Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

باب چہارم

زبور کی تیسری کتاب کے بیان میں

زبور ۷۳ سے ۸۹

سوال۱۴:اس تیسری کتاب کی کیفیت بیان کرو۔

جواب:اس میں ۱۷ زبور ہیں جن میں سے صرف ایک ہی یعنی زبور ۸۶ داؤد کا ہے۔۱۱ آصف کے ہیں۔(۷۳۔ ۸۳) چار یعنی ۸۴ ، ۸۵ ،

۸۷ اور ۸۸ بنی قرع کے ہیں۔اور ایک یعنی ۸۹ ایتان کا ہے۔خیال ہے کہ حزقیادہ بادشاہ نے اس کتاب کو تالیف کیا۔جب اس نے

صلاح جاری کرکے ہیکل کی مرمت کروائی۔اور عبادت کو پھر جاری کیا۔دوسری تواریخ ۲۹ باب ۲۰ سے ۳۰ آیات۔

سوال۱۵:آصف کی مختصر کیفیت بیان کرو۔

جواب:جب ہم کسی کی تصنیفات پر غور کرنا چاہتے ہیں۔تو ہم کو اول یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کون ہے؟اور کیاحیثیت رکھتا ہے؟

(۱) آصف نے ۱۲ زبور تصنیف کیے۔اور وہ داؤد کے زبوروں کے ہم پلہ سمجھے جاتے ہیں۔پاک کلام میں سے ہم آصف کی نسبت کئی

ایک باتیں معلوم کرسکتے ہیں۔مثلاً تواریخ ۱۵ باب ۱۶ سے ۱۹ آیات سے معلوْم ہوتا ہے کہ داؤد عہد کے صندوق کو اوبیدا دوم دوم کے گھر سے نکال کر یروشلیم میں پہنچانے لگا۔تو اس نے لاویوں کوحکم دیا کہ اپنے بھائیوں میں سے گانے والوں کو مقرر کریں۔ موسیقی کے ساز یعنی بربطیں ،کنارتیں،اور منجرے چھڑیں۔اور بلند آواز سے خوشی سے گائیں۔چنانچہ لاویوں نے ہیمادن بن یوئیل کو مقرر کیا۔اور اس کے بھائیوں میں سے آصف بن برقیا کو اور بنی مراری مین سےایتان بن کوسایادہ کواور گانے والے ہیمان

ایتان مقرر ہوئے۔کہ پیتل کی جھانجوں سے گاتے بجاتے رہیں۔اور پہلی تواریخ ۱۶ باب ۴، ۵ ، ۷ اور ۳۷آیات سے معلوم ہوتا ہے داؤد نے لاویوں میں سے بعض کو مقرر کیا۔کہ خداوند کے صندوق کےآگے خادم مقرر ہوں۔اور خداوند اسرائیل کے خدا کا ذکر شکر اور حمد کریں۔سوآصف سردار مقرر ہوا۔اور وہ جھانج سے گاتا بجاتا اور سناتا تھا۔اس وقت داؤد نے آصف اور اس کے بھائیوں کے ہاتھ میں یہ گیت کہ جس سے وہ خداوند کا شکر کریں پہلی دفعہ سپرد کیا۔ یہ گیت۱۰۵ آیت ۱سے ۱۵ اور زبور ۹۶ آیات ۱ سے ۱۳ ،زبور ۲۹ آیات ۱سے ۲ زبور ۹۸ آیت ۷ ،زبور ۷۲ آیت ۱۸ سے بنا ہے۔اور پہلی تواریخ ۱۶ باب۳۷ آیت میں ذکر ہے۔کہ داؤد نے خدا کے عہد کے صندوق کے آگے آصف اور اس کے بھائیوں کوچھوڑا کہ روزانہ ضروری کام کے مطابق ہمیشہ کی خدمت کریں۔

(۲) تواریخ ۲۹ باب ۳۰ میں مرقوم ہے کہ حزقیا بادشاہ اور امیروں نے لاویوں حکم دیا کہ خداوند کی حمدو ثناکےلیے۔داؤد اور آصف

عیب بین کی زبور استعمال کیا کریں۔

تواریخ ۲۵ باب ۱سے ۷ آیات معلوم ہوتا ہے کہ آصف ہیمان اور یدتوں کے بیٹوں میں سے بعض داؤد کے لشکر کےسرداروں کی طرف سے تعینات ہوئےکہ اپنے والدوں کی ہدایت کے بموجب خدا کے گھر میں خدمت کریں۔

۲ تواریخ ۳۵ باب ۱۵ آیت میں ذکر ہے کہ جب یوسیا بادشاہ نے عید فسح منائی تو گانے والے یعنی بنی آصف اور ہیمان اور بادشاہ کے غیب بین یعنی یدتوں کے حکم اور صلاح کے بموجب اپنی جگہوں پر ٹھہرے اور دربان ہر ایک دروازا پر حاضر تھے۔کہ انھیں اپنے اپنےمنصبی فرائض کی ادائیگی لازم اور ضروری تھی۔اور ان کے واسطے ان کے دیگر لاوی بھائیوں نے فسح تیار کی۔آصف کے سب زبور قریباً قومی ہیں۔نہ کہ شخصی۔بعض تواریخی یا پیغمبرانہ جن میں کہ التماس، شکر گزاری ، نصیحت اور تعلیم ہے۔

سوال۱۶:آصف کے گیارہ زبوورں کی تفصیل باترتیب کرو۔

جواب:زبور ۷۳ کا مضمون ایمان کی آزمائش اور فتح یابی ہے۔اور اس مضمون کے مطابق یہ زبور دو حصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے۔

حصہ اول:ا سے ۱۴ آیات میں مصنف اپنی تکلیف اور آزمائش کا مفصل بیان کرتا پہے۔چنانچہ پہلی گیارہ آیات میں وہ بیان کرتا ہے کہ جب میں نے شریروں کی کامیابی اور ترقی دیکھی اور اسرائیل کی خستہ حالی اور کسمپرسی پر غور کیا تو میں ان قریب خدا کی وفاداری اورمحبت کی نسبت اپناایمان کھو بیٹھا۔میرے پاؤں کالغزش کھانا اور پھنسنا نزدیک تراور میرے قدموں کا اکھڑناقریب تھا۔کیونکہ میں نے نادان مغروروں پر جب کہ میں نے شریروں کی کامیابی دیکھی حسد کرتا تھا۔

آیات ۱۳ سے ۱۴ میں کہتا ہے کہ جب میں نے دیکھا کہ شریر ہمیشہ اقبال مند رہتے ہیں۔اور اپنی دولت فراوان کرتے ہیں تو میں پیشمان ہوا۔اور اپنے دل میں کہا کہ میں نے عبث اپنے دل کو صاف کیا اور بے گناہی سے اپنے میں بے فائدہ دن بھر بے آرامی کی حالت میں رہتا ہوں اور صبح کو تنبیہ پاتا ہوں غرض کہ مصنف پر یہ آزمائش آئی کہ وہ روحانی برکات کے مقابلےمیں دنیاوی مال و متاع پر دل لگائے۔

