|
پہلا عیدِ ولادت ِ مسیح انجیل شریف کے الفاظ میں First Christmas According to the Holy Gospel |
الوہیت مسیح
(انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ۱:آیت ۱تا ۱۸)
"ابتدا میں کلام [1] تھا اورکلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔ سب چیزیں اُسکے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جوکچھ پیدا ہوا اُس میں سے کوئی بھی چیز اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی اورکلام مجسم [2] ہوا۔ شریعت توموسیٰ کی معرفت دی گئی ۔ مگر فضل اورسچائی یسوع مسیح کی معرفت پہنچی۔ خدا کوکسی نے کبھی نہیں دیکھا ۔ اکلوتا بیٹا جوباپ کی گود میں ہے اُسی نے ظاہر کیا(یوحنا ۱: ۱تا ۱۸)۔
بشارت تجسد مسیح
(انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع ۱: آیت ۲۶تا ۳۸)
چھٹے مہینے اللہ وتبارک تعالیٰ نے حضرت جبرائیل کو گلیل کے ایک شہر ناصرت میں ایک کنواری کے پاس بھیجا۔جن کی منگنی حضرت یوسف نامی کے ایک شخص سے ہوچکی تھی۔ جوحضرت داؤد کی نسل سے تھے۔ اس کنواری کانام حضرت مریم بتولہ تھا۔فرشتہ نے آپ کے پاس آکر کہا سلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبارکاتی ۔ تم پر بڑا فضل ہوا ہے ، پروردگار تمہارے ساتھ ہیں ۔ حضرت مریم صدیقہ فرشتہ کا یہ کلام سن کر گھبرائیں اور سوچنے لگیں کہ یہ کیسا سلام ہے ۔ لیکن فرشتہ نے آ پ سے فرمایا: مریم تم خوف نہ کرو تم پر پروردگار کی مہربانی ہوئی ہے۔تم حاملہ ہوگی اور تمہارے بیٹا پیدا ہوگا تم اس کا نام عیسیٰ رکھنا۔ وہ بزرگ ہوگا اور پروردگار کا محبوب کہلائے گا، رب العالمین اس کے باپ داؤد کا تخت اسے دیں گے ۔ اور وہ آل یعقوب کے گھرانے پر ہمیشہ تک حکمرانی کرے گا۔ اور اس کی بادشاہی کبھی ختم نہ ہوگی۔حضرت مریم نے فرشتہ سے یہ پوچھا کہ یہ کس طرح ہوگا ؟ میں تو کنواری ہوں۔ فرشتہ نے جواب دیا کہ روح ِ پاک تم پر نازل ہوگی اور خدا تعالیٰ کی قدرت تم پر سایہ ڈالے گی، اس لئے وہ مقدس جو پیدا ہوگا خدا تعالیٰ کا محبوب کہلائے گا۔اور دیکھو ! تمہاری رشتہ دار الیشبع کے بھی بڑھاپے میں بیٹا ہونے والا ہے اور جسےلوگ بانجھ کہتے تھے وہ چھ ماہ سے حاملہ ہے۔ کیونکہ پروردگار کے نزدیک کچھ بھی غير ممکن نہیں۔ حضرت مریم صدیقہ نے جواب دیا: میں پروردگار کی بندی ہوں ، جیسا آپ نے فرمایا ہے اللہ کرے ویسا ہی ہو ! تب فرشتہ ان کے پاس سے چلا گیا۔
عیدِ زیارت
(انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع ۱آیت ۳۹ تا ۴۵) بتاریخ ماہ اپریل ۵ قبل از مسیح
انہی دنوں میں حضرت مریم تیار ہوکر جلدی سے یہودیہ کے پہاڑی علاقہ کے ایک شہر کوگئیں اور حضرت زکریا کے گھر میں داخل ہوکر حضرت الیشبع کو سلام کیا۔ جب حضرت الیشبع نے حضرت مریم بتولہ کاسلام سنا تو بچہ ان کے رحم میں اچھل پڑا اور حضرت الیشبع روح ِ پاک سے بھر گئیں اور بلند آواز پکارکر کہنے لگی:تم عورتوں میں مبارک ہیں اورتمہارے کے پیٹ کاپھل مبارک ہے ۔اور مجھ پر یہ فضل کس لئے ہوا کہ میرے مولا کی ماں میر ے پاس آئیں؟کیونکہ دیکھو! جونہی تمہارے سلام کی آواز میرے کانوں میں پہنچی بچہ خوشی کے مارے میرے پیٹ میں اچھل پڑا۔مبارک ہے وہ جو ایمان لائی کہ پروردگار نے جو کچھ اسے کہا وہ پورا ہوکر رہے گا۔
مناجات
(انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع ۱آیت ۴۶تا ۵۵)
حضرت مریم صدیقہ کا گیت
اور حضرت مریم نے کہا:
