|
Last Supper of the Savior of the World And it’s Significance بقلم جناب علامہ برکت اللہ صاحب ایم۔ اے By Rev. Allama Barakat Ullah 1st Time Published in March 20st 1963 |
منجئی کونین کی آخری فسح کی رات کا ذکر چاروں اناجیل میں پایا جاتاہے۔لیکن اس رات کے کھانے کوخاص اہمیت دی گئی ہے۔ کیونکہ اس رات کھانے کے وقت پاک عشائے ربانی کی رسم کی ابتدا کی گئی تھی۔ چنانچہ انجیل مرقس میں وارد ہواہے " اُس (حضرت ابن اللہ ) نے روٹی لی اور اُنہیں دی اورکہا لو۔ یہ میرا بدن ۔۔۔۔ پھر اُس نے پیالہ لیا اوراُن سے کہا کہ یہ عہد کا میرا خون ہے جوبہتیروں کے لئے بہایا جاتاہے"(مرقس ۱۴: ۲۲تا ۲۴)۔ انجیل متی میں ہے" یسوع نے روٹی لی ۔۔۔اورکہا یہ میرا بدن ہے ۔ پھر پیالہ لے کر ۔۔۔۔کہا یہ عہد کا میرا وہ خون ہے جوبہتیروں کے لئے گناہ کی معاف کے واسطے بہایا جاتاہے(متی ۲۶: ۲۶تا ۲۸)۔انجیل لوقا میں ہے " اُس نے روٹی لی ۔۔۔۔ اورکہا یہ میرا بدن ہے جوتمہارے واسطے دیا جاتاہے ۔ میری یادگاری کے لئے یہی کیا کرو۔ اسی طرح کھانے کے بعد پیالہ دیا اورکہا یہ پیالہ میرے اُس خون میں نیاعدہ ہے جوتمہارے واسطے بہایا جاتاہے" (لوقا ۲۲: ۱۷تا ۲۰)۔ مقدس پولوس رسول بھی لکھتاہے کہ" یسوع نے روٹی لی ۔۔۔۔اورکہا کہ یہ میرا بدن ہے جوتمہارے لئے ہے۔ میری یادگاری کے لئے یہی کیا کرو عشاء کے بعداُس نے پیالہ بھی لیا اورکہا یہ پیالہ میرے خون میں نیاعہد ہے جب کبھی پئیو ، میری یادگاری کے لئے یہی کیا کرو(۱کرنتھیوں ۱۳: ۲۵)۔
مقدس یوحنا پانچ ہزار کوکھلانے کے معجزہ کا ذکر کرتاہے(جوچاروں انجیلوں میں مندرج ہے۔ متی ۱۴: ۱۳تا ۲۰۔ مرقس ۶: ۳۲تا ۴۱۔ لوقا ۹: ۱۰ تا ۱۷۔ یوحنا ۶: ۱تا ۱۴۔ ظاہر ہے کہ تمام انجیل نویس اس معجزہ کو خاص اہمیت دیتے ہیں ۔ اوراُس کو سیدنا مسیح کی خالقیت کا نشان قرار دیتے ہیں۔ بالفاظ مقدس یوحنا یہ معجزہ آیات اللہ میں سے تھا جس کا قرآن میں بھی اشارہ پایا جاتاہے (سورہ مائدہ ۱۱۲تا ۱۱۵)۔
اس معجزہ یا نشان (آیت) کے عین بعد مقدس یوحنا حضرت کلمتہ اللہ کا ایک مکالمہ درج کرتاہے جو اس معجزہ کی روشنی میں نہایت معنی خیز ہوجاتاہے اورآخری فسح کے کھانا کی یاددلاتاہے۔ مقدس یوحنااس معجزہ کوبیان کرتے ہوئے لفظ " شکر" کا ذکرکرتاہے۔ جو"یوخرسٹ" یا عشائے ربانی کی یادتازہ کرتاہے۔جس کا مفہوم اس مکالمہ (۶باب) میں موجود ہے۔ یہ مکالمہ عشائے ربانی کی روٹی اورشیرہ انگور کی تفسیر اورتاویل ہے جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ سیدنا مسیح زندگی کی روٹی ہے جوایماندارلوگوں کی روح کی غذا ہے اورکہ آنخداوند خود اُس قوت کا منبع اورسرچشمہ ہیں جواس خوراک کوکھانے سے پیدا ہوتی ہے اورجس سے ہم خدا کی اورمخلوقِ خدا کی خدمت کرسکتے ہیں ۔روٹی محض اس قوت کا ایک ظاہری اوربیرونی نشان ہے ۔ جوخود باطنی اور اندرونی ہے اوریہی لفظ " سیکرامنٹ کا اصل مفہوم ہے۔
