Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

کتاب پنجم

زبور۱۰۷ سے ۱۵۰

سوال ۱۹:زبور کی پانچویں کی کیفیت بیان کرو۔

جواب:پانچویں کتاب میں ۴۴ یعنی ۱۰۷ سے ۱۵۰ زبور ہیں۔جن میں ۲۸ گمنام یعنی محروم المصنف ہیں۔۱۵ داؤد کے اور سلیمان کا ہے۔ یہ کتاب غالباً عزرا فقیہ کے ہاتھ سے اسیری کے بعد تالیف ہوئی اورکئی ایک ہیلیلویاہ سے ختم ہوئی ہے۔

سوال۲۰:اس کتاب کے زبوروں کی تفصیل کرو۔

جواب :زبور ۱۰۷ بعض مفسرین اس کو تواریخی زبور ۱۰۶ کا جواب مانتے ہیں لیکن وہ حیران ہیں کہ یہ زبور پانچویں کتاب میں ہے۔اور بعض کہتے ہیں یہ زبور تواریخی نہیں ہے۔بلکہ کئی ایک ایسے واقعات پیش کرتا ہے کہ جو کہ عملی طور پرصریحاً اور ظاہری طور پرانسانی زندگی میں اکثر آتے ہیں۔اس کاخاص مقصد یہ بتانا ہے کہ یہوواہ دعا کا جواب دیتا ہے۔اول اس سبب سے کہ لوگ یعنی اس کے لوگ تنگی میں اس کو پکارتے ہیں ۔

اور دوئم اس سبب سے کہ وہ بھلا ہے۔اس کی رحمت بدی ہے ۔اور اس کی نگاہ ہمیشہ انسان پر لگی ہے۔اور اس سبب سے بھی بنی آدم برکاتِ جسمانی کے لیے اس سےعرض کرسکتے ہیں کہ اور وہ عرضوں جوادب بھی ضرور دیتا ہے۔ان تمام باتوں کی بنا پراس کی شکر گزاری کی جائے ۔

اس زبور میں تمہید کے علاوہ ۶ خاص حصے بھی ہیں۔جن میں سے ہر ایک حصہ ایک خاص واقعہ پیش کرتا ہے۔اس کی تمہید پہلی تین آیات میں ہے۔جن میں مصنف رہائی یافتہ لوگوں سے شکرگزاری لازمی بتاتا ہے۔

ادن چھ حصوں میں ہر دوحصوں کے مابین الفاظ ستائش کریں آتے ہیں۔اور ایک دوسرے سےجدا کرتے ہیں۔

حصہ اول:۴ سے ۹ آیات ان لوگوں کاذکر ہے جو کہ بیابان میں بھٹکتے پھرتے تھے۔اور جب بھوک اور پیاس تنگ آ کرانہوں نے خداوند کو پکارا تواس نے انہیں رہائی بخشی۔

حصہ دوئم:۱۰ سے ۱۶ آیات میں دکھایا گیا ہے کہ ان کو جو تاریکی اور موت کے سایہ کی وادی میں بیٹھے تھے۔اور مصیبت اور لوہے سےجکڑے ہوئے تھے۔رہائی ملی۔چونکہ ان لوگوں خدا کے حکام سے بغاوت کی۔اور حق تعالیٰ کی مسلحت کی تحقیر کی۔اس نے انکے دلوں کو مشقت سے عاجز کیا۔اور وہ گر پڑےاور ان کا کوئی مدد گار نہیں تھا۔ایسی حالت میں جب انہوں نے خداوند کو پکارا تواس نے ان کو تمام مصائب رہائی بخشی۔

حصہ سوئم:۱۷ سے ۲۷ آیات میں ایک بڑی حوصلہ افزادل پسند بات ہے۔کہ اگر کوئی اپنی کجروی ،بد چال او ر بد کرداریوں کے سبب مصیبت میں مبتلا ہوجائے ۔یہاں تک کہ موت کے دروازوں پکے نزدیک پہنچ جائے تو بھی اگر ایسی حالت میں وہ دعا کرے تو خداوند اپنا کلام بھیجتااور خلاصی بخشتا ہے۔

حصہ چہار م:آیات ۲۳ سے ۳۲ میں ان لوگوں کا بیان ہے۔جو کہ جہازوں میں سمندر کی سیر کرتے ہیں کہ جب طوفانی ہوا اٹھتی ہے۔اور ان کی جانیں پریشان ہوتی اور پگل جاتی ہیں۔لیکن جب وہ یہوواہ کو پکارتے ہیں تو وہ ان کو خلاصی بخشتا ہے۔ان کے واسطےمناسب ہے کہ جب وہ آبادی میں سلا متی سے جائیں تو لوگوں کے مجمع میں ایسے واقعات اور غائبانہ ہاتھ سے اپنے بچنے کا چرچا کریں اور یہوواہ کی ستائش شخصی طور پر اور بزرگوں کی جماعت میں بھی کریں۔

حصہ پنجم:۳۳ سے ۴۱ آیات میں بیان ہوا ہے کہ یہوواہ نہروں کو صحرا اور پانی کے چشموں کو سوکھی زمین کردیتا ہے۔اور جید زمین کو شوربنا دیتا ہے۔اور یہ ان کی جو وہاں بستے ہیں۔شرارت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ساتھ اس کے اس کا رحم بھی بے پایاں ہے۔کہ بیابان کو جھیل اور خشک زمین کو چشمہ بناتا ہے۔اور اسی جگہ بھوکو کو بساتا ہے۔کہ وہ اپنے رہنے واسطے شہر تیار کریں۔

آیات ۴۰ سے۴۱ میں کہ وہ انسان کی حیثیت و قدر میں بھی تمیز و تفریق کرتا ہے۔یعنی کہ وہ امیروں کو ذلیل اور رسوا کرتا اور خاک ساروں کو ان کی عاجزی میں سے اٹھا کرتا ہے۔اور ان سب باتوں سے خداوند کا انتظام ظاہر ہوتا ہے۔اور یہ انسان سے خداوند کی شکر گزاری طلب کرتا ہے۔

حصہ ششم:آیات ۴۲ سے۴۳ سے مصنف دکھاتا ہے کہ متذکرہ تصدرباتوں کا نتیجہ صادقوں اور بد کرداروں پر کیاہوتاہے۔وہ کہتا ہے کہ صادق مسرور ہوں گے۔لیکن بدکاروں کا منہ بند ہوجائے گا۔دانا دل اور صاحبِ تمیز ان باتوں پر غور وفکرکرکے خداوند کی رحمتوں پر خوب سمجھ سکتا ہے۔

زبور۱۰۸:یہ ایک انتحابی زبور ہے۔اس کی پانچ آیات زبور ۵۷ آیات۷ سے۱۱ کا اور زبور ۱۰۸ آیات ۶ سے ۱۳ اور زبور ۶۰آیات ۵ سے ۱۲ کا اتخاب ہیں۔اس کے سرمانے سے ظاہر ہے کہ یہ داؤد کا گیت اور زبور ہے۔لیکن یہ معلوم نہیں کہ یہ کیوں تین زبوروں سے انتخاب کیا ہوا

ہے۔اس کا مقصد یہوواہ کی عظیم رحمتوں اور امانتداری کے واسطے اس کی تعریف اور ستائش کرنا ہےچونکہ اس کی تفصیل ۵۷ اور ۶۰ زبوروں حصہ بحصہ ہو چکی ہیں۔ اس پر جگہ علیحدہ غور کرناچنداں ضروری نہیں ۔

زبور۱۰۹:سردار مغنی کے لیے داؤد کا زبور۔ اس زبور سے ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔جو کہ چار یعنی ۱۰۹ سے ۱۱۲ بوروں پو مشتمل ہے۔اس کل سلسلے میں مسیح ۔پیش ہوا ہے۔اس زبور میں اس کی اذیت کا ذکر ہے۔قدیم آبا نے اس کا سکریوتی کا زبور رکاتھا۔کیونکہ پطرس نے اعمال ۱ : ۱۶ سے ۲۰ میں اس کو یہوداہ اسکریوتی سے منسوب کیا گیا ہے۔اگر ہم یہودیوں کی علامت سمجھ سکیں تویہ بھی صفائی کے ساتھ سمجھ میں آ

جائے گا۔کہ وہ فتویٰ جو اس پرجو مسیح کے کام کو روکنا اور است تخت سے گراناچاہتا تھا۔لگایا گیا۔یہودیوں کی قوم پر مجموعی طور پر عائد ہوتا اس زبور کا نقشہ اس طرح ہے ۔کہ آیات ۱سے ۵ مسیح اس شخص کی مانند بولتا ہے کہ جو دشمنوں سے مسحور ہو۔ آیات ۶ سے ۲۰ میں ایسی حالت میں اس کی نظر دشمنوں پر پڑتی ہے۔اور وہ اس پر فتویٰ دیتا ہے کہ جو فتویٰ یہوداہ اسکریوتی پر لگایا تھا۔عین اس فتویٰ کی مانند ہے۔جو کہ ا س باپ کی طرف سے ہوچکا۔کہ لختِ جگر تیس روپے پر بک جائے۔

یہ زبور لعنت کناں زبوروں میں شامل ہے کہ ایسا معلوم دیتا ہے کہ اس کی اٹھاریں آیت ایک بے وفا بیوی کی اشارہ کرتی ہے۔جس کا ذکر گنتی ۵ باب ۲۱ سے ۲۴ آیات اس طرح ہوا کہ وہ لعنت اس کی انتڑیوں میں دخل پا کر اسف کو پٹا دیتی ہے۔نیز متی ۲۶ با ب ۲۴ آیت پر دلالت کرتا ہے۔جس میں مسطور ہے کہ افسوس ہے اس پر جس کی وجہ سے بنی آدم گفتار کرایا جاتا ہے۔اگروہ شخص پیدا ہی نہ ہوتا تو اس کے لیے یہ زبور دراصل راستی کی اس وقت کی جب کہ وہ راستی سرے تنگ آتی ہے۔اوراس پر فتویٰ لگاتی ہے فریاد ہے۔یہ زبور مسیحا کی دعائیں اور شکر گزاری ہے۔اس بات پر کہ یہوداہ اسکریوتی اور اس کے ہم جنس آدمیوں کی عدالت کی گئی ہے۔اور کی جارہی ہے۔

زبور۱۱۰:یہ داؤد کا زبور ہے۔اس میں داؤد مسیح کو خدا کے دہنے ہاتھ بیٹھا ہوا دکھاتا ہے۔جو کہ اس پات کا منتظر ہے کہ کب اس کے کل دشمن اس پاؤں کی چوکی بن جائیں۔خداوند مسیح نے خود جب کہ فریسی جمع تھے۔یہ زبور استعمال کیا۔جب اس نے اس سے استفسار کیا۔کہ مسیح کے حق میں تمہارا کیا خیال ہے؟وہ کس کابیٹا ہے؟ تو وہ بولے کہ داؤد کااس پر مسیح نے فرمایا کہ پھر داؤد روح کے بتانے کیوں اسے خداوند کہتا ہے؟جب وہ کہتا ہے کہ خداوند نے میرے خداوند سے کہا کہ بج ک میں تیرے دشمنوں کوتیرے پاؤں کی چوکی نہ بناؤں۔تومیرے دہنے ہاتھ بیٹھ ۔سو پس جب داؤد اسے خداوند کہتا ہے تو وہ اس کا بیٹا کیونکر ٹھہرا۔دیکھو متی ۲۲ باب ۴۱ سے ۴۵ آیت اور مرقس ۱۶ باب ۳۵ سے ۳۷ آیت پولوس نے عبرانیوں ۱ باب ۱۳ آیت میں اسی زبور سے اقتباس لیا۔اور مسیح کو فرشتوں پر فوقیت دی۔اور ان سے بزرگ ترٹھہرایا۔نیز جب پطرس نے اعما ل ۲ باب ۲۴ آیت میں مسیح کو خداون ثابت کرنا چاہا تو اس زبور کی آیات اول کو لیا۔جس میں لکھا ہےکہ خداوند نے میرے خداوند سے کہا کہ تو میرے دہنے ہاتھ بیٹھ۔پھر جب پولوس عبرانیوں کے نام ۱۰ باب اس کی ۱۲ سے ۱۳ آیات میں ظاہر کرتا ہے کہ مسیح نے اپنے کام کو بوجہ احسن انجام دیاوت کہتا ہے کہ وہ یعنی مسیح خدا کے دہنے جا بیٹھا۔اور اس وقت سے منتظر ہے کہ اس کے دشمن اس کے پاؤں کی چوکی بنیں۔اس کی تفصیل آیت بہ آیت کریں گے۔

پہلی آیت سے یہوواہ کی طرف سے مسیح کی سرفرازی کی جاتی ہے۔کہ وہ خدا کے دہنے ہاتھ بیٹھے ۔دوسری آیت میں وہ میں یہوواہ اس سے وعدہ فرماتا ہے کہ اس کے سب دشمن اس کے تابع فرمان کیے جائیں گے۔تیسری آیت میں مسیح کو ایک وعدہ ملتا ہے۔کہ اس کے لوگ بے شمار ہوں گے۔اور اس کے روز حسنِ تقدس کے ساتھ آپ سے مستعد ہوں گے۔چوتھی میں لکھا ہے کہ وہ ملک صدق کے طور پر ابد تک کاہن ہے۔

آیات ۵۔۶ اور ۷ میں عدالت دکھائی گئی ہے۔جس میں مسیح کی کامیابی از خود نظر آرہی ہے۔

زبور ۱۱۱: زبور ۱۱۱ اور ۱۱۲ حروف تہجی کے زبور ہیں۔اور ترکیب میں یکساں ہیں۔حروف تہجی کے لحاز سے ان کا ہر ایک شعر بلکہ ہر ایک مصرہ

