Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

Bismillah 2
وفاتِ مسیح برصلیب ازروئے تحریراتِ مرزا
وفاتِ مسیح برصلیب ازروئے تحریراتِ مرزا

Crucifixion of Jesus Christ
According to Mirza Ghulam Ahmed

By

Allama Khurshid Alam

1st Time Published in March 20st 1961
January 25st 2007
Noor-ul-Huda

علامہ خورشید عالم

تشبہیات کے سبب نام کی تبدیلی کا جواز  ١:

احمدی مولوی فاضل ابوظفر عبدالرحمان مبشر لکھتے ہیں " یہ عام بات ہے کہ بوجہ مشابہت ومماثلت تامہ ایک شخص کو دوسرے شخص کا نام دیا جاسکتاہے ۔ عرب لوگ آنحضرت  کو ابن ابی کثیر کہا کرتے تھے" (بشارت رحمانیہ جلد دوم صفحہ ۴۲)۔

پس تشبہیات کے تحت ہی مرزا صاحب نے کھوپڑی کی جگہ کوسری نگر کا نام دیا۔ اوریوسف آرمتیا کو یوس آسف کا نام دیا اورآسمان کو کشمیر کا نام دیا۔ مگر افسوس کہ قادیانی دوست آج تک ان استعاروں کو سمجھنے میں قاصر رہے ہیں اوروہ استعاروں کو ظاہرپر محمول کرکے حقیقت سے بہت دورجا پڑے ہیں۔
مرزا صاحب سیدنا مسیح کی صلیبی موت کے قائل تھے:

اب مرزا صاحب کی تحریرات سے ایسے اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں ۔ جن سے صاف عیاں ہے کہ آپ سیدنا مسیح کی صلیبی موت کے قائل تھے۔چنانچہ آپ لکھتےہیں " لخت جگر رسول اللہ صلیہ اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح کی طرح کمال درجہ کے ظلم اورجوروجفا کی راہ سے دمشقی اشقیاکے محاصرہ میں آکر قتل کئے گئے ۔ "(ازالہ اوہام بقیہ حاشیہ صفحہ ۶۹۔۔۔۔) یہاں مرزا صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نے بالکل صاف الفاظ میں حضرت امام حسین کی طرح سیدنا مسیح کاصلیب پر قتل ہونا مان لیاہے۔ یہاں یہ الفاظ " کی طرح " سیدنا مسیح کو اورحضرت امام حسین کوقتل کے سلسلہ میں ایک ہی زمرہ میں شامل کرتے ہیں۔

دلیل نمبر  ۲:

پھر آپ لکھتے ہیں " یہودی اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے اورحضرت مسیح کو مارکر پھردوسروں کے قتل کی طرف متوجہ ہوئے"(مسیح ہندوستان میں صفحہ ۴۰)۔ اس بیان میں بھی مرزا صاحب نے صاف تسلیم کرلیا ہے کہ یہودیوں نے سیدنا مسیح کوصلیب پر ماردیا تھا۔ یہاں الفاظ صاف اور عام فہم ہونے کے سبب کسی تشریح کے محتاج نہیں۔

دلیل نمبر ۳:

پھرآپ لکھتےہیں : پرسپاہیوں میں سے ایک نے بھالے سے اُس کی پسلی چھیدی اورفی الفور اُس سے لہو اور پانی نکلا"(مسیح ہندوستان میں صفحہ ۲۵)۔