حصہ دوئم:آیات ۱۵ سے ۲۸ میں وہ بیان کرتا ہے کہ اس کا ایمان کس طرح راسخ اور بحال رہا۔چنانچہ ۱۵ سے ۱۶ آیات میں اس کا خیال گزرا کہ وہ اسرائیل کو ان خیالات کے بموجب جن کا اظہار حصہ اول میں کیا ہے۔تعلیم دے تو گویا وہ خدا کے گروہ کی اولاد سے بے وفائی کرے گا۔اور یہ اس کو بہت ہی ناگوار معلوم ہوا۔

۱۷ سے ۲۰ آیات میں وہ بیان کرتا ہے کہ جب میں خدا کے مسکن میں داخل ہوا تو میں نے سمجھ لیا کہ جسمانی برکات حقیقی حقیقی نہیں بلکہ چند روزہ اورباعثِ خطرہ ہیں۔

۲۱ سے ۲۲ آیات میں وہ کہتا ہے کہ ایسے لوگوں یعنی شریروں سے کینہ وری کرنا محض جہالت ہے۔

۲۷ سے ۲۸ آیات میں وہ اپنے ایمان کا اظہار کرتاہے کہ دیکھو جو تجھ سے یعنی جو خدا سے دور ہیں۔فنا ہوجاتے ہیں۔اور میری بھلائی خدا کے نزدیک رہنے سے ہوتی ہے۔میں نے خداوند یہواہ پر توکل کیا ہے۔تاکہ میں اس کے سب کاموں شہرت دوں۔

زبور ۷۴ سے۷۹: یہ دونوں مضمون اور عبارت میں ایک دوسرے سے موافقت رکھتے ہیں۔اور بموجب سرناموں کے دونوں ہی آصف کی تصنیف ہیں۔موقعہ تصنیف کی نسبت بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دونوں زبور یروشلیم کی بربادی پر تصنیف ہوئے۔جو کہ شاہ نبو کد نظر نے مسیح سے ۵۸۶ سال پہلے کی۔بعض گمان رکھتے ہیں کہ ان کی تصنیف کا موقع اہالیانِ یروشلیم کی ایذایابی ہے۔جو کہ قبل از مسیح ۱۶۸ یا ۱۶۵ میں واقع ہوئی ۔جب کہ انٹی اوکس اپفینی نے ہیکل کو ناپاک کیا اوریہودیوں میں سے ہزارہاتلوار کی گھاٹ اتار دیئے۔اگر یہ زبورجو کہ آصف کے کہلاتے ہیں۔قبل از مسیح پانچ سو چھیاسی یا ایک سو ایک سو ستر میں تصنیف ہوئے۔تو کسی صورت میں آصف کی تصنیف نہیں ہوسکتے۔آصف تو دؤد کا ہمصر تھا۔البتہ ممکن ہو ہو سکتا ہے کہ آصف کیفیتِ بنی ازراہ نبوت اسرائیل کے مستقبل کا بیان کرتا ہے۔یا ملہم ہو کر ان کی روحانی حالت پیش کرتا ہے۔یہ زبور تین حصوں میں منقسم ہے۔

حصہ اول:۱ سے ۹ آیات میں مصنف اس لیے ک خدا نے اپنےلوگوں کو درماندگی اور مصیبت کی حالت میں چھوڑا ہے۔اس لیے حجت وہ حجت کرتا ہے۔اور عرض کرتا ہے کہ خدا آ کر ان کی مدد فرمائے۔چنانچہ دوسری آیت میں کہتا ہے کہ اپنی اس قوم کو جس تونے قدیم سے خریدہ ہے۔اور اپنے میراثی فرقہ کوجسے تونے خلاصی بخشی۔اور کوہِ صیحون کو جس میں تونے سکونت کی۔یاد فرما۔ گویا کہ اپنے استحقاق اور حقوق کا دعویٰ کرتا ہے۔کہ واجب اور ضروری ہے کہ خدا اپنے لوگوں کو رہائی بخشے۔ساتویں آیت میں وہ اپنے دشمنوں کی کاروائی کا یوں بیان کرتا ہے کہ اے خدا انھوں نے تیرے مسکن میں آگ لگائی ہے۔اور تیرے نام کے مسکن میں آگ لگائی ہے۔اورتیرے نام کے مسکن کو زمین پر گرا کر ناپاک کیا ہے۔سو ان دو باتوں یعنی بنی اسرائیل کی پستی اور ذلت ان کے دشمنوں کی کاروائی کو پیش کردہ خدا کو ابھارتا اور مشتعل کرتا ہےکہ وہ کچھ کرے۔ اور اپنی بے کسی کا یوں اعتراف کرتا ہے کہ ہم لا چار ہیں۔ہمارا کوئی نبی نہیں اورہمارے درمیان کوئی شخص نہیں جو معلوم کرے۔ کہ یہ حالت کب تک جاری رہے گی۔

حصہ دوئم:۱۰ سے ۱۷ آیت میں وہ خدا کو جتاتا ہے کہ اس کی عظمت اور بزرگی اس بات میں ہے کی مقتضی ہے کہ کہ اپنے کو بچائے اور یاد دلاتا ہے کہ اس نے سابق زمانے میں اپنے لوگوں سے کیسا سلوک کیا۔جب ان کو ملکِ مصر سے نکال کر کنعان کی سر زمین میں پہنچا دیا۔

حصہ سوئم:آیات ۱۸ سے ۲۳ میں وہ اپنے دلائل کو دھرا کر اپنے خدا سے خوب عرض کرتا ہے۔کہ اپنی فاختہ کی جان بھیڑے کے قابو میں نہ دے۔اور اپنے مسکینوں کے گروہ کو ہمیشہ نہ بھول بلکہ اپنے عہد پر لحاظ کر اور ایسا نہ ہونے دے کہ مظلوم رسوا ہو کر الٹا پھرے۔بلکہ ایسا ہو کہ مساکین و محتاج تیرے نام کی ستائش کریں۔

زبور ۷۵:سردار مغنی کے لیے آصف کا زبور جو کہ التشیت کے سر پر گایا جائے۔معلوم ہوتاہے کہ زبور ۷۵ اور ۷۶ زبور ۷۴ کے جواب میں ہیں۔چنانچہ زبور ۷۵ کی پہلی تین آیات میں بنی اسرائیل ان الفاظ میں خدا کی تعریف کرتے ہیں۔کہ اے خدا ہم تیری حمد کرتے ہیں۔کیونکہ تیرا نام ہم سے نزدیک تر ہے۔اور تیرے عجیب کاموں کی منادہ ہوتی ہے۔اس کے جواب میں خدا فرماتا ہے کہ جب موقع ہوتا ہےمیں عدالت کرتاہوں۔اور اگرچہ سرزمین اور اس کے کل باشندے پگل گئے ہیں۔تو بھی میں نے اس کے ستونوں کو سنبھالاہے۔

آیات ۴ سے ۸ مصنف مغرور مخفالفین سے مخاطب ہو کر ان سے کہتا ہے کہ گھمنڈ نہ کرو اور شریروں سے کہتا ہے کہ سینگ نہ اٹھاؤ۔کہ سر فراضی نہ پورب سے آتی ہے نہ پچھم سے اور نہ دکھن سے بلکہ خدا عدالت کرنےوالا ہے۔وہ ایک کو پست کرتا ہےدوسرے کو سرفراز یعنی کہ وہ ایک کو اس کے کام کے مطابق سزا اور جزا دیتا ہے۔