ترتیب وار حروف تہجی سے شروع ہوتا ہے۔عبرانی حروف تہجی کے لحاز ان میں بائیس بائیس اشعار ہیں۔یہ دونوں ہیلیلویاہ کے زبور ہیں۔

آیات ۱سے ۸ میں ہر ایک شعر کے دو مصرے ہیں۔اور آیات ۹ تا۱۰ میں ہر ایک شعر تین تین مصروں کا ہے۔زبور ۱۱۱ گیارہ میں خداوند کی صفاتِ عالیہ اور اس کے کل کام کی تعریف ہے۔اور زبور ۱۱۲ میں اس کے لوگو ں کی تعریف ہے اور بیان کہ وہ کئی ایک باتوں خدا کے مشابہ ہیں۔مثلاً زبور ۳:۱۱۱ میں لکھا ہے کہ اس کا کام جاہ و جلال ہے۔اور اس کی صداقت ابد تک قائم ہے۔اس طرح زبور ۳:۱۱۲ میں بھی آیا ہے کہ ان کے گھروں مال و دولت ہو گی۔اور ان کی صداقت ابد تک قائم ہے۔زبور ۱:۱۱۱ میں یہواہ کی تعریف کرنے کی جگہ بتائی گئی ہے۔کہ اس کی تعریف صادقوں کی محفل میں ہونی چاہیئے۔زبور۲:۱۱۱ میں اس کا مضمون یہ ہے کہ کہ یہواہ کے کام بڑے اور عظمت والے ہیں۔اور وہ جو ان کا اشتیاق رکھتے ہیں۔ان کی تفتیش کرتےہیں۔زبور۳:۱۱۱۔۹ میں یہواوہ عجیب عجیب کاموں کی تفصیل کی گئی ہے۔زبور ۴:۱۱۱ میں لکھا ہے کہ اس نے اپنے عجیب کاموں کی یاد گاری رکھی۔وہ رحیم اور مہربان ہے۔زبور ۵:۱۱۱ میں آیا ہے کہ وہ اپنے ڈرنے والوں کو کھانا دیتا ہے۔اور اپنے عہد کو ابد تک یاد رکھتا ہے۔زبور ۶:۱۱۱ میں لکھا ہے کہ اس نے کاموں کا زور اپنے لوگوں کو دکھایا کہ انہیں قوموں کی میراث بخشے۔۷:۱۱۱ بتاتی ہے کہ اس کے ہاتھ کے کام حق اور عدالت اور اس کے کل حکام یقینی ہیں۔

۸:۱۱۱ میں بیان ہے کہ اس کے احکام ابد تک قائم رہتے ہیں۔اور ۹:۱۱۱ میں آیا ہے کہ اس نے اپنےلوگوں کےواسطے مخلصی بھیجی ہے۔اوراس کا نام قدوس و مہیب ۱۰:۱۱۱ میں مصنف کہتا ہے کہ خداوند کا خوف دانائی کا شروع ہے۔ایوب ۲۸:۲۸ و امثال ۷:۱ ۔ اس زبور میں یہ نادر حقیقت ہے کہ خداوند کا خوف دانائی کا شروع ہےصادقوں کی محفل میں گایا جاتاہے۔

زبور۱۱۲: اس میں یہواوہ کے لوگوں کی تعریف ہے۔اور یہ بھی ہیلیلویاہ کا زبور ہے۔یہ زبور اصل میں ۱۰:۱۱۱ کی کہ خداوند کا خوف دانائی کا شروع ہے۔کی تشریح ہے۔چنانچہ پہلی آیت میں آیا ہے کہ وہ آدمی جو کہ خداوند سے خوف رکھتاہے۔اور اس کے فرامین سے نہایت مسرور ہے۔مبارک ہے۔اور نہ صرف وہ ہی بلکہ اس کی نسل بھی اس مبارک بادی میں شامل اور حصہ دار ہے۔اس واسے دوسری آیت میں لکھا ہے کہ ا س کی نسل زمین پر زورآور ہو گی۔اور صادقوں کی اولاد مبارک ہو گی۔زبور ۳:۱۱۲ میں ایسے شخص کے گھر کی آسودگی ظاہر کی گئی ہے۔ کہ اس میں مال و دولت ہو گی۔اوراس کی صداقت قائم رہے گی۔چوتھی آیت کہتی ہے کہ راستکار مہربان درد مند اورصادق ہیں۔اور ان کے لیے تاریکی میں نور چمکتا ہے۔پانچویں آیت میں یہ ہے کیوکہ نیک آدمی اپنا کام وقوف امتیاز سے انجام دیتا ہے اور وہ اوروں پر مہربان ہو سکتا ہے اورقرض بھی دیتا ہے تو ۶:۱۱۲ ۔۸ میں ذکر ہے کہ اس کو ہرگز جنبش نہ ہو گی۔بلکہ صادق کی یاد گاری ابد تک ہو گی۔اور اس سبب سے کہ اس کا توکل خداوند پر ہے۔وہ بری خبروں سے حراساں نہیں ہوتا۔بلکہ اس کا دل بر قرار رہتا ہے۔اور اگرچہ وہ بکھراتا اور کنگالوں دیتا ہے۔تو بھی اس کی صداقت ابد تک قائم رہتی ہے۔اس کا سینگ جلال کے ساتھ سرفراز ہو گا۔۱۰:۱۱۲ اس کا نتیجہ اور اثر جو کہ شریروں پر ہوتاہےکہ وہ دیکھے گااور کڑھے گا۔اپنے دانت پیِسے گا اور پگل جائے گا۔اور شریروں کی تمنافنافنا ہو جائے گی

زبور ۱۱۳:سلسلہ ہلیل کا شروع ہے۔اس میں کل چھ یعنی ۱۱۳۔۱۱۸ زبور ہیں ۔یہ زبور عیدِفسح ، پینتکوست اور عیدِ خیام کے ایام میں استعمال ہوتے تھے۔ان موقوں کے علاوہ نئے چاند اور مخصوصیت کی عیدوں میں عیدِ فسح کے موقع پر بھی استعما ل کیے جاتے تھے۔زبور۱۱۳ اور۱۱۴ عید کے شروع میں گائے جاتے تھے۔اور ۱۱۵اور۱۱۸ فسح کی ضیافت کے ختم ہونے پراس گیت کا مذکور متی ۳۰:۲۶ اور مرقس ۲۶:۱۴ میں ملتا ہے۔اس میں دو حصے ہیں۔حصہ اول میں پہلی تین آیات ہیں۔شروع میں لفظ ہیلیلویاہ ہے۔اور اس کے بعد یہواہ کے سب بندوں کو کہا جاتا ہے کہ یہواہ کے نام کی ستائش کرو کہ اور ایک دعا ہے کہ یہواہ کا نا م اس دم سے لے کر آخر تک مبارک ہو۔

حصہ دوئم: ۴ سے ۹ میں یہواہ کی صفات پیش کی گئی ہیں۔جن کے ان کی ستائش لازم آتی ہے۔مثلاً

(۱) یہواہ کل امم پر بلندو بالا ہے۔اور اس کا جلال آسمانوں پر ہے۔

(۲) وہ بے مثال ہے۔اور کوئی دوسرا اس کی مانند نہیں اور اس کو بدل سکتا ہے۔

(۳) وہ اپنے تئیں پست کرتا ہے اور کہ آسمان اور زمین پر نگاہ کے۔

(۴) وہ مساکین کو زمین سے اٹھاتا ہے۔اور محتاج کو مزبلہ پر سےاونچا کرتا ہے۔

(۵) اور اس میں اس کا انتہا منشا ہوتا ہے۔کہ ان کو امیروں بلکہ اپنے ہی لوگوں کے امیروں کےساتھ بٹھائے۔

(۶) وہ بانجھ عورت کو گھر میں بساتا ہے۔ایسا کہ وہ خوشی سے بچوں کی ماں ہوتی ہے۔یہ زبور ہیلیلویاہ سے ختم ہوتا ہے۔

زبور۱۱۴:یہ زبور فسح کی ضیافت پر گایا جاتا تھا۔تاکہ اسرائیل کا ملکِ مصر نکلنے کا واقعہ ان کو خوب یاد رہے۔اس میں ان کے مصر سے نکلنے کل واقعات مختصراً پائے جاتے ہیں۔لیکن ان کے مصر سے نکلنےواسطے ان کے لیے سمندر میں خشک راستہ بننےاور کنعان میں داخل ہونے کے لیے یردن کا ان کے لیے راسطہ کھولنے کا احوال خصوصیت کے ساتھ ملتا ہے۔چنانچہ سمندر اور دریاؤں سے استفسار ہے کہ اے سمندر تجھے کیا ہوا کہ تو بھاگا۔اور اے یردن کیا ہوا کہ تو الٹی پہ نکلا۔اور اکیا ہوا اے پہاڑوں کہ تم مینڈوں کی طرح چھلانگیں مارتے ہو۔اور اے ٹیلو کہ تم بھیڑ کے بچوں کی طرح کودتے ہو۔اے زمین تو یہواہ کےحضور ہاں یعقوب کے یہواہ کےحضور تھر تھرا جو پتھر کو پانی کا حوض اور چقماق کے پتھر کو پانی کا چشمہ بناتا ہے۔

زبور۱۱۵: یہ زبور فسح کھانے کے بعد سب سے پہلے گایا جاتا تھا۔اس کی اول آٹھ آیات میں کل جماعت اپنی نالائقی کا اقرار کرکے یہواہ کی تعریف کرتی ہے۔اور یہواہ کا جو ان دیکھا خدا ہے۔امتوں کے دیدنی معبودوں کے ساتھ مقابلہ کرکے اس کی قدرت اور دیگر معبودوں کی بے کسی دکھائی گئی ہے۔

آیات ۹ سے ۱۱میں گانے والے اسرائیل اور ہاروں کے گھرانےاور یہواہ کےڈرنے والوں کو تاکید کرتے ہیں۔کہ وہ یہواہ پر توکل رکھیں۔کہ وہی ان کا مدد گار اور ان کی سپر ہے۔

آیات ۱۲سے ۱۵ میں سردار کاہن ان کو یہ کہہ کر یقین دلاتا ہے کہ یہواہ جس نے ہم کو یاد کیا وہی ہم کو برکت بھی دے گا۔وہ اسرائیل گھرانے اور ہاروں کے گھرانے کو برکت دے گا۔سو تم یہواہ کی طرف سے بھی جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا مبارک ہو۔

آیات ۱۶ سے ۱۸ میں جماعت گا کر کہتی ہے کہ آسمان یہواہ کے ہیں۔اور اس نےزمین بنی آدم کو عطا کی ہے۔سو ہم اس وقت سے لے کرابد تک یہواہ کو مبارک کہیں گے۔ہیلیلویاہ۔

زبور۱۱۶:اس کے ،موقعہ تصنیف کا کچھ پتہ نہیں لیکن چونکہ سلسلۂ ہلیل میں ہے۔اور عید پر گایا جاتا تھا۔اس کا تعلق عید سے ہے۔ یہ زبور خصوصیت سےشخصی ہے۔کیونکہ سوا پانچویں اور انیسویں آیت کے۔اس کی ہر ایک آیدت کےک الفاظ میں مجھے یا میرا استعمال ہوئے ہیں۔اس میں چار حصے ہیں۔

حصہ اول: پہلی چار آیات میں مصنف یہ دعوےٰ کرتا ہے کہ میں محبت رکھتا ہوں یا پیار کرتا ہوں۔عبرانی زبان میں اس فعل کے ساتھ کوئی معفول نہیں آیا۔مصنف کا صرف یہ دعویٰ ہے کہ مجھ میں محبت ہے۔اس محبت کے رکھنے کا یہ سبب ۔بیان کرتا ہے۔کہ خدا نے میری آواز اور منتیں سنی ہیں۔اس بیان سےیہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ تکلیف میں تھا اور رہائی پائی۔اور چونکہ اس کی عرض مقبول ہو گئی۔اور وہ کہتا ہے کہ میں جب تک زندہ رہوں گا۔اس کا نام لیے جاؤں گا۔ تیسری آیت میں وہ اپنی شدت کا یوں بیان کرتا ہے کہ موت کے دکھوں نے مجھ کو گھرا۔ اور قبر کےدردوں نے مجھ کو پکڑا۔میں دکھ اور غم میں گرفتار ہوا۔پھر وہ کہتا ہے کہ میں نے خداوند کانام لیا۔اور عرض کی کہ اے خداوند مجھ پر رحم کراور میری جان بچا۔

حصہ دوئم:آیات ۵ سے ۹ میں وہ اپنی رہائی میں اظہارِ شکر گزاری اور خداوند کی شکر گزاری کرتا ہے۔اور وعدہ کرتا ہے کہ میں خداوند کے آگے زندگی میں چلو گا۔

حصہ سوئم: آیات ۱۰ سے ۱۴ میں اپنی عرض اور شکر گزاری کے اسباب بیان کرتا ہے کہ چنانچہ اس کی عرض کی وجہ یہ ہے کہ وہ انسان پر بھروسہ نہیں رکھ سکتا۔بلکہ صرف خداوند ہی پراور شکر گزاری کا سبب یہ ہے کہ اس نےایمان سے عرض کی کہ اور خداوند اسے جواب دیا۔اس پر وہ کہتا ہے کہ میں نجات کا پیالہ اٹھاؤں گا۔اور خداکا نام پکاروں گا۔