مندرجہ بالا بیان سے ظاہر ہے کہ مرزا صاحب یہ تسلیم کرتے تھے کہ فی الواقع مسیح کی پسلی میں سے بھالا مارنے سے خون اورپانی بہہ نکلا۔ اب حل طلب امریہ ہے کہ آیا خون اورپانی کا بہہ نکلنا مسیح کی موت پر دلالت کرتاہے یا زندگی پر۔ سواس امر میں ہم علم طب کی رُو سے ثبوت بہم پہنچاتے ہیں کہ خون اورپانی بہہ نکلنا سیدنا مسیح کی وفات کا ثبوت تھا۔چونکہ سیدنا مسیح کے بدن سے جمے ہوئے خون کا لوتھڑا بعمہ پانی نکلا تھا سوہم اس بات پر غورکریں گے کہ خون کی یہ کیفیت کس مرحلہ پر ہوتی ہے۔ اورآیا جماہوا خون اورپانی زندہ انسان سے نکلتا ہے یا مُردہ انسان سے۔سواس کے متعلق ڈاکٹر ہمفری صاحب کے رسالہ تیمارداری " مترجمہ ڈاکٹر گھوش رائے بہادر" کے صفحہ ۳۴ پر انجماد خون کے عنوان کے تحت  مندرجہ ذیل کی تشریح درج ہے" جسم سے خون نکلنے پر خون یتال ہوتاہے۔ لیکن اگر اُس کوہلاتے جلاتے نہ رہیں تووہ بہت جلد جم جاتاہے ۔ ہلانے جلانے سے اس میں سے ایک ریشہ دار شے جس کو فائیبر  کہتے ہیں نکلتی ہے۔ اوراس کے بُدوں وہ جم نہیں سکتا۔ اگرخون کسی برتن میں کچھ عرصہ تک رکھ چھوڑتے ہیں تووہ جم کر بعدمیں سکڑنے لگتاہے۔ اوراُس وقت اس میں سے ایک پتلا زرد رنگ پانی یا سیال نکلنے لگتاہے جس کو سیرم کہتے ہیں۔ جمے ہوئے لوتھڑے میں فائیبرن اورگول دانے ہوتے ہیں۔جب قلب تندرست شرائن میں خون گردش کرتا رہتاہے توہ سیال رہتاہے۔ لیکن بعض حالات اورچند امراض میں وہ شران ہی منجمد ہوکر خطرناک علامات کا موجود ہوجاتاہے"۔

مندرجہ بالا بیان سے ثابت ہوگیا کہ زندہ انسان کے بدن سے خون نکلنے پر سیال ہوتاہے اور اُس کے ساتھ پانی کی آمیزش نہیں ہوتی۔ پانی جس کو طبی اصطلاح میں سیرم کہا جاتاہے ہمیشہ مُردہ خون سے نکلتاہے۔ بیان ہذا سے یہ ثابت ہوگیا کہ بعض حالات میں خون بدن کے اندر بھی منجمد ہوسکتا ہے نیز یہ بھی کہ سیرم ہمیشہ منجمد خون میں سے پیدا ہوتاہے۔ جن بعض حالات کی طرف مصنف مذکور نے اشارہ کیاہے۔ اُنہیں حالات کے تحت سیدنا مسیح کا خون دل کے اندر ہی منجمد ہوگیا اورچونکہ منجمد خون (جوکہ ہمیشہ مُردہ ہوتاہے) میں سے بالفعل سیرم الگ ہونے لگتاہے ۔ لہذا سیدنا مسیح کے مُردہ بدن میں دل کے اندر مُردہ خون سکڑکر الگ ہوگیا اورسیرم اُس میں سے جدا ہوگیا۔ سوجس وقت سپاہی نے سیدنا مسیح کی پسلی میں نیزہ مارا۔ اوراُس بھالے کی نوک پسلی کو چیرتی ہوئی دل میں جاکر پیوست ہوئی اورپسلی اوردل میں ایک بہت بڑا گھاؤ ہوگیا تو فوراً دل کے اندر سے منجمد مُردہ خون لوتھڑے کی صورت میں اورپانی یعنی سیرم بہہ نکلا۔ سویہ سیدنا مسیح کے مُردہ ہونے کی زبردست طبی شہادت ہوگئی ۔اگربالفرض سیدنا مسیح اُس وقت زندہ ہوتے تواُس صورت میں بھالالگنے سے محض سیال خون بلا پانی فوارہ کی طرح پھوٹ نکلنا چاہیے تھا نہ کہ جما ہواخون اورپانی یعنی سیرم نکلنا تھا۔ اگرکسی زندہ انسان کے دل میں نیز گھونپا جائے تو اول تویقیناً اُس سےاس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائیگا۔ دوم اُس میں سے خون اورپانی نہیں نکلے گا بلکہ محض سیال خون ملا پانی فوراہ کی طرح پھوٹ نکلے گا۔ گوسیدنا مسیح اُس وقت فوت ہوچکے تھے ،مگر پھر بھی بے رحم سپاہی نے بطور آخری حربہ(تاکہ زندگی کی کوئی امید باقی نہ رہ سکے)۔ سیدنا مسیح کی پسلی اور دل میں نیزہ گھونپا ، مگرچونکہ آنخداوند توپیشتر ہی فوت ہوچکے تھے اورآپکا خون دل کے اندر مردہ ہونے کے باعث منجمد ہوچکا توسیرم اُس میں سے الگ ہوچکا تھا۔ سونیزہ لگنے کے باعث پیدا شدہ گھاؤ میں سے جما ہوا خون اورسیرم بہہ نکلا ۔ پس سیدنا مسیح کے مُردہ بدن سے منجمد خون اورسیرم کا نکلنا سیدنا مسیح کی موت اور واقع ہونے کا اٹل ثبوت ہے۔ سوجبکہ مرزا صاحب سیدنا مسیح کی لاش میں سے خون اورپانی کا بہنا مان چکے توساتھ ہی آپ سیدنا مسیح کی صلیبی موت کے بھی گواہ بن گئے۔