۹ سے ۱۰ آیات میں وہ دعویٰ سے کہتا ہے کہ جو ہو ابد تک بیان کروں گا۔اور یعقوب کے خدا کی حمد گاؤں گا۔اور شریروں کے برخلاف ہو کر ان کا مقابلہ کروں گا۔اور صادقوں کی مدد کروں گا۔

زبور۷۶:یہ بھی آصف کا زبور ہے اور اس کی عبارت سے ظاہر ہے کہ یہ بھی دعا کا جواب ہے۔اس میں چار حصے ہیں۔

حصہ اول:آیات ۱ سے ۴ میں بیان کرتا ہے کہ خداوند نے پھر سے اپنے آپ کو صیحون پر ظاہر کیا۔اور اس کے دشمنوں تتر بتر کیا۔ چنانچہ زبور ۷۶ میں مسطور ہے کہ اس نے کمانوں کے تیر ،سپریں اور تلواریں توڑیں اورلڑایاں موقوف کردیں۔

حصہ دوئم:۴ سے ۶ آیات میں خدا کی فتح مندی اور نصرت کی تعریف ہے۔ آیات ۶۳ مین لکھا ہے۔کہ تیری ڈپٹ سے اےیعقوب کے خدا گاڑیاں اور گھوڑے نیند سے مستغرق ہوئے۔بعض لوگ خیال کرتے ہیں۔یہ آیت سہریب کی افواج کی بربادی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔جب کہ حزقیاہ نبی نے خداسے دعا کی تھی۔۲ سلاطین ۱۹ باب ۳۵ سے ۳۶ آیت۔

حصہ سوئم:آیت۷ سے۹ میں مصنف کہتا ہے کہ خدا انتظام کے لیے اٹھےتو کوئی اس کےحضور نہیں رہ سکتا کہ اس کا مقابلہ کرنا محال مطلق ہے۔

حصہ چہارم: ۱۰ سے ۱۲ آیات میں بیان ہے کہ آدمی کا غضب بھی کا خدا کی ستائش کا باعث ہے۔اس میں مصنف سب کو تاکیدسے کہتا ہے کہ خداوند خدا کی نذر میں اور انہیں ادا کرو۔اور سب لوگ اس کے حضور جس سے کہ ڈرنا چاہئےہدئے لائیں

زبور۷۷:یا دو تین سردار مغنی کے لیے آصف کا زبور ہے۔اس زبور کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کی حالت تصنیف کے وقت حبقوق نبی کی حالت کی سی تھی۔ جب کہ اس نے وہ دعا مانگی جو اس کی کتاب کے تیسرے باب میں ہے۔اب چونکہ یہ زبور حبقوق کے باب سوئم سےموافقت رکھتا ہے۔بعض لوگ خیال کرتے ہیں۔آصف نے حبقوق کی دعا کے مطالعہ کے بعد یہ زبور تصنیف کیا۔اور بعض برعکس اس کے یہ گمان رکھتے ہیں کہ حبقوق نے اس زبور کو دیکھ کر اپنی دعا تصنیف کی۔ممکن ہے کہ دونوں کی حالت یکساں تھی دونوں ہی نے ملہم ہو کر علیحدہ علیحدہ بغیر ایک دوسرے کے صلاح مشورے یا ایک دوسری تصنیف کے مطالعہ سے اپنی حالت بیان کی ہو۔اس زبور کے دو حصے ہیں۔

حصہ اول:اس حصے میں ایک مسلہ پیش ہے۔اور حصہ دوئم میں اس کا اصل ہے۔

حصہ اول:۱سے ۹ آیات پہلی تین میں اپنی گھبراہٹ کایوں بیان کرتا ہے کہ اگرچہ بپتہ کےروز میں مانے خداوند کی تلاش کی اور میرے ہاتھ رات کو اٹھے اور گرے نہیں تو بھی میری جان نے تسلی سے انکار کیا۔میں خدا کو یاد کرتا اور گبھراتا ہوں۔میں سوچتا ہوں اور میرا جی ڈوبتا جاتا ہے۔

آیات ۴ سے ۹ میں مصنف بنی اسرائیل کی گزشتہ حالت پر غور کرکے اپنے سے سوال کرتا ہے۔کیا یہ ممکن ہے کہ خدا اپنے

لوگوں کو ہمیشہ کے واسطے ترک کرے؟۹ویں آیت میں یہ سوال ہے کہ کیا خدا اپنے رحم کو بھول گیا؟کہ کیا اس نے اپنی رحمتوں کو بند کردیا؟

حصہ دوئم:۱۰سے ۲۰ اور ۱۰سے ۱۲ آیات میں مصنف دعویٰ کرتا ہے کہ میں خداوند کی گزشتہ کارروائیوں پر خوب غور کروں گا۔

بارہویں آیت میں کہتا ہے کہ میں تیرے سب کاموں کے بارے میں ہمیشہ سوچوں گا۔اور تیرے فعلوں پر دھیان کروں گا۔

۱۳ سے ۱۵ آیت میں وہ اسرائیل کے بچاؤ اور ان کی حفاظت یاد کرکے کہتا ہے کہ تونے اپنے بازوں سے اپنے لوگوں بنی یعقوب اور بنی یوسف کو مخلصی بخشی۔

آیات ۱۶ سے ۲۰ میں مخلصی کی نسبت خدا کی عجیب کارروائی کا بیان کرکے کہتا ہے کہ تیری راہ سمندر میں ہے۔اور تیرا گزر پانیوں میں۔تیرا نقشِ قدم معلوم نہیں۔

آیت ۲۰ میں وہ کہتا ہے کہ تونے گلے کی مانند موسیٰ اور چاروں کے ذریعےاپنے لوگوں کی رہنمائی فرمائی۔ان سب باتوں پر غور کرکے وہ تسلی پاتا ہے۔اور امید رکھتا ہے کہ خدا ائندہ بھی اپنے لوگوں کی حفاظت اور رہنمائی فرمائے گا۔خداچاہتا ہے کہ ہم اس کی کل کاروائی کابغور مطالعہ کریں۔اوراسےسوچیں۔

زبور۷۸: یہ زبور آصف کا مشکیل ہے۔

زبور ۷۷ میں خداکے عجیب کام اس اس غرض کے لیے بیان ہیں کہ آدمی بپتہ اور مصیبت کے وقت ان پر غور کرے اور ایمان کی تقویت حاصل کرے۔زبور ۷۸ بھی تواریخ کےذریعے خدا کا وہ عجیب سلوک بیان کرتا ہے جو کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ روا رکھا۔تاکہ اسرائیل اس پر غور کریں۔اور باپ دادوں کی سر کشی اور شرارت سے اجتناب کریں۔اور اپنی زندگی خدا کی نیک مرضی اور ارادوں کے مطابق بسر کریں۔اس زبور میں داود کے اس عہد کے اس وقت تک جب کہ خدا نےافرائیم اور سیلا کو ترک کردیا۔اور یہوادہ اور یروشلیم کو دینی و دنیاوی درالخافہ کے واسطے کے لیے منتخب کیا کی تاریخ ملتی ہے۔اس تاریخ میں سات باسلسلہ باتیں ملت ہیں۔

