|
مرحوم علامہ یوسف جلیل ایم۔ اے The Evidence of the Cross (Logically)
|
ہرایک شے جس کاوجود اس کی اپنی ذات کے لئے ہو شعور رکھتی ہے۔ سنگ وخشت میں اس وجہ سے شعور کہ اُنکا وجود اُنکی اپنی ذات کے لئے نہیں۔ جمادات کے اعلیٰ طبقہ میں ہی اسکی تجلی کی کچھ جھلک پائی جاتی ہے۔ جمادات کے مقابلے میں نباتات اس سبب سے اعلیٰ طورپر شاعر بالذات ہیں کہ اُن کا وجود کسی حد تک ان کی اپنی ذات کے لئے ہے۔ حیوانات، نباتات سے مقابلتہً اعلیٰ شعور سے مختص وممتاز ہیں۔ انسان وجہ سے اشرف المخلوقات ہے کہ اسکا وجود اشرف اورافضل حیثیت میں اس کی اپنی ذات کے واسطے ہے اوردیگر اشیاء کے مقابلہ میں کہیں زیادہ شعور رکھتاہے۔
قانون سلسلہ کائنات کا یہ ہے کہ ہرشے جوشعور کے باعث دوسری چیز پر تفوق رکھتی ہے اس کے لئے ادنیٰ شے قربانی کرتی ہے۔ مثلاً زمین حیات بخش اغذیہ، جوہر اور زندگی افروز طاقت نباتات کودیتی ہے۔ نباتات، حیوانات کی خوارک بنتی ہیں۔ نباتات اور حیوانات ہردوانسان کے لئے قربانی کرتے ہیں۔ انسان کے اخلاقی عروج وکمال اورروحانی ارتقا کا انحصار اس امر میں پنہاں ہے کہ وہ اپنے خاندان اپنے ملک وقوم اورسوسائٹی کے مفاد کی خاطر قربانی سے دریغ نہ کرے۔
قربانی کے باعث وجود وشخصیت کوکمال حاصل ہوتاہے ۔ حدیث شریف میں آیاہے۔ الید العلیٰ خیرمن الید السفلیٰ ۔ شائد اعلیٰ قربانی کی وجہ سے درخت زمین سے سربلند اورآفتاب عالمتاب سربفلک پہاڑوں سے کہیں بلند وبالا درخشاں وتاباں ہے۔
اگر علم علت علم معلول پردلالت کرتاہے توعلم معلول بھی علم علت پر دال ہے کیونکہ ازروئے منطق عکس مستولی میں دونوں موجبہ جزئیے درست وصحیح ہوا کرتے ہیں معلوم ہوا کہ ذات باری تعالیٰ میں شعور وقربانی کا وجود شہود ہے۔وضاحت اس حقیقت کی یہ ہے کہ ذات الوہیت کے بطون میں اقنوم اول اپنی الوہیت اقنوم ثانی کواوراقنوم ثانی اپنی الوہیت اقنوم ثالث کوہرلحظہ وہرآن عطا کرتاہے رہتاہے۔اسی سریان باہمی کے باعث کہا گیا "خدا محبت ہے " ازل کے خلوت کدوں میں تینوں اقانیم جن کے لئے ماضی، حال، مستقبل، کی کوئی حیثیت نہیں انسان کی بے بسی ، تباہ حالی اورروحانی موت کا نظارہ کررہے تھے۔ بات یہ چھڑی کہ ہم تینوں میں سےکون ہے جرجامئہ انسانیت پہن کر انسان کے آڑے آئے۔ اقنوم ثانی نے جوسراسر شعوروحکمت الہٰی ہے برضادرغبت اپنے آپ کواس مہم کوسرکرنے کے لئے پیش کیا۔ اسی حقیقت کی جانب پولوس رسول نے اشارہ لطیف کرتے ہوئے کہاکہ برہ توازل میں مذبوح ہوالیکن اس کاظہور خارجی آخری دنوں میں ہوا ۔
قربانی خدا کی فطرت ہے کس لئے کہ تثلیث فی التوحید کا ثمرہ عصار یہی ہے ۔ خدا محبت ہے اورمحبت کے لئے قربانی لازم ہے تواس کا نتیجہ یہی نکلا کہ خدا کے لئے قربانی لازم وواجب ہے۔ تمام ادیان عالم اور مذاہب دنیا میں خواہ وہ الہامی ہوں یا غیر الہامی قربانی کا عالمگیر تصورموجود ہے۔ تمام اشیائے کائنات کے وجود بقا کا انحصار قربانی پر ہے۔ جس سے یہ حقیقت بے نقاب ہوجاتی ہے کہ قربانی ذات حق کی فطرت ہے کیونکہ ذات مصنوع ذات صانع کی کچھ نہ کچھ آئینہ داری ضرور کرتی ہے ۔ مسیح جوکلمتہ اللہ حکمت الہٰی اورشعو لم یزلی ہے۔ عدم کی تاریکیوں کو معبدل بحروجود کرنے کے لئے عدم آباد میں آموجود ہوا۔ تاریکی میں نورچمکا۔ شب عدم میں کلامِ حق کی آواز گونچی توسب چیزیں خلق ہوگئیں جب انسان کی فطرت گناہ آلودہ ہوگئی۔ جب اس کی طبعیت بگڑگئی اورجب اس کی روحانی زندگی میں بگاڑ رونما ہوا ۔ نہیں بلکہ خدا کی وہ صورت جس پر وہ خلق ہوا تھا مسخ ہوگئی تومسیح اس عصیان آلودفطرت اس زندگی کے عدم آباد اوراس وجود کے بگاڑ میں آموجود ہوا۔ نورتاریکی میں دوبارہ چمکا تاکہ وہ ناقصیت کوکاملیت میں موت کو زندگی میں گناہ وعصیان کونیکی وراستبازی میں تبدیل کردے اور انسان کوالوہیت کے نورصفات سے تاباں ودرخشاں کردے۔
قربانی شخصیت کی تفسیر ہے۔ ذات حق کا انکشاف مسیح کی قربانی کے وسیلے سے یوں ہواکہ تمام صفات الہٰی صلیبی موت کے ذریعے سے ظاہر وباہر ہوگئیں۔ ذات حق کے انصاف ومحبت کا شہود اس کی صفت جلالیہ اوراس کی صفات جمالیہ کا کامل ظہور اور اس کے فضل وکرم اوراس کے قہر وغضب کا اعلیٰ بروز عالم گیر قربانی میں ہوا۔وحدت صفاتی کا مظاہرہ اگرکہیں ہوا تو وہ صلیب پر ہی ہوا۔ دنیا کواس کے بروزکی راہ اوراس کے ظہور کی سبیل کسی اورجگہ نظر نہ آئی۔