دلیل نمبر  ۴:

پھر آپ لکھتے ہیں " چھٹا گھنٹہ ہوا توایک ایسی آندھی آئی کہ جس سے ساری زمین پر اندھیرا  چھاگیا"(مسیح ہندوستان میں صفحہ ۲۱)۔

واضح ہوکہ مشرقی ممالک میں بالخصوص پاک وہند میں ایسی آندھی کا آنا جس سے ساری زمین پر اندھیرا چھاجائے ۔ کسی بے گناہ کے قتل کئے جانے کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ پنجاب میں تویہ خیا مضبوطی پکڑے ہوئے ہے۔ جب کبھی اس قسم کی آندھی آئے جس سے زمین پر اندھیرا چھاجائے توعوام میں سمجھا جاتاہے کہ ضرور آج کہیں نہ کہیں کسی کا قتل ہواہے۔ کیونکہ ایسی آندھی کا آناظلمت اور اندھیر گردی کے وقوعہ کی خاطر قرار دیا جاتاہے ۔ اب چونکہ مرزا صاحب خود پنجابی تھے۔ اورآپ پنجابی نظریات کابھی احترام کرتے تھے تولہذا آپ عوام کے خیال کی تائید فرماتے ہوئے آندھی کا لفظ استعمال میں لائے تاکہ آندھی کو بطور سیدنا مسیح کی بے قصور موت کی علامت کے پیش کیا جائے۔ ورنہ ایسی صورت میں جبکہ مرزا کے بیان کردہ انجیلی حوالہ یعنی مرقس ۱۵باب  میں آندھی کا لفظ ہی موجود نہیں توبھلا مرزا صاحب کوناحق جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت پڑی تی؟

یہ تومحض سیدنا مسیح کے قتل کےثبوت میں آپ نے ملکی نظریہ تحت آندھی کی شہادت پیش کی۔

دلیل نمبر  ۵:

دلیل نمبر ۵: پھر آپ لکھتے ہیں " اگرمسیح نے خواب میں یاکشف کے ذریعہ سے کسی پر ظاہرکیا تھا توپھر ایسی پیشینگوئی   گویا ایک ہنسی کی بات ہے ۔اس طرح توایک مدت اس سے پہلے حضرت مسیح پولوس پربھی ظاہر ہوچکے تھے"(مسیح ہندوستان میں صفحہ ۲۴)۔

یہاں مرزا صاحب نے یہ تسلیم کیاہےکہ پولوس رسول پر سیدنا مسیح کشفی رنگ میں ظاہر ہوئے تھے۔ پولوس رسول پر سیدنا مسیح کا ظہور کشفی رنگ میں مانا جائے تویہ اس بات کا ثبوت ہے۔ کہ جسمانی طورپر سیدنا مسیح اُس وقت زمین پر موجود نہیں تھے۔ بلکہ آسمان پر صعود فرماچکے تھے۔ کیونہ اگر سیدنا مسیح اُس وقت جسمانی حالت میں زمین پر موجود ہوتے تومرزا صاحب یہ نہ کہتے کہ وہ پولوس رسول پر کشفی رنگ میں ظاہر ہوا ۔ بلکہ آپ یہ کہتے کہ پولوس رسول پرسیدنا مسیح جسمانی صورت میں ظاہر ہوئے تھے۔ سویہ ایک پختہ ثبوت ہے کہ اس امر کا کہ مرزا صاحب یہ تسلیم کرتے تھے کہ سیدنا مسیح اُس وقت آسمان پر صعود فرماچکے تھے۔سواس طرح مرزا صاحب نے سیدنا مسیح کا صلیب پر وفات پانابھی مان لیا اورآسمان پر صعود پانا بھی تسلیم کرلیا۔