انجیل یوحنا کے چھٹے باب میں جومکالمہ درج ہے وہ درحقیقت ایک اورمسلسل مکالمہ نہیں ہے بلکہ مقدس یوحنا اس مقام میں ایک سے زيادہ مکالمات کا خلاصہ جمع کردیتاہے جواس موضوع پر مختلف اوقات میں مختلف موقعوں پر آنخداوند کی زبانِ معجز بیان سے نکلے تھے لیکن قرائن سے ظاہر ہے کہ یہ اوقات ( ) کوکھلانے کے وقت سے بہت دوُر کے عرصہ کے نہیں کیونکہ آیت ۵۹ میں آیاہے کہ" یہ باتیں اس نے کفرنحوم کے ایک عبادت خانے میں تعلیم دیتے وقت کہیں"۔ اس مکالمہ کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں وہی تعلیم موجود ہے جو آخری فسح کی شب کو دی گئی تھی۔ (لوقا ۲۳ باب۔ یوحنا ۱۴، ۱۵باب)۔ کیونکہ مقدس یوحنا نے اس تعلیم کو باب ۶ کے اس مکالمہ میں شامل کرلیا ہواہے۔ چنانچہ اُس کے مرتب کرنے کے طریق سے ظاہر ہے کہ اول۔ یہاں چند مکالمات کویکجا کرکے اُن کا خلاصہ لکھ دیا گیا ہے اور دوم۔ جس طرح انجیل متی کے باب ۵ "پہاڑی وعظ" کلمتہ اللہ کی اخلاقیات کو یکجا اکٹھا کردیا گیاہے اورباب ۱۳ میں تماثیل کویکجا کردیا گیا ہے اُسی طرح مقدس یوحنا نے پانچ ہزار کو کھلانے کے معجزے کے بعد ابن اللہ کے بالاخانہ کی تعلیم کے چند حصوں کواس مکالمہ میں شامل کردیا ہے۔ بالخصوص وہ الفاظ جومقدس لوقا نے آیت ۱۹ اور ۲۰ میں جمع کئے ہیں۔ اس نکتہ کی روشنی میں ہم کو یہ پتہ چل جاتاہے کہ آپ کے یہودی شاگرد ۶: ۵۲تا ۵۹۔ کے الفاظ کی وجہ سے کیوں جھگڑنے لگے" اورچلا اٹھے" کہ ان کو کون سن سکتاہے؟اوربہتیرے الٹے پھرگے(آیات ۶۰ ۔ ۶۱)۔ مقدس یوحنا کی انجیل کے اس مقام میں حضرت ابن اللہ فرماتے ہیں" میں تم کو صاف صاف ایک حقیقت بتلاتاہوں کہ جب تک بم ابن آدم کا گوشت نہ کھاؤ اوراس کا خون نہ پیو تم میں زندگی نہیں جو میرا گوشت کھاتا اورمیرا خون پیتا ہے۔ہمیشہ کی زندگی اُسی کی ہے۔۔۔کیونکہ میرا گوشت فی الحقیقت کھانے کی چیز اورمیرا خون فی الحقیقت پینے کی چیز ہے جومیرا گوشت کھاتا اور میرا خون پیتا ہے وہ مجھ میں قائم رہتاہے اورمیں اُس میں۔۔۔۔ جومجھے کھائے گا وہ میرے سبب سے زندہ رہے گا ۔۔۔۔۔ جو یہ روٹی کھائے گا وہ ابد تک زندہ رہے گا(۶: ۵۳ تا ۵۸)۔
۲
