Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

Authenticity of the Bible According to the Koran
Allama J. N. Bhatti
September 30, 2007
Urdu

مصدق اورمھیمن

علامہ جے این بھٹی

مصدقا لما بین یدیہ من الکتاب ومھیمنا علیہ (سورہ بقرہ آیت ۵۱)۔

ترجمہ اپنے سے قبل کی کتب مقدس کی تصدیق کرتی اوران کی محافظ ہے۔

مندرجہ بالا قرآنی آیت سے جوسورہ البقرہ میں مندرج ہے ایک متلاشی کے دل کوبظاہر توتسلی اوراطمینان ہوتاہے مگرجب قرآن مجید کا مقابلہ کتب مقدسہ (توریت،زبور وانجیل) سے کیا جاتاہے جن کے لئے اسی آیت میں کہا گیا ہے "وَأَنزَلَ التَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ مِن قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ توبہت مایوسی ہوتی ہے اس لئے کہ ایک آسمانی کتاب دوسری آسمانی کتابوں کی جن کا مآخذ اورمنبع ایک ہی ہے اورجوالہام الہٰی سے ہیں نہ صرف تردید کرتی ہے بلکہ مخالفت پربھی آمادہ نظر آتی ہے۔ حالانکہ اسلام اورمسیحیت ایسے مذاہب ہیں جن کو اہل کتاب کے نام سے پکارا گیا ہے۔ جس سے یہ مراد ہے کہ یہ ایک دوسرے کے دوست اورخیرخواہ ہوں گے مگر تواریخ نے یہ ثابت کردیا ہےکہ طلوع اسلام سے موجودہ زمانے تک یہ دونوں برسرپیکار اورایک دوسرے سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اس بعد کی وجہ تنگ نظری اورکٹرپن ہے جوایک دوسرے کے نزدیک آنے سے روکتاہے۔

تفہیم القرآن کا مصنف اس مندرجہ بالاآیت کی تفسیر کرتے ہوئے یوں فرماتاہے" قرآن اورکتب سابقہ میں جوتھوڑا بہت فرق معلوم ہوتاہے وہ بھی غیر متعصبانہ غوروتامل کے بعدبآسانی ہوسکتاہے" اوریہ ممکن بھی ہے بشرطیکہ مندرجہ بالا اعتراضات کا تسلی بخش جوا معترضین کومل جائے اوروہ اعتراض یہ ہیں:

اول: آنحضرت کی رسالت اوراُسکی ضرورت

دوم: قرآن کریم کا من جانب اللہ ہونا

ان دومسائل کے حل کرنے کے لئے دونوں مذاہب کے علماء دین کوشاں ہیں۔ توبھی اسلام مسیحیت کے نقطہ نگاہ سے اورمسیحیت مسلم خیالات کے مطابق تسلی بخش نتیجے تک نہیں پہنچ سکے اس کا یہ سبب ہے کہ مسیحی طبقہ اپنی الہامی کتب مقدسہ پر ایمان رکھتاہے۔اوراس کی ساری پیشین گوئیوں پرجوپوری ہوچکی اور ہونے والی ہیں یقین کرتاہے۔ اگرکوئی بات من جانب اللہ ہو اور اس کا تذکرہ ان کی کتب مقدسہ کرتی ہوں تووہ ضرور اس کا نہ صرف یقین کرے گا بلکہ اس کے سامنے سرتسلیم خم بھی کردے گا۔ اسلام نے ان کتب سماوی میں سے کوئی ایسی پیشین گوئی بیان نہیں کیں جوصاف اورصریح ان دونوں مسائل کا حل پیش کرتی ہوں لہذا یہ کشمکش بعد کی صورت اختیارکرتی جارہی ہے۔

ہم نے ہما کےگذشتہ شمارے میں" توحید اورکلام مقدس" عنوان کا ایک مضمون شائع کیاجس پر بحث کے دوران میں یہ عرض کیا تھا کہ اگرمسلم علماء توریت اورانجیل سے لفظ" محمد" نکال کر مسیحیت کے روبرورکھ دیں تویہ جھگڑا ابدیت کے لئے طے ہوجائے گا۔اوریہ دونوں بڑے مذاہب ایک دوسرے کے ساتھ مل جائیں گے ۔مگرتاحال یہ معاملہ طے نہیں ہوا۔

اس شمارے میں ہم قرآن کریم کی صداقت اوراختیار پر اظہار خیال کریں گے اوردیکھیں گے کہ تصدیق کرنے والا مہیمناً کہاں تک اپنے دعویٰ میں صادق اوراپنی نگہداشت میں کامل ہے۔طوالت کے خوف سے ہم چند اقتباسات ہی پر اکتفا کریں گے۔

اول: کیا توریت زبور اورانجیل من جانب اللہ ہیں۔

(الف) سورہ البقرہ رکوع ۱۶آیت ۱۳۶ ۔ قُولُواْ آمَنَّا بِاللّهِ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالأسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ترجمہ: ایمان لائے ہم اللہ پر اورجوکچھ اتاری گئی ہم پر اورجوکچھ اتاری گئی ابراہیم اسحاق اوریعقوب پراوراسکی اولادسے اورجوکچھ اتاری گئی موسیٰ کو اورعیسیٰ کواورجوکچھ دی گئی پیغمبروں کوان کے رب سے نہیں فرق کرتے درمیان کسی کے اورہم اس کے مطیع ہیں(فحن مسلمون)۔

(ب) قرآن توریت اورانجیل کی تصدیق کرنے والا ہے اس لئے خودبھی سچا ہے۔(سورہ یونس ۲۸۴آیت ۔یعنی قرآن کی صداقت کا انحصار توریت اورانجیل پر ہے اگروہ کسی درجہ تک بقول معترض محرف ہیں توقرآن کی صداقت پر حرف آتاہے۔

"اورنہیں ہے یہ قرآن بنالیا جائے سوائے اللہ کے ولیکن سچا کرنے والا ہے اس چیز کا اس کے آگے ہے اور تفصیل کرنے والا ہے اس کتاب کی جس میں شبہ نہیں ہے رب العالمین سے سورہ بقرہ رکوع ۱۱،سورہ یوسف آخری آیت۔

(ج) قرآن اہل کتاب کیلئے توریت اورانجیل پر عمل کرنا واجب ٹھہراتا ہے لیکن وہ دونوں خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں المائدہ رکوع ۷ وَآتَيْنَاهُ الإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ۔

ان مقامات سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن ان کتب سماوی سے اپنا نزدیکی رشتہ بناتاہے اورآنحضرت ایک مسیحی کی طرح توریت اورانجیل کے حامی نظر آتے ہیں۔ کیا اچھا ہوتا اگریہ حالت قائم رہتی اورایک بہت بڑی جماعت مسیحیت کے جھنڈے تلے آکر نجات کی خوشی اورسیدنا عیسیٰ مسیح کے فضل میں شریک ہوتی۔ مگریہ حالت قائم نہ رہی اورتھوڑے ہی عرصہ بعد آپ اپنے وطن اورکعبہ والے دین میں یہ کہکر کہ یہ دین ابراہیم ہے شامل ہوگئے سورہ بقرہ ۱۶ وَقَالُواْ كُونُواْ هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُواْ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا یعنی کہا اُنہوں نے ہوجاؤ یہود یا نصاریٰ راہ پاؤ تم۔ کہہ بلکہ ہم ہیں دین ابراہیم حنیف پر۔

سورہ نحل رکوع ۱۶ ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ پھروحی کی ہم نے تیری طرف کہ پیروی کریں ابراہیم حنیف کی کہ وہ نہیں تھا مشرک کرنے والوں سے ۔

اگرآنحضرت کے مشاہدے میں یہود اورنصاریٰ مشرک کرتے نظر آتے تھے لیکن ان کی کتابوں یعنی توریت اورانجیل میں کوئی تعلیم شرک کی نہیں تھی توآپ کوان کتابوں کوترک نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کیونکہ غلطی توپیرووں کی تھی جس نے آنحضرت کوان کتابوں سے متنفر کردیا جن پر آپ نے بڑے شوق سے اپنے ایمان کوظاہر کیا تھا۔ ہمارے خیال میں یہ کوئی جدائ کی پختہ وجہ نہ تھی جس کے باعث آپ کا پہلان ایمان جاتا رہا۔ اسی مقام سے قرآن شریف کا یہ دعویٰ مصدقا لمابین یدیہ اپنی وقت وقار کوکھونا شروع کردیتاہے۔

غلط فہمی کا آغاز اور علیحدگی کی وجہ

حضرت امام بخاری اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ توریت والے اسے عبرانی میں پڑھتے ہیں اورعربی میں ترجمہ کرکے مسلمانوں کوسجھاتے توآنحضرت نے کہا" اہل کتاب کو نہ سچا کہو اورنہ جھوٹا بلکہ یوں کہوکہ اللہ پر ایمان لائے جوہم پر اتارا (قرآن )اورہم پر اترا (توریت) وغیرہ۔

ابن عباس نے کہا تم اہل کتاب سے کیا پوچھتے ہوتمہاری کتاب تو ابھی نئی اللہ کے پاس سے اتری ہے تم خالص اس کو پڑھتے ہو ۔ اس میں کچھ ملاوٹ نہیں ہوئی اوراللہ تعالیٰ نے تم سے فرمادیاہے کتاب والوں نے اپنا دین بدل ڈالا اوروہ اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں (ممکن ہے کسی یہودی کوطومار کی نقل کرتے دیکھا ہو) اورکہتے ہیں کہ اللہ کے پاس سے اتری ہے۔

