Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

تمت تمام شد

کتاب ششم

امثال کی کتاب

سوال۔۱۔ امثال کی کتاب کے مصنف نام اور احوال بیان کرکریں۔

جواب امثال ۱باب ۱ آیت میں لکھا ہے کہ داؤد کے بیٹے بنی اسرائیل کے بادشاہ سلیمان کی امثال گویاامثال سلیمان کےک نام سے کہلاتی ہے۔تو بھی یہ اس کی طبع آزاد تصنیف نہیں ہے۔بلکہ اس نے ملہم ہو کر خدا سے دانائی حاصل کی البتہ وہ دانائی کے سبب تمام د نیا میں شہرہ آفاق ہوا۔لیکن سلاطین کے تیسرے باب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دانش اس کی مساعی کا نتیجہ نہ تھی۔بلکہ خدا داد برکت تھی۔چنانچہ سلاطین ۳ باب ۷ سے ۱۴ آیت میں سلیمان کی یہ دعا ہے۔ کہن اے خداوند خدا تونے اپنے بندے کو میرے باپ دادا کی جگہ بادشاہ کیا۔مگر میں ہنوز لڑکا ہوں۔باہر جانے اور پھر آنے کا طور نہیں جانتا ۔اور تیرا بندہ تیرے بندوں کے بیچ ہے۔جنہیں تونے چن لیا وہ لوگ بہت اور غیر عابدہ ہیں ۔کہ کثرت کے باعث اس کا شمار نہیں ہوسکتا۔سو تو اپنے بندے کو ایسا سمجھنے والا دل عطا کر کہ میں لوگوں عدالت کرنے میں نیک و بد میں امتیاز کرسکوں کہ تیری اتنی بھاری قوم کا انصاف کون کر سکتا ہے۔چنانچہ یہ بات خدا وند کو پسند آئی۔کہ سلیمان نے یہ چیز مانگی اورخداوند نے اسے کہا کہ چونکہ تونے یہ چیز مانگی اور عمر کی درازی نہ چاہی اور نہ اپنے لیے دولت کا سوال کیااور نہ اپنے دشمنوں کے نابود وہنے کی دعا چاہی۔بلکہ اپنے لیے عقل مانگی تاکہ عدالت میں خبردار ہو۔سو دیکھ میں نے تیری باتوں کے مطابق عمل کیا ہے۔دیکھ میں نے ایک عاقل اور سمجھ دار دل تجھ کو دیا ہے۔ایسا کہ تیرا مثل تجھ سے آگے نہ ہوا۔اور نہ تیرے بعد ہوگا۔اور میں نے تجھ کو اور کچھ بھی دیا ہے۔جو تونے نہیں مانگا۔یعنی اور دولت اورعزت ایسی کہ بادشاہوں میں سے تمام عمر کوئی تجھ سا نہ ہو گا۔ اگر تو میری راہوں پر چلے گا۔اور میرے قوانین حفظ کرے گا۔اور میرے قوانین حفظ کرےگا۔جس طرح کہ تیرا باپ دادا چلتے رہے۔ تو میں تیری عمر دراز کروں گا۔۱ سلاطین۴ باب ۲۹ سے ۳۴ آیات میں آیا ہے کہ خدا نے اس دانش اور خرد بے حد عطا کی۔اور دل کی وسعت بھی عطا کی ایسی جیسی کہ سمندر کی ریت جو کہ سمندر کے کنارے پر ہو۔ اور سلیمان کی دانش کل اہلِ مشرق اور مصر کی ساری دانش سے کہیں زیادہ تھی ۔اس لیے کہ وہ سب آدمیوں سے یعنی عسکراتیاں اور ہیمان اور کیلکل اور درداسے جو بنی محول تھے۔زیادہ داناتھا۔اور گردو پیش کی ہر ایک قوم اس کا نام پہلا تھا۔اس نے تین ہزار امثال کہیں اور اس کے گیت ایک ہزار پانچ تھے۔اس نے درختوں کی کیفیت بیان کی سرو کے درخت سے جو لبنان میں تھا۔اس زوفے تک جودیواروں پر اگتا ہے۔اور پرندوں اور چارپائیوں اور رینگنے والوں اور مچھلیوں کا حال بیان کیااور سب لوگوں اور بادشاہوں جن تک اس کی دانش کی شہرت پہنچاتھا۔اس کی حکمت سننے کو آئے تھے۔اس سے معلوم ہوتاکہ سلیمان دانش میں بے مثل تھا۔لہذا اس کی امثال قابلِ غور ومطالعہ ہے۔

