Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

دوسرا باب

ایوب کی کتاب کے بیان میں

سوال نمبر ۳: ایوب کی کتاب کے مصنف اور اس کی قدامت کی نسبت کون سے خیالات پیش کیے جاتے ہیں؟

جواب: مصنف کی نسبت تین خیال ہیں۔

اول کہ اس کتاب کے واقعات جو کہ حقیقی ہیں۔موسیٰ کے ایام تک روائتی طور پر چلے آئے۔جن کو کہ اس نے ملہم ہو کر قلمبند کیا۔اور یہ خیال زیادہ معتبر سمجھاجاتا ہے۔

دوئم کہ اس کتاب کہ اس کتاب کا مصنف سلیمان ہے اور اس کے واقعات سب کے سب بناوٹی ہیں۔

سوئم کہ کسی نامعلوم مصنف نے یہودیوں کی ستر سالہ اسیری کے بعد اس کو تصنیف کیا۔یہ خیال ہائر کرئکس سے پیش کیا جاتا ہے۔اور بلکل بے بنیاد ہے۔

اس کتاب کی نسبت ذیل کے خیالات پیش کیے جاتے ہیں۔

اول:ایوب درحقیقت بزرگوں یعنی پٹری آرکس (آبأ) کے زمانے میں تھا۔کیونکہ اس کے سب واقعات اور دستورات اسی زمانے پر دلالت کرتے ہیں۔مثلاً (ا) ایوب کی دراز زندگی ایوب ۱باب ۴سے ۵ آیت بمقابلہ ۴باب ۱۶سے ۱۷ آیت سے معلوم ہوتا ہےکہ اس کی عمر بہت دراز تھی۔چنانچہ جب شیطان اس کی آزمائش شروع کی اس وقت اس کے چار بیٹے اور تین بیٹاں تھیں ۔جو کہ اپنے اپنے گھروں میں رہتے تھے۔پھر اس کی آزمائش کے بعد دوبارہ اس کے ہاں سات بیٹے اور تین بیٹاں پیدا ہوئیں۔جن میں اس نےاپنی جائدا د تقسیم کی اور بعد میں بھی ایک سو چالیس برس جیتا رہا۔ اس نے اپنے بیٹے اور بیٹوں کے بیٹے چار پشتوں تک دیکھے اور بوڑھا اور عمر رسیدہ ہو کر مرگیا۔ابراہیم کی عمر ۱۷۵ برس اور اس کے باپ تارح کی عمر صرف دو سو پانچ(۲۰۵) برس تھی۔سو اگر عمر کی درازی کا خیال کیا جائے تو ایوب تارح کا ہم زمانہ معلوم ہوتا ہے۔

(ب): ایوب کی دولت کی فراوانی کا اندازہ اس کے مال مویشی کی فراوانی سے بھی کیا جاتا ہے۔جیسا کہ بزرگانِ سلف کے وقت دستور تھا۔

(ج):بزرگانِ سلف کی عبادت کا طریقہ ایوب کے وقت میں رائج تھا۔مطلب کہ باپ ہی سارے خاندان کا کاہن ہو کر اپنے گھرانے کے لیے قربانیاں گزارتا اور دعا مانگتا تھا۔ایوب ۱ باب ۵ آیت۔

(د):ایوب کے وقت میں بت پرستی بھی زیادہ قدیم کے طریقوں پر ہوتی تھی۔ایوب ۳۱ باب ۲۶ سے ۲۸ آیت سے صاف ظاہر ہے۔کہ لوگ اجرامِ فلکل کی پرستش کرتے تھے۔

(ر): اس کتاب کی قدامت زمانہ حال کی حقیقت اور معلومات سےے بھی پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے۔اس کے معترضین نے کئی ایک باتوں کی بنیادپر دعوئے کیے ہیں۔کہ یہ کتاب قدیم سے تھی۔بلکہ کسی بعد کے زمانے میں تصنیف ہوئی کیونکہ زمانۂ سلف میں علم ہیئت کو اس قدر ترقی اور فروغ نہ تھا جس قدر کہ اس کتاب میں دکھایا گیا ہے۔لیکن زمانۂ حال کی جستجواورتحقیق نے اس عترافض کی خوب تردید کی ہے۔چنانچہ اصور کی قدیمی تختیوں سے جو کہ ان پرانے شہروں کے کھنڈرات سےنکلی ہیں ثابت کر دکھایا ہے۔کہ فی الوقعہ اس زمانے میں ایسی ہی ترقی تھی۔اصور کی قدیمی تختیاں تین ہزار قبل از مسیح کی ہیں۔اکثر لوگ اس بات پر لحاظ نہیں کرتے کہ خدا نے شروع میں ہی انسان کو کامل پیدا کیا لیکن برگشتگی کے سبب اس کے قابلیت اور اس کا علم اس سے جاتا رہا۔یہاں تک کہ وہ رفتہ رفتہ وہ علم و کمال کےلحاظ سے زمانۂ تاریکی تک جا پہنچا۔

