Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque
Bismillah 6
معجزاتِ مسیح

پانی کا آبِ انگور بنانا
۱۔معجزہ

انجیل عیسیٰ پارہ یوحنا رکوع ۲ آیت ۱تا ۱۱ تک
مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے
؁ ۱۹۰۵ء

معجزاتِ مسیح
Miracles of Christ

1—Miracle
Water into wine – John 2:1-11
Rev. Talib-u-Din
1905

یہ معجزہ حضرت عیسیٰ مسیح کی تبلیغ کے شروع میں نہایت ہی موزون تھا۔ کیونکہ اس سے آپ کے کل کام کا مقصد ظاہر ہوجاتاہے، یہ گویا آپ کی آئندہ کی تبلیغ کی ایک نبوت تھی ۔ جناب مسیح ایک عجیب تبدیلی پیدا کرنے آئے تھے۔ پانی سے آب انگور بنانا اس حقیقی اور سچی تبدیلی کا نمونہ تھا۔جو آپ کی روح پاک کی قدرت سے گناہ گار کے دل میں اس وقت واقع ہوتی ہے جبکہ وہ آپ پر ایمان لاتے ہیں۔ پانی سے آب انگور بنانا گویا ایک ادنیٰ شئے سے افضل شئے بنانا تھا۔اور جس قدرت کا ملہ سے آپ نے یہ معجزانہ تبدیلی پیدا کی اسی وقت سے آپ گناہ آلودہ طبیعت اور رذالت اور خباثت کو دور کرتے ہیں۔ اور اسے الہٰی فرزندی کی فضیلت اور شرافت سے مالا مال فرماتے ہیں۔

آیت نمبر ۱۔پھر تیسرے دن قانائے گلیل میں شادی ہوئی اور جناب مسیح کی والدہ ماجدہ بھی وہاں تھیں۔

پھر تیسرے دن ۔ یعنی آپ کو دو حواری یعنی حضرت فیلبوس اور حضرت نتھانیل کے آنے سے تین دن بعد ،دو دون میں جناب مسیح اور آپ کے حواری یردن کے کنارے سے قانائے گلیل میں پہنچ گئے ہونگے ۔ اور مسیح کی والدہ ماجدہ وہاں تھیں،یعنی علاوہ جناب مسیح اور آپ کے حواریوں کے آپ کی والدہ ماجدہ حضرت مریم صدیقہ بھی وہاں موجود تھیں ۔معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف زندہ نہ تھے۔ ان کا آخری ذکر اس وقت آتا ہے جبکہ مسیح ان کے ساتھ  بیت اللہ کو گئے۔ اغلب ہے کہ وہ اس وقت کے بعد اور جناب مسیح کی تبلیغ کے آغاں سے پہلے کسی وقت فوت ہوگئے تھے۔

اور آپ کے حواری وغیرہ ۔ عموماً یہ پانچ حواری مراد لئے جاتے ہیں۔ حضرت اندریاس ،حضرت پطرس ،حضرت فیلبوس،حضرت نتھانیل ،اور حضرت یوحنا ان حواریوں میں سے جن کا ذکر ( انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا باب ۱ آیت ۳۵ تا۴۰) میں پایا جاتا ہے ایک حضرت یوحنا تھے اور دوسرے حضرت اندریاس اور یہ نتیجہ کہ ان میں سے ایک حضرت یوحنا تھے ۔ ا س مفصل بیان سے مستنبط کیا جاتا ہے جو اس انجیل کے ہر صفحہ سے مترشح ہے (اور نیز اس بات سے بھی کہ وہ اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتے ) دیکھیں انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا باب ۱۳آیت ۲۳،باب ۱۵آیت ۱۹ باب ۲۶آیت ۳۵) اگر یہ قیاس ٹھیک ہے تو حضرت یوحنا بچشم خود اس معجزہ کے دیکھنے والے تھے۔

آیت نمبر ۲۔اور جناب مسیح اور آپ کے حواریوں کی بھی اس شادی میں دعوت تھی ۔

اس شادی میں دعوت تھی۔ یعنی جناب مسیح کا اس شادی میں آنا بڑی برکت کا باعث تھا۔ وہ نہ صرف دکھ اور غم میں ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ بلکہ ہماری خوشی اور خرمی میں بھی ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔آپ کی حضوری سے شادی کا جواز ثابت اور خاندانی تعلقات کی درستی اور عظمت کی تصدیق ہوتی ہے۔ جو لو گ شادی کے رشتہ پر حرف لاتے ہیں وہ غلطی میں ہیں ۔ جس نے بے تکلفی سے حضرت مریم صدیقہ شادی کے معاملات میں دست اندازی کرتا ہیں ( دیکھیں آیت ۵) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے میزبان سے گہرا تعلق اور تعارف رکھتی تھی۔ ممکن ہے کہ وہ شادی والوں میں سے کسی فریق کی رشتہ دار ہونگی۔