سوال ۲۔ امثالک کی کتاب کی تعریف کرو۔

جواب: امثال درحقیقت عبرانی دانائی یعنی کوکمال کا مجموعہ ہے۔کیونکہ اس میں ہر نوع کی دینی و دنیوی اخلاقی و بزمی کی مفید تعلیم موجود ہے۔جو کہ ہر صغیہ اور ہر عمر کے لوگوں کے لیے یکساںمفید ہےخواہ وہ عمر رسیدہ ہوں یا کم سن دولت مند ہوں یا مفلس ۔حاکم ہوں یا محکوم ۔سب کے سب اس کتاب سے فہمید اور راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔اس سلیمان کے کل گیت اور امثال ہی نہیں ہیں۔بلکہ صرف وہی جو کچھ کہ انسان کے اخلاق کہ ،سیرت، فرایض اور برتاؤ سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی کہ اس کی تصنیفات کا انتخاب ہے۔چنانچہ امثال ۲۵ باب ۱ آیت میں لکھا ہےکہ یہ بھی سلیمان کی امثال ہیں۔جن کی نقل شاہ یہوداہ حزقیاہ کے لوگوں نے کی تھی ۔اس سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ زبور کی کتاب کی طرح یہ بھی مختلف مروجہ زبانوں میں ترجمہ اور تالیف ہوئی۔خیال ہے کہ یہ کتاب سلیمان کی آخری زندگی میں تصنیف ہوئی اور کہ کئی ا یک اشخاص نے اس کی تصنیفات میں سے لے کر اسے کتاب کی صورت میں مرتب مجلدکیا۔یہ کتاب شاہ خورش سے چار ساٹھ سال اور سکندرِ اعظم سے چھ سو ساٹھ سال پہلے لکھی گئی۔ملکِ یونان میں کئی ایک حکیم مثلاً سقراط ،افلا طون اور ارسطو ہوئے ہیں۔جنہوں نے اپنے علم کی وجہ سےبہت شہرت پائی مگر سلیمان ان سب پر بہت فوقیت رکھتا ہے۔

سوال۔۳۔ سلیمان کی امثال کی خصوصیات بیان کرو۔

جواب۔ مثل ایک چھوٹا اور مختصر جملہ ہے۔جس کا مفہوم و مطلب زبان اور الفاظ کی وضاحت میں عیاں ہوتا ہے۔اور فہم وتفہیم کے واسطے انسانی فکرو ادارک کامقتضی ہوتا ہے۔وہ سبق آموز اور موثر ہوتا ہے۔سلیمان کی امثال میں دو امثال میں دو خاصیتیں ہیں۔حصہ اول: امثال کا مصنف خدا کو سب علوم کا منبع تسلیم کرتا اورکہتا ہے کہ انسان کو دانش خدا شناسی سے حاصل ہوتی ہے۔نیز کہ انسان کا سب سےاول کام یہ ہے کہ وہ خدا کو پہچانے جیسے کہ امثال ۹ باب ۱۰آیت میں آیا ہے کہ خداوند کا خوف دانائی کا شروع ہے۔اور قدوس کی پہچان فہمید ہے۔خدا علوم سے پہچانا نہیں جاتا۔بلکہ دانش مند بننے کے لیے خدا کی پہچان کی ضرورت ہے۔خدا محض زندگی ہی کا سرچشمہ نہیں۔وہ زندگی کو سفب خوبیوں سے مزین و مرنیب کرتا ہے۔

حصہ دوئم: سلیمان یہ بھی بیان کرتا ہے کہ عبادت میں جو کہ خدا کی منظورِ نظر ہو۔انسانی فرائض کی ادائیگی بھی ہے۔یعنی کہ انسان اسی وقت خدا کی عبادت کرسکتا ہے کہ جب کہ پہلے وہ ایک دوسرے کے فرائض باہمی ادا کرے۔کیونکہ ہر نوع کی ناپاکی اور راستی خدا کےسامنے نفرت انگیز ہےی۔سو وہ انسان جو بدی کی پیر وی کرتا ہے وہ خدا کےحضور جانے کے قابل نہیں اور اس کی دعا بھی مقبولیت پذیر نہیں ہوتی۔سلیمان ان الفاظ میں یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ علمِ اخلاق میں علمِ الہٰی بھی شامل ہے۔اور وہ ایک دوسرے سے الگ نہیں وہ سکتے۔کیونکہ یہ امر محال ہے۔کہ ہم خدا سے پیار اور اس کی مخلوق سے دشمنی اور بد سلوکی کریں۔اکثر علما ٔ دنیا علمِ الٰہی کو دیگر علوم سے الگ کرتے ہیں۔لیکن سلیمان یہ ظاہر کرتا ہے کہ سب علوم ایک ہی چشمے سے نکلتے ہیں۔لہذا وہ ایک ہی ہیں۔

