسبب گھائل کیا گیا۔ اورہماری بدکرداری کےباعث کچلا گیا۔ ہماری سلامتی کے لئے اُس پر سیاست ہوئی تاکہ اُس کےمارکھانے سےہم شفا پائیں"۔

سلطنت اُس کے کاندھے پر ہوگی۔ اوراُ سکا نام عجیب ، مشیر ، خدائے قادر ، ابدیت کا باپ اورسلامتی کا شہزادہ ہوگا"۔

اہلِ اسرائیل کی توقعات صرف دنیاوی شہنشاہ تک محدود ہوگئیں۔۔۔۔۔۔ اگرالمسیح اہل اسرائیل کی توقعات کےمطابق جو وہ ایک دنیاوی حکمران کی نسبت رکھتے تھےظہور فرماتے تووہ فی الواقع " دغاباز" ہوتے۔ کیونکہ اہلِ اسرائیل کی اکثریت المسیح کے متعلق جوتوقعات رکھی تھی وہ خود غرضی، لالچ ،جاہ پرستی اورکمال کی کمی پر محمول تھیں۔اورصرف ایک دغابازگری ہوئی انسانی فطرت کے تقاضاؤں کا مظہر ہوسکتا تھا۔ " عوامی اور عمومی" مسیحا بننے کے لئے یہ ضروری ہوتاکہ وہ " عوام" کی اقدار کے ترازو پر پورا اترتا یہ ناممکن تھاکہ ایک" دغاباز" اُن خواص کا حامل ہوتا جوعوام اپنے مسیحا میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ کوئی شخص کسی مقصد کوحاصل کرنے کے لئے وہ ذرائع استعمال نہیں کرسکتا جوحُصولِ مقصد کے منافی ہوں ۔ غور فرمائیے کہ انبیانے المسیح کی ذات وصفات کے متعلق صاف الفاظ میں پیشین گوئیاں کی تھیں۔ اہل یہود نے یا توغلط تاویلات کیں یا" غلط اشخاص " پر اُنہیں منطبق کیا اورایسے المسیح کا انتظار کرتے رہے جوانبیاء کی پیشینگوئیوں کے مطابق نہ تھا۔

" خداوند فرماتاہے کہ میرے خیال تمہارے خیال نہیں اورنہ تمہاری رائیں میری رائیں ہیں" کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے۔ اُسی قدر میری راہیں تمہاری راہوں سے اورمیرے خیال تمہارے خیالوں سے بلند ہیں"۔

اگرحضور المسیح اہلِ یہود کی توقعات پوری کرتے توتین قوی ثبوت اس امرپر دلالت کرتے کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ۔

  • اہل یہود کے نظریات جزوی، تعصبانہ اورشرارت آمیز تھے۔

  • ایک عالمگیر کامل اورابدی ہادی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اہلِ یہود کے خیالات کے مطابق نہ ہوسکتے تھے۔

  • وہ انبیاءکی پیشینگوئیوں کو پورا کرتے ۔ بالمقابل ان کے اگروہ خدا کی راہوں اوراُس کے خیالوں پر پورےاُترتے ہوئے انبیاء کرام کی پیشینگوئیاں پوری کرتے توپھر ان کا رد کیا جانا نہ صرف یقینی بلکہ ضروری تھا۔