چنانچہ ہم جس قدر زمانۂ آدم یعنی ابتدائی زمانے کا مطالعہ کرتے ہیں۔تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمانہ دانائی اور علم قابلِ تعریف تھا۔معترضین کا ایک اور عتراض یہ ہے کہ قدیم زمانے میں اُور کے لوگ ایسے جانوروں کے نام سے واقف نہ تھے۔جن کا ذکر اس کتاب میں ہوا ہے۔کیونکہ وہ جانور اس وقت اس ملک میں نہیں پائے جاتے تھے۔یہ اعتراض بھی ان قدیم لوحوں کی وجہ رو سے ہی رد کیا گیا۔کیونکہ ان تختیوں پر ان جانوروں کےعلاوہ دریائی گھوڑے کے جو کہ مصر کا جانور ہے تصویریں کنداہیں ۔سو یہ واضح ہے کہ اُور کے لوگ مصر سے بھی راہ و رسم رکھتے تھے۔کیونکہ مصری عریبہ پتریہ میں جاتے تھے۔کہ اس کی کانوں سے مصر کی مشہور اور عالی شان عمارتوں کےواسطے پتھر لایں۔اور ان میں اکثروں نے اس گہ سکونت اختیار کر لی۔ قلدی لوگ بھی مصر میں جاتے تھے۔چنانچہ جب ابراہیم قلدی سے آکر ملکِ کنعان میں بودو باش کرنے لگا تو وہ فوراً قحط سے تنگ آکر مصر میں گیا۔اور کچھ عرصے تک اسی جگہ میں مقیم رہا۔اس سے ظاہر ہے کہ ان ممالک ضرور آپس میں رسم و رواج تھی۔

معترضین جا صرف ایک ہی اور اعتراض پیش ہو گا۔اور وہ یہ ہےکہ زمانہ قدیم میں ڈاکو نہ تھے ۔لیکن یہ اعتراض کلام پاک سے ہی تردید پاتا ہے۔بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ خانہ بدوش اقوام تمرود کے زمانے سے شروع ہوئیں۔اور تمرود بادشاہ نے خود ایسا کام کیا کہ جب کہ اس نے اپنی حکومت کو نینوہ تک وسعت دی نیز ابراہیم نے لوط کو لٹیری اور فزاق قوم میں بچایا۔

سوال نمبر ۴: سر زمین اُور یعنی ویوب کی جائے رہائش کا محلِ وقوع بتائیں ۔اور بیان کرو کہ اس کا نام اُور کیوں پڑ گیا؟

جواب:وہ سر زمین جو کہ بحرہ لوط اور بحر قلزم کے درمیان واقعہ ہے۔اُور کا ایک حصہ تھا۔اور یوب خاص اس جگہ مقیم تھا۔اور بب عیسو نے یہ سر زمین آباد کی اس کا نام ادوم پڑ گیا۔اور آخر کار آخر عربیہ پتریہ کے نام سے مشہور ہوگئی۔معلوم ہوتا کہ وہ اس سبب سے اُور کہلائی۔کہ اُور کی نسل وہاں رہتی تھی ۔لیکن یہ تحقیق معلوم نہیں کہ وہ اوز کون تھا؟پاک کلام اس نام کے تین اشخاص ہیں۔