چنانچہ دنیاوی علوم اس لیے ناقص ہیں کہ وہ اصلی نہیں ہیں۔بلکہ تمام و کمال نقلی ہیں۔لہذا وہ پائدار بھی نہیں وہ علم جو خدا کی طر ف سے ہے۔اصلی ہے۔اور وہی ہماری زندگی میں جزو لازمی لکہ جزو لاینفک بن جاتاہے۔اوراس سےجدا نہیں ہو سکتا ۔بلکہ اس کو زیباش دیتا ہے۔

سوال ۔۴۔ اس کتاب کا خاص مقصد کیا ہے؟

جواب: اس کا مقصد امثال ۴ باب ۱ سے ۴ آیات میں ویں مذکور ہے۔کہ دانائی اور تادیب سیکھنے کو اور تمیز کی باتیں سمجھنے کو۔ عقل کی تربیت پانے کوصداقت عدالت اور ساری راستی بوجھنے کو۔سادہ لوگوں وک ہشیاری دنیے کے لیےاور جواں کو دانش اور امتیاز سیکھنے کے لیے اس کا مطالعہ کرن نہایت ضروری ہے۔کہ انسان صرف خدا کے فرائض کو ادا کرے۔بلکہ اپنے ہم جنس کےحقوق بھی۔چنانچہ اس کتاب کا خاص مقصد یہ ہے کہ یعنی ہر ایک انسان اپنی زندگی ایسے طور پر بسر کرے کہ وہ اس کے لیے برکت کا سبب ہو۔اور دوسرے لوگوں کا فائدہ بھی ا س سے نکلے۔خدا بکے حقوق انسا نی فرائض سےجدانہیں ہیں بلکہ باہم و گر لازم ملزوم ہیں۔

سوال ۔۵ امثال کن خاص لوگوں کو ہدیت کرتی ہے۔

جواب۔ امثال کی کتاب درج ذیل لوگوں کو خاص ہدایت کرتی ہے۔ یہ سادہ لوح ، دانش مندوں اور نا دنوں کو یکساں ہدایت کرتی ہے۔ سلیمان کا خاص منشا یہ ہے کہ ساددہ لوگ اور دانشمند انسان بھی آراستہ اور اصلاح یافتہ ہو جائیں۔اور عقل مندی میں ترقی کرتے ہوئےاپنی زندگی خدا کی مرضی کی بجا آوری صرف کریں۔نیز یہ کہ جوان اپنی جوانی کے دنوں کو ان کوموں سے جن میں اس کی پچھلی زندگی کمزوری اور تباہی واقع ہوتی ہے بچائے رکھے۔مثلاً وہ اپنے آپ کو شراب خوری،بری صحبت،ناپاکی،دروغوی اور چوری سے بچا رکھےاور غورو فکر سے اپنی راہ کی خبر گیری کرے۔سلیمان تاکید کرتا ہے کہ وہ ایسی باتوں سے اجتناب کرے۔اور خدا کاخوف رکھتے ہوئے ہم جنس انسان سے پیار کرے۔اور پاک دامنی، فروتنی، صبرو انکساری اختیار کرے۔اور محنت سے اپنا گزرا کرے۔سلیمان اس کتاب میں دانائی اور صداقت پر بہت زور دیتا ہے۔اور کہتا ہے کہ زبان کی بڑی خبر داری کرنی چاہئے۔چونکہ صادق کی زبان چوکھی چاندی ہے۔اور شریروں کادل کم قمیت ہے۔صداقوں کے ہونٹ بہتوں کو کھلاتے ہیں۔مگر جاہل لوگ بے دانشی سے مرتے ہیں۔چنانچہ امثال ۱۰ باب ۲۰سے ۲۱ اور ۲۱ باب ۲۳ آیت میں لکھا ہے کہ وہ جو اپنے منہ اور زبان کی نگہبانی کرتا ہے وہ اپنی جان کو دق دیواروں سے بچاتا ہے۔دل کی حفاظت کی نسبت یہ آیا ہے کہ اپنے دل کی بڑی سے بڑی حفاظت کر۔