کامل الوہیت نے بنی اسرائیل سردار کاہن کی طرح کامل انسانیت کی عالمگیر قربانی ایک دفعہ ہی پیش کی۔ اس واحد وبےنظیر قربانی کا اظہار صلیب پر ہی ہوسکتا تھا۔ قربانی اعلیٰ عبادت ہے۔ کوئی عبادت قربانی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ کوئی شخص بے خدا کے بے حد تقاضا کے مطابق عبادت نہیں کرسکتا۔ اس حقیقت کوحدیث شریف میں یوں بیان کیا گیاہے۔ ماعرفناک حق معرفتک وماعبدناک حق عبادتک یعنی اے خدا ہم نے تجھے ایسا نہیں پہچانا جیسا کہ تجھے پہچاننا چاہیے تھا اورہم نے تیری ایسی عبادت نہیں کی جیسی عبادت کے ہم پرواجب تھی۔ عبادت سے مراد ہے اپنے ارادہ کوخدا کےارادے کے ماتحت کردینا اوراسی کا ہوجاناہے۔ مسیح نے اپنے جسمانی ارادوں اورنفسانی خواہشوں کومصلوب کرکے وہی راہ اختیارکی جوخدا کی تھی۔ چنانچہ گتسمنی باغ میں اس نے فرمایاکہ" میری مرضی نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو"۔ صلیب پر اپنی دنیاوی زندگی کے آخری لمحات میں اُس نے فرمایا" پورا ہوا" یعنی تیری حمدوعبادت کا حق پورا ہوا۔ الوہیت مسیح صلیب کی بلندیوں سے ہی ایسی واحد بے مثال قربانی اقنوم اول کوپیش کرسکتی تھی۔ یہ قربانی مسیح کی کامل انسانیت اوربے داغ جسمانیت کی تھی جس میں تمام مخلوقات کا عکس موجود تھا۔
ہبوط آدم کے باعث زمین لعنتی ہوگئی اوراس کی خاک سے اٹھنے والے تمام انسان گناہ وعصیاں کےباعث لعنتی ہوگئے تھے۔ صلیبی موت لعنتی موت متصور ہوتی تھی۔لیکن کلمتہ اللہ نے اس لئے صلیبی موت اختیارکی کہ وہ اپنی عالمگیر قربانی کےاعجاز سے صلیب کورحمت وبخش ش کی علامت میں تبدیل کردے۔ گناہ کی سزاموت ہے۔ دنیا سے گناہ کی لعنت کودور کرنے کے لئے لعنتی موت کی ضرورت ہے اس لئے مسیح کا صلیب پر مرنا ۔واجب ولازم ٹھہرا ۔ پارس پتھر جب کسی چیز کوچھوتاہے تواسے خالص سونے میں تبدیل کردیتاہے ۔ کلمتہ نے موت کوزندگی میں قہروغضب کو رحمت وبخشش میں اورگناہ وعصیاں کو کونیکی میں بدل دیا۔ اس تاریکی کوحقیقی نورہی دورکرسکتا تھا ۔ گناہ، موت وعدم ہے اوراسے وجود حقیقی ہی زندگی نیکی اورراستبازی میں تبدیل کرسکتا تھا ۔
مسیح کو صلیبی موت کی خوفناک گہرائيوں میں اترنا ضروری تھا تاکہ اس پرفتح عظیم حاصل کرکے اسے ناچیز اورحقیر ثابت کرے اور اس کے خوف وہراس کومسرت وشادمانی میں اوراس کی اذیت اور اس کے تمام دکھوں کوآرام وراحت میں منتقل کردے۔ موت کی تمام اذیتوں کااحساس کوڑے کھانے مصلوب ہونے اوردل کے چھیدے جانے سے ہی ہوسکتاہے وہ موت کی پستیوں میں سے ہوکرگذرا تاکہ کوئی انسان یہ نہ کہہ سکے کہ انسان کو توموت کی اذیتوں اوراس کی دردانگیز کیفتیوں کا تجربہ ہے اورخدا اس سے محروم ہے کامل الوہیت نے مسیح کی کامل انسانیت کے تصلب میں موت کا تجربہ بھی کیا اوراسے ناچیز وحقیر ثابت کردیا۔
مسیح کی قربانی کامل، عالم گیر اوربے مثال وعدیم النظیر ہے۔ وہ مصلوب ہوکر ہی ایک ہاتھ سے اہل یہود کو اوردوسرے ہاتھ سے غیر اقوام کواس کفارہ کے قبول کرنے کے لئے اشارہ ہائے لطیف کرسکتا تھا۔ وہ پرانے عہدنامہ کی ابتدا اورنئے عہدنامہ کی انتہا ہے۔ اس حقیقت کا انکشاف صلیب ہی کرسکتی تھی۔ گناہ کے ہیبت ناک انجام کو صلیبی موت ہی ظاہر کرسکتی تھی، جسمانیت وانسانیت کے اعتبار سے اس کے لئے موت کاپیالہ نوش کرنا ضرور ہے قرآن میں آیاہے۔ کل نفس ذائقتہ الموت ۔ لیکن قدرتی اورفطرتی طریقہ کے مطابق اس کا مرنا اس کے معجزات کا نقیض ومتضاد تھا، اس لئے دوسروں کے ہاتھ سے مقتول ومصلوب ہونا واجب ٹھہرا۔ ایک نئی انسانیت کو پیدا کرنے کے لئے ضرورت اس امر کی تھی کہ پرانی انسانیت کومقتول ومصلوب کردیا جائے صوفیائے کرام کہا کرتے ہیں کہ عالم کون وفساد ہرلحظہ فنا پذیر ہوکر ہرآن ازسرنومعرض وجود میں آتا رہتاہے۔ یونان کے ہرقلیس نامی فلاسفر اورافلاطون نے بھی یہی خیال اہل عالم کے سامنے پیش کیا تھا کیا تمام اشیائے کائنات کی یہ کیفیت وخاصیت کلمتہ اللہ (جواُن کا خالق ہے) کی موت اوراس کی دوبارہ زندگی پر دلالت نہیں کرتی؟ آدم اول درخت ممنوعہ کا پھل کھانے سے گنہگار وخطاکار ہوا۔ خدا کی بے ناراضی اورتقدس کے تقاضا کوپورا کرنے کے لئے آدم ثانی کادرخت(صلیب) پرسزا کے طورپر آویزاں کیا جانا ازبس ضروری تھا۔