دلیل نمبر  ۶:

پھر آپ لکھتے ہیں " نیز نبوت کے زمانے سے پہلے حضرت مسیح کی کوئی عظمت تسلیم نہیں کی گئی تھی تااُس کی یادگار محفوظ رکھی جاتی اورنبوت کا زمانہ صرف ساڑھے تین برس تھا"(مسیح ہندوستان میں صفحہ ۲۰)۔

یہاں مرزا صاحب نے مسیح کا زمانہ نبوت ساڑے تین برس تسلیم کیا ہے۔ جب یہ مان لیا گیاکہ مسیح کا زمانہ نبوت ساڑھے تین برس ہے تومابعد مسیح کی زمینی زندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اُس کے بعدآپ کا آسمان پر صعود فرمانا تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ جولوگ سیدنامسیح کی عمر ۱۲۰ برس یا ۱۲۵ برس تصور کرتے ہیں۔ اُن کے خیال کی مندرجہ بالابیان سے تردید ہوتی ہے ۔ کیونکہ زمانہ نبوت توساڑھے تین برس ہے تویہ اجر آپ کی عمر تیس برس ہوچکنے کے بعد ہوتاہے ) توکیا اُن ساڑھے تین برس کے زمانہ میں ،،،،،،، وہ ایک اُمتی کی حیثیت سے زمین پر رہے ؟ پس مرزا صاحب نے یہ کہ نبوت صرف ساڑھے تین برس تھا تویہ اقرار ہے اُس با کا کہ اُ سکے بعد مسیح کی زمین سے آسمان پر صعود فرماچکے تھے ۔ اوریہ سراسر سیدنا مسیح کے صلیب پر وفات پانے پانے اور تیسرے روز مردوں میں سے زندہ ہونے اورآسمان پر صعود فرمانے کا صریحاً اقرار ہے۔

دلیل نمبر  ۷:

جیساکہ اس سے پیشتر دلیل نمبر ۳ میں بھالا لگنے سے مسیح کی پسلی سے منجمد خون اور پانی کا بہنا مذکورہوچکاہے، اور مرزاصاحب اپنی کتاب" مسیح ہندوستان میں  صفحہ ۲۵ " پر اسے تسلیم کرچکے ہیں۔اوریہ واقعہ اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ میخیں ٹھونکے جانے کے باعث مسیح کے ہاتھوں اورپیر میخوں سے پیدا شدہ زخموں سے خون بہنا اُس وقت قطعاً بند ہوچکا تھا کیونکہ اگراُس وقت مسیح کے ہاتھوں اورپیروں میں سے بھی خون جاری ہوتا نیز کانٹوں کا تاج سر پر رکھے جانے کے سبب سے سر سے بھی اُس وقت خون کی روانی بدستور قائم ہوتی توایسی صورت میں پسلی میں سے خون اورپانی کا ذکر کرناکونسی خاص بات ہے۔ مگرچونکہ پسلی میں سے خون اورپانی کا بہنا بالتخصیص ذکر کیا گیا ہے۔ تویہ اس بات کابین ثبوت ہے کہ اُس وقت سیدنا مسیح کے بدن کے باقی زحموں سے خون بہنا کلیتہً موقوف ہوچکا تھا۔ اورسبب اس کا سیدنا مسیح کے مُردہ بن میں انجماد خون تھا۔ یہ امر یادرکھنے کے لائق ہے کہ مرزا صاحب اپنی کسی تحریر میں اس بات کا ذکر نہیں لائے کہ سیدنا مسیح کی لاش صلیب پر سے اُتارے جانے کے وقت بھی اُن کے ہاتھوں اورپیروں کے زخموں سے خون روا ں تھا۔ پس یہ ثابت ہواکہ اُس وقت سیدنا مسیح کے ہاتھوں اور پیروں کے زخموں سے خون بہنا بند ہوچکا تھا۔جوکہ سیدنا مسیح کے مردہ بدن میں انجمادِ خون کا نتیجہ تھا۔ پس سیدنا مسیح کے مُردہ بدن میں اُس وقت خون جم چکا تھا اوراس کے مرزا صاحب بھی قائل ہیں کہ مرُدہ کا خون جم جاتاہے۔ ملاخطہ ہو(مسیح ہندوستان میں صفحہ ۲۵)۔