کیونکہ زندگانی کے ایام اسی کے سبب سے ہیں۔امثال ۴ باب ۲۳ آیت۔

نوٹ: یہ کتاب مسیحیوں کے لیے ازبس کہ مفید اور موزوں ہے۔اس کا مطایعہ غورو فکر سے کرنا چاہیے۔تاکہ رہنمائی اوردانش حاصل ہو۔ان امثال کی دل چسپی نظم کی موزوں اور مقفع عبارت سے دو بالا ہوگئی ہے۔اگر اس کا ترجمہ اردو میں بھی نظم ہی میں ہو ۔تو زیادہ دل چسپ اور مفیددہو گا۔

سوال۔ سلیمان نے جوانوں کے لیے کون سی باتیں پیش کی ہیں جو ان کے لیے لازمی ہیں؟

جواب۔ (۱) والدین کی فرمانبرداری،امثال ۱ باب ۸ آیت میں کہتا ہے کہ اے میرے بیٹے اپنے باپ کلی بات کا شنوا ہو۔اور اپنی ماں کی تاکید کو ترک مت کراور امثال ۴ باب ۱۰آیت میں وہ کہتا ہے کہ ئ۴اے میرے بیٹے میری سن۔ اور میری باتیں مان تو تیری عمر کے برس بہت ہوں گے۔یہ آیت پانچویں حکم پر دلالت کرتی ہے۔امثال ۲ باب ۲۰ سے ۲۳ آیت۔میں آیا ہے کہ اے میرے بیٹے باپ کے حکم کو حفظ کر۔اور اپنی ماں کی تاکید کو مت چھوڑ۔انہیں ہمیشہ اپنے دل میں باندھ رکھ۔اور انہیں اپنی گردن پر گانٹھ۔کہ جب تو کہیں جائے گا تو وہ تیری رہبر ہوگی۔اور جب تو سوئے گا تو وہ تیری نگہبانی کرے گی۔اور جب تو جاگے گا تو وہ تجھ سے باتیں کرے گی۔کہ حکم چراغ ہے۔اور تاکید نور ہے۔اور تربیت کی تبنہیں زندگی کی براہیں ہیں

(۲) صداقت ساس لیت ضروی ہے کہ صادق لوگ خدا کی حفاظت میں رہتے ہیں چنانچہ امثال ۱۰ باب ۳ آیت میں آیا ہے کہ خداوند صادقوں کی جان بھوک سے ہلاک نہ ہونے دے گا۔اور ۱۰باب ۲ ، ۷ اور ۱۱ آیات میں لکھا ہے کہ صادق کے سر پر برکتیں ہیں۔اور صادق کا ذکر بھی برکت کے لیے ہو گا۔کہ صادق کا منہ زندگانی کا چشمہ ہے۔۱۰ باب ۳۰ آیت میں یوں فرماتا ہے کہ صادقوں کو کبھی جنبش نہ ہو گی لیکن شریر ہرگز زمین پر کبھی نہ رہے گا۔ پھر ۱۱ باب ۳۰آیت میں فرماتا ہے صا دق پھل جو ہے۔ سحر زندگی کا درخت ہے۔اور جو نیکی سے دلوں کو مو لیتا اور فریفتہ کرتا ہے۔دانا ہے۔

(۳) چستی۔امثال ۱۰ باب ۴ آیت میں سلیمان کہتا ہے کہوہ جو ڈھیلے ہاتھوںس ے کام کرتا ہے۔کنگال ہو جائے گا۔پر چلا کو ں کا ہاتھ دولت پیدا کرتا ہے۔اور ۱۲ باب ۲۴ آیدت میں کہتا ہے کہ چلاک آدمی کا ہاتھ حکمران ہو گا۔ہر سست آدمی خراج گزار رہے گا۔پھر ۱۸ باب ۹ آیت میں کہتا ہے کہ وہ جو سستی کرتا ہے فضول خرچ کا بھا ئی ہے۔اور ۶ باب ۶ سے ۸ آیات میں کہتا ہے کہ اے کاہل آدمی چیونٹی کے پاس جا۔اس کی روشیں دیکھ اور دانائی حاصل کرکہ اس کا کوئی سردار جا حاکم نہیں پر اس کےباوجود بھی وہ خورش اور دروں میں خوراک جمع کرتی ہے۔

