Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

دورِ دوئم

بحث مباحثہ

سوال ۱۸: اس دوسرے دورکا بیان کرو ۔

جواب: بحث و مباحثے کا دوسرا دور ایوب کی کتاب کے سادت اابواب یعنی ۱۵ سے ۲۱ میں ملتا ہے۔اسی دور میں ذیل کی باتیں قابلِ غور و مطالعہ ہیں۔

۱۔ ۱۵ باب ۱سے ۱۶ آیت میں الیفرتیمنمی ایوب پر ریا کاری کا الزام لگاتا ہے۔اور اسے کہتا ہے کہ تو بیہودہ باتیں کرکے مباحثہ کرتا ہے۔اور تیرے کلام میں فائدہ نہیں تو خدا کے خوف کو برطرف کرکے اس کے آگے دعا کی باتیں کہتا ہے۔اور اگرچہ تو عیاروں کی باتیں کرتا ہے۔توبھی تیرا منہ تجھے گنہگار ٹھہراتا ہے۔اور تیرے ہونٹ تجھ پر گواہی دیتدے ہیں۔اس کے بعد طنز کے طور پر کہتا ہے کہ کیا تو پہلا انسان ہے جو پیدا ہوا ہے؟کیا تو پہاڑوں سے پہلے بنایا گیا؟ تو کیا جانتا ہے کہ جس سے ہم آگاہ نہیں ہیں؟تجھ میں کون سی سمجھ ہے۔جو ہم میں نہیں۔سفید سر اور بوڑھے لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں۔جو کہ تیرے باپ سے بھی عمر میں بڑے ہیں۔کیا خدا کی تسلیاں تیرے نزدیک حقیر ہیں؟آخر میں وہ کہتا ہے کہ خدا تو اپنے قدوسیوں کا اعتبار نہیں کرتا تو گھنونے اور بگڑے ہوئے آدمی کا کیا ذکر جو کہ بدی کو پانی کی ماند پی لیتا ہے؟

۲۔ ۱۵ باب ۱۷ سے ۳۵ آیت میں الیقرتیمنی ایوب کو ریا کار ٹھہرا کر اس کو ان شریروں کی حالت کا جن سے ہو خود واقف تھا تصور دلاتا اور کتا ہے کہ جیسے وہ ویران شہروں میں بستا تھے ۔اور ان کے گھر بے چراغ ہوئے تھے۔ویسے ہی سب ریاکاروں کے خاندان اجڑ جائیں گے۔اور آگ رشوت خوروں کے ڈیروں کو جلا دے گی۔

ایوب کاچوٹھا جواب ۔ایوب ۱۶۔۱۷۔ابواب۔

(أ‌) ایوب ۱۶ باب ۱ سے ۱۵ آیت میں ایوب اپنے دوستوں کی تکلیف دہ تسلی پر ان کو ملامت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم میری سی حالت میں گرفتار ہوتے تو میں تمہارے ساتھ ایسا سلوک نہ کرتابلکہ تم کو زور بخشتا اور اپنے لبوں کی جنبش سے تمہارے رنج کو دور کرتا ۔

(ب‌) ایوب ۱۶ باب ۶ سے ۱۰ آیت میں ایوب اپنی بری حالت پر نالاں اور کہتا ہے کہ وہ جو مجھ سے کینہ رکھتا ہےمجھ پر دانت پیستا ہے میرا دشمن مجھ کو دیکھ کر تیر چشمی کرتا ہے۔وہ اپنا منہ مجھ پر پسارتے ہیں اور میرے گال پر تھپڑ مارتے ہیں۔اور مجھ پر ایک ساتھ جمع ہوئے ہیں۔

(ج) ۔ایوب ۱۶ باب ۱۱ سے ۲۲ آیت میں وہ کہتا ہے کہ خدا نے مجھے بے انصافوں کے حوالے کیا ہے۔اور بے دینوں کے ہاتوں میں ڈالا ہے۔کہ ان کے تیر اندازوں نے مجھے گھرا ہے۔وہ میرے گردوں کو چیر پھاڑ کرتا ہے۔وہ میرا پت زمین پر بہاتا ہے۔اس پر ایوب ایک وکیل چاہتا ہے۔جو اس کے واسطے خدا سےد بحث و حجت کرے جس طرح کہ آدمی اپنے دوست کے لیے کرتاہے۔اور اپنی صادقت کا دعویٰ کرکے کہتا ہے کہ میرا گوادہ آسمان پر ہے اور میرا شاہد عالمِ بالا پر۔

(د) ۔ایوب ۱۷ باب ۱ سے ۴ آیت میں ایوب خدا کے سامنے اپنے دستوں میں سے وکیل نہ چننے پر یہ عذر نہ پیش کرتا ہے کہ خدا نے ان کو دانش سے خالی رکھا ہے۔

(ر)۔ ایوب ۱۷ باب ۵ سے ۱۰ میں ایوب بے وفائی کا نتیجہ پیش کرتا ہے۔اور کہتا ہے کہ سیدھے لوگ اس کے حال سے حیران ہوں گے۔اور نیکو کاروں کو ریا کاروں پر رشک آئے گا۔اس پر بھی صادق اپنی راہ میں ثابت قدم رہیں گے۔اور وہ جس کا ہاتھ صاف ہے توانائی پر توانائی پیداد کرے گا۔