تاریخی شواہد
یونانی تہذیب وثقافت علم وفضل کا مرکزی نقطہ ہے موجودہ فلسفہ وسائنس کی بنیاد اسی پر قائم ہے۔ یونانی حکومت کے بعد رومی سلطنت کی بنیادیں استوار ہوئیں۔ رومیوں نے یونانی فلسفہ کی ترویج کی۔ وہ یونانیوں کی طرح نظری لوگ نہ تھے بلکہ عملی تھے۔ اُنہوں نے یونانی فلسفہ پرشاندار قانون اوراعلیٰ انداز حکومت کا اضافہ کیا۔ مسیح کے ظہور کاموزوں مناسب زمانہ تھاکیونکہ اس وقت اہل عالم اس کی تعلیمات کوسمجھنے کے اہل ہوگئے تھے ۔ مسیح کی ولادت کے وقت یہود کا علاقہ جس میں مسیح پیداہوا تھے رومیوں کے زیر تسلط تھا۔ یونانی اوررومی دورحکومت میں کئی یہودی لوگوں نے مسیح ہونےکا دعویٰ کرکے یہودی حکومت قائم کرنے کے خیال سے بغاوتیں کیں۔اورناکام ہوکر مقتول ہوئے۔ یہودیوں کا خیال تھاکہ مسیح دنیا میں آکر حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے عہد کی سی ایک شاندار یہودی سلطنت قائم کرے گا اوروہ آزادی کی قضا میں سانس لینے لگیں گے۔
مسیح نے آکر دنیاوی بادشاہی کے بجائے آسمانی بادشاہی قائم کرنے کا دعویٰ کیا۔ مزید برآں اُس نے الوہیت کا اعلان کیا، اس لئے یہودیوں نے اسے رومی حکومت کا باغی، سرکش اورکافر قرار دے کرمصلوب کرایا۔ رومی حکام غیر رومی مجرموں کومصلوب ہی کیا کرتے تھے۔ رومی حکومت کا باشندہ ہونے کی وجہ سے مسیح کا مصلوب ہونا بعید ازقیاس نہ تھا۔ مشہور مورخ یوسیفس کے علاوہ دیگررومی یہودی مورخین نے بھی مسیح کی صلیبی موت کاذکر کیا ہے۔ اہل یہود آج تک متواتر مسیح کومصلوب کرنے کے معترف ہیں۔ مسیحی لوگ اس کی صلیبی موت پرایمان رکھتے ہیں اورتمام کلیسیائی مورخین واقعہ صلیب کے موید ہیں۔ ایران کے مشہور بادشاہ خسرو پرویز کا مسیحی جرنیل جس کا نام شاہین تھایروشلیم کوفتح کرنے کے بعد مسیح اوراُس کے ساتھ مصلوب ہونے والے دوڈاکووں کی صلیبیں ایران میں لے آیا تھا۔ مشرقی رومی حکومت کے ساتھ صلح ہوجانے کے بعد وہ تینوں صلیبیں واپس بھیج دی گئیں۔ خسرو پرویز طعنہ کے طورپر ہمیشہ ایرانی مسیحیوں کوکہا کرتے تھے کہ تم اس مسیح پر ایمان رکھتے ہو جویہودیوں کے ہاتھ سے مصلوب ہوا تھا۔ الغرض دوست دشمن یگانے اوربگانے سبھی مسیح کی صلیبی موت کے قائل ہیں تصلیب مسیح ایک تاریخی حقیقت ہے۔ مسیح کی صلیبی موت کے بہت سے تاریخی شواہد موجود ہیں۔ اس امر میں کسی کو جرات دم زون نہیں۔ یہودی اورمسیحی جوہمیشہ ایک دوسرے کے مخالف ودشمن رہے ہیں۔ واقعہ صلیب پر متفق ہیں جنہوں نے مصلوب کیا۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہاں ہم نے اسے مصلوب کیا۔ جولوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں وہ بتواتر ایمان رکھتے ہیں کہ مسیح مصلوب ہوا۔ اس کےشاگردوں نے مسیح مصلوب کی ہی تبلیغ کی۔ آج کے دن تک مسیحی مبلغین بتواتر مسیح کی صلیبی موت کی تبلیغ کرتے رہے ہیں جس معاملہ میں مدعی اور مدعا علیہ دونوں متفق ہوجائیں۔ اس کی تردید وتکذیب محل ہوا کرتی ہے۔ رومن کیتھولک کلیسیا مسلسل ومتواتر اس امر کا دعویٰ نہایت واشگاف الفاظ میں کرتی ہے کہ مسیح کے تبرکات میں اس کی صلیب بھی شامل ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں لکھاہے کہ رومی مسیحی کہتے ہیں کہ وہ رومال جومسیح کے مصلوب ہونے کے بعد اس کے منہ پر باندھا گیا تھا وہ پوپ کے پاس موجود ہے اس رومال کانام ویرونکا ہے۔
الہامی شہادتیں
عہد عتیق میں مسیح کی صلیبی موت کے بارے میں بہت سے واضح اشارات پیش خبریوں کے طورپر مذکور ہیں اوربہت سی آیات اس کے دکھ اٹھانے اور مرنے پر دلالت کرتی ہیں۔ باغ عدن میں بے گناہ جانوروں کا خون بہاکر ان کی کھال سے حضرت آدم وحوا کے لئے چمڑے کے لباس تیار کرنا مسیح کی قربانی کی جانب ایک اشارہ لطیف ہے حضرت اسحاق کو مذبوح ہونے سے بچا کر ان کے عوض ایک مینڈھا مہیا کرنا اسی حقیقت کی نشاندہی تھی۔ حضرت اسحاق کے بدلے مینڈھا یا برہ مہیا کرنا الہٰی انتظام تھا۔ بنی اسرائيل میں متدادل ہونے والی تمام قربانیاں مسیح کی قربانی پر دلالت کرتی تھیں۔ قرآن کریم میں فدیناہ بذبح عظیم (ہم نے ایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا) سے اس حقیقت کی نقاب کشائی ہوتی ہے۔ مینڈھے یابرے کی قربانی" عظیم " ہرگز نہیں ہوسکتی عظیم صفت مشبہ ہے جس سے مراد صفی معنی کا دوامی طوپر پایا جاناہے۔ بنابریں یہ آیت کریمہ ہمارے نزدیک ایک عالمگیر اورابدی قربانی پر دلالت کرتی ہے حضرت ابراہیم کے ایام میں بت پرست اقوام اپنے بیٹوں کوکفارہ کے طورپر قربان کیا کرتے تھے۔ حضرت اسحاق کوذبح کرنے سے خداکا منع کردینا اس امر کو آشکارا کرتاہے کہ اگرانسان خدا کی رحمتوں کے بدلے یا اپنے گناہوں کے کفارہ کے لئے اپنی جان بھی قربان کردے توحق تعالیٰ کی نگاہ میں اس کی کوئی قدرومنزلت نہیں ہوسکتی چہ جائیکہ انسان بھیڑ بکریوں یا دوسری چیزوں کی قربانی کفارہ کے طورپر پیش کرے شائد غالب نے اسی حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے یہ شعر کہا تھا۔
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تویہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
گنتی ۲۱: ۸ میں مرقوم ہے۔خداوند نے موسیٰ سے کہاکہ ایک جلانے والا سانپ بنالے اورایک بلّی پر لٹکادے اورجوسانپ کاڈسا ہوا اس پر نظر کرے گا تو وہ جیتا بچے گا"۔ پیتل کے سانپ کا یہ واقعہ مسیح کی صلیب کا آئینہ دار ہے۔ مسیح نے اپنی صلیبی موت کے متعلق پیشین گوئی کی تھی۔
"جس طرح موسیٰ نے سانپ کوبیابان میں اونچے پرچڑھایا اسی طرح ضرور ہے کہ ابن آدم اونچے پرچڑھایا جائے"۔
ان تمام اشارات اوران تمام پیش خبریوں کا پورا ہونا ضروری امر ہے جس طرح دیگر پیشین گوئیاں اپنے وقت پر پوری ہوئیں اسی طرح مسیح کی صلیبی موت کے متعلق پیشین گوئی بھی پایہ تکمیل تک پہنچی۔
ظہور اسلام سے پیشتر عرب میں رکوسیہ فرقہ کے لوگ کہتے تھے کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا وہ زندہ آسمان پراٹھالیا گیا اورایک دوسرا آدمی جو اس کا ہم شکل ہوگیا تھا اس کی جگہ مصلوب ہوا۔ راسخ العقیدہ کلیسیا نے ان لوگوں کوبدعتی قرار دے کر کلیسیا سے خارج کردیا تھا۔ مولانا عبدالاحد دہلوی نے اپنی تاریخ عرب میں ان لوگوں کے خیالات کی نشاندہی کی ہے اسی طرح شیوع اسلام سے پہلے ایران میں مانی نے جودراصل ایک فلاسفر تھا مسیحیت اور زرتشت ازم کی بعض تعلیمات کومخلوط کرکے ایک نیا مذہب جاری کیا تھا مانوی مذہب بعضوں کے نزدیک زرتشت ازم کااوربعض لوگوں کے خیال میں مسیحی مذہب کا ایک بدعتی فرقہ تھا جوایک ہزارسال تک موجود رہا اورمسیحیت کا شدید ترین دشمن متصور ہوتا رہا۔
ایران کے شاہ بہرام نے اس مذہب کا قلع قمع کرنے کی انتہائی کوشش کی لیکن اس کی سعی مشکور نہ ہوئی بلاآخر مسلمانوں کے ہاتھوں اس کا استیصال ہوا۔
مانی نے مسیح کے متعلق یہ نظریہ پیش کیاکہ یسوع نور ہے وہ مقتول ومصلوب نہیں ہوسکتا تھا۔ مسیح کے مقتول ومصلوب ہونے متعلق علما اورمفسرین قرآن کے تین گروہ ہیں۔ اولاًبعض مفسرین نے رکوسیہ فرقہ اورمانی مذہب کے خیالات سے متاثرہوکر اپنی تفاسیر میں لکھاہے کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا تھا بلکہ اس کا شاگرد شمعون کرینی جواسکاہم شکل بن گیا تھا مقتول ومصلوب ہوا اورمسیح آسمان پر زندہ اٹھالیا گیا۔
ثانیاً۔ بعض علما مثلاً وہب، ابومسلم خراسانی، ابوعساکر امام مالک اوراکثر معزلہ کہتے تھے کہ مسیح مصلوب ہوا اورتین گھنٹے یا چھ گھنٹے یا نوگھنٹے مردہ رہنے کے بعدآسمان پر صعود کرگیا۔
ثالثاً۔ موجودہ زمانہ میں بعض اصحاب کا عقیدہ یہ ہے کہ مسیح مصلوب توضرور ہوا مگر غشی کے عالم میں اسے صلیب سے اتار لیا گیا۔ پھرمرہم عیسیٰ کے استعمال سے بصحت ہوکرکشمیر کی جانب چلايا آیا اورمرنے کے بعد یہی مدفون ہوا۔ یہ تمام امور تاریخ قرائن وقیاسات اورکتب مقدسہ کے برعکس ونقیص ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم کتب مقدسہ کا مصدق وموید اورمہیمن یعنی نگہبان ومحافظ ہے۔ اسلئے اس کی پہلی کتابوں سے موافقت اورمطابقت نہایت ضروری ہے ورنہ وہ نہ مصدق ہے اورنہ موید اورنہ ہی مہیمن ہے۔ تاریخ حقیقت واقعیت کا عکاسی کا نام ہے۔ اوروہ الہامی تکملات کا شاہد صادق ہے۔ اس لئے قرآن کریم نہ تو تاریخ کوجھٹلاسکتاہے اورنہ الہام ومکاشفہ کی تکذیب کرسکتاہے۔ وہ فطرت الہٰی ،تاریخ وفلسفہ اورالہامات کا مکذب ومتضاد ومتبائن نہیں ہوسکتا۔ یہ امر ازقبیل محالات ہے۔