میری جان پروردگار کی تعظیم کرتی ہے ۔
اور میری روح میرےنجات دینے والے خدا سے خوش ہوئی ۔
کیونکہ اس نے اپنی کنیز کی پست حالی پر نظر کی۔
دیکھو! اب سے لے کر ہر زمانہ کے لوگ مجھے مبارک کہیں گے ۔
کیونکہ خدا ئے قادر نے میرے لئے بڑے بڑے کام کئے ہیں اور اس کا نام پاک ہے ۔
اس کی رحمت اس سے ڈرنے والوں پر نسل بہ نسل جاری رہتی ہے ۔
اس نے اپنے بازو سے عظیم کام کئے ہیں۔ جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے ۔ اس نے انہیں تتر بتر کردیا۔
اس نے حاکموں کو ان کے تخت سے نیچے گرادیا۔ اور پست حالوں کو اوپر اٹھادیا۔
اس نے بھوکوں کو اچھی چیزوں سے سیر کردیا۔ لیکن دولتمندوں کو خالی ہاتھ لوٹا دیا۔
اس نے اپنے خادم اسرائیل کی دستگیری کی اپنی اس رحمت کی یادگاری میں
جس کا اس نے ہمارے باپ دادا سے ، ابراہیم سے اور اس کی آل اولاد سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان پر ہمیشہ تک ہوتی رہے گی۔
اور حضرت مریم تقریباً تین ماہ تک حضرت الیشبع کے ساتھ رہیں اور پھر اپنے گھر لوٹ گئیں۔
راز تجسم کا حضرت یوسف پر آشکارا ہونا
(انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی رکوع ۱آیت ۱۸تا ۲۵)بتاریخ جولائی ۵ قبل از مسیح
اب سیدنا عیسیٰ المسیح کی پیدائش اس طرح ہوئی کہ جب آپ کی والدہ ماجدہ حضرت مریم بتولہ کی منگنی حضرت یوسف کے ساتھ ہوگئی تو ان کے اکٹھے ہونے سے پہلے وہ روح ِپاک کی قدرت سے حاملہ پا ئی گئیں۔ پس ان کے شوہر [3] حضرت یوسف نے جو متقی اور پرہیزگار تھے اور آپ کو بدنام کرنا نہیں چاہتے تھے آپ کو چپکے سے چھوڑدینے کا ارادہ کیا۔وہ ان باتوں کو سوچ ہی رہےتھے کہ پروردگارکے فرشتہ نے آپ کو خواب میں دکھائی دے کر کہا اے یوسف ابن داؤد! اپنی زوجہ مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈرو کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح پاک کی قدرت سے ہے اس کے بیٹا ہوگا اور تم اس کا نام عیسیٰ رکھنا وہی اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے نجات دے گا۔یہ سب کچھ اس لئے ہواکہ جو پروردگار نے نبی [4] کی معرفت کہا تھا وہ پورا ہوکہ
دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگ اور بیٹا جنے گی
اور اس کا نام عمانوایل رکھیں گے
جس کا ترجمہ ہے خدا ہمارے ساتھ ۔پس حضرت یوسف نے نیند سے جاگ کر ویسا ہی کیا جیسا اللہ وتبارک تعالیٰ کےفرشتہ نے انہیں حکم دیاتھا اور آپ اپنی زوجہ محترمہ کو اپنے ہاں لے آئے۔ اور انہیں نہ جانا [5] جب تک آپ کے بیٹا نہ ہوا اور اس کا نام عیسیٰ رکھا۔
ولادتِ مبارک
(انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع ۲آیت ۱تا ۷) بتاریخ ۲۵دسمبر ۵ قبل از مسیح
ان دنوں قیصر اوگستس کی طرف سے فرمان جاری ہوا کہ رومی حکومت کی ساری رعایا کے نام لکھے جائیں ،( یہ پہلی اسم نویسی تھی جو سوریا کے حاکم کورینس کے عہد حکومت میں ہوئی اور سب لو گ نام لکھوانے کے لئے اپنے اپنے شہر کو گئے ۔حضرت یوسف بھی گلیل کے شہر ناصرت سے یہودیہ میں حضرت داؤد کے شہر بیت لحم کو روانہ ہوئے۔ کیونکہ آپ حضرت داؤد کے گھرانے اور آل اولاد سے تھے تاکہ وہاں اپنی منگیتر حضرت مریم کے ساتھ جو حاملہ تھیں نام لکھوائیں۔جب وہ وہاں تھے تو حضرت مریم بتولہ وضعِ حمل کا وقت آپہنچا ۔ اور ان کے پہلوٹھا بیٹا پیدا ہوا۔ آپ نے اسے کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھ دیا کیونکہ ان کے لئے سرائے میں جگہ نہ تھی۔