(توریت آنحضرت سے سینکڑوں سال پہلے نازل ہوئی تھی اوراس وقت لکھنے کا سوال لازم ہی نہیں آتا تھا) مطلب یہ تھاکہ دنیا کا تھوڑا سا مول کمالیں لیکن دیکھو اللہ نے تم کوعلم دیاہے(قرآن اورحدیث) اس میں اس کی ممانعت ہے کہ تم اصل کتاب سے ان کے دین کی باتیں پوچھو۔صحیح بخاری کتاب الاعتصام صفحہ ۱۶، ۱۷)۔

کیا سچ مچ دین بدل گیا

مصدقا لمابین یدیہ اس امر کا شاہد ہے کہ نہ تو دین نصاریٰ اورنہ دین یہود میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی بلکہ یہ تبدیلی وہ بھید ہے کہ وحی قرآن نےاگرچہ اپنے کو توریت اور انجیل کا ایماندار مصدق بنایا توبھی اپنی بنیاد وزمانہ جاہلیت کے عربوں کے دستوروں اوریہودیوں اورعیسائیوں کی غیر الہامی حدیثوں اورعیسائی بدعتیوں کے خیالوں پر قائم کی اوریہ ظاہر کیاکہ اہل کتاب نے اپنا دین بدل ڈالا۔اورعربوں والا دین ابراہیم جاری کرنے کے لئے وحی کا سہارالینا پڑا اوراُنہیں قصوں کہانیوں اورحدیثوں کوجوعربوں ،یہودیوں اورعیسائیوں میں الہامی کتابوں کے علاوہ رائج تھیں سناتے رہے اوریوں استدلال فرماتے رہے کہ یہ قرآن اگلی کتابوں کا تصدیق کرنے والا اور چونکہ آپ ان تمام واقعات کے وقت حاضر نہ تھے لہذا آپ کو یہ سب وحی کے ذریعہ پہنچائی گئیں۔سورہ یوسف کروع ۱۱ کے آخر میں یوں آیاہے۔ " یہ خبریں غیب سے ہیں کہ وحی کرتے ہیں ہم تیری طرف اورتواس کے نزدیک نہیں تھا۔ "حالانکہ تمام واقعات اوربالخصوص یوسف کا احوال توریت اوریہودیوں کے طالمود میں مفصل موجود تھا کوئی غیب یا وحی کی بات نہ تھی۔

دریافت کرنے سے کیوں روکا

یہ کتب مقدسہ یہود اورنصاریٰ کے پاس تھیں ان کا ان پر نہ صرف ایمان ہی تھا بلکہ وہ اس کے حافظ بھی تھے۔ دیکھو یشوع کی کتاب ۱: ۸۔ لہذا اگرمسلمان یہودیوں اورعیسائیوں سے کوئی بات پوچھتے اوروہ ان کو بتاتے کہ فلاں بات یوں ہے یوں نہیں اورقرآن کے مبداء کا بھید معلوم کرتے جواکثر عرب کے ناخواندہ لوگوں کومعلوم نہ تھا تواندیشہ تھاکہ وہ قرآن کوترک کردیتے یہ علیحدگی اورممانعت مصلحت آمیز تھی اورمحض ضدپر مبنی تھی کیونکہ یہوداورنصاریٰ قرآن کو نہیں مانتے تھے پس اگر یہ ثابت ہوکہ:

(الف) قرآن کے مروجہ مضامین یہودیوں اوربدعتی عیسائیوں کے قصوں اورخیالوں کے اورزمانہ جاہلیت کے عربوں کے دستوروں کے زیادہ مشابہ ہیں اورتوریت اورانجیل کے بہت کم جن کوخدا کی طرف سے سچا مانا گیاہے توکیا وحی کی مداخلت سچی مانی جاسکتی ہے۔

(ب) قرآن مروجہ کے مضامین بموجب دعویٰ قرآن توریت اور انجیل کی تصدیق کرنے والے ہیں۔تواُنہیں ایک دوسرے کے مطابق ہوناچاہیے حالانکہ مطابق نہیں بلکہ برخلاف ہیں توکیا اس سے قرآن کا اعتبار کم نہیں ہوتا۔

(ج) اگرسچ مچ تصدیق کی جاتی یعنی اگرقرآن کے مضامین تواریخی اوراخلاقی اگلی کتابوں کے مشابہ ہوتے تواپنا ایک جدا دین جاری کرنے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس صورت والے مضامین توریت اورانجیل کی موجودگی میں دنیا کے لئے کیا خاص فائدہ رکھتے جوتوریت اورانجیل کوقائم رکھنے سے ہوتا (دیکھو انجیل وقرآن ازپادری جی ایل ٹھاکرداس صفحہ ۶، ۷)۔

توریت اورانجیل کی صداقت جمع آوری اورمن جانب اللہ ہونے کے متعلق مندرجہ ذیل مسلم علماء کی رائے نہیں کہ ان کا مصدقا لمابین یدیہ سورہ آل عمران آیت ۳ کے بارے میں کیا خیال ہے۔

۱۔ حقانی اپنی تفسیر جلد ثالث صفحہ ۹۳ میں یوں فرماتے ہیں ۔

تصدیق کرنا کتب اللہ کا یہ بھی بڑی بھاری بات ہے قرآن میں اورکتب سابقہ توریت اورانجیل وزبور کے مضامین مذکورہ بالا میں سرموتفاوت نہیں اورجوامورجزئیات فرعیات میں کچھ فرق ہے توبلحاظ ملک اورزمانہ ہے اس لئے کہ انبیاء ہرزمانہ میں لوگوں کے مناسب احکام میں کمی زیادتی کیا کرتے تھے۔۔۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ اس سے پیشتر خدا نے توریت اورانجیل نازل کی۔

قبلہ حقانی صاحب کی تفسیر سے ہمارا اتفاق ضرور ہے پرہم صرف یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ" کمی یازیادتی" کہاں تک کی گئی کیا یہ وقتی تقاضے اورحالت کے زیراثر ہوئی یا محض لاعلمی کی وجہ سے ۔ کیونکہ ایسے امورجن کی ضرورت نہیں رہتی دورکئے جاتے ہیں تاکہ ان کا اعادہ نہ ہو۔ جیسے سیدنا مسیح کی قربانی کے بعد جانورو ں کی قربانیاں غیر ضروری سمجھ کر روک دی گئیں مگر قرآنی واقعات کی کمی یازیادتی توبالکل پہلے احکام کی تردید ہے جسے ہم بعد میں بیان کریں گے۔

۲۔ تفسیر روفی صفحہ ۲۳۷ مصدقالمابین یدیہ۔ درحالانکہ سچا کرنے والی ہے یہ کتاب ان کتابوں کی کہ آگے اس کے ہیں یعنی توریت وانجیل وزبور سوان کے صحیفے۔ باقی رہا یہاں ایک خدشہ وہ یہ ہے بین یدیہ سے پیش مکانی نکلتی ہے یا پیش زمانی مراد ہے ۔یہ کیونکر ہوجواب اس کا یہ ہے پیشی نزول میں بمقام مستلزم پیشی زمانی ہے یعنی انزل التوارہ والانجیل من قبل اور اتاری توریت اورانجیل پہلے تجھ سے یا پہلے نزول قرآن سے۔

۳۔ تفہیم القرآن سورہ آل عمران ۳آیت۔ عام طورپر لوگ تورات سے مراد بائبل کے پرانے عہدنامے کی ابتدائی پانچ کتابیں لیتے ہیں اورنئے عہدنامہ کی چار مشہور انجیلیں اس وجہ سے یہ الجھن پیش آیت ہے۔ کیا فی الواقع یہ کتابیں کلام الہٰی ہیں اورکیا فی الواقع قرآن ان سب باتوں کی تصدیق کرتاہے جو ان میں درج ہیں۔ لیکن اصلی حقیقت یہ ہے کہ توریت بائبل کی پہلی پانچ کتابوں کا نام نہیں ہے بلکہ وہ جوان کے اندر مندرج ہے اوراسی طرح انجیل نئے عہدنامہ کے انجیل اربعہ کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ان اندر پائی جاتی ہے۔ دراصل توریت سےمراد وہ احکام ہیں جوحضرت موسیٰ کی بعثت سے لے کر ان کی وفات تک تقریباًچالیس سال کے دوران ان پر نزول ہوئے اوران میں سے دس احکام تووہ تھےجواللہ تعالیٰ نے پتھر کی لوحوں پر کندہ کرکے اُنہیں دئیے تھے ۔۔۔۔قرآن بھی ان منتشر اجزا کو توریت کہتاہے اوراُنہیں کی تصدیق کرتاہے۔ اورحقیقت یہ ہے کہ ان اجزا کوجمع کرکے جب قرآن سے ان کا مقابلہ کیا جاتاہے توبجز اس کے کہ بعض بعض مقامات پر جزوی احکام میں اختلاف ہے اصولی تعلیمات میں دونوں کتابوں میں ایک ہے جس میں سرموفرق پایا نہیں جاتا۔ آج بھی ایک ناظر صریح طورپر محسوس کرسکتاہے کہ یہ دونوں چشمے ایک ہی منع سے نکلے ہیں۔ بلکہ انجیل حضرت مسیح کے وہ ارشادات ہیں جو ان کے اندردرج ہیں ہمارے پاس ان کو پہچاننے اورمصنفیں سیرت کے اپنے کلام سے ان کو ممیز کرنے کااس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ کہ جہاں سیرت کا مصنف کہتاہے مسیح نے یہ فرمایا۔ یا لوگوں کویہ تعلیم دی صر ف وہی مقامات اصل انجیل کے اجزا ہیں اورقرآن انہیں اجزا ء کے مجموعے کوانجیل کہتاہے ۔ اوراُنہیں کی وہ تصدیق کرتاہے۔ آج کوئی شخص ان بکھرے ہوئے اجزا کو مرتب کرکے قرآن سے ان کا مقابلہ کرکے دیکھے تووہ ان دونوں میں بہت ہی کم فرق پائے گا اور جوتھوڑا بہت فرق معلوم ہوگا وہ بھی غیرمتعصبانہ غوروتامل کے بعد بآسانی حل کیا جاسکے گا صفحہ ۲۳۱ تا ۲۳۳) ہم تفہیم القرآن کے مصنف سے متفق نہیں کہ قرآں اورانجیل میں بہت تھوڑا فرق ہے۔

