Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque
Bismillah 5
خدا کی ہستی
خدا کی ہستی

علامہ مولوی پادری عبدالحق صاحب فاتح قادیان

The Existence of God

Rev. Mulawi Abdul Haqq
1st Time Published in July 20th 1962
Noor-ul-Huda

اوّل

Rev. Mulawi Abdul Haqqبائبل مقدس جوکہ الہٰی حکمت ومعرفت کا کامل مکاشفہ ہے اس کے روسے خدا تعالیٰ کی واحد اورازلی ہستی یقینی اورضروری ہے اوراس کی ان دیکھی ذا ت پر ایمان لانا لازم ولابد ہے۔ چنانچہ صحیح ایمان کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ:

"اب ایمان امید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد اوراندیکھی چیزوں کاثبوت ہے(عبرانیوں ۱۱: ۱)

یعنی اعتماد اورثبوت کے بغیر اندیکھی چیزوں کی امید کرنا اوراُن پر ایمان لاناباطل ہے۔

بدیہی طورپر یقین وثبوت حاصل کرنے کے دووسیلہ ہی ہوسکتے ہیں۔(۱) صحیح وسالم حوا س جن کے وسیلے سے ازروئے مشاہدہ یقنی علم حاصل ہوسکتاہے۔(۲) متواترگواہی۔ جس سے یہ مراد ہے کہ جوچیزیں شخصی مشاہدہ کی پہنچ سے باہر ہوں۔ اُنکے متعلق صحیح اوریقینی علم حاصل کرنے کے لئے یسے متواتر گواہوں کی متفقہ شہادت ضروری ہے جونہ صرف شمار میں کثیر ہوں بلکہ اُن کا اکٹھا ہوکر جھوٹی گواہی گھڑلینا غیرممکن ہو۔بائبل مقدس میں خدا کی ہستی پر ایمان لانے کے لئے یہ دوسرا وسیلہ یعنی متواتر گواہوں کی متفق اللسان شہادت موجود ہے۔

جوکہ:

(الف) شمار میں بکثرت ہیں۔

(ب) اورایسے مختلف زمانوں سے متعلق ہیں کہ ان کے اکٹھا ہوکر کوئی چھوٹا منصوبہ گھڑ لینے کا امکان تودرکنار اُن کا اکٹھے ہونا ہی قطعاً غیرممکن ہے۔

(ج) اخلاقی طورپر وہ اپنے زمانہ کے بہترین انسان تھے (پیدائش ۵: ۹) اورخدا کے برگزيدہ اوراسی کی طرف سے نبوت ورسالت کے منصب پر سرفراز تھے(گلتیوں ۱: ۱۱، ۱۲۔ افسیوں ۲: ۱۹، ۲۱۔ ۲پطرس ۱: ۱۹ تا ۲۱)۔

(د) بمصداق ع۔ برمبرنتواں گفت کہ بردار تواں گفت۔

ان متواتر گواہیوں کا تعلق ایسے معتبر اورحق پر گواہی دینے کے لئے (یوحنا ۱۸: ۳۷) جان تک نثار کردینے والے اشخاص کے سلسلے سے ہے کہ:

"بعض مارکھاتے کھاتے مرگئے مگر رہائی منظور نہ کی تاکہ ان کو بہتر قیامت نصیب ہو۔ بعض ٹھٹھوں میں اڑائے جانے اور کوڑے کھانے بلکہ زنجیروں میں باندھے جانے اورقید میں پڑنے سے آزمائے گئے۔ سنگسار کئے گئے ۔آرے سے چیرے گئے آزمائیش میں پڑے۔تلوار سے شہید کئے گئے ۔بھیڑوں اوربکریوں کی کھال اوڑھے ہوئے محتاجی میں ، مصیبت میں ، بدسلوکی کی حالت میں مارے مارے پھرے۔ دنیا ان کے لائق نہ تھی، وہ جنگلوں اور پہاڑوں اور غاروں اور زمین کے گڑھوں میں آوارہ پھر ا کئے"(عبرانیوں ۱۱: ۳۶تا ۳۸)۔