(۱) ۱ سے ۸ آیات میں اس زبور کا مقصد پیش کیا گیا ہے۔کہ لوگ ان تواریخی واقعات سے تعلیم اور تربیت حاصل کریں۔اور دوسروں کو بھی آراستہ کریں۔چنانچہ پہلی آیت میں رقم ہے کہ خدا اپنے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اےمیرے گروہ میری تعلیم پر کان رکھ اور میرے منہ کی باتیں تم کان لگا کر سنو۔

آیات ۶ سے ۸ میں اس کا مقصد یوں بیان کیا گیا ہے۔کہ آنے والی پشت نیز وہ فرزند جو پیدا ہوں سیکھیں۔اٹھ کر اپنی اولاد کو سکھائیں۔خدا پر توکل رکھیں اور خدا کے کاموں کو بھلا نہ دیں۔بلکہ اس کے احکام حفظ کریں۔اور اپنے باپ دادوں کی طرح شریر اور سرکش سنل نہ ہوں۔کہ جن کے دل خدا سے مانوس نہ رہے۔

(۲) ۹ سے ۱۶ آیت میں منصف بنی اسرائیل کی تاریخ سے ان کی فراموشی اور بے وفائی ظاہر کرتا ہے۔کہ انہوں نے خدا کے عہد کوحفظ نہ کیا بلکہ اس کی شریعت پر چلنے سے انکار کیا۔اور اس کے کاموں اور عجیب قدرتوں کو بھلادیا۔

(۳) آیات ۱۷ سے ۳۱ میں وہ بیان کرتا ہے کہ گو خدا نے انکی حفاظت کی اور ان کے واسطے خوراک بھی مہیا کرتا رہا۔تو بھی وہ اس سے کنارہ کرتے گئے۔اور بیابان میں حق تعالیٰ سے بغاوت کی یہاں تک ان اس کا غضب ان پر بھڑکا۔اور ان میں سے تناوروں کا قتل کیا۔اور اسرائیل کے جوانوں کو گرا ڈالا۔

(۴) آیات ۲۹ سے ۴۲ میں ددکھایا گیا ہے کہ بیابان میں خدا کی دھمکیوں اور سزا نے چند روزہ آراستگی اور اصلاح اور توبہ پیدا کردی اگر خدا اپنی بے پایاں رحمت سے موسیٰ کی سفارش منظور نہ کرتا تو البتہ وہ ان کو یک لخت ہلاک کر ڈالتا۔

زبور ۷۸ اس کی ۳۸ آیت میں وہ رحیم ہے۔اور اس نے ان کی بدکاریاں بخشیں۔اور ہلاک نہ کیا۔ہاں بارہا اس نے اپنے قہر کو روکا۔اوراپنےسارے غضب کو نہ بھڑکایا کیونکہ اس نے یاد کیا کہ وہ بشر ہیں۔

(۵) آیات ۴۰سے ۵۵ میں مصنف ان دس آفات میں سے جو کہ مصریوں پر اس وقت واقع ہوئیں۔جب خدا نے بنی اسرائیل کو مصر میں سے بچا کر نکالاسات آفات پیش کرتا ہے۔یعنی کہ خدا نے ان کو ملکِ کنعان میں پہنچانے کے لیے ان کے دشمنوں کو ہلاک کیا۔تاکہ خدا کی رحمت اور مہربانی کے ْمقابلہ میں بنی اسرائیل کی بے وفائی، غداری اور ناشکر گزاری بخوبی و عیاں بیاں ہوجائے۔

(۶) آیات ۵۶ سے ۶۴ میں دکھایا گیا ہے کہ ملک کنعان میں پہنچ کر وہ از سرِ نو گناہ میں یہاں تک مصروف و مبتلا ہوئے۔کہ اس نے سیلا کو یہاں عہد کا صندوق رکھا تھا۔چھوڑ کر ان کو ان کے دشمنوں کے ہاتھ میں چھوڑ دیا۔

(۷) آیات ۶۵ سے ۷۲ میں خدا نےاسرائیل پر پھر رحم فرمایاد۔اور افرائیم کی بجائے یہوادہ اور سیلا کی بجائے یروشلیم منتخب کیا۔چنانچہ لکھا ہے کہ اس نے انہیں اپنے ددل کی راستی سے چھڑایا اور اپنے ہاتھوں کی چلاکی سے ان کی ان کی رہنمائی کی۔

زبور۷۹:آصف کا زبور زبور ۷۹ اور ۷۴ ایک ہی موقع کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اور ایک دوسرے سے کچھ منافقت بھی رکھتے ہیں۔اس زبور کے تین حصے ہیں۔جن میں مصنف اپنی غم آلودگی اور غم کا سبب کا بیان کرکے خدا سے اپنے گناہوں کی معافی اور رہائی کی عرج کرتا ہے۔

حصہ اول: ۱ سے ۴ آیات مصنف دشمنوں کی چڑھائی اور حملہ اور ہیکل کی تحقیر و بے حرمتی اور یروشلیم کی بربادی ان الفاظ میں پیش کرتاہے۔کہ خداغیر اقوام نے تیری میراث میں دخل کیا اور تیری مقدس ہکل کو انہوں نے ناپاک کیا۔اور یروشلیم کو ڈھیر کردیا۔

حصہ دوئم:۵ سے ۷ آیات میں مصنف عرض کرتا ہے کہ خدا اسرئیل پر رحمت فرمائے اور ان کی سزا کو موقوف کرے۔اور اپنا غصہ ان اقوام پر جنہوں نے نہ پہچانااور ان بادشاہوں پر جنہوں نے اس کانام لنہ لیا۔انڈیلے۔

حصہ سوئم:۹ سے ۱۳ آیات میں مصنف خدا سے امداد چاہتا ہے کہ اور اس میں وہ اپنے کو مدد و تعاون کا مستحق اقرار نہیں دیتا بلکہ کہتا کہتا ہے کہ اپنے نام ہی خاطر ہمارے گناہوں کو ڈھانپ دے۔یعنی خدا کے جلال کی بنا پر وہ عرض کرتا ہے۔

نوٹ:تالمد کے قلمی نسخے بنام سو فریم میں بتایا گیا ہے۔کہ زبور ۷۹ ماہ اب (اگست) کی نوین تاریخ پرجب کہ ہیکل کی پہلی دوسری بربادی یاد گاری کی جاتی تھی زبور ۱۳۷ کے ساتھ استعمال ہوتا تھا۔

زبور ۸۰:سردار مغنی کے لیے آصف کا زبور سوسنیم عدوت کے سُر پر گایا جائے۔اس کےسر نامے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا موقع تصنیف نہیں ہو سکتا۔لیکن مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زبور سلطنت کی تقسیم کےبعد جب کہ یہوداہ اور افرائیم ایک

دوسرے سے علیحدہ ہوئے تو تب یہ لکھا گیا۔کیونکہ اس میں مصنف خاص طور پر یوسف کے گھرانے کے لیے دعا مانگتا ہے۔یہ زدبور چار حصوں میں منقسم ہے۔

حصہ اول:آیات ۱سے۳ مصنف یوسف کے واسطے یوں دعا کرتا ہے کہ اے اسرائیل کے گڈریے تو یوسف کو گلے کی مانند لے چلتا ہے۔اور خود تو کروبیم پر تخت نشین ہے۔جلوا گرو اور افرائیم اور بنیامین اور منسے کے آگے اپنی قوت کو حرکت دے اور آکر ہم کو بچا۔