(س) ایوب ۱۷ باب ۱۱ سے ۱۶ آیت میں ایوب زندگی سے بے زار ہو کر قبر کا انتظارکرتا ہے کیونکہ اس کی امید جاتی رہی ہے۔اور کہتا ہے کہ میری امید پاتا ل کے دروازوں تک اترے گی۔اور مجھ سے مل کر خاک میں پڑی رہے گی۔

بلداد سوخی کا دوسرا جواب(باب ۱۸ )

ایوب ۱۸ باب ۱ سے۱۰ آیت میں بلداد سوخی شریروں کی تباہی کی طرف اشارہ کرکےایوب کو اس کی زیادہ گوئی اور نیزا س سبب سے بھی کہ وہ ان کو حیوان ٹھہراتا ملامت کرتا اور بتاتا ہے کہ وہ اپنے غضب میں اپنی جا ن کو پھاڑتا ہے۔اور کہتا ہے کہ شریروں کا چراغ ضروف بجھایا اور ان کا منصوبہ گرایا جائے گا۔کیونکہ وہ اپنے پاؤں کو جال میں ڈالتا ہے۔کہ اس کے لیے دام زمین میں چھپایا ہوا ہے۔

ایوب ۱۸ باب ۱۱سے ۲۱ آیت میں ایوب کو بتلاتا ہے کہ وہ ہر طرف دہشتوں سے گھبر جائے گا۔اور اس کا زور بھوک سے جاتا رہے گا۔اس کے بھروسے کی جڑ اس کے خیمے میں سے اکھاڑ پھینکی جائے گی۔اوراس کی یاد گاری زمین پر سے مٹائی جائے گی۔لوگوں میں نہ بیٹا نہ بھتیجارہے گا۔اور ان سب کا حال جو خدا کو نہیں پہچانتے ایسا ہی ہو گا۔

بلداد سوخی کو ایوب کا دوسرا جواب(باب ۱۹)

ایوب ۱۹ باب ۱ سے ۶ آیت میں بلداد سوخی کو ایوب ملامت کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی اذیت کی حالت میں اس کواور بھی تنگ اور پریشان کرتا اور کچھ شرم نہیں کھاتا۔ایوب کہتا ہے کہ اگر مجھ سے خطا ہوئی تو بھی میرا قصورمیرے ہی ساتھ ہے۔اور میری اذیت خدا کی طرف سے ہے۔ایوب ۱۹ باب ۱۷ سے ۲۰ آیت میں ایوب کہتا ہے میری حالت اس سبب سے ایسی بگڑی ہوئی ہے کہ خدا نے میری حرمت اٹھا لی اورمیرے سر پر سے تاج اٹھالیا ہے اس نے مجھ کو ہر طرح سے برباد کیا ہے۔سو میں فنا ہو چلا ہو درخت کی مانند اس نے میری امید کو اکھاڑا ہے۔اور مجھ پر اپنا غضب بھڑکایا ہے۔وہ مجھ کوف اپنے دشمنوں میں شمار کرتا ہے۔ایوب ۱۹ باب ۲۱ سے ۲۹آیت میں وہ اپنے دوستوں سے رحم چاہتا ہےاور عرض کرتا ہے۔ کہ ا س آرزو ہے کہ اس کی باتیں کسی دفتر میں قلم بند کی جائیں۔یاکسی چٹان پر نقش کی جائیں تاکہ وہ ابد تک قائم رہیں۔ایوب اپنے ایک عجیب یقین کو ظاہر کرتا اور کہتا ہے کہ ہرچند میرے پوست کے بعد یہ جسم نیست کیا جائے گا۔لیکن میں اپنے گوشت میں سے خدا کودیکھو گا۔اسے میں میں اپنے لیے دکھوگا۔میری ہی آنکھیں دیکھیں گی نہ کہ بیگانے کی ایوب کی اس امید سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کا متعقد اور منتظر تھا۔

زوفرنعمانی کا ایوب کو جواب(باب ۲۰)

زوفر اپنے جواب میں شریروں کی بدکرداری کا حشر بیان کرتا ہے۔چنانچہ ۲۰باب ۱سے۹ آیت وہ شریروں کی خوشی اور خوش حالی کو چند روزہ اور بے ثبات ظاہر کرتا ہے کہ شریروں کی صرف ٹھوڑے دنوں کے لیے ہے۔اور بے دنیوں کی شادمانی ایک لمحہ کی ہے۔شریر خواب کی مانند اڑ جائے گا۔اور پایا نہ جائے گا۔ایوب ۲۰باب ۱۰ سے ۱۶آیت میں وہ بیان کرتا ہے کہ شریروں کی شرارت ان کے جسم میں سے مصیبت انگیز ہوگی۔اور ان کے اندر زہر قاتل ثابت ہوگی۔اور ۲۰ باب ۲سے ۳ میں دو سے تین میں کہتا ہےکہ ان کو کامیابی نہ ہو گی کیونکہ انہوں نے مسکینوں کودبایا۔اور گھر جوان کے ہاتھ سے نہ بنا تھا۔مے لیا تھا۔اور ۲۰ باب ۲۴ سے ۲۹ آیت میں کہ اگر وہ آسودہ بھی ہو تو خدا اس پر شدید قہر نازل کرے گا۔اور آسمان ان کی بدکاری کو آشکارا کرے گا۔اور زمین ان کے برخلاف اٹھے گی۔