" اس لئے کہ آپ ان کو دیکھیں کہ گویا دیکھ کر ثابت قدم رہیں(عبرانیوں ۱۱: ۲۷)۔

"پس جب کہ گواہوں کا ایسا بڑا بادل ہمیں گھیرے ہوئے ہے تو آؤ ہم بھی ہر ایک بوجھ اور اس گناہ کو جو ہمیں آسانی سے الجھا لیتا ہے دور کرکے اس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے۔اور ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے سیدنا عیسیٰ مسیح کو تکتے رہیں جنہوں نے اس خوشی کے لئے جو آپ کی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پروانہ کرکے صلیب کا دکھ سہا اور پروردگار کے تخت کی دہنی طرف جا بیٹھے"(عبرانیوں ۱۲: ۱تا ۲)۔

(ہ) وہ متواتر شہادت کسی طرح کی کورانہ تقلید ،اندھ بشواش اورمحض سنی سنائی باتوں پر اعتقاد جازم رکھنے سے متعلق نہیں۔

کیونکہ جب ہم نے تمہیں اپنے آقا ومولا سیدنا عیسیٰ مسیح کی قدرت اور آمد سے واقف کیا تھا تو دغابازی کی گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی نہیں کی تھی بلکہ خود اس کی عظمت کو دیکھا تھا۔ کہ انہوں نے پروردگار سے اس وقت عزت اور بزرگی پائی جب اس افضل بزرگی میں سے انہیں یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیار ا ابن ہے ، جس سے میں خوش ہوں ۔ اورجب ہم ان کے ساتھ مقدس پہاڑ پر تھے تو آسمان سے یہی آواز آتی سنی۔(۲پطرس ۱: ۱۶تا ۱۸)۔

اس زندگی کے کلام کی بابت جوابتدا سے تھا اورجسے ہم نے سنا اوراپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اوراپنے ہاتھوں سے چھوا۔ (یہ زندگی ظاہر ہوئی اورہم نے اسے دیکھا اور اس کی شہادت دیتے ہیں اوراسی ہمیشہ کی زندگی کی تمہیں خبردیتے ہیں جو پروردگار کے ساتھ تھی اورہم پر ظاہرہوئی )۔ جوکچھ ہم نے دیکھا اورسناہے تمہیں بھی اس کی خبر دیتے ہیں تاکہ تم بھی ہمارے شریک ہو اورہماری شراکت پروردگار کےساتھ اوراس کے ابن سیدنا عیسیٰ مسیح کے ساتھ ہے(۱یوحنا۱: ۱تا ۳)۔

"مگر پطرس اوریوحنا نے جواب میں اُن سے کہا کہ تم ہی انصاف کرو ۔آیا خدا کے نزدیک یہ واجب ہے کہ ہم خدا کی بات سے تمہاری بات زیادہ سنیں۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ جوہم نے دیکھا اورسنا ہے وہ نہ کہیں(اعمال۴: ۱۹، ۲۰)۔

"اے اگرپا بادشاہ! میں اس آسمانی رویان کا نافرمان نہ ہوا(اعمال ۲۶: ۱۹)۔

پس میں ان باتوں میں جو باری تعالیٰ سے متعلق ہیں سیدناعیسیٰ مسیح کے باعث فخر کرسکتا ہوں۔کیونکہ مجھے اور کسی بات کا ذکر کرنے کی جرات نہیں سو ا ان باتوں کے جو سیدنا عیسیٰ مسیح نے مشرکین کے تابع کرنے کے لئے قول اور فعل سے نشانوں اورمعجزوں کی طاقت سے اورروحِ حق کی قدرت سے میری وساطت سے کیں۔(رومیوں ۱۵: ۱۷تا ۱۸)۔

"کیونکہ جو کلام فرشتگان کے ذریعہ فرمایا گیا تھا جب وہ قائم رہا اور ہر قصور اور نا فرمانی کا واجبی بدلہ ملا ۔ تو اتنی بڑی نجات سے غافل رہ کر ہم کیوں کر بچ سکتے ہیں؟ جس کا بیان پہلے پروردگار کے وسیلہ سے ہوا اور سننے والوں سے ہمیں پائہ ثبوت کو پہنچا۔اور ساتھ ہی رضا ِ الہیٰ کے موافق نشانوں اور عجیب کاموں اور طرح طرح کے معجزوں اور روح ِ الہیٰ کی نعمتوں کے ذریعہ سے اس کی شہادت دیتے رہے۔(عبرانیوں ۲: ۲تا ۴)۔