(۴) خوش اخلاقی، زناکاری ، ہر طرح کی ناپاکی بد دیانتی ، بے وفائی ،دغابازہ فریب چوری اور درو غوئی سے وہ مجتنب ہو۔کیونکہ یہ ساری بتیں خداوند کے حضور میں نفرت انگیز ہیں۔اور آدمی کو مجتنب لفعنتی بناتی ہیں۔

(۵) راست روی ۔امثال ۶ باب ۱۶ سے ۱۹ آیات میں سلیمان فرماتا ہے کہ خداوند کو چھ چیزوں سے نفرت ہے۔ سات ہیں جن اس کی جان کو نفرت ہے۔اونچی آنکھیں۔ جھوٹی زبان ۔ بے گناہ کا خون بہانےوالے ہاتھ۔دل جو برے منصوبے باندتا ہے۔پاؤں جو جلد برئی کے لیے دوڑتے ہیں۔جھوٹا گواہ جو جھوٹ بولتا ہے۔اور وہ جو بھائیوں کے درمیان جھگڑا برپا کرتا ہے۔

سوال ۷۔ امثال کی کتاب کی تقسیم کرو۔اور حصوں کی تفصیل کرو۔

جواب۔ امثال کی کتاب میں پانچ حصے ہیں۔

حصہ اول ۔ پہلے ۹ ابواب میں ہے۔اس میں تین خاص باتیں ہیں۔

(۱) باب ۱ آیات ۱ سے۶ میں کتاب کا دیباچہ ہے۔جس میں مصنف کا نام عہدہ اور اس کی تصنیفات کے فوائد درج ہے۔

(۲) باب اول کی ساتویں آیت سے باب ساتویں آیت کے اخیر تک الٰہی دانائی کی طرف سے ایک عمدہ اور دل چشپ واعظ ہے۔جس میں باپ اپنے بیٹے کوخدا کی اخلاقی حکومت کی نسبت تعلیم دیتا ہے۔شروع میں باپ بیٹے کی توجہ مندرجہ ذیل الفاظ کے ذریعے مبذول کرواتا ہے۔کہ خداوندکا خوف دانائی کا شروع ہے۔اور کہ حمق دانائی اور تادیب کو حقیر جانتا ہے۔پھر خود اس سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے میرے بیٹے باپ کی تربیت کا شنواہو۔اوراپنی ماں کی تاکید کو ترک نہ کر کہ وہ تیرے سر کے لیے رونق کا تاج اور گردن کے لیے طوق ہے۔پھر اس حکمت کےاصول سمجھا کر کہتا ہے کہ خدا کا تخت حکومت انسانی دل ہے۔جس سے وہ اپنی بادشاہت دنیا میں مستحکم ، پائدار اور مستقل رکھتا ہے۔جو کہ پھیلتے پھیلتے عالم گیر ہو جائے گی۔

(۳) ابواب ۸ اور ۹ میں دانائی مجسم ہوتی اور جگہ بجگہ کھڑی ہو کر کل بنی نو آددم کی توجہ اپنی خوبیوں طرف متوجہ کراتی ہے۔تعلیم دیتی اور تاکید کرتی ہے کہ وہ اس کی طرف متوجہ ہو کر اس کی پیر وی کریں۔بعض لوگ گمان رکھتے ہیں کہ یہ مجسم دانادئی مسیح ہے۔اور بعض کہتے ہیں کہ خداوند یسوع مسیح نہ صرف مجسم دانائی ہے بلکہ وہ ایک الوہیت کا سارا کمال اس میں مجسم تھا۔خیر ہم یہ بات تسلیم کر سکتے ہیں کہ مسیح خداوند دانائی ہی مجسم تھا۔کیونکہ پہلا کرنتھیوں ۱ باب ۲۴ سے ۳۰ آیات میں مرقوم ہے کہ ان کے لیے جو بلائے گئے ہیں۔مسیح خدا کی قدرت اور حکمت ہے۔یعنی وہ ہمارے لیےخدا کی طرف سے حکمت اور رستبازی اورپاکیزگی اور خلاصی ہے۔یہ دانائی فی الحقیقت الہٰی ہے۔کیونکہ وہ ان کو جو اس کی تلاش کرتے ہیں برکت بخشی ہے۔چنانچہ امثال ۸ باب ۳۴ سے ۳۵ میں آیا ہے کہ سعادت مند ہے وہ انسان جو میرا سنتا ہے۔اور جو ہر روز میرے آستانوں پر راہ دیکھتا ہے۔اور میرے دروازوں کی چوکھٹوں انتظار کرتا رہتا ہے۔کیونکہ جو مجھ کو پاتا ہے۔وہ زندگی پاتا ہے۔اور وہ خداوند کی طرف سے فضل حاصل کرے گا۔