۳۔ مولوی محمد علی کے ترجمہ القرآن میں یہ مرقوم ہے۔

تورات اُس مجموعہ کانام نہیں جسے بائبل کہا جاتاہے۔ بلکہ توریت ان کتابوں کا نام ہے جوموسیٰ کودی گئیں۔ بائبل یا پرانے عہدنامے سے مطلب ہے توریت، زبور صحائف، انبیاء اورانجیل توریت کے اصلی معنی نور کے ہیں۔اس لئے الکتاب یعنی بائبل مقدس کونور کہا گیا ہے۔ توریت اورانجیل میں چونکہ بہت سی ایسی پیشین گوئیاں ہیں جوآنحضرت میں پوری ہوتی ہیں لہذا یہ لوگوں کے لئے راہنما ہے۔ مگرہدایت کے لئے وہ کتاب ہے جوآنحضرت پر نازل ہوئی ۔

مندرجہ بالا علماء کے خیال سے مصدقا لما بین یدیہ کا مطلب بالکل عیاں ہوگیا۔ کہ توریت اورانجیل جس صورت میں آنحضرت کی بعثت سے قبل تھیں ویسے ہی ان کے ظہور کے وقت بھی موجود تھیں۔ اورآپ کے ظہور سے قبل سینکڑوں برس پہلے یہودیوں اورعیسائیوں میں الہامی مانی جاتی تھیں خدا نے انسان کو دینداری اورعرفان الہٰی میں قائم رکھنے کے لئے اپنے بندوں کی زبانی روایتوں کے آسرے پر نہیں چھوڑا بلکہ ان کوایک فتر اپنے نبیوں کی معرفت دیا تاک وہ مستند مرجع رہے۔ چنانچہ موسیٰ جس کی معرفت توریت دی گئی تھی لکھتاہے" خداوندنے موسیٰ سے کہا اب توجااور میں تیری بات کے ساتھ ہوں اورجوکچھ توکہے گا تجھ کوسکھاؤں گا خروج کی کتاب ۴: ۱۱تا ۱۲"تب خداوند نے موسیٰ سے کہا اب توجااور یادگاری کے لئے اسے کتاب میں لکھ لے" خروج ۱۷: ۱۴ اورنبیوں کی بابت لکھا ہے۔ "اُنہوں نے اپنے دلوں کوالماس کی مانند سخت کیا تاکہ شریعت کواوراس کلام کو نہ سنیں جورب الافواج نے گذشتہ نبیوں پر اپنی رو ح کی معرفت نازل فرمایا تھا(وغیرہ زکریا ۷: ۱۲)۔

سیدنا مسیح نے بھی توریت اورانجیل کی تصدیق کی۔

"ان کے پاس موسیٰ اورانبیاء توہیں ان کی سنیں(لوقا ۱۶: ۲۹)۔

خداوند کے رسولوں کا بھی یہی ایمان تھاکہ تم ان باتوں کوجو پاک نبیوں نے پیشتر کہیں اورخداوند اورمنجی کے اس حکم کویادرکھو جوتمہارے رسولوں کی معرفت آیا تھا(۲پطرس ۳: ۲)۔

پہلے یہ جان لوکہ کتاب مقدس کی کسی نبوت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب سے خداکی طرف سے بولتے ہیں(۲پطرس ۱: ۲۰ تا ۲۱)۔

سیدنا مسیح نے اپنی زندگی کی تواریخ بھی انسانی روایتوں کے بس میں نہ چھوڑی بلکہ چشم دید گواہوں نے روح القدس کی تاثیر سے اس کو قلمبند کیا وہ زندگی بذات خود الہٰی مکاشفہ تھی۔ یوحنا کی انجیل ۱۴: ۱۰۔ ۲۵، ۲۶ رسولوں کے اعمال ۱: ۸۔ یہ انجیل سیدنا مسیح اوراُس کے کلام اورکام کا نام ہے جیسے مرقس حواری نے فرمایا " خدا کے بیٹے یسوع المسیح کی انجیل کا شروع (مرقس۱: ۱)۔

گلتیوں ۱: ۸ میں پولوس انجیل کے متعلق یہ فرماتاہے کہ

" اگرہم یا آسمان کا کوئی فرشتہ انجیل کے سوا جوہم نے تمہیں سنائی کوئی اورانجیل سنائے توملعون ہو"۔

یہ وہی انجیل تھی جوآنحضرت سے قبل اوران کے زمانے میں اور اب بھی رائج ہے۔ اوراس کو اُنہوں نے خدا کی طرف سے الہامی تسلیم کیا۔ اوریہ بھی مان لیاکہ وہ حضرت عیسیٰ پر نازل ہوئی تھی۔ گواس کے اندر جولکھا تھا چونکہ آپ اس سے ناواقف تھے اس لئے ان کی یہ تصدیق بھی برائےنام تھی۔

آنحضرت کے زمانے کے بعد سے مسلم علماء اس بات پر کہ قرآن بلحاظ وحی توریت اورانجیل پر فوقیت رکھتاہے زوردیتے آئے ہیں مگرافسوس سے یہ تسلیم کرنا پڑتاہے کہ ایک ناقد اپنی کھوج کے بعد اس برتری کونہیں پاتا۔

قرآن شریف کی ازلیت اور اُس کی برتری کی بناء

مسلمانوں کا خیال ہے کہ قرآن شریف ایسی کتاب نہیں جس کی ابتدا آنحضرت کی بعثت سے شروع ہوئی بلکہ یہ خدا کے ساتھ ازل سے چنانچہ ابوحنیفہ فرماتے ہیں۔ کلمات قرآن صحیفوں پر نقل ہونے سے پیشتر موجود تھے یعنی کائنات کی خلقت سے بھی پہلے ان کی ہستی تھی اس لئے امام اعظم اسے غیر مخلوق کہتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تمام قرآن بطور صفت الہٰی ازل سے موجود ہے اورجس طرح انسانی اعمال ازل سے لوح محفوظ پر لکھے ہوئے ہیں۔ ویسے یہ بھی لکھا ہوا تھا پھر وہاں سے آسمانی لوگوں کے ذریعہ سے منتقل ہوکر آسمان کے سب سے نچلے طبقہ پرپہنچایا گیا۔ اوروہاں سے تھوڑا تھوڑا کرکے جبرائیل علیہ السلام حضرت محمد کے پاس لائے یہی وحی ہے (یعنی ہرچیز مع الفاظ خدا کے پاس محمد کے پاس لائی جاتی تھی) آنحضرت کے اوقات وحی بہت عجیب وغریب تھے جو علامات کے ذریعہ مشاہدات میں آتے تھے ان سے پورا یقین ہوجاتا تھا کہ قرآن شریف میں کوئی غیر الہامی جزداخل ہونے میں نہیں پاتی تھی۔

صحیح بخاری کی ایک حدیث اس بات کی شاہد ہے۔

حضرت عائیشہ سے مروی ہے کہ جب قرآن شریف کی پہلی سورت" العلق" آپ پر نازل ہوئی توحارث بن ہشام نے آپ سے دریافت کیاکہ آپ پر وحی کیسے آتی ہے۔آپ نے جواب دیا کبھی گھنٹی کی آواز کی طرح اورکبھی فرشتہ انسان کی صورت میں آکر مجھ سے بات چیت کرتاہے اورجب آپ معراج پر لے جائے گئے توخدا آپ سے ہمکلام ہوا بہر کیف آپ کے حواس بشری میں تبدیلی واقع ہوتی توآپ یا توبے ہوش ہوجاتے یاوجد میں آجاتے اس حالت میں وحی آپ اترتی تھی پھرہوش میں آکر وہ آیت آپ لوگوں کوسنادیتے لوگ اسے سفید پتھروں یا کھجور کے پتوں پر لکھ لیتے یاحفظ کرلیتے اسلام میں وحی یا الہام کاسب سے اعلیٰ تصور یہی ہے۔ اس طرح کے اسلامی الہام کی وجہ سے مسلم علماء کے سامنے یہ دقت پیش آئی کہ قرآن سے ان عارضي دقتی اورنجی واقعات کوحقیقی اورالہٰی واقعات سے علیحدہٰ کیا جاسکے تاکہ محدود کالامحدود کے ساتھ شریک ہونے سے بچائے کیونکہ ایسے واقعات سورہ احزاب ۔جنگوں کے معاوضے غنیمت کے مال کی تقسیم زیدوزینب کا واقعہ اوردیگر واقعے وقتی تقاضے ہیں جو ضرورت کے بعد ختم ہوجاتے ہیں جومخلوق اورمحدود ہیں خدا کی ازلی اورزندہ صفات کے ساتھ ملائے نہ جائیں کیونکہ یہ شرک اورکفر ہوگا لہذا اُنہوں نے قرآن کو دوحصوں میں تقسیم کردیا (دیکھئے خیالات معتزلہ القرآن صفحہ ۷ مصنفہ سیل)