"پھر موسیٰ نے اسرائیلیوں کوبلواکر اُن کو کہا۔ اے اسرائیلیو! خداوند نے تم سے اس پہاڑ پر روبرآگ کے بیچ سے باتیں کیں(اس وقت میں تمہارے اورخداوند کے درمیان کھڑا ہوا ۔تاکہ خداوند کا کلام تم پر ظاہر کروں کیونکہ تم آگ کے سبب سے ڈرے ہوئے تھے اورپہاڑ پرنہ چڑھے)استشنا ۵: ۱، ۴، ۶)۔نیز یشوع ۳: ۱، ۱۰۔ یسعیاہ ۶: ۱۔ یرمیاہ ۱: ۴تا ۵۔ حزقی ایل ۳: ۲۲تا ۲۴۔ عاموسں ۷: ۱۴تا ۱۵۔ وغیرہ۔

دوم

کائنات عالم کے مشاہدہ سے متحقق ہے کہ ہرموجودہ خارجی کی ہستی ضرور کسی سبب کا نتیجہ ہے اورتمام موجودات پربیحثیت مجموعی نظر فکر سے یہ ضروری اوریقینی نتیجہ مرتب ہوتاہے کہ ہرسبب میں کوئی چیز بھی خود ہست اورمستقل بالذات نہیں ٹھہرسکتی ۔ نیز نیست محض سے کسی چیز کا ازخود وجود ہذیر ہونا ممکن نہیں۔ بنابریں ماحصل یہ ہے کہ موجودات خواہ وہ بدیہی ہوں یا منتہی یہ بدیہات۔ لامحالہ سب کے سب علت ومعلول کے سلسلہ سے منسلک ہوں گے اورموجودات خارجہ اورکائنات معلومہ میں چونکہ علت ادنیٰ یعنی علت العلل کا وجودناپید ہے اورآغاز موجودات کی بابت جوکچھ آج تک منکرین خدا کی طرف سے کہا گیا ہے۔وہ محض غیریقینی مفروضات کا مجموعہ اور مختلف قسم کے اٹکل پچو ڈھکو سلوں پر مبنی ہے۔ اس لئے تسلسل محال ہونے کی وجہ سے عندالعقل ایک علت العلل اورواجب ہستی کی ضرورت توثابت ہے۔ مگراس کی ماہیت کا علم ہر طرح کے مشاہدہ اورعقل کی پہنچ سے باہر ہے۔ پس فوق العقل اورفوق الفطرت ہستی ہی کائنات عالم کی علت العلل ہے جوکہ اصطلاح مذہب میں ذات الہٰی سے تعبیر ہے۔

سوم

کسی موجودہ خارجی کاخودبخود نیست سے ہست ہونا عقل ومشاہدہ کے برخلاف ہے۔ اورکائنات معلومہ کی کوئی چیز مستقل بالذات اوربے تبدیل ٹھہر نہیں سکتی۔ بنابریں ضرور ہے کہ موجودات متغیرہ کا آغاز اوراُن کے ہست وبود کے اسباب کا سلسلہ ایسے واحد سبب پر مبنی ہو۔ جوواجب والوجود اور لایزال اورازلی ہو۔ پس وہی ضرور ہستی، خدا تعالیٰ کے نام سے موسوم ہے۔

چہارم

اگرانسان مصنوعات کی کسی چیز مثلاف دیواروں اوردروازوں اورکھڑکیوں اورچھت پر مشتمل عمارت کی بابت یہ دعویٰ کیا جائے کہ وہ بغیر کسی صانع ہستی کے (جوعقل وارادہ قوت کے صفحات سے متصف ہو) محض طبعی اوراتفاقی حوادث سے موجود ہوگئی ہے تویہ دعویٰ عقل وعادت کے قطعاً برخلاف ہونے کی وجہ سے باطل اورناقابل التفات ٹھہرے گا۔پھرایسی مصنوعات کے صفت یعنی خود انسان کی ہستی کے خالق کا انکار اورمحض طبعی واتفاقی حادثات سے اس کے آغاز کاوہم کیوں بدرجہ ادنیٰ باطل نہیں ٹھہرے گا۔ پس ازروئے استدلال (یعنی معلول کے وجود سے علت کے وجود پراستدلال )صانع عالم اور خالق کائنات کی ہستی ضروری ہے اورواجب ٹھہرتی ہے اوریقیناً "احمق نے اپنے دل میں کہاکہ کوئی خدا نہیں"(زبور ۱۴: ۱۱)۔