عشائے کی رسم کومقرر کرنے کے ذکر میں مقدس لوقا اور مقدس پولوس " یادگاری" کا ذکربھی کرتے ہیں کیونکہ جب لوقا نے یہ انجیل لکھی تھی (۵۰ء) اورپولوس رسول نے خط(۵۰ء) اُس وقت تک عشا کی یادگاری ایک رسم ہوچکی تھی (اعمال ۲: ۴۶، ۷، ۱۱ وغیرہ) اورتمام مسیحیوں کے دلوں اوردماغوں میں ان کے منجئی کی صلیبی موت کی یادر ازسر نو تازہ ہوجاتی تھی۔ گومقدس یوحنا بالاخانہ کے کھانے کے موقعہ پر باب ۱۳ میں دیگر انجیل نویسوں کی طرح عشائے ربانی کے مقرر ہونے کا ذکر نہیں کرتا تاہم جیسا مذکورہ بالا الفاظ سے ظاہر ہے وہ تینوں انجیل نویسوں کی مانند اس مکالمہ میں اس بات پر زوردیتاہے کہ جو " میرا گوشت کھاتا اورمیرا خون پیتاہے وہ مجھ میں قائم رہتاہے اورمیں اُس میں ۔۔۔جومجھے کھائے گا وہ میرے سبب سے زندہ رہے گا۔۔۔جویہ روٹی کھائے گا وہ ابد تک زندہ رہے گا(آیت ۵۶ تا ۵۹) اسی حقیقت کوپھر باب ۱۵ میں واضح کردیا گیا ہے جہاں ابن اللہ فرماتے ہیں "انگور کی حقیقی بیل میں ہوں تم ڈالیاں ہوجومجھ میں قائم رہتاہے اورمیں اس میں وہی بہت پھل لاتاہے۔۔۔تم میری محبت میں قائم رہو" بالفاظ دیگرہم مسیح کی زندگی اپنے باطن میں لے لیتے ہیں ایسا کہ رسول مقبول کے الفاظ ہم پر صادق آتے ہیں کہ" اب میں زندہ نہیں بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے"(گلتیوں ۲: ۲۰) چنانچہ مقدس اگنیشیئس بھی کہتاہے " جب ہم ایمان میں نونبو ہوجاتے ہیں تویہی محبت مسیح کا خون ہے"۔بشپ لائٹ فٹ بھی لکھتاہے" گوشت وہ ایمان ہے جومسیحی زندگی کا اصل جوہر ہے اور خون وہ محبت ہے جوایماندار کے رگ وریشہ میں جاری اورساری ہے"۔
۳
مقدس یوحنا اپنی" روحانی" انجیل میں اُس روٹی کو جودورانِ عبادت استعمال کی جاتی ہے کوئی جادویا منتر خیال نہیں کرتا تاکہ کوئی لفظ " بدن" یا " گوشت" کا غلط مفہوم اخذ نہ کرلے۔اس نکتہ کو ہم آگے چل کر واضح کردیں گے۔ یہ مصنف خدا اُس عمل اورقاعلیت کو (Activity) جوکائنات میں رکن ہے۔ اس سیکرامنٹ سے جُدا نہیں کرتا۔ وہ اس فاعلیت کومسیحی زندگی کی " معموری" سے بھی علیحدہ نہیں کرتا اورنہ اس فاعلیت کوالگ نوع کی فاعلیت قرار دیتاہے(۱: ۱تا ۱۸)۔جس تصور کو مسیحی کلیسیا " حقیقی حضوری (Real Presence) کہتی ہے وہ ایک حقیقت ہے لیکن مقدس یوحنا کے مطابق وہ ایسی حقیقت ہے جوبے نظیر اوربے عدیل نہیں کیونکہ جس طرح کلمتہ اللہ روٹی اور شیرہ انگور میں موجود ہے ویسا ہی وہ کائنات کی ہر شے میں عامل اورموثر ہے(۱: ۲۔ ۵۔ ۱۰: ۱۴)۔ روٹی اورشیرہ عبادت سے پہلے بھی پُرمعنی ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت سعدی کہتے گئے ہیں۔
برگ درختاں درنظر ہوشیار