حصہ دوئم: اس دس یعنی ۱۰ تا ۱۹ ابواب ہیں۔جن میں کہ سلیمان کی امثال شروع ہوتی ہیں۔اور اخیر میں شریر کی حماقت اور دانائی کی خوبیاں بیان ہیں۔حصہ دوئم و سوئم میں اخلاقی اصولوں کے عمل اوردرآمد کا طریقہ بیان ہوا ہے۔جن کا ذکر حصہ اول میں ہو چکا ہے۔امثال بتاتی ہیں۔انسان کی طرح اپنے روز مرہ کاروبار میں تو دانائی استعمال کرسکتا ہے۔کہ اس کا کام اس کے لیے اور اس کے ہم جنس بھائیوں کے کاآمد اور مفید ثابت ہو۔امثال ۱۰ باب ۱ سے ۲ آیات میں کہتا ہے کہ دانش مند بیٹا باپ کو خوش کرتا ہے۔مگر پیدائش اپنی ماں کے واسطے بار خاطر ہوتا ہے۔ شرارت کے خزانے کچھ فائدہ نہیں پہنچاتےمگر صداقت موت سے رہائی بخشتی ہے۔ناراستی ناصرف اس زندگی میں نقصان دہ ہے۔بلکہ ہم کو خدا کے حضور بھی نامقبول ٹھہراتی ہے۔چنانچہ گیارہویں باب میں لکھا ہے کہ مکر کے ترازوں سے خداوند کو نفرت ہے۔لیکن پورے ترازوں سے وہ خوش ہوتا ہےہوتا۔قہر کے دن دولت سے کچھ کام نہیں نکلتا ۔پر صداقت موت سے رہائی دیتی ہے۔جس طرح راستبازی زندگی بخشتی ہے۔اس طرح وہ جو بدی کا پیچھا کرتا ہے۔اپنی موت کو پہنچتا ہے۔جن کے دلوں میں برائی ہے۔ان سے خداوند کو نفرت ہے۔مگر جن کی روشیں سیدھی ہیں۔وہ ان سے خوش ہے۔کہ

دیکھ صادق کو زمین پر بدلہ دیا جائے گا۔تو کتنا زیادہ شریر اور گنہگار کو راسست گوئی کی نسبت سلیمان کہتا ہے کہ وہ جو سچ بولتا ہے صداقت آشکارہ کرتا ہے۔پر جھوٹا گواہ دغا دیتا ہے۔سچے ہونٹ ہمیشہ ثابت ہوں گے۔مگر جھوٹی زبان صرف ایک دم کی ہے۔جھوٹے لبوں سے خداند کو نفرت ہے۔پر وہ جو راستی سے کام رکھتے ہیں۔ان سے وہ خوش ہے۔