جب مے(انگور کا رس ) ختم ہوچکی ۔ممکن ہے کہ جناب مسیح اور آپ کے حواریوں کے آنے سے مہمانوں کا شمار بڑھ گیا ہو۔ اور اس سبب سے مئے کم ہوگئی ہو۔ حضرت مریم صدیقہ اس کمی کو دیکھ کر متفکر ہوئی۔ اور چاہتی تھی کہ ان کی مشکل کسی طرح رفع کی جائے لہذا۔

آیت نمبر ۳۔جب میں ختم ہوچکی تو جناب مسیح کی والدہ ماجدہ نے ان سے فرمایا کہ ان کے پاس مے نہیں رہی۔

جناب مسیح سے فرمایا کہ ان کے پاس مے نہیں رہی۔ معلوم نہیں کہ وہ کس مقصد سے ان کے پاس آ ئیں اور کیا چاہتی تھی کہ وہ ان کے لئے کریں۔ کیونکہ مسیح کا یہ پہلا معجزہ تھا۔ (دیکھیں آیت ۱۱) اور حضرت مریم صدیقہ نے ان کی قدرت اعجاز کا کوئی کرشمہ ابھی تک نہیں دیکھا تھا ۔ پس ان کو جرات نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ ان سے یہ کہتی کہ تم اپنی معجزانہ طاقت سے ان کے لئے مے بنادو۔ بعض لوگوں کا یہی خیال ہے کہ گو مسیح نے عام طور پر اپنی بزرگی اور عظمت ظاہر کرنے کو کوئی معجزہ اب تک نہیں دکھایا تھا مگر اپنے عزیزوں کے دائرے میں آپ نے کئی معجزے اس غرض سے دکھائے تھے کہ وہ اس ظاہر ی معجزہ کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔لیکن انجیل شریف کی سادہ بیانی سے خلاف ورزی اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس میں صاف لکھا ہے کہ یہ آپ کا پہلا معجزہ تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ کس طرح حضرت مریم صدیقہ کو جناب مسیح کی بشارت دی گئی تھی۔لہذا ناممکن نہیں کہ گو آپ نے کوئی معجزانہ اظہار مسیح کی قدرت کا اب تک نہ دیکھا تھا ۔ تاہم وہ ان نشانوں کے سبب سے اور اس نبوت کے کلام کے باعث ث جو جناب مسیح کی پیدائش سے وابستہ تھا ا س بات کی قائل تھیں کہ وہ موجودہ مشکل کو رفع کرنے کی پوری پوری قدرت رکھتے ہیں گو آپ نے اب تک اس قدرت کو عوام الناس میں ظاہر کرنا شروع نہیں کیا۔

بعض لوگوں کی یہ رائے ہے کہ وہ اس لئے جناب مسیح پا س یہ درخواست کرنے نہیں آئی تھیں کہ وہ معجزات طاقت سے مے کی مقدار بڑھادیں یا اسے اور کسی طرح پیدا کردیں۔ بلکہ وہ اس لئے آپ کے پاس آئی تھیں کہ ان کے ساتھ مشورہ کرکے اس موقع پر کیا کیا جائے کیونکہ آپ نے حضرت مسیح کو ہمیشہ دانا صلا ح کار اور عمدہ مشیر پایا تھا۔

پھر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ جب حضرت مریم صدیقہ نے یہ کہا کہ "ان کے پاس مے نہیں رہی " تو اس کا مطلب یہ تھا کہ قبل ا سکے کہ ہمارے میزبانوں کی یہ مشکل فاش ہو اور وہ شرمندگی اٹھائیں بہتر ہے کہ ہم یہاں سے چلے جائیں۔

آیت نمبر ۴۔ جناب مسیح نے ان(حضرت مریم صدیقہ ) سے کہا کہ اے عورت مجھے آپ سے کیا کام ہے ابھی میرا وقت نہیں آیا ہے۔