پنجم

انسانی روح انفس ناطقہ کی ماہیت کا حقیقی اور یقینی علم آج تک انسانی عقل سے باہر ہے۔پھراس کی ہستی ایک ناقابل انکار اوریقینی حقیقت ٹھہرتی ہے ازیں جہت (الف) کسی چیز کی ماہیت کے فوق العقل اورناقابل فہم ہونے کی بنا پر اس کی واقعی ہستی کی ضرورت یاامکان کا انکار لازم نہیں آتا۔

(ب) کسی چیز کی حقیقت سے لاعلمی اس چیز کی نیسی کی دلیل نہیں ٹھہرسکتی ۔

بنابریں نوع انسانی ودیگر کائنات عالم کے مبداء یعنی الہٰی ہستی کی حقیقت وماہیت سے لاعلمی اوراس کے فوق العقل ہونے سے اس معقول اوربرحق عقیدہ کی تکذیب نہیں ہوسکتی کہ:

"خدا روح ہے"(یوحنا۴: ۲۴) جبکہ کائنات عالم اوراس کے نظام پربحیثیت مجموعی غوروفکر سے نہ صرف خالق کائنات کی ہستی کی ضرورت ثابت ہے۔ بلکہ اس کا انکار ممتنع ٹھہرتاہے" کیونکہ اس کی ان دیکھی صفتیں یعنی اس کی  ازلی قدرت اورالوہیت دنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کےذریعہ سےمعلوم ہوکرصاف نظر آتی ہیں یہاں تک کہ ان کوکچھ عذر باقی نہیں (رومیوں ۱۱: ۲۰)۔

ششم

ازروئے مشاہدہ وعقل موجودات خارجہ کی کوئی چیز آج تک کسی غیر انسانی ہستی نہ انسانی ہستی کے آغاز کا یقینی سبب معلوم ہوسکی۔ اورنہ نوع انسانی سے افضل ثابت ہوسکی اوراسی طرح کوئی انسانی فردبھی اپنی نوع یادیگرکائنات عالم کے آغاز کا یقینی سبب نہیں ٹھہرسکتا پس ازیں یہ سچائی اٹل اوراس کا ماننا ناگریز ہے کہ نوع انسان اوردیگر کائنات عالم کے آغاز وقیام کی علمت نامہ کے موجودات خارجہ کی سبب چیزوں سے اوپر اوراُن سے ممتاز ایک فوق العقل ہستی ہے جوکہ مذہبی عالم میں ذات الہٰی سے تعبیر ہے۔

 

ہفتم

 

کائنات عالم کی ساری چیزوں کے ذات وصفات باوجود تغیر پذیر اورزائل اورغیر دائم ہونے کے وہ واقعی پرہست اور موجودہ بالخارج ہیں یعنی اگرچہ اشیائے خارجہ کے ذات وصفات جوہمارے مشاہدہ میں آتے ہیں۔ وہ تغیر پذیرہونے کی وجہ سے غیر حقیقی ہیں اوران کی مستقل ماہیت (اگرکچھ ہے) اورانکی واقعی حقیقت انسانی مشاہدہ اورعقل کی پہنچ سے آج تک باہر ہے لیکن اس کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ وہ چیزیں واقعی طورپر خارج میں موجود ہیں اورادبام محضہ نہیں پس لامحالہ اشیاء خارجہ کی حقیقت وماہیت ہمارے مشاہدہ اورعقل کی پہنچ سے باہر ہے اورہمہ ان کی ہستی کا یقین ناگریز ہے توکائنات عالم کے خالق کی حقیقت وماہیت کا عقل مشاہدہ کی پہنچ سے باہر ہونا اس کی ہستی کے انکار کی دلیل نہیں ہوسکتا جبکہ خود کائنات عالم کی محدود وحادث اورتغیر پذیر ہستی سے اس کے آغاز وقیام کے لئے ایک غیرمحدود ازلی اورمستقل بالذات خالق کے وجود کی ضرورت ثابت ہوتی ہے۔