ہرورق دفتر یست ازمعرفت کردگار
کائنات کی ان اشیاء (روٹی اورشیرہ) جوکلمتہ اللہ کے ذریعہ خلق ہوئیں۔سیدنا مسیح اپنی ہمہ جاحضوری اورفاعلیت کے اظہار کا ظہور اوروسیلہ بناتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور درست ہے کہ انسانی الفاظ الہٰی فضل کے اس وسیلہ کے مقصد ومعافی کی گہرائی تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ سیدنا مسیح کی یہ حضوری اورفاعلیت نہ صرف کائنات کی اشیا میں ظاہر ہے بلکہ کلیسیا بھی اسی اظہار کا ظہور اوروسیلہ ہے جس کے باعث انجیل جلیل میں کلیسیاکو" خداوند کا بدن" کہا گیا ہے۔ پس ہم کو عشائے ربانی کے سیکرامنٹ کو کائنات کی دیگر اشیا سے الگ قسم کا نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ یہ تقسیم اور جدائی غیر فطرتی ہے۔ جس کی وجہ سے بعض اس سیکرامنٹ کو جادو اورمنتر خیال کرنے کی غلطی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مقدس یوحنا ابن اللہ کے گوشت اورخون کوجادو اورمنتر قرار نہیں دیتا۔ اس کے برعکس وہ لکھتاہے کہ کلمتہ اللہ نے فرمایا" زندہ کرنے والی توروح ہے۔ گوشت سے کچھ فائدہ نہیں جوباتیں میں نے تم سے کہیں ہیں وہی روح ہیں اورزندگی بھی ہیں(آیت ۶۳)۔ یہ فقرہ گوی چھٹے باب کی تعلیم کا خلاصہ اورنچوڑ ہے۔
۴
کلمتہ اللہ اس مکالمہ میں فرماتے ہیں " زندگی کی روٹی میں ہوں جومیرے پاس آئے وہ ہرگز بھوکا نہ ہوگا اورجومجھ پر ایمان لائے وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا"۔ ارامی زبان کی اس صنعت کا ذکر (جو اس آیہ شریفہ میں ہے) ہم اپنی کتاب "قدامت وصحت اناجیل اربعہ کی دوسری جلد(حصہ پنجم باب ۲) میں کر آئے ہیں جس میں فقرہ کی ساخت "۔۔۔۔۔نہ ۔۔۔۔نہ ۔۔۔" ہوتی ہے۔ اس سے ارامی زبان میں مراد مطلق نہی کی ہوتی ہے جس کو اردو ترجمہ میں الفاظ" ہرگز " اور " کبھی" سے ادا کیا گیا ہے۔ سیدنا مسیح کا مطلب یہ ہے کہ جو آپ پر ایمان لاتاہے اُس کے لئے روحانی بھوک اورپیاس کی حالت ناممکنات میں سے ہوجات ہے۔ اس کو کامل اوراکمل طورپر آرام قلب اورچین واطمینان حاصل ہوجاتاہے (متی ۱۱: ۲۸)۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری کتاب الصلوات میں یہ آیہ شریفہ عشا لینے سے پہلے پڑھی جاتی ہے تاکہ مومنین " زندگی کی روٹی " سیدنا مسیح کے گوشت اور خون" کو اپنے دلوں کی تسلی اورچین کا وسیلہ بنائیں۔ جب ہم ایمان کے ذریعہ مسیح کی محبت کے دھیان میں غرق ہوجاتے ہیں توہم اُس کے مشابہ ہوجاتے ہیں اورمشابہ ہوکر ہم ابدی زندگی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ہم ایمان کی زندگی کے وسیلہ اپنی کوششوں سے ابدی زندگی حاصل نہیں کرتے کیونکہ ایمان کی زندگی نہ صرف خدا کا عطیہ ہے بلکہ وہ خود ابدی زندگی ہے اورسیدنا مسیح اس کے حصول کا وسیلہ اورذریعہ ہیں وہ " زندگی کی روٹی " ہے۔ جب ہم زندگی کے مالک" اپنے زندہ آقا ومولا کو اپنی رحوں میں لیتے ہیں توو ہ ہماری روح کی زندگی ہوجاتاہے جوروٹی ابن اللہ جہاں کی زندگی کے لئے دیتاہے وہ اُس کا گوشت ہے (آیت ۵۱)۔ جوشخص یہ روٹی کھاتاہے وہ اسی زندگی میں ابدیت پالیتاہے۔(آیت ۵۹)۔
۵
جب سیدنا مسیح کے صاحبہ کرام نے الفاظِ بالا کو سنا تواُن میں اتنی عقل توتھی کہ وہ اُن کو مرد خوری پر محمول نہ کریں ان کی پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان تمثیلی الفاظ کے حقیقی مفہوم نہ سمجھے تھے۔ پس سیدنا مسیح آیات ۵۳ تا ۵۸ میں اپنے ماضی الضمیر کو واضح فرما کر کتاب تورات استشنا کی آیت (۱۲: ۲۳)۔ کی جانب اشارہ کرتے ہیں جہاں لکھا ہے کہ قربانی کے جانور کا خون نہ کھانا کیونکہ خون ہی اُس کی جان اورزندگی ہے جو قربانی کی موت کے وقت اُس کے جسم سے نکل جاتی ہے تاکہ خدا کی نذر ہو، خداوند نے فرمایا میں اپنا گوشت اورخون جومیری زندگی ہے اپنی صلیبی موت سے برمناورغبت خود (۱۰: ۱۵۔ ۱۸)۔ جہان کی زندگی کے لئے دوں گا"۔ اس سے زيادہ کوئی محبت کوئی شخص نہیں کرسکتا کہ وہ اپنا خون یعنی اپنی جان اوراپنے دوستوں کے لئے دیدے"۔
اس صلیبی موت کی " یادگاری" میں جوشخص اس آسمانی روٹی اورشیرہ انگور کو (جومیرے گوشت اورخون یعنی میری زندگی اورجان کے ظاہری نشان ہیں) کھاتا اورپیتاہے۔ وہ میری اس زندگی کے سبب اسی طرح زندہ رہے گا جس طرح میں باپ کے سبب زندہ ہوں۔ ایسا ایماندار میری زندگی اپنے اندرپاکر مجھ میں قائم رہے گا اور میں اس میں قائم رہونگا ۔ میں اُنگور کی بیل ہوں۔ تم ڈالیاں ہوجومجھ میں قائم ہے اورمیری زندگی اُس میں سرایت کرتی ہے توہی بہت پھل لاتاہے جیسے باپ نے مجھ سے محبت رکھی ویسے ہی میں نے تم سے محبت رکھی۔ تم میری محبت میں قائم رہو (۵باب)جوسیدنا مسیح میں"قائم" رہتہے اورمسیح کی زندگی جس ایماندار میں سرایت کرتی ہے وہ " ہروقت اپنے بدن میں سیدنا مسیح کی موت لئے پھرتاہے جو یہ آسمانی روٹی کھاتاہے۔ وہ اپنے اندر قربانی اورایثار کی روح (مسیح کا گوشت) کھال کے طورپر لے لیتاہے اورجومسیح کی آسمانی قربانی کی یادگاری میں اس ک خون کا اظہار نشان(انگور کا شیرہ) پیتاہے وہ اس ایثار کی زندگی میں ایسی زندگی پالیتاہے جومسیح کی سی زندگی ہے جودنیا، شیطان اورموت پر غالب آکر خدا کی زندگی میں وصل ہوکر اس میں ایک ساتھ ہوجاتی ہے۔ اس قسم کی زندگی وہ الہٰی بخشش ہے جس کے بغیر ہم میں کوئ " زندگی نہیں" (آیت ۵۳)۔