اے عورت مجھے آپ سے کیا کام ہے ۔الفاظ "اے عورت " پر اکثر ہمارے مسلمان بھائی اعتراض کرتے ہیں کہ جناب مسیح نے اپنی والدہ ماجدہ کو "اے عورت " کہہ کر مخاطب کیا جو کہ ایک نبی کو زیبا نہیں دیتے۔ہمارے مسلمان بھائی کا اعتراض سر آنکھوں پر لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی جب بھی اعتراض کرتے ہیں تو وہ صرف انجیل شریف کا ترجمہ پڑھنے کے بعد اعتراض کرتے ہیں اور وہ قطعاً بھول جاتے ہیں کہ انجیل شریف کی الہامی زبان یونانی ہے جیسی کے قرآن شریف کی زبان عربی ہے ۔اور اگر وہ انجیل شریف کی الہامی زبان جو کہ یونانی ہے اس میں اس آیت کو دیکھیں گے تو ہمارا ایمان ِ کامل ہے کہ پھر وہ دوبارہ اعتراض نہیں کریں گے ۔ اصل زبان میں جو لفظ استعمال ہوا اور جسے اردو ترجمہ میں "اے عورت " کیا گیا اصل میں وہ لفظ یونانی زبان میں "گونئے کوس " ہے اور اگر ہم اس لفظ کے معنی دیکھیں تو ہم ورطہ حیرت میں پڑجاتے ہیں کیونکہ جو لفظ "گونئے کوس " استعمال کیا گیا ہے اس کے معنی اے عورت نہیں بلکہ اس کے معنی ہیں "اے ملکہ " یعنی انگریزی الفاظ "لیڈی " کے مترادف ہیں ۔اور اس لفظ کا استعمال کرنا نہ صرف ظاہری ادب مقصود ہوتا تھا بلکہ دلی عزت بھی مقصود تھی۔ چنانچہ قیصر اگسطس نے ملکہ کلیو پیٹرا ( جس کا سن وفات جناب مسیح سے تیس سال قبل تھا ) کو خطاب کرتے ہوئے یہی لفظ استعمال کیا تھا۔اسی طرح سے دوسرے الفاظ یعنی" مجھے آپ سے کیا کام ہے "یونانی میں ان کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ "مجھے اور تجھے کیا" (دیکھیں کتاب مقدس قضات باب ۱۱ آیت ۱۲،۱ سلاطین باب ۱۷ آیت ۱۸، ۲سلاطین باب ۳ آیت ۱۳، یشوع باب ۲۲ آیت ۲۴، ۲ سیموئیل باب ۳۶ آیت ۲ نیز انجیل شریف میں بہ مطابق حضرت متی باب ۸ آیت ۲۹ اور بہ مطابق حضرت مرقس باب ۱ آیت ۲۴ وبہ مطابق حضرت لوقا باب ۸ آیت ۲۸)اس سے بعض اشخاص نے یہ سمجھا کہ مسیح کا مطلب یہ تھا کہ اگر مے ختم ہوگئی ہے تو ہم کیا کریں ۔ یعنی مجھے اور تجھے اس سے کیا واسطہ ۔اس آیت کی تفسیر ایک مسیحی عالم ٹرنچ صاحب یوں فرماتے ہیں کہ ا س تفسیر کی بنیاد لا علمی پر قائم ہے۔ یعنی جو لوگ یہ خیال پیش کرتے ہیں وہ  اس محاورہ کے معانی سے واقف نہیں ہیں ۔

صاحب موصوف یہی تفسیر کرتے ہیں کہ"اس معاملہ میں مجھے کچھ نہ کہو۔ کیونکہ اس معاملہ میں مجھ میں اور آپ میں کسی طرح کا اشتراک نہیں ہے کیونکہ اس معاملہ میں اپنی قدرت کو ظاہر کرنا چاہتا ہوں ا س کا تعلق خون اور گوشت سے نہیں بلکہ اس کا علاقہ خدا کی بادشاہت کی ترقی کے ساتھ ہے۔ایک مسیحی عالم کری ساسسٹم صاحب فرماتے ہیں کہ ابھی حضرت مریم نے مسیح کی نسبت ایسا خیال کرنا نہیں سیکھا تھا جیسا ان کو کرنا چاہیے تھا ۔بلکہ وہ خیال کرتی تھیں کہ چونکہ وہ میرے شکم سے پیدا ہوا ہے ۔ لہذا جس طرح اور مائیں اپنے بچوں کو حکم کیا کرتی ہیں میں بھی انہیں حکم کرسکتیں ہوں اور نہیں جانتی تھیں کہ حکم کرنے کی نسبت ان کی تعظیم اور بندگی کرنا زیادہ زیبا ہے۔