(۱) اُور بن آرام بن سیم پیدائش ۱۰ باب۲۳ آیت۔

(۲) اُوربن نحور بن تارا تھا۔جو کہ ابراہیم کا بھائی تھا۔ پیدائش ۲۲ باب ۲۰ سے ۲۱۔

(۳) اُور بن نیان جو کہ خاندان عیسو میں تھا۔پیدائش ۳۶ باب ۲۸ آیت۔

لوگ اکثر اُور بن نحور بن تارا کو اس سر زمین کا آباد کرنے والا مانتے ہیں۔لیکن یہ خیال کہ وہ بھی اُور بن نیسان تھا بغیر نبوت نہیں۔کیونکہ اس ملک کی آبادی زیادہ تر ابراہیم کی نسل سے تھی۔چنانچہ ایوب کے دوست جو کہ اس کے پاس آئے ابراہیم کی نسل سے معلوم پڑتے ہیں۔مثلاً ایلیفرتیمنی اودمی تھا۔یرمیاہ ۴۹باب ۷ سے ۱۰ آیت اور حزقیال ۲۵باب ۱۳ آیت اور عموس ۱ باب ۱۱ سے ۱۲ آیت۔ اور نوحہ ٔ یرمیاہ ۴ باب ۲۱ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ادومی لوگ اُور کی سر زمین میں رہتے تھے۔بلداد سوخی ابراہیم کی نسل سے تھا۔جو کہ کتورہ سے تھی۔پیدائش ۲۵ باب ۱سے ۲ آیت۔

ممکن ہے کہ نعور کی اولاد بھی اس ملک میں آباد تھی۔

سوال نمبر۵: ایوب کی نسبت اور ایوب کی کتاب کے واقعات کی نسبت کون سے واقعات بیان کیے جاتے ہیں؟اور کس طرح ثابت ہے کہ یہ کتاب

فی الواقعہ تواریخی کتاب ہے

جواب: اس کتاب کی نسبت مفسرین تین مختلف خیالات پیش کرتے ہیں۔

(۱) کہ ایوب ایک فرضی نہیں ہے۔بلکہ حقیقتاً ایک شخص تھا اور اس کی کتاب کے سب واقعات بھی اصلی اور یقینی ہیں۔

(۲) کہ اگرچہ یہ کتاب تواریخی ہے۔اور اس کے تمام واقعات حقیقی ہیں۔تو بھی اس کا بحث و مباحثہ اسی موقع پر جس کا ذکر کتاب میں ہوا ہے۔ان کتابی اشخاص کےدرمیان واقعہ نہ ہوا۔ بلکہ کسی نبی کی طرف سے تعلیم و عبرت کے لیے مباحثہ کی صورت میں تصنیف ہوا۔

(۳) کہ ایوب ایک فرضی شخص تھا۔اور کتاب کے سب واقعات بناوٹی اور تمثیلیں ہیں۔لیکن جب ان واقعات پر بانظر تعمق غور کیا جاتا ہے۔تو خواہ مخواہ یہ بات ذہن میں آتی ہے۔کہ یہ واقعات بناوٹی نہیں ہیں۔بلکہ ایک حقیقی راستباز اور خدا پرست شخص کی زندگی کی کا احوال ہےجس پر کہ شیطان نے حملہ کیا۔لہذا ملہم مصور کے ہاتھ سے ان اشخاص کی جنہوں نے کہ اپنی زندگیاں خدا کے لیے مخصوص کی۔اور اسی کی مرضی کے ماتحت ہیں تصویر ہے۔شیطان کا حملہ اکثر ایسے ہی اشخاص پر ہوتا ہے۔علاوہ ازیں جب شیطان خدا کے حضور ہوا تو خدا نے اس سے پوچھا کہ تو نے میرے بندے ایوب کے حال پر غور کیا کہ زمین پر اس سا کوئی شخص نہیں۔وہ کامل اور صادق ہے وہ خدا سے ڈرتا اور بدی سے دور رہتا ہے۔ایوب ممکن نہیں کہ خدا کسی فرضی شخص کی بابت ایسا کہےنیز شیطان نے اس کی ہستی اور دنیا میں اس کی موجودگی کا اعتراف کیا حزقیال جو کہ ملہم تھا ایوب کا یوں ذکر کرتا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا کہ ایوب فی الواقعہ ایک زندہ جان اور روح کا مرکب تھا۔