پس صلیب  سے اُتارے جانے کے وقت سیدنا مسیح کے ہاتھوں اورپیروں کے زخموں سے خون کی روانی کا ذکر نہ کرنے کے سبب مرزا صاحب سیدنا مسیح کے مُردہ بن میں انجمادِ خون کے گواہ ٹھہرے ۔ بنابریں آپ مسیح کی صلیبی موت کے بھی معتقد ثابت ہوئے۔

دلیل نمبر ۸:

دلیل نمبر ۸: پھر مرزاصاحب لکھتے ہیں: پس وہ جو اخیر تک صبرکرتاہے خداتعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتاہے۔ جیساکہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت کی ایک بے وقت موت سمجھی گئي۔ ایسا ہی حضرت موسیٰ کے وقت میں ہوا۔ جبکہ حضرت موسیٰ مصر اورکنعان کی راہ میں پہلے اس سے جوبنی اسرائيل کووعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچادیں فوت ہوگئے۔ ایساہی حضرت عیسیٰ کے ساتھ معاملہ میں ہوا صلیب کے واقعہ کے وقت"(الوہیت صفحہ ۷)۔

بیان مندرجہ بالا میں موضوع زیربحث بے وقت موت ہے۔جس کی تین افراد میں مشابہت دکھائی گئی ہے۔ اول حضرت محمد ۔ دوئم حضرت موسیٰ، سوم سیدنا عیسیٰ مسیح ۔ اس عبارت میں یہ الفاظ کہ " ایسا ہی حضرت عیسیٰ کے ساتھ معاملہ ہوا" سیدنا مسیح کی صلیبی موت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کیونکہ "ا یسا ہی معاملہ ہوا" ۔ مماثلت رکھتاہے اس معاملہ کے ساتھ جیسا کہ معاملہ حضرت محمد صاحب کے ساتھ اورجیسا معاملہ حضرت موسیٰ کے ساتھ ہوا۔اب چونکہ اُن کے ساتھ جو معاملہ ہوا وہ بے وقت موت کا واقعہ ہے۔۔۔۔۔۔۔

لہذا سیدنا مسیح  کے ساتھ پیش آمدہ معاملہ بھی بے وقت موت کا واقعہ قرار پاتاہے۔ پس اس مقام پر بھی مرزا صاحب سیدنا مسیح کی صلیبی موت کو تسلیم کرگئے ہیں۔

لفظ غشی کا اصل مفہوم

ایک اور لفظ ہے جس نے قادیانیوں کو مغالطہ میں ڈال رکھاہے اوروہ ہے لفظ غشی جوکہ مرزا صاحب سیدنا مسیح کی صلیبی موت کے متعلق استعمال میں لائے۔یہ سمجھنا چندا مشکل نہیں کہ لفظ غشی عربی لفظ غاشیتہ  سے نسبت رکھتاہے۔ اورلفظ غاشیتہ کے معنی قیامت ہیں۔ ملاحظہ ہو" کامران عربی اُردو لغت صفحہ ۷۰ ۔ ناشران اورینٹل بک سوسائٹی گنپت روڈ لاہور"۔