ہشتم

ہر انسان طبعی اوروجدانی طورپرایک ایسے حاجت روا کی ضرورت محسوس کرتاہے جورحیم، علیم، کل، قادر طلق اورمستقل بالذات اورہرجگہ اورہروقت موجود ہوخصوصاً جبکہ انسان کی حاجت برآری کے لئے طبعی اورامکانی اسباب ناکافی ٹھہرتے ہیں تواس کو کسی ایسے فوق الفطرت حاجت روا کی ضرورت کا احساس ہوتاہے جوبغیر کسی طرفداری اورامتیاز کے ہرایک حاجتمند کی سنتا اور اس کی ہر طرح حاجت پوری کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ سے یااس کی بجائے اندیکھے اورفوق الفطرت دیوتاؤں سے دعائیں مانگنا یافطری قوتوں اورجانداروں اور بے جان چیزوں کی منتیں ماننا اورخدا کے منکرین اوربے ایمان لوگوں کا کاش کہ لفظ میں اپنی دلی آرزوؤں کا اظہار اسی حقیقت پر دال ہے پس کسی نامعلوم اورفوق الفطرت اورفوق العقل حاجت روا کی ضرورت کا ہمہ گیر اوروجدانی احساس خدا تعالیٰ کا ایک اعلیٰ ثبوت ہے۔

نہم

نوع انسان کے ہر فرد کے دل میں اپنے سے کسی اعلیٰ چیز کی تعظیم وپرستش کا میلان ورحجان بھی طبعی اورہمہ گیر ہے حتیٰ کہ جولوگ واحد خدا کی حقیقت کے علم سے بے بہرہ یا اس کی ہستی کے منکر ہیں وہ بھی کسی نہ کسی خارجی شے یا وہمی معبود کی تنظیم وپرستش کرتے ہیں چنانچہ بت پرستی اورفطری قوتوں اوربعض جانداروں یا انسانی افراد کی عظیم وپرستش اسی طبعی میلان اوروجدانی رحجان کا ہمہ گیر پراظہارہے جیسے کہ چھوٹے بچوں کوبھوک کا احساس طبعی اوروجدانی طورپر ہوتاہے لیکن جب تک انہیں حقیقی خوراک کا واقعی علم نہیں ہوتا اس وقت تک جوچیز انکی دسترس میں ہو اسی کوچوسنے لگ جاتے ہیں اسی طرح ہر انسان کوطبعی طورپرخدا کی ہستی کی ضرورت کا علم توہے لیکن اس کی حقیقت وماہیت کے علم سے بےبہرہ اوراسکے حقیقی عرفان سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہوتی ہے۔

اس لئے کہ اگر چہ انہوں نے پروردگار کو جان تو لیا مگر اس کی خدائی کے لائق اس کی تمجید اور شکرگزاری نہ کی بلکہ باطل خیالات میں پڑگئے اور ان کے بےسمجھ دلوں پر اندھیرا چھا گیا۔وہ اپنے آپ کو دانا جتا کر بیوقوف بن گئے ۔اور غیرفانی رب کی بزرگی کو فانی انسان اور پرندوں اور چوپایوں اور کیڑے مکوڑوں کی صورت میں بدل ڈالا۔(رومیوں ۱: ۲۱تا ۲۳)۔

پس لامحالہ کسی اعلیٰ ہستی کی تعظیم وپرستش کا جذبہ میلان طبعی اورہمہ گیر ہے چنانچہ خدا کی ہستی کے ماننے والوں کی پرستش توکسی نہ کسی ثبوتی یا سلبی مفہوم کے ساتھ اس کے نام سے منسوب ہوتی ہے اورجومذاہب اورملل خدا کی ہستی کا انکار کرتے ہیں۔ مثلاً بدھ مت، جین مت، اوردیوسماج وغیرہ وہ بھی بدھ،چین مت کے ترتھنکروں اورشری اگنی ہوتری کی پوجا کرتے ہیں اوراسی طرح کمیونسٹ اوردیگر منکرین مذہب بھی بعض انسانی افراد کی تصاویر اوران کی مورتیوں کی تعظیم کرتے ہیں اور دیگر بت پرست بھی اپنے کراہے ہوئے اصنام کوپوجتے ہیں۔ غرضیکہ پرستش کا یہ طبعی اورہمہ گیر میلان اوررحجان ایک معبود حقیقی کی ضرورت پر دال اوراس کی ہستی کا اٹل اوروجدانی ثبوت ہے۔