حصہ دوئم:۴ ے ۷ آیات میں وہ خدا سے استفسار کرتا ہے کہ اے خدا وند خدا لشکروں کے خدا کب تک تیرے قہر کا دھواں تیرے تیرے لوگوں کی دعا کے برخلاف اٹھتا رہے گا۔مصنف چاہتا ے کہ خدا کی رحمت ان پر نازل ہو۔اور کہ وہ ان کو دشمنوں ہاتھوں سے بچائےاور کہتا ہے کہ اگر تو اپنا چہر ہ روشن کرے تو۔ہم بچ جائیں گے۔حصہ سوئم:۸ سے ۱۳ آیات میں مصنف قوم اسرائیل کوتاک سے تشبیہ دیتا ہے کہ اور کہتا ہے کہ اے خدا تونے اسے ملکِ مصر سے نکال کنعان میں لگایا۔یہاں کہ وہ خوب جڑ پکڑے کر بڑھا اور پھلا۔اور وہ عرض کرتا ہے۔خدا اپنی خود لگائی ہوئی تاک کی حفاظت نگہبانی کرے۔

حصہ چہارم:۱۴ سے ۱۹ آیات میں مصنف پھر منت کرتا ہے کہ خدا آسمان پر سے نگاہ کرے۔اور اس تاک کی طرف متوجہ ہو۔کیونکہ وہ کہتا ہے کہ وہ آگ س ے جلائی گئی اور کاٹی گئی ہے۔اورتیرے چہرے کی ڈپٹ سے ہلاک ہوئی ہے۔آخر میں وعدہ کرتا ہےکہ اے خدا اگر تو پھر ہماری طرف متوجہ ہو توہم تجھ سے نہ پھریں گے۔

زبور ۸۱:یہ زبور دار مغنی کے نام پر آصف کی طرف سے ہے۔اس کی تیسری آیت سے ظاہر ہے کہ وہ نئے چاند کی عید کے واسطے تصنیف ہوا تھا۔مصنف اس خواہش سے کہ وہ عید بوجہ احسن اور کمال خوشی سے منائی جائے۔اس زبورسے لوگوں کو تحریک دلاتا ہے کہ وہ خوشی سےآئیں اور عیدمیں شمولیت کا استحقاق حاصل کریں۔اس میں تین حصے ہیں۔

حصہ اول:۱سے ۵ آیات میں مصنف گانےوالوں کو جوش دلاتا اور کہتا ہے کہ پکارکر خداوند کی مدح گاؤوہ ہمارا زور ہے۔یعقوب کےخدا کے لیے خوشی سے للکارو۔اور سُر باندھ کر ایک گیت گاؤ۔پھروہ کاہنوں کو ایہ کہہ کر ابھارتا ہے کہ کرنائی پھنکوتاکہ سب لوگوںکو معلوم ہو کہ ہماری مقدس عید کا ہے۔کیونکہ یہ خدا کی سنت اور شرع ہے۔اور یہ شہادت کے لیے ٹھہرائی گئی ہے۔جب کہ ہم نے ملکِ مصر سے اخروج کیا۔

حصہ دوئم:۶ سے ۱۰ آیات میں مصنف اپنے اخروج کے ایام میں تصور کرکے اسرائیل کی رہائی کےواسطے خدا کافتویٰ سنتا ہے کہ اور کوہِ خدا کو یہ کہتا ہوا کہ سنتا ہے کہ اے میرے لوگوں سنو۔تمہارے درمیان کوئی دوسرا معبود نہ ہو۔اور کسی اجنبی معبود کو سجدہ کرو۔کہ خداوند تمہارا خدا میں ہوں۔جو تم کو مصر کی غلامی سے نکال لایا۔

حصہ سوئم:آیات ۱۱ سے ۱۶ میں ظاہر کیا گیا ہے کہ اسرائیل نے اس کی آواز پر کان نہ دھرا۔اور اس کےطالب ہوئے۔اور خدا کی یوں ظاہر کرتا ہے کہ اے کاش میرے لوگ میری سنتے۔اور اسرائیل میری راہوں پر چلتا تو میں جلدی ان کے دشمنوں کو مغلوب کرتا۔اور ان کے بیریوں پر اپناہاتھ پھیرتاہے۔

زبور۸۲:اس زبور میں آصف ایک مقدسہ کی تصویر کھنچتا ہے کہ جس میں خدا قاضیوں کا قاضی ہو کراسرائیلی حاکموں کا جنہیں وہ الوہیم کہتا ہے مقدمہ کرتاہے۔وہ ان پر الزام لگاتا ہے کہ کہ وہ انصاف چھوڑ کر طرف داری کرتے ہیں۔اور ان کو یاد دلاتا کہ ہو لوگوں کے سامنے خدا کی طرف سے نمائدے ہیں۔سو چاہیے کہ ان کے فاصلہ جات خدا کی طرف سے سمجھے جائیں۔چنانچہ پہلی چار آیات میں وہ لوگوں کو دکھاتا ہے کہ وہ اپنی جماعت میں کھڑا ہو کر حاکموں کی بے انصافی کے لیے ان کی فرمائش کرتا ہے۔

آیات ۵ سے ۷ تک وہ لوگوں کو بتاتا ہے کہ ایسی طرف داری سےزمین کی ساری بنیادیں جنبش کھائیں گی۔اور ان کو تاکید کرتا ہے وہ مسکینوں اور یتیموں کا انصاف کریں۔دل گیر اور حاجت مندوں کی دل جوئی اور حاجت روا کریں۔اور محتاج اور مسکین کو رہائی دیں۔وہ حاکموں کی عدالت اور ان کے انصاف سے بے زار ہوکر خدا کو پکارتا ہے۔کہ اے خدا اٹھ۔تو خودآ اور زمین کی عدالت کر کہ تُو کل امتوں کا مالک ہے۔

زبور۸۳:آصف کازبور اس میں یروشلیم کے حاکموں کی فرمائش کے بعدمصنف غیر اقوام کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔اور عرض کرتا ہے کہ خدا ان کا فیصلہ کرے۔کیونکہ وہ اسرائیل کو برباد کرناچاہتے ہیں۔اس میں دو حصے ہیں۔

حصہ اول:۱سے ۸آیات میں خدا سے عرض کرتا ہے کہ اے خدا چپ نہ رہ۔خاموشی اختیار نہ کر۔اور چین نہ لے۔دیکھ ترے دشمن دھوم مچاتے ہیں انہوں نے جو تجھ سے کینہ اور عداوت رکھتے ہیں۔سر اٹھایا ہے۔وہ آپس میں منصوبہ باندھ کرکہتے ہیں کہ آؤکہ ان کو اکھاڑ ڈالیں کہ وہ آئندہ قوم نہ رہیں۔اور اسرائیل کے نام کا پھر ذکر تک نہ ہو۔انہوں نے اپنے دل میں مشورت زنی ہے اور تیری مخالفت میں عہد باندھا ہے۔