ابھی میرا وقت نہیں آیا۔جب ہم ان لفظوں کو ماقبل کے الفاظ کے ساتھ پڑھتے ہیں تو یہی خیال گزرتا ہے کہ گویا یہی مراد تھی میرا وقت ابھی بہت دیر بعد آنے والا ہے اور حضرت یوحنا اکثر ان الفاظ کو مسیح کی موت یا ان کے اس دنیا سے کوچ کرنے کی نسبت استعمال کرتے ہیں۔ ( انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا باب ۷آیت ۳۰ ،باب ۸ آیت ۲۰ ،باب ۱۲ آیت ۲۳ ،۲۷اور باب ۱۷ آیت ۱) مگر ایک اور جگہ ان الفاظ سے قریبی فاصلہ بھی مراد ہے ( انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا باب ۷ آیت ۶) اور یہی مطلب یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم نے بھی ان سے دیر کا مطلب نہیں سمجھا اور وقوعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جو مطلب حضرت مریم نےسمجھا وہی صحیح تھا۔ ان کے نزدیک مسیح کا یہی مطلب تھا کہ جب تک مے بالکل ختم نہ ہوجائے اس وقت کچھ نہیں کرسکتا ( اگر مسیح مے بنادیتے تو اگسٹن صاحب کے قول کے مطابق لوگ یہی خیال کرتے کہ پانی تبدیل نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس میں اور عناصر ایزا د کئے گئے ہیں ) پس معجزہ اس وقت ہونے تھا جب اس میں کسی طرح کے شک وشبہہ کی جگہ نہ رہتی۔

آیت نمبر ۵ان کی ( مسیح ) کی ماں نے خادموں سے کہا ۔ جو کچھ وہ تمہیں کہے ۔ اسے کرو ۔حضرت مریم کو یقین تھا کہ وہ( مسیح ) ان کی درخواست کو قبول کریں گے اور انہوں نے کچھ کچھ یہ بھی جان لیا کہ کس طرح پورا کریں گے اسی لئے انہوں نے خادموں سے کہا کہ جوکچھ وہ تم سےکہے سو کرو۔ اس کے(مسیح ) حکم کو ماننا گویا معجزے کو وجود میں لا نا تھا۔

آیت نمبر ۶ ۔وہاں یہودیوں کی طہارت کےدستور کے موافق پتھر کے چھ مٹکے دھرے تھے اور ان میں دو دو تین تین من کی گنجائش تھی۔اس تفصیل سے فریب اور دھوکے کے لئے جگہ نہیں رہتی ۔ پہلے یہاں مٹکو کا بیان ہے یونانی زبان میں جو لفظ آیا ہے وہ جس کے معنی پانی کے ہیں۔ یہ برتن شراب کے برتن یا شراب کی صراحیاں نہ تھیں۔ بلکہ ایسے برتن تھے جن میں پانی بھرا جاتا تھا۔ لہذا یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ چونکہ مے کی صراحیوں میں پانی ڈالا گیا تھا اس لئے پانی میں مے کے برتنوں کی بوپیدا ہوگئ تھی اور وہ مے سمجھا گیا۔ اب چونکہ یہ برتن بالتخصیص پانی کے برتن تھے لہذ اعتراض مذکورہ بالا کے لئے کوئی جگہ نہیں رہتی۔

پھر یہ بات بھی یا درکھنی کے قابل ہے کہ پانی کے مٹکے وہیں موجود تھے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے کوئی ایسی صلاح نہیں کی تھی کہ ہم پہلے کہیں سے مٹکے لائیں گے اور پھر یہ کہیں کہ ان میں پانی بھرا ہوا تھا اور اب وہ پانی مے بن گیا ہے۔ بلکہ یہ مٹکے یہودیوں کےدستور کے مطابق پہلے ہی سے وہاں موجودتھے۔

مقدار بھی دی گئی تاکہ یہ شبہہ نہ رہے کہ تھوڑی سے مے کہیں سے چھپا کر لائے تھے اس مقدرا سے مے کی کثرت ظاہر ہوتی ہے کیونکہ دو دو تین تین من کی گنجائش ان مٹکو میں تھی ۔