۶
پس پاک عشا کی عبادت میں جو ہم روٹی کھاتے ہیں وہ مادی روٹی ضرور ہوتی ہے لیکن وہ ایسی فانی روٹی نہیں ہوتی" جوہمارے باپ دادا نے کھائی اورمرگئے" بلکہ فانی روٹی مسیح مصلوب کی زندگی اورموت کی یادگاری کےساتھ مربوط اورمتلازم ہونے کی وجہ سے گویا" آسمانی روٹی " ہوجاتی ہے۔ وہ " حقیقی روٹی جوباپ آسمان سے دیتاہے کیونکہ خدا کی روٹی وہ ہے جوآسمان سے اُتر کر دنیا کو زندگی بخشتی ہے۔ اُنہوں نے اُس کو کہا ۔ اے خداوند یہ روٹی ہم کوہمیشہ دیاکر"(آیات ۳۲تا ۳۵)۔ سیدنا مسیح نے فرمایا " فانی روٹی کے لئے محنت نہ کرو" کیونکہ وہ چند روزہ ہے اورعارضی طورپرجسمانی بھوک کومٹاتی ہے۔ ابن اللہ" وہ روٹی ہے" جودنیا کو ابدتک زندگی بخشتی ہے"(آیت ۲۳) عبادت عشائے ربانی کے دوران وہ محض فانی روٹی رہی رہتی ہے لیکن اگریہ فانی روٹی وسیلہ بن کر ہم کو سیدنا مسیح کی موت اور زندگی میں واصل کردیتی ہے۔ تب یہی فانی روٹی آٹےکی روٹی ہم کو غیر فانی زندگی سے فصل کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے ایساکہ اس کو کھائے گا " وہ ہر گز بھوکا نہ ہوگا اورجومجھ پر ایمان لائے گا" ۔ وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا(آیت ۳۵)۔ علیٰ ہذا القیاس جوانگور کا شیرہ ہم پاک عشا کی عبادت میں پیتے ہیں وہ فانی ہے جوایک وسیلہ بن کر ہم کو سیدنا مسیح کی موت اورزندگی میں واصل کردیتاہے۔ اسی واسطے اس نے اس رسم کو" نیاعہد" یا " وصل" کہاہے۔
اگرہم عبادت کے دوران میں سیدنا مسیح کی زندگی (خون دیکھو استشنا ۱۲: ۲۳) اپنے اندر لیتے ہیں اوروہ ہم میں سرایت نہیں کرتی تووہ محض فانی انگور کا شیرہ ہی رہ جاتاہے "جوکوئی اُس میں سے پیتاہے وہ پھر پیاسا ہوگا (۴باب آیت ۱۳) لیکن اگرہم اس فانی شیرہ کو سیدنا مسیح کی زندگی حاصل کرنے کاذریعہ بنالیں توسیدنا مسیح فرماتے ہیں کہ " جو کوئی اس میں سے پیتا ہے میں اُسے دوگا وہ ابد تک پیاسا نہ ہوگا بلکہ وہ اس میں ایک چشمہ بن جائے گا جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے جاری رہے گا"(۴: ۱۳تا ۱۴)۔ اورجب ہم عبادت میں سیدنا مسیح کے گوشت (ایمان) اورخون (محبت کی زندگی ) پاکر سیر ہوجاتے ہیں تو" ہم خودجانتے ہیں کہ ابن اللہ دنیا کامنجی ہے(۴: ۴۲)۔ اورمنجئی کی زندگی ہمارے رگ وریشہ میں سرایت کرجاتی ہے۔
۷