حصہ چہارم: آیات ۱۵ سے ۱۹مصنف پھر اپنے شکریہ کی ادائیگی کی وجہ بیان کرتا ہے کہ یہواہ نے اس کے بندھن کھولے۔اخیر میں وہ ہیلیلویاہ پکارتا ہے۔

زبور۱۱۷:یہ زبور سب سے چھوٹا ہے کہ ایک مصنف نے اس کی نسبت کہا کہ اس کی ضخامت بہت چھوٹی ہے۔لیکن وہ بہت بیش بہا اور قیمتی ایشا سے پُر ہے۔اس میں سب قوموں کو دعوت ملی ہے۔کہ وہ خداوند کی حمد کریں۔دعوت کا اشتہار دینے والا کہتا ہے کہ وہ اس واسطے خداوند کی حمدکریں کہ اس کی رحمت ہم پر غالب ہوئی ہے۔اور ہم کو معلوم ہو۔گیا ہے کہ خداوند کی رحمت کل امتوں کے لیے ہے ناکہ صرف ہمارے لیے ہے۔(خط بنام رومیوں ۱۱:۱۵) وہ اس کے لیے ہیلیلویاہ پکارتا ہے۔

زبور۱۱۸:ایسا معلوم پڑتا ہے کہ یہ زبور کسی عید کے لیے تصنیف ہواتھا۔اور ہیلکل کی عبادت میں گایا جاتا تھا۔خداوند یسوع مسیح اور اس کےشاگردوں نے یہ زبور اس وقت جب وہ گتسمنی باغ میں نانے کو تیار تھے۔گایا۔جناب مارٹن لوتھراپنے دفتر کی دیور پر اس زبور کی بابت لکھاتھا کہ زبور یعنی زبور ۱۱۸ میرا ہے۔یعنی یہ وہ زبور ہے کہ جس کو میں پیار کرتا ہوں۔بغیر اس زبور کے بادشہان اور شہنشاہ باوجود اپنی ساری دانائی اور دور اندیشی کے میری مدد نہ کرسکتے تھے۔بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ زبور اس عید خیام کے لیے تصنف ہوا تھا ۔جس کاذکر نحمیاہ۴۱:۸۔۱۸ آیت کہ یہ زبور اس عید میں پہلی بار گایا تھا۔اس طرح یہ زبور ۴۴۴ ؁قبل از مسیح ٹھہرتا ہے۔لیکن بعض یہ گمان کرتے ہیں کہ یہوداہ میکبیز کے ایام کی تصنیف ہے۔اکثر مصنفوں اسے دو حصوں میں تقسیم کیاہے۔یعنی حصہ اول آیات ۱ سے ۱۶اور حصہ دوئم ۱۷ سے ۱۹ ایولڈ(ای ولڈ ) اس کی یوں تقسیم کی ہے کہ آیات ۱ سے ۴ گانے والے گاتے تھے۔۵ سے ۲۳ تک سردار مغنی گاتا تھا۔

۲۴ سے ۲۵ پھر گانے والے گاتے تھے۔۲۶ سے ۲۷ کاہن گاتے تھے۔۲۸ سردار مغنی اور ۲۹ پھر گانےوالے۔لیکن اس پر یہ اعتراض آتا ہے کہ کاہن لو گ گاتے نہیں تھے۔صرف لاوی ہی گاتے تھے۔لہذا اس کی تقسیم لایوں اور جماعت کے مابین ہی ہونی چاہیے۔ڈیلش صاحب کا خیال ہے کہ اس میں دو حصے ہیں۔ حصہ اول ۱ سے ۱۹اور حصہ دوئم۲۰سے ۲۹ حصہ اول کاہن اور لاوی ہیکل کو جاتےوقت گاتے اور حصہ دوئم وہ لاوی جو ہیکل کے دروازے پر کھڑے رہتے تھے۔اور کاہنوں اور لایوں کے دوسرے فریق کے آنے پر ان کا استقبال کرتے تھے۔گاتے تھے۔ اٹھائیسویں آیت دوسرا فریق گاتا تھا۔اور انتیسویں آیت دونوں فریق مل کر گاتے تھے۔اس کی تشریح اس طرح سے ہے۔کہ پہلی چار آیات میں شکرگزاری کی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔

۵ سے ۹ آیات میں یہ بیان ہے کہ یہواہ پر توکل رکھنا انسان پر بھرسہ رکھنا سے بدر جہاں بہتر ہے۔۱۰ سے ۱۴ میں منصف اس واسطے یہواہ کی مدح کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اس کے ہمراہ ہے۔اور اس کا نام لینے اس کو کامل یقین ہو جاتا ہےکہ یہواہ اس کے دشمنوں کو نابود کرے گا۔ کیونکہ وہ کہتا ہے کہ وہی میری قوت ،فخر اور نجات ہے۔آیات ۱۵ سے ۲۱ میں وہ بیان کرتا ہے کہ یہواہ ہی سے صادقوں دکے خیموں خوشی اور نجات کی آواز ہے۔اور کہتا ہے کہ وہ زندہ رہے گا اور یہواہ کا شکریہ ادا کرے گا۔آیات ۲۲ سے۲۹ میں یہ آیا ہے کہ مبارک وہ ہے جو یہواہ کے نام سے آتا ہے۔یہواہ کے گھر سے یہ آواز آتی ہے۔کہ ہم تجھے برکت دیں گے۔کسی مفسر نے کہا ہے کہ اس زبور سے یہ عیاں کیا گیا ہے کہ مسیح کے خون خریدے اس کے جنگ و جدل فتح مندی اور جلال میں اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔

زبور۱۱۹:ا یہ زبوروں سے بڑا ہے۔اور اس میں عبرانی حروفِ تہجی کے شمار سےبائیس حصے ہیں۔ہر ایک حصے میں آٹھ آٹھ آیات ہیں۔اور ہر ایک آیت ایک ہی حرف سےشروع ہوتی ہے۔ مثلاً حصہ اول کی ہر آیت عبرانی حروفِ تہجی اول حرف یعنی الف سے شروع ہوتی ہے۔اور حصہ دوئم میں حرف ثانی یعنی حرف ب سی و علی ہذالقیاس اس میں ۱۷۶آیات یا اشعار ہیں۔ہر ایک آیت میں سوائے آیات ۸۴و۲۲ کے خدا کے کلام یا شریعت کا ذکر ہوا ہے۔اور ذیل کے ایک اور درجن الفاظ خدا کی مرضی یا شریعت کے اظہار کے لیے خصوصیت کے استعمال ہوئے ہیں۔شریعت ۱؎۔شہادت۲؎۔راہ ؎۔ حکم۴؎۔ قواعد۵؎ ۔ انفال۶؎۔کلام۷؎۔حقوق۸؎۔ عدالت۹؎۔فرایض۱۰؎صداقت۱۱؎اور

نام۔بونر صاحب اس زبور کی نسبت فرماتے ہیں یہ مسیحی مسافر کا زبور ہے۔جو کہ روحانی زندگی کے شروع سے آخر تک یہواہ کی شریعت کی رہنمائی میں چلتا ہے۔یہاں تک کہ مقدس شہر میں پہنچ جاتاہے۔اس کی تفصیل اس طرح سے ہے۔

(الف) ۱ سے ۸ میں نوزاد آدمی نئے سفر کے لیے تیاری کے موقعہ پر معلوم کرتا ہے۔کہ چاہیے کہ خداوند کی شریعت پر چلنے والا کامل رفتار ہو۔

(بیتھ)۹ سے ۱۶ میں چنانچہ وہ سفر شروع کرتا ہے۔اور کرتا ہے کہ جوان اپنی راہیں۔جواب ملتا ہے کہ خدا کے کلام کے موافق اپنی راہ پر خوب نگاہ کرنے سے۔

(گیمل)۱۷ سے ۲۴ میں وہ خداوند کے احسان کا محتاج ہے۔تا کہ وہ زندہ رہے۔

(والتھ)۲۵ سے ۳۲ میں اسے مشکلات نظر آتی ہیں۔اور اس کے ذوق و اشتیاق میں تکسر واقعہ ہوتا ہے اور وہ عرض کرتا ہے کہ خداوند اپنے قول کے مطابق اسے جلاوے۔

(ہے)۳۳ سے ۴۰ میں ترو تازہ ہو کر پھر خداوند سے عرض کرتا ہے کہ وہ اسے اپنے حقوق کی راہ بتلائے۔اور وعدہ کرتا ہے کہ میں آخر تک انہیں یاد رکھوں گا۔

(واؤ) ۴۱ سے ۴۸ میں تکلیف و مصیبت میں مبتلا ہو کر دعا کرتا ہے کہ خداوند اپنے قول کے بموجب اپنی رحمتوں اور نجات سے اس کو پہرہ اندوز فرماوے۔

(زین) ۴۹سے ۵۶ وہ گھبراہٹ اور پریشای کی حالت میں خداوند سے عرض کرتا ہے۔اپنے بندے کی خاطر اپنے قول کو جس کا تونے مجھ کو امید وار کیا یاد کہ یہ میرے واسطےدکھ میں تسلی ہو گئی۔

(خیتھ) ۵۷ سے ۶۴ میں وہ خداوند اپنابخرا جانتا اور آگے بڑھتا ہے۔کہ اس کے چہرے کی توجہ ڈھونڈے ۔

(تیتھ)۶۵ سے ۷۲وہ خدا کی خوش سلوکی کی بناپر چاہتا ہے کہ خداوند اسے اچھا امتیاز اور دانش سکھلائے

(یود) ۷۳ سے ۸۰ میں وہ خداوند کو اپنا پیدا کنندہ اور آراستہ کرنے والا جان کر اس سے فہم کے لیے عرض کرتا ہے۔تاکہ وہ اس کے احکام سیکھیں۔

(کیف) ۸۱ سے ۸۸ میں وہ ستائے جانے کی وجہ سے وہ خداوند سے لپٹا ہتا ہے۔اور کہتا ہے کہ اے خداوند میری جان تیری نجات کے شوق میں غش کھاتی ہے۔میں تیرے قول پر اعتماد رکھتا ہوں ۔

(لامد) ۸۹ سے ۹۶ میں خداند کی تعریف اور شکریہ کرکے اگر تیری شریعت میری خوشی کا باعث نہ ہوتی تو۔میں اپنی مصیبت میں ہلاک ہو جاتا۔

(میم) ۹۷ سے ۱۰۴ میں وہ خداوند کا شکریہ ادا کرتاہے۔اور کہتا ہئے کہ چونکہ تیری شریعت کا شیدہ ہوں میں ۔اپنے تمام اعداد پر دانشمندی میں فائق ہوں میں

(نون) ۱۰۵ سے ۱۱۲ میں وہ خداوند کی شریعت کو نہایت فائدہ بخش دیکھ کر کہتا ہےکہ تیرا کلام میرے پاؤں کے لیے چراغ اور میری راہ کی روشنی ہے۔اور وعدہ کرتا ہے کہ میں تیری صداقت کے انفالوں کو حفظ کررکھوں گا۔

(سامک)۱۱۳ سے ۱۲۰ میں چونکہ وہ خداوند کی شریعت سے خاص انس رکھتا ہے۔تمام بدکاروں کو اپنے سےدور رکھتا ہے۔

(عین) ۱۲۱ سے ۱۲۸ میں عرض کرتا ہے کہ اے خداوند مجھ کو ظالموں سے محفوظ اور مامون رکھ ۔کیونکہ وہ خود بھی عدالت کو پیش نظر رکھتا ہے۔

(فے)۱۲۹ سے ۱۳۶ خداوند کی شہادتوں یاد کرکے کہتا ہے کہ تیرے کلام کا مکاشفہ روشنی بخشتا ہے۔اور سب سادہ لوگوں کو فہم عطا کرتا ہے۔

(تساوی)۱۳۷ سے ۱۴۴ اپنے جذبات وحمیت لا یوں اظہار کرتا ہے۔کہ میری غیرت مجھے اس لیے کھا گئی کہ میرے دشمنوں نے تیری باتوں کو فراموش کیا ہے

(قوف)۱۴۵ سے ۱۵۲ میں وہ خداوند پر بھروسہ رکھتا ہے ۔اور کہتا ہے کہ چونکہ میرا بھروسہ تجھ پر ہے ۔میں تیرے حقوق حفظ کروں گا۔اور تجھ سے عرض بھی کروں گا۔

(ریش)۱۵۳ سے ۱۶۰ میں اس سبب سے کہ اس نے شریعت کو فراموش نہ کیا۔منصیت میں خداوندکی م مہربانی اور ترس کا محتاج و طالب ہے او کہتا ہے کہ اے خدا! مجھ کو اپنی رحمت کے مطابق زندگی بخش۔

(شین)۱۶۱ سے ۱۶۸ میں کہتا ہے کہ ان کو جو تیری شریعت رکھتے ہیں۔بڑا چین ہے۔اور کسی طرح سے تھوکر نہیں لگتی۔

(تاؤ)۱۶۹ سے۱۷۶ میں کہتا ہے کہ جب تو مجھے حقوق سکھائے گا۔میرے لبوں سے تیری ستائش نکلے گی۔اور میری زبان تیرے کلام کا چرچا کرتی رہے گی۔کہ تیرے سب کام صداقت ہیں۔بعض مفسرین کا گمان ہے کہ یہ زبورمسیح خداوند کی کمال کاملیت پر دلالت کرتا ہے۔کہ جس طرح عبرانی ہجہ کے اول وآخر حروف میں کل حروف محدود ہیں۔اس طرح مسیح میں الوہیت اور انسانیت کی کاملیت اورکمالیت موجود ہے۔چنانچہ مکاشفہ اور ۸:۱ مسیح خود یونانی حروف کے ہجہ کے اول و آخر حروف لے کر اپنی نسبت کہتا ہے کہ میں الیفا اور امیگا اول اور آخر جو ہے اور جو آنے والا ہے۔قادرِ مطلق ہوں۔