مٹکو میں پانی بھر دوان لفظوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جتنے مسیح کے لئے کام کرنے والے ہیں ان کا یہ فرض ہے کہ جیسا مسیح کہے ویسا کری۔ فرائض ہمارے ہیں اور واقعات خدا کے ہیں ہمارا کام ہے مٹکوں میں پانی بھرنا اس کا کام پانی سے مے بنانا ۔

آیت نمبر ۷ ۔ مسیح نے ان سے کہا مٹکوں میں پانی بھر دو ۔ پس انہوں نے کو لبالب بھردیا۔اس سے ظاہر ہے کہ یہاں گمان نہیں ہوسکتا کہ پہلے ہی س ان میں مے بھری ہوئی تھی۔ خادموں نے اس کے (مسیح ) حکم کو مانا۔ بھر دیا۔ ان میں اور کوئی چیز اب نہیں ڈالی جاسکتی تھی۔

آیت نمبر ۸۔پھر اس نے ( مسیح )ان سے کہا ۔ اب نکال کر میر مجلس کے پاس لے جاؤ پس وہ لے گئے ۔شاید معجزہ اسی وقت واقع ہوا وہ جو انگور پیدا کرتا وہ جس نے مادہ کو نیستی سے خلق کیا باآسانی ایک قسم کے مادہ کو دوسری قسم کے مادہ میں تبدیل کرسکتا تھا۔ یہیں میر مجلس بھی مہمان تھااور غالباً اس وقت ضیافت کا مہتمم تھا۔ مسیح سوشل دستوروں کی تحقیر نہیں کرتے بلکہ ہر شحص کو اس کا حق دینے کو تیار ہیں۔ چنانچہ وہ اس مے کو پہلے میر مجلس کے پاس بھیجتا ہے ۔ اس قسم کے مہتمم یونانیوں اور رومیوں میں بھی پائے جاتے تھے۔ وہ لے گئے اطاعت۔

آیت نمبر ۹۔جب میر مجلس نے وہ پانی چکھا جو مے بن گیا تھا۔وہ تو اب پانی نہ تھا بلکہ مے تھی۔ مگر رسول اس واسطے اسے پانی کہتا ہے کہ مے بننے ے پہلے وہ پانی تھا اور نیز اس لئے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ان میں شروع ہی سے مے بھری ہوئی تھی ۔

ابھی تک ا س کو اس کو با ت کا علم نہ تھا کہ مے پانی سے بنی ہے وہ جیسا ا س کے بیان مابعد سے ظاہر ہوتا ہے یہی خیال کرتا تھا کہ میزبان نے اس رکھ چھوڑا ہےلیکن خادم جنہوں نے پانی کو ئیں سے نکال کر مٹکوں میں بھرا تھا۔ اس راز سے واقف تھے پس میر مجلس نے دولہا کو بلا کر کہا۔

آیت نمبر ۱۰ ۔ ہر شخص پہلے اچھی مے پیش کرتا ہے اور ناقص اس وقت جب کہ سب خوب پی چکیں مگر تونے اچھی مے اب تک رکھ چھوڑی ہے ۔ جب سب پی چکے ۔ ان لفظوں سے مسیح پر اہل اسلام یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسیح نے پروردگار کی مرضی کے خلاف کیا۔ کیونکہ اول تو نشہ بازوں کی مجلس میں آئے اور پھر ان کو مے بنا کر دی۔ جو ان کے متوالا پن کو دوبالا کرنے والی تھی۔

یہ اعتراض اس وقت پیش آتا ہے جب انسان اصل پس منظر سے واقف نہ ہو یہودیوں کے ہاں دستور تھا کہ جب ان کے بیاہ شادی وغیرہ ہوتی تھی تو وہ باراتیوں کا اور مہمانوں کا استقبال مے سے کیا کرتے تھے جیسے کہ ہمارے ملک میں اور خاص طور پر پنجاب میں جب کوئی بیاہ شادی ہوتی ہے تو مہمانوں کے تواضع کے لئے لسی یا چھاج یا شربت پیش کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح یہودیوں کے ہاں بھی دستور تھاکہ وہ مے پیش کیا کرتے تھے وہ مے انگور کا رس تھی اور ا س کے سوا کچھ بھی نہیں۔اب ہمارے مسلمان بھائی پر یہ عیاں ہوگیا ہوگا کہ نعوذ بااللہ جناب مسیح کسی ایسی ضیافت میں نہیں گئے تھے جہاں شراب پی جارہی تھی۔بلکہ وہاں پر مے یعنی انگور کا رس پیا جارہا تھا۔ اور جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکیں کہ وہ مے بالکل ایسی ہی تھی جیسے لسی ،چھاج یا شربت وغیرہ۔