اول عارضی

دوم ازلی

اب ایسی تقسیم ایک دم جنسیت غير مخلوقیت یا قدامت کوغائب کردیتی ہے اس سے نہ تنزیل قائم رہتی ہے اورنہ وحی کی ضرورت ۔لہذا یہ ماننا پڑتاہے کہ الہام افضل ہے نہ کہ تنزیل وحی کیونکہ

(۱۔) تنزيل کا اصول معنی اورمطالب سے قطع نظرکرکے الفاظ کی طرف راغب کرتاہے اورمقصد وسیلہ اوروسیلہ مقصد بن جاتاہے۔

(۲۔) ملہم شخص کی تمام منزلت اورقدرضائع ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ایسے الہام میں نہ اس کی سمجھ اورنہ اس کی کسی اورطاقت کوحصہ ملتاہے لہذا وہ شخص ملہم کسی گراموفون یا ٹیت ریکارڈ سے بہترین ہوتا جس سے الہٰی مقاصد کا درست استعمال کیا جاسکے۔ لہذا روح محفوظ غیر مخلوق اوروحی کے مسلم خیال سے خدا اپنے مقاصد کوبراہ راست بنی نوع انسان کے روبرو پیش نہیں کرسکتا اورنہ ملہم اپنی سمجھ اورعقل سے خدا کے ارادوں کی ترجمانی کرسکتاہے۔ خدا کا شکر ہوکہ مسیحی ایسی وحی کا قائل نہیں۔

کتب مقدسہ اور مسیحیوں کا اعتقاد

توریت کتب مقدسہ کا وہ مجموعہ ہے جس کو یہودی ربیوں نے اس طرح تقسیم کیا۔

اول: شریعت یعنی موسیٰ کی پانچ کتابیں ۔

دوم: صحائف انبیاء جن میں تواریخی کتابیں بھی شامل ہیں جن کوانبیاء نے لکھا۔

سوم:صحائف مقدسہ" کتبیم" جن میں مزامیر اوردوسری مقدس کتابیں،نظمیں یا امثال شامل ہیں۔ ان تمام کتابوں پر نبیوں نے الہام محمول کیا اورجس قسم کا الہام اُنہوں نے ان کتابوں کیلئے مانا وہ نہایت ہی اعلیٰ درجےکا تھا۔فیلو صاحب جوایک مسیحی عالم ہوئے ہیں وہ ان کتابوں کومخلوق کہتے ہیں مگران کے الہام کا منبع خدا ہے اوریہ الہام ملہم اشخاص تک پہنچایا گیا اوران سے الہامی کتابوں کی شکل میں ظاہر ہوا اس کی اُنہوں نے تین قسمیں بتائی ہیں۔ جوحسب ذیل ہیں۔

الہام کی وضاحت اور تشریح

(۱۔) جب نبی خدا کے مترجم کی طرح بولتاہے اس صورت میں خدا اورانسان میں کامل تطابق ہے۔

(۲۔) اس صورت میں ملہم خدا سے اورخدا ملہم سے خطاب کرتاہے ۔

(۳۔) جس صورت میں نبی شخصی طورپر خود کہتاہے مگرجوکچھ کہتاہے روح الہٰی کی ہدایت سے کہتاہے۔

فیلو صاحب کے خیال کے مطابق خدا کےا لفاظ(خیال) الہام کا وسیلہ ہیں۔ اسی طرح دوسرے ربیوں نے الہام کے ہر وسیلہ کوکہ جس کا ذکر توریت میں ہے۔(فرشتہ ،روح، آواز وغيرہ) سیمرہ یعنی کلمہ یہود کے نام سے نامزد کیا ہے یوں قدیم ربیوں کے بیان کے مطابق تمام صحیفے یکساں طورپر الہامی ہیں اورخدا تمام الہامی کتابوں کا منبع ہے اورسب اسی کا کلام ہے۔مگراس صورت میں الہام میں صفائی کے ساتھ فرق ماننا چاہیے ۔ کیونکہ یہ عقل تسلیم نہیں کرتی کہ پاک صحیفے کا ہر لفظ یکساں طورپر الہامی ہے اسلئے کہ

(۱۔) یہ انسانی تعلیم ہے۔ خدا نے صفائی کے ساتھ یہ نہیں سیکھایا کہ اس کی مکمل تابعداری کی جائے۔

(۲۔) اس سے خدشہ یہ ہے کہ بجائے نفس تعلیم کے حرفوں کی پرستش ہونے لگتی ہے۔

(۳۔) اس سے الہٰی الہام ان حادثات کے تحت میں آجاتے ہیں جن کا نسخوں کے نقل کرنے کے دوران میں ہونے کا امکان ہے۔

نیزوہ الہام کے مطالب کی ترتیب کواورواضح اورصاف کرتے ہیں۔

اول۔ وہ کتابیں جہاں خدا لوگوں سے خاص کر متکلم ہے۔

دوم۔ وہ مقامات جہاں انسان کا خدا سے خطاب ہے۔

سوم۔ وہ کتابیں جہاں ملہم انسانی صرف خدا اوراس کے لوگوں اوراسکی دنیا کی بابت بناتے ہیں۔

خود کتابِ مقدس اس طرح کے الہام کولاثانی بناتی ہےجیسے اس نے موسیٰ اورایلیاہ سے کلام کرتے وقت بلند اورہلکی دبی سی آواز کواستعمال کیا۔علیٰ ہذا لقیاس یہ تسلیم کرنا پڑتاہے کہ خدا کا روح نہ صرف ان کتب مقدسہ کا مصنف ہے بلکہ ایڈیٹربھی ہے۔

انجیلِ مقدس کا الہام

یہ اظہر ہے کہ انجیل جس الہام کا دعویٰ کرتی ہے وہ اس الہام سے جس کا دعویٰ قرآن کرتاہے بالکل مختلف ہے انجیل کی مذکورہ کتاب پہلی صدی کے مختلف زمانوں میں لکھی گئی ہے سب سے آخری غالباً یوحنا کی تحریر ہے جو ۱۰۰ء کے قریب یا سیدنا عیسیٰ مسیح کی موت کے ستر برس بعد لکھی گئی (۱) مگریہ مانا جاچکاہے کہ مسیح اورمحمد صاحب کے درمیان چھ صدیوں کے دوران میں اس موجودہ انجیل کےسوا جوعہد جدید کہلاتی ہے کوئی اورمسیحی کتاب الہامی مانی نہیں جاتی تھی۔

(۲۔) کسی اورکتاب کی موجودگی کا جوالہامی انجیل مانی جاتی تھی یاکسی ایسی کتاب کا جو۶۲۳ء کے بعد گم ہوگئی ہے ذرا بھی ثبوت بہم پہچانے کا چلینج کسی نے بھی منظور نہیں کیا۔

(۳۔) تمیتھس۳: ۱۶ ہرایک صحفیہ جوالہام سے ہے تعلیم اورالزام اوراصلاح اورراستبازی میں تربیت کرنے کیلئے فائدہ مند بھی ہے۔

مکاشفہ ۲۲: ۱۸ میں ہرایک آدمی کے گناہ جواس کتاب کی نبوت کی باتیں سنتاہے گواہی دیتاہوں کہ اگرکوئی آدمی ان میں کچھ بڑھائے توخدا کی اس کتاب میں لکھی ہوئی آیتیں اس پر نازل کرے گا۔ اوراگرکوئی اس نبوت کی کتاب کی باتوں میں سے کچھ نکال ڈالے توخدا اس زندگی کے درخت اورمقدس شہر میں سے جن کا اس کتاب میں ذکر ہے اس کا حصہ نکال ڈالے گا۔

اول ۔ لہذا مسیحی اس خیال کےبالکل حامی نہیں کہ انجیل ایک ایسی کتاب ہے جومسیح سے قدیم ہے اورمسیح اوراس کے حواریوں پر نازل ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ تعلیم نہ صرف غیر ضروری بلکہ فضول اورخطرناک ہے صرف خودنبیوں کومختلف صورتوں اور طریقوں میں الہامی ہونامان لیناکا فی ہے۔ اوریوں نفس مطلب کا الہامی ہونا خود اس سے آپ ہی ظاہر ہوجاتاہے۔

دوم۔ انسان پر الہٰی مکاشفہ کوایسا محدود سمجھنا کہ کتاب کے اندرجمع ہوسکے نہ صرف غیر ضروری بلکہ خدا کی شان کے لائق بھی نہیں ہے اور خدا اس با ت کی نگہداشت بھی کرتاہے کہ ادنیٰ اورغیر ضروری بات تحریر میں نہ آجائے۔

سوم۔ اس لئے انجیل کے حروف پر اس کے معنی کے علاوہ بہت زوردینا کہ اگرکوئی لفظ تلف ہوجائے تومکاشفہ ادھورا ہوجاتاہے ایک غیر ضروری اورفضول بات ہے۔