ایوب کا جواب زوفر نعامی کو( باب ۲۱ )

۱۔ ۲۱ باب ۱سے ۲ آیت میں ایوب اپنے دوست کو کہتا ہے کہ میری فریاد کسی انسان کے سامنے نہیں اور ۲۱ باب ۷ سے ۱۴ آیت میں کہتا ہے کہ شریروں کو البتہ برکت ملتی ہےان کی زندگی دراز ہوتی اور ان کے فرزندان کے ساتھ برقرار رہتی رہتی ہے۔ان کے گلے بڑھتے اور وہ عیش و عشرت میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔۲۱ باب ۱۵ سے ۲۱ آیت میں کہتا ہے کہ گو شریر خدا کو ترک کرتےہیں۔لیکن کی کامیابی ان کے قبضے میں نہیں ہے۔اور وہ بھوسے کی مانند ہیں جو کہ ہوا سے اڑایاجائے۔خدا ان کی بدکاری کو ان کے بچوں کےلیے جمع کرتا ہے۔۲۱ باب ۲۲ سے ۳۴ آیت ایوب زوفر کی تسلی کو اس سبب سے کہ ان سب کو جوابوں میں دغاہے۔عبث ٹھہراتاہے۔

تیسرا دور

سوال ۱۹ ۔ تیسرے دور کی تفصیل کرو ۔

جواب(۱)۔ اس حصے میں دس یعنی ۲۲ سے ۳۱ ابواب ہیں ۔

بائیسویں باب میں الیفرتمنی کی تیسری تقریر ہےچنانچہ ۲۲ باب ۱ سے ۵ میں وہ ایوب کو سخت شریر قرار دیتا ہے اور خدا کے سامنے مجرم اور ملزم قرار ٹھہراتا ہے ۔ اور کہتا ہے کہ خدا کو انسان سے کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتااور نہ اس کی راستبازی خوشی حاصل ہوتی ہے کیونکہ اس کی شرارتیں اور بد کاریاں بے حد ہیں۔۲۲ باب ۶ سے ۱۱آیت وہ ایوب کی خطا کاریوں کی تفصیل اور نتائج بیا ن کرتا ہےکہ غالباً اس نے اپنے بھائی سے گرو مانگ لیا اور ننگے کے کپڑے کو اتار لیا۔تھکے ماندے کو پانی نہ پلایا نہ بھوکے کو کھانا کھلایا۔زبردستی سے وہ زمین کا مالک بن بیٹھا۔اور صاحبِ عزت کی طرح اس میں بسا رہا نیز کہتا ہے کہ تونے بیواؤں کو خالی ہاتھ لٹا دیا ہوگا۔اور یتیموں کے بازوں توڑے ہوں گے اس سبب سے تیرے چاروں طرف پھندے ہیں۔اور تیرے اچانک ہول تجھ پر پڑے ہیں۔اور ایسی تاریکی کہ جس کے سبب تو دیکھ نہیں سکتا۔اور پانی ایسی باڑ ل کہ جس نے تجھ کو چھپا لیا ہے۔

ایوب ۲۲ باب ۱۲سے ۲۰ آیت میں وہ ایوب کو تاکید کرتا ہے کہ اپنی بری راہ سے پھرے اور ان شریروں کی مانند نہ ہو جنہوں یہ خیال کیا کہ خدا ان کی بدکاریوں سے واقف نہیں ۔اور جان رکھ کہ خدا آسمان کی بلندی پر ہے۔توبھی وہ انسان کے احوال سےآگاہ اور خوب واقف ہے۔اور ۲۲ باب ۲۱ سے ۳۰ آیت میں ایوب کو اصلاح دیتا ہے کہ وہ خدا سے آشنائی کرے تو اس کی خیر ہو گی اور وہ سلامت رہے گا۔اور کہ وہ خدا کے منہ سے اس کی شریعت کو لے اور اس کے کلام کو دل میں جگہ دے اور قادرِ مطلق کی طرف پھرے تو وہ بحال ہو گا اور کہتا ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے لیے اس کو بدکاری کو اپنے ڈیرے دور پھینکنی ہو گی۔تب خدا اس سے راضی ہو گا اور وہ اس سے دعا مانگے گا تو وہ سنے گا۔اور اس کو اسکے منصوبوں میں کامیاب کرے گا۔اور اس کی راہوں میں روشنی چمکے گی۔