پس جبکہ لفظ غاشیتہ کے معنی قیامت ہیں توغشی جوکہ لفظ غاشیتہ کا ہی مخفف ہے"کہ معنی بھی قیامت ہی ہوئے۔لفظ غشی اگرچہ اُردو زبان میں بھی مستعمل ہے اورفارسی زبان میں بھی لیکن اس کا مادہ عربی ہے۔ یہ امر تو سب پرروشن ہے کہ غشی میں دوحالتیں پائی جاتی ہیں۔ اول موت کی سی کیفیت یعنی کامل سکتہ جوکہ موت سے مشاہت رکھتاہے۔دوم دوبارہ ہوش میں آکر اٹھ کھڑا ہونا جوقیامت سےمشابہت رکھتاہے۔ چونکہ ان ہردوحالتوں کا مجموعہ غشی سے موسوم کیا جاتاہے۔ توہم باآسانی اس نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ لفظ غشی کا ماخذ لفظ غاشیتہ ہےجس کے معنی قیامت ہیں۔ اب یہ سوال حل طلب باقی رہ جاتاہے کہ لفظ غاشیتہ  کو سیدنا مسیح کی صلیبی موت سے کیا نسبت ہے۔ سوواضح ہ وکہ لفظ غاشیتہ سیدنا مسیح صلیبی موت کے عین حسب حال ہے بلکہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ کیونکہ لفظ غاشیتہ  کے معنی قیامت ہیں۔ اورسیدنا مسیح کی صلیبی موت بھی قیام کی مثال ہے۔ اسی صورت میں دوپہلو پائے جاتے ہیں ۔ اول مرنا دوم جی اٹھنا۔ اورفی الحقیقت مسیح کی صلیبی قیامت کا ثبوت ہے۔کیونکہ جس طرح آنخداوند صلیب پر مرکے تیسرے دن زندہ ہوگئے بیعنہ قیامت کے روز مردے زندہ کئے جائیں گے۔ چونکہ سیدنا مسیح کی صلیبی موت قیامت کا نمونہ ہے۔ لہذا اسی لئے قرآن شریف نے بھی سیدنا مسیح کو قیامت کی نشانی قرار دیا چنانچہ مرقوم ہے۔   وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ    اوروہ عیسیٰ توقیامت کی نشانی ہے ۔ سورہ زخرف آیت ۶۱۔ واضح ہو کہ سیدنا مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا کوئی اتفاقیہ امر نہیں تھا بلکہ پیشنگوئیوں کے تحت تھا۔ چنانچہ زبور میں اس کے متعلق یوں مذکور ہے۔

"تونہ میری جان کو پاتال میں رہنے دے گا نہ اپنے مقدس کو سڑنے دے گا تومجھے زندگی کی راہ دکھائیگا"(زبور ۱۶)۔ مزید براں آنخداوند نے خودبھی اپنی موت سے پیشتر یہ دعویٰ کیا ابن آدم آدمیوں کے حوالہ کیا جائے یگا اوروہ اُسے قتل کریں گے اور وہ تیسرے دن زندہ کیا جائیگا"(متی باب ۱۷)۔ آیت ۲۲، ۲۳۔ مزید براں  آنخداوند نے اپنی صلیبی موت سے پیشتر اس بات کا بھی دعویٰ کیاکہ" قیامت اور زندگی میں ہوں" (یوحنا ۱۱: ۲۵)۔ پس ازروئے انجیل مقدس وازروئے قرآن شریف سیدنا مسیح قیامت کی مثال ہے۔ یہی سبب ہے کہ سیدنا مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کی ظفرمند تقریب کا نام عیدقیامت رکھا گیا ہے۔ پس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مرحوم نے جولفظ غشی مسیح کی صلیبی موت کے لئے استعمال کیا ہے اس وہ لفظ غاشیہ ہے۔ جس کے معنی قیامت ہیں۔ لہذا مرزا صاحب  کے مستعملہ لفظ غاشیہ مسیح کی مثیل قیامت صلیبی موت ہے۔ اوراس کا ثبوت کہ فی الحقیقت مرزا صاحب نے غشی کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ ذیل کے اقتباس سے ملتاہے" مگربعد اس ے مسیح صلیب پر چڑھ گیا اورشدت درد سے ایک ایسی سخت غشی میں آگیاکہ " گویاوہ موت ہی تھی" (کشتی نوح) مرزا صاحب کے یہ الفاظ کہ" گویا وہ موت ہی تھی" مرزا صاحب کی زبانی مسیح کی صلیبی موت کا اعلانیہ اقرار ہے ۔کیونکہ اس مقام پر مرزاصاحب نے غشی کی ازخود تشریح کردی ہے۔ یعنی یہ ثابت کردیاہے کہ غشی کا لفظ موت کے معنی ادا کرتاہے۔ پس مبرہن ہے کہ مرزا صاحب مسیح کی صلیبی موت کے قائل تھے۔