سورہ عمران میں آیاہے۔ إِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِترجمہ: جب اللہ نے کہا کہ اے عیسیٰ ! میں تجھے وفات دوں گا اورتجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا اورتجھے پاک کروں گا اوران لوگوں سے جنہوں نے کفر بکا ۔ جن لوگوں نے تیری پیروی کی میں اُنہیں قیامت کے دن تک ان پر غلبہ دوں گا جنہوں نے کفر بکا۔(سورہ عمران آیت ۵۵)۔
اس آیت کریمہ کے آغاز میں اللہ کا عیسیٰ کے ساتھ پہلا وعدہ جوضرورپورا ہوا مذکور ہے وہ وعدہ یہ ہے کہ میں تجھے وفات دوں گا۔ متوفیک کا معنی تمام مفسروں نے ممیتک لکھاہے جس کا معنی ہے میں تجھے ماروں گا ۔اس وعدہ کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ میں تجھے وفات کے بعد اپنی طرف اٹھاؤں گا۔ رافع کا لفظ رفع سے مشتق ہے جس کا معنی ہے کہ مادی چیز کو نیچے سے اٹھا کر اوپر لے جانا رافعک کے معنی ہے۔ اے عیسیٰ ! میں تجھے موت کے قبر میں سے اٹھاؤں گا ، اپنی طرف اٹھاؤں گا،سے مراد ہے کہ میں جوزندگی وحیات کا سرچشمہ ہوں اپنی طرف اٹھاؤں گا یعنی تجھے زندہ کروں گا۔ ہم کہتے ہیں کہ ہرشخص مرتاہے اورمرنے کے بعد اس کی روح خدا کی طرف اٹھائی جاتی ہے۔ یہ تواللہ تعالیٰ کا دستور العمل ہے۔ اس لئے اللہ کوحضرت عیسیٰ سے خاص وعدہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس وعدہ میں ضرور تخصیص ہےقرآن کی فصاحت وبلاغت ایضاح الواضح کی اجازت نہیں دیتی بنابریں حضرت عیسیٰ کے طریقہ اماتت ورفع میں ضرور خاصیت کا پہلو ہے لہذارفعک کا مفہوم یہی ہوا کہ میں تجھے اپنی طرف جوحیات وبقا کا سرچشمہ ہوں لا کر تیرے مردہ جسم کوقبر میں سے اٹھا اوراُس کے جسم مبارک کے گلنے کی نوبت نہ آئی۔ یہ وعدہ یہ پیش خبری اوریہ بشارت پرانی کتب مقدسہ بالخصوص زبور میں مندرج تھی مطھرک من الذین کفروا میں حضرت عیسیٰ کویہودیوں کے تمام الزامات سے بری کرنے کا وعدہ مرقوم ہے۔ اس آیہ کریمہ کے آخری حصہ میں یہودیوں اورکافروں پر مسیحیوں کے غلبہ کاذکر ہے جوقیامت کے دن تک رہے گا۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہ آخری وعدہ پورا ہوچکا ہے تومارنے اورزندہ کرنے میں وعدہ جوآیت سے یہ مبرہن نہیں ہوتا کہ مسیح قیامت کے زمانہ میں ظہور ہوکر مرے گا اورزندہ ہوگا۔
مسیح کے یوم ولادت ،یوم الموت اوریوم الرفع کے بارے میں سورہ مریم میں آیاہے۔وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا(سورہ مریم آیت ۳۳)۔
ترجمہ ۔ سلامتی وبرکت ہے میرے اوپر جس دن میں پیدا ہوا جس دن میں مروں گا اورجس دن زندہ ہوکر اٹھوں گا قابل غور بات یہ ہے کہ خدا حضرت یحییٰ کے یوم پیدائش یوم وفات اور یوم حیات کی بشارت دیتاہوں لیکن مسیح بذات خود جبکہ وہ ہنوز شیرخوار بچہ تھا اپنے بارے میں کہتاہے کہ جس دن میں مرونگا اورجس دن میں زندہ ہوکر اٹھوں گا، مجھ پرسلامتی وبرکت ہے ایسا اس لئے ہواکہ وہ کلمتہ اللہ تھا، وہ خود صلح وسلامتی کا شہزادہ تھا۔ وہ خود صاحب الوہیت تھا اس لئے اس نے اپنی اختیار کردہ انسانیت اوراپنی قبول کردہ جسمانیت کے یوم پیدائش یوم وفات اورتجدید حیات کے دن اپنے آپ کومبارک وباسلامت کہا اس قرآنی نکتہ سے بھی صرف نظر مناسب ہے کہ اسی بے مثال انسانیت وجسمانتی کوجوسکن الوہیت ہونے کی جہت سے بے نظیر بے مثال ہوگئی تھی، مسیح نے عبداللہ قرار اوراس کے حق میں جعلنی ملوکا کہا ۔ قرآن کریم نے مسیح کی انسانی شخصیت پر روشنی ڈالی تواسے کلمتہ اللہ روح اللہ کے خطابوں سے نواز کر اس کی الہٰی شخصیت اوراس کے صاحب الوہیت ہونے کی تصدیق بھی کردی گویا وہ خود ہی مبارک اورخود ہی مبارک ہے۔
آیت مرقومہ کا پہلا لفظ السلامہ ہے جس پر الف لام داخل ہے۔ عربی زبان میں الف لام تین معنوں میں استعمال ہوتاہے ۔ اس معنی کی روسے مسیح کے سلام وسلامتی وبرکت میں کوئی غیر شریک شامل نہیں۔ وہ سلامتی وبرکت میں واحد بے نظیر ہے۔ اس کے تقدس اوراس کے بابرکت وسلامت ہونے کی نسبت سے اس کا یوم الولادت یوم الموت اوریوم الرفع وتجدید حیات تینوں مبارک ومقدس ہیں ان تینوں دنوں میں فقید المثال اوربے نظیر اموروقوع پذیر ہوئے وہ تینوں بے مثال ایام کلمتہ اللہ کی عدیم النظیر شخصیت کی نسبت وتعلق سے لاثانی وفقید المثال ہیں انہی اعتبارات کے پیش نظر مسیح نے غیر مہبم اورغیر مثنی معنوں میں اپنے لئے السلمہ علی کہا۔