(۲) ایوب ۲۳ اور ۲۴ ابواب ایوب الینفرتیمنی کو جواب دیتا ہے۔

ایوب ۲۳ باب ۱ سے ۹ آیت میں ایوب الینفر صلاح کے بموجب اپنی آرزو پیش کرتا ہے۔اور کہتا ہے کہ میں خدا کو ملنا چاہتا ہوں تاکہ اپنا معاملہ خود اس کے سامنے پیش کروں۔اوراس کے جواب کا منتظر ہوں۔کیونکہ مجھ کو یقین ہے کہ وہ اپنی بڑی قدرت سے میرا مقابلہ نہ کرے گا بلکہ مجھے طاقت بخشے گا۔میں افسوس کرتا ہوں کہ اب تک مجھ کو اس کی آشنائی اور شناسائی حاصل نہ ہوئی۲۳ باب ۱۰ سے ۱۷ آیت تاہم مجھ کو اس بات سے تسلی ہے کہ گو میں خدا سے خوب واقف نہیں ہوں پر وہ مجھ سے بخوبی واقف ہے۔اور اس کو معلوم ہے کہ میں نے اس کی راہ کو حفظ کیا ہے اوراس نے کنارہ نہیں کیا اور اس کے لبوں کے حکم سے منہ پھیرا بلکہ ان کو اپنی زندگی ضرریات سے زیادہ عزیز جان کر محفوظ رکھا تو بھی جب میں خداوند قدرتوں کو خیال میں لاتاہوںتو مجھ پر خوف چھا جاتا ہے۔

چوبیسویں باب میں ایوب کہتا ہے کہ از بسکہ انقلابات قادرِ مطلق سے پوشیدہ نہیں تو وہ جو اس کے اشنار ہیں اس کے ایام کو نہیں دیکھتے ۔ایسے لوگ بھی ہیں کہ جو کہ کھیت کے ڈانڈوں کو سرکاتے اور زبردستی گلوں کو لے جاتے ہیں۔وہ مسکینوں کو رہ سے ہٹا دیتے اور زمین کے غریب غرباؤں کے خوف سے چھپتے ہیں ۔وہ طرح طرح کے ظلم اور نارستی کرتے ہیں۔تو بھی راستبازوں اور ان کے انجام میں کوئی نمایاں فرق معلوم نہی ہوتا کہ قبر ان دونوں کو یکساں کے لے لتی ہے۔ان سب باتوں کی نسبت وہ اپنی لا علمی کا اعتراف کرکے اپنے دوستوں سے اس کا جواب طلب کرتا ہے ۔

(۳) بلداد سوخی کی تیسری تقریر

(۴) باب پچیس۲۵:۔ اس میں بلداد سوخی خدا کی عظمت اورانسان کی بے قدری کی نسبت کہتا ہے کہ سلطنت اور محبت اس کی ہے۔وہ اپنے اونچے مکانوں میں صلح کراتا ہے پس خدا کے حضور انسان کیونکر صادق سمجھا جائے اور وہ جو عورت سے پیدا ہوا ہے کیونکر پاک ٹھہرے دیکھ اس کی نظر میں نہ چاند کی روشنی اور نہ ستارے پاک ہیں۔اور انسان جو کہ کیڑا اور آدمزاد ہے۔وہ کیونکر پاک ٹھہر سکتا ہے۔

(۵) ایوب کی آخری تقریر ابواب ۲۶ سے ۳۱ :۔ اس تقریر میں کئی ایک باتیں ہیں۔ مثلاً

(ا) ۔ ۲۶ باب ۱ سے ۵ آیت میں وہ بلداد سوخی کی کمک کو عبث ٹھہراتا ہے۔

(ب)۔ باب ۴ سے ۱۴ آیت میں وہ خدا کی قدرت اور داونش اور فیض عام کی تعریف کرتا ہے۔

(ج) ۔ ۲۷ باب ۱ سے ۱۲ آیت میں ایوب خدا کی قسم اٹھا کر بلداد سوخی کو کہتا ہے کہ میں تجھے صادق نہیں ٹھہرا سکتا۔کیونکہ مجھ کو اپنی صادقت قائم رکھنا ضرور ہے۔ریا کاروں کو خدا سے کیا امید ہو سکتی ہے؟سو میں نہیں چاہتا کہ میرا دل مجھے ملامت کرے۔

(د) ۔ ۲۷ باب ۱۳ سے ۲۳ آیت میں شریر کی بدحالی اور اس کا انجام پیش کرتا اور کہتا ہے کہ ہر حالت میں اس کی کامیابی لاحاصل ہے کیونکہ اس کو خدا اور انسان کی طرف سے کسی طرف کی مدد نہیں مل سکتی۔

(ر)۔ ۲۸ باب ۱ سے ۱۹ آیت میں وہ دنیوی علوم میں انسان کی لیاقت اور قابلیت کی رتعریف کرتا ہے۔خاص کر اس واسطے کہ زمین میں مدفون اور چھپے ہوئے خزینے دریافت کرنکلاتا ہے۔لیکن پھر کہتا ہے کہ اس کو معلوم نہیں کہ دانائی کہاں سے مل سکتی ہے۔وہ فہمیدہ کےمکان اور اس کی قیمت سے ناواقف ہے۔کیونکہ وہ زندوں کو زمین سے حاصل نہیں ہوتی۔ گہراؤ کہتا ہے کہ دانائی مجھ میں نہیں اور سمندر کہتا ہے کہ میرے پاس بھی نہیں۔وہ بیش قیمت ہے اور سونے چاندی یا قیمتی پتھروں کے مقابلے میں خریدی نہیں جاسکتی۔