زبور۱۲۰: معلات یعنی چڑھنے کا زبور ہے۔اس زبور سے زبوروں کا نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔جو اس وقت استعال ہوتے تھے۔جب بنی اسرائیل قافلوں میں سالیانہ عیدوں کے لیے یروشلیم کوجاتے تھے۔اس سلسلے میں ۱۵ یعنی ۱۲۰سے ۱۳۴ زبور ہیں۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ان ایام میں یہ ۱۵ زبور ایک چھوٹی کتاب میں مجلد تھے۔تاکہ لوگ اسے ہمراہ رکھ سکیں۔اور اس کو گاتے ہوئے بخوبی سفر طے کریں۔اور کہ عزرا فیقہ ان کو اسیری کے بعد موجودہن صورت میں تالیف کیا تھا۔یہ سب زبور سوائے زبور ۱۳۲ سے چھوٹے چھوٹے ہیں۔اور ایسے دل چشپ ہیں کہ باآسانی ازبر ہو سکتے ہیں۔ملک اسپین کے ایک مفسر نے ان زبوروں کی نسبت کہا کہ یہ ۱۵ زبور دوسرےزبوروں کی نسبت ایسے ہیں کہ جیسے باغِ عدن دوسری زمیں کی نسبت زیادہ سرسبز و شاداب ہےو خوشنما تھاجاتری لوگ یعنی یہ اسرائیل یروشلیم کو جاتے ہوئے سفر کے موقع پر روانگی زبور۱۲۰ گایا کرتے تھے۔کونکہ

وہ خواہشمند تھے کہ ان کا سفر بابرکت اور نیک انجام ہو۔اور وہ اس بات پر افسوس کرتے تھے کہ ان کی سکونت ان لوگوں کے درمیان تھی۔جن سے وہ روحانی مداد حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ایسی حالت میں وہ یہواہ کو پکارتےتھے۔اور وہ ان کو جواب دیتا تھا۔تب وہ روانہ ہوتے تھے۔اور ہر ایک شخصی طور پر عرض کرتا تھا کہ اے خدا! میری زبان کو جھوٹے ہونٹوں اور دغاباز زبان سےرہائی دے۔اورخود بھی ایسی زبان سے مخاطب ہو کر اسے ملامت کرتا تھا۔اور اس بات پر کہ مسکن میں سکونت پذیر تھا۔اور قیدار کے خیموں کے پاس رہتا تھا۔جو کہ جنگ جو تھے افسوس بھی کرتا تھا۔الغرض وہ اس سفر میں وہ کامل خوشی و مسرت اور مسکن کی برکات کے حصول کے لیے وہ ظاہری اور باطنی صفائی چاہتا تھا۔

زبور۱۲۱: اس میں جاتری سفر کے دوران میں کہتا ہے کہ میں پہاڑوں کی طرف آنکھیں اٹھاتا ہوں۔یعنی چلتا ہوا اپنی آنکھیں پہاڑوں کیطرف اٹھاتا ہوں۔جن پر شہر یروشلیم آباد ہے۔جس میں خداوند کا مسکن ہے۔یہاں یہواہ سکونت کرتا ہے۔جاتری بائیں یا دائیں سمت نہیں بلکہ سیدھا اپنے سامنے یہواہ کی طرف دیکھتا ہے۔کیونکہ اس کی کمک اس کی طرف سے آتی ہے۔کیونکہ وہی اسرائیل کا محافظ جو ہرگز نہ جاگے گا نہ سوےگا۔سو رات کو یا دن کو اسے کوئی ضرر نہ پہنچے گا۔

چنانچہ آیت۶سے ۸ آیت میں لکھا ہے۔دن کو آفتاب سے اور رات کو ماہتاب سے کچھ ضرر نہیں پہنچے گا۔اورخداوند ہر ایک برائی سے تیری جان کو محفوظ رکھے گا۔اور اس وقت سے لے کر ابد تک تیری آمدو رفت میں تیرا نگہبان ہوگا۔

زبور۱۲۲: اس میں جاتری اس بات پر اظہارِ مسرت کرتا ہے کہ اس کافلے نے جو کہ یروشلیم کو جارہا تھا۔اسے مدعو کیا تھا۔کہ وہ بھی ان کے ہمراہ جائے۔ چنانچہ آیت ۱ میں کہتا ہے کہ جس وقت وہ مجھے کہتے تھے کہ آؤ خداوند کے گھر جائیں۔میں خوش ہوا۔معلوم ہوتا کہ جاتری یہواہ کے گھر کی برکات سے خوب واقف و آگاہ ہے۔کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی وہاں گیا تھا۔اس واسطے وہ یروشلیم کی طریف میں کہتا ہے۔کہ وہ اس شہر کی مانند ہے جو خوب باہم پیوستہ ہے۔اور جس میں فرقے اور یاہ کےفرقے اسرائیل کی شہادت کو چڑھ جاتے ہیں کہ یہواہ کے نام کی ستائش کریں۔یروشلیم صرف عبادت کا ہی مرکز نہیں تھا۔بلکہ اس میں عدالت کے تخت داؤد کے خاندان کے تخت رکھے ہوئے تھے۔آخر وہ یروشلیم کی سلامتی کے لیے دعائے خیر کہتاہے کہ میں خداوند اپنے خدا کے گھر تیری طرف سے خیریت کا طالب ہوں۔

زبور۱۲۳: کسی مفسر نے کہا کہ زبور ۱۲۰کا نفسِ مضمون غم میں امید ۔۱۲۱ کا مسافرت میں ایمان۔۱۲۲ کا محبت اور خوشی۔اور ۱۲۳ کا رحمت کی انتظاری ہے۔

چنانچہ اس کی دوسری آیت میں یہ آیا ہے کہ جس طرح غلاموں کی آنکھیں اپنے آقاؤں کے ہاتھوں کی طرف اور لونڈیوں کی آنکھیں اپنی بیبیوں کے ہاتھوں کی طرف جب تک کہ وہ ہم پر رحم نہ فرمائے لگی ہیں۔تیسری و چوتھی آیات میں جاتری خداوند سے عرض پرداز ہے۔کہ وہ ان سب پر یعنی قوم اسرائیل پررحمت فرماوےکیونکہ وہ تحقیرو تضحیک خوب سیر ہوگئے ہیں۔

زبور۱۲۴: اس کا مضمون ہے۔یہواہ اسرائیل کا کامل مدد گارآیات ۱سے ۵ جاتری کہتاہے۔اسرائیل کہیں کہاگر یہواہ کی توجہ ہماری طرف نہ ہوتی تودشمن ہم کونگل جاتے ہیں۔ہم غرقاب ہوجاتے۔اور امڈتے ہوئے۔پانی ہماری جان پر سے گزر جاتے ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ ملکِ مصر کی غلامی سے آزاد ہونے کا کل واقعہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہے۔

آیات ۶ سے ۸ وہ یہواہن کو اس واسطے مبارک کہتا ہے کہ اس نے اسرائیل کو چھٹکارا دیاہے۔اور کہتا ہے کہ اس نے ہماری جان کو چڑیا طرح صیاد کے جال سے چھڑایا۔کہ جال ٹوٹ گیا اور ہم نکل بھا گے۔ یہواہ کی گذشتہ برکات وعنایات اور احسان پر غور کرنا از بس مفید ہے۔

زبور۱۲۵: یہ زبور یہواہ پر توکل و اعتماد کرنے والوں کا استقلال اور سلامتی ٔ یروشلیم کی تشبیہ سے ظاہر کرتا ہے۔چنانچہ پہلی دو آیات میں ذکرہے کہ جن کا توکل یہواہ پر ہے۔وہ کوہِ صیحون کی مانند مستقل رہتے ہیں۔یعنی جس طرح وہ پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔اور دشمن سےمحفوظ ہے۔اس طرح وہ بھی جو یہواہ پر توکل رکھتی ہیں ۔اس کی پناہ میں ہر طرح سے محفوظ و مامور رہتے ہیں۔آخر مین مصنف جاتریوں سے عرض کرتا ہے۔کہ بھلے لوگوں اور وہ جو کہ سیدھے دل ہیں بھلائی کرو۔اور وہ جو ٹیڑی راہ پر بھٹک جاتے ہیں۔انہیں بدکاروں کے ساتھ روانہ کروں اسرائیل کی نسبت وہ کہتا ہے کہ اس پر سلامتی ہو۔

زبور ۱۲۶: اس زبور میں اسیر اپنی آزادی و راہائی پر اظہارِ مسرت کرتے ہیں۔ان کی حالت عین پطرس کی اس موقعہ کی حالت کی سی ہے۔جب فرشتہ اس کو قید سے باہر لایا۔اور وہ اس وہم میں تھا کہ خواب دیکھ رہا ہے۔رہائی یافتہ لوگ یہواہ جس نے ان سے ایسا بڑا سلوک کیا شکرگزاری کرتے اور کہتے ہیں کہ غیر اقوام کے درمیان کہ یہواہ ان سے اس امر کا بڑا نیک سلوک کیا۔چرچا ہوتا ہے۔اور عرض کرتے ہیں کہ یہواہ باقی مانندہ تمام اسیروں بھی پھر لائے۔آخر میں مصنف کہتا ہے کہ جو آنسوؤں سے بوتا ہے وہ خوشی سے گاتا ہوا فصل کاٹے گا۔اور خوشی سے پولیاں اٹھائے ہوئے گھر آئے گا۔

زبور۱۲۸: سلیمان کا زبور معلات۔

بعض مفسر کہتے ہیں کہ یہ زبور سلیمان کی تصنیف نہیں ہے۔گو سر نامے میں اس کے نام وسرنامے سے نامزد ہے۔اس میں ایکمحاورات و اصطلاحات ہیں۔جو کہ امثال کی کتاب کے محاورات و مصطلحات سے عین مطابقت رکھتے ہیں۔مثلاً ۲۲:۲۲ اور ۷:۲۴ آیت۔

نیز یہ زبور امثال ۲۲:۱۰ جس میں لکھا ہے کہ خداوند کی برکت ہی دولت بخشتی ہے۔اور اس پر کچھ مشقت نہیں ٹھہراتاکی تفصیل ہے۔اس طرح گمان گزرتا ہے کہ یہ سلیمان کی علیحدہ تصنیف نہیں۔لیکن۔بلکہ اس کی تصنیفات میں سے لیا ہوا ہے۔اس کا لبِ لباب یہ معلوم ہوتا ہے کہ کامیابی کی ہر ایک صورت خداوند کی طرف سے ہے۔چنانچہ اس کے مطلع میں یہ آیا ہےکہ جب خداوند ہی گھر نہ بنائے تو بنانے والے کی محنت عبث ہے۔اور اگر خداوند ہی شہر کا نگہبان نہ ہو تو پاسبان کی بیداری عبث ہے۔حاصلات سخت محنت پرموقوف نہیں ہیں۔اور فرزند خداوند کریم کی طرف سے میراث ہیں۔وہ مرد مبارک ہے۔جس نے اپنے گھر کو اس سے بھرلیا۔ کیونکہ وہ دشمنوں کے مقابلے میں پیشمان نہیں ہوگا۔کیونکہ جس طرح کہ اس کی چوتھی آیت میں لکھا ہے کہ بچے تیروں کی طرح ہیں۔جو کہ ایک پہلوان کے ہاتھ میں ہوں۔

زبور۱۲۸: یہ زبور بخصوصیت خاندانی ہے۔اس میں ایک خاندان کی تصویر ملتی ہے۔جس میں سب افراد خداوند کا خوف رکھتے اور اس کی راہوں پر چلتے ہیں۔اس کنبے کی نسبت لکھاہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کی کمائی کھائے گا۔اور اس میں خاوند کی جورو اس تاک کی مانندہوگی۔جو کہ میوہ سے بھرپوراور بآور ہو۔اور گھر کے ارد گرد پھیلی ہو۔اوراس کے بچے زیتون کے پودوں کی ماننداس کے میز کے ارد گرد ہوں گے۔مصنف کی طرف سے دعا ہے۔کہ خداوند اس کو صیحون کی طرف سے برکت دے۔اور اس کی نسبت پیشنگوئی کے طور پر کہتا ہے کہ تو یروشلیم کی کامیابی اور اپنے بچوں کے بچے دیکھے گا۔

زبور۱۲۹: اس میں اسرائیل اپنے گزشتہ احوال کا جائزہ لے کراپنے دشمنوں کی بدسلوکی یاد کرتا ہے۔اور اس کے مطلع ہی میں کہتا ہے میری جوانی سے انہوں نے بارہامجھ کو ستایا اور دکھ دیا۔ہلواہوں نے میری پیٹھ پر ہل جوتا اور لگھاریاں لمبی کیں اور خداوند کی تعریف میں وہ کہتا ہے۔کہ وہ صادق ہے اور اس نے شریروں کی رسیاں کاٹ ڈالیں۔وہ چاہتا ہے کہ وہ سب جو صیحون سے بغض رکھتے ہیں۔ شرمندہ ہوں۔اور الٹے پھریں۔اور چھت کی گھاس کی مانند ہوںجو پیشتر اس کے کہ اکھاڑی جائے۔خشک ہو جاتی ہے۔اور جس سے کہ کاٹنے والا اپنی مٹھی نہیں بھرتا۔اور نہ پولیاں باندھنے والا اپنے دامن کوآخر میں یعنی مقطع میں اسرائیل کہتا ہے کہ ہم خداوند کا نام لے کر یروشلیم کے لیے دعاکرتے ہیں۔