حصہ دوئم:۹ سے ۱۸ آیات میں مصنف عرض کرتا ہے کہ اے خدا ان کو گرد باد کی مانند کر۔اور ہوا کے سامنے بھوسے کی مانند بنا۔جس طرح آگ جنگل کو جلاتی ہے اور شعلہ پہاڑوں کو جھلس دیتا ہے۔ اسی طرح اپنی آندھی سے تو ان کاپیچھا کر اور اپنے طوفان سے ان کو پریشان کر۔ایسا کہ وہ جانیں کہ توہی اکیلا ہے۔جس کا نام یہواہ ہے۔اور ساری زمین پر بلندو بالا ہے۔یہ آصف کا آخری زبور ہے۔

زبور ۸۴:بنی قرع کا زبور ہے۔بعض مورخین مصر ہیں کہ یہ زبور بنیہ قرع کی تصانیف میں نہیں۔بلکہ بنی قرع کے لیے ہے۔یہ عبارت اور ترکیب میں ۴۲ اور ۴۳ زبوروں سے ملتا جلتا ہے۔لیکن کچھ فرق بھی ہے۔اور وہ یہ ہے کہ زبور ۴۲ اور ۴۳ میں مصنف اس بات پر مغموم اور آرزودہ خاطر ہے کہ وہ ہیکل کی عبادت میں شریک نہیں ہوسکتا۔لیکن اس زبور میں وہ خوشی کا اظہار کرتا اور کہتا ہے کہ ہم شریک ہوسکتے اورہوتے ہیں۔جملہ مفسرین اس کی تصنیف کے وقت کی نسبت متفق الرا نہیں ہیں۔چنانچہ بعض خیال کرتے ہیں۔یہ زبور تعمیرِ ہیکل سےب پہلے لکھا گیا۔اور بعض یہ کہ یہ زبور زمانہ داؤد کے بعد تصنیف ہوا۔ بشپ وسکاٹ صاحب زبور کی کتاب نسبت فرماتے ہیں کہ اس کی روحانی معموری قیدِوقت سے بالا و برتر ہے۔اور ہر زمانے کے کے واسطے روحانی زندگی کاگیت ہے۔اس کی تصنیف اورموقعہ کی دریافت کی دریافت کچھ بہت اہمیت نہیں رکھتی یہ زبور لفظ سلاسے جو کچھ چوتھی اور آٹھویں آیت کے آخیر میں ہے۔تین حصوں میں منقسم ہے جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

حصہ اول:آیات ۱ سے ۴ خداوند کے مسکن کی تعریف کرتا اور ان کی نسبت اپنے اشتیاق کا یوں بیان کرتاہے۔کہ خداوند تیرے مسکن دل کش ہیں۔میری روح خداوند کی باگاہوں کے لیے آرزومند بلکہ گداز ہوتی ہے۔میرا من اور میرا تن زندہ خدا کے لیےللکارتا ہے۔مبارک وہ ہی جو تیرے گھر میں سکون پزیر ہیں۔مصنف ان چڑ یوں کی جنہوں خدا کے مسکن میں آشیانوں کے لیےجگہ پائی ہےکہ اپنے بچے وہاں باحفاظت رکھیں تعریف کرتا اور ان کو مبارک کہتا ہے۔

حصہ دوئم:آیات ۵ سے ۸ میں مصنف کہتا ہے کہ مبارک وہ ہے جس میں الہٰی قوت موجودہے۔اور جس کے دل میں تیری راہیں ہیں۔کہ وہ سب مشکلات پر غالب آکر خدا کے حضور میں رسائی پادتے ہیں۔جہاں وہ اپنی دعائیں پیش کر سکتے ہیں۔وہ قوت سے قوت ترقی کرتے چلےجاتے ہیں۔اور خدا کے آگے صیحون میں پہنچ جاتے ہیں۔

حصہ سوئم :۹ سے ۱۲ آیات میں خداکی حضوری کی مبارک حالی کی تعریف و توصیف کرتااور کہتاہے۔کہ ایک دن جو تیری بارگاہوں میں گزرے۔ایک ہزار سے بہتر ہے۔میرے لیے خداکے گھر کی دربانی شرارت کے خیموں میں رہنے سے بہتر ہے۔کیونکہ خداوند ایک آفتاب ہے۔اور ان لوگوں سے جو کہ سیدھی چال چلتے ہیں۔کوئی اچھی چیز دریغ نہ کرے گا۔

زبور ۸۵:بنی قرع کا زبور ہے۔اس کے مضمون سے سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم اسرائیل اسیری سے مخلص ہو کر ملک کنعان میں آگئی تھی اور باوجود خدا کی بے حدا رحمت کےان کے حالت میں کوئی نمایاں تبدیلی اور ترقی کے آثار نہ تھے۔اور اس حالت کا سبب خود ان ہی میں تھا۔اگر یہ اسیری بابل والی اسیری تھی تو عزرا اور نعمیاہ نے ان کی اس حالت کا سبب بیان فرمایا ہے۔اور کہا ہےکہ اسرائیل اسیری تو لوٹ آئے تھے۔لیکن خدا کے طرف نہ لوٹے تھے۔بلحاظ مضمون اس زبور کے دوحصے ہیں۔

حصہ اول: ۱ سے ۷ آیات میں مصنف بنی اسرائیل پرخدا کی رحمتوں اور مہربانیوں کو دیکھتا اور ان کا اعتراف کرتا ہے۔اور ان کے واسطےخدا کی تعریف کرتا ہے۔اور آخر میں خدا سے دعا کرتا ہے۔کہ اے خدا! ہم کو پھرا۔اور اپنے قہر کو ہم پر سے دفعہ کر اور جلااور اپنی رحمت دکھا اور نجات بخش۔یہ دعا وہ کل اسرائیل کے لیے گزرانتا ہے۔خدا اپنے لوگوں کو نجات بخشتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ بھی انپی نجات میں کام کیے جائیں۔کیونکہ بزدلی اور پست ہمتی موجب برکت نہیں ہے۔

حصہ دوئم:اس حصے میں مصنف کہتا ہے کہ میں سنوں گا۔کہ خدا کیا فرماتا ہے۔مصنف کو کامل یقین ہے کہ خدا اپنے بندوں اور پاک لوگوں کو سلامتی کے باتیں ضرور کہتا ہے۔اور کہ چاہیے کہ وہ پھر جہالت کی طرف مراجعت نہ کریں۔سلامتی کی راہیں موجودہیں اگر ہم اس کے سب لوگ اس میں چلیں تو خدا جو کچھ بہتر اور خوب ہے۔ضرور دے گا۔کیونکہ جسمانی برکات اخلاقی اورروحانی کاملیت پر منحصر ہیں۔آخر میں مرقوم ہے کہ صداقت اس کے آگے آگے چلے گی۔اور صادقوں کے واسطے ایک راہ بنائے گی۔

زبور۸۶:داؤد کی نماز: زبور کی تیسری کتاب داؤد کا یہی ایک زبور ہے۔جیسا کہ اکثر ہوتاہے۔حسبِ ضرورت دوسرے زبوروں اور پاک نوشتوں کے مقاماتِ مختلف سے منتخب کیا گیا ہے۔اس کے تین حصے ہیں۔

حصہ اول:۱ سے ۵ آیات میں کئی ایک عرضیں ہیں۔اور ان میں اسباب بھی جو کہ ان کی منظوری کو ضروری اور لازمی ٹھہراتے ہیں بیان ہیں۔مثلاً آیت اول میں عرض ہے کہ اے خداوند اپنا کان جھکا اور میری سن کیونکہ میں پریشان اور مسکین ہوں۔