حزقیال ۱۶باب ۱۶سے۲۰ آیت میں چار دفعہ آیا ہے کہ خداوند یہواہ نے کہا ہے کہ ہر چند یہ تین اشخاص یعنی نوح،دانیال اور ایوب موجود ہوتے تو۔آخر میں ہم کو یہ معلوم دلایا ہےکہ یہ الفاظ خداوند یہواہ کے منہ سے نکلےخدا ایک فرضی شخص دو حقیقی انسانوں کے ساتھ نہیں ملا سکتا۔یقوب کا عام خط ۵ باب ۱۱ آیت میں ایوب کی نسبت مرقوم ہے۔کہ تم نے ایوب کے صبر کا حال سنا ہے۔اور خدا وند کی طرف سے جو انجام ہوئے وہ آپ جانتے ہو۔کہ وہ بڑا دردمند اور مہربان ہے۔سو ہم اس کو ان سب باتوں کے لحاظ سے ایک حقیقی واقعہ سچی تاریخ تسلیم کرتے ہیں۔

سوال ۶:ایوب کی کتاب کی خاصیت بیان کرو۔

جواب:اس کتاب کا تتمہ اور دیباچہ نثر میں اور درمیانی حصے یعنی بحث ومباحثہ نظم میں ہے۔

یہ نظمی حصہ بلحاظ سلامت عبارت دلسوزی /دلربائی و بلند پرواز نئے خیالات دوسری عبرانی نظمی کتابوں پر فوقیت رکھتا ہے۔خدا نے ان بحث کرنے والوں کو زباندانی میں اس قدر فضلیت بخشی کہ کہ انہوں نے خیالات کو موثر اور اعلیٰ قسم کے الفاظ میں پیش کیا ہے۔جن سے کہ خداوند کی تعریف اور اس کا جلال ہو۔

سوال ۷: ایوب کی کتاب خدا کی نسبت کیا سکھاتی ہے؟

جواب :یہ کہ کل عالم کا منتظم ہو کر صرف اس کی تنظیم میں ہمیشہ منہمک نہیں رہتا۔بلکہ وہ انسان کے دلی خیالات و روحانی حالت سے پوری واقفیت حاصل کرکے اس کو حسبِ حالت سزا یا جزا دیتا ہے۔پینٹی ٹیوک سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے چند اشخاص سے عہد باندھا اور برکت عطا کرنے کا وعدہ کیا تواریخی کتب سے اس عہدی قوم کے ساتھ اس کا سلوک اور وعدہ وفائی ظاہر ہوتی ہے۔

کتب الانبیا سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس قوم کو کیسی مفید تعلیم دیتا ہے۔اور اس کی تربیت کرتا رہا۔ایوب کی کتاب واضح کرتی ہے کہ خدا نے ایک شخص کے ساتھ جو اس عہدی قوم میں سے نہ تھا کیسا سلوک کیا؟اس کو خدا نے خوب آزما کر برکتوں سے مالا مال کیا۔اس کتاب سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ خدا کا تعلق صرف اس عہدی قوم سے ہی نہیں بلکہ اس کے برگزیدہ لوگ ہر قوم میں موجود ہیں۔اور وہ ان کو محفوظ رکھتا اوربرکتوں سے بھرپور کرتا ہے۔

سوال ۸:ایوب کی کتاب کے مقاصد بیان کرو:

جواب:

(۱) مقصد اول یہ معلوم ہوتا ہےکہ یہ ظاہر ہو کر کہ یہ شیطان خدا کا مخالف ہو کر خدا کے لوگوں کو مصیبت میں ڈالنے اور ستانے میں مصروف

رہتا ہے۔

(۲) مقصد دوئم یہ ہے کہ ظاہر کرے کہ ایوب کی محبت کی نسبت کہ وہ خود غرضی ہے۔شیطان کی تہمت غلط ہے کہ اوربرگزیدوں کی محبت حقیقی اور بے ریا ہوتی ہے۔اور کہ خدا اپنی ذات کی خوبیوں سے انسان کے دل کو مسخر اور فریفتہ کر سکتا ہے۔

(۳) مقصد سوئم یہ ظاہر کرتا ہے کہ کسی مصیبت زدہ پر عیب لگانا اور اس کی مصیبت کو ہمیشہ اس کے گناہوں کا لازمی نتیجہ بنانا واجب نہیں۔بلکہ برعکس اس کے ساتھ ہمدردی کرنا اور اس کی مدد کرنا زیادہ قرین مصلحت ہے کیونکہ ہم کو ٹھیک معلوم نہیں ہو سکتا کہ اس مصیبت کی اصل وجہ کیا ہے؟عیب جوئی اور الزام کی ترغیب ہمیشہ شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔

(۴) مقصد چہارم یہ سکھاتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو جانچ کر اپنی خودی کو ختم کریں ۔اور حلیم ہو کر خدا کے خدا کے کامل اور صادق بندے بنیں اور نیکو کاری کا شیوہ اختیار کرکے اس کی قربت حاصل کریں۔

سوال۹: ایوب کی وفا داری کی آزمائش کس طرح ہوئی؟

جواب: جب خدا وند نے شیطان کی توجہ ایوب کی صادقت اور قابلیت پر مبذول کی تو شیطان نے خداوندسے سوال کیا کہ کیا ایوب حقیقت میں خدا ترسی کرتا ہے؟ کیا تونے اس کے گرد اور اس کے گھر کے آس پاس اور اس سارے مال وسباب کو چاروں طرف سے احاطہ نہیں کیا؟ تونے اس کے ہاتھ کے کام میں برکت بخشی ہے۔اور اس کا مال زمین میں بڑھتا جاتا ہے۔لیکن اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کا سب کچھ چھو لےتو کیا وہ کیا تیرے منہ پر تیری ملامت نہ کرے گا؟تب خداوند نے شیطان کو اجازت دی کہ ایوب کو آزمائے۔سوشیطان نے ایوب کو ایسی بری حالت میں پھنسایا کہ نہ اس کا مال و دولت نہ دوست نہ کوئی تسلی دینے والا نہ خدمت گزار نہ قدر نہ درجہ رہا۔بلکہ اس کی تحقیر کمینوں سے کی جاتی تھی۔آخر کار اس نے ایوب کے جسم کو مارا۔ایسے کہ تلوے سر تک ایسے جلتے پھوڑے ہوئے کہ وہ ٹھیکرا لے کر اپنے تئیں کھلجانے لگا۔اور راکھ پر بیٹھ گیا۔اس موقعہ پر اس کی بیوی نے اس سے کہا کہ کیا تو اب تک اپنی دیانت پر قائم رہتا ہے۔خدا کی ملامت کر اور مر جا۔ ایوب نے جواب دیا کہ تو نادان عورتوں کی سی بات کرتی ہے۔کیا ہم خدا سے اچھی چیزیں لیں ا ور بری نہ لیں؟

ایوب کے حال اور صبرو تحمل سے بخوبی ظاہر ہوتا ہےکہ ایسے خادم جن میں مطلقاً خود غرضی نہیں اور خدمت بھی ایسی ہےجس میں عوضاً کا خیال خصوصیت نہیں رکھتا ۔

ایوب نے خدا کو اس قدر پیار کیا کہ اور اس کی حضوری کی اس قدر خواہش رکھی کہ ہر قسم کی مصیبت کمال صبر سے برداشت کی کہ مبادہ وہ خدا کی حضوری سے محروم رکھا جائے۔ایوب کی وفاداری خداکی طرف سے شیطان کو جواب تھا۔

سوال۱۰: ایوب ک کتاب کے بحث و مباحثہ کا سبب اور مقصد کیا تھا؟اور اس میں کون سی بات تصیفہ طلب تھی۔اوروہ کیونکر حل ہوئی؟

جواب: معلوم ہوتا ہے کہ جب ان واقعات کی خبر جو کہ ایوب پر گزرےاس کے احباب کے کانوں تک پہنچی توان میں تین شخاص یعنی الیفرتیمنی،بلداد سوخی اور زود نعمانی نے اتفاق کیا کہ اس کے پاس جا کر اس کے ساتھ روئیں۔اور اس کو تسلی دیں۔لیکن جب وہ حاضر ہوئے۔اور اس کی ہولناک حالت دیکھی تو سات روز تک اس ساتھ بیٹھے رہے۔اور بے زبان رہے۔تب شیطاون نے موقعہ پاکر ان کی ہمدردی کے ارادے کو تبدیل کرکے ان کو ترغیب دی کہ ایوب کو گناہ گار اور ناراست ٹھہرایں ۔اور اس طرح اس کی گھبراہٹ اور مصیبت زیادہ کریں چنانچہ وہ خدا کی عجیب صفات پیش کرکے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ خدا قادرِ مطلق رحیم اور عادل ہو کر کسی راست باز شخص کو ایسی بلا میں مبتلا نہیں کرتا۔اور کہ ایوب ضرور بے شک و شبہ از حد ناراست اور گنہگارہے۔ورنہ اس حالت کو نہ پہنچتا۔اور اس کو بہت کی کہ وہ توبہ کرے کہ شائد خدا اس کو معاف کرے۔