حصہ سوئم: اس میں پانچ یعنی۲۰سے ۲۴ ابواب ہیں۔یہ عبرت اور رتعلیم کے واسطے ہیں۔اور انسان کو نقصان دہ باتوں سے روکتا اور تاکید کرتا ہے۔کہ وہ ان باتوں کی تحصیل میں مصروف رہے۔جو کہ فائدہ مند اور برکت کا باعث ہیں۔مثلاً امثال ۲۰ پہلی آیت میں ہے کہ مے مسخرہ بناتی ہے۔اور مست کرنے والی ہر ایک چیز غضب آلودہ کرتی ہے۔وہ جو ان کا فریب کھاتا ہے۔دانش مند نہیں۔۱۷:۲۰ میں لکھا ہے کہ دغا کی روٹی آدمی کو میٹھی لگتی ہے۔پر انجام کار کا منہ کنکروں سے پر کیا جاتا ہے۔۶:۲۱ میں پھر آیا ہے کہ دروغگوئی سے خزانہ جمع کرنا ان لوگوں کی جو موت ڈھونڈتے ہیں۔اڑائی ہوئی بطالت ہے۔۲۳:۲۳ میں نصحیت ہے کہ سچائی کو مول لے اور اس کو نہ بیچ۔اسی طرح حکمت اور تربیت خرد کوبھی۔ ۲۶:۲۳ میں لکھا ہے کہ اے میرے بیٹےاپنا دل مجھ کو اور تیری آنکھیں میری راہوں سے خوش ہوں۔۲۷:۲۱ میں شریروں کی قربانی کی نسبت ذکر ہے۔کہ وہ نفرت ہےخصوصاً کہ جب وہ بد نشینی سےلائی جاتی ہے۔۳۰:۲۱ میں لکھا ہے کہ کوئی حکمت کوئی فہمید کوئی مشورت نہیں جو خداوندکے مقابل پیش آئے۔دوسرے اور تیسرے حصوں میں تقربیاً ۴۰۰امثال ہیں۔جو کہ ہر قسم کی ناراستی انجامِ بد اور راستی کے نیک انجام پیش کرتی ہے۔

حصہ چہارم: اس میں پانچ یعنی ۲۵ سے ۲۹ ابواب ہیں جن میں امثال کا وہ مجموعہ ہے۔جس کی نقل شاہ یہودہ حزقیاہ کے لوگوں نے کی تھی۔۱:۲۵ میں صاف لکھا ہے کہ اس میں ۱۳۰ سے زیادہ امثال ہیں۔جو کہ تعلیمی اور نصحیتی ہیں یہ حصہ سلیمان کی وفات کے دوسو سال بعد تالیف ہوا۔معلوم ہوتا ہے کہ جب حزقیا نے ہیکل آراستہ کرکے یہودہ میں مذہبی بے داری اور اصلاح جاری کی۔۲ سلاطین ۱۸ باب ۳ سے ۷ آیات اور۲ سلاطین ۳ و ۱۹ آیات۔تو اس وقوت اس نے ان آیات کے فوائد و محاسن دیکھ کر ان میں سےکئی ایک کی نقل کروائی۔تاکہ وہ اس کے لوگوں میں مشہور اور رائج ہوں۔اور ان سے راہنمائی پائیں۔

اس حصے میں کئی ایک مفید اور سبق آموز باتیں ہیں۔جو کہ انسان کو بزمی فرائض و آداب کی تعلیم دیتی ہیں۔مثلاً ہمسایہ سے سلوک کی بابت آیا ہے کہ تو اپنے ہمسائے کے ساتھ اپنے دعوے کا چرچا کرمگر راز کی بات کبھی اس پر فاش نہ کرتانہ ہو کہ جو کوئی اسے سنے تجھےرسوا نہ کرے۔کسی طرح سے تیررسوائی مٹائے سے نہ مٹے۔اپنے ہمسائے کے گھر جانے سے اپنے پاؤں اکثر روکے رکھ۔تاکہ وہ تجھ سے کہیں دق نہ ہو جائےاور تجھ سے نفرت نہ کرنے لگے۔وہ آدمی جو اپنے ہمسائے پر جھوٹی گواہی دیتا ہے۔ایک گوپال ،ایک تیز تیراور ایک تیز تلوار ہے ۔جس طرح شمالی ہوامینہ لاتی ہے۔اس طرح چغلی خوری ترش روی پیدا کرتی ہے۔جھوٹی زبان کی نسبت آیا ہے کہ وہ ان سے کینہ رکھتی ہے۔جن کو اس نے رنجیدہ کیا ہو۔اور خطرناک تباہی لاتا ہے۔