سلسلہ توالدوتناسل قائم ہوجانے کے بعد بن باپ پیدا ہونا نوع انسانی میں ایک بے مثال واقعہ ہے۔ اسی طرح اس کی صلیبی موت کے ہنگام،تاریکی کا چھاجانا، زمین کا اپنی جگہ سے سرک جانا چٹانوں کا تڑک جانا۔ بھونچال کا آنا، قبروں کا پھٹ جانا اورمقدسین کا زندہ ہونا یہی امور ہیں جواس کے یوم الموت کوبے نظیر بنادیتے ہیں صرف مسیح ہی کی یہ شان ہے کہ وہ موت ایسی مہیب ودحشتناک موت پر غالب آیا اورمرنے کے بعد جی اٹھا اورایک جلالی وبسیط جسمانیت کے ساتھ صعود فرماگیا۔
معترض کہہ سکتاہے کہ حضرت یحییٰ کے متعلق بھی توقرآن کریم میں اسی قسم کی آیت وارد ہوئی ہے جویوں ہے۔ وسلمہ علیمہ یوم ولد ویوم یموت ویوم یعبث حیا۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں سلمہ کے لفظ پر الف لام داخل نہیں لہذا سلام وسلامتی وبرکت میں عمومیت ہے تخصیص نہیں بنابریں حضرت یحییٰ کے یوم پیدائش ،یوم وفات اوریوم تجدید حیات میں بے نظیری اورغیر ہمنائی کی شان نہیں، نہ ان سے متعلقہ تینوں دن بتواتر مقدس ومبارک متصور ہوئے ہیں۔کلمتہ اللہ کی شخصیت بے ہمتا ہے جس نے اس کے یوم تجسم، یوم موت اوریوم تجدید حیات تینوں کوواحد بے مثال بنادیا۔حضرت یحییٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّهِ (سورہ عمران) انہیں کلمتہ اللہ سے خاص تقرب ونسبت اورخاص تعلق جسمانی وزمانی وروحانی ہے اس لئے ان کے یوم پیدائش ان کے یوم وفات اوران کے یوم تجدید حیات کا بلاسلامت اورمبارک ہونا ضرور ی ہے واجب ہے اس بیان سے مسیحی تعلیمات کے اس نکتہ کی وضاحت بھی ہوجاتی ہے کہ نامناسب منسوب کے فرق کی جہت سے مسیح ویحییٰ کے پیدا ہونے، مرنے اورتجدید حیات میں تفاوت عظیم ہے لیکن نسبت کے اعتبار سے چونکہ ناسب ومنسوب یکساں برابر ہیں اس لئے مسیح کا حضرت یحییٰ کی طرح (جوقتل کئے گئے تھے) مرنا اورزندہ ہونا ضروری ٹھہرا۔ مزیدبراں یہ حقیقت بھی کھل جاتی ہے کہ ہر وہ شخص جسے کلمتہ اللہ نے خاص رفاقت وقرب اورخاص تعلق ونسبت ہواس کے پیدا ہونے، اس کے مرنے اوراس کے تجدید حیات کے دن مبارک اورباسعادت ہیں۔
۲۔ تعریف وتخصیص کے علاوہ الف لام معہود ذہنی کے معنی میں استعمال ہوتاہے اس معنی کے منوال سے مسیح کی سلامتی وبرکت شائع وذائع ہے۔ اس کے پیدا ہونے ،مرنے اورجی اٹھنے کے دن بتواتر مبارک اورمقدس محسوب ہوتے رہے ہیں اورابتدا سے تاایندم متعارف ومشہور ہیں۔
۳۔ الف لام استغراق کے معنی میں استعمال ہوتاہے۔ اس قبیل سے مسیح کی جسمانیت اورانسانیت یا اس کی جلالی شخصیت فرشتے اورتمام قسم کے لوگ تمام زمانوں میں مبارک باسلامت گرادنتے رہے ہیں اوراس کی پیدائش کے دن،مرنے کے دن اورجی اٹھنے کے دن اس سے نسبت رکھنے کے باعث ہمیشہ مبارک ومقدس متصور ہوتے رہیں گے ظہوراسلام سے پیشتر بھی مسیحی کلیسیائیں ،مسیح کے یوم الاولادت ،یوم الموت اوریوم الرفع کومبارک ومقدس قرار دیتی رہیں ۔ظہور اسلام کے ایام اوران کے بعد بھی یہ تینوں دن باسعادت متصور ہوتے رہے۔ تاریخ آیت محولہ بالا کی موید ہے کہ مسیحی بتواتر تسلسل مسیح کے یوم ولادت، یوم موت بلکہ صلیبی موت کے دن اورجی اٹھنے کے دن کو مقدس اورمبارک مانتے ہیں۔
ظہور اسلام سے صدیو ں پہلے مسیحیوں کے نزدیک مسیح کایوم ولادت یوم الموت اوراس کے زندہ ہونے کا دن مبارک وسعید تھا۔ ظہور اسلام کے ایام میں بھی یہ تینوں دن مسعود متصور ہونگے اوردورحاضرہ میں بھی یہ تینوں دن متبرک ومبارک سمجھے جاتے ہیں یہ دن مسیح کی ولادت وموت اورتجدید حیات کے باعث واجب الاحترام ہیں۔اس صداقت پر قرآن کریم نے آیت مذکورہ میں مہرثبت کردی ہے۔ پہلی منقولہ آیت قرآنی نے الیٰ یوم القیامتہ کے ذریعہ حکمی فیصلہ دے دیا اوررشک وشبہ کی تمام تاریکیوں کودورکردیاہے۔
قرآن کریم میں جوآیت متنازعہ فیہ ہے وہ سورہ النساء میں یوں آتی ہے۔
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَل ُوهُ يَقِينًا بَل رَّفَعَهُ اللّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا(سورہ النساء آیت 157تا 158)۔