علاوہ ازیں انجیل مقدس کے لاتعداد نسخے ہیں جس سے اس کی صحت اورصداقت کا اندازہ ہوتا رہتاہے لیکن قرآن کے سب نسخے بجز ابن سعود اورحضرت علی کے نسخوں کے حضرت عثمان نے جلوادئیے۔ صرف اپنا تیار شدہ نسخہ رائج کیا۔ اورمقابلہ کا سوال ہی مٹاڈالامسیحی جماعت کا سب سے بڑا الہام یا مکاشفہ خود سیدنا عیسیٰ مسیح ہے جوخدا کا کلمہ اوراس کا کلام اورمظہر ہے دنیا اسی کے وسیلہ سے پیدا ہوئی ۔ وہی ابتدا اورانتہا ہے(یوحنا کی انجیل ۱: ۱تا ۴آیت)۔

مندرجہ ذیل موازنہ سے ناظرین خود ہی اسی نتیجے تک پہنچ جائیں گے کہ قرآن اورانجیل وتورات میں کون سا کلام الہامی ہے اورکس میں ردوبدل ہواہے۔

حقانی صاحب کا کہناہے قرآن اورکتب سابقہ توریت اورانجیل وزبور کے مضامین مذکورہ بالا میں سرموتفاوت نہیں۔ تفہیم القرآن کے مصنف کا یہ خیال ہے کہ توریت موسیٰ کی پانچ کتابیں ہیں اورانجیل سے مراد نئے عہدنامہ کی پہلی چار انجیل ہے۔ ان دوعلماء کے خیال سے ہم مندرجہ بالا اقتباسات پیش کریں گے جس سے مصدقا لمابین یدیہ ومھیمنا کاوہ مطلب جوقرآن کہتاہے نہیں نکلتا۔

اب ذرا ان قرآنی تصدیق کے دعویٰ کے متعلق ملاحظہ کریں ۔

سورہ المائدہ رکوع ۷آیت ۵۱ وانزلنا الیک الکتب بالحق مصدقا لما بین یدیہ من الکتاب ومھیمنا علیہ۔ اورہم نے کتاب برحق تمہاری طرف اتاری جوکہ کتابیں اس سے پہلے ہیں اُن کی تصدیق کرتی اور ان کی محافظ ہے۔

سورہ یونس رکوع ۶آیت ۳۷ وَلَـكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لاَ رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے ہیں یہ ان کی پروردگار عالم کی طرف سے تصدیق ہے تفصیل کتابوں کی یوں کی گئی ہے۔

سورہ یوسف رکوع ۱۲آیت ۱۱۱ ۔مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَـكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ یہ قرآن کوئی بنائی ہوئی کتاب تو ہے نہیں بلکہ اس سے پہلے ہیں ان کی تصدیق کرتاہے۔

ان آیات سے ظاہر ہے کہ قرآن کے نزول کی غرض یہ نہ تھی کہ سابقہ کتب مقدسہ کومنسوخ یا برطرف کرے اورنہ ان کے خلاف کچھ کہے بلکہ ان کی تصدیق اورحفاظت کرے۔

اب توریت کا سب سے پہلا واقعہ یہ ہے۔

اسلام اورمسیحیت پرروشن ہے کہ آدم نے اس درخت کا پھل کھانے سے جس کے لئے خدا نے اسے منع کیا تھا گناہ کیا وہ کون سا مقام تھا جہاں آدم اوراُسکی جوروحوا اس گناہ کے مرتکب ہوئے۔ توریت اس کے بارے میں یہ بیان کرتی ہے کہ (پیدائش ۲باب ۸سے ۱۷)۔اورخدا نے عدن میں پورب کی طرف ایک باغ لگایا اورآدم کوجسے اُسنے بنایا تھا وہاں رکھا اورخداوند خدا نے ہردرخت کوجودیکھنے میں خوشنما اورکھانے میں خو ب تھا اورباغ کے بیچوں بیچ حیات کے درخت اورنیک وبد کی پہچان کے درخت کوزمین سے اگایا اورعدن سے ایک ندی باغ کوسیراب کرنے کو نکلی اوروہاں سے تقسیم ہوکر چار سر ے نہروں کے بنے پہلی کا نام فیسون ہے جوحویلہ کی ساری زمین کو جہاں سونا ہوتاہے گھیرے ہوئے ہے۔ اوراس زمین کا سونا چوکھا ہے اوروہاں موتی اورسنگ سلیمانی بھی ہیں۔ اوردوسری ندی کا نام جیحون ہے جوکوش کی ساری زمین کوگھیرے ہوئے ہے۔ اورتیسری ندی کا نام دجلہ ہے جواسور کے مشرق کوجاتی ہے اور چوتھی ندی کا نام فرا ت ہے۔ اورخداوند خدا نے آدم کو حکم دیا اورکہا کہ توباغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھاسکتاہے ۔ لیکن نیک وبد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تونے اُسے کھایا تومرا"۔

پیدائش ۳باب کی ۶آیت۔ عورت نے جودیکھاکہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اورآنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتاہے اورعقل بخشنے کے لئے خوب ہے تواُسے کےپھل میں سے لیا اورکھایا اوراپنے شوہر کوبھی دیا اور اُسنے کھایا"۔

پیدائش ۳: ۲۲ اورخداوند خدا نے کہا دیکھو انسان نیک وبد کی پہچان میں ہم سے ایک کی مانند ہوگیا۔اب کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھائے اورحیات کے درخت سے بھی کچھ لے اورکچھ کھائے اورہمیشہ جیتا رہے اس لئے خداوند خدا نے اس کو باغ عدن سے باہر کردیاکہ زمین کی جس میں سے وہ لیا گیا تھاکھیتی کرے۔

اوّل: باغ عدن جس میں خدا نے آدم کورکھا تھا اسی زمین پرتھا۔ بڑے بڑے دریاؤں کے نام دئیے ہوئے ہیں ۔یعنی ہیدیکل جوٹیگرس اورفرات بہت مشہور ہیں اورآج تک موجود ہیں اورزمین کوش آج تک مشہور ملک ہے اوراسوریا بہت صدیوں تک مشہور ملک رہا ان دریاؤں کے نام جوباغ عدن سے نکلے اور ان ملکوں کے نام صفائی سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ باغ عدن زمین پر تھا اوراس میں درخت ممنوعہ کے پھل کوکھانے سے گناہ سرزد ہوا۔

دوم:وہ درخت جس سے آدم نے پھل کھایا وہ نیکی اوربدی کی پہچان کا درخت تھا (نہ کہ حیات کا درخت) کیونکہ جب آدم نے اس نیکی اوربدی کی پہچان کے درخت سے پھل کھالیا جس کے لئے اسے منع کیا گیا تھا توخدا نے اسے باغ عدن سے نکال دیا تاہو نہ ہو وہ حیات کےدرخت سے بھی کچھ کھالے۔

یہ دونوں واقعات ازروئے الہام موسیٰ پر نازل ہوئے جس نے توریت لکھی اور واقعہ منسوخ نہیں ہوتا۔ اب کیوں کر قرآن ان دونوں واقعات کی تصدیق کرتاہے کہ وہ توریت میں سے تبدیل نہ ہوجائیں۔

سورہ بقرہ رکوع ۴آیت ۳۴تا ۳۶۔

جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے آگے جھکو توشیطان کے سوا سب جھک پڑے اس نے نہ مانا اورشیخی میں آگیا اورنافرمان بن بیٹھا اورہم نے کہا اے آدم تم اورتمہاری بی بی باغ میں بسو اوراسی میں جہاں کہیں تمہارا جی چاہے بافراغت کھاؤ پیو مگراس درخت کے پاس مت بھٹکنا ورنہ تم اپنا نقصان کروگے پس شیطان نے ان کووہاں سے اکھاڑدیا جس حالت میں تھے اس سے ان کونکلوادیا۔ اورہم نے حکم دیاکہ تم اترجاؤ تم ایک دشمن ایک اورزمین میں تمہارے لئے ہروقت تک ٹھکانا اورسازوسامان ہے۔

سورہ الاعراف ع ۲۔ ۳آیت ۔ ۱۸، ۱۹، ۲۲، ۲۴، ۲۶۔

اے آدم تم اورتمہاری بی بی بہشت میں رہو۔۔۔۔۔۔ اورتمہارے رب نے جودرخت کی مناہی کی ہے توہو نہ ہو اس کا سبب یہ ہے کہ تم دونوں فرشتے نہ ہوجاؤ۔یا تم دونوں ہمیشہ کو جیتے نہ رہو۔۔۔۔۔ اورلگے بہشت کے پتوں کواپنے اوپرچپکانے ۔۔۔۔۔تم کوایک خاص وقت تک زمین میں رہنا ہوگا ۔۔۔۔ اوراے بنی آدم شیطان تم کو بہکانہ دے ۔۔۔۔اورتمہارے والدین کوبہشت سے نکلوادیا۔

سورہ طہ رکوع ۷ آیت ۱۲۱، ۱۲۲، ۱۲۴، ۱۲۵، ۱۲۸۔

۔۔۔۔۔ایسا نہ ہو کہ تم دونوں کو بہشت سے نکلواباہر کرے۔۔۔شیطان نے آدم کو پھسلایا اورکہا کہ آدم کہو تم کوہمیشگی کا درخت بتلادوں۔۔۔۔ اوراُنہوں نے اس سے کھایا اوران کے پردے کی چیزیں ننگی ہوگئیں اورلگے باغ بہشت کے پتے اپنے اوپر چپکانے ۔