چرواہوں کو تجسم کی بشارت
(انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع ۲آیت ۸ تا ۱۴)
کچھ چرواہے رات کے وقت ایک میدان میں اپنے ریوڑ کی نگہبانی کررہے تھے۔ پروردگار کا فرشتہ ان پر ظاہر ہوا اور پروردگار کی بزرگی ان کے چاروں طرف چمکنے لگی۔ وہ بری طرح ڈرگئے ۔لیکن فرشتہ نے ان سے کہا : ڈرومت کیونکہ میں تمہیں بڑی خوشی کی بشارت دیتا ہوں جو ساری امت کے لئے ہوگی کہ آج داؤد کے شہر میں تمہارے لئے ایک نجات دینے والا پیدا ہواہے یعنی عیسی ٰمسیح اور اس کا تمہارے لئے یہ نشان ہوگاکہ تم ایک بچے کو کپڑے میں لپٹا اور چرنی میں پڑا ہوا پاؤ گے۔یکایک آسمان سے فرشتوں کا ایک لشکر اس فرشتے کے ساتھ ظاہر ہوا ۔ فرشتے پروردگارِ عالم کی تمجید کررہے تھے اورکہہ رہے تھے کہ عرش ِ معلیٰ پر رب العالمین کی تمجید ہو اور زمین ان آدمیوں کو جن سے وہ راضی ہے صلح اور سلامتی حاصل ہو۔
چرواہوں کا زيارت کے لئے آنا
(انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع ۲ آیت ۱۵تا ۲۱)۔
جب فرشتے ان کے پاس سے آسمان پر چلے گئے تو چرواہوں نے آپس میں کہا : آؤہم بیت لحم کو چلیں اور جس واقعہ کی خبر پروردگار ِ عالم نے ہمیں دی ہے اسے دیکھیں۔ لہذا وہ جلدی سے روانہ ہوئے اور حضرت مریم بتولہ اور حضر یوسف اور بچے کو جو چرنی میں پڑا تھا دیکھا۔ اور انہیں دیکھ کر وہ بات جو انہیں اس بچے کے بارے میں کہی گئی تھی مشہور کردی۔ چرواہوں کی باتیں سن کر سارے لو گ تعجب کرنے لگے ۔لیکن حضرت مریم بتولہ ساری باتوں کو دل میں رکھ کر ان پر غور کرنے لگیں۔اور چرواہے جیسا انہیں بتایا گیا تھا ویسا ہی سب کچھ دیکھ کر اور سن کر اللہ وتبارک تعالیٰ کی حمد و تمجید کرتے ہوئے واپس چلے گئے۔
[1] کلام سے مراد سیدنا مسیح ہیں ۔ کیونکہ آپ تخلیق عالم سے پیشتر خدا کی ذات میں اورذہن میں موجود تھے اورمثمل نطق ذات الہٰی کو ظاہر کرتے رہے گویاکہ مسیح کلمتہ اللہ سے ایسا ہی تعلق رکھتے ہیں جیسے انسانی عقل انسان کی ذات سے علقہ رکھتی ہے۔ لہذا کلام متکلم کی عقل وحکمت اوراس کے روح کا اظہار ہے۔
[2] تجسم سے مراد خدا کا انسانیت اختیار کرناہے۔ اس سے الوہیت کا انسانیت میں تبدیل ہونا مراد نہیں۔ کیونکہ خدا کبھی بھی غیر خدا نہیں ہوسکتا۔ اورنہ ہی غیر خدا کبھی بن سکتاہے۔ لہذا تجسم سے مُراد خدا کا انسانیت کا جامہ پہننا ہے۔
[3] یہاں شوہر" اوربیوی" اضافی لفظ ہیں۔ یہودی دستور کے مطابق منگیتر کے لئے لفظ شوہر یا بیوی کا استعمال جائز تھا۔ لہذا یہاں لفظ بیوی یا شوہر کا استعمال یہودی دستور کے مدنظر کیا گیا ہے نہ کہ حقیقی معنوں میں ہوا ہے۔
[4] صحیفہ حضرت یسعیاہ رکوع ۷آیت ۱۴
[5] اسلوب بیان سے صاف ظاہر ہے کہ رسول نے سیدنا مسیح کی معجزانہ پیدائش کے مدنظر لفظ " نہ جانا" کا استعمال ضمنی اورمحاورے کے طورپر کیا ہے۔ اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مسیح کی پیدائش کے بعدمریم کنواری نہ تھیں۔ وہ ہمیشہ کے لئے بدستور کنواری رہیں۔ایسے ہی ضمنی بیان کلام مقدس میں ۲سلاطین ۶باب آیت ۲۴ یا پیدائش ۸: ۶، ۷ میں بھی پایا جاتاہے۔ جومضمون کو واضح کرنے کی وجہ سے کئے گئے ہیں۔ جوطوفان نوح کی اہمیت کے مدنظر استعمال ہوا کہ" کوا پھر واپس نہ آیا" جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پہاڑ پر اسکو خوراک مل گئی وغيرہ وغيرہ