زبور۱۳۰: ایک دفعہ کسی نے مارٹن لوتھر سے سوال کیا کہ زبوروں میں سب سے اعلیٰ کون سا زبور ہے۔لوتھر نے جواب دیا کہ سالیمی پالینی یعنی کہ پولوس کے زبور ۔اور جب سوال ہوا کہ وہ کون سے ہیں تو اس نے کہ زبور ۳۲ ۵۱ ، ۱۳۰ اور ۱۴۳ پولوس کے ہیں کیونکہ ان میں یہ تعلیم ہے کہ گناہوں کا ازالہ اور تلافی تقیظ شریعت یااعمال کے صالح پر نہیں بلکہ ایما؛ن پر مبنی ہے ۔اور نادر اور صحیح اور تسلی بخش تعلیم خصوصیت کےساتھ پولوس کی ہے۔

اس نے سکھایا کہ ہم فضل ہی سے بچیں گئے۔نجات ثواب اور کار خیر پر نہیں۔بلکہ فضل اور صرف فضل ہی پر موقوف ہے۔بعض لوگ خود مانتے ہیں کہ تیر تھ اور حج میں ثواب ہے۔لیکن اسرائیل جاتری جو کہ یروشلیم کی طرف سفر کرتا ہے۔اس بات کا قطعی منکرہے۔اور کہتا ہے کہ اے خداوند میں گہرائیوں میں سے تجھے پکارتا ہوں ۔کیونکہ اذالہ ذنوب تجھ ہی سے ہو سکتا ہے۔اس زبور میں دو حصے ہیں۔

حصہ اول۔ ۱ سے ۴ میں وہ شخص جو کہ اپنی گناہ آلودگی ،معلوم کرتا ہے ۔ملتمس ہے اور زاری سے پکارتا ہے کہ اے خداوند میری آواز سن اور میرے منت کی آواز پر کان متوجہ ہوں۔اگر تو گناہ کا حساب لے تو کون کھڑا رہے گا۔ سو وہ فضل کا محتاج اور طالب ہے۔اور کہتا ہےکہ اے خداوند تیرے پاس۔مغفردت ہے تاکہ لوگ تیرا خوف رکھیں۔

حصہ دوئم: ۴سے ۸ آیت میں وہ کہتا ہے کہ میں خداوند کا منتظر ہوں اور میری جان اس کی انتظاری کرتی ہے۔ مجھے اسکے کلام کا بھروسہ ہے۔اور میری پاسبانوں کی بانسبت جو صبح کے منتظر ہوتے ہیں زیادہ خداند کا انتظار کرتی ہے۔وہ اسرائیل کو مزیدتاکید کرتا ہے ۔کہ وہ خداوند پر توکل کریں۔کیونکہ رحمت اس کے پاس ہے۔اور اس کے پاس کثرت سے مخلوصی ہے سو وہ اسرائیل کو رہائی دےگا۔

زبور ۱۳۱۔ داؤد کا زبور معلات ۔یہ ۔بچوں کا زبور ہے۔مسیح نے شاگردوں سے فرمایاتھا کہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم لوگ توبہ نہ کرو اور چھوٹے بچوں کی مانند نہ بنو تو تم آسمان کی بادشاہت میں ہرگز داخل نہ ہوں گے۔مقدس متی ۳:۱۸ ۔

اس زبور متعدد خواص کا بیان ہے کہ جو کہ بچوں میں خصوصیت سے پائے ہیں۔اور ن کے واسطے موجب برکت ہوتے ہیں ۔ مثلاً فروتنی: بچوں کی فروتنی میں بلند پائیگی کا خیال مقصود ہوتا ہے۔اس زبور کے مطلع یعنی آیت اورل میں لکھا ہے کہ اے خداوند میرادل مغرور نہیں۔اور میں بلند نظر نہیں ہوں۔میں دقیق معاملات اور ان میں جو کہ میرے لیے عجوبہ ہیں دخل نہیں کرتا۔بچوںمیں عین اطاعت اور فرمانبرداری ہوتی ہے۔یہ صفت اکثر مصیبت سے پیدا ہوتی ہے چنانچہ خداوند مسیح نے اذیت سے ہی سیکھی۔دیکھو عبرانی ۸:۵ میں لکھا ہےکہ اگرچہ وہ بیٹا تو بھی اس نے ان دکھو ں سے جو اس نے اٹھائےفرمانبرداری سیکھی۔منصف اس زبور میں کہتا ہے کہ میں اس بچے کی مانند ہوں جس کا دودھ چھڑایا گیا ہو۔میں نے اپنے جی کو ٹھنڈا کیا تو اسے اقرار ہواجس طرح کہ دودھ چھڑائے ہوئے بچے کو ہوتا۔جو کہ اپنی ماں کے پاس ہوتا ہے۔مقطع میں قوم اسرائیل کو ہدایت ہے کہ اس دم سے ابد تک خداوند پر توکل کر۔

زبور۱۳۲: یہ زبور سلسلہ معلات میں سب سے لمبا زبور ہے۔اس کا مقصد تصنیف یہواہ کواس کے صیحون کو برکت دینے کا وعدہ یاد دلانا ہےاوراسرائیل کا قابلِ برکت ہونا دکھلانا ہے۔اس میں دو حصے ہیں۔

حصہ اول: آیات ۱ سے ۱۰ میں اسرائیل خود کو برکت کا مستحق سمجھتا ہے۔اور

حصہ دوئم: آیات ۱۱ سے ۱۸میں یہواہ کی طرف سے اس کا جواب ہے۔حصہ اول میں دو خاص باتیں ہیں۔

(۱) ۱سے ۵ آیات میں داؤد کا جو کہ اسرائیل کا بادشاہ تھا۔منت ماننے کا بیان ہے۔جس میں یہواہ کے ساتھ اس کی وفا داری ظاہر کی گئی ہے۔داؤد نے چاہا کہ وہ یہواہ کے لیے گھر بنائےچنانچہ ان آیات میں کہتا ہے کہ یقناً میں رہنے کے ڈیرے میں نہ جاؤں گا۔اور پلنگ کے بچھونے پر نہ چڑھوں گا۔جب تک کہ یہواہ کے لیے ایک مکان نہ اور یعقوب کے القادر کے لیے ایک مسکن نپہ بناؤں۔

(۲) آیات ۶ سے ۱۰ میں عہد کےصندوق کے لیے اسرائیل کا تفکر دیکھایا گیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ دیکھو ہم نے اس کی خبر فراتا میں سنی۔ ہم نے اس کو بیابان کے میدانوں میں پایا اس پر یہواہ کو دعوت دی گئی ہے کہ اٹھ لاے یہواہ تو اور تیرتے عہد کا صندوق اپنی آرام گاہ میں داخل ہوتیرے کاہن صادقت سے ملبس ہوں اور تیرے مقدس لوگ سے للکاریں۔پھر دعا ہے کجہ خداوند اپنے داؤد کی خاطر اپنے چہرے کو نہ پھراوے۔

حصہ دوئم: کی آیات گیارہ اور بارہ میں یہواہ اسرائیل کو وعدہ وفائی یاد دلانے کو کہتا ہے کہ میں نے سچائی سے داؤد کے لیے قسم کھائی ہے۔سو بے وفائی نہ کروں گا۔میں تیرے پیٹ کے پھل میں سے کسی کو تیرے تخت پر بٹھاں گا۔اور اگر تیرے لڑکےمیرے عہد کو اور میری شہادت کو جو میں ان کو حفظ کریں تو ان کے لڑکے بھی ابد تک تیرے تخت پر بیٹھے چلے جائیں گے۔

آیات ۱۳ سے ۱۸ میں ذکرہے کہ یہواہ نے صیحون کو پسند کیا۔اور اسے چن لیا کہ وہ اس کے لیے مسکن ہو۔اور کہا کہ میرےچین کا یہ ابدی مکان ہے۔میں اس میں بسوں گاکہ میں اس پر ر اغب ہوں۔اس کے اسباب مال میں بہت برکت دوں گا۔اس کےمسیکنوں کو روٹی سے سیر کروں گا۔اور اس کے کاہنوں کو نجات کا لباس پہناؤں گا۔اور اس کے مقدس لوگ خوشی سے للکاریں گے۔وہاں میں ایسا کروں گا کہ داؤد کے لیے ایک سینگ پھوٹ نکلے گا۔میں نے اپنے ممسوح کے لیے ایک چراغ تیار کررکھا ہے۔اور خجالت کو اس کے دشمن کا لباس کروں گا۔لیکن اس کے سر پر اس کا تاج چمکتا رہے گا۔

زبور ۱۳۳۔ داؤد کا زبور معلات۔

اس زبور میں ان لوگوں کی تعریف ہے۔جو کہ یروشلیم میں جمع ہو کر محبت کے بودباش کرتے ہیں۔جاتری اس نظارہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے ۔اور اس یگانگت کی تعریف میں کہتا ہے کہ دیکھو! کیا خوب اور سہانی بات ہے کہ بھائی ایک ساتھ بودو باش کریں۔یہ سب لوگ مختلف ممالک اور ملکِ کعنان کے مختلف حصوں سے آئے تھے۔ایسی جماعت کی ا یک تصویر اعمال ۲: ۹۔ ۱۱ میں ہےکہ یہاں ان اقوام اور ممالک کے نام کہ جن میں سے وہ درج ہیں۔یعنی کہ پارتھی ،۔میدی ۔علامی کے رہنے والے۔مسوپتامیہ ۔ کپدوکیہ۔پنطس۔ایشیا کےفروگیہ۔پمفولیہ۔مصراور لبوا کے اس حصے کے باشندے جو کہ کرینی علاقوں ہیں۔اور رومی مسافر اور یہودی مرید۔اور کرینی اور عرب سب کے سب محبت اور اطمینان کے ساتھ رہتے ہیں۔جاتری یروشلیم میں پہنچ کر اور یہ سب کچھ دیکھ کر اس حالت کو عطر اور حرموں کی اس سے تشبیہ دے کر کہتا ہے کہ یہ اس امنگ ملے عطر کی مانند ہے کہ جو کہ سر پر ڈالا جائے اور با کردار پر ہی بلکہ ہارون کی ڈاڑی سے ہو کر اس کے پیراہن کے گریبان تک پہنچے۔اس سے یہ سب اہالیانِ یروشلیم کا یہواہ کی خدمت کے لیے مخصوص ہونا مرادہے۔پھر ذکر ہے کہ جس طرح کوہِ حرمون کی اوس زمین کو شاداب اور زرخیز بناتی ہے۔اس طرح مسیحی محبت مسیحی جماعت یک جہتی اور کامیابی کا باعث ہے۔کیونکہ ایسی محبت والی جگہ کی نسبت خداوند نے برکت اور حیاتِ ابدی کا حکم فرمایا ہے۔

زبور ۱۳۴: یہ معلاتی سلسلے کا آخری زبور ہے معلوم ہوتا ہے کہ سب جاتری یروشلیم سے معراجعت کے موقع پر ان کو خدمت گزاروں کو جو کہ را ت کو خداوند کے حضور خدمت میں کھڑے رہتے تھےتاکید کرتے ہیں کہ یہواہ کے سب بندوں جو کہ رات کو یہواہ کے گھرکھڑے رہتے ہو یہواہ کو مبارک کہو۔چاہیے کہ وہ جو ہمیشہ یہواہ کے گھر میں رہتے ہیں۔اس استحقاق کے لیے یہواہ کی شکر گزاری کریں۔اس تاکید کے جواب میں وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہواہ جو آسمان اور زمین کا خالق ہے تجھے صیحون میں سے برکت بخشے۔

زبور ۱۳۵: یہ ہیلیلویاہ کا زبور ہے۔اس میں خاص طورپر یہواہ کی تعریف کی ستائش کی گئی ہے اوران سب کو جو کہ اس کے گھر اور اس کی باگاہوں میں کھڑے رہتے ہیں تاکید ہے کہ یہواہ کی ستائش کریں۔اوراس کی کئی ایک وجوہات بیان ہیں۔مثلاً

(۱) ۱ سے ۳ آیات میں یہواہ اپنی ذات ہی سے تعریف کے لائق اور مستحق ہے۔وہ نیک ہے اور اس کی تعریف کرنا پسند ہے۔

(۲) ۴ سے ۱۲ آیات میں اس کا شاہانہ اختیار دکھا یا گیا ہے۔اور بیان ہے کہ یہواہ نے یعقوب کو اپنے لیے چن لیا۔اور اسرائیل کو اپنے خاص خزانے کے لیے منتخب کیا ہے۔وہ بزرگ ہے اور جو کچھ اس نے چاہا سو آسمان زمین دریاؤں اور گہراؤں میں کیا ۔اس نے مصر کے پہلٹوں کو مارا۔فرعون او ر اس کے کل خدمت گزاروں کو عجیب و غریب کام دکھلائے۔اس نے بڑی بڑی قوموں کو مارااور زبر دست یعنی اموریوں کے بادشاہ سیحون اوربسن کے شاہ عوج او ر ملکِ کنعان کی کل مملکتون کو قتل کیا۔اور ان کی زمین اپنے لوگوں کو میراث میں دی۔

آیات ۱۳ ۔ ۱۴ میں یہواہ کی تعریف ہے۔کہ وہ ابدی ہے۔اور اس کا زکر پشت در پشت رہےگا ۔کیونکہ وہ اپنے لوگو کا انصاف کرے گا۔اور اپنے بندوں کی حالت کی وجہ پچھتائے گا۔