حصہ دوئم:۶ سے ۱۰ آیت میں وہ خدا کی صفات میں اپنی دعاؤں اور عرضوں کی قبولیت کا ثبوت اور امکان پاتا ہے۔مثلاًساتویں آیت میں وہ کہتا ہے کہ اپنی بپتہ کے روز تجھے پکاروں گا۔تو میری سنے گا۔غرض کہ وہ خدا میں ہمدردی اور ترس دکی صفات دیکھتا ہے۔اور ان کو مناجاتوں کی قبولیت کا کافی بہانا مانتا ہے۔

حصہ سوئم:آیات ۱۱س ے ۱۷ میں وہ دخدا کی شفقت اور رحمت پر تکیہ کرکے عرض کرتاکہ اس کو ایسی برکت عطا کرے کہ اس کے دشمن معلوم کریں کہ وہ ضرور خدا کی حفاظت میں ہے۔چنانچ آیت ۱۷ میں مذکور ہے کہ مجھے بھلائی کا کوئی نشان دکھلاتاکہ جو مجھ سے کینہ رکھتے ہیں وہ دیکھیں اور شرمندہ ہوں۔کیونکہ تونے اے خداوندمیری مدد کی۔اور مجھ کو تسلی دی۔

زبور۸۷:بنی قرع کا زبور: یہ زبور سب زبوروں سے نرالا ہے۔اور عجیب معلوم ہوتاہے۔اس واسطے کہ اس میں دکھلایا گیا ہے کہ اسرائیل کے جانی دشمن مصر اور بابل خدا کی بادشاہت میں داخل ہوں گے۔بنی اسرائیل کو بتاکید حکم ہواتھاکہ وہ دیگر اقوام یعنی غیر لوگوں اسرائیل لوگوں سے الگ رہیں۔اوران کے ساتھ بلکل میل جول نہ کریں۔جیسا کہ مسیح کلیسیا کو حکم ہوا ہے کہ نکل آؤ جدا رہو اور ناپاک کو نہ چھوو دوسرا کرنتھیوں۶ باب ۱۷ آیت اس زبور سے صاف صاف ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی روز کل اقوام اسرائیل شامل ہوں گی۔صرف ظاہری طور پر تھیں۔بلکہ اس میں پیدا ہوں گی۔یعنی نئی پیدائش کے ذریعے اس میں شامل وشریک ہوں گی اور استحقاق و برکت میں مساوی حقوق رکھیں گے۔۔نیز کہ یروشلیم گویاتمام لوگوں کی ماں ہے۔گلتیوں ۴ باب ۲۶ آیت میں یوں لکھا ہے کہ اوپر کا یروشلیم آزاد ہے اور وہی ہم سب کی ماں ہے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ زبور حزقیا کے ایام میں تصنیف ہواکیونکہ یسعیاہ نبی کی کئی ایک پیشین گوئیاں اس کے مضمون سے اور ان کا طرزِ بیان اس کی عبارت سے مطابق رکھتا ہے۔مثلاً یسعیاہ ۲۰باب۲۰ سے ۲۲ آیت میں مصر کی نسبت پیشنگوئی ہے۔اس زبور میں مصر کو راہب کہا گیا ہے۔کہ یاد کرو تم آگے کی نسبت غیرقوم والے تھے۔ ایسے کہ وہ جو آپ کومختون کہتے ہیں۔یعنی جس کا جسمی ختنہ ہاتھ سے ہوا ہے۔تم کونامختون کہتے تھے۔اور یہ بھی کہ تم اس وقت مسیح سے جدا۔اسرائیل کی جمہوری سلطنت سے الگ وعدے کے عہدوں سے باہر ناامیداور دنیا میں سے جدا تھے۔سو اب تم بیگانےاور مسافر نہیں۔بلکہ مقدسوں کے ہم شعری اور خدا کے گھرانے کےہو۔اور رسولوں اور نبیوں نیو پر یہاں یسوع مسیح خود کونے کا سرا ہے۔وعدے کی طرح اٹھائے گئے ہو۔اس زبور میں تتمے ک علاوہ دو خاص حصے ہیں۔

حصہ اول:۱ سے ۳ آیات میں ذکر ہے کہ یروشلیم یعنی صیحون خدا کا شہر ہے۔اس نے اس کی بنیاد مقدس پہاڑ پر ڈالی ہے۔اور جلال والے وعدوں کا وارث ہے۔جیسے کہ تیسری آیت میں مذکور ہے کہ اے خدا کے شہر تیری بابت جلال والی باتیں کی جاتیں ہیں۔

حصہ دوئم:۴ سے ۶ آیات میں خدا اس بات کا اشتہار دیتا ہے کہ میں مصر یعنی راہب اور بابل کو جو کہ یہودیوں کے پرنے دشمن تھے۔ مذکور کروں گا۔کہ وہ میرے پہچاننے والوں میں شامل ہیں۔دیکھ فاست اورصور کوش سمیت وہاں پیدا ہوا۔اور صیحوفن کی بابت کہا جائیے گا کہ فلاں فلاں اس میں پیدا ہوا۔اور حق تعالیٰ آپ اس کو قیام بخشے گا۔اور خداوند قوموں کا نام لکھے گا۔تو گن کر کر کہے گا۔کہ یہ شخص وہاں پیدا ہوا تھا۔تتمہ: ساتویں آیت میں مذکور ہے کہ گانے والے بھی ہوں گے۔میرے سب چشمے تجھ میں موجود ہیں۔یہ انجیلی زبور ہے۔

زبور ۸۸: سردار مغنی کے لیےقرع کا زبویا گیت۔جو کہ محلت سے گایا جائے۔

ہیمان از راخی کا مشکیل

چونک اس زبور میں امید کا نام تک نہیں یہ سب زبوروں سے زیادہ غم آلودہ اور اندوہناک سمجھا گیاہے۔بعض مفسرین خیال کرتے ہیں۔کہ یہ زبور اس وقت لکھا گیا کہ جب اسرائیل اسیری میں تھے۔اور بعض گمان رکھتے ہیں۔اس میں مصنف خود کو ایوب کی سی حالت میں تصور کرکے اپنی مایوسی کو ایوب ہی کے الفاظ میں بیان کرتاہے۔یہ زبور اس شخص کا مرثیہ ہے کہ جس مطلقاً روحانی تنویر نہیں ہے۔اور وہ اپنی گناہ آلودگی سے ناواقف ہو کر خدا کی رسائی کی کوشش کرتا ہے۔اس زبور کی تفصیل اس طرح ہے۔

(۱) آیات ۱ سے ۸ میں مصنف اپنی ابتر حالت خدا کے سامنے اس مقصد سے پیش کرتا ہے کہ خدا اس پر ترس کھائے۔اور وہ کہتا ہے کہ میں نے دن رات خداوند کے آگے فریاد کی لیکن بجائے مدد اور رحمت کے اس نے مجھے اسفل میں اندھیرے مکانوں میں اور گہرائیوں میں ڈالااور اس نے میرے جان پہچان کو مجھ سے دور کیا۔اس زبور سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف اپنی ابتری کےاسباب خودمیں نہیں دیکھتا۔اور نہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔بلکہ خدا کو اس کا سبب گردانتا ہے۔