نصیحتیں اور مفید اشارے

۱۔حضرت موسیٰ اور مسیح ۔ حضرت موسی ٰ کا پہلا معجزہ یہ تھا کہ انہوں نے پانی سے خون بنایا اور حضرت موسیٰ شریعت کو لائے۔ مسیح نے پانی کی مے بنائی۔ فضل مسیح سے ہے مسیح زندگی کےمالک ہیں و ہ خوشی اور راحت کو اپنے ساتھ لائے۔

۲۔یہ معجزہ جناب مسیح کے کام کی پیشن گوئی ہے ۔ وہ ظاہر کرتا ہےکہ وہ گناہگاروں کو مقدس ، بنی آدم کو فرشتے ۔ زمین کو آسمان اور صحرا کو فردوس بنانے والے ہیں۔

۳۔اس شادی سے دنیا کی خوشی کی بطالت او ربے ثباتی ظاہر ہوتی ہے۔ دنیا کی خوشی کے موقعوں میں محتاجی چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے مزون کے ختم ہوجانے کا غم اس کی خوشیوں میں نہاں ہے۔کیونکہ ایک وقت آتا ہے جب مے ختم ہوچکتی ہے۔

۴۔جب تمام قسم کی خارجی مدد ہماری ضروریات کو رفع کرنے میں قاصر نکلتی ہے تو وہ وقت جناب مسیح کا ہوتا ہے اس وقت وہ ہماری مدد کو آتے ہیں۔

۵۔مناسب ہے کہ ہماری ضیافتیں جناب مسیح کی حضوری سے پاک کی جائیں جس جلسہ میں ہم مسیح کو مدعو نہیں کرسکتے وہ جلسہ قابل اعتراض ہے۔

۶۔جناب مسیح نے اپنی حضوری سے شادی کے رشتہ کی عزت کرتے ہیں۔ جس جماعت اور سوسائٹی میں اس مبارک رشتہ کی عزت نہیں کی جاتی وہ سوسائٹی جلد تباہ ہوجاتی ہے۔ وہ اس رشتہ کے وسیلہ اپنی عجیب محبت کو جو وہ مومنین سے رکھتے ہیں ظاہر کرتے ہیں۔

۷۔ہر ضرورت اور مشکل کے وقت لازم ہے کہ ہم مسیح کے پاس آئیں جس طرح حضرت مریم آئیں۔حضرت مریم کا ایمان غور کے لائق ہے ۔ حالانکہ ان کی درخواست بظاہر قبول نہ ہوئی۔ تاہم وہ مایوس نہیں ہوئی۔ بلکہ ا س نے یقین کیاکہ مسیح اپنے وقت پر میری دعا کا جواب دے گا۔ جس حلم اور فروتنی سے اس نے اس بات کو سہا وہ بھی قابل غور ہے۔

۸۔ مسیح ہماری ہر طرح کی ضرورتوں کو رفع کرنے والے ہیں۔ وہ نہ صرف دکھ میں ہم کو تسلی دیتے ہیں بلکہ ہماری خوشیوں کی کمیوں کو بھی پورا کرتے ہیں ۔ زندگی کی کوئی ضرورت ایسی نہیں خواہ وہ شادی سے علاقہ رکھتی ہو خواہ غمی سے جسے وہ پورا نہیں کرسکتے۔

۹۔ان کی خود انکاری غور طلب ہے ۔وہ اپنے لئے کچھ نہیں کرتے چالیس دن بھوکے رہے ابلیس نے انہیں آزمایا اور کہا کہ آپ پتھر کو روٹی میں تبدیل کیوں نہیں کرلیتے ۔ لیکن ہمارے پانی کو ہر روز مے بناتے رہتے ہیں ۔

۱۰۔ وہ فطرت کی طاقتوں پر غالب اور حاکم ہے۔ پانی کو مے بنانا اسی ( مسیح ) کا کام ہے۔

۱۱۔ لیکن ان کی برکات حاصل کرنے کے لئے فرمانبرداری کی ضرورت ہے۔وہ حکم دیتے ہیں او راپنے حکم کا مطلب جانتے ہیں ۔ نوکر کا صرف یہ ہی کام ہے کہ مالک کے حکم کی تعمیل کرے۔