آیات۱۵ سے ۱۸ میں غیر اقوام کےک بتوں کی کیفیت بیان کی گئی ہےکہ ان کے بنانےوالے بھی ان ہی کی مانند ہیں۔اور ہر ایک جن کو ان کابھروسہ ہے۔ایسا ہی ہے۔اسرائیل اور ہاررن اور لاوی کے گھرانوں کو اور ان سب کو جو کہ یہواہ سے ڈرتے ہیں ۔تاکید ہے کہ یہواہ کو مبارک کہیں۔آخر میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہواہ صیحون میں مبارک ہے۔وہ یروشلیم میں بستا ہے۔ہیلیلویاہ۔

زبور ۱۳۶۔ ۱۳۵ زبور میں یہواہ کے لوگوں کی نسبت ایک خواہش ہے کہ وہ یہواہ کی ستائش کریں اور ۱۳۶ میں خواہش ہے کہ اس کے لوگ اس کی شکر گزاری کریں۔اور اس کے کئی ایک سبب بتائیں گئے ہیں۔

(۱) یہواہ بھلا ہے اور اس کی رحمت ابدی ہےاور الہٰیوں کا الوہیم ہے اور اس کی ابد تک ہے۔۱ سے۳

(۲) وہی اکیلابڑے عظیم کام کرتا ہے۔آیت ۴

(۳) اس ننے نہایت خوش اسلوبی اور کاملیت کے ساتھ کائنات خلق کی اور یہ کام دانائی سے ہوا ہے۔آیت ۵سے ۹

(۴) اس نے اسرائیل کو غلامی سے رہائی دی اور قوی ہاتھ اور بڑھائے ہوئے بازوں سے چھڑایا۔آیات۱۰ سے ۱۵

(۵) اس نے عجیب طریق اس کی پرورش فرمائیبیابان می اس نے ان کی رہنمائی کی اور نامور سلاطین جان سے مارے ۔ اور ان کی سر زمین میراث میں بنی اسرائیل کو دی ۔آیات ۱۶ سے ۲۲

(۶) اسا نے ان کی راندہ اور پسفتی میں اسن کو یاد فرمایااور دشمنوں سے رہائی دی ۔آیات ۲۳ سے ۲۴۔

(۷) وہ جاندارون کو بھول نہیں جاتا۔بلکہ ان میں سے ہر ایک کا روزی رساں ہے۔آیت ۲۵

(۸) وہ آسمانوں کا خدا سب سے عالیٰ اور قوی ہےاور اس سب پر مسلط ہے۔سو اس کی شکر گزاری ضروری ہے۔آیت ۲۶

زبور۱۳۷۔ یہ زبور اسرائیلی اسیروں کا اس وقت کا ویلا ہے۔جب وہ اسیر کرکمے ملک بابل میں پہنچائے گئے تھے۔اس وقت ان کے اسیرکرنے والوں نے ان سے کہا کہ وہ صیحون کے گیتوں میں سے کوئی ایک گائیں۔اس زبور میں ان کی ایک عجیب تصویر ہے۔ہم ان کو بابل کی ندیوں کے کنارے بیٹھے دیکھتے ہیں۔وہ مغموم ہیں۔اور صیحون اپنے ملک کی یاد میں روتے ہیں۔اور اس کی بربطیں اورموسیقی کے ساز بید کے درختوں سے لٹک رہے ہیں۔ یہ معلوم نہیں کہ ملک چاردریاؤں یعنی افراط دجلہ اولائی اور خیبور میں سے جس کا ذکر بائبل میں ہوا ہے۔کون سے دریا ؤں پر وہ بیٹھے ہوئےتھے۔وقہ مغموم نظر آتے ہیں۔اور اپنے ستانے والوں کو جو چاہتے تھے کہ وہ خوشی منائیں۔جواب دیتے ہیں کہ ہم یہواہ کے گیت غیر ملک میں کیونکر گائیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں ہر حالت خوش رہنا بلکل نہیں سیکھا۔اور ادوم کی مخالفت یاد کرتے اور افن پر لعنت کرتے ہیں۔کیونکہ وہ یروشلیم کی بربادی پر راضی تھے۔عبدیا نبی کی کتاب میں ان ی مخالفت کی خوب تفصیل ہے۔چنانچہ عبدیاہ ۱۰:۱ لیکھا ہے اس قتل کے باعث اور اس ظلم کے سبب جو تونےاپنےہاں یعقوب پر کیا ہے۔تو خجالت سے ملبس ہو گا۔اور ابد تک نیست رہے گا۔

آیات ۵ اور ۶ میں وہ سب یروشلیم سے اپنی محبت ظاہر کرتے ہیں۔اور ان میں ہر ایک یہ کہتا ہے کہ اے یروشلیم میں تجھ کوبھول جاؤں تو ایسا ہو کہ میرا دہنا ہادتھ اپنا ہنر بھول جائے۔اور اگر میں تجھ کو یاد نہ رکھوں۔اوراپنی عزیز تر خوشی سے زیادہ نہ جانوں تو میری زبان میرے تالوں سے چمٹ جائے۔آیات ۷ سے ۹ میں وہ ادوم اور بابل کی بد سلوکی کے باعث ان پر لعنت کرتے ہیں کہ چاہتے کہ خدا خود ادن سے انتقام لے۔

زبو ر ۱۳۸ ۔ یہ داؤد کا زبور ہے اس سے آٹھ زبوروں کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔جو ۱۳۸ سے ۱۴۵ تک باسلسلہ یکے بعد دیگرے آتےہیں۔اس کا نفسِ مضمون ۲ سموئیل ۷ باب ۲۸ آیات کا وہ عدہ ہے جو یہواہ نے داؤد سے فرمایا کہنجاددت دینے والا اس کی نسل پیدا ہو گا۔اس وعدکی بنا پر سزا بھی جو کہ سانپ کو ملی جب کہ اس نے حوا کو بہکایااور خدا نےاس پر لعنت کی کہ عورت کی نسل اس کو کچلے گی۔ اس زبور کی چابی دوسرے سموئیل کے ساتویں باب میں ہے۔اس میں تین حصے ہیں۔

حصہ اول: ۱۔۳ آیات میں قابل مصنف خدا سے مخٓطب ہو کر کہتا ہے کہ میں اپنے سارے دل سے تیری ستائش کروں گا۔الہٰوں کے آگے تیری رحمت اور سچائی کے سبب تیری ثنا خوانی کروں گا۔کیونکہ اس ایک وعدے سےتونے اپنے نام کو اپنے سب عجیب اور قدرت والے سے زیادہ عزت اور جلال بخشا ہے۔

بے شک خداوند نے بنی اسرائیل کو مصر کی غلامی سے رہائی بخشی۔اور اپنے نام کو عزت دی ۔لیکن اس کے بیٹے کے تجسم اور سے اس کو زیادہ عزت ملی جب کہ اس نے اس کے وسیلے سے اپنے سب برگزیدہ لوگوں کو رہائی بخشی

حصہ دوئم: ۴ سے ۶ آیات میں مصنف کہتا ہے کہ کسی بادشاہ نے اس سے پیشتر ایسی خوشخبری نہیں پائی تھی کہ جب یہ وعدہ پورا ہاگا توساری دنیا کے لوگ فراہم ہوں گےکہ یہواہ کے لوگ فراہم ہوں گے۔کہ یہواہ کی ستائش کریں۔چنانچہ وہ کہتا ہے کہ اے خداوند زمین کے سب بادشاہ تیرے منہ کا کلام سنیں گے۔اورتیری ستائش کریں گےیاں وہ خدا کی راہوں میں گائیں گے۔کہ خداوند کا جلال بڑا ہےوہ بلند ہے اور پستوں پر توجہ کرتا اور مغرورں کو دور سے پہچانتاہے۔

حصہ سوئم: آیات ۷ سے ۸میں مصنف عرض کرتا ہے کہ یہواہ اس کے لیے اس کے کام کو انجام یعنی کہ یہواہ اس ے بچائے اوراسےترک نہ کرے۔مصنف اس عجیب وعدے کے لیے خداوند کی ستائش کرتا ہے۔

زبور۱۳۹: داؤد کا زبور۔ اس میں یہواہ کی چند صفات بیان ہوئی ہیں۔ مصنف دکھادتا ہے کہ یہواہ ہمہ دان ہےاور ہر جگہ حاضر ہےاور قادرِ مطلق ہے۔مصنف محسوس کرتا ہے کہ یہواہ نے سراسر گھیر لیا ہے۔یعنی کہ وہ اس کے اوپر نیچے اورباہر بھیتر ہے۔اور کہ وہ بغیر یہواہ کے مطلقاً کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کی فعل مختاری بھی قائم اور بحال رہتی اور یہواہ بطور ایک مالک رحیم کے اس پر حکومت کرتا ہے۔اس زبور میں چار حصے ہیں۔

حصہ اول: آیات۱ سے۶ میں مصنف یہواہ کی ہمہ دانی اور اس علیم کل ہونے کا بیان کرتا ہے کہ کیونکہ وہ معلوم کرتا ہے کہ یہواہ نے اس کو بخوبی پہچان لیا ہے ۔سو وہ کہتا ہے کہ تو اے یہواہ تو مجھ کو جانتا اور پہچانتا ہے۔تو میرا اٹھنا اور بیٹھنا جانتا ہے۔تو میرے اندیشے کو دور سے یعنی پیشتر اس سے کہ وہ میرے دل میں آئے ۔دریافت کرلیتا ہے ۔اس طرح یہواہ کی صفات کا بیان ہے۔چھٹی آیت میں وہ کہتا ہے کہ ایسا عرفان میرے لیے ایک عجوبہ ہے۔وہ بلند ہے اور میں اس تک پہنچ نہیں سکتا۔

حصہ دوئم: آیات ۷سے ۱۳ میں مصنف یہواہ کے ہر جگہ پر ہونے کا یعنی جائی ہونے کا ذکر کرتا اور کہتا ہے کہ وہ ہر کہیں موجود ہے۔ اور تسلیم کرتا ہے کہ وہ کسی طرح بھی اس بھاگ نہیں سکتا۔اور کہتا ہے کہ اگرچہ میں آسمان پر چڑھ جاؤں۔تو اے یہواہ تو وہاں ہے۔اگر میں اپنابستر پاتال میں بچھاؤں گا۔تو دیکھ تو وہاں بھی ہے۔اگر صبح کے پنکھ لگا کر سمندر کی انتہا میں جارہوں۔تو وہاں بھی تیرا ہاتھ مجھے لے چلے گا۔اور تیرا ہاتھ مجھے سنبھالے گا۔کہ تاریکی مجھے چھپا نہ سکے گی۔کیونکہ یہواہ کی حضوری کے سامنے تاریکی ٹھہر نہیں سکتی اس کی تجلی کے سامنے وہ کافور ہوجاتی ہے۔

حصہ سوئم: آیات۱۳ سے ۱۸ میں منصف کہتا ہے کہ یہواہ کا علیم کل اور ہر جگہ حاضر ہونااس کی قدرت مطلق پر منحصر ہے۔کہ وہ انسان سے اس باعث سے واقفیت رکھتا ہے۔اس نے اس کو خلق کیا بدینی کی وجہ سے وہ یہواہ کی ستائش کرتا اور کہتا ہے کہ اے یہواہ تیری آنکھوں نے میرے بے ترتیب مادے کو دیکھا اور تیرے سب دفتر میں یہ سب چیزیں لکھی ہوئی ہیں۔اور انکے دنوں کا حال بھی اسی وقت جب کہ ان میں سے کوئی تھی بھی نہیں۔تحریر ہوا کہ وہ کب وجود میں آئیں گی۔

حصہ چہارم: آیات ۱۹ سے ۳۴ میں مصنف اس وجہ سے کہ وہ یہواہ کی صفات سے واقف ہے۔یہواہ کے سب دشمنون سے کینہ رکھتاہے۔اور اس خیال سے کہ شاید اس میں بھی کچھ کسر ہوپکار کر کہتا ہے کہاےف یہواہ مجھ کو جانچ اور میرے دل کو جان اور مجھ کوآزما۔اور میرے اندیشوں کو پہچان۔دیکھے کہ مجھ میں کوئی درد انگیز عادت ہے کہ نہیں۔ اور مجھ جو ابدہ رہ میں چلا۔

زبور ۱۴۰: داؤد کا زبور سردار مغنی کے لیے۔

اس میں ایک راستباز شخص کو شریروں میں گھرا ہوا دیکھتے ہیں۔وہ کامل اطمینان میں ہے۔اور شریروں کی رسوائی اور اپنے بچاؤ کا منتظر ہے۔اس کے توکل اور اطمینان کی وجہ اس کا توکل ہے۔جو کہ وہ یہواہ پر رکھتا ہے۔اس میں چار حصے ہیں۔کیونکہ لفظ سلاسے ایک دوسرے سے جدا ہوئے ہیں۔ لفظ سلا زبور ۸۹میں استعمال ہوا ہے ۔اور اس کے بعد اس زبور میں ہے۔چنانچہ ان پچاس زبوروں میں جو کہ ۸۹ اور۱۴۰ کے درمیان ہیں یہ لفظ نہیں آتا۔اس کی کوئی خاص وجہ معلوم نہیں قریباً کل ۴۰ زبوروں میں یہ لفظ ہے۔

حصہ اول: آیات ۱ سے ۳ میں مصنف یہواہ سے دعا گو ہے کہ اسے ان شریروں سے رہائی دے جن سے وہ گھیر اہوا ہےکیونکہ سانپوں کی مانندوہ اپنی زبانیں تیز کرتے ہیں ۔اور ان کے ہونٹوں کے تلے افعی کا ظاہر ہے۔سلاہ