اب غور فرمائیں ۔ قرآن کی مندرجہ بالا آیات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ باغ جس میں آدم گناہ کا مرتکب ثمر ممنوعہ کے کھانے سے ہوا زمین پر نہ تھا بلکہ بہشت میں اورجس میں درخت کاپھل آدم نے کھایا حیات کا درخت تھا اب کیونکر قرآن توریت میں خدا کی باتوں کی تصدیق کرتاہے جس میں خدا کی طرف سے موسیٰ کوصدیوں قبل محمد بتلایا گیا تھا کہ باغ عدن میں آدم نے گناہ کیا زمین پر تھا اوردرخت جس سے اُس نے کھایا نیکی اوربدی کی پہچان کا درخت تھا اب قرآن اس جگہ بجائے تصدیق کے تردید کرتاہے اوران دونوں حقیقتوں کوجوموسیٰ کودی گئیں بدل دیتاہے کیا مصدقا لما بین یدیہ کا مطلب یہی ہے۔

اب ان پانچ کتابوں میں ایک اور واقعہ پیش کرتے ہیں۔

نوح اوراس کے بیٹوں کا واقعہ پیدائش ۶باب ۹تا ۱۰آیت۔

نوح کا تولد نامہ یہ ہے نوح اپنی قرنوں میں صادق اورکامل تھا اورنوح خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا اوراس سے تین بیٹے سام۔ حام اوریافت پیدا ہوئے۔ اس جگہ خدا نے ایک واقعہ کی خبردی اورموسیٰ نے اسکوتوریت میں درج کیا۔ طوفان کے تھوڑے ہی عرصہ پہلے خدا نے نوح کوفرمایاکہ مع اپنے خاندان کے کشتی میں سوار ہو۔

پیدائش ۷: ۷" اورخدا نے نوح کوفرمایا تواورتیرا گھرانہ کشتی میں سوار ہو"۔ جوحکم خداوند کی طرف سے نوح کو ملا اس نے اس کی پیروی کی اوراپنے خاندان سمیت کشتی میں سوار ہوگیا۔

پیدائش ۷: ۱۳ اوراسی دن سام اورحام یافت نوح کے بیٹے اورنوح کی جورو اس کے تینوں بیٹوں کی جوروئیں ان کے ساتھ کشتی میں داخل ہوگئیں۔

ان آیات سے ظاہر ہے کہ نوح کے تین ہی بیٹے تھے اورتوریت سےجوموسیٰ پر الہام سے نازل ہوئی یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان تینوں بیٹوں کے علاوہ نوح کے کوئی اوربھی بیٹا ہے یہ بالکل اچنبھا ہے کہ قرآن سورہ ہود ۴۰آیت میں نوح کے ایک بیٹے کا جوکشتی میں داخل نہ ہوا ذکر کرتاہے۔ نوح نے اسے پکارا کہ بیٹا ہمارے ساتھ بیٹھ لے اورکافروں میں شامل نہ ہووہ بولا میں کسی پہاڑ کے سہارے لگ جاتا جومجھ کوطوفان کے پانی سے بچالیگا۔ دوسروں کے ہمراہ نوح کا بیٹا بھی غرق آب ہوگیا"۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نوح کا ایک چوتھا بیٹا بھی تھا جوکافرتھا اورڈوب گیا۔ کیا یہ توریت کے واقعے کی تصدیق ہے؟

اختصار کوملحوظ رکھتے ہیں ہم توریت کے بے شمار واقعات میں سے جن کی قرآن تصدیق نہیں تردید کرتاہے صرف دس واقعات کا ذکر کریں گے۔

(۱۔) باغ عدن زمین پر تھاقرآن کہتاہے کہ نہیں باغ عدن بہشت میں تھا۔

(۲۔) توریت کہتی ہے آدم نے نیکی اوربدی کے پہچان کے درخت سے کھایا۔ قرآن کہتاہے نہیں اُس نے حیات یا ہمیشگی کے درخت سے کھایا۔

(۳۔)توریت میں لکھا ہے نوح کے صرف تین ہی بیٹے تھے۔ قرآن کہتاہے نوح کے چار بیٹے تھے۔

(۴۔) توریت کہتی ہے فرشتوں نے ابراہیم کا تیار کیا ہوا کھاناکھایا ۔پیدائش ۱۸: ۷تا ۸۔

قرآن کہتاہے اُنہوں نے نہیں کھایا۔ سورہ ہود رکوع ۷ آیت ۶۹تا ۷۰۔

(۵۔)توریت کی روسے یوسف نے اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان کیاپیدائش ۳۷: ۹ تا ۱۰۔

قرآن کہتاہے نہیں اس کے باپ نے انہیں بتانے سے منع کیا سورہ یوسف رکوع ۱آیت ۳۔

(۶۔) توریت کہتی ہے جس کنوئیں میں اُنہوں نے یوسف کو ڈالا وہ اندھا کنواں تھا۔ قرآن کہتاہے نہیں اس میں پانی تھا۔

(۷۔) توریت کہتی ہے موسیٰ نے جلتی ہوئی جھاڑی اُس وقت دیکھتی جب وہ سسر شعیب یاتیرو کے ہاں ملازم تھا اوراکیلا تھا (خروج ۳: ۱تا ۴۔ اورخروج ۴: ۱۸ تا ۲۰)۔ کیونکہ جلتی جھاڑی کے مشاہدے کے بعد اپنے سسر کے پاس لوٹ آیا اورجانے کے لئے اجازت چاہی۔

قرآن کی رو سے ۔موسیٰ اپنی ملازمت پوری کرکے رخصت ہوچکا تھا اورتنہا نہیں بلکہ اپنے عیال واطفال کے ہمراہ تھا اورمصر کوجارہا تھا(سورہ قصص رکوع ۴آیت ۲۹)۔

(۸۔) توریت فرماتی ہے دوسری تکرار جس میں موسیٰ نے مداخلت کی وہ عبرانیوں کے درمیان ہوئی خروج کی کتاب ۲: ۱۳تا ۱۴)۔

قرآن کہتا ہے نہیں دوسری تکرار عبرانی اورمصری کے درمیان ہوئی سورہ قصص رکوع ۲آیت ۱۸تا ۱۹۔

(۹۔) توریت میں درج ہے کہ موسیٰ کے سسر شعیب یایترو کی سات بیٹیاں تھیں(خروج ۲: ۱۶)۔

مگر قرآن کہتاہے اس کی دوبیٹیاں تھیں۔(سورہ القصص رکوع ۳آیت ۲۳)۔

(۱۰۔) توریت میں مذکور ہے کہ شریعت جوبنی اسرائیل کو دی گئی وہ ویسے ہی تھی جیسے کہ پہلی دوتختیوں پر مرقوم تھی(خروج ۳۴: ۱تا ۴)"پرخداوند نے موسیٰ سے کہا کہ اپنے لئے پہلی دولوحوں کے مطابق دولوحیں پتھر کی تراش لے اورمیں اُن لوحوں پر وہ باتیں جوپہلی لوحوں پر تھیں جنہیں تونے توڑڈالا لکھونگا"۔۔۔۔۔۔ اوراُس نے اس عہد کی باتیں وہ دس حکم لوحوں پر لکھے۔

قرآن کہتاہے کہ یہ شریعت مکمل نہیں کیونکہ یہ ان ٹوٹی ہوئی تختیوں کے ٹکڑوں سے فراہم شدہ تھی۔(سورہ الاعراف ع ۹آیت ۱۵۴)۔

اب ناظرین خود ہی فیصلہ کریں کہ اس واقعات میں مصدقا لمابین یدیہ کہاں تک صادق ہے۔

اب قرآن کی اس تردید اورمخالفت کے بعدہم انجیل مقدس کے چند واقعات پیش کرتے ہیں جہاں یہ تصدیق اپنے مخالفت کی انتہائی درجہ پر ہے۔

سورہ آل عمران ع ۱آیت ۳۔ ۴۔ وَأَنزَلَ التَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ مِن قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَأَنزَلَ الْفُرْقَانَ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِآيَاتِ اللّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَاللّهُ ہدایت کے لئے توریت اورانجیل اتاری ۔۔۔۔۔ جولوگ خدا کی آیتوں سے منکر ہیں بیشک ان کوسخت عذاب ہوگا۔

سورہ حدید ع ۲آیت ۱۸ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ جولوگ ہماری آیتوں سے انکار کرتے ہیں اورجھٹلایا کرتے ہیں یہی لوگ دوزخی ہیں۔

اب یہ دعویٰ کہ انجیل بدل گئی یا کھوگئی ہے سراسر غلط اورقرآن کے دعویٰ اورتعلیم کے خلاف ہے کیونکہ اسی پر ایمان لانے کے لئے تمام اہل اسلام کوحکم دیا گیا ہے اورکہا گیاہے کہ یہ خدا کے الہام سے ہے اسے قبول کرو اگریہ سچ نہ ہوتا توقرآن کا یہ دعویٰ کہ وہ اُن کتب مساوی کا محافظ اورمصدق ہے سراسر بے بنیاد ہوتا۔