یہ بھی ضرور ی تھا کہ المسیح اپنے عہدہ جلیلہ کی تصدیق معجزات سے فرماتے۔ اگرحضرت موسیٰ کی طرح وہ قوم کے سامنے برملا آکر حیران کنُ اورمافوق الفطرت معجزات کی بہتات سے المسیح ہونے کا ثبوت دیتے توقطع نظر اس کے کہ قوم کے روحانی خناق کاعلاج نہ ہوسکتا اورگناہ اورموت کا ڈنگ جوں کا توں رہتا۔ قوم گمان غالب سے رُومی طاقت کے خلاف سیاسی اور عسکری بغاوت پر اُتر آتی اور"گنہگاروں کے منجی" کودنیاوی تخت پر متمکن کرکے اُس کےسامنےبحثیت ایک دنیاوی حکمران سربسجود ہوجاتی۔ برخلاف اس کے یہ بھی" روحانی دنیا کی آئینی ضرورت تھی کہ وہ صفاتِ الہٰیہ سے آراستہ وپیراستہ ہونے کا ثبوت معجزات سے دیتے۔ اس لئے عظیم الشان مشن کے تقضاؤں کو پوراکرنے اورعمومی خیالات کو غلط طور متاثر ہونے سے بچانے کے لئے " شہرت" سے بچ کر" دلِ یزداں" میں گڑی ہوئی " ازلی صلیب " کے کرشمے جسمانی اورروحانی بیماریوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے اورزندگی اورموت پر بھی اختیار رکھنے سے دکھاتے۔ ایک نتیجہ برآمد کرنے اوردوسرا نتیجہ روکنے کے جواز میں معجزات المسیح بین ثبوت ہیں۔ " تم کسی نہ کہنا" ۔ " ابھی میرا وقت نہیں آیا"۔

" خود نفسی" انسانی فطرت کی نمایاں خصوصیت ہے۔ تمام طبقات میں اس کاسکہ جاری اورساری ہے۔ ہر شخص اپنے ہم رتبہ یا بہتر رتبہ والے پر نظر رکھ کر طاقت ، دولت اوراثر میں نہ صرف ہم پلہ بلکہ بڑھنا چاہتاہے۔ " الہٰی تقاضا یہ ہے کہ انسان گرے ہوئے کواٹھائے۔ خود غرضی کا تقاضا ہے کہ خود کو دوسروں پر نہ صرف سرفراز بلکہ مسلط کرے۔ انسانی جماعتوں میں " گلہ کاٹ" مقابلہ اسی ناپاک زہر کے باعث ہے۔ انسانی جماعتوں میں " گھناؤ نی اقتصادی سیاسی ، معاشی ، اثری اوربدحال جو"عہد خلافت" اوردعویٰ سربراہ مخلوقات " کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اسی خودغرضی کےباعث ہے۔ادنیٰ واعلیٰ سب اسی زہر کے مریض ہیں چاہے " بیرونی " مظہرات کے طفیل وہ خوبصورت الفاظ ۔ ملمع چڑھے کردار اوررسمی مذہب کے تقاضاؤں کو پورا کرنے کی وجہ سے مریض ، حریص اورننگ انسانیت معلوم نہ ہوں۔

وہ جسے سب ناموں سےافضل نام بخشا گیا ۔ جسے زندگی اورموت کی کنجیاں حوالہ کی گئیں۔ الفا وامیگا۔ اول وآخر ۔ الوہیت کی تمام معموی کامرکز ومظہر ، کلام اللہ ، بیت اللہ ، کس انداز میں ظہور فرماتاہے ۔ چرنی میں ! اگر المسیح اہل یہود کی توقعات کے مطابق داؤد وسلیمان کی شان وشوکت میں ملبس ، عسکری اورمحلاتی حشمت میں گھرا ہوا ظاہر ہوتا۔ توکیا یہ نتیجہ نکالنا دلیل ،برہان کے منافی ہوگا۔ کہ انفرادی اورقومی ذہن حلم وسادگی کوننگِ انسانیت سمجھتا۔ تکبر وآرزوتازیانہ حیات ہوتے۔ اورکیوں نہ ' انسانی آرزوؤں کے مرکز ۔ المسیح ۔ کا نمونہ سامنے ہوتا۔ اس کے کردار اورروحانی قدکو پہنچنے کی بجائے اُس کی دنیاوی منزلت کو پانا اولین مقصد ہوتا۔دنیاوی اورروحانی تکبر کو شہ ملتی۔ اعلیٰ مقاموں والے اپنے حالات سے مطمئن نہ ہوتے ہوئے گرے ہوؤں کو اٹھانے اور اُبھارنے کی بجائے اُنہیں اورپامال کرتے تاکہ خود اُبھریں۔ پھلیں اور پھولیں۔ دنیاوی مال ودولت اورطاقت میں مقابلتاً کم درجہ کے لوگ اپنی حالت پر قانع ہونے اوراخلاقی فضیلت وبزرگی کوطرہ زندگی سمجھنے کے بجائے اپنی بے بسی ۔ کم مائیگی پر تمام کناں ہوتے۔ اورکیوں نہ ہوتے۔ اُن کا ملجا وماوا ۔ مرکز ایمان ، دنیاوی مال ودولت اورحشمت میں" بے مثل تھا۔ کیا دولتمند وطاقت ور میں تکبر وخود غرضی اوربے حسی اورکم درجہ کے لوگوں میں بے دلی، کم مانگی اوراحساسِ ذلت پیداکرنے والا ۔ المسیح ہوتا؟