حصہ دوئم: آیات ۴ سے ۶ میں مصنف رہائی کے واسطے یہ کہہ کر دعا کرتا ہے کہ مغرروں نے چھپ کر میرے لیے پھندے اور رسیاںتیار کیں ہیں۔انہوں نے رہ گزر میں جال بچھا یا ہے۔انہوں نے میرے لیے دام لگا ئے ہیں۔سلاہ

حصہ سوئم: آیات ۶ سے ۸ میں مصنف خداوند کو اپنا شخصی نجات دہندہ تسلیم کرکے اس سے عرض کرتا ہے۔کہ وہ شریر کے مطلب کو پورا نہ کرے۔بلکہ اس کے برے منصوبوں کو انجام تک پہنچنے نہ دے ۔تاکہ وہ سر نہ اٹھائے ۔سلاہ۔

حصہ چہارم: ۹سے ۱۳آیات میں وہ عرض کرتاہے کہ اے خدا جنھوں نے مجھے چاروں طرف سے گھر رکھا ہے۔ان سے ایسا کر کہ ان کےہونٹوں کی زناکاری ان ہی کے سر پر آپڑے ۔اور وہ یہواہ کی طرف مخاطب ہو کر اپنے یقین کا دعویٰ کرتا ہے وہ مظلوموں کا انصاف کرے گا۔اور مسکینوں کا بدلا لے گا۔اور کہتا ہے کہ تب صادق لوگ فی الحقیقت تیرا نام لے کر شکر گزاری کریں گے۔اور راستباز سکونت کریں گے۔

زبور۱۴۱: داؤد کا زبور ۔ اس زبور نسبت مفسرین کہتے ہیں کہ اس کا مطلب صفائی کے ساتھ عیاں نہیں ہے۔تو بھی مصنف کی دعا کا مقصد یہ معلوم ہوتاہے۔کہ ہر طرح کے برے کام سے بچایا جائے۔اور خدا کی بادشاہت میں استعمال کیا جائے ۔یہ زبور تین حصوں میں منقسم ہے۔

حصہ اول : آیات ۱ سے ۴ میں مصنف دعا کرتا ہے کہ اس کی دعا بخور کی طرح خدا کے حضور پہنچائی جائے۔اور کہتا ہے کہ میرے ہاتھو ں کا اٹھانا شام کی قربانی کی مانند ہو۔اور عرض کرتا ہے کہ وہ اپنے ہونٹون سے قصور نہ کرے۔اور اس غرض سے وہ خداوند سے یہ دعا کرتا ہے کہ اے خداوند! میرے منہ پر نگہبان بٹھا۔میرے ہونٹوں کے درازوں کی دربانی کر میرے دل کو کسی بری بات کی طرف مائل نہ ہونے دے۔کہ وہ بدکاروں میں شامل ہو کر بد کاری نہ کرے۔

حصہ دوئم: آیات ۵ سے ۶ میں وہ کہتا ہے کہ اگر صادق مجھ کو مارے تو وہ مہربانی ہے۔اور اگر وہ مجھ کو تنبیہ دے تو میرے لیے سر کاروغن ہے۔اگر وہ دوبارہ بھی کرے تومیرا سر اس سے انکار نہ کرے گا۔بلکہ جب کہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو تو۔میں اس کے لیےب دعا مانگوں گا۔

حصہ سوئم: آیات ۷ سے ۸ میں وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اگرچہ دشمن ہم پر غالب بھی آئے توبھی میری آنکھیں تیری طرف گی ہیں۔میرا توکل تجھ پر ہے۔تو مجھ کو اس جال سے بچا جو انہوں نے میرے لیے بچھایا اور بد کاروں کےجالوں سے بھی ہے۔

زبور ۱۴۲: مشکیلِ داؤد اس موقع کی دعا ہے کہجب کہ وہ مغارہ میں تھا۔۱ سموئیل ۲۲باب۱ آیت اور۲۴ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دودفعہ غاروں میں پناہ گیر ہوا۔پہلی بار ادولا م میں اور دوسری دفعہ عین جدی کے غار میں۔اس زبور سے یہ معلوم نہیں ہوتاہے کہ اس وقت وہ کس مغارہ میں تھا۔صرف اس قدر معلوم ہے کہ مغارے میں اس نے دعا مانگی اور ساؤل کے ہاتھ سے عجیب ڈھنگ سے بچ گیا۔ وہ پولوس سیلاس کی مانند تھاجنھوں نے قید میں گیت گائے ۔اور قید خانے دروازے ان کے لیے کھل گئے۔اس زبور میں کوئی خاص حصہ نہیں۔داؤد تنگی اور خطرے میں پڑ کر دعا کرتا ہے اور بچایا جاتا ہے۔اس نے دعا مانگنے سے پیشتر اپنی طرف سے کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو پایا۔چنانچہ اس کی ۴ اور ۵ آیات میں مرقوم ہے کہ میں نے اپنے دہنے ہاتھ پر نگاہ کی اوردیکھا مگر کوئی نہ پایا۔جو مجھ کو پہچانتا ہو۔مجھے کہیں پناہ نہ ملی۔کوئی میری جان کا حال پوچھتا نہیں۔تب میں خداوند کے حضور چلایا اور اس سے کہا کہ تو میری پناہ گاہ ہے۔میری روح کو قید سے رہائی بخش ۔تاکہ تیرے نام کی ستائش ہو۔تب صادق لوگ میرے آس پاس جمع ہوں گے جب تو مجھ پر احسان کرے گا۔

زبور ۱۴۳: یہ زبور بھی داؤد کا ہے۔یہ نادمی زبوروں کا آخری زبور ہے۔اور قدیم نسخوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس کی تصنیف اس وقت ہوئی جب داؤد ابی سلوم کی بغاوت کے ایام میں یروشلیم سے بھاگا۔اس زبور میں نہ مصنف حفاظت و رہنمائی اور معافی کے لیے یہواہ سے ملتمس ہےاس کو یقین ہے کہ گناہ کے سبب اس پر یہ مصیبت آئی اور وہ شرمندہ ہو کر کہتا ہے کہ یہواہ اس کو راستی میں لے چلے۔اس زبور میں دو حصے ہیں۔

حصہ اول: آیت ۱ سے ۶ یہ حصہ خاص کر فریادی آیت۱ سے ۲ میں مصنف یہواہ کی توجہ اپنی طرف کھینچنا چا ہتا ہے۔اس واسطے نہیں کہ وہ اس کو عدالت میں لائےبلکہ وہ اس پر رحمت کرے چنانچہ وہ کہتا ہے کہ اپنے بندے کو اپنے ساتھ عدالت میں نہ لا۔کیونکہ کوئی انسانم جیتی جان تیرے حضور کھڑا نہیں رہ سکتا۔

آیات ۳ سے۶ وہ دشمن کی شکایت کرکے کہتا ہے کہ وہ میری جان کے پیچھے پڑا ہے۔کہ اس نے میری زندگی کو خاک پر پائمال کیا ۔ اس نے مجھ کو اس کی مانند جو مدت سے مر گیا ہو تاریکی میں بٹھایا ہے۔اس لیے منیرا جی اداس ہو گیا ہے۔اورمیں اپنے ہاتھ تیری طرف بڑھاتا ہوں۔کیونکہ میری روح خشک زمین کی مانند تیری پیاسی ہے۔سلاہ

حصہ دوئم: آیات ۷ سے ۱۲ مصنف اپنی التماس پیش کرتا ہے اورکہتا ہے کہ اے یہواہ جلد میری سن کہ میری روح تمام ہونے پر ہے۔مجھ سے منہ نہ موڑ نہیں تومیں ان کی مانند ہو جاؤں گا جو گڑھے میں گرتے ہیں۔صبح کے وقت اپنی شفقت کی آوازسنا کیونکہ میرا توکل تجھ پر ہے۔اور اپنی راہ کہ جس میں چلومجھے بتا کیونکہ میں اپنی روح کو تیری طرف اٹھاتا ہوں۔

آخری آیت میں وہ دشمن سے رہائی پانے کے واسطے پھر دعا کرتا ہے کہ مجھ کو اپنی مرضی کی راہ دکھلادےاور کہتا ہے کہ تیری نیک روح مجھ کو راستی کے ملک میں لے چلے۔اس سبب سے ہ میں تیرا بندہوںان سب کو جومیرے جی کو دکھ دیتے ہیں نابود کر۔

زبور ۱۴۴: اس زبور کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہواہ کی تعریف کی جائے ۔اس سبب سے اس نے بادشاہ کو اس قابل کیا کہ وہ اپنےسب دشمنوں کو مغلوب کرے۔اور رعایا کے امن و ایمان کا باعث ہو۔یہ زبور دو حصوں میں منقسم ہے۔

حصہ اول : آیات۱ سے ۱۱ یہ حصہ اور زبوروں سے منتخب ہوا ہے۔آیت اول میں مصنف یہووہ اکوجو اس کی چٹان ہے۔مبارک کہتا ہے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ اس نے میرے ہاتھوں کور جنگ کرنا سکھایااور انگلیوں کوف لڑنا سکھایا ہے۔پھر اپنی ذاتی ناقابلیت کا خیال کرکے اور یہوواہ کی طرف مخاطب ہو اسے کہتا ہے کہ اے یہوواہ انسان کیا ہے کہ تواسے یاد فرمائے؟اور آدم زاد کون ہےجوتو اسے کچھ شمار کرے؟

آیات ۵سے ۱۱ میں وہ اپنے دشمنوں کی بربادی اور اپنئ رہائی کے لیے یہوواہ سےملتمس ہے۔

حصہ دوئم: آیات ۱۲ سے ۱۵ میں وفہ اپنے دشمنوں کی بربادی کے نتائج بیان کرتا ہے۔ کہ رعایا خوش و خرم ہو گی ۔اور ہمارے بیٹے اپنی جوانی میں پودوں کی مانند اور ہماری بیٹاں زاویہ کی گھڑیوں کی مانند ہوں گی۔جو کہ محل کے اندازہ سے خوش تراش ہوں۔اور کہ ہمارے مسکن مالا لال ہوں گے۔اور گائے بیل اور بھیڑ بکریاں بکثرت ہوں گی۔اور ہماشرے بازاروں میں کسی طرح کی نالش نہ ہوں گی۔اور آخر میں وہ کہتا ہے کہ مبارک ہے وہ گروہ جس کا یہ حال ہے۔مبارک ہے وہ گروہ جس کا خداوند ہو۔

زبور ۱۴۵ : داؤد کا ثنا خوانی کا زبور ۔ یہ حروف ِ تہجی کا آخری زبور ہے۔۹ ، ۱۰ ، ۲۵ ، ۳۴ ، ۳۷ ، میں وہ۱۱۱ ، ۱۱۲ ، ۱۱۹ اور ۱۴۵ حروفِ تہجی کے زبور ہیں۔زبور ۱۴۵ تہلہ یعنی ثنا یا حمد کا گیت کا کہلاتا ہے۔عبرانی زبان میں زبور کی کتاب تہلم یعنی ثنا کی کتاب کہلاتی ہے۔یہودیوں نے اس زبور کی بہت قدر کی ۔کوینکہ اس کی نسبت تالمد میں مذکور ہے ۔کہ اگر کوئی داؤد کی تہلم تین مرتبہ روز سنائے تو اس کو روز تیقن ہو سکتا ہے۔کہ وہ خدا کی بادشاہت کا فرزند ہے ۔اس لیے اس زبور کی قدرصرف تہجی زبور ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس واسطے ہے کہ اس میں ظاہر کیا گیا ہےکہ خدا کی پروردگاری می کل مخلوق شامل ہے۔

تہجی زبور ہونے کے باوجود اس زبور میں کل ۲۱ آیات ہیں صرف نو کسی وجہ سے حذف ہیں۔یہ زبور خاص الخاص تعریفانہ ہے۔اور ستائش کے زبوروں سلسلے کا شروع ہے۔جو کہ ۱۵۰ زبور پر ختم ہوتا ہے۔اس میں یہواہ کی ستائش اس کی شاہانہ حیثیت اور اس کی حکومت کے سبب سے کی جاتی ہے ۔اس میں کوئی خاص حصہ نہیں۔بلکہ یہ کی نسبت چار خاص باتوں کو پیش کرتا ہے۔جن کے سبب اس کی خوانی ہوتی ہے۔

(۱) ۱ سے ۶ آیات میں یہوواہ کی ذاتی خوبیا ں پیش ہیں چنانچہ آیات ۳ سے ۴ میں ذکر ہے کہ یہواہ بزرگ ہے۔اور نہایت ستائش کے لائےق ہے۔اور اس کی بزرگی تحقیق سے بالا تر ہے اورلکھا ہے کہ ہر ایک پشت دوسری پشت سے تیرے کاموں کی ستائش کرے گی۔اور تیرمی قدرتوں کا بیان کرے گی ۔

(۲) آیات ۷ سے ۱۰ میں یہوواہ کے احسان کی رحمت کی تعریف ہے۔چنانچہ آٹھویں آیت میں آیا ہے کہ یہوواہ مہربان اور رحیم ہے غصہ کرنے میں دھیما اور شفقت میں بڑھ کر ہے آیت دس میں لکھا ہے کہ تیری ساری دستکاریاں تیری ثنا خوانی کرتی ہے۔اور تیرے مقدس لوگ تجھ کو مبارک باد کہتےہیں۔

(۳) آیات ۱۱ سے ۱۳ میں اس کی سلطنت کی نسبت کہا گیا ہے کہ تیرے مقدس لوگ تیری سلطنت کا بیان کرتے اور تیری قدرت کا چرچا کرتے ہیں۔تاکہ آدم زاد پر تیری قدرت اورتیری سلطنت کی جلیل شوکت ظاہر کرے ۔تیری بادشاہت ابدی ہے۔اور تیری حکومت پشت در پشت قائم رہتی ہے۔