(س)۔ ۲۸ باب ۲۰ سے ۲۸ آیت میں ایوب سوال پیش کرتا ہے دادنائی کہاں سے آتی ہے؟اور فہمیدہ کی جگہ کہاں ہے ؟ وہ انسان کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے ۔پھر وہ اس کو کہا ں سے مل جاتی ہے۔ہلاکت اور موت دونوں کہتی ہیں کہ ہم نے اپنے کانوں سے اس کی شہرت سنی خدا اس سے واقف ہے اور اس کے مقام کو جانتا ہے۔کیونکہ وہ زمین کی انتہا تک نظر کرتا ہے۔اور آسمان کے نیچے سب جگہ دیکھتا ہے۔اسنے انسان کو کہا کہ خدا کا خوف دانائی ہے۔اور بدی سے دور رہنا فہمید ہے۔

(ص)۔ ۲۹ باب ۱ سے ۲۵ آیت میں ایوب اپنی پہلی حالت کا خواہش مند ہے۔اور کہتا ہے کہ جب خدا میری نگہبانی کرتا تھا ۔اس کا چراغ میرے سر پر روشن تھا۔اور میں اس کی روشنی میں چلتا تھا۔قادرِمطلق میرے ساتھ تھا ۔میرے بچے میرے آس پاس تھے۔جوان اور بڈھے میری تعظیم کرتے تھے۔یتیم اور بیوائیں مدد کے لیے میرے پاس آتی تھیں۔میں ظالموں اور بے انصافوں کے بازوں توڑ ڈالتا تھا۔لوگ میری سنتے اور میرے منتظر رہتے تھے۔میں ان کے درمیان سردار تھا۔اور غمگینوں کو تسلی دیتا تھا۔

(ط)۔ ۳۰ باب ۱ سے ۱۵ آیت میں وہ اپنی موجودہ حالت کا گزشتہ حالت سے مقابلہ کرتا ہے۔اور کہتا ہے کہ اب میری حقارت ان سے کی جاتی ہے جو کہ جن کے باپ دادا اگر میرے گلے کے کتوں میں بٹھائے جاتے تو بھی اسے غنیمت سمجھتے اب گو وہ نہایت ہی حقیر ہیں تو بھی وہ مجھ سے گھن کھاتے اور میرے منہ پر تھوکنے سے باز نہیں آتے۔

(ع)۔ ۳۰ باب ۱۶ سے ۳۱ آیت ایوب اپنی اذیت کے سبب سے خدا کے سامنے فریاد کرتا ہے۔اور گو وہ جانتا ہے کہ سب مصیبت خدا کی طرف سے اور اس کو بہت کم امید ہے۔کہ اس کی سنی جائے گی۔تو بھیب کہتا ہے کہ جب آدمی گرتا ہے تو خواہ مخواہ اپنے دونوں ہاتھ پھلاتا ہے۔کہ شائد کسی نہ کسی طرح سے سنبھل جائے۔

(ف)۔ ۳۱ باب میں ایوب اپنی وفا داری،دیانت داری،فیاضی،ہمدردی اور مسافر پروری سے اپنی زندگی کی صداقت ثابت کرتا ہے۔اور خدا کو اپنا گواہ قرار دیتا ہے۔

الیہو کی تقریر ابواب ۳۲ سے ۳۷۔

سوال ۲۰: الیہو کی کیفیت بیان کرو اور اس کی تقریرکی تفصیل کرو۔

جواب: ۳۲ باب ۲ ا ٓیت میں ذکر ہے کہ الیہو براقی ایل بری کا جو رام کے خان دان میں تھا۔بیٹا تھا۔براقی ایل کا بہت ذکر نہیں لیکن اس کا باپ بنرنحور کا بیٹا اور ابراہیم کا بھتیجا تھا۔

پیدائش ۳۲ باب ۲۰سے ۲۱ آیت الیہو بیٹھا بیٹھا مختلف تقریریں سن کر جوش میں آگیا اور ایوب پر اظہارِ ناراضگی کیا کیونکہ وہ اپنے آپ کو خدا سےزیادہ صادق ٹھہراتا تھا۔اور ایوب کے دوستوں پر اس واسطے کہ وہ ایوب کو بغیر کسی دلیل یا ثبوت کے خطا کار ٹھہراتے تھے جبکہ وہ خود اس کا قائل نہ تھا۔

۳۲ باب ۱سے ۵ آیت میں وہ اپنے خفا ہونے کے اسباب بیان کرتا ہے۔

۳۲ باب۶ سے ۲۹ آیت میں وہ کہتا ہے کہ بزرگوں کی ناکامیابی گو میں نوجوان ہوں مجبور کیا کہ ان کا مقاوبلہ کروں۔