ترجمہ: اوربہ سبب ان کے قول کے کہ ہم نے عیسیٰ ابن مریم خدا کےرسول کومارڈالا اوریہودیوں نے اسے نہیں مارا اورنہ اسے صلیب چڑھایا بلکہ اسے صلیب پران کے لئے مشابہ بالموتی بنایا گیا ہے اورجنہوں نے اسکے متعلق اختلاف کیا وہ اس بارے میں شک وشبہ میں ہیں اور اُنہیں اس کے متعلق کوئی علم نہیں مگرگمان کی پیروی کرنا اوریقیناً اُنہوں نے اسے نہیں مارا بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا اورخدا غلبہ پانے والا اورصابر حکمت ہے۔
اس سے پہلے آیات میں یہودیوں کے حضرت مریم پر بہتان لگانے، انبیا کو قتل کرنے اوراُنکی دل کی سختی کا حال مذکور ہے۔ محولہ بالاآیت میں مندرج ہے کہ یہودیوں نے کہا کہ ہم نے عیسیٰ ابن مریم کوقتل کیا اورآج کے دن تک وہ اپنے دعویٰ پر قائم ہیں وہ ایسا دعویٰ مسیح کے کلمتہ اورصاحب الوہیت ہونے کی تردید میں کیا کرتے تھے قرآن کریم ان کے اس دعویٰ فاسدہ کاابطال کرتے ہوئے کہتاہے کہ یہودیوں نے مسیح کوقتل کیا تھا اورنہ اسے مصلوب کیا کیونکہ کلمتہ اللہ اورروح اللہ مصلوب نہیں ہوسکتی تھی۔ اس حقیقت کومستشنیٰ قرار دیتے ہوئے کہا وَلَـكِن شُبِّهَ لَهُمْ یعنی اہل یہود کومسیح کی انسانیت وجسمانیت صلیب پر مشابہ الموتی دکھائی گئی۔ پوشیدہ نہ رہے کہ شبہ شبہ اورشبہ وغیرہ سے متعلق ہے جس کا معنی شکل و صورت ہے۔ شباہ مشبہ کی جمع ہے شبہ ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے جو اس وقت طاری ہوتی ہے جب ایک چیز دوسری چیز کی شکل وصورت کی ہوجائے اورانسان اصلی چیز کے امتیاز میں مترود ہوجائے۔ تشبیہ شبہ سےشق ہے جس کا معنی ایک چیز کودوسری شئے کی شکل وصورت کوبنادینا۔ شبہ اس کی ماضی مطلق مجہول ہے جس کا معنی ہے اس شے کودوسری چیز کی شکل وصورت دے دی گئی۔ لغوی تحقیق سے مراد ہواکہ شُبِّهَ لَهُمْ سے مراد ہے اہل یہود کومسیح صلیب پر مشابہ بالموتی دکھایا گیا چونکہ جسمانیت مسیح کلمتہ اللہ۔ روح اللہ اورالوہیت کا مسکن تھی اورالوہیت کے فیضان سے اس کے جسم مبارک نے قبر کی پستیوں میں سے جی اٹھنا تھا اورکلمتہ اللہ اورروح اللہ کا مقتول، مصلوب ہونا ناممکن تھا لیکن جسمانیت اورانسانیت کی روسے اس کے لئے مرنا واجب ولازم تھا اس لئے قرآن کریم نے مسیح کوکچھ عرصہ کیلئے مشابہ الموتی قرار دے دیا۔ ماقتلو وماصلبوہ اس اعتبار سے بھی کہا کہ دراصل رومی حکومت نے مسیح کومصلوب ومقتول کیا تھایہودیوں نے اسے مصلوب نہیں کیا تھا۔ یہودیوں نے مسیح کو مصلوب کرنے کی ترغیب دلائی تھی لیکن ایک حیثیت سے وہ بھی قاتل وصالب ہی تھے لہذا کہہ دیا شبہ لہمہ یعنی انہیں قاتلین سے تشبیہ دے دی گئی۔
اگر اس آیت متنازعہ رفیعہ کی اس رنگ میں تفسیر نہ کی جائے تووہ دیگر آیات قرآنی کی منبائن ومتضاد ہوجائے گی اورکلام الہٰی میں تبائن وتضاد ومحال عقلی ونقلی ہے۔ ان الذین اختلفوا فیہ یعنی شک۔ آیت مذکورہ کے اس حصہ میں یہودیوں کے ایک اختلاف کا حال مندرج ہے۔ یہ اختلاف مسیح کے عدم موت وموت اورعدم تصلب وتصلب کے متعلق نہیں تھا۔ کس لئے کہ اہل مسیحیت واہل یہود اور اہل روم مسیح کی موت وتصلیب کا پورا پورا یقین ہوچکا تھا یہ اختلاف مسیح کے زندہ ہونے اورزندہ نہ ہونے، اُس کے جی اٹھنے اورنہ جی اٹھنے کے متعلق تھا اوراس کے دوبارہ زندہ ہونے کی حقیقت کومخفی وپنہاں رکھنے کے باعث تھا یہ اختلاف مسیح کی عظمت وبرتری کوپوشیدہ رکھنے کے متعلق تھا۔ چنانچہ متی ۲۸: ۱1تا ۱۵ میں اس اختلاف کا منظر ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے"۔
جب وہ جارہی تھیں تو دیکھو پہرے والوں میں سے بعض نے شہر میں آکر تمام ماجرا امام ِ اعظم سے بیان کیا۔ اور انہوں نے بزرگوں کے ساتھ جمع ہوکر مشورہ کیا اور سپاہیوں کو بہت سا روپیہ دے کر فرمایا یہ کہہ دینا کہ رات کو جب ہم سورہے تھے تو اس کے شاگرد آکر اسے چرالے گئے ۔ اور اگر یہ بات حاکم کے کان تک پہنچی تو ہم اسے سمجھا کر تم کو خطرہ سے بچالیں گے ۔ پس انہوں نے روپیہ لے کر جیسا سکھایا گیا تھا ویسا ہی کیا اور یہ بات آج تک یہودیوں میں مشہور ہے۔