سیدنا مسیح کے کلامِ صداقت نشان سے واضح ہے کہ پاک عشا کی عبادت میں فانی روٹی اورفانی انگور کا شیرہ ہمیشہ فانی اشیاء رہتی ہیں جوروٹی اورشیرہ ہم کھاتے پیتے ہیں وہ فانی اورفانی اورمادی ہی رہتی ہیں اُن کی ذآت اورجوہر اورصفات وغیرہ میں کسی قسم کی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی۔ ان فانی اشیاء کا جوہر ذات بدل کر کسی پُراسرار طریقہ سے مسیح کا بدن اورخون نہیں بن جاتا۔ ان فانی اشیاء کی ذا ت وہی رہتی ہے جوعبادت سے پہلے تھی۔ ان میں نہ کوئی عارضی اورنہ کوئی مستقل اورنہ کسی اورقسم کی تبدیلی پیدا ہوتی ہے بلکہ ان فانی اشیاکے استعمال سے انسان کے دل تبدیل ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ سیدنا مسیح کی زندگی اور موت کی ایمان ومحبت کے وسیلے یادگاری تازہ کرکے گنہگار انسان کے دل میں تبدیلی پیدا کردیتے ہیں۔ لیکن ان اشیاء میں دورانِ عبادت کوئی جادو داخل نہیں ہوجاتا جوگویانماز کے چھومنتر سے خودبخود میکانکی طریقہ سے کسی مشین کی طرح انسان میں بغیر اس کے کسی پارٹ کوادا کرنے اوربغیر ایمان ومحبت اوریادگاری کے جذبات کے انسان کی رُوح اوردل ودماغ میں تبدیلی پیدا کردے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا مسیح فرماتے ہیں کہ" گوششت سے (ہاں ابن اللہ کے گوشت سے بھی ) کچھ فائدنہیں جوہمیشہ کی زندگی کی باتیں میں نے تم سے کہیں ہی وہ روح ہیں اورزندگی بھی ہیں (آیات ۶۳۔ ۶۸) اسی لئے ہم عقیدہ میں پڑھتے ہیں کہ " روح زندگی بخشنے والا ہے"۔ پس روٹی اور شیرہ انگورخود بخود میکانکی مشینی طورپر زندگی بخش نہیں ہوجاتے۔ یہ فانی ظاہری نشانات ہمیشہ فانی اورظاہری ہی رہتے ہیں۔ لیکن جب ایماندار اُن کو سیدنا مسیح سے وصل ہونے کا ذریعہ بناتے ہیں تواُن فانی اشیا کا" جلال " ہی اورہوجاتاہے کیونکہ وہ فانی ہوتے ہوئے آسمانی ہوجاتے ہیں اور" آسمانیوں کا جلال " اور ہے اور زمینیوں کاجلال اور"۔ یہ فانی اشیاء فناکی حالت میں کھائی اورپی جاتی ہیں لیکن ان کا انجام" بقا کی حالت" ہوجاتاہے۔ محض" گوشت اورخون خدا کی بادشاہت کا وارث نہیں ہوسکتا اورنہ فنا بقا کی وارث ہوسکتی ہے۔" یہ فانی اشیاء " بقا کا جامہ" پہن لیتی ہیں اور " مرنے والی" اشیا" حیاتِ ابدی کا جامہ پہن لیتی ہیں اور غیرفانی رُوح کی "حقیقی روٹی" اور" حقیقی خوراک" بن جاتی ہیں۔ تب وہ قول پورا ہوجاتاہے کہ موت فتح کا لقمہ ہوگئی ۔ اے موت تیری فتح کہاں رہی؟ اے موت! تیرا ڈنک کہا ں رہا؟ خدا کا شکر ہوجوہمارے آقا ومولا سیدنا مسیح کی زندگی اورموت کے وسیلے اوراُس کی یادگاری کے ذریعہ ہم کو فتح بخشتاہے (۱کرنتھیوں ۱۵باب)