(۲) ۹ سے۱۲ آیات میں وہ اپنی زندگی سے بے زار ہو کر خدا سے سوال کرتاہے کہ کیا تو مردوں کے لیے مردوں کے لیے عجیب کام کرے گا؟کیا مردے اٹھیں گے۔اور تیری ستائش کریں گے؟ کیا گور میں تیری رحمت اور ہلاکت میں تیری سچائی کا چرچا ہوگا؟ کیا تیرے عجائبات اندھیرے میں اور تیری صداقت فراموشی کی سر زمین میں معلوم ہو گی۔

(۳) آیات ۱۳ سے ۱۸ میں مصنف کہتا ہے کہ اے خدا میں تیرے آگے چلاتااور دہائی دیتا ہوں۔میری دعاصبح کوتیرے حضور پہنچے گی۔اور استفسار کرتا ہے کہ کیا سبب ہے کہ خدا نے خدا نے اس کو ترک کردیا؟اور قہر سے اس کو ایسا گھرا کہ اس کو ذرا بھی آرام نہیں۔اورنہ ہی کچھ تسلی ہے۔بغیر سچی توبہ کے معافی محال ہے۔اور مسیح جدا اور دور رہ کرنجات کی خوشی سے محروم رہنا ہے۔

ایتان ازراخی کا مشکیل

گمان ہے کہ یہ زبور اس ستر سالہ اسیری کے ایام میں تصنیف ہوا کہ جب یہودیوں کا درالسلطنت تباہ و برباد ہوف گیا۔اور سب کے سب بمعہ بادشاہ کے اسیر و مقید ہوگئے اور جلا وطن کیےگئے۔اس زبور میں وہ سب اپنی بری حاکت پر بچشم غور نظر کرتےہوئے۔خداوند کا وہ وعدہ یاد کرتے ہیں کہ جو اس نے داؤد باندھا تھا۔جب وہ خداوند کے لیے ایکم ہیکل کی تعمیرکی کوشش میں تھا۔۲ سموئیل۷ باب ۱۵ سے ۱۶ آیت۔ خداکے گھرانے کی نسبت کہتا ہے کہ میری رحمت اس سے ہرگز دجدا نہ ہوگی۔بلکہ ےتیرا گھر اور تیری سلطنت ہمیشہ سامنے موجود اور قائم رہیں گے۔تیرا تخت ہمیشہ ثابت رہے گا۔وعدہ تو یہ تھا لیکن حالت دگر گوں تھی۔کہ بادشاہ بموجب ساری رعایا اسیر تھا۔یروشلیم بمعہ بادشاہ کے تخت اور ہیکل کے تہ و بالا کیا گیا۔کیا خدا قادراور وفادار نہیں؟پھر یہ حالت زار کیونکر ہے؟

مصنف اس زبور میں خداوند کی تعریف کرتااور کامل بھروسےط سےکہتا ہے کہ خداوندقابلِ اعتبار ہے۔اور اس کے ثبوت ذیل کے دلائل پیش کرتا ہے۔

(۱) آیات ۱سے ۴ میں وہ خداوند کا وعدہ دھراتا ہے۔کہ اپنے برگزدہ سے ایک عہد کیا ہے۔میں نے اپنے منہ سے داؤد سے قسم کھائی ہے۔کہ میں تیری نسل کو ابدتک قائم رکھوں گا۔اور تیرے تخت کو پشت در پشت قرار بخشوں گا۔

(۲) آیات ۵ سے ۷ میں خدا کی وعدہ وفائی کے ثبوت میں وہ کہتا ہے کہ آسمان خداوند کے عظیم کاموں کی ستائش کریں۔اور مقدس لوگوں کی جماعت اس کی وفاداری کی۔وہ آسمان پر نبی اللہ میں بے نظیر ہے۔اور قدوسوں کی مجلس میں نہایت مہیب ہے۔

(۳) آیات ۸ سے ۱۴ میں دکھایا گیا ہے کہ خداوند دنیا کا منتظم ہے۔اور اپنی قدرت اور حسنِ انتظام سے دنیا کو قائم رکھتا ہے۔لوگ اس سبب سے خوشی مناتے ہیں۔کہ عدالت اورصداقت اس کے تخت کی بنیاد ہے۔اور رحمت اور سچائی اس کے آگے آگے چلتے ہیں۔سو خداوند قابلِ بھروسہ ہے۔اور اس کی وفا داری میں کلام نہیں۔

(۴) آیات ۱۵ سے ۱۸ میں مصنف کہتا ہے کہ وہ مبارک ہے کہ جو عبادت کی قرنائی آواز کا شناساں ہے۔کہ وہ خداوند کے چہرے کے نور میں خراماں ہوگا۔

(۵) آیات ۱۹ سے ۳۷ میں خداوند کہتا ہے کہ میں نے داؤد سے عہد کیا۔سو میں اس میں وفادار رہوں گا۔اوراس عہد پر کاربند رہوں گا۔لیکن اگر اس کے فرزند میری شریعت کو ترک کردیں گے۔اور میرے احکام پر نہ چلیں گے۔تو میں چھڑی سے ان کے گناہوں کی اور کوڑوں سے ان کو ان کی بدی کی سزادوں گا۔میں اپنے عہد کو نہ توڑوں گا۔اور اس سخن کو جو میرے منہ سے نکل گیا اس کو نہ بدلوں گا۔اس کی نسل تاابد قائم رہے گی۔اور اس کا تخت میرے آگےسورج کی مانند ہوگا۔وہ چاند کی مانند آسمان پر سچے گواہ کی مانندابدتک قائم رہے گا۔

(۶) آیات ۳۸ سے ۴۵ میں مصنف خدا سے فریاد کرکے اس کو جتاتا ہے کہ اس نے اس عہد کو جو کہ اس نے اپنے بندے داؤد سے کیاتھا۔باطل کیا اور کہتا ہے کہ تونے اس کے تاج کو زمین پر پھینک کر اسے ناپاک کیا ہے۔

(۷) آیات ۴۲ میں سے ۵۱ میں وہ خداوند سے منت کرتا ہے کہ کہ وہ ان پر رحم کرے۔پیشتر اس سے کہ وہ اس دنیا سے معدوم ہوجائیں۔اور کہتا ہے کہ تو اگر ان کو نہ بچائے تو تیری پہلی مدارات اور مہربانیاں کس حساب و شمار میں ہوں گی۔الغرض اس زبور کا مقصد یہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا کی کارروائی اس کے وعدوںکے بموجب پہلو بہ پہلو ہے۔خداوند کی مہربانی اس کی وفاداری اس زبور کی خوبی ہے۔اور یہ وہ الفاظ ق مناجات بارہا اس زبور میں آئے ہیں۔محبت سے خداوند کو مجبور کیا ہے۔کہ وہ داؤد کے گھرانے سے عہد باندھے اور وفاداری اس کو وعدہ وفائی پر مجبور کرتی ہے۔اس زبور میں مسیح کی نسبت کوئی وعدہ نہیں تو بھی یہ باتیں اس کی آمد پر دلالت کرتی ہے۔اس جگہ زبور کیبب تیسری کتاب۔تمجید تثلیث اور دہری آئین سے ختم ہوتی ہے۔