زمانہ مابعد کے یہودیوں کوقیامت مسیح اوراس کے دوبارہ زندہ ہونے کے متعلق کوئی علم نہ تھا اوروہ اسی وہم وگمان میں گرفتار رہے کہ ہم نے عیسیٰ ابن مریم کوقتل کردیاہے قرآن نے انجیلی بیانات کا ہمنوا ہوکر کہہ دیاکہ ماقتلو یقیناً بل رفعہ اللہ الیہ یعنی یہودیوں نے مسیح کو یقیناً قتل نہیں کیا کیونکہ دراصل رومیوں نے اسے قتل کیا یاوہ اس کے جسم وجسمانیت کوہی قتل کرسکے وہ الوہیت مسیح کلمتہ اللہ اورروح اللہ کوقتل نہ کرسکے چونکہ الوہیت مصلوب نہ ہوسکی اس لئے اس نے جسمانیت اورانسانیت مسیح کو اپنی طرف اٹھاکرزندہ کردیا۔ اس نے مردہ جسمانیت کوقبر کی خوفناک گہرائیوں سے نکال کر زندگی دی رفع اللہ الیہ سے مراد مسیح کا رفع آسمانی بھی مراد ہے۔ اگرچہ خدا ہر جگہ حاضروناظر ہے تاہم اس کی اعلیٰ شان واعلیٰ مرتب کی رو سے آسمان اس سے مختص ہے۔ حضرت داؤد زبورمیں لکھتے ہیں :
" آسمان اس کا تخت اورزمین اس کی چوکی ہے"۔
اگرچہ مندرجہ بالاآیت قرآنی کی تفسیر میں یہ کہا جائے کہ مسیح مقتول ومصلوب نہیں ہوا بلکہ اس کی جگہ شاگرد شعمون کرینی صلیب پر آویزاں کیا گیا تواس صورت میں قرآن کریم تاریخی حقیقت اور الہام مکاشفہ کا مکذب اورکتب مقدسہ کا غیرمصدق۔ غیر موید اورعیر معین ثابت ہوتاہے۔ مزید براں ذات الہٰی سے نعوذ باللہ مکروفریب۔ دھوکہ اورضعف کا انتساب لازم آتاہے ۔ ہم یہ تمام امور ذات حق کے نقیض ومنافی سمجھتے ہیں۔ اس لئے اس نوع کی تفسیر سےاحتراز کا دامن تھا منے پر مجبور ہیں۔
دورحاضرہ میں بعض اشخاص یہ کہتے ہیں کہ مسیح صلیب پر اتنی جلدی کیسے مرگیا؟ وہ غشی کے عالم میں صلیب سے اتار لیا گیا اورمرہم عیسیٰ کے استعمال سے روبحصت ہونے کے بعد وارد کشمیر ہوا اورمرنے کے بعد یہیں اس پر موت وارد ہوئی۔ لیکن یہ تمام امور تاریخ اورقرائن وقیاسات کے برعکس ہیں اور انجیلی بیانات اس قسم کے تمام خیالات کی تردید وتکذیب کرتے ہیں۔ گتسمنی باغ میں مسیح نہایت کرب عالم میں مبتلا رہا،اسی عالم میں وہ گرفتار ہوا اسے بے حساب مکےاورطمانچے مارے گئے۔ اسے بہت سے کوڑے جن کی ضربوں سے کمزور وناتواں آدمی کا جان بحق ہوجانا ضروری ہوا کرتا تھا، مارے گئے۔ ان کوڑوں سے اس کے جسم مبارک کے مختلف حصوں سے خون بہتا رہا۔ زبور نویس اسی واقعہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے کہ اُنہوں نے میری پشت پر کئی مرتبہ ہل چلائے اوراس پر ریگھاریاں بنائیں اس کے سرپر سر کنڈے مارے گئے جن کے باعث اس کے سر سے خون بہتا رہا۔ اس کے سرپر لمبے لمبے کانٹوں کا تاج پہنایا گیا۔ ان کانٹوں کے باعث بھی خون بہتا رہا۔ وہ کئی دن تک بھوکا پیاسا رہا اسے کمزوری وضعف کے عالم میں بھاری صلیب اٹھاکر کوہ کلوری پر چڑھنا پڑا۔ ناتوانی اورکمزوری کے باعث وہ زمین پر گرپڑا۔ صلیبی موت کے تصورہی سے بعض مجرموں پر غشی طاری ہوجایا کرتی تھی۔ لہذا صلیبی موت کا تصور بھی اس کی سوہان روح بنا جارہا تھا ۔ اس کے ہاتھ پاؤں لمبے لمبے کیلوں سے صلیب پر گاڑے گئے اورخون اس کے جسم سے مسلسل ومتواتر بہتا رہا۔ اسی حالت میں وہ نوگھنٹے تک صلیب پر آویزاں رہا۔ ان تمام اذیتوں کی تاب نہ لا کر اس کا مرجانا تعجب خیز نہیں اوراگرہوبھی تووہ بھالا جواسکی پسلی میں لگا اس نے اُس کے دل کوچھیدڈالا جس سے اس کی موت واقع ہوئی ۔
پیلاطس اوررومی صوبیدار نے جوغیر اسرائيلی تھے اس کی موت کا یقین کیا۔ اہل یہود نے اسے مقتول ومصلوب کرکے دم لیا۔ وہ اسے کب زندہ چھوڑسکتے تھے۔ صلیب نوروتاریکی کی حق وباطل کی، اورنیکی وعصیاں کی جنگ تھی اس میں طرفین نے اپنا پورا پورا زورلگایا۔ بنابریں مسیح صلیب سے زندہ نہیں اترسکتا تھا۔ اس کے شاگردوں نے اکناف عالم میں مسیح مصلوب کی ہی منادی کی۔ مسیحیوں نے آج کے دن تک بتواتر اس کے صلیبی موت پرایمان رکھا اس پر متزادیہ کہ ہرزمانہ اورہر عہد میں کلیسیا مصلوب ہوکر ایک نئی شان اورایک نئے جلال میں زندہ ہوتی رہتی ہے یہ ہے کہ زندہ ثبوت مسیح کے تصلب کا۔
صلیب تمام کائنات کا مرکزی نقطہ ہے ۔ وہ کلیسیا کی روح رواں ہے۔ تاریخ اس کی تجلیوں سے روز روشن کی مانند منور ہے۔ فلسفہ کے جلوت کدے اس کے نور سے روشن ہیں۔ الہام و مکاشفہ میں اس کا ظہور ہے ۔ فطرت الہٰی میں اس کا جمال وجلال ہے۔ اس لئے اس کی تردید وتکذیب میں قلم اٹھانا حقیقت کا منہ چڑانے کے مصداق نہیں تواورکیاہے۔