حصہ پنجم: اس حصے میں دو یعنی ۳۰ اور ۳۱ ابواب ہیں ۔جس میں دو نامعلوم اشخاص یعنی یا کے بیٹے اجور اور لیموئیل بادشاہ کا ذکر ہے۔ان کی نسبت نہ تو پاک کلام میں اور نہ ہی موجودہ تاریخ میں کوئی ذکر ہے۔بعض لوگ خیال کرتے ہیں۔ان سے سلیمان ہی مراد ہے۔امثال ۳۰ :۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرور کوئی ملہم شخص تھا۔اور اس نے اپنی نسبت یہ کہا کہ آدمی کی دانش مجھ میں نہیں میں نے دنیاوی حکمت نہیں سیکھی۔غرض کہ وہ مقدسوں کا علم رکھتا تھا۔لیموئیل کی بابت ۱:۳۱ میں یوں لکھا ہے کہ لیموئیل بادشاہ کی باتیں وہ الہامی کلام جو اس کی ماں نے اس کو سکھلایا۔تئسویں باب منیں وہ نصائح ہےجو کہ اجور نے اپنے دو شاگردوں ائیل اورا کال کو دیں۔اکیسویں باب میں وہ نصحیت آمیز کلام ہے۔جو کہ لیموئیل کی ماں اس کو سکھلایا۔

سوال۔ اس کتاب سے ہم کو خاص تعلیم ملتی ہے؟

جواب۔ اول۔ کہ خدا کا خوف رکھیں۔کیونکہ خدا کا خوف دانش کی ابتدا ہے۔

حصہ دوئم۔ والدین کی اطاعت کریں۔کیونکہ حالات کا تطاول اس پر اثر رکھتا ہے۔نیز اخلاقی طور پر بھی یہ ضروری اور لازم وملزوم ہے۔

حصہ سوئم۔ حکمت اورمعرفت پر دل لگایا جائے۔کیونکہ دانائی لعلوں سے بھی بہتر ہے۔اور ساری چیزیں جن کی تمنا کی جاتی ہے۔اس کے برابرنہیں۔چہارم ندگی کی غناعت کو مدِ نظر رکھیں۔تاکہ ہماری زندگی سے خدا کے مقاصد بوجہ احسن انجام پائے۔

حصہ پنجم۔ دل کی بڑی سے بڑی خبرداری کریں۔کیونکہ زندگانی کے انجام اس سے ہیں۔

حصہ ششم۔ منہ کی حفاظت کی جائے کیونکہ وہ جو اپنے منہ کی نگہبانی کرتا ہے وہ اپنی جان کی نگہبانی کرتا ہے۔

حصہ ہفتم۔ انسان رستباز اور صدق و مقال ہو۔کیونکہ شریر کی عاقبت نیک نہ ہو گی۔شریر کا چراغ بجھایا جائے گا۔مکر کی ترازو سے خداوند کو نفرت ہے۔مگر جو راستی کے کام کرتے ہیں ان سے وہ خوش ہے۔

حصہ ہشتم۔ شراب خوری سے پرہیز کیا جائے ۔(پرہز گاری) کیونکہ انجام کار وہ سانپ کی طرح کاٹتی ہے۔اور بچھو کی طرح ڈنک مارتی ہے۔

حصہ نہم۔ والدین کے فرائض کی ادائیگی اشد ضروری ہے۔کیونکہ وہ جو اپنے ماں باپ کو لوٹتا ہےاور کہتا ہے کہ یہ گناہ نہیں وہ غارتگر کا ساتھی ہے۔

حصہ دہم۔ اولاد کی تربیت کی جائے ۔کیونکہ یہ لازم اور انسب ہےکہ لڑکے اس راہ میں جس میں انس کوان کو چلنا ہے۔سویرے یعنی طوفلیت میں تربیت پائیں کیونکہ جب وہ بوڑھے ہو جائیں گےتوا س راہ سے باز نہ آئیں گے۔وہ جو چھڑی کو باز رکھتا ہے۔بیٹے سے کینہ رکھتا ہے۔مگر وہ جو اس سے پیار کرتا ہے وہ اسے سویرے اس کی تادیب کرتا ہے۔ حصہ گیارہوں۔ برے آدمی کی صحبت سے پرہیز کریں کوینکہ وہ شرارت کی روٹی کھاتا ہےاور اندھیرکی مے پتا ہے۔

حصہ بارہواں۔ اپنی زندگی خدا کے مخصوص کریں کیونکہ زندگی اسی طرف سے ہے۔اور اس سے بحال رہتی ہے۔سو چاہئے کہ اس ہی کی خدمت میں صرف کی جائے۔کیونکہ صادقوں کی روش اس چمکنے والے نیر کی مانند ہے۔جو پورے دن تک روشن ہوتا چلا جاتا ہے۔وہ جو خداوند کے طالب ہیں کچھ جانتے ہیں۔