اگریونانی ذہن کی تسکین کے لئے المسیح کے ایک فیلسوف کا اندازِ فکر اورطرزِ کلام رکھتا تو کیاعام انسانیت اپنی ذہنی ، فکری اورروحانی پیاس کےلئے کوئی چشمہ، پاسکتی ؟ اگرچہ اُس نے بارہ برس کی عمر میں علمائے دین کو لاچار کردیا اور جب فقیہوں، ربیوں اور فریسیوں نے کئی بار اسے اپنے سوالات کے فریب میں لانے کی کوشش کی تومنہ کی کھائی۔لیکن ازل سے سربستہ الہٰی رازوں کو عام اورسادہ الفاظ میں زندگی کے عام روز مرہ واقعات کی مثالوں سے منکشف کیا تاکہ فیلسوف اورعالم کے متکبر دل اورذہن کو اورشہ نہ ملے اورعوام اپنے خالق کےقانون کی منشاء اورروحانی ضرورت سے نابلد اور محروم نہ رہ جائیں۔

کوئی شخص جوالمسیح کے نام سے کہلانا چاہتاہے اوراُس کی رفاقت کی آرزومند اورمتمنی ہے۔ کبھی بھی اُس کی قربت حاصل نہیں کرسکتا۔ جب تک خود غرضی، خودنفسی، خودستائی، کو خیر بادکہہ کر اپنے اعلیٰ مقام ، طاقت اورقدرت کو اُس کے قدموں میں حقوق سے محروم انسانیت ،،،،،،،، بلند کرنے کی خاطر مسح کرنے کے لئے پیش نہ کرے"۔ میں نہیں بلکہ جنابِ مسیح نے یہ فرمایا ہے کہ" میں اس لئے آیاہوں کہ ہم زندگی پائیں اور کثرت سے پائیں"۔

تاریخ کا یہ فتویٰ ہے کہ روئے زمین پر ایک انچ بھی ٹکڑا ایسا نہیں کہ جہاں کچلے ہوؤں کو اٹھایا گیا ہو اوراٹھایا جارہاہو۔ نسوانیت کی تکریم وبرابری کا کام ہوا ہو اورہورہاہو۔ بیماروں مجبوروں کی دلداری کی گئی ہو یا کی جارہی ہو۔ظاہری مذہب پرستی کو روحِ مذہب کے منافی سمجھا گیاہو۔یاسمجھاجارہاہو۔" شہری حقوق وفرائض " اورسوشل ویلفیئر کے کام ہوتے ہوں ا ہورہے ہوں۔طاقت کی بجائے دلیل وثالثی ، غرور کی بجائے حلم وانکسار کے نعرے بلند ہوتے ہوں یا ہورہےہوں اوریہ حضور المسیح کے فیض سے نہ ہو۔ آسمانی اورجلالی مقاموں کوچھوڑ کر موت بلکہ صلیبی موت گوارا کرنے والا" خدا کے فرزندوں" اور" نئی انسانیت" کا خالق بنا۔ یہی انجیل جلیل ہے۔ یہ کوئی کتاب نہیں۔

خدا کا یہ مکاشفہ سب کو مبارک ہو!