اب ان کے سامنے یہ بات پیش ہوئی ہے کہ اگر مصیبت ،بیماری اور تنگی گناہ کے نتائج تھے ۔ اور ان کا اورکیاسبب ہو سکتا ہے؟لیکن اس کا حل ان سے نہ ہوا۔

تب یہواہ بولااورایوب کو اس کی نادانی اور کمزوری کا قائل کرکے اور توبہ کروا کر اس کے ملامت کرنے والوں کی طرف مخاطب ہو کر ان ہی کو ملامت کی اور ان پر روشن کردیا کہ درحقیقت ایوب ان کے سب الزامات سے بری ہے۔اور جو کچھ وقوعدمیں آتا ہےایک ہی شخص کے فائدے یا نقصان میں نہیں ہوتا۔بلکہ دوسروں کے لیے بھی اور نیز خصوصیت کے ساتھ خدا کی تعظیم اور اس کے جلال کا ظہور اس سے پیش نظر ہوتا ہے۔

سوال۱۱: اس کتاب کے واقعات سے کون سی تعلیم اور عبرت والی باتیں نکلتی ہیں ؟

جواب: بحث و مباحثہ سے زیرِ بحث امور کا ہی حل نہیں ہوتا بلکہ اور انواع و اقسام کے مفید خیالات بھی نکل آتے ہیں۔جس طرح کہ اس بحث سے

یہی ہو۔مثلاً۔

(۱) گو مالی نقصان جس میں تکالیف اور مصائب اکثر اوقات انسان کی غفلت،غلط فہمی شرارت یا ناراستی کے نتائج ہوتے ہیں۔جو کہ انسان کے

واسطے سزا اور تربیت کا موجب ہوتے ہیں۔

تو بھی بعض اوقات خدا اپنے مقاصد کی انجام دہی کے لیے خدا اپنے برگزیدوں کو شیطان کے ہاتھوں دے دیتا ہے۔کہ وہ ان کو آزمائے تاکہ وہ

تپائے جاکر خالص سونے کی مانند نکل آئے کیونکہ فتح مند زندگی مقابلے پر موقوف ہے۔

(۲) واجب نہیں کہ خدا کے برگزیدوں میں سے کوئی بھی مصیبت اور نقصان کے سبب اس کی تحقیر کرے بلکہ یقین رکھے کہ ساری چیزیں ان کی

بھلائی کے لیے جو خدا سے محبت رکھتے ہیں۔بلکہ فائدہ بخشتے ہیں رومیوں ۸ باب ۲۸ آیت۔

(۳) شیطان اکثر موقعہ پاکر نیک لوگوں کی نیت،خصلت اور سمجھ کو اس قدر بگاڑ دیتا ہے کہ وہ ان سے فائدہ بخش اور صحیح باتوں کا بے جا استعمال کرواتا

ہے۔خدا کا شکر ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو سرا سر شیطان کے حوالے نہیں کرتا۔اور شیطان کے اختیار کو بھی محدود رکھتا ہ۔نیز اس کے ستائے

ہووں کو بحال کرتا اور برکت بخشتا ہے۔

(۴) اس بحث بحث سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ گو تکالیف اتفاقیہ نہیں بلکہ افعال بد کے واجبی نتائج ہوتی ہیں۔تو بھی یہ واجب اور مناسب نہیں کہ ہم

مصیبت زدہ اور دکھیا اشخاص کے مصائب کے اسباب پر انگشت نمائی کریں اور ان کی عیب بیتی اور عیوب کا چرچا کریں۔کیونکہ نہ تو ہم ان اسباب کا یقینی علم رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی خدا کے بھید کی پہنچ سکتے ہیں۔ایسی حالت میں ہمیشہ یہی انسب معلوم دیتاہے کہ ہم ان کےساتھ ہمدردی کریں ان کی مدد کریں۔اوران کے لیے دعااور سفارش کریں۔