۳۳باب ۱۰ سے ۱۱ آیت میں الیہو ایوب سے مخاطب ہو کو کہتا ہے کہ میں دل کی راستی سے بولوں گااور معرفت کی صحیح باتیں کہوں گا۔اور ایوب کے اس دعوے کی کہ وہ پاک ہے اور خدا اس سے دشمی رکھتا اور اس پر سختی کرتا ہے اور اس کے پاؤں کاٹھ میں ڈالتا ہے۔تردید کرتا ہے۔

۳۳باب۱۶ سے ۳۳آیت میں ایوب کو جتاتا ہے کہ اس نے منصفی نہیں کی اور کہتا ہے کہ خدا ایک با رانسان سےبولتا ہے۔اور اگر وہ نہ سنے تو دوبارہ اور بعض اوقات رات کے وقت رویا میں یا خواب میں وہ انسان کے کان کھولتاہے اور اس کے ذہن میں تعلیم نقش کرتا ہے اور اس کو بچاتا ہے خدا انسان سےایسا عالی قدر ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی راہ انسان پر ظاہر نہیں کرتابلکہ حکم کرتا ہے بعض دفعہ خدا انسان کو ایسے درد کے ذریعے تنبیہ دیتا ہے کہ وہ بستر پر پڑ جاتا اور روٹی کھانے سے بھی عاجز رہ جاتا ہے اور اس کا گوشت یہاں تک سوکھ جاتا ہے۔کہ اس کی ہڈیاں نظر آنے لگتی ہیں۔اور وہ قبر کے نزدیک پہنچ جاتا ہے۔اگرایسے ودقت میں کوئی پیغمبر یا ناصح پاس ہو جو اس کو اس کے فرائض سے آگاہ کرے تو خدا اس پر رحم فرماتا ہے۔اور قبر میں گرنے سے بچاتا ہے وی خدا سے دعامانگتا اور خدا اس پر رحم فرماتا ہے۔اور آدمیوں کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار بھی کرتاہے۔خداوند انسان سے تین بار اس قسم کا سلوک کرتا ہے۔تاکہ وہ قبر سے بچا رہے۔اور زمین کی روشنی سے روشن رہے۔ اس نے ایوب کو دوبارہ تاکید کی کہ وہ خاموش ہو کر اس کی بات سنے۔

۳۴ باب ۱ سے ۹ آیت میں وہ ان اشخاص کی توجہ ایوب کی راستبای کے دعوے کی طرف لگاتا ہے۔اور کہتا ہے کہ حالانکہ ایوب شریر کے ہمراہ ہو کر شرارت کرتا ہے۔تو بھی وہ اپنے کو اپنے آپ کو صادق ٹھہراتا اور خدا پر الزام لگاتا ہے۔

۳۴ باب ۱۰ سے ۱۶ آیت میں الیہو ان کے سامنے خدا کے انصاف کی تعریف کرتا اور کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ بے انصافی کرے یا قادرِمطلق ایسا کرتا ہے؟بلکہ وہ ہر ایک آدمی کو اس کے چال چلن کے مطابق پھل دیتا ہے۔ہر ایک انسان اپنے اعمال کے بموجب اجرپاتا ہے۔خدا قادرِ مطلق ہے۔اورعدالت میں خلل نہیں ڈالتا۔اور خاص ان ہی سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہاس کی آنکھیں انسان کی راہوں پر لگی ہیں۔اور وہ اس کی سب روشوں پر نظر کرتا ہے۔بدکار اپنے آپ کو ہرگز چھپا نہیں سکتا۔اور وہ اس واسطے کہ وہ ان کے کاموں سے واقف ہے ان کو سزا اور جزا دیتا ہے۔

۳۴ باب ۲۹ سے ۳۷ آیت میں وہ کہتا ہے کہ ایوب کو خدا نے خاص اس واسطے اس حالت میں مبتلا کیا کہ اس کو اپنے ماتحتوں کو تنگ کرنے اور ان پر ظلم کرنے کا موقعہ نہ ملےسو اس واسطے وہ کہتا ہے کہ مناسب ہے کہ ایوب خدا کے سامنے توبہ کرکے اقرار کرے کہ وہ پھر اس طرح نہ کرے گا۔

الیہو چاہتا ہے کہ خدا ایوب کوآخر تک آزمائے۔

۳۵ ویں باب میں الیہو ایوب سے سوال کرتا ہے کہ کیا تونے جو کچھ کہا ہے اسے واجب سمجھتا ہے؟کیا تیری صداقت سچ مچ خدا کی صادقت سے بڑی ہے؟اور اسے متنبہ کرتا اور کہتا ہے کہ خدا کا مرتبہ انسان کے مرتبے اس لیے اعلیٰ اور عالی قدر ہے کہ وہ انسان سے بہت بڑااور افضل ہے۔اور انسان اس کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھتا ۔اس کی راستبازی اور بدی سے خدا کو کچھ نفع اور نقصان نہیں پہنچتا۔ہاں البتہ تیری شرارت سے انسان کو ضرور ضرر اور صداقت سے نفع پہنچ سکتا ہے۔تیری دعا اور تیری بد کرداری غرور اور ذاتی بھروسے کی وجہ سے لائق قبولیت اور نہیں کیونکہ خدا ریا کار اور مغرور کی دعا نہیں سنتا۔