لیجئے اب ذرا اس تصدیق کی خود تصدیق فرمائیے۔

زکریا کا احوال اور یوحنا اصطباغی کا پیدائش کا واقعہ

مقدس لوق کی انجیل ۱: ۱۸، ۲۶، ۳۹، ۴۰ ، ۵۶ ، ۶۴ ان ایات کی تلاوت سے مندرجہ ذیل واقعات پر روشنی پڑتی ہے۔

اول جبرئیل فرشتے نے پیش خبری کی کہ زکریا فرزند موعود کی پیدائش تک گونگا رہے گا۔

دوم ۔ زکریا جبرائیل فرشتے کے جانے کے بعد ہی گونگا ہوگیا۔

سوم۔ زکریا کا گونگا پن یوحنا کی پیدائش اورختنہ کے روز تک جار رہا۔

چہارم۔ فرشتے کے ظہور اوریوحنا کی پیدائش کا درمیانی وقفہ ۹ماہ کا تھا۔

(۱۔) مگرسورہ آل عمران رکوع ۴آیت ۳۷تا ۳۰ تک قَالَ آيَتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ إِلاَّ رَمْزًا ۔

(۲۔) سورہ مریم رکوع ۴آیت ۱۰ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا توبرابر تین دن لوگوں سے بات نہ کرے گا۔ یہی جبرائیل قرآن کا پیغامبر ہے اور انہیں نے زکریا کویہ خوشخبری سنائی کہ وہ ۹ ماہ تک گونگا رہے گا اورقرآن میں وہ بھول جاتاہے کہ اس نے زکریا سے کیا کہا تھااورفوراً ۹ ماہ کوتین دن میں تبدیل کردیتاہے تاکہ قرآن صادق ٹھہرے۔

سیدنا مسیح کی زندگی سے متعلق واقعات

(الف) حضور المسیح کی پیدائش مقدس کنواری مریم کومسیح کی پیدائش کی خبرناصرت میں جہاں وہ رہتی تھی دی گئی۔ اب ذرا دیکھئے کہ قرآن اس الہامی کلام کو جبرائیل نے مریم بتولہ کودیا کس طرح تصدیق کرتاہے۔

سورہ آل عمران آیت ۳۶ وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقاً   قرآن کہتاہے کہ مقدسہ بتولہ یروشلیم میں زکریا کی کفالت میں رہتی تھی۔

مفسرین جلال الدین اوربیضاوی کا یہ کہنا ہے کہ مقدسہ مریم زکریا کی کفالت میں کردی گئی تھی جس نے ہیکل میں اس لئے ایک حجرہ بنادیا تھااوراُن کی ضروریات پہنچا یا کرتا تھا۔

سورہ مریم رکوع ۲آیت ۱۶۔ ۱۷۔ ۱۹(ترجمہ) اورکتاب میں مریم کا مذکور کرکہ جب وہ اپنے لوگوں سے الگ ہوکر پورب رخ ایک جگہ جابیٹھیں اورلوگوں کی طرف سے پردہ کرلیا توہم نے اپنی روح جبرائیل کوان کی طرف بھیجا اوروہ اچھے خاصے آدمی کی شکل بن کر ان کے روبرو آکھڑا ہوا۔۔۔ کہا کہ میں پس میں تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا ہوں اس لئے کہ تم کوپاک طعینت لڑکا دوں۔

سورہ آل عمران ع ۵آیت ۴۴ إِذْ قَالَتِ الْمَلآئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ۔

اب بشارت حضرت مریم کو ازروئے قرآن اس وقت ملی جب آپ یروشلیم میں تشریف رکھتی تھیں مگرانجیل مقدس کے بیان کے مطابق جوجبرائیل ہی نے ان کوبتایا وہ ناصرت میں سکونت پذیر تھیں ناصرت یروشلیم سے شمال مشرق کی جانب سات میل کی دوری پر ہے (ملاحظہ کریں اوران دونوں پیغامات کا دینے والا جبرائیل ہے)۔

(ب) سیدنا مسیح کی جائے پیدائش ۔لوقا کی انجیل ۲: ۶تا ۷)۔ حضور کی جائے ولادت بیت لحم کے گاؤں کی سرائے کی کوئی چرنی ہے)۔

اورجب وہ وہاں پر تھے (یوسف اورمریم) توایسا ہوا کہ اس کے جننے کا وقت آپہنچا اوروہ پہلوٹھا بیٹا جنی اوراس کو کپڑے میں لپیٹ کرچرنی میں رکھا کیونکہ اس کے واسطے سرائے میں جگہ نہ تھی۔

اب ذرامصدقا لمابین یدیہ کی تفسیر سنیئے۔

سورہ مریم رکوع ۲آیت ۲۳ فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّا ۔ یعنی ان کو حمل رہ گیا اورحمل لے کر کسی دور کے مکان میں ہوبیٹھیں پھر دردزہ نے ان کو کھجور کے تنے کی طرف لے گیا۔

اب اس قرآنی بیان کے مطابق سیدنا مسیح کسی کھجور کی جڑ کے نزدیک پیدا ہوئے۔ مگرالہام جوانجیل مقدس میں موجود ہے اُنکی پیدائش بیت لحم میں بیان کرتاہے (اس کی شہادت بیت لحم میں موجود ہے) یہ اس لئے بھی صادق ہے کیونکہ میکاہ ۵: ۲ کے مطابق ہے جوسیدنا عیسیٰ کی پیدائش سے پانچ سوسال پہلے کی ایک پیشین گوئی ہے۔ اب اس جگہ صادق کون ہے۔

سیدنا مسیح کی موت

انجیل مقدس میں سیدنا مسیح کی موت کی بہت ہی اہمیت اورفضیلت اس لئے بخشی گئی ہے کہ آپ کی آمد کا مقصد اورمدعا ہی یہی تھا۔ تمام رسول اس واقعہ کا بالتفصیل اپنی اپنی انجیل میں ذکر کرتے ہیں اوراس کے ساتھ تواریخی ثبوت بہم پہنچاتے ہیں اُنہوں نے سب سے لمبا حصہ یا بڑے بڑے ابواب اسی ماجرے کے بیان میں لکھے ہیں۔ اس واقعہ کا تذکرہ رسول پولوس بھی اپنے خطوں میں بیان کرتاہے ۔رومیوں ۵: ۶۔۔۔ "توعین وقت پر مسیح بے دینیوں کی خاطر موا"۔

لوقا کی انجیل ۲۳: ۴۶ اورجب یسوع بڑی آواز سے چلایا اے باپ میں تیرے ہاتھوں میں اپنی جان کوسونپتا ہوں۔ یہ کہا اورجان دے دی اب قرآن اس الہٰی الہام کوجوخداوند کی پیدائش سے سات سوسال پہلے یسعیاہ کے ۵۳ باب میں تفصیل سے مذکور ہے یو ں تصدیق کرتاہے۔ سورہ نساء رکوع ۲۲آیت ۱۵۷تا ۱۵۸۔ وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَل ُوهُ يَقِينًا بَل رَّفَعَهُ اللّهُ إِلَيْهِ اوریقیناً ان کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے ان کو اپنی طرف اٹھالیا۔

اب قرآن کا یہ وہ مقام ہے جہاں تمام الہام ربانی پیشن گوئیاں اورشہادتیں ٹھکرائی گئی ہیں اوراس کی وجہ لاعلمی اورغفلت ہے۔۔۔۔مقابلہ کریں سورہ مریم ع ۱آیت ۱۵۔ اس جگہ یوحنا کے لئے ایک برکت کا ذکر ہےجوزکریاہ کوسنائی جاتی ہے۔ یعنی وسلمہ علیک یوم ولد ویوم موت یوم یبعث حیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ (۱) یوحنا پیدا ہونے والا تھا(۲) اورمرنے والا تھا(۳) اوربعد موت زندہ کھڑا ہونے والا تھا۔

سورہ مریم ع ۲آیت ۳۴ سیدنا مسیح کی سوانح عمری بیان کرنے کے بعد لکھا ہے ذَلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ یہ ہے عیسیٰ ابن مریم کی سچی سچی بات جس میں لوگ جھگڑا کرتے ہیں۔ اب غورکریں یہ سچی سچی بات کیاہے۔

سورہ مریم رکوع ۲آیت 33 وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا یعنی مجھ پرخدا کی امان جس دن پیدا ہوا اورجس دن میں مروں گا اورجس دن زندہ کھڑا کیا جاؤں گا۔

اب یہ برکت کے الفاظ حضرت عیسیٰ کے خود فرمائے ہوئے ہیں اورسچی سچی بات کہتے ہیں توپھر تصدیق کرنے والا گواہ یہ خبرکہاں سے لے آتاہے؟ممکن ہے یہ امر ذیل کے حوالے سے کچھ صاف دیکھے سورہ آل عمران ۶آیت ۵۳، ۵۴۔

"یہودنے داؤ کیا اوراللہ نے داؤکیا اورداؤ کرنے والوں میں اللہ بہتر ہے (داؤ کے لئے لفظ مکراستعمال کیا گیا ہے)۔۔۔۔اللہ نے کہا اے عیسیٰ دنیا میں تمہاری رہنے کی مدت پوری کرکے ہم تم کو اپنی طرف اٹھالیں گے اورکافروں سے پاک کریں گے۔ اس لفط متوفیک ورفعک الی الفاظ ہیں جسورہ النساء کے بیان کے مطابق نہیں۔ اب یہاں ایک بیان دوسرے کی تردید کرتاہے۔ اب غورفرمائیں کہ اس بیان نے کچھ مختلف ہے کتنا فتنہ پیدا کردیا۔ کیونکہ