(۴) آیات ۱۴ سے ۲۱ میں یہواواہ کی پردگاری اور اس کی صداقت کا بیان ہے۔چنانچہ پندرھویں آیت میں لکھا ہے کہ سب کی آنکھیں تجھ پر لگی ہیں۔تو انہیں وقت پر ان کی روزی دیتا ہے۔

آیت ۱۷ میں لکھا ہے کہ یہوواہ اپنی کل راہوں میں صادق اور سب کاموں رحیم ہے۔۲۱ آیت میں مصنف کہتا ہے کہ میرا منہ یہوواہ کی ستائش کا مضمون کہے گا۔ہاں ہر ایک بیشر اس کے مقدس نام کو مبارک کہا کریں۔

زبور۱۴۶: یہ ہیلیلویاہ کا زبور ہے۔اور دیگر زبوروں کی مانند سے شروع اور ختم ہوتا ہے۔اس سے ہیلیلویاہ کا آخری سلسلہ شروع ہوتا ہے۔جس میں زبور کی کتاب کے آخری پانچ زبور ہیں ۔اس زبور کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی بہودی یہوواہ پر یقین کھنے سے ہے۔اس کے مضمون میں متفرق حصے نہیں ہیں۔اس میں صرف یہوواہ کی تعریف ہے مصنف اس کی ایک اور دو آیات میں اپنا ہی ذکر کرتا ہے۔اور اپنی جان کو کہتا ہے کہ یہیوواہ کی تعریف کرنیز دعوے کرتا ہے کہ جب تک میں جیتا ہوں تب تک میں یہوواہ کی ستائش کروں گا۔اور جب تک موجود ہوں اس کی ثنا خوانی کروں گا۔

آیات ۳ سے ۵ میں وہ کہتا ہے کہ امیروں پر اور آدم زادوں پر توکل نہ کرو۔کہ ا ن میں نجات دینے کی طاقت نہیں ہے۔کہ جس وقت ان کا دم نکل جاتا ہے تو وہ اپنی مٹی میں پھر جاتے ہیں۔اور اس دن ان کے منصوبے فنا ہو جاتے ہیں۔اور کہتا ہے کہ مبارک ہے وہ جس کی کمک یعقوب کا خدا ہے اور جس کا توکل یہوواہ اس کے خدا پر ہے۔آیات ۶ سے ۹ میں وہ نو وجوہات پیش کرتا ہے۔جن کے باعث یہوواہ ہی پر توکل اور بھروسہ رکھنا ضرور ہے۔

(۱) وہ پیدا کنندہ ہے اور ہمیشہ اپنی سچائی کو برقرار رکےرکھتا ہے۔

(۲) وہ مصنف اور درد مند ہے۔وہن مظلوموں کا انصاف کرتا ہے۔اور بھوکوں کو روٹی دیتا ہے۔

(۳) وہ اسیروں کو چھڑاتا ہے۔

(۴) وہ خیر اندیش دہے۔

(۵) وہ اندھوں کی آنکھیں کھول دیتا ہے۔

(۶) یہوواہ ان کو جو نہوڑ یعنی خمیدہ پست ہو گئے ہیں۔سیدھا کھڑا کرتا ہے۔

(۷) وہ صادقوں کو عزیز رکھتا ہے۔

(۸) وہ پردیسوں کا نگہبان ہے اور یتیموں اور بیواؤں کو سنبھالتا ہے۔

(۹) یہوواہ ابد تک سلطنت کرے گا۔ہاں تیرا خدا اے صیحون پشت در پشت۔ ہیلیلویاہ۔

زبور۱۴۷: یہ زبور بھی ہیلیلویاہ سے شروع اور ختم ہوتا ہے۔بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ زبور بمعہ زبور ۱۴۸ ، ۱۴۹اور ۱۵۰ کےاس وقت تصنیف ہوا جب کہ یروشلیم شہر پناہ تیار ہو گئی۔اور تقدیس کے وقت لایوں کو ان کی سب جگہوں سےڈھونڈتے تھے۔کہ انہیں یروشلیم کو لائے۔کہ خوشی اور شکر گزرای اور سرود اور طبلے اور بربط شہر پناہ کی تقدیس کریں۔ گانے والوں کے بیٹے ہر کہیں سے یروشلیم میں فراہم ہوئے تھے۔نحمیاہ ۳۷:۱۱۔

اس زبور میں یہوواہ کی ستائش کے لیے تین بلاہٹیں ہیں۔

(۱) آیات ۱ سے ۶ میں کہا گیا ہے کہ یہوواہ کی ستائش کرو۔کہ ہمارے خدا کی ثنا خوانی کرنا بھلا ہے۔اس واسطے کہ وہ ہر دل عزیز ہے۔اس کی ستائش کرنا شائستہ ہے۔یہوواہ یروشلیم کو تعمیر کرتا ہے۔وہ اسرائیل کے بچھڑے ہووں کو جمع کرتا ہے۔وہ شکستہ دلوں کا علاج کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

(۲) آیات ۷ سے ۱۱ میں یہ کہ اس کی ستائش اس لیے کی جائے کہ وہ فائدہ عام کو مدِ نظر رکھ کر آسمان پر بدلیوں کا پردہ ڈلتا ہے۔جو کہ زمین کے لیے مینہ تیار کرتا ہے۔جو پہاڑوں پر گھاس اگاتا ہےجو بہائیم اور کوو کے بچوں بھی جو چلاتے ہیں روزی مہیا کرتا ہے۔

(۳) آیات ۱۲ سے ۲۰میں یروشلیم کو دعوت دی گئی ہےکہ وہ یہوواہ کی ستائش کریں۔وہ ان سے مخاطب ہو کر کہتاہے کہ اے یروشلیم اس نےتیرے دروازوں کے بینڈوں کو مظبوطی بخشی۔اور تجھ میں تیرے بچوں کو برکت بخشی اور وہ تیری اطراف میں امن بخشتا اورتجھ کو ستھرے سے ستھرے گہیو سے آسودہ کرتا ہے۔وہ اپنا کلام یعقوب پراور اپنے حقوق اور عدالتیں اسرائیل پر ظاہر کرتا ہے۔اس نے کسی قوم سے ایسا سلوک نہیں کیا اور نہ کوئی اس کی آگاہ ہوا۔ہیلیلویاہ۔

زبور۱۴۸: یہ بھی ہیلیلویاہ کا زبور ہے اس میں کل مخلوقات یعنی آسمان اور زمین طلب کیے جاتے ہیں۔کہ یہوواہ کی ستائش کریں۔نہ صرف جاندار بلکہ بے جان ایشا بھی مدعو ہیں۔کہ وہ اس حمدو ثنا میں شریک ہوں یہ باتیں ظاہر کرتی ہیں۔ مصنف کا دل ثنا سے بھرا ہوا ہے۔اور وہ خواہشمند ہے کہ یہوواہ کی ستائش کی جائے۔وہ وقت آتا ہے کہ جب کل موجودات انسان کےساتھ مل کرنجات کی خوشی میں شریک ہوگی جس طرح کہ وہ آدم زاد کی برگشتگی پر اس کی لعنت میں شریک ہوئی۔

حصہ اول: آیات ۱ سے ۶ میں آسمان طلب ہیں کہ یہوواہ کی ستائش کریں فرشتگان۔سورج ۔چاند ۔ستارےاور آسمانوں کا آسمان اور پانی جو آسمانوں کے اوپر ہے۔سب کے سب طلب کیے گئے ہیں۔کہ یہوواہ کی ستائش کریں۔اس لیے کہ وہ سب کے سب اس سے خلق کیے گئے ہیں۔اور ان کا قائم رہنا اس پر منحصر ہے ۔

حصہ دوئم: آیت ۷ سے ۱۲ میں سب کچھ زمین پر ہے اور آسمندر میں ہے۔ یعنی آگ ، اولے ، برف ، بخارات ، ہوا ، پہاڑ، ٹیلے ، پھل دار درخت،سب دیودار ،سب جانور ، کیڑے مکوڑےپردار چڑیاں، سب لوگ، بادشاہ ، شہزادے ،قاضی جوان مرد کنواریاں اور سب کے سب طلب کیے ہیں۔کہ یہوواہ کے نام کی ستائش کریں۔

حصہ سوئم: آیات ۱۳ سے ۱۴ میں اس کی ستائش کے اسباب بیان کیے ہیں۔لکھا ہےکہ وہ یہوواہ کے نام کی ستائش کریں۔کیونکہ اس کا نام اکیلا عالی شان ہے۔اس کاجلال زمین اور آسمان کے او پر پھیلا ہے۔اور کہ وہی اپنے لوگوں کو سینگ کو بلند کرتا ہےیہی اس کے پاک لوگوں بنی اسرائیل یعنی اس قوم کی جو اس کے نزدیک ہے۔شوکت ہے۔ہیلیلویاہ۔

زبور۱۴۹: اس زبور میں یہوواہ کی بلاہت ہے کہ وہ اس کی ستائش کریں اور اس کے لیے اییک نیا گیت گائیں۔کہ اس کی روح لوگوں کو پاک کریں۔کہ اسرائیل اپنے خالق سے شادمان ہوئےاور بنی صیحون اپنے بادشاہ کی وجہ سے خوشی کریں کلیسیا کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زبور عام معنوں میں سمجھا گیا ۔کلیسیا نے یہ زبور مسیحی لوگوں کو جنگ کےواسطے متحرک کرنے کے لیے استعمال کیا۔چنانچہ کیسپر سیوپس (Casper ScioPius) نے اس زبور کےذریعے سےرومن کیتھولی کلیسیا کو لوٹھر کے ایام میں ترغیب دی۔کہ پروٹسٹنٹ لوگوں سے لڑائی کریں ۔کیونکہ کلیسیامستحق ہے۔کہ سب قوموں پر حکمرانی کریں۔چنانچہ ۶ سالہ جنگ چھڑ گئی ہے۔نیز انہیں دنوں میں تھامس منظر (Thomas Munzar) نے بیپٹسٹ لوگوں کو ابھارا کہ وہ رومن کیتھولک اور دیگر مسیحی کلیسیاؤں سے لڑائی کریں۔اور اپنے فرقہ کوقائم کریں۔اور اس کا نیتجہ زمینداروں کا جنگ کہلایاپولوس نے کیا خوب کہا ہے کہ ہم جسم میں چلتے ہیں۔ہم جسم کے طور پر نہیں لڑتے ۔اس لیے کہ ہماری لڑائی کے ہتھیار جسمانی نہیں دوسرا کرنتھیوں ۱۰: ۳۔۴۔

اس زبور میں ساری کلیسیا طلب کی گئی ہے۔کہ خوشی کرےاور یہوواہ کے نام کی ستائش کرتے ہوئے ناچیں اور طبلہ اور بربط سے اس کی ثنا خوانی کرے۔کیونکہ خداوند اپنے لوگوں سے خوش ہوتا ہے۔وہ صیحون کو نجات کی راہ بخشتا ہے۔جسمانی جنگ جو مسیحی ان آخری آیات کو اپنی سند سمجھ کر اسے جسمانی ہتھیار سے لڑنے کی خیال کرتے اور پولوس کی ہدایت کا خیال نہیں رکھتے ۔اس لیے کہ وہ ان کی مرضی کے موافق نہیں ہے ۔خدا کی بادشاہت کھانا پینا نہیں ہے۔بلکہ راستی اور سلامتی اور روح القدس سے خوش وقتی ہے۔ہیلیلویاہ۔

زبور ۱۵۰: یہ زبور ہیلیلویاہ سے شروع ہوتا ہے۔اور دو ہیلیلویاہ سے اس کے ساتھ زبور کی کتاب ختم ہوتی ہے۔اس میں ہر ایک سانس لینے والی چیز سے طلب کیا گیا ہے۔کہ خداوند کی ستائش کرے۔اس کی آیت اول میں بتا یا گیا ہے کہ اس کی ستائش کہاں کی جائے ۔یعنی کہ اس کے مقدس میں اور اس کی قدرت کی فضا میں دوسری آیت میں اس کی ستائش کرنے کی وجی یوں بیان کی گئی ہے۔اس کی قدرتوں اور اس کی بزرگی کے سبب اس کی ستائش کرو۔

آیات ۳ سے ۶ میں ذکر ہے کہ کس طرح اس کی ستائش کی جائے یعنی کہ قرنائی پھونکتے ہوئے۔بربط چھیڑتے ہوئےطبلہ بجاتے اور ناچتے ہوئے۔تاروں والے ساز اور مانسریاں بجاتے ہوئے۔بلند آواز والی جھانجھ بجا کر ہر ایک چیز جوسانس لیتی ہے۔یہوواہ کی ستائش کرے۔ہیلیلویاہ ہیلیلویاہ۔ کسی مفسر نے کہا کہ اس زبور میں دس قسم کے باجوں کے نام ہیں۔اور ان دس اقسام میں تمام اقوام کے ساز شامل ہیں۔یعنی کہ ہر ایک قوم بجاتی ہوئی گانے والوں کے گروہ میں شریک ہو گی۔اور وہ سب ہم نوا اور ہم آہنگ ہوں گے۔اور یہ اس میں بارہ دفعہ کہا گیا ہے۔یہوواہ کی ستائش کروجس سے مراد ہے کہ اسرائیل کے بارہ فرقوں کو الگ الگ تاکید گی گئی ہے۔خدا کرے کہ ہم بھی گانے بجامے والے گروہ میں شامل ہوں۔آمین ۔ثم آمین۔