۳۶باب ۱سے ۱۶ آیت میں الیہو انسان کے خدا کے ہر ایک سلوک کو جائز ٹھہرا کر کہتا ہے کہ وہ شریروںن کو جینے نہیں دیتا۔پر مظلوموں کا انصاف کرتا ہے۔وہ راستبازوں سے چشم پوسی نہیں کرتا۔بلکہ انہیں ان کی مصیبتوں سے چھٹکارادیتا اور ان کے گناہوں کوان پر ظاہر کرتا اور ان کے کاموں کو کھولتاہے۔کہ ان کی تربیت ہو وہ ان کو حکم کرتا ہے کہ وہ بدی اور بدکاری سے باز آئیں۔اور وعدہ کرتا ہے کہ اگر وہ متوجہ اور میری بندگی کریں تو وہ اپنے دنوں کو عیش اور برسوں عشرت میں بسر کریں گے لیکن اگر وہ فرمانبرداری نہ کریں تو وہ تلوار سے ہلاک کیے جائیں گے۔اور بے وقوفی میں مریں گے۔بے دینوں کی جان جوانی میں جاتی ہے لیکن وہ مصیبت کے قیدیوں کو رہائی کو رہائی بخشتا ہے۔

۳۶ باب ۱۷ سے ۳۳ آیت الیہو ایوب کو کہتا ہے کہ شرارت سے بھرا ہو اہے سو عدل و انصاف نے تجھ کو گفتار کیا ہے۔اور تاکید کرتا ہے کہ خدا کی تنبیہ صبر سے برداشت کر کیونکہ وہ عادل ہے اس کی عدالت اوردانائی میں ہرگز نقص دخل نہیں پاتا۔

۳۷ باب ۱ سے ۱۳ آیت وہ ایوب کے سامنے خدا کی دانشمندی اور حکمت اور قدرت ظاہر کرتا اور اس سے استفسار کرتا ہے۔کہ کیا اس کا علم رکھتا ہےکہ انسان قادرِ مطلق کے بھید تک نہیں پہنچ سکتاکہ اس کی عدالت اور قدرت عظیم ہے اور اس کا انصاف فراوان ہے۔اور چاہئے کہ لوگ اس سے ڈریں کہ کیونکہ وہ ان میں سے کسی پر جو اپنے دل میں عقل مند ہیں۔پر نگاہ نہیں کرتا اور تصدیعہ نہیں دیتا۔

سوال ۲۱ دوسرے حصے کی چوتھی بات کی تشریح کرو۔

جواب: اس چوٹھی بات میں چار ابواب ہیں یعنی ۳۸ باب سے ۴۲ باب کی۶ آیت تک۔

ان ابواب میں خداوند کی تقریر بہ تفصیل درج ذیل ہے۔

(أ‌) ۳۸باب میں خداوند بگولے میں سے ایوب کو دنیا کی پیدائش اور اس کے انتظام کے سلسلے کےبارے میں چند سوالات کے ذریعےعلم و عقل میں قاصر ہونےکا قائل کرتا ہے۔چنانچہ خداوند اس سے سوال کرتا ہے کہ جب میں نے دنیا کی بنیاد ڈالی تو کہاں تھا؟ کیا اس کی پیدائش اور اس کی تنظیم میں شریک وشامل تھا؟ کیا تو مقدور رکھتا ہے کہ صبح پر بارش پر سمندر پر یابجلی پر اپنا حکم چلائے؟ کیا تو جنگلی جانوروں اور کوئے کی غذا تیار کرسکتا ہے؟جب کہ ان کے بچے خدا کے سامنے چلاتے اور خورش کے محتاج ہو کر بھٹکتے پھرتے ہیں۔

(ب)۔انتالیسویں۳۹ باب میں خداوند ہرنی، گورخر،گینڈے اور شتر مرغ کی عادات پیش کرکے ایوب سے سوال پیش کرتا ہے۔کہ کیا تو ان سے واقف ہے؟کیا تونے گھوڑے کو ایسا زور بخشا ہے؟ کہ وہ دہشت پر ہنستا ہےاور جنگ میں ہرساں نہیں ہوتا؟کیا باز تیری ہوشیاریئ سے اڑتا ہے؟ یا عقاب تیرے ہی حکم سے بلندی پر پروازد کرتا اور انچائی پر گھونسلہ بناتا ہے۔

(ج) ۔ ۴۰ باب ۱ سے ۵ آیت خداوند ایوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ تیرا مجھ سے جھگڑنا اور مقابلہ کرنا عبث ہے ایوب نے اس سے قائل ہو کر کہا کہ میں اپنے منہ پر ہاتھ رکھتا ہوں۔اور خاموش ہو رہا۔

(د)۔ ۴۰ باب ۶ سے ۱۴ آیت میں گردباد میں ظاہر ہو کرایوب سے سوال کرتا ہے۔کہ کیا تو میری عدالت کو باطل ٹھہرانا چاہتا ہے؟ کیا تو مجھے مجرم قرار دے گا کہ تو صادق ٹھہرے؟ تو اپنے تئیں شوکت اور فضلیت سے سنوار۔اور جلال اور جھال سے ملبوس ہو۔اپنے غصے کا جوش بڑھا اور مغرروں کو پست کر ۔اور شریروں کو ان کئے مکان میں لٹاڑ ڈال تو میں تیرا قرار کروں گا۔کہ تیرا دہنا ہاتھ تجھے رہائی دے سکتا ہے۔