(۱) یہ بیان یہودیوں مسیحیوں کے دشمن تھے ان کی روایات کے بھی خلاف ہے۔

(۲۔) یہ بیان بت پرست مصنفین کے بیان کے بھی خلاف ہے جویہود اورانصاری دونوں کے خلاف تھے۔ مثلاً ( Tacitus) ٹیسٹس رومی مورخ یوں لکھتاہے" اس نام مسیحی کا مبتدا شخص نام خرس طوس جوشہنشاہ طرباس کے عہدسلطنت میں پنطوس پیلاطس کی حکومت میں موت کا سزا یاب ہوا۔ (دختر ۱۵ باب ۴۴)۔

(۳۔)عیسیٰ نہیں ہوا ان تمام نبوتو ں کے بھی خلاف ہے جوالہام کے ذریعہ سے توریت،زبور میں مسیح موعود کی بابت درج ہوئی ہیں۔

یہ موسیٰ کے بیان کے بھی خلاف ہے(پیدائش ۳: ۱۵۔)۔

یہ داؤد کی باتوں کے بھی خلاف ہے(زبور ۱۱۶: ۱۰۔

یہ یسعیاہ نبی کی تحریر کے بھی خلاف ہے۔(یسعیاہ ۵۳: ۸تا ۱۲)۔

(۴۔) یہ بیان کہ عیسیٰ یعنی مسیح نہیں ہوا جوعیسیٰ کے بیان کے بھی خلاف ہے۔

سورہ آل عمران ۵ آیت ۴۳۔ جب فرشتوں نے کہا اے مریم خدا تم کو اس کلمے کی خبردیتاہے اس کا نام مسیح ہوگا وہ دنیا اورآخرت دونوں میں روداراور خدا کے مقربین میں سے ہے۔

مشکوات المصابیح باب الحوض الشفاعت جلد ۴ میں لکھاہے۔

مگر موسیٰ کہے گا جاؤ عیسیٰ کے پاس جو خدا کا بندہ اوراُسکا رسول اورخدا کی روح اوراس کا کلمہ ہے۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ کیا روح اللہ اورکلمتہ اللہ نعوذباللہ جھوٹ بولے گا اب وہ الفاظ سنئے جومسیح کی زبانی انجیل میں درج ہیں۔

متی ۱۴: ۴۰ جیسے یونس تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا ویساہی ابن آدم (یسوع) تین دن تین رات زمین کے اندر رہیگا۔

متی ۲۰: ۱۷ تا ۱۹ ابن آدم سردار کاہنوں اورفقیہوں کے حوالے کیا جائے گا اوروہ اس کو قتل کا حکم دیں گے اوراسے غیرقوموں کے حوالے کریں گے تاکہ اسے ٹھٹھوں میں اڑائیں اور کوڑے ماریں اورصلیب پرچڑھائیں اوروہ تیسرے دن زندہ کیا جائے گا۔

متی ۲۶: ۱تا ۲۔ اورابن آدم مصلوب ہونے کوپکڑوایا ہی جائے گا۔

مرقس ۸: ۲۱ اوروہ قتل کیا جائے اور تین دن کے بعد وہ جی اٹھے ۔

لوقا ۲۳: ۴۳۔ اس نے چور سے کہا۔ آج ہی تومیرے ساتھ فردو س میں ہوگا۔

یوحنا ۱۹: ۲۵۔ کیا یہ ممکن تھاکہ وہ مسیح کا ہمشکل جوصلیب پر تھا یوحنا کوایسے الفاظ کہتا اوروہ مریم کوجوسیدنا مسیح کی والدہ تھیں اپنے گھر لے جاتا۔ کیا ایک ماں اپنے بچے کوپہچان بھی نہ سکے۔

(۵۔)سورہ النساء کا یہ بیان کہ مسیح نے مرا رسولوں اورمسیح کے شاگردوں کے بیان کے بھی خلاف ہے۔

دیکھئے ان رسولوں کے متعلق قرآن کیا کہتاہے۔

سور ہ آل عمران ع ۵آیت ۵۱ خدا کی راہ میں مددگار(من انصاریٰ الی اللہ)۔

سورہ صف ع ۳ آیت ۱۴  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُونوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ اے مومنو اللہ کے مددگار رہو جیسے کہ مریم کے بیٹے عیسیٰ نے حواریوں سے کہا تھا کون ہے جوخدا کی طرف میرے مددگار ہیں حواری بولے ہم خدا کے مددگار ہیں۔

اب یہ وہ لوگ ہیں جن کو انصار کہا گیاہے۔ اب انکی شہادت وقعت اورفخر کے ساتھ قبول کرنی واجب ہے۔

اب ملاحظہ کریں کہ یہ مسیح کی موت کے متعلق کیا کہتے ہیں۔

(الف) متی کی انجیل ۲۶: ۱، ۲، ۴۷۔ ۲۷: ۲۶، ۳۱، ۳۵، ۵۰ اس جگہ متی رسول فرماتے ہیں کہ کیونکہ یسوع پر فتویٰ دیا گیا اورمصلوب کیا گیا۔ کوڑے لگواکر اسے صلیب دینے کے لئے لے گئے اسے صلیب پر چڑھاکر اس کے کپڑے بانٹ لئے۔۔۔۔یسوع نے چلاکر جان دیدی۔

(ب)مقدس یوحنا کی انجیل ۱۸باب ، ۱۹: ۶، ۱۶، ۱۷ ۔

جیسے ہم اوپر ذکرکرآئے ہیں کہ جس نے مصدقا لما بین یدیہ کا دعویٰ توکیا مگر توریت سے سب مقامات کی تردید ہی کرنا رہا بعینہ انجیل کے مشہور مقامات کی بھی بجائے تصدیق کے تردید کرتاہے جو بہت عجیب سی بات دکھائی دیتی ہے۔ مندرجہ ذيل واقعات ملاخظہ ہوں۔

(۱۔) زکریا کے گونگے ہونے کی بابت

(۲۔)سیدنا عیسیٰ کی پیدائش کی خبر کی بابت

(۳۔) سیدنا عیسیٰ کی جائے پیدائش کی بابت

(۴۔) سیدنا عیسیٰ کی موت کی بابت

یہ سب الہامی واقعات اورخدا کی طرف سے نشانیاں ہیں جن کو کبھی جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

سورہ الحدید ۱۹آیت   وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ۔

سورہ آل عمران آیت ۴ " إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِآيَاتِ اللّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۔

اب ان آیا ت کے لحاظ سے کون أَصْحَابُ الْجَحِيمِاور عَذَابٌ شَدِيدٌ کا مستحق ہے وہی جو خدا کی آیات کوتبدیل کرتاہے اوراس کی جگہ اپنے خیالات اورتوہمات کودرج کرتاہے۔

اب ہم اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ توریت، زبوراورانجیل خدا کے الہام سے ہیں اوران میں کسی قسم کی تحریف واقع نہیں ہوئی اورجیسے آنحضرت کی آمد سے قبل یہ من جانب اللہ تسلیم کی جاتی تھیں اب بھی ان کی عزت اوروقعت ویسی ہی ہے۔ کسی حاسد کے بدلنے یا کم وبیشی کرنے سے اس پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا اس لئے کہ یہ کلام خدا ہے جوبرحق اورلاتبدیل ہے۔

دیکھو سورہ یونس ع۷ آیت ۶۳ لاَ تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللّهِ یعنی خدا کی باتوں میں ذرا بھی فرق نہیں آتا۔

اب قرآن کا یہ کہنا کہ وہ مصدقا لما بین یدیہ وانزل التوارہ والانجیل من قبل ھدی للناس کا مصداق اورمحافظ ہے ہمارے خیال میں یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔

اب اگرالزام تحریف یہود اورنصاریٰ پر محض اس عائد کیا جاتاہے کہ قرآن کی صداقت عیاں کی جائے تویہ بھی سراسر بے بنیاد کیونکہ ابن معذر، ابن ابی حاتم، ابن مینا کےبیانات سے زیادہ معتبر کسی اور مفسر کا بیان نہیں۔یہ علماء اورمفسر کسی تحریف لفظی کے قائل ہیں اوراگرزمانہ حال کا کوئی مفسر تحریف لفظی کا دعویٰ کرے تووہ فخر الدین رازی اورمحمد اسماعیل بخاری جیسے علماء کی تردید کرتاہے (کن معنوں میں قرآن مسیحی کتب مقدسہ کا مصدق اورمحافظ ہے از ڈاکٹر عماد الدین لاہز اپنی کتاب پندرہ لکچر صفحہ ۲۳ میں الہام کے متعلق یوں فرماتے ہیں :

" الہام ایسی تاثرات روح پیدا کرتاہے جوغلط اورصرف عقلی خیال سے پیدا نہیں ہوسکتیں ۔ مثلاً باطنی پاکیزگی خدا کی حضوری کا احساس ، حقیقی نسلی ، زندہ ایمان اورامید ،حقیقی خوشی کا بیعانہ جوصحیح عرفان کا پہلا پھل ہے۔ دلاوری خدا کی اطاعت کردہ وغیرہ۔

یہ وہ باتیں ہیں جو کتاب مقدس (بائبل ) سے بنی نوع انسان کوملتی ہیں اوروہ ہدایت کے لئے تیار ہوتا جاتاہے۔