دھم

ہرانسان فرد کو بچپن ہی سے کھانے پینے اورپہننے کی طبعی حاجتیں اورپیارومحبت کی جذباتی بھوک وجدانی طورپر محسوس ہوتی ہے لیکن ان سب حاجتوں کی سیری کے باوجود ایک اورباطنی بھوک نوع انسانی کے ہرفرد کو تازیست لگی رہتی ہے جوکھانے پینے اورپہننے کے لوازمات اورماں باپ بھائی بہنوں کے پیاراور ازدواجی شراکت اوردوستوں کی رفاقت کے حصول کے باوجود جداگانہ طورپر قائم رہتی ہے جس کی بنا پر بچپن ہی سے انسانی روح کو بہلانے کے لئے ہر طرح کے مشاغل تجویز کئے جاتے ہیں چنانچہ بچوں کے لئے طرح طرح کے کھلونے اوربالغوں کے لئے تمباکونوشی اورمنشیاب کی عادت اور انواع واقسام کے کھیل اورسیروسیاحت ،شکار تیراکی سینما مختلف قسم  کی تماشا بینی اور اسی قسم کے دیگر تفریحی سامان ایجاد کئے گئے تھے جن کے متعلق ذیل کے حقائق قابل غور ہیں۔

(الف) مذکورہ بالا چیزیں سب کی سب عارضی طورپر دل بہلانے کا کام دیتی ہیں ان میں سے کسی چیز سے حقیقی اوردائمی سیری حاصل نہیں ہوسکتی۔

(ب) ان چیزوں سے دل بہلانے کا نتیجہ حقیقی تسکین قلبی نہیں ہوتا بلکہ ان کے اجزا سے باطنی تشنگی اوربھی بڑھتی جاتی ہے۔

(ج) ان مشاغل کا باہمی اختلاف اورکسی ایک چیزکی طرف کل انسانی طبائع کا متفقہ رحجان نہ ہوتا ہی اس بات کا یقین اور اٹل ثبوت ہے کہ ان چیزوں میں سے فی الحقیقت کسی کی طرف بھی انسانی افراد کا طبعی میلان نہیں ہوسکتا اورنہ ہی ان چیزوں میں سے کسی چیز کے انہیں طبعی حاجت ہے بلکہ وہ سب کی سب ہرایک انسانی فرد کے خارجی ماحول کے نتائج اوراکتسابی عادات سے متعلق ہیں۔

(د) انسانی طبائع کی یہ ہمہ گیر بھوک اوراس کے واحد اورہمہ گیر اورمتفق علیہ ( ) سے لاعلمی اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ انسانی روح کے باطن میں ایک فوق الفطرت اورفوق العقل حقیقت اوراپنے حقیقی مبداء ومرجع کے حصول کی بھوک موجود ہے۔

پس انسانی افراد کی طبعی اورہمہ گیر اورکسی خارجی چیز سے سیری حاصل نہ ہونے کی بھوک اسی حقیقی ہستی کی ضرورت پر دلالت کرتی ہے جس کے متعلق کہا گیا ہے۔

"تم کس لئے اپنے روپے اس چیز کے لئے جوروٹی نہیں اور اپنی محنت اس چیز کے واسط جوآسودہ نہیں کرتی خرچ کر تےہو(یسعیاہ ۵۵: ۲)۔

"میرے لوگوں نے دوبرائیاں کیں اُنہوں نے مجھ کو آبحیات کے چشمہ کوترک کردیا اوراپنے لئے حوض کھودے ہیں۔ شکستہ حوض جن میں پانی نہیں ٹھہرسکتا(یرمیاہ۲: ۱۳)۔

"خداکا بیٹا آگیاہے اوراس نے ہمیں سمجھ بخشی ہے تاکہ اس کو جوحقیقی ہے جانیں(۱یوحنا ۵: ۲۰)۔