(ر)۔ ۴۰باب ۱۵ سے ۲۴ آت میں خداوند ایوب کی توجہ بہیموت کی طرف لگاتا ہے کہ وہ اس کی عادات اور اس کے زور پر غور کرے اور پوچھتا ہے کہ کیا وہ انسان کے قابوں میں آسکتا ہے؟

(س)۔ ۴۱ ویں باب میں ایوب کی توجہ لوی یتان کی طرف متوجہ کرتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ وہ بھی ہرگزانسان کے قابوں نہیں آسکتا۔سو جب کہ انسان کو جرات نہیں کہ اس کو جو مخلوق چھڑے تووہ کون ہے جو اس کے خالق کا مقابلہ کرے؟

(ص)۔ ۴۲ باب ۱ سے ۶ آیت میں ایوب ان سب کے جواب میں کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ تو سب کچھ کرسکتا ہے۔اور یہ ممکن نہیں کہ تیرا اور کوئی ارادہ انجام کو نہ پہنچے۔اس قابلیت پر ایوب نے اپنے قصور مان لیے۔اور کہا کہ میں نے تیری خبر کانوں سے سنی تھی۔لیکن اب میری آنکھیں تجھے دیکھتی ہیں۔سومیں اپنے سے بے زار ہوں خاک اور راکھ پر بیٹھاہوا توبہ کرتا ہوں۔

تیسرا حصہ تتما

سوال ۲۲: ایوب کی کتاب کے تیسرے حصے یعنی تتمے کا مختصر بیان کرو۔

جواب: یہ ایوب کی کتاب کا تتمہ ایوب ۴۲باب ۶ سے ۱۷ آیت یعنی آخر تک ہے۔اس حصے میں ایوب کی بحالی سرفرازی اور خداوند کی طرف سے کے دوستوں کو سوختنی قربانیاں گزراننے کا حکم دیا۔اور ایوب کو اس کی خاطر قبولیت کے وعدے پر اپنے دوستوں کے لیے دعا مانگنے کا حکم ملنا مندرج ہے۔ایوب کی حالت کی تبدیلی اس وقت ہوئی جب اس نے اپنے دوستوں کو معاف کیا۔اور ان کے لیے دعا مانگی۔خداوند نے ایوب کو اس کی آخری عمر میں یعنی آزمائش کے بعد اس کی پہلی زندگی کی بانسبت زیادہ متمول اور بابرکت بنایا۔اور وہ عمر رسیدہ ہو کر مر گیا۔

سوال۲۳: ایوب کی کل کتاب کو بحث کرنے والوں کے لحاظ سےتقسیم کرو۔

جواب:اس کتاب میں ۴۲ ابواب ہیں۔جن میں سے ۱ اور ۲ تمہیدی ہیں۔

۲۰ابواب یعنی ۳،۶ ، ۷،۹ ،۱۰ ،۱۲، ۱۳ ،۱۴ ،۱۶،۱۷ ،۱۹ ،۲۱، ۲۳، ۲۴، ۲۶، ۲۷، ۲۸ ،۲۹اور ۳۰ میں ایوب کی تقاریر ہیں۔ ۴ ابواب یعنی ۴، ۵، ۱۵ ،۲۲ میں الیفرتیمنی کی قیل و قال ہے۔

۳ ابواب یعنی ۸ ، ۱۸ ،۲۵ میں بلداد سوخی کی ۲ یعنی ۱۱اور ۲۰ ابواب میں زوفر نعمانی کی ۶ یعنی ۳۲، ۳۳، ۳۴، ۳۵،۳۶اور۳۷ میں الیہو کی اور پانچ یعنی ۳۸، ۳۹، ۴۰، ۴۱ اور ۴۲ میں خداوند کی تقاریر ہیں۔

نوٹ

ایوب شیطان کے سواک کا جواب دیتا ہے۔اس کی وفاداری اس بات کی شاہد و ثبوت ٹھہری کہ وہ اس کی خود غرضی کے سبب سے خدااسے پیار نہ کرتا تھا۔اور اس سوال کا جواب ایوب کے دوستوں کی طرف سےتھا۔کہ دنیا میں دکھ اور مصیبت کا کیا سبب ہے؟اورکہ انسان ان میں کیوں مبتلا ہوتا ہے؟اس کا جواب خداوند کی طرف سے دیا گیا۔کہ انسان اس کا مخلوق اور خادم ہے۔سووہ اس کو اپنی خدمت کے واسطےتیار کرتا اور اپنا جلال اس وسیلے سے ظاہر کرتا ہے۔لہذا انسان کا فرض کلی یہ ہے کہ وہ خدا سےت ڈرے اور بدی سے باز رہے۔اور فرض کو پہچان کر فرمانبرداری